معمولات زندگی بحال ہوگئی تھی وہ سارا دن بے مقصد کمرے کے بالکونی میں بیٹھی باہر دیکھتی رہتی کوکنگ سے بھی اس کا دل اچھاٹ ہوگیا تھا۔ اس کے سارے خواب ساری امیدیں شیشہ کی مانند چور چور ہوگئے تھے۔ اس نے اپنی قسمت کے آگے ہار مان لی تھی قدرتی نظام کے ساتھ چل رہی تھی۔
***********&&&&*************
رانا صاحب آئینہ کے سامنے کھڑے اپنی ٹائی درست کر رہے تھے اور کرن خاموشی سے بیڈ بنا رہی تھی۔
"میرے آفس کے کارکنان نے کل ہمارے لیے پارٹی رکھی ہے۔" انہوں نے بال برش کرتے ہوئے اطلاع دی
"مجھے بزنس پارٹیز میں جانے کا کوئی شوق نہیں ہے" اس نے بیڈشیٹ طے کرتے ہوئے کہا۔
"کوئی بزنس پارٹی ہوتی تو میں بھی نہیں لے کر جاتا۔۔۔۔۔۔ پر ہماری شادی کے مناسبت سے ریسپشن پارٹی دی ہے۔۔۔۔۔ اس لئے تمہیں ساتھ چلنا ہے۔" انہوں نے گھڑی پہنتے ہوئے کہا اور آفس کے لئے نکل گئے۔
کرن بے دلی سے وہی کھڑی رہی۔ اس کا اب کسی چیز میں دل نہیں لگتا تھا۔ نور سے بات کرتے ہوئے بھی وہ ہممم ہاں نا اچھا کر کے جواب دیتی۔ دو دن پہلے چچی اس سے ملنے آئی تھی تو وہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے کا بہانہ کر کے سونے کی اداکاری کرتی رہی اور نگار بیگم سے ملنے نہیں آئی۔ اس کے دل کا زخم ابھی بھی تازہ تھا وہ نگار بیگم سے ملنے سے گریز کر رہی تھی۔
**************&&&&*****************
پارٹی شہر کے سب سے منفرد ہال میں منعقد کی گئی۔ ایک سے بڑھ کر ایک معزز شخصیت تشریف فرما تھے بزنس سے منسلک افراد سے لے کر میڈیا کے کارکنان تک سب اس اعلی شان تقریب سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کسی طرح کی بد نظمی سے بچنے کیلئے سیکیورٹی کا اچھا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہال میں ہلکا میوزک لگا تھا اور یہاں وہاں ٹہلتے مہمان خوش گپیوں میں مصروف مشروبات سے سرشار ہورہے تھے۔
رانا صاحب grey کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھے اور ان سے میچنگ کرنے کے لیے کرن نے سلور کلر کا گاون زیب تن کیا ہوا تھا اور ڈائمنڈ کا سیٹ اس کی زینت بڑھا رہا تھا۔
رانا صاحب کے بازو کو تھامے وہ بے حد نزاکت سے باوقار معروف بزنس مین کی بیوی کا کردار نبھا رہی تھی۔ رانا صاحب ہال میں موجود مہمانوں سے مل کر ان کا تعارف کراتے اور کرن مسکراتے ہوئے سر کو خم دے کر ہائی ہیلو کرتی۔ پس منظر میں ہلکا میوزک بھی چل رہا تھا جس سے ماحول خوشگوار بن گیا تھا۔ ان کی جوڑی کو پھولوں کے گلدستے اور مہنگے تحائف سے نوازا گیا۔ کچھ نوجوان کارکنوں نے آپس میں تبصرے بھی کئے۔
شام پُر رونک رواں دواں تھی۔
"ہیلو مسزز رانا۔۔۔۔۔ ویلکم۔۔۔۔۔ کیسی ہے آپ۔"
ایک انجان آواز پر وہ پلٹی سامنے سے سوٹ میں ملبوس آدمی ان کی جانب آیا۔ اس نے ان کا تعارف جاننے کے لیے رخ موڑ کر رانا صاحب کو دیکھا وہ تنے ہوئے اعصاب سے اس آدمی کو دیکھ رہے تھے اور اپنا غصہ قابو میں رکھنے کے لیے جبڑا سخت کر لیا تھا۔
"اوو c'mon رانا۔۔۔۔ میرا تعارف نہیں کرواو گے۔" اس نے طنزیہ انداز میں رانا مبشر کو دیکھتے ہوئے کہا۔
رانا مبشر اتنے معزز مہمانوں کے سامنے تماشا نہیں بنانا چاہتے تھے اس لیے اس کے طنز و مزاح کا اثر نا لیتے ہوئے سپاٹ انداز میں کھڑے رہے۔
