بادشاہ کا دربار میں وزیروں سے ایک امر کا سوال کرنا، تین وزیروں کا انکار، چوتھے وزیر کا اقرار کرنا
محرر داستان مرکب قلم کو میدان صفحۂ قرطاس پر اس طرح سے جولان کرتا ہے کہ سر زمین ہند میں ایک شہر تھا بارفعت و شان، بہت آباد بہشت نژاد، عمارت پختہ، دکانیں نفیس، چوپڑ کا بازار بے آزار، ہموار سڑکیں صاف بیچ میں نہر، اس میں فواروں سے پانی کا اچھلنا کیفیت دکھاتا تھا۔ دکاندار جوان جوان خوبصورت قرینے سے ہر شے کا انبار اپنے سامنے رکھے دلکش ادائے اور خوش صدائے سے بیچتے تھے۔ غرض کہ کوئی شے ایسی نہ تھی جو اُس بازار میں نہ تھی۔ ہر چیز مہیا، ناز و نعمت کا ڈھیر، جابجا رعایا مرفہ الحال و آسودہ، ہر ایک شخص بے فکر، کسی سے غرض نہ مطلب، شب و روز اپنے گھروں میں رہنا اور بغلیں بجانا۔ انتظام شہر میں ایسا کہ دیکھا نہ سُنا، رات بھر راستہ چلتا، مجال کیا جو کسی کا ایک تنکا تک چوری جاتا۔ شب بھر دروازے گھروں کے بند نہ ہوتے تھے۔ چور اور چکار اپنی قسمت کو بیٹھے روتے تھے، مقدور نہ تھا کہ کسی کے مال و اسباب کو نگاہ بھر کے دیکھیں اور یہ طاقت کسی کی نہ تھی کہ کوئی ظلم و ستم کسی پر کرے۔ شیر و بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے، فرغ البالی سے سب وہاں رہتے تھے۔
والیِ ملک وہاں کا ایک بادشاہ شہنشاہ عالی مقام سلطان بخت نام، کئی سلطان تاجدار اُس کے باج گزار تھے اور تابع فرمان بڑے بڑے ذی شان تھے۔ سخاوت اور شجاعت میں یکتا اور رعب و جلال، عدل و انصاف، داد و دہش میں اپنا ثانی نہ رکھتا تھا۔ خزانہ بسیار، فوج دریا موج ہزار در ہزار بلکہ بے حد و شمار تھی، کچھ شمار نہ تھا۔ ہمیشہ انتظام مالی و ملکی میں مصروف رہتا تھا اور اُس کے چار وزیر نیک تدبیر تھے، جن سے انجام کار بخوبی تمام ہوتا تھااور وہ مشہور بہ وزیر اول، وزیر دوم، وزیر سوم، وزیر چہارم تھے۔ یہ چوتھا وزیر مسمیٰ مسعود علی خان اُن تینوں وزیروں سے عقیل زیادہ تھا، جواب معقول باصواب دیتا تھا، بات سنجیدہ و پسندیدہ کہتا تھا۔ بادشاہ بھی اکثر اسی کی بات کو پسند فرماتے اور کہا مانتے تھے، اَور وزیر اسی سبب اس سے جلتے تھے۔ خصوصاً وزیر اول اس سے زیادہ حسد کرتا تھا۔
ایک روز بادشاہ نے دربار میں وزیروں سے مخاطب ہو کر یہ سوال کیا کہ تم نے کوئی عورت ایسی دیکھی ہے جس میں یہ چار وصف ہوں، شکیلہ جمیلہ ایسی ہو کہ اپنا ثانی نہ رکھتی ہو اور علم موسیقی میں ایسا کمال رکھتی ہو کہ کوئی دوسرا اس کے مقابل جہاں میں نہ ہو اور علم دینی میں قابل ہو یعنی فاضل بلکہ اپنے وقت کی علامہ ہو اور صاحب عصمت ایسی ہو کہ کسی نے اُس کی پرچھائیں نہ دیکھی ہو اور نہ آواز اُس کی کسی نے سُنی ہو۔ یہ بات بادشاہ کی سُن کر وزیر اول نے دست بستہ عرض کی کہ جہاں پناہ! ایسی عورت دید ہے نہ شنید، ہم نے تو کیا کسی نے بھی ایسی عورت نہ دیکھی نہ سنی ہوگی کہ فرد واحد میں یہ چاروں صفتیں ہوں۔ کسی میں ایک صفت ہوگی اور کسی میں دو اور کسی میں تین اور کسی میں ایک بھی نہ ہوگی۔ اگر کوئی خوبصورتی میں یکتا ہوگی تو اس میں فن موسیقی نہ ہوگا اور اگر یہ دونوں وصف ہوئے تو عصمت نہ ہوگی اور اگر صاحب عصمت ہوگی تو اُسے گانے بجانے سے کیا نسبت ہے اور عالم اور فاضل راگ و مزامیر کو کب درست رکھتے ہیں، کیونکہ شرع شریف میں راگ و مزامیر قطعی حرام ہے۔ جناب عالی! یہ چاروں باتیں جو حضور نے فرمائی ہیں، اجتماعِ نقیضین ہیں، ان کا ایک جا مجتمع ہونا غیر ممکن ہے۔ پھر بادشاہ عالیجاہ نے وزیر دوم سے یہی سوال کیا۔ چنانچہ وزیر دوم نے بھی بموجب وزیر اول کے حضور اقدس میں یہی التماس کیا بلکہ وزیر اول سے کچھ زیادہ اصرار کیا۔ پھر ظل سبحانی وزیر سوم کی طرف مخاطب ہوئے اور یہی کلمہ ارشاد فرمایا کہ تم نے کوئی عورت ایسی دیکھی سنی ہو تو عرض کرو۔ وزیر سوم نے عرض کی کہ جہاں پناہ! وزیر اول و وزیر دوم نے جو سرکار عالی میں التماس کیا ہے راست ہے، ذرا جھوٹ نہیں ہے۔ فی زماننا کیا بلکہ متقدمین نے بھی ایسی عورت نہیں دیکھی سُنی ہوگی۔
غرض کہ ایک نے ایک کے کلام کو رونق و جِلا دی اور بہت سے دلیلیں روبرو بادشاہ کے پیش کیں تاکہ یہ بات بادشاہ کے دل سے جاتی رہے، لیکن اُس کے دل سے کب جاتی ہے۔ بعد اس گفتگو کے حضرت عالی وزیر چہارم کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ تم کہو اس باب میں کیا کہتے ہو۔ اگر تم نے ایسی عورت دیکھی یا سُنی ہو تو جلد بیان کرو۔ وزیر چہارم سُن کر خاموش سر در گریبان، آنکھیں نیچی کیے بیٹھا رہا۔ کچھ جواب بادشاہ کے سوال کا نہ دیا۔ بادشاہ اس کے جواب نہ دینے سے آزردہ ہوئے اور فرمایا کہ تو نے کچھ جواب ہماری بات کا نہ دیا اور چُپ ہو رہا، جلد جواب باصواب دے۔ وزیر چہارم نے بادشاہ کی خفگی سے ڈر کر پایۂ تخت کو بوسہ دیا اور بعد دعا اور ثنا کے یوں گویا ہوا کہ اے گردوں بارگاہ! کیا عرض کروں، خاموشی باعث شرم و حیا کی تھی، امیدوار عفو کا ہوں۔ بادشاہ نے کہا کہ بس عبارت ہو چکی، مطلب کہہ۔ وزیر ہاتھ باندھ کر عرض کرنے لگا کہ خداوند نعمت! سنیے، اللہ تعالیٰ نے ایک سے ایک کو فوق دیا ہے، وہ جو چاہے سو کرے۔ اس کے نزدیک کچھ مشکل نہیں کہ فرد واحد میں یہ چاروں صفتیں ہوں۔ آپ تو بشر میں فرماتے ہیں، وہ چاہے تو حیوان مطلق کو ہمہ صفت موصوف کر دے۔ بادشہ نے کہا کہ اللہ جل شانہ کی تو ایسی ہی قدرت ہے جیسی تو بیان کرتا ہے، بلکہ اس سے زیادہ لیکن یہ بتا کہ تو نے کہیں دیکھی ہے یا نہیں۔ وہ نقشہ نہ کر کہ سوال دیگر جواب دیگر۔ وزیر چہارم نے عرض کی کہ حضور اس وقت یہ بات دریافت نہ فرمائیں، تنہائی میں یہ فدوی بے کم و کاست التماس کرے گا۔ مجمع عام ہے، ابھی معاف فرمائیے۔ بادشاہ نے مجوز ہو کر فرمایا کہ ہم تو اسی وقت دریافت کریں گے، بعد استفسارِ حال دربار سے اٹھیں گے۔ یہ مثل مشہور ہے کہ تریا ہٹ، بالک ہٹ، راج ہٹ یہ تینوں ہٹیں ٹالے سے نہیں ٹلتیں۔ یہ انکار کرتا تھا، اُدھر سے اصرار تھا۔ جب وزیر نے دیکھا کہ اب بے کہے گریز نہیں، التماس کیا کہ حضور والا نے جو یہ چاروں باتیں فرمائی ہیں، اکثر مستوراتوں میں سننے میں آئی ہیں۔ چنانچہ اس خانہ زاد موروثی کی جو بی بی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی ذات میں یہ چاروں وصف عطا فرمائے ہیں۔
