ذولقرنین کی رات آنکھوں میں کٹی تھی ۔ساری رات وہ ایک ہی سوچ اپنے ذہن کے پردوں پے رقم کرتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " ندا صرف اور صرف ذولقرنین جمال کی ہے اور کسی کی نہیں " ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگلی صبح اسکی آنکھ فون کی بیل پر کھلی ۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھا اور کال پک کی ۔ دوسری طرف سے ضیاء کی آواز گونجی ۔ " کیسے ہو ذولقرنین جمال ؟ " ۔ اسکے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ لمحے بھر کے لیۓ ذولقرنین چونکا ۔ پھر بولا :" میں ٹھیک ہوں ضیاء صدیقی ! جب تک تمہیں اس جنگ میں ہرا نا دوں تب تک میں ٹھیک رہوں گا ۔"
ضیاء ایک دم ہنسا :" ہا ہا ہا ! ذولقرنین جمال اتنا یقین ؟ اور اگر میں کہوں کہ اس وقت میرے پاس کچھ ایسا ہے جس کو تم پانے کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو ! اور وہی چیز تمہیں ہرا بھی سکتی ہے اور جتا بھی سکتی ہے تو کیا کرو گے تم ہاں ! بولو!"
ذولقرنین کے دل میں ایک انجانا سا خوف اپنی جگہ بنانے لگا ۔ مگر اپنے خوف پر قابو پاتے ہوۓ بولا : " ضیاء ! تو تمہیں اندازہ بھی نہیں کے ذولقرنین جمال اپنی چیز چھین لیا کرتا ہے ! " اور ساتھ ہی کال کاٹ دی ۔"ندا ندا ندا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کیا کر ڈالا تم نے ؟ کیوں بھاگی تم ! بیوقوف ! خود ہی مصیبت کی جانب قدم بڑھا گئی ہو لڑکی!" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "مرزا !!!!!! " ذولقرنین پوری قوت سے چلایا ۔ مرزا بھاگتا ہوا اندر آیا ۔" جی ! جی باس !"۔
"مرزا ! تیاری کرو آج ضیاء صدیقی کو اسکی اوقات بتانی ہے ! " ۔ اور خود اٹھ کر ڈریسنگ روم میں چلا گیا ۔ مرزا فورا باہر کی جانب بھاگا ۔
__________________________________
ندا ضیاء کے اصرار پر اسے سب کچھ بتا چکی تھی ۔ ضیاء نے اسے سمجھایا کے وہ اسکی مدد کرے گا اور کسی کو اسے نقصان نہیں پہنچانے دیگا ۔ اور ندا اس پر اعتبار کر کے غلطی کر رہی تھی اور یہ بات وہ خود بھی نا سمجھ پائی تھی ۔ ضیاء نے اس سے بات کر کے ذولقرنین کو کال کی تھی اور باتوں ہی باتوں میں اس نے ذولقرنین کے کان میں یہ بات ڈال دی تھی کہ ندا اس کے پاس ہے ۔
ضیاء بیٹھا آگے کا پلان ترتیب دے رہا تھا کہ اس کے آدمی نے اسے ذولقرنین کے آنے کی اطلاع دی ۔ اسنے اپنی سوچوں کو بریک لگایا اور کھڑا ہوا ۔ ذولقرنین کے قریب پہنچھنے پر ضیاء نے سلام کے لیۓ ہاتھ آگے کیا مگر ذولقرنین نے اسکا ہاتھ تھامنے کے بجائے اسکا گریبان پکڑا ۔اور کہا :" ضیاء صدیقی ! مجھے بھول گئے کیا ؟ہممم!"