"یہ محمود شاہد ہے۔۔۔۔۔۔ میرے بہت پرانے ہم منصب۔" انہوں نے سرد مہری سے ان صاحب کا تعارف کرایا۔
کرن نے اپنے مخصوص انداز میں ان سے ہائے کہا۔
"کیا یار رانا۔۔۔۔۔ پورا تعارف کراو۔۔۔۔ بھابھی جی سے کیا شرمانا۔" محمود شاہد نے آگے بڑھ کر رانا صاحب کا کندھا تھپتھپایا۔
رانا صاحب نے ضبط کرتے ہوئے اس کا ہاتھ پرے ہٹایا۔
"صرف ہم منصب ہی نہیں۔۔۔۔۔ رانا کا بہت اچھا دوست بھی ہوں۔۔۔۔۔۔ کیوں رانا۔" انہوں نے استحزیہ ہنستے ہوئے کہا۔
رانا صاحب اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کرن کا بازو تھام کر آگے بڑھنے لگے لیکن محمود شاہد ان کے آگے آگئے۔
"بھئی رانا۔۔۔۔ میں بہت خوش ہوا ہوں تمہارے شادی کا جان کر۔۔۔۔۔ بہت وقت لگا دیا تم نے بیلا کی یادوں سے نکلنے میں۔" محمود شاہد نے رانا صاحب سے معنی خیز نظروں کا تبادلہ کیا۔
کرن ان کے منہ سے بیلا کا نام سن کر چونک گئی اور باری باری ان دونوں مردوں کی طرف دیکھا۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو سرد مہری سے دیکھ رہے تھے۔
" اووو۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔۔۔ کہی میں نے تمہارا کوئی راز تو افشاں نہیں کر دیا۔۔۔۔ تم نے۔۔۔۔۔ بھابھی جی کو۔۔۔۔۔ بیلا کے بارے میں بتایا تو ہوگا نا۔" انہوں نے ہاتھ ہوا میں اٹھا کر طنزیہ انداز میں کہا۔
کرن سنجیدہ ہوگئی اور رانا صاحب اضطراب میں پڑ گئے۔
ان سے اب ضبط کرنا مشکل ہورہا تھا وہ آگے کو ہوئے اور محمود کو بازو سے جھکڑ لیا۔
"محمود صاحب۔۔۔۔۔ آپ میرے نئے بزنس پارٹنر سے ملے۔۔۔۔۔ آئے میں آپ کو ملواتا ہوں۔" رانا صاحب نے محمود کے بازو کو دبوچے ہوئے مسکرا کر کرن سے معذرت کی اور ان کو گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے جانے لگے۔
وہ اسی طرح محمود کو اپنے ساتھ لیئے ہال سے باہر آگئے اور ریسٹ روم میں داخل ہوئے۔ دروازہ بند کرتے ہی رانا صاحب نے محمود کو پرے دھکیلا۔
"تم یہاں کیسے آئے۔۔۔۔ کس نے اندر آنے دیا تمہیں۔" رانا صاحب نے طیش میں آکر غراتے ہوئے کہا۔
محمود شاہد سیدھے ہوئے اور کوٹ کی شکن درست کی۔
"کیوں ڈر گئے۔۔۔۔ اپنی نئی بیوی کے سامنے پول کھلنے کا ڈر لگ رہا ہے۔ " اس نے ہمدردانہ انداز میں کہا۔
رانا صاحب قریب گئے اور محمود کا گریبان پکڑ لیا۔
"رانا مبشر کسی سے نہیں ڈرتا سمجھے تم۔۔۔۔۔۔ اور تم بنا دعوت نامہ کے اندر آئے کیسے۔۔۔۔۔ سیکیورٹی" انہوں نے چلاتے ہوئے ڈیوٹی پر تعینات سیکیورٹی کو آواز دی۔
"کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ میری کمپنی کی سیکیورٹی ہے۔۔۔۔۔ مجھے کچھ نہیں کہے گی۔" محمود نے رانا مبشر کے ہاتھ جھڑکتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔
"اپنی الٹی گنتی شروع کر دو رانا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تمہارے چہرے پر زوال کے ایثار نظر آرہے ہے۔۔۔۔۔ یہی لڑکی تمہیں تمہارے انجام تک پہنچائے گی۔۔۔۔۔۔ تمہارا یہ رعب و دبدبہ کچھ وقت کا ساتھی ہے۔" انہوں نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کرتے ہوئے کرن کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
