حادی کچھ دیر آرام کرنے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا اور کرن کو کھانا وہی کمرے میں لانے کی ہدایت دی۔
دو بجے کے قریب کرن نے کھانا لگوایا اور سب کو بلایا۔ چچی اور نور ڈائننگ ٹیبل پر آگئی لیکن حادی نہیں آیا تب کرن کو اس کی ہدایت یاد آئی۔ وہ ٹرے میں لوازمات رکھے اس کے کمرے تک گئی لیکن دروازے پر رک گئی۔ کچھ بوسیدہ یادیں اس کے ذہن کے پردے پر لہرائی۔ وہ یادیں جسے وہ یاد کرنا بھی نہیں چاہتی تھی لیکن چاہ کر بھی بھولا بھی نہیں پا رہی تھی۔ اس نے افسردگی سے سر جھٹک کر ان باتوں کو اپنے ذہن سے مہو کیا اور خانساماں کو آواز دی۔
" رحیم چاچا۔۔۔۔۔ رحیم چاچا۔" اس نے رخ کچن کی جانب کر کے پکارا۔
رحیم چاچا ہاتھ پونچھتے ہوئے تیز تیز قدموں سے اس کے پاس آئے۔
"جی کرن بیٹی۔۔۔۔" انہوں نے کرن کے سامنے آکر کہا
کرن نے ٹرے رحیم چاچا کو پکڑائی۔
"یہ اندر حادی کو دے آئے۔۔۔۔۔ اور میرا پوچھے تو کہنا مصروف ہوں۔" کرن نے دھیمی آواز میں کہا۔
رحیم چاچا نے ٹرے پکڑی اور اس کی ہدایت پر سر ہلاتے ہوئے حادی کے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
حادی نے دروازے پر دستک سنی تو سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اسے کافی بھوک لگ رہی تھی۔
" کم اِن" اسے توقع تھی کہ کرن ہوگی لیکن اس کے توقعات کے بر عکس کمرے میں چھوٹے قدموں سے داخل ہوتا ہوا سراپا خانساماں کا تھا۔ حادی کے آبرو تن گئے اس نے حکم کرن کو دیا تھا تو خانساماں کیوں کھانا لے کر آیا اس نے دل میں سوچا۔
رحیم چاچا نے اس کے آگے کھانا رکھا اور گلاس میں پانی ڈالنے لگا۔
"کرن کہاں ہے" حادی نے غصیلی آواز میں پیر ہلاتے ہوئے پوچھا۔
"جی وہ مصروف ہے" انہوں نے سہم کر وہی جواب دہرایا جو کرن نے کہنے کو کہا تھا۔
حادی کو کرن پر شدید غصہ آرہا تھا۔ اس نے حادی کی بات کی تکمیل کرنے سے گریز کیا تھا۔
"ٹھیک ہے تم جاو" اس نے طیش میں خانساماں کے ہاتھ سے چمچ کھینچا اور اسے جانے کا کہا۔
خانساماں تہذیبی انداز میں ہاتھ باندھ کر کمرے سے نکل گیا۔
کرن 4 لقمے کھانا کھا کر اپنے کمرے میں چلی آئی اور اداسی سے کمرے کے وسط میں کھڑی ہوگئی۔ دل کے زخم پھر سے تازہ ہوگئے تھے۔
############ 1 سال پہلے ############
بچپن سے نور نے کرن کو بہن کی طرح مانا تھا اور کرن کو لگتا تھا حادی کی بھی یہی سوچ ہوگی اس لیے نور کی طرح کرن بھی حادی کو حادی بھائی کہہ کر بلاتی تھی۔
آج وہ پہلی چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا۔ سب سے مل کر وہ کپڑے تبدیل کرنے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
حادی اس وقت جینز اور ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھا بال پہلے سے لمبے ہوگئے تھے گلے میں چین کان میں بالی کے ساتھ ساتھ آئی برو پر کٹ بھی لگایا ہوا تھا۔ اس کا صرف رہن سہن کا ڈھنگ ہی نہیں بدلا تھا بلکہ تربیت اور تمدن بھی بدل گئے تھے۔
