ذولقرنین کو آئے بیس منٹ سے زیادہ ہو چکے تھے اور وہ اس طرح سکون سے بیٹھا تھا جیسے اپنا ہی گھر ہو۔ اسنے صالحہ بیگم کو پکارا:" تو مسز عبدل کریم ! کھانا نہیں کھلایں گی ۔۔مہمان ہوں آخر !"۔صالحہ بیگم نے خوفزدہ نگاہوں سے اسے دیکھا اور بولیں : "جی ابببھی لگگواتی ہوں " ۔ اور کچن کی طرف بڑھیں ۔ "بانو ! ندا ! چلو جلدی سے کھانا لگاو " ۔ "کیا صاحب آگیے ہیں بیگم صاحبہ ؟" بانو نے دریافت کیا ۔ "نہیں! جتنا کہا ہے اتنا کرو جلدی ! " صالحہ بیگم نے غصے سے کہا ۔ دونوں جی اچھا کہتی کام میں لگ گئیں ۔ صالحہ بیگم نے کھانا لگ جانے کے بعد ذولقرنین کو کھانے کی میز پر بلایا ۔ وہ ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ ہال سے شور کی آواز آئ تو اٹھ کے ہال میں گیا ۔ سیٹھ عبدل کریم کو وہاں موجود دیکھ کر اسکی طرف بڑھا ۔ ندا اور بانو بھی شور سن کر کچن سے نکل آئیں اور اسلحے سے لیس لوگوں کو دیکھ کر انکی جان ہوا ہونے لگی دونوں ایک کونے میں ہاتھ تھامے کھڑی ہوگیں ۔ ذولقرنین نے سیٹھ عبدل کریم کے کندھوں سے نادیدہ گرد جھاڑی ۔" ہلکا لے رکھا تھا مجھے سیٹھ صاحب ! پیسے دے دیتے تو میں گھر نا آتا تمہارے ! تو چلو جلدی سے میری رقم نکالو جو میں نے کہی تھی دینے کو !" ذولقرنین نے شیریں لہجے میں کہا ۔ سیٹھ عبدل کریم کے چہرے کی اڑی ہوئی رنگت کسی کی نظروں سے مخفی نہیں تھی ۔ "دددیکھو تتتتتتت تم میرے ساتھ یوں نننا کرو ! " ، سیٹھ عبدل کریم نے خوف سے چور لہجے میں کہا ۔ ذولقرنین نے اپنی جیب سے پستول نکالی اور کھول کے اس میں گولیاں چیک کی ۔ " دددیکھو ذولقرنین! تتم ابھی ججاو یھاں سے ! "سیٹھ عبدل کریم نے اسکے سامنے ہاتھ جوڑے ۔ ذولقرنین نے سیٹھ عبدل کریم کے ماتھے پر پستول رکھا اور لوڈ کیا " تو جان عزیز نہیں ہممم ! دو کروڑ زیادہ عزیز ہیں! تمہارے لیے یہ دو کروڑ کیا ہیں ! یہ تو معمولی سی رقم ہے !سہی کہا نا میں نے !" اسنے سیٹھ عبدل کریم سے پوچھا ۔" دددیکھو تم کسی اور سسے لے لو نا مممم مجھے اور میرے گھر والوں کو چھوڑ دو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں !"، سیٹھ عبدل کریم نے التجا کی ۔ ندا نے خوفزدہ نظروں سے پستول کو دیکھا جو سیٹھ عبدل کریم کے ماتھے پر رکھی ہوئی تھی ۔" دیکھیں آ آپ پپلیز چھوڑ دیں نا صاحب کو ۔ آپ کو ڈر نہیں لگتا رب سے !" ایک کپکپاتی ہوئی آواز ذولقرنین کے کانوں میں پڑی ۔ اسنے لمحے کے ہزارویں حصے میں پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ ایک لحظے کے لیے دونوں کی نظریں ملیں مگر اگلے ہی پل ندا کی نظریں جھکیں ۔ اسکی سیاہ آنکھوں میں خوف کی رمق وہ ایک فاصلے سے بھی دیکھ سکتا تھا ۔ اسنے عام کاٹن کے کالے کپڑے پہن رکھے تھے اور لال رنگ کا دوپٹہ صحیح سے اوڑھ رکھا تھا ۔ بلاشبہ وہ سادگی میں بھی پیاری لگ رہی تھی ۔ ذولقرنین نے اپنا سر جھٹکا اور دو قدم چل کے اس کے قریب آیا اور پستول کا رخ اسکی طرف کیا "تو تم اپنی جان دے دو اپنے مالک کی جان کے بدلے ہممممم!" ندا کی سانس گلے میں اٹک گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور آہستہ سے اپنی نظریں بلند کیں اور ساتھ ہی بانو کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ سے دباؤ بڑھایا ۔ " آپ ککون ہوتے ہیں جان لینے اور دینے والے ! وہ ذات تو اوپر موجود ہے !" ندا نے ہمت کر کے بولا ۔ آج تک کسی کی جرات نہیں ہوئی تھی ذولقرنین کو جواب دینے کی اور یہ لڑکی !!!!!! ۔ ذولقرنین نے پستول والا ہاتھ نیچے کیا اور دوسرے ہاتھ سے ندا کا چہرہ بیدردی سے دبوچا ۔" ہمت نہیں ہوئی آج تک کسی کی ذولقرنین جمال کو جواب دینے کی اور تم ! " ۔ ذولقرنین اسکی سیاہ آنکھوں میں جھانک کر دھاڑا ۔ سیاہ شیشوں پے موجود نمکین پانی کی بیتاب لہروں نے مقابل کے بھورے شیشوں میں اپنا عکس رقم کیا ۔ یھاں سے شروع ہوتا ہے قصہ ایک عشق کا ! ایک انچاہے عشق کا ! جو کبھی بھی کسی کو اپنا اسیر کر دیتا ہے ! مگر طلسم ٹوٹا اور ذولقرنین نے اسکا چہرہ زور سے جھٹکا ۔ اور سیٹھ عبدل کریم کی طرف تنبیہی نظروں سے دیکھا ۔ "چوبیس گھنٹے سیٹھ ! صرف اور صرف چوبیس گھنٹے ! مجھے میرے دو کروڑ چاہئیں ! " اور باہر کی طرف چل دیا ۔ مرزا سمیت اسکے آدمی بھی باہر کی جانب چل دیئے ۔ صالحہ بیگم فورا سیٹھ عبدل کریم کی طرف بڑھیں اور انکو کمرے کی طرف لے کر چل پڑیں ۔ بانو نے ندا کی طرف دیکھا جس کے آنسوں اب متواتر بہہ رہے تھے ۔ اور چہرے پے ظالم کی انگلیوں کی چھاپ موجود تھی ۔ بانو نے اپنے آنسوں اندر اتارے اور ندا کو پکارا : "ندا چل ! چل آجا کچن میں کافی کام باقی ہے ! " اور اسے اپنے ساتھ پکڑ کر لے گیئ ۔
__________________________________
ذولقرنین جب سے واپس آیا تھا اپنے گھر تب سے ایک بے چین کیفیت نے اسکو جکڑ رکھا تھا ۔" مرزا ! کوئی مجھے اب ڈسٹرب نا کرے سمجھے ؟ " ۔ اسنے مرزا کو کہا ۔ " جی باس آپ بےفکر رہیں ! " مرزا نے جواب دیا ۔ ذولقرنین کمرے میں گیا اور دروازہ بند کر کے بیڈ پے سیدھا لیٹ گیا ۔ اور آنکھیں بند کیں ۔ آنسوں سے لبریز سیاہ آنکھیں اس کو یاد آئیں ۔ اسنے فورا آنکھیں کھولیں ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں یہ یہ کیا ہو رہا ہے مجھے !کیوں اس لڑکی کا خیال دل و دماغ سے جا نہیں رہا !کیوں وہ ذولقرنین جمال کے خیالات پر حاوی ہورہی ہے ! ذولقرنین سیدھا اٹھ کے بیٹھا اور اپنے بال جکڑے ۔ ذولقرنین پھر اٹھا اور کمرے سے باہر آیا ، مرزا بھی اس کے پیچھے بھاگا اور نیچے انڈر گراؤنڈ موجود کمرے میں گیا اور پنچگ بیگ پے بغیر کسی وقفے کے مکے برسانا شروع کر دئے ۔