وہ پنچنگ بیگ پر بغیر رکے مکے برسا رہا تھا۔ ایک هیزيانی کیفت کے زیر اثر۔ صرف روشن دان سے پھوٹنے والی روشنی اسکے چہرے کو چھو رہی تھی۔" باس ! ۔۔۔" اس کے ایک بندے مرزا نے اسے پکارا ۔ ویسے بھی جب وہ مصروف ہوتا تو مرزا کے علاوہ کسی کی جرات نا ہوتی تھی اسکے کام میں خلل ڈالنے کی! , " کہو مرزا کیا خبر لاے ہو!" ایک بھاری گھمبیر آواز کمرے میں ابھری ۔ مرزا نے بغور اسکو دیکھا جو ابھی بھی اس کی جانب پشت کیے کھڑا تھا ۔"بک بھی چکو اب مرزا! معلوم ہے تمکو کہ زولقرنین جمال کو خاموشی پسند نہیں خاص کر کہ تب جب گفتگو جاری ہو ! " ۔ اور مرزا کی طرف مڑا ۔"معلوم ہے باس ! وہ سیٹھ عبدل کریم نے بهتہ دینے سے منع کر دیا ہے دو دفع پرچی بھیجی مگر نامعلوم وہ ہلکا لے رہا ہے آپ کو باس ! " ۔ مرزا خاموش ہوا اور زولقرنین کی طرف دیکھا جو ہاتھوں پر بندھی پٹی اتار رہا تھا ۔ اسکے بھورے بال اسکی پیشانی پر بکھرے تھے اور بنا شرٹ کے کسرتی جسم نمایاں تھا۔ بلاشبہ وہ ایک خبرو انسان تھا مگر حالات اور وقت نے اسکو بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ اسنے تنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ مرزا کی طرف دیکھا ۔ اس کی آنکھوں نے بھی اسکی مسکراہٹ کا ساتھ دیا ۔ " سیٹھ خود کہاں ہے آج کل !؟ ہممم مرزا؟" , "وہ آج کل امریکا گیا ہوا ہے باس !" ۔مرزا نے جواب دیا ۔" اور کب تک واپس آئے گا؟ " ذولقرنین نے پوچھا . "باس آج رات کو ! " …. "ہممم سہی تو آج تیاری کرو مرزا ! آج رات کا کھانا سیٹھ عبدل کریم کے محل میں کھائیں گے !", اور پھر مرزا کی کمر کو تهاپتهپاتا اس کمرے سے باہر چلا گیا ۔
____________________________
"اری بانو !بانو !کہاں مر گیں ہے تو ؟ "صالحہ بیگم نے اونچی آواز میں ہانک لگائی ۔ بانو کچن سے بھاگتی ہوئی باہر آئ ۔ ۔ ۔" جججج جی بیگم صاحبہ !" .… " نی کہاں تھی تو کب سے آوازیں دے رہی ہوں ! پتا بھی ہے کے آج سیٹھ صاحب واپس آ رہے ہیں اتنے کام ہیں ! یہ بتا نوراں آج پھر نہیں آئ ؟ کواٹر میں ہی ہے کیا؟ " صالحہ بیگم نے اسے نان سٹاپ لتاڑا ۔" ججججی بیگم صاحبہ اسکی طبیعت ٹھیک نہیں آج بھی ! " بانو نے ڈرتے ہوے جواب دیا ۔ " اچھا ٹھیک ہے پر یہ نوراں کی بھانجی کہاں ہے کمبخت ! کیا نام ہے اسکا ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں ندا ! وہ کدھر مری پڑی ہے ؟ " صالحہ بیگم نے مزید تفتیش کی ۔ "وہ جی باہر ہوگی میں بلا کے لاتی ہوں اسے ! "اور بانو نے یہ کہ کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی !
باہر باغیچے میں ایک کونے میں اگے ہوئے گلاب کے پودے کے ساتھ کھڑی ندا اپنی ہی دھن میں گاۓ جا رہی تھی ۔
یہ عشق بھی عجیب ہے
کبھی سچا کبھی جھوٹا
دونوں طرف سے من میرا
من تیرا لوٹا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بانو نے آ کے اس کے کندھے پی دھموکا جڑا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔" اوہ عشق کی بچی ! تو تو یھاں ہے اور سن ہم رہے ہیں مالکن کی ! چل وہ تجھے بلا رہی ہیں" ۔ ندا نے اسے گھورا ۔ "نا کر بانو مجھے تنگ میں ان پھولوں کے سنگ رہنا چاہتی ہوں ! "۔ "چھوڑ ان پھولوں کی جان اور اندر آ بہت کام باقی ہیں" ۔ بانو اسے کھینچتی اپنے ساتھ اندر لے کر چلی گئی ۔
____________________________
وہ بانو کے ساتھ اندر آئ تو صالحہ بیگم کسی تھانیدارنی کی طرح دونو ں ہاتھ کمر پر ٹکا ئے ندا کو گھور رہی تھیں ۔ "آیے آیے ندا صاحبہ… آپ کا ہی تو انتظار تھا" ۔ وہ تنزیہ بولیں ۔ ندا سر جھکا گئی . " پتا بھی ہے کہ گھر میں کتنے کام ہیں پھر بھی محترمہ آرام سے لہک لہک کے پورے گھر میں گھوم رہی ہیں۔ مٹی دیکھی ہے کتنی جمی ہوئی ہے چیزوں پر سہی سے جھاڑ پونچھ کرو۔ ذرا سی مٹی کہیں سے میری نظر سے گزری تو حشر دیکھنا اپنا !ہونہ ! "اور تنفر سے اسے دیکھتی وہاں سے چلی گیں ۔ ندا کپڑہ لے کر بےزاری سے شروع ہو گئ .