"رانا مبشر کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔۔۔۔۔ پچھلے دس سالوں کی طرح اپنی خوش فہمی پالتے رہو محمود۔۔۔۔۔ پر تمہارے ہاتھ کچھ نہیں لگنے والا" رانا صاحب نے طنزیہ ہنستے ہوئے کہا۔
" کہہ لو جو کہنا ہے۔۔۔۔۔ تمہاری حقیقت جلد سب کے سامنے آجائے گی۔۔۔۔۔۔ یاد رکھنا رانا۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ بیلا کی موت۔۔۔۔۔ ضائع نہیں جانے دونگا۔" اس نے رانا صاحب کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا ۔
رانا صاحب نے کوٹ ہٹا کر کمر میں پھنسائی پسٹل نکالی کلک کر کے لاک کھولا اور محمود شاہد پر تان لی۔
"ایک اور لفظ کہا تو ساری کی ساری گولیاں تمہارے اندر اتار دونگا۔" انہوں نے اس کی گردن دبوچ کر پسٹل اس کے سینے پر گڑھتے ہوئے کہا۔
پسٹل کا لاک کھلا تھا اور رانا صاحب سارے حدود پار کرنے پر طول گئے تھے اتنے قریب سے اگر وہ اسے شوٹ کرتے تو یقیناً اس کی موت واقع ہوجاتی اس لیے محمود چپ ہوگئے۔ ان کے پیشانی پر پسینہ نمودار ہوا۔
"آیندہ میرے یا میری بیوی کے سامنے مت آنا۔۔۔۔۔۔ ورنہ مجھ سے پہلے تمہارا خاتمہ ہوجائے گا اور میرے زوال کا تمہارا خواب صرف خواب ہی رہ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ منیجر۔۔۔۔۔۔ منیجر۔۔" انہوں نے چلا کر باہر کھڑے منیجر کو مخاطب کیا۔ وہ بھاگتا ہوا اندر آیا۔
"نکال باہر پھینکو اسے" رانا صاحب نے محمود کو منیجر کی طرف دکھیلتے ہوئے کہا۔ منیجر آگے ہوا اور محمود شاہد کا بازو جھڑپ لیا۔ رانا صاحب کے ہاتھ میں ہتھیار تھا اس لئے محمود شاہد دم سادھے نکل گیا ورنہ وہ رانا مبشر کو اس کا اختتام دکھانے آیا تھا۔
ان کے نکلنے کے بعد رانا صاحب لمبی سانس لیتے ہوئے خود کو نارمل کرنے لگے۔ پسٹل واپس کوٹ کے نیچے کمر میں اڑھسی اور سنک پر جھک گئے۔ نل کھول کر پانی کی کچھ چھینٹے منہ پر ڈالے اور دیوار گیر آئینہ میں اپنا عکس دیکھا۔ ماضی کی تلخ یادیں ان کے آنکھوں میں لہرائی ان کے دل میں دفنائے زخموں کو محمود شاہد نے کرید دیا تھا۔ رانا صاحب کی زندگی کا وہ حصہ جسے وہ چاہ کر بھی نہیں مٹا سکتے تھے۔ بیلا شمس کی ان کے ہی گھر میں واقع ہوئی موت۔۔۔۔۔۔۔
############# 10 سال قبل ############
مبشر اپنی اونچائی کے بلندیوں کو چھو رہا تھا جب اس تین روزہ سیمینار کے دوران اس کی بیلا شمس سے ملاقات ہوئی۔ مبشر جوانی کے عروج پر تھا وہ 34 سالہ جوان بزنس مین جس پر ہر لڑکی کی نظریں تھی۔
اس سیمینار میں اگر مبشر زیادہ سرمایہ کاروں کو اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے راغب کر پاتا تو وہ کامیابی کی ایک اور سیڑھی چڑھتا۔
27 سالہ بیلا اس دوران سیمینار کی پراگرام منیجر تھی اور ساتھ ساتھ اپنے والد شمس ڈار کے کمپنی کی بھی رہنمائی کر رہی تھی۔ لمبا قد بڑی بڑی آنکھیں دلکش مسکان کے ساتھ معتبر شخصیت کی مالکن، وہ بہت بااعتمادی سے اس سیمینار کی دیکھ ریکھ کر رہی تھی۔ مبشر کو پہلی نظر میں ہی اس کی کارکردگی بھا گئی۔
سیمینار کے آغاز میں سب سے ملتے وقت بیلا اپنی بزنس وومن کے انداز میں مبشر سے بھی ملی۔
"ہائے۔۔۔ بیلا شمس۔" اس نے اپنا تعارف بتاتے ہوئے مصاحفہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
رانا صاحب نے مخصوص انداز میں مسکرا دیا
"مبشر " اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