( دیکھیں آ آپ پپلیز چھوڑ دیں نا صاحب کو ۔ آپ کو ڈر نہیں لگتا رب سے ) . ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک آواز گونجی ، (آپ ککون ہوتے ہیں جان لینے اور دینے والے ! وہ ذات تو اوپر موجود ہے) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جنونی انداز میں اپنا عمل جاری رکھے ہوئے تھا ۔ کہ مرزا اندر داخل ہوا ۔ " باس ! " مرزا نے اسے پکارا، " باس ! سیٹھ عبدل کریم پیسے دینے پے راضی ہو گیا ہے !" ۔ ذولقرنین کے ہاتھ رکے اور مڑا ۔ " کیا واقعی مرزا ؟ " ۔ " جی باس ! " مرزا نے جواب دیا ۔ ذولقرنین نےپرسوچ نظروں سے اس کی طرف دیکھا ۔" مرزا! اب رقم نہیں چاہیے مجھکو ! " اور معنی خیز نظروں سے مرزا کی طرف دیکھا جو حیران و پریشان اسکی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا .
__________________________________
ندا کام ختم کر کے کواٹر میں واپس آئی تو نوراں سوئی ہوئی تھی ۔ وہ بھی اس کے قریب دوسری چارپائی پے آکے لیٹ گئی ۔ اور آج کے واقع نے اسکی سوچوں کو اپنی جانب کھینچا ۔ وہ ایک دم کپکپائی اور اٹھ کے بیٹھی ۔ اف کیا ظالم شخص تھا اتنا زور سے میرا چہرہ پکڑا ۔ ندا نے کوفت سے سوچا اور اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور پھر لیٹی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی ۔
__________________________________
سیٹھ عبدل کریم کو جب سے مرزا کا فون دوبارہ آیا تھا کہ اب انکو پیسے نہیں کچھ اور چاہیے تو وہ مزید پریشان ہوگیے ۔ صالحہ بیگم کے پوچھنے پر بھی نا بتایا اور سونے کی کوشش کرنے لگے ۔
__________________________________
اگلی صبح ندا اٹھی تو عجیب سی حالت ہو رہی تھی اسکے دل کی ۔ مانو کوئی طوفان آنے والا ہو !اسنے تمام تر خدشات کو اپنے ذہن سے باہر دکھیلا اور کچن میں جا کر بانو کی مدد کرنے لگی ۔
________________________________
ذولقرنین جمال ہمیشہ سے ہی ایسا تو نا تھا اسکے ماضی میں موجود واقعات نے اسکو ایسا بنا دیا جب تک ماں زندہ رہی ذولقرنین سارے لوگوں کی طرح رہا تھا مگر اسکی ماں کی ڈیتھ کے بعد اسکے باپ نے اسے اپنے ساتھ ڈاکا زنی اور اسے کئی غلط کاموں میں لگا دیا تھا اور کوئی اگر ایک مرتبہ اس دلدل میں پاؤں جما لے تو اسکا نکلنا مشکل ہو جاتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ ذولقرنین کا دھندہ پھیلتا گیا اور وہ ہر طرح لے جرائم میں ملوث ہونے لگا ۔ اسکے تعلقات بھی برھتے گیے جن کی وجہ سے پولیس کا اس پر زور ختم ہوگیا تھا ۔ لوگوں کی دھتکار اور باپ کے غلط رستے کے انتخاب نے ذولقرنین جمال کی دنیا اور آخرت دونوں ہی خراب کر دیں تھی
__________________________________