کرن پانی کا گلاس لیئے اس کے کمرے میں آئی اور اسے گلاس پیش کیا۔
"حادی بھائی۔۔۔ پانی" کرن نے خوشگوار مزاجی سے کہا۔
حادی شرٹ اتارتا اس کے قریب آیا اور گلاس کے بجائے کرن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کرن کے لیے یہ حرکت غیر متوقع تھی وہ لڑکھڑا گئی۔ پانی اس کے کپڑوں پر چھلک گیا۔ وہ حادی کے گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی رہی۔
"حادی بھائی۔۔۔۔ میرا ہاتھ چھوڑے۔۔" اس نے بےچینی سے کہا۔
"تم مجھے بھائی مت کہا کرو" اس نے کرن کے ہاتھ کو مڑوڑتے ہوئے کہا۔
گلاس اب خالی ہو چکا تھا سارا پانی کرن کے کپڑوں پر اور فرش پر گر گیا تھا۔
"کیوں بھائی۔۔۔۔ نور بھی تو بلاتی ہے" کرن کو اب اس کی نظروں سے الجھن ہو رہی تھی وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی۔
"نور تو میری بہن ہے۔۔۔۔۔ اور تم کزن۔۔۔۔۔۔ اور اتنی خوبصورت کزن کو تو میں کبھی بھی بہن نا بناوں۔" حادی نے دل فریبی سے اس پر جھک کر کہا۔
کرن کا دل بھر آگیا آنکھیں آبدیدہ ہوگئی۔ دھڑکن تیز ہوگئی وہ پھر سے ریکویسٹ کرنے لگی لیکن حادی اپنے سارے حدود پار کرنے کے ارادے میں تھا اسے مانو کرن کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس کے گال پر دلکشی سے جھکتے ہوئے حادی نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا اور اس کے بازو تھام لیئے تھے۔ گرم سانسوں کی پھوار چھوڑتے جیسے ہی حادی کے ہونٹ کرن کے گال پر لگے اس کی سانسیں رک گئی اس کے جسم میں لرزش ہونے لگی اسے لگا وہ اس دہلیز کے پار نہیں جا پائے گئی۔ اس کا زمین پھٹ جانے اور اس میں فناہ ہوجانے کا دل کیا۔ کرن نے ہمت کر کے لرزتے ہاتھوں سے حادی کو پرے دھکیلا اور ضبط سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ حادی کو لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہٹتے دیکھا اور الٹے قدم بھاگ آئی۔
اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی سانس پھول چکی تھی ناک سرخ پڑ گئی تھی۔ جسم اب بھی لرز رہا تھا کچھ بھی کر کے اس کا اضطراب قابو میں نہیں آرہا تھا۔ بے یقینی ہی بے یقینی تھی اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ حادی اسے لے کر کبھی ایسی آرزوئیں پالے گا۔ وہ اس نازیبا حرکت کے بارے میں کسی کو بتا بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی چچی تو ہر حال میں اپنے بیٹے کی ہی حمایت کریں گی اور نور کو بتا کر وہ حادی سے اس کا دل خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے بے بسی سے صرف اشک بہا سکتی تھی۔ آج تک تو وہ ذہنی طور پر پریشان ہورہی تھی اور آج فزیکلی بھی ہراساں ہوئی تھی۔ یہ دکھ مر جانے سے زیادہ درد ناک تھا۔ وہ اپنے آپ میں سمٹ کر بیٹھ گئی اور سر گھٹنوں میں چھپا لیا۔
دل ہی دل میں خود کو کوستے ہوئے اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اس کمرے سے باہر نہیں نکلے گی چاہے وہ بھوکی پیاسی مر جائے۔ چاہے چچی اسے گھر سے نکال دیں لیکن وہ اب دوبارہ کبھی حادی کے سامنے نہیں جائے گی۔
