احقر العباد سراپا قصور گنہگار سیہ کار امیدوار مغفرت غفار حافظ محمد امیر الدین متخلص بہ معنی بن حافظ غلام نظام الدین دہلوی غفر اللہ لنا کہتا ہے کہ دہلی میں ایک بزرگ ہمارے ہیں اور والد ماجد سے بہت محبت قلبی اور اتحا دلی رکھتے ہیں کبھی زمانۂ سابق میں یہ حکایت جو اس اجزا میں درج ہے، زبانی والد ماجد کی سُنی تھی۔ اُس کو عرصہ دراز ہوا، فی الحال جناب موصوف نے کہ شہرۂ خلق و مروت و حلم و اشفاق والطاف اُن کے کا از شرق تا غرب ہے، بہت عالی خاندان معتمد بارگاہ سلطانی پشت ہا پشت سے قلعۂ مبارک سے تعلق رہا اور دربار میں باعزت و توقیر حاضر رہتے، خطاب اور خلعت سے اکثر سرفراز ہوتے۔ چنانچہ آخر زمانہ تک برابر وہی رسوخ حاصل رہا اور فی زماننا بھی عنایت ایزدی سے حاکم وقت سے ایسی رسائی ہے کہ کسی کی بھی نہ ہوگی، جو خطاب بادشاہی ہے مجھ بسبب سہو کے یاد نہیں رہا لیکن دہلی میں کیا تمام ملکوں میں اور قلمرو انگریزی میں بخطاب نواب نبی بخش خان صاحب دور دور مشہور ہیں۔ سبحان اللہ ایسے وضع دار، عالی حوصلہ، سخاوت اور شجاعت میں یکتا، طبع حلیم، رائے سلیم، ہمت و جرأت میں لاثانی، ہمہ صفت موصوف اللہ تعالیٰ نے اُن کی ذات بابرکات میں جمیع اوصاف مجتمع کیے ہیں زاد اللہ قدرہ و منزلتہ ماہ محرم الحرام 1287 ہجری نبوی میں ایک خط اس مضمون کا بھیجا کہ زمانۂ سابق میں مَیں نے ایک حکایت عجیب آپ کی زبانی سُنی تھی، اگر اب آپ کو یاد ہو تو از راہ محبت دیرینہ کے نقل کرا کے بھجوا دیجیے۔ حالانکہ طبیعت جناب قبلہ و کعبہ والد ماجد کی عرصۂ دو ماہ سے عارضہ بخار وغیرہ سے علیل تھی لیکن بسبب لکھنے جناب عموی صاحب کے کہ سررشتۂ برادری کے سوا سررشتۂ محبت بھی رکھتے تھے، اُس حالت میں بھی لکھنا جناب موصوف کا بہت غنیمت سمجھ کر اس کمترین سے فرمایا کہ تو دوات و قلم لے کر میرے پاس بیٹھ۔ میں جو زبانی کہتا جاؤں، تو اُس کو لکھتا جا۔ فدوی نے بسبب محروم ہونے نوشت و خواند کے چند در چند عذر کیے کیونکہ اس عاصی کو لکھنے پڑھنے سے بہرہ نہیں اور اس نعمت عظمیٰ سے اپنی سیہ بختی کے سبب محروم ہے لیکن بسبب مُصِر ہونے جناب حضرت قبلہ گاہی صاحب کے الاَمرُ فَوقَ الاَدَب سمجھ کر دل میں اپنے خیال کیا کہ اگر تو بموجب ارشاد حضرت والد ماجد کے لکھے تو تیرا یہ سحر کلام یادگار رہے۔ یہ تصور کر کے بتاریخ یکم ماہ محرم الحرام یوم یکشنبہ 1287ھ نبوی کو بموجب ارشاد حضرت موصوف کے اس طرح سے لکھنا شروع کیا اور نام اس داستان کا قصہ مقتول جفا اور تاریخی نام فسانۂ غم آمود رکھا۔ اس سے پہلے ارباب دانش و بینش کی خدمت میں التماس ہے کہ بخدائے لایزال یہ عاجز بالکل اجہل مطلق اور پڑھنے لکھنے سے عاجز کچھ تمیز نہیں ہے لیکن بسبب فیض برکت و تاثیر صحبت حضرت جناب استاد جی صاحب کے قدرے شُد بُد اُردو میں ہو گئی ہے۔ اس کا بھی یہ حال ہے کہ خود غلط املا غلط انشا غلط لکھے تو کیا لکھے۔ دوسرے بقول کسی استاد کے الانسان مرکب من الخطاء والنسیان اگر کسی جا کوئی محاورہ خلاف روزمرہ کے ہو تو للہ عیب پوشی کو کام فرماویں اور بموجب قول سعدی علیہ الرحمہ کے کاربدبند ہوں۔ شعر :
تو نیز ار بدی بینی اندر سخن
بہ خلق جہان آفرین کارکن
اور بنظر اصلاح ملاحظہ کر کے باذوق درست کر دیں۔