یہ بیان کر کے خاموش ہو رہا لیکن اس بیان سے بادشاہ کی سیری نہ ہوئی۔ پھر فرمایا کہ مفصل اس مجمل کو بیان کر تاکہ یقین کلی ہو، ورنہ دعویٰ تیرا بے جا ہے۔ وزیر دریائے حیرت میں غرق ہوا اور دل میں اپنے خیال کیا کہ اب تو دعویٰ بے جا میری زبان سے نکلا، اگر مفصل نہیں کہتا تو بادشاہ نہیں مانتا اور جو کہتا ہوں تو پاسِ حیا مانع تفصیل ہے۔ ناچار نگاہ غضب بادشاہ کی دیکھ کر خوف جان سے اس طرح زبان پر لایا کہ پیر و مرشد وہ کنیز خانہ زاد صورت میں تو ایسی حسین اور زہرہ جبین ہے اور وہ حُسنِ خداداد ہے کہ اُس کا ہمسر از قسم جن و بشر پیدا نہیں۔ حور و پری اُس کے مقابل ہوں تو سکتہ ہو، رعبِ حُسن سے منہ سے نہ بات نکلے، ششدر و حیران ہو کر اُسی کے منہ کو تکتی رہیں۔ بدر کامل اس سے شرمندہ ہے۔ آسمان کا تارا یا چودھویں رات کا چاند ہے، بلکہ اُس کے چہرہ کی چمک کے آگے وہ بھی ماندہے۔ میری زبان میں طاقت اور دہان میں طلاقت ایسی نہیں جو شمہ خوبی شکل و شمائل اُس ماہ پیکر سراسر نور انور کی بیان کر سکوں۔ بشر تو کیا ہے، باوجودیکہ فلک عینک مہر و ماہ کی شب و روز لگائے چکر کرتا پھرتا ہے، اُس نے بھی تو ایسی صورت دلچسپ نہ دیکھی ہوگی، اور حالانکہ قلم دو زبان رکھتا ہے مگر کیا مجال ہے جو ذرا تعریف اُس کے حُسن کی لکھ سکے، احاطہ تحریر و تقریر سے خوبی شکل و شمائل اُس کی مبرا ہے۔ اور علمیت کا یہ حال ہے، ادنیٰ سی صفت فضیلت کی بیان ہوتی ہے کہ جو زمانہ میں بڑے بڑے عالم و فاضل ہیں، اُن کی یہ مجال نہیں جو کسی علم میں اُس سے بحث کر سکیں۔ ایک سوال میں سب کا ناطقہ بند ہوتا ہے، تمام کتابیں منطق و نحو و صرف وغیرہ ازبر یاد ہیں۔ ماورا اِن علموں کے طب و نجوم و ریاضی و سیاق و قرآن شریف مع ہفت قرأت خوب یاد ہے، غرض ہر علم میں استاد ہے۔
اور عصمت و عفت کا یہ حال ہے کہ ایام طفولیت میں میرے ساتھ عقد ہوا تھا، اُس دن سے آج تک اپنے والدین کے گھر نہیں گئی اور جو اُس کے بھائی حقیقی میرے یہاں آئے تو اُس نے اُن سے بھی پردہ کیا، سامنے نہیں ہوئی؛ سوائے اطاعت اور خوشنودی میری کے کچھ اُس کو کام نہیں۔ اور علم موسیقی کا کیا حال بیان کروں، ذرا سی صفت یہ ہے کہ اگر اُس کے سامنے تان سین بھی ہوتے اور آواز گانے کی سنتے تو اپنی تان بھول جاتے، کان پکڑتے؛ اور جو بجو باورا ہوتا تو وہ بھی اُس کی آواز گانے بجانے کی سُن کر باولا ہو جاتا کبھی گانے کا نام نہ لیتا۔ کہاں تک تعریف کروں، ہمہ صفت موصوف ہے۔ خصوصاً جو حضور اقدس نے یہ چاروں باتیں تخصیص کی ہیں، اُن میں ایسی یکتائے زمانہ ہے، بلکہ اپنے وقت کی ہر فن میں یگانہ ہے۔
یہ کہہ کر وزیر نیک تدبیر چپ ہو رہا اور بادشاہ بھی وزیر چہارم کا جواب باصواب معقول سُن کر خاموش ہوا۔ لیکن وزیر اول بڑا حاسد تھا اور وزیر چہارم سے بسبب دانائی اُس کی کے بغض اور عداوت قلبی رکھتا تھا۔ یہ گفتگو جو بادشاہ کے سامنے وزیر چہارم سے سُنی، اور بھی جل گیا اور کمال ناراض ہو کر اپنے جی میں حسد کی راہ سے کہنے لگا کہ دیکھ تو اس کا بدلہ میں تجھ سے کیسا لیتا ہوں۔ تو نے ہم سب کو بادشاہ کے روبرو ذلیل تو کیا ہے سمجھا جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ یہ بات اپنے دل میں ٹھہرا چُپ ہو کر وقت کا منتظر رہا۔