"مبشر۔۔۔۔۔۔ ؟" بیلا کو تعجب ہوا اس نے پورا نام جاننے کے لیے اس کا نام دوہرا۔
"صرف مبشر۔۔۔۔ میرا یہ مقام میں نے خود حاصل کیا ہے۔۔۔۔ اس لیے باپ کے نام کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے مجھے" مبشر نے اب بھی بیلا کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔
" آپ کی یہ خود مختاری اچھی لگی مجھے" بیلا نے سراہتے ہوئے کہا۔
"اور مجھے تو۔۔۔۔۔۔" مبشر نے سر تا پیر بیلا کو دلکشی سے دیکھا۔
"خیر چھوڑے۔۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور نظریں پھیر لی۔
بیلا مبشر کا مطلب سمجھ گئی اور اپنا ہاتھ چھڑا گئی۔
" اوکے مجھے جانا چایئے۔۔۔۔۔ بائے۔ "اس نے آبرو اچکا کر کہا اور آگے بڑھ گئی
آگے بڑھتے ہوئے اس نے ایک نظر مبشر پر ڈالی وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ بیلا نے جھجکتے ہوئے تیزی سے رخ موڑ لیا۔ یہی سے ان کے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان تین دنوں میں وہ کافی دفعہ ایک دوسرے سے رو بہ رو ہوئے۔
"مبارک ہو مبشر۔۔۔۔۔ آخر آپ کی ڈیل ہوگئی۔"بیلا نے اس سے مصافحہ کر کے مبارکباد پیش کی۔
"تھینکیو۔۔۔۔۔ ویسے تم آج شام کو کیا کر رہی ہو۔" مبشر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
"میں۔۔۔۔۔ کیوں پوچھ رہے ہو۔" بیلا نے اپنی مسکراہٹ دبائے ہوئے کہا۔
"ہممم۔۔۔۔۔ ویسے ہی۔۔۔۔۔ بس ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ کافی پینے کا دل کر رہا تھا۔" مبشر نے دل فریبی سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
اس کے آفر پر بیلا کھل کر مسکرائی اور محظوظ ہوتے ہوئے ملنے کے لئے تیار ہوگئی۔
دوستی جیسے بڑھتی گئی ان کی ملاقاتیں روز کا معمول بن گئی۔ وہ دونوں ہر دوسرے دن آفس ٹائم کے بعد ملنے لگے۔
***************&&&&***************
روحان ان دنوں اپنی گریجویشن مکمل کرنے امریکہ گیا ہوا تھا اور اسی نے ان کے والد رانا نذیر کے انتقال کی اطلاع دی تھی۔
اس وقت مبشر اور بیلا پارک میں بیٹھے تھے۔
"تمہیں بھی جانا چاہئیے مبشر۔۔۔۔ آخر وہ تمہارے پاپا تھے۔" بیلا نے مبشر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
مبشر باپ کے انتقال کا سن کر افسردہ ضرور ہوا تھا لیکن جذبات قابو کئے ہوئے تھے۔
"میرا ان سے تعلق اسی دن ختم ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ جب انہوں نے اپنی دوسری بیوی کی غلط بیانی کی وجہ سے مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔۔۔ اور میرا بھروسہ نہیں کیا تھا۔" مبشر نے تنے ہوئے تاثرات سے کہا۔
"مبشر۔۔۔۔ والدین ایسے ہی ہوتے ہے۔۔۔۔ ہمیں ان کی ڈانٹ کو یا تھوڑی بہت مار کو اتنا مائنڈ نہیں کرنا چاہیے۔۔۔۔ وہ جو کرتے ہیں۔۔۔ ہماری بھلائی کے لیے کرتے ہیں۔۔۔۔ اور رہی بات تمہارے پیرنٹس کی ڈاورس کی تو۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی حالات ایسے ہوجاتے ہے جس میں میاں بیوی کے لئے ساتھ رہنا تکلیف دہ بن جاتا ہے۔۔۔۔ تو ایسے میں الگ ہوجانا بہتر ہوتا ہے۔" بیلا اسے سمجھانے کی کوشش کرتی رہی۔
اس وقت تو مبشر نے کوئی ردعمل نہیں کیا۔ اگلے دن روحان کے ریکویسٹ پر وہ امریکہ چلا گیا اپنے پاپا رانا نذیر کے آخری رسومات میں شرکت کرنے۔
