اَلحَمدُ لِلہِ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجاً وَجَعَلَ فِیهَا سِرَاجاً وَقَمَراً مُنِیراً
نظم :
حمد بے حد اُس خدائے پاک کو
کر دکھایا جس نے خلق افلاک کو
اور وہ پیدا کیے اس میں بروج
پا نہیں سکتی خرد جن کا عروج
مہر و مہ کو کر دیے جلوے عطا
منحصر جن پر ہوئے صبح و مسا
اور سوائے اِن کے کیا کیا چیزیں نادر بنائیں کہ جس کی صنعت کی باریکیاں کسی نے نہ پائیں اور اگر غور کر کے دیکھو تو کون سی شے بیکار ہے، جس شے کو سب لوگ بُرا کہتے ہیں اُس سے وہ باتیں ظہور میں آتی ہیں کہ بیان سے باہر ہیں، جیسے کہ فرقہ مستورات کا ہے کہ سب اُس کو بُرا کہتے ہیں اور موم کی ناک جانتے ہیں کہ جدھر پھیرا پھر گئی، ذرا دم دیا وہ فقرہ میں گھر گئی؛ اللہ جل شانہ کی وہ شان ہے کہ اُس میں وہ باتیں پختہ مزاجی کی پائی جاتی ہیں کہ بڑے بڑے مرد عالی حوصلہ اُ ن کی جستجو میں چکرا جاتے ہیں۔ غرض کہ جناب باری نے جو شے بنائی ہے ایسی ہی لاثانی بنائی ہے۔ اگر نظر وحدت سے دیکھو تو وہ ہی ہر شے میں موجود ہے۔ بقول میر حسن دہلوی، بیت:
نہیں اس سے خالی غرض کوئی شے
وہ کچھ شے نہیں پر ہر ایک شے میں ہے
لیکن آنکھیں بینا چاہیے ہیں؛ ہماری آنکھیں اندھی ہیں، ہم کیا دیکھیں گے۔ پس انسان کو لازم ہے کہ جو بات سمجھ میں نہ آوے، دم نہ مارے، خاموش ہو رہے۔
نعت سرور کائنات، خلاصۂ موجودات، فخر اولین، ختم المرسلین، محبوب رب العالمین حضرت احمد مجتبےٰ محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ و اہل بیتہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، میر شمس الدین فقیر نے آپ کی شان مبارک میں کیا خوب رباعی کہی ہے۔ رباعی:
پیش از ہمہ شاہان غیور آمدہ
ہر چند کہ آخر بظہور آمدہ
اے ختم رسل قرب تو معلومم شد
دیر آمدہ ز راہ دور آمدہ
اور شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے جو قطعہ آپ کی شان مبارک میں کہا ہے وہ مقبول کبریا ہے اور پسند خواجۂ ہر دوسرا ہے۔ اُس قطعہ کو بھی واسطے برکت کلام کے تحریر کیا ہے اور خوشنودیِ آنحضرت بھی اُس سے واضح ہے۔ قطعہ :
بلغ العلی بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ و آلہ
اور اس بیت سے اوصاف رسالت مآب صاف منکشف ہیں، جو سب پیغمبروں میں خوبیاں مجتمع تھیں وہ اکیلی آپ کی ذات بابرکات میں تھیں۔ بیت:
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
اور یہ رباعی جناب استاد جی صاحب قبلہ متخلص بہ قلقؔ نے تصنیف فرمائی ہے کہ اکثر صاحبوں کو پسند آئی ہے۔ لہذا وہ بھی لکھنے میں آئی۔ رباعی :
اے ختم رسل! تیری ثنائے بارز
کیونکر کروں میں جگر فگار عاجز
حق تو یہی ہے کہ کوئی محبوب خدا
تجھ سا نہ ہوا نہ ہے نہ ہوگا ہرگز
منقبت اصحاب کبار بزرگوار جن کے باعث آج تک دین محمدی میں رونق ہے اور قیامت تک برابر روشنی دین پیغمبر آخر الزمان میں رہے گی۔ بیت :
چراغ و مسجد و محراب و منبر
ابوبکر و عمر عثمان و حیدر
اللہ تعالیٰ نے اُن کی تعریف قرآن شریف میں جابجا فرمائی ہے۔ چنانچہ سورۂ توبہ میں جناب باری نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان میں یہ آیت فرمائی ہے: “ثَانِيَ اثْنَــيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا” اور سب اصحابوں کی تعریف سورۂ فتحنا میں صاف ہویدا ہے، محمد رسول اللہ سے آخر سورہ تک موجود ہے۔ جس کی صفت و ثنا اللہ جل شانہ خود فرمائے، دوسرے کی کیا اصل ہے جو زبان ہلائے۔ آفتاب و مہتاب ہیں کہ جن کی روشنی قیامت تک رہے گی۔ بارک اللہ لنا ولکم اجمعین۔ نظم :
اصحاب رسول پر تحیات و سلام
بے شبہ ہیں جو اصل فروع اسلام
اور آل یہ اس کی ہو جیو رحمت حق
جن سے ہوا کشور ہدایت کا نظام