____________________________
کیا کچھ نہیں تھا سیٹھ عبدل کریم کے پاس جائیداد ، بنک بیلنس ، گاڑی ، بنگلہ ،نوکر چاکر ، اللہ کا دیا سب کچھ تھا ۔اپنے اس محل نما بنگلے میں اپنی بیوی صالحہ بیگم اور تین بچوں کے ساتھ آرام دہ زندگی گزار رہے تھے ۔انکا بزنس کافی پھیل چکا تھا ۔ مگر چند ایک ہفتوں سے کافی مسائل نے انکا چہرہ دیکھ لیا تھا اور وہ
کافی پریشن رہنے لگے تھے اوپر سے پچھلے دو دنوں میں انکو موصول ہونے والی بھتے کی پرچی نے پریشان کر رکھا تھا ۔مگر اس سب کا ذکر انہوں نے کسی سے بھی نہیں کیا تھا ۔ امریکا سے آنے والی کال کی وجہ سے ان کو امریکا جانا پڑا ۔
____________________________
ندا نوراں کی اکلوتی بھانجی تھی جو اپنے والدین کے انتقال کے بعد سے اس کے پاس رہتی تھی ۔ نوراں کو سیٹھ عبدل کریم کے بنگلے میں کام کرتے بہت زیادہ عرصہ ہو گیا تھا ۔ سیٹھ عبدل کریم اچھے آدمی تھے سو نوراں کی سفارش پر ندا کو کواٹر میں رہنے کی اجازت دے دی تھی اور صالحہ بیگم کو بہی اعترض نا تھا ۔ مگر ندا کو اپنی پڑھائی چھوڑنی پڑی جس کا اسکو بہت دکھ تھا ۔
____________________________
رات کے آٹھ بج رہے تھے اور سارا دن کام کر کر کے اب ندا کی بس ہوچکی تھی ۔ ایک نظر نوراں کو دیکھنے کی غرض سے کواٹر کی طرف گئی ۔"خالہ اما ! کدھر ہیں آپ ؟" اسنے اندر داخل ہوتے ہوئے آواز لگائی ۔" ندا میرا بچہ ادھر ہوں ! " نوراں بھی جوابآ اونچا سا بولی ۔ ندا کمرے میں داخل ہوئی تو نوراں بستر پر بیٹھی تھی ۔" خالہ اما ! کھانا کھا لیا ؟", "ہاں میرا بچہ کھا لیا ! یہ بتا صاحب آگیے کیا ؟" نوراں نے سوال کیا ۔ " نہیں خالہ اما ابھی نہیں آئے ! " ندا ابھی بول ہی رہی تھی کہ بانو اسے پکارتی ہوئی آئ ۔ " تیرا مسلہ کیا ہے ندا کی بچی ! چل بلا رہی ہیں بیگم صاحبہ تجھے ! " بانو غصے سے بولی ۔ " اچھا چل میں آتی ہوں !" اور نوراں کو دوا لینے کا کہتی نکل آئ ۔
____________________________
سیٹھ عبدل کریم کے بنگلے کے باہر پانچ گاڑیاں رکیں اور انسے اسلحہ تھامے لوگ اترے ۔ اور گارڈز کو فائرنگ کا موقع دئے بغیر ہی انکی سانسیں کھینچ لیں ۔ ذولقرنین جمال پہلی گاڑی سے اترا اور بنگلے کی اندر کی جانب بڑھا ۔ اسکی تقلید میں مرزا اور باقی لوگ بھی اندر داخل ہوے ۔ فائرنگ کی آواز سے پہلے ہی ہال میں موجود لوگ خوفزدہ ہو گیے تھے ۔ اور جب اندر آتے ہوئے اسلحے سے لیس لوگوں پے نظر پڑی تو سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ۔ ذولقرنین نے ایک طائرانہ نگاہ پورے ہال پی ڈالی اور چند قدم آگے بڑھ کے صالحہ بیگم کے مقابل آ کے کھڑا ہوا ۔ "سیٹھ عبدل کریم کہاں ہے ؟ ہممم ! " اسنے اپنے ازلی گهمبیر لہجے میں پوچھا ۔ صالحہ بیگم خاموش رہیں ۔اب کی بار ذولقرنین نے تھوڑا سا چلا کے پوچھا : "میں نے کہاں کے سیٹھ عبدل کریم کہاں ہے ! کب واپس آیے گا ؟ "۔ صالحہ بیگم ڈرتے ڈرتے بولیں ۔ "وووو ہ آننیے ہی ووالے ہوں گگگے ! " ۔ ذولقرنین بولا ، "سہی ہم انتظار کر لیتے ہیں" اور لاؤنج میں موجود صوفے پر براجمان ہو گیا !
____________________________