ایرپورٹ پر روحان لینے آیا۔ اپنے بچپن کے گھر پہنچ کر اسے بہت تکلیف ہورہی تھی اسے اپنے والدین کے جھگڑے، ان کا ہر وقت تصادم، پھر ماں باپ کا طلاق، اس کا اور روحان کا ایک دوسرے سے دور ہوجانا، بورڈنگ اسکول کے مشکلات، ماں باپ کا الگ الگ پھر سے شادی کرنا، مینٹل ہسپتال کی اذیتیں، باپ کا اسے مارنا، اس کا روحان کو لے کر پاکستان آنا، در در کی ٹھوکریں کھانا، سب وقفے وقفے سے یاد آتا رہا۔ اس کے اضطراب میں اضافہ ہورہا تھا اس کے لئے وہاں زیادہ وقت رکنا مشکل ہوتا گیا۔ وہ سوتیلی بہن جو اس کے وہی موجودگی کے دوران ہوئی تھی وہ اب سترہ اٹھارا سال کی بالغ لڑکی تھی اور اس کے بعد اس کے دو بھائی اور تھے 16 اور 14 سال کے۔ مبشر اور روحان کی سوتیلی ماں نے کبھی اپنے بچوں کو ان کے بارے میں نہیں بتایا تھا نہ وہ اپنے ڈیڈ کے پہلے طلاق کے بارے میں جانتے تھے اس لیے میت میں اجنبیت سے ان کے ساتھ پیش آرہے تھے۔ مبشر تو سوئم کر کے واپس روانہ ہوگیا اور روحان بھی ان کے ہدایت پر واپس ہاسٹل چلا گیا تھا۔
ان ہی دنوں پاکستان میں مبشر اور بیلا کی بڑھتی ملاقاتیں خبروں کی سرخیاں بھی بنی ہوئی تھی جسے وہ دونوں نظر انداز کر گئے لیکن بیلا کے پاپا شمس ڈار سے یہ سب برداشت نہیں ہوا اس لیے انہوں نے بیلا کا رشتہ اپنے بھتیجے محمود شاہد سے طے کر دیا۔ محمود شاہد بچپن سے ہی اپنی کزن بیلا شمس کو پسند کرتا تھا اس لئے اس رشتہ پر خوشی خوشی راضی ہوگیا لیکن بیلا کو جب ان سب کی خبر ہوئی تو گھر پر بہت واویلا کیا اور رشتہ سے منع کر دیا۔
بیلا نے مبشر کے آتے ہی اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور جب مبشر واپس لوٹا تو موقع ملتے ہی بیلا نے اسے سارے واقعات سے با خبر کیا۔
اس دن چھٹی کا دن تھا مبشر اور بیلا کلفٹن کے ساحل پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ مبشر ہاتھ پیچے باندھے سمندر کو دیکھتے ہوئے قدم بڑھا رہا تھا اور بیلا نے اس کا بازو پکڑے اس کے کندھے پر سر ٹکایا ہوا تھا۔
"مبشر۔۔۔۔ شادی کر لیتے ہیں" بیلا نے نرمی سے اس سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
مبشر چلتے چلتے رک گیا۔ اس نے بیلا کا ہاتھ چھوڑا اور اس کا سر اپنے کندھے سے ہٹایا۔
"پر اب تو مسئلہ حل ہوگیا۔۔۔۔۔۔ تم نے رشتہ سے انکار کر دیا ہے۔" اس نے سپاٹ انداز میں کہا۔
"لیکن مجھے کوئی رسک نہیں لینا۔۔۔۔۔ اس سے پہلے پاپا میرے لیے کوئی نیاء رشتہ ڈھونڈے۔۔۔۔۔۔ تم گھر آکر پاپا سے بات کرو۔" بیلا نے پیار سے مبشر کا ہاتھ تھام کر کہا۔
مبشر کچھ متذبذب ہوگیا۔ اس کے بے اثر رنگ کو دیکھ کر بیلا فکرمند ہوگئی۔
"کیا ہوا۔۔۔۔۔۔ تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔" اس نے متفکر ہو کر پوچھا۔
مبشر نے مزاج خوشگوار بنایا اور مسکرا دیا۔
"کل شام کو آتا ہوں۔۔۔۔ انکل سے تمہارا ہاتھ مانگنے۔" اس نے بیلا کے چہرے کے گرد ہاتھوں کا پیالہ بناتے ہوئے کہا۔
بیلا خوشی سے چہک اٹھی۔
وعدے کے مطابق اگلے شام کو مبشر بیلا کے گھر موجود تھا۔ بیلا اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔ اس کے پاپا شمس ڈار اس رشتہ کے سخت خلاف تھے انہیں مبشر بلکل بھی پسند نہیں تھا لیکن بیٹی کی ضد کے آگے مجبور ہوگئے اور رشتے کے لیے مان گئے۔