ضیاء نے ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑوایا ۔"ذولقرنین ! حد میں رہ کر بات کرو سمجھے ! "۔ اور اپنا کالر درست کیا ۔ ذولقرنین مٹھیاں بھینچ کر ایک قدم پیچھے ہوا ۔ "بتاؤ کہاں ہے ندا ! " ۔ ذولقرنین کی آنکھوں کی سرخی بڑھی ۔ ضیاء بولا :"آرام سے ذولقرنین ! شور مت کرو ! وہ بلکل ٹھیک ہے ،البتہ تمہارے ساتھ نہیں جانا چاہئے گی ! "
"تم بلاؤ اسے میں اس سے پوچھوں گا !" ۔ ذولقرنین ضبط سے بولا ۔
ضیاء نے اپنے آدمی کو بھیجا ندا کو بلانے کے لیۓ ۔ کچھ لمحوں بعد ندا اسے آتی ہوئی نظر آی ۔ ذولقرنین بیتابی سے اس کی طرف بڑھا ۔ اور اس کے قریب آکے اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھاما ۔ ضیاء نے بہت غور سے سب دیکھا اور اس کے ذہن نے بہت تیزی سے اگلا جال بنا ۔ ذولقرنین بولا :" ندا ! ندا تم تم ٹھیک تو ہو نا ! اس شخص نے کچھ کیا تو نہی ہے تمہیں ! " ۔ ندا نے خوف سے اسے دیکھا اور اسکے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹآئے ، " میں ٹھیک . ۔ ۔ ٹھیک ہوں ! جائیں ذولقرنین صاحب یہاں سے ! ضیاء بھائی اس کو بھیجو ! مجھے ڈر لگ رہا ہے اس سے ! "۔ ندا نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا ۔ ذولقرنین کی بس ہوئی ۔اس نے ندا کو دونوں کہنیوں سے پکڑا اور اپنے مقابل کیا ۔ انگار نظروں سے اسے گھورتے ہوئے کہا :" کیا کہا تم نے ؟ مجھ سے ڈر لگ رہا ہے ! ہے نا ؟ تم جس پر بھروسہ کر رہی ہو نا وہ بھی میری طرح کا ہے ! لوگوں کو لوٹنے والا ! انکو قتل کرنے والا ! اس سےمدد مانگ رہی ہو تم ؟ جواب دو ! " ۔ اس سے پہلے ندا کچھ کہتی ضیاء ان کی طرف بڑھا اور ندا کو چھڑوایا ،" بس بہت ہو گیا !جاؤ یہاں سے ! میں نے کہا تھا نا کے یہ تمہارے ساتھ نہیں جانا چاہتی ! مگر ذولقرنین جمال کو ایک باری میں کوئی بات کیسے سمجھ آتی ہے ! " ۔ ذولقرنین نے آگے بڑھ کر ضیاء کے منہ پر مکا جڑا اور بولا :" ندا صرف اور صرف ذولقرنین جمال کی ہے ! اسکا عشق ہے ! اور ذولقرنین جمال اپنا عشق کسی کو نہیں دے سکتا ! بھیک میں بھی نہیں ! " ۔ اور مڑا ۔ ندا کے سامنے آکے کھڑا ہوا :"تو بتاؤ عزت سے چلو گی میرے ساتھ یا میں اپنے طریقے سے لے کر چلوں ! " ۔ندا ہمت کر کے بولی :" میں میں نے کہہ دیا ہے کہ ۔ ۔ کہ میں نہیں ج جاؤں گی آپ کے ساتھ ۔ " ذولقرنین نے وحشی انداز میں اس کی کلائی پکڑی اور تقریبا گھسیٹتے ہوئے اسے اپنے ساتھ لے کر باہر کی جانب قدم بڑھائے ۔ ضیاء نے ذولقرنین کا رستہ روکا ۔ " میں تمہیں یوں اس لڑکی کو نہیں لے کر جانے دے سکتا ! سمجھے ذولقرنین جمال ! " ۔ ذولقرنین نے ندا کی کلائی چھوڑی اور جارحانہ انداز میں ضیاء کی طرف بڑھا ۔ اور ایک کے بعد ایک مکا اس کے چہرے کی نظر کیا ۔ اسکا وحشی پن دیکھ کر ندا مزید ڈر گئی ۔ اور چہرے پر ہاتھ رکھ دیئے ۔ مرزا نے آگے بڑھ کر ذولقرنین کو قابو کیا اور بولا :"بس باس ! عقل ٹھکانے آ گی ہوگی اسکی " ۔ ذولقرنین نے ندا کی طرف دیکھا جو ابھی بھی چہرہ ہاتھوں میں چھپائے کھڑی تھی ۔ ذولقرنین نے آگے بڑھ کر اسی بیدردی سے اسکی کلائی تھامی اور اپنے ساتھ اس گودام سے باہر نکل گیا ۔ ضیاء نے اسکی پشت کو دیکھا اور خودکلامی کی :" ذولقرنین جمال ! ایسے نہیں جیت سکتے تم ! میں تمھیں اس بار جیتنے نہیں دوں گا ! یہ میرا وعدہ ہے ! " ۔ اور رومال سے چہرے پر موجود خون صاف کیا ۔