اس دن وہ پورا دن کمرے میں بند رہی چچی اور نور کے بلانے پر بھی وہ کمرے سے باہر نہیں نکلی۔ وہ صرف کام کے لیے باہر جاتی اور کچن کا کام نپٹا کر واپس کمرے میں آجاتی۔
اگلے دو دن تک وہ حادی کے سامنے جانے سے گریز کرتی رہی پھر جیسے معاملہ ٹھنڈا پڑ گیا۔ لیکن حادی کے ناپاک ارادے اب بھی موقع کی تلاش میں رہے تھے۔
وہ اس دن کچن میں اکیلے کام کر رہی تھی۔ خانساماں مارکیٹ گیا ہوا تھا نور اپنے کمرے میں تھی اور چچی کسی پارٹی کی زینت بننے گئی ہوئی تھی۔ حادی خاموشی سے کچن میں داخل ہوا۔ کرن کا اس طرف دھیان نہیں تھا وہ اس کے قریب آیا اور چہرے پر آتے بالوں کو پیچھے کرنے لگا۔
"کیا بن رہا ہے" اس نے کرن کے گردن کے پیچے سے دیگچی میں جھانک کر دیکھا
کرن سہم کر تیزی سے اس کے حصار سے دور ہٹ گئی۔
"پلیز حادی بھائی۔۔۔۔۔ میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کیا کریں" اس نے تنے ہوئے اعصاب سے کہا اور رخ موڑ لیا۔
"ہممم Just chill کرن۔۔۔۔۔ میں تو صرف ٹائم پاس کرنا چاہ رہا تھا۔" حادی نے شرارتی انداز میں آبرو اچکا کر وضاحت دی۔
کرن کو اب بھی اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔ لڑکیوں کی چھٹی حس اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ وہ لڑکے کے ارادوں کو اچھے سے جانچ سکتی ہے۔
"مجھ سے دور رہے۔۔۔۔۔ بہتر ہوگا آپ کے لیے۔" اس نے انگلی اٹھا کر تردید کرتے ہوئے کہا۔
حادی نے کرن کا یہ روپ دیکھا تو سنجیدہ ہوگیا اور تاثرات سخت بنا لیے۔ وہ کرن کو اس کے بے حرمتی انداز کا بدلا دینا چاہتا تھا اتنے میں اس کا موبائل بجنے لگا اور وہ باہر نکل گیا۔
کرن نے حادی کو غصے میں آتے دیکھا تو پوری طرح روہانسی ہو گئی تھی لیکن اس کے نکل جانے پر شکر کیا۔
اس دن کے بعد حادی پھر اس کے قریب نہیں آیا۔ کرن بھی اپنی ممکنہ کوشش تک اس کے سامنے آنے سے کتراتی رہی۔ چھٹیوں کے وہ ہفتے اس نے اسی طرح اضطراب میں اور بچتے بچاتے گزارے اور جس دن حادی واپس چلا گیا اس کی زندگی بحال ہوگئی۔ اس نے شکرانے کے نفل ادا کئے اور دوبارہ ایسی حالت سے اللہ کی پناہ مانگی۔
############# موجودہ دن ###########
ایک سال پہلے کے اس تلخ یاد کو مٹانے کو کوشش کرتی وہ اٹھی اور فریش ہونے چلی گئی۔
اس بار حادی کا ہولیہ انسانوں جیسے تھا۔ چھوٹے بال آئی برو پوری رکھی ہوئی اور کان کی بالی بھی ہٹائی ہوئی تھی۔ البتہ چین اب بھی گلے میں ڈالا ہوا تھا۔
شام کی چائے کے لیے وہ خود باہر آیا دن بھر سے اس کی کرن سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اور اب چائے بھی خانساماں سروو کر رہا تھا۔ کرن متذبذب سی صوفے پر بیٹھی تھی۔ نور بھی اس کے ساتھ شاپنگ پر تبصرہ کر رہی تھی۔ کپڑے خوتی جیولری تک ہر چیز 2 لیئے گئے تھے۔ حادی کو حیرانگی ہوئی اور اس نے ماما سے پوچھ لیا۔