روحان بھائی کی شادی میں شریک ہونے دو ہفتوں کی تعطیلات لے کر آگیا۔ سارے رسومات دھوم دھام سے منائے گئے شہر کے سب بزنس مین کمیونٹی اور میڈیا کارکنان کو دعوت دی گئی تھی۔ سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کی شادی کی زینت بڑھائی۔
شادی کے وقت مبشر ایک سفید پوش علاقے میں قیام پذیر تھا۔
بیلا کے تو جیسے سارے ارمان پورے ہوگئے تھے۔ وہ اب house wife بن گئی تھی کیونکہ مبشر کی ہی شرط تھی کہ بیلا شادی کے بعد کوئی نوکری کوئی کام نہیں کریں گی۔ بیلا مبشر کی یہ شرط بھی مان گئی اور اپنی ساری مصروفیات ترک کر دی۔
روحان بھائی کی شادی سے بہت خوش تھا وہ اور وقت گزارنا چاہتا تھا لیکن چھٹیاں پوری ہوجانے کے باعث اسے واپس جانا پڑا۔
شمس ڈار نے اولاد کے درمیان اختلافات سے محفوظ رہنے کے لیے اپنی زندگی میں ہی جائیداد میں سے ان کے حصے الگ کر کے دے دیئے۔ بیلا نے اپنی پوری رضامندی سے اپنا حصہ مبشر کے نام کر دیا جس سے اس کی کامیابی پروان چڑھ گئی۔
بیلا کا خواب تھا کہ شہر کے بھیڑ سے دور ایک بڑے سبزہ زار میں اس کا عالی شان گھر ہو جہاں نوکر چاکر خدمات کو سر انجام دے اور وہ اس محل میں رانی بن کر رہے۔
مبشر کو اس سال ملک کا سب سے بہترین نوجوان بزنس مین کے خطاب سے نوازا گیا دنیا کے لیے وہ مبشر سے رانا مبشر بن گیا۔ بیلا کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں تھا وہ خود کو سب سے خوش نصیب لڑکی مانتی تھی۔
رانا مبشر نے بیلا کی سالگرہ پر اسے اس کے خوابوں کا گھر تحفے میں پیش کیا۔
وہ دونوں اس سبزہ زار کے بیچ میں بنائے گئے اس سفید مرمر کے بنگلے کے سامنے کھڑے تھے۔ ملازم ہاتھ باندھے سر جھکائے ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
"کیسا لگا ہمارا نیا گھر" مبشر نے سر اونچا کر کے اس عمارت پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
بیلا کو ہقین نہیں آرہا تھا کہ مبشر اتنی جلدی اس کا خواب پورا کر دے گا۔ وہ خوشی سے سرشار ہوتی بنگلے کے اندر بھاگی اور گھوم گھوم کر چارو اطراف کا جائزہ لینے لگی۔ مبشر سر اٹھائے شانے بلند کئے شاہانہ انداز میں اندر داخل ہوئے۔ بیلا ان کے پاس آئی اور گلے لگ کر ان کے گرد بازو مائل کئے۔
"تھینکیو سو مچ۔۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت ہے۔۔۔۔۔۔ میرے خواب سے بھی زیادہ حسین ہے۔۔۔۔۔۔ مبشر تمہیں پا کر مجھے دنیا کی ساری نعمتیں مل گئی۔ i love u" اس نے رانا مبشر سے الگ ہو کر بھیگی آنکھوں سے کہا۔
"میں نے تو صرف اینٹ پتھر سے عمارت بنا کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔اب اسے سجانا اس میں زندگی ڈالنا تمہارا کام ہے۔" رانا مبشر نے مسکراتے ہوئے تنبیہہ کیا۔
بیلا نے مشکور ہوتے ہوئے سر ہلایا اور کمروں کا جائزہ لینے بڑھ گئی۔
دو سے تین ماہ میں بیلا نے ڈیزائنرز کی مدد سے گھر کو محل کی طرح سجا دیا تھا۔ سارے فرنیچر پردے کچن سے لے کر باغیچوں کی سجاوٹ تک سب کچھ بیلا نے اپنے پسند سے کروایا۔