ندا نے اپنی کلائی چھڑوانی چاہی ۔ ذولقرنین نے اسے کھینچ کر اپنے سامنے کیا :"جو کر چکی تم وہ کافی ہے ! میں نے دیکھ لیا ! اب جو میں کروں گا وہ تم بھی دیکھو گی اور زمانہ بھی ! " ۔ ندا کے آنسوں آنکھوں کی باڑ توڑ کر باہر آئے ۔ "جانے دیں نا ! آپ کو رب دا واسطہ ! "۔
ذولقرنین نے اسکی کلائی پر دباؤ مزید بڑھایا :" ہرگز نہیں ! " اور اسے لیۓ گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔
__________________________________
بانو نوراں کے ساتھ اسکے کواٹر میں موجود تھی ۔ نوراں کا رو رو کر برا حال تھا ۔ بانو چپ کروا کروا کے تھک گیئ تھی ۔ "خالہ بس کر دے ! کتنا روے گی ! طبیعت بگڑ جائے گی ! انشاللہ خیریت سے ہوگی ہماری ندا ! تو پریشان نا ہو ! بڑے صاحب پتا لگوا لیں گے ! " ۔
نوراں بولی :" کیسے فکر نا کروں بانو ! دو دن ہونے کو آئے اسکی کوئی خیر خبر نہیں ! وہ ہی تو تھی میری اس دنیا میں ،اور میں اسکی ! نجانے کھانا کھایا ہوگا بھی یا نہیں ! ٹھیک سے سوئی بھی ہوگی یا نہیں ! " ۔ بانو نے اپنی آنکھ کا بهییگا کنارہ صاف کیا ۔
__________________________________
ملازم نے آکر سیٹھ عبدل کریم کو اطلاع دی کہ ایس ۔ پی صاحب آئے ہیں تو وہ اٹھ کر لاؤنج میں گیے جہاں ایس ۔ پی خالد سیٹھ عبدل کریم کا انتظار کر رہے تھے ۔ سیٹھ عبدل کریم نے آگے بڑھ کر انسے ہاتھ ملایا اور بیٹھے ۔ " کچھ پتا چلا ایس ۔ پی صاحب !" سیٹھ عبدل کریم نے بات کا آغاز کیا ۔ ایس ۔ پی خالد نے نفی میں سر ہلایا : " کچھ بھی نہیں پتا چلا سیٹھ صاحب ! "۔
سیٹھ عبدل کریم نے سرد آہ بھری :" میں نے آپ کو غالبا کہا تھا کہ یہ کام ذولقرنین جمال کے علاوہ کسی کا نہیں ہے ۔ تو آپ کیوں نہیں اسکے خلاف پرچہ کاٹ رہے؟"
ایس ۔ پی خالد بولے :" معذرت کے ساتھ سیٹھ صاحب ! کون اتنا پاگل ہو گا کہ شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالے ! ہم لوگ اس کو کچھ نہیں کہہ سکتے ! " ۔
سیٹھ عبدل کریم نے بے یقینی سے ایس ۔ پی خالد کی طرف دیکھا اور بولے :" ٹھیک ہے ایس ۔ پی صاحب آپ جا سکتے ہیں ! " ۔ ایس ۔ پی خالد اٹھے اور باہر کی جانب چل پڑے ۔
__________________________________
ذولقرنین کی گاڑی گھر میں داخل ہوئی ۔ اور ذولقرنین اسی طرح ندا کو اپنے ساتھ کھینچتا ہوا اندر کی جانب بڑھا ۔ ایک کمرے کا دروازہ کھولا اور ندا کو اندر کی جانب دھکیلا ،اور دروازہ بند کر کے اس کے قریب آیا ۔ ندا دو قدم پیچھے کو ہوئی ۔ اسکی شال سر سے ڈھلک کر کندھوں پے آ گیئ ۔ اسکی گردن میں ایک کالا دھاگا تھا جو اس کی گردن کے ساتھ چپکا ہوا تھا اور اس میں ایک چھوٹی سی تتلی پروئی ہوئی تھی ۔ جس کے ایک پر میں چھوٹا سا کالا موتی جگمگا رہا تھا ۔ ذولقرنین نے پہلی دفعہ ندا کو یوں دیکھا ،جو قلب پہلے ہی بغاوت پر اترا ہوا تھا مزید بے چین ہوا ۔ مگر ذولقرنین جمال کا خود پر بہت زور تھا ۔ اسنے ایک خفت بھری نگاہ ندا پر ڈالی جو سر جھکائے کھڑی تھی اور کمرے کو باہر سے بند کر کے چلا گیا ۔ اس کے جانے کے بعد ندا زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔ اور گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی ۔ ۔ ۔ __________________________________
ذولقرنین اپنے کمرے میں آیا تو دروازہ بند کیا ۔ سائیڈ ٹیبل سے پانی کا گلاس اٹھا کر پوری قوت سے زمیں بوس کیا ۔ " ہمت کیسے ہوئی ذولقرنین جمال کو انکار کرنے کی ! " ۔ میرے ساتھ آتے ہوئے موت پڑتی ہے اور دو دن میرے سب سے بڑے حریف کے ساتھ رہ کر خود کو محفوظ سمجھتی ہے ! اس کی عقل تو میں ٹھکانے لگاؤں گا ! " ۔ اور باہر کی طرف چل دیا ۔
__________________________________