"ساری شاپنگ ایک جیسی دو دو کیوں ہے ماما۔۔۔۔۔ کیا آپ بھی نور کے ہمراہ دوسری شادی کر رہی ہو۔" اس نے مذاحیہ ہنستے ہوئے کہا۔
" وہ کرن کی ہے۔۔۔۔۔ اس کی بھی بات پکی ہوگئی ہے۔" نگار بیگم نے اس کے مذاق پر منہ بھسورتے ہوئے کہا۔۔
"What"
حادی کو ایسے جھٹکا لگا جیسے اس پر بجلی گر گئی ہو۔ رنگ فق سے اڑ گیا۔ اس کی اب کی بار کی کرن کو ہراساں کرنے کی تنگ کرنے کی ساری پلاننگ کی ہوائیاں اڑ گئی تھی۔ اس نے رخ موڑ کر کرن کو دیکھا۔ صبح سے پہلی بار اب کرن نے حادی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور فخریہ مسکرائی۔ حادی کے یہ تاثرات دیکھ کر وہ دل ہی دل محظوظ ہورہی تھی۔
حادی کا من کڑوا ہوگیا تھا۔ چونکہ اسے کرن میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں رہی تھی پر وہ چاہتا تھا کہ کرن اسی گھر میں رہے اور جب وہ آیا کریں تو جیسا دل چاہے اس کے ساتھ ویسا برتاؤ کرے لیکن اب اس کے یہ ارمان دل میں ہی رہ گئے تھے۔
اس دفعہ کرن مطمئن تھی اسے حادی سے چھپنے کی ضرورت نہیں تھی پھر بھی وہ اکیلے اس کے سامنے جانے سے کتراتی تھی۔ اس خوف سے کہ کہی وہ پھر سے کوئی ناریبا حرکت نہ کریں ۔
***************&&&&&***************
آخر وہ دن آپہنچا۔ تقریب کی ساری تیاری مکمل ہوگئی تھی۔ رات کھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پکوان زیادہ تر کرن نے ہی بنانے تھے جبکہ باقی خاطر داری کے لیے نگار بیگم نے ایک ماسی بلوا لی تھی۔
کرن اسے ساری چیزیں سمجھا کر تیار ہونے کمرے میں آگئی۔ نور تو صبح سے کمرے سے باہر نکلی ہی نہیں تھی۔ کرن کو تیار ہونے میں صرف ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔
وہ نہا کر آئی اور لمبے بال برش کر کے کھلے چھوڑ دیے۔ سفید زری کے کام والا سوٹ زیب تن کیا۔ برائے نام ہلکا سا میک اپ کیا اور موتی والے چھوٹے بوندے کان میں پہنے۔ خود کو آئینہ میں دیکھ کر اس کی آنکھیں بھر آگئی اچانک سے اسے اپنی ماں کی بہت یاد آرہی تھی۔
کسی اور کے نام ہوجانے کا وہ لمحہ بہت خاص ہوتا ہے اور کرن اپنا یہ خاص لمحہ اپنے والدین کے ساتھ بانٹنے سے محروم تھی۔ اس نے لب کاٹتے ہوئے آنکھیں بند کی اور سارے آنسو اپنے اندر اتارے۔ جلدی سے باقی کی تیاری مکمل کی چوڑیاں پہنی جوتی نکال کر رکھی۔ اذانیں بھی ہو رہی تھی اس نے بالوں میں کیچر لگایا اور دوپٹہ سر پر لے کر مسلحہ پر کھڑی ہوگئی۔ پہلے ظہر کی نماز ادا کی پھر اپنے نئی زندگی کے لئے نفل پڑے۔ انس چاچو ہمیشہ سے اپنے بچوں کو دین کی تلقین کرتے رہیں تھے۔ حادی نے تو کبھی غور نہیں کیا اور نور بھی کبھی کبھار انہیں خوش کرنے نماز پڑھ لیتی البتہ کرن نے باقاعدگی سے ان کے ہر درس پر عمل کیا۔ اس نے چاچو کی زندگی میں ہی دین کی تعلیم حاصل کر لی تھی۔
دعا کر کے بھی وہ وہی مسلحہ پر بیٹھی ذکر کرنے میں مشغول تھی جب دروازے پر دستک ہوئی اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو نور ہڑبڑی میں اندر آئی اس کی تیاری اب بھی پوری نہیں تھی۔ آدھے بال بنے تھے اور آدھے نہیں اور کچھ دیر میں روحان اور رانا صاحب تشریف لانے والے تھے۔
"کرن۔۔۔۔۔ جلدی سے بال بنا دو یار۔۔۔۔۔ مجھ سے نہیں بن رہے۔۔۔۔ دماغ خراب ہو گیا میرا۔ " اس نے آئینہ کے سامنے آکر کہا۔
کرن نے اسے تسلی سے اپنے بیڈ پر بیٹھایا اور اس کے بال بنانے لگی۔
ماسی ان کے لیے کھانا کمرے میں ہی لے آئی تھی۔ نور نے تو اچھے سے کھایا لیکن کرن کا دل نہیں کر رہا تھا اس نے صرف جوس سے کفارہ کیا۔
سہہ پہر باسی پڑ رہی تھی جب کار کا ہارن سنائی دیا۔ کرن کی مدد سے نور بھی تیار ہوگئی تھی۔ استقبال کے لیے نگار بیگم اور حادی موجود تھے۔
کار کی آواز سن کر کرن کا دل دھڑکنے لگا اس نے ہاتھوں سے خود پر ہوا لگائی تا کہ کمپوز رہ سکے۔
معمول کی طرح باڈی مین نے ادب سے کار کا دروازہ کھولا اور رانا صاحب باہر آئے۔ ہمیشہ کی طرح باوقار اور دلکش لگنے میں ماہر۔ روحان بھی ساتھ اترا۔
رانا صاحب روزانہ کے متبادل آج سفید قمیض شلوار میں ملبوس تھے اور روحان بلیک میں۔
ہر ملاقات کی طرح نگار بیگم نے گلے مل کر روحان کا استقبال کیا اور رانا صاحب سے ہاتھ ملا کر۔
"یہ میرا بیٹا ہے۔۔۔ حادی رحمان۔"
نگار بیگم نے حادی کا تعارف کرایا تو روحان آگے بڑھ کر اس سے گلے لگا اور رانا صاحب نے صرف مصافحہ کرنا مناسب سمجھا۔
گیسٹ روم کی بجائے آج لاؤنج میں اہتمام کیا گیا تھا۔ سب نشست پر تشریف رکھ چکے تھے ملازم ان کو لوازمات سروو کر رہے تھے۔ نگار بیگم نور اور کرن کو باہر لے آئی۔ لاؤنج کے جانب گامزن ہوتے ہوئے کرن مسلسل نیچے دیکھ رہی تھی اور رانا صاحب صرف اسے۔ وہی دوسری جانب روحان بھی نور کو دیکھ کر مسرور ہو رہا تھا۔
ان کے بیچ پہنچ کر نور روحان کے ساتھ بیٹھ گئی اور کرن رانا صاحب کے ساتھ۔
روحان اور نور نے ایک دوسرے کو دیکھا تو روحان نے آبرو اچکا کر نور کی تعریف کر دی اور نور فقط مسکرا دی۔ کرن نظریں جھکائے بیٹھی تھی اور رانا صاحب سامنے دیکھ رہے تھے۔ ان کی شخصیت کے ساتھ یہ حرکات مناسب نہیں لگتے اس لیے اپنے جذبات قابو کئے ہوئے سنجیدہ انداز میں نگار بیگم سے گفتگو کر رہے تھے۔
حادی ماما کے ساتھ صوفے پر بیٹھا باری باری کرن اور رانا صاحب کو دیکھتا حیران پریشان تھا۔ اس دن کرن کی بات پکی کے بارے میں جان کر اسے اس کے رشتے کے بارے میں تبصرہ کرنے کا شوق نہیں رہا تھا اور اب یہ حقیقت دیکھ کر شاک ہوگیا تھا۔
تقریب ان ہی چار پانچ افراد کی موجودگی میں کی گئی۔ رشتے کا لحاظ کرتے ہوئے پہلے کرن اور رانا صاحب نے ایک دوسرے کو رنگ پہنائی اور پھر روحان اور نور نے۔
"مبارک ہو بچہ۔" رانا صاحب نے کھڑے ہوکر روحان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مبارکباد کہی اور اسے گلے سے لگایا۔
"آپ کو بھی مبارک ہو رانا بھائی۔" روحان نے خوشی سے ان کے بازو سے لپٹ کر کہا تو رانا بھائی نے شفقت سے اس کے سر پر بوسہ دیا اور پھر نور کے سر پر ہاتھ پھیر کر دعائیں دیں۔
"میرے بچے کو خوش رکھنا۔۔۔۔۔ میں نے بہت لاڈ سے پالا ہے اسے۔۔۔۔۔ کبھی اس کے چہرے پر اداسی نہیں آنی چاہیے۔" رانا صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔
نور نے روحان کو دیکھا اس نے مسکرا کر آبرو اچکائے پھر رانا صاحب کے آگے سر کو جنبش دیا۔
کرن خاموش کھڑی ان کی گفتگو سن رہی تھی۔ جتنا وہ گھبرا رہی تھی اتنا کوئی خطرناک معاملہ نہیں تھا۔ ان کے اوٹ سے نکل کر روحان کرن کی طرف آیا اور اسے مبارکباد پیش کی۔
"مبارک ہو کرن۔۔۔۔۔ رانا بھائی مزاج کے سنجیدہ ہے لیکن دل کے بہت اچھے ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے امید ہے تم ان کے ساتھ خوش رہو گی۔" روحان نے نرمی سے اسے مخاطب کیا۔
کرن نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور رانا صاحب کی جانب دیکھا وہ اپنایت سے مسکرائے۔
نگار بیگم اور حادی نے بھی ان چاروں کو خیر آباد کہا اور سب اپنے نشست پر بیٹھ گئے۔ اگلے مہینے کی 21 تاریخ کو شادی کی تاریخ پکی کی گئی۔ سب نے رضامندی ظاہر کردی تو کرن معذرت کرتی کچن میں چلی گئی اور بال باندھ کر کھانا بنانے لگی۔ رانا صاحب کبھی حادی اور نگار بیگم سے بات کرتے کبھی نور کو مخاطب کرتے اور کبھی اوپن کچن میں دیکھتے جہاں کرن تیزی سے ہاتھ چلاتی نظر آرہی تھی۔
سب نے مل کر کھانا کھایا۔ روحان تو کرن کے ہاتھوں کے پکوانوں کی تعریف کرتے نہیں تھک رہا تھا جبکہ رانا صاحب خاموش رہے۔ میٹھا کھانے کے بعد جانے کے لیے اٹھے اور سب سے رخصت لی۔ رانا صاحب سب سے الوداعی کلمات کہتے کرن کے سامنے آئے اور مصاحفہ کرنے ہاتھ آگے کیا۔
See you soon۔۔۔good bye۔
" گڈ بائے۔۔۔۔۔" کرن نے جھجکتے ہوئے ہاتھ ملایا اور ہلکی آواز میں کہا۔
دونوں نے آگے پیچے اترتے ہوئے پورچ کی سیڑھیاں عبور کی اور اپنی گاڑی میں جا بیٹھے اور گاڑی تیزی سے سڑک پر دوڑ گئی۔
ان کے جانے کے بعد کرن چینج کرنے اپنے کمرے میں جارہی تھی جب بیچ راہ میں حادی مل گیا۔ پہلے تو سر تا پیر کرن کو دیکھا اور پھر زوردار قہقہہ لگایا۔
"ھاھاھاھا۔۔۔۔۔۔ سیریسلی کرن۔۔۔۔۔۔ پورے شہر میں تمہیں یہ ملا تھا شادی کے لیے۔۔۔۔۔ اس سے اچھا تو میں ہوتا۔۔۔۔۔۔ تمہارے ارمانوں پر۔۔۔۔ پورا اترتا۔" اس نے طنزیہ انداز کرن کے کندھے سے کندھا ٹکرا کر کہا۔
کرن نے ضبط سے مھٹیاں مھینچ لی اور غصے سے حادی کو دیکھا تو اس نے استحزیہ مسکرا کر اسے آنکھ ماری۔
جب ایک لڑکی کا کسی سے رشتہ جڑ جائے تو وہ قدرتی طور پر اس سے منسلک ہوجاتی ہے اور اس انسان کو اپنا محافظ بنا لیتی ہے۔ اس وقت کرن کا بھی یہی صورتحال تھا بیشک رشتہ زبردستی ہوا تھا لیکن اس نے خود کو رانا صاحب سے منسلک کر لیا تھا۔
"اپنی حرکتوں سے باز آجائے حادی۔۔۔۔۔۔ مت بھولیئے۔۔۔۔۔ میں اب کسی اور کی امانت ہوں۔۔۔۔۔ کسی اور کی منکوحہ ہوں۔۔۔۔۔" کرن نے سنجیدگی سے سمجھایا۔ حادی آبرو اٹھائے اس کی باتوں سے مسرور ہو رہا تھا۔
"اور آپ رانا صاحب کے رتبے اور پاور سے بے خبر ہے۔۔۔۔ اگر میں نے ان سے شکایت کر دی تو نور کے بھائی ہونے کے باوجود بھی کل تک آپ اس شہر میں نظر نہیں آپائے گے۔۔" کرن نے ہاتھ اٹھا کر اسے تنبیہ کیا۔
حادی کا پارہ چڑھنے لگا اس نے کرن کو بازو سے دبوچ لیا وہ کراہ اٹھی۔
"ابھی دو گھنٹے ہوئے نہیں تمہارا اس بوڈھے سے رشتہ جڑے اور تم مجھے اس کے نام سے دھمکا رہی ہو۔۔۔۔ بہت پر نکل آئے تمہیں۔" اس نے دانت پیستے ہوئے غرانے والے انداز میں کہا۔
وہ اپنی پوری قوت سے کرن کے بازو کو دبوچے ہوئے تھا۔ کرن کو شدید تکلیف ہونے لگی اسے اپنے کہے ہوئے الفاظ پر پچھتاوا ہونے لگا۔ وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی جب وہ نور کی طرف متوجہ ہوئی وہ تیزی سے اسی سمت آرہی تھی۔
"حادی بھائی۔۔۔۔۔ کیا کر رہے ہے آپ۔"اس نے طیش میں کہتے ہوئے کرن کا بازو حادی کے گرفت سے آزاد کروایا۔
نور کی آواز سن کر نگار بیگم بھی کمرے سے باہر آئی۔
"یہ کیا ہورہا ہے یہاں۔۔۔۔" انہوں نے پریشانی سے نور اور حادی کو دیکھا۔
"ماما بھائی کرن کے ساتھ مس بہیو کر رہا تھا" نور نے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا۔
"دیکھیں اپنی لاڈلی کو ماما۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے اس سو کالڈ میاں کے نام سے ڈرا رہی تھی۔۔"حادی نے ہاتھ اٹھا کر کرن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور نگار بیگم کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔
کرن کے حلق میں آنسوؤں کا پھندا لگ گیا تھا اس سے کچھ کہا نہیں جا رہا تھا کچھ دیر پہلے کی ہمت پھر سے زیرو ہوچکی تھی۔ چچی کے خوف سے وہ صرف نفی میں سر ہلاتی رہ گئی۔
نگار بیگم تھکن سے چور چہرے کے ساتھ کرن کے سر پر جا پہنچی۔ کرن نے پلکیں جھپکا کر انہیں دیکھا وہ صرف اسے گھور کر واپس مڑ گئی۔
"آج خوشی کا دن گزرا ہے۔۔۔۔۔ تم تینوں لڑائی جھگڑا کر کے میرا موڈ خراب مت کرو۔۔۔۔ جاو اپنے اپنے کمروں میں ۔" انہوں نے حکم جاری کرتے ہاتھ لہرایا۔
حادی کو لگا کرن کو اب اس سے زبان لڑانے کی سزا ملے گی لیکن اس کے توقعات کے بر عکس نگار بیگم نے معاملہ رفع دفع کرنے کا کہا جس پر اس کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے لیکن نگار بیگم نے اسے چپ کروا دیا۔ وہ ضبط کرتا ہوا لمبےلمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
نور اور چچی بھی چلی گئی تو وہ آنکھیں صاف کرتے ہوئے اپنے کمرے میں بند ہوگئی ۔
************&&&&&************
چینج کر کے رانا صاحب اپنے وسیع و عریض شاہی بیڈ پر لیٹے اور اپنے ہاتھ میں کرن کی پہنائی رنگ دیکھ کر محظوظ ہورہے تھے۔ 11 سال بعد ان کی زندگی میں خاتون آئی تھی پھول جیسی حسین۔ دل میں کرن کی تصویر تھی لیکن دماغ بیلا کا نام پکار رہا تھا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے۔ سلپرز پہن کر اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑے ہوگئے اور سگریٹ جلا