جیسے جیسے زندگی چلتی گئی رانا مبشر کو سرفرازی ملتی گئی ویسے ہی ان کا مزاج بدلتا گیا۔ پیار کی جگہ غرور، نرمی کی جگہ اکھڑ، رحم دلی کی جگہ ظلم نے لے لیا تھا۔ ان کا رویہ صرف اپنے نیچے کام کرنے والوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ بیلا کے ساتھ بھی بدل گیا تھا۔ ان کے ایسے برتاؤ پر بیلا بہت پریشان رہنے لگی تھی۔
آئے دن ان میں کسی نہ کسی وجہ سے بحث ہوتی۔ ان کے جھگڑوں نے اس دن شدت پکڑ لی جس دن رانا مبشر نے بیلا کو زناٹے دار تھپر رسید کیا اور بیلا لڑکھڑا کر زمین بوس ہوگئی۔
"مجھ سے زبان لڑانے کی پھر کبھی ہمت مت کرنا۔۔۔۔۔ بیوی ہو بیوی بن کر رہو۔۔۔۔۔ سر پر چڑھنے کی کوشش مت کرو۔" انہوں نے غراتے ہوئے کہا۔
بیلا ہاتھ گال پر رکھے پھٹی نظروں سے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس سے اس نے محبت کی تھی جس کے لیے اس نے اپنے کزن کا رشتہ ٹھکرایا تھا جس سے شادی کرنے سے وہ ساتویں آسمان پر تھی جس کے لیے اس نے اپنے والدین سے ضد کی تھی جس کے لیے اس نے اپنی آذادی اپنا پروفیشن یہاں تک کہ اپنی دولت سب قربان کر دی تھی۔
"کیا صرف مجھے پانا اس کی محبت تھی۔۔۔۔۔ کیا صرف مجھ سے شادی کر کے نام بنانا اس کی نیت تھی۔۔۔۔۔۔۔ کیا صرف میرے دولت کو ہڑپنا اس کا مقصد۔۔۔۔۔۔ یہ سب مل گیا تو میں مبشر کے لیے کوڑے کی ڈھیر کی مانند رہ گئی۔" بیلا نے وحشت زدہ چہرے سے ڈگمگاتے قدموں سے اٹھتے ہوئے سوچا
محمود شاہد کو بیلا کے انکار سے بہت دکھ ہوا تھا پر اس کی خوشیوں کے لیے اپنے جذبات دفنا دیئے تھے۔ محمود اور رانا مبشر اس دوران ہم منصب تھے اکثر بزنس میٹنگ میں ملاقات ہوجایا کرتی۔ رانا مبشر کے بدلتے مزاج کی وجہ سے محمود کو بیلا کی فکر ہونے لگی۔ اس کے تشدد سے بے خبر ایک دن محمود نے بیلا کو کال کیا۔
آج 6 مہینے بعد بیلا کی محمود سے بات ہورہی تھی۔
"کیسے ہو محمود۔۔۔ گھر پر سب کیسے ہے اتنے لمبے عرصے بعد کال کیا ہے" بیلا نے خوش دلی سے بات کا آغاز کیا۔
میں تو ٹھیک ہوں۔۔۔۔ تم اپنی سناو۔۔۔۔ تم تو شادی کے بعد پرائی ہی ہوگئی ہو۔۔۔۔۔ کبھی چکر بھی نہیں لگاتی" محمود نے جعلی خفگی سے کہا
"بس زندگی کے مصروفیات ہے۔۔۔۔ فرصت ملی تو ضرور آو گی۔" بیلا نے بہانہ بنا کر کہا۔
محمود اس کی آواز میں افسردگی جانچ گیا۔
"بیلا۔۔۔۔۔ تم رانا مبشر کے ساتھ۔۔۔۔۔ خوش تو ہو۔۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب۔۔۔۔ آفس میں تو اس کا رویہ بہت سخت ہوتا ہے۔۔۔۔۔ تمہارے ساتھ تو ٹھیک ہے نا۔" اس نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
بیلا کا دل بھر آنے لگا۔ جس کا خوف تھا محمود نے وہی سوال پوچھ لیا تھا۔
"ہاں میں مبشر کے ساتھ بہت خوش ہوں۔۔۔۔۔ وہ مجھے بے حد پیار کرتے ہے۔۔۔۔ پلکوں پر بیٹھا کر رکھتے ہے۔" اس نے جھوٹ گڑھا۔
"چلو شکر ہے۔۔۔۔۔ مجھے تو تمہاری بہت فکر ہورہی تھی۔" محمود نے سکون کا سانس لیتے ہوئے کہا۔
بیلا پھیکا مسکرائی آنکھوں کے کونے پر ٹھہرا پانی جھپکایا اور الوداع کرتے ہوئے کال کاٹ دیا۔
*************&&&&**************
اس دن وہ صبح سے اپنے گھر کو مس کر رہی تھی تو رانا مبشر کو کال کر کے اپنے گھر چکر لگانے کی اجازت لی۔
بیلا نے نیلے رنگ کا لمبا کام دار فراک پہنا اور بالوں کا جوڑا بنایا۔ اپنی تیاری مکمل کر کے وہ کمرے سے باہر آئی تب تک رانا صاحب کار اور ڈرائیور بھیج چکے تھے۔
اپنے گھر پہنچ کر اس نے ڈرائیور کو بعد میں بلوانے کا کہہ کر واپس بھیج دیا۔
وہ شام تک اپنے گھر رہی تھی اور واپسی ڈرائیور کو بلوانے کے بجائے محمود کے ساتھ آئی۔
رانا مبشر لاؤنج کے سرے پر ہاتھ باندھے کھڑے تھے جب وہ محمود کے کار سے اتری۔ محمود بھی ساتھ اترا اور دونوں کسی لطیفے پر ہنستے ہوئے اندر داخل ہوئے۔
"ہائے رانا۔۔۔۔ کیسے ہو" محمود نے خوشی سے اس کے گلے مل کر پوچھا۔
رانا مبشر نے اس کے سوال کو نظرانداز کیا اور بیلا کی طرف متوجہ ہوا۔
"فون کر دیتی میں ڈرائیور بھیج دیتا۔" انہوں نے پھیکا مسکرا کر کہا۔
بیلا اپنے آپ میں مگن رانا مبشر کی حاکمیت کو بھول بھال گئی تھی۔
" میں تو کال کر رہی تھی۔۔۔۔۔ پر محمود نے کہا وہ چھوڑ آئے گا۔۔۔۔ اور اسی بہانے سے میرا dream house بھی دیکھ لے گا۔۔۔۔۔ اور اب آپ سے بھی ملاقات ہوگئی۔" بیلا نے خوشگوار مزاجی سے کہا اور آگے بڑھ گئی۔
"محمود۔۔۔ تم بیٹھو میں چائے کا بول کے آتی ہوں۔" اس نے محمود کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
وہ ہاتھ اٹھا کر معذرت کرنے لگا تھا کہ رانا مبشر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
"بیٹھ جاو محمود۔۔۔۔۔ پہلی بار آئے ہو۔۔۔۔ چائے پی کر جانا" رانا صاحب نے چڑ کر استحزیہ مسکرا کر کہا۔
بیلا چائے کا بول کر واپس لاؤنج میں آئی اور وہ تینوں صوفے پر بیٹھ گئے۔ محمود تو رانا مبشر کی تعریف کرتے رہے اور بیلا فخریہ انداز میں مسکراتی ہوئی محظوظ ہوتی رہی وہی رانا مبشر ان دونوں کو دیکھتے ضبط کرتے رہے۔
محمود کو رخصت کرنے بیلا دروازے تک ساتھ آئی اور رانا مبشر وہی کھڑا رہا۔
جب بیلا مڑ کر واپس لاؤنج میں آئی تو رانا مبشر نے اسے مخاطب کیا۔
"بہت اچھے دوست ہو تم دونوں۔۔۔۔۔ پر افسوس کہ میں بیچ میں آگیا۔۔۔۔ ہے نا۔" اس نے مسابقت سے کہا۔
بیلا چینج کرنے کمرے میں جارہی تھی رانا مبشر کے مخاطب کرنے پر رک گئی اور تعجب سے انہیں دیکھا۔
"یہ کیا کہہ رہے ہے آپ ۔"بیلا نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"نہیں۔۔۔۔ میرا مطلب اچھی خاصی تم دونوں کی شادی ہونے والی تھی۔۔۔۔۔ میں نے تم دونوں کی love story خراب کر دی" انہوں نے سرد مہری سے آبرو اچکا کر کہا۔
"ایسا کچھ نہیں ہے مبشر۔۔۔۔۔۔ آپ بیکار کا شک کر رہے ہے۔"بیلا نے برا مناتے ہوئے کہا۔
"ہاں وہ تو میں دیکھ رہا ہو۔۔۔۔۔ اتنا کھل کر تو تم کبھی میرے ساتھ بھی نہیں ہنسی" انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا۔
"مجھے اپنے کردار کے بارے میں کوئی صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔ تم اپنا دل صاف کرو مبشر۔" بیلا یہ کہتے ہوئے مڑنے لگی تھی کہ رانا مبشر نے آگے بڑھ کر اس کا بازو دبوچ لیا اور اسے اپنے قریب کھینچا۔
"مجھے محمود نہیں پسند۔۔۔۔۔۔ آیندہ تم مجھے اس کے ساتھ نہ دکھو۔" انہوں نے دانت پیستے ہوئے طیش میں کہا اور بیلا کو پرے دکھیلا وہ ڈگمگا کر گرنے لگی تھی لیکن تیزی سے ٹیبل پر ہاتھ جما لئے خوف سے اس کی سانس رکنے لگی۔ رانا مبشر لمبے لمبے دگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بیلا نے بھیگی آنکھوں سے انہیں جاتے دیکھا اور وہی صوفے پر سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
***************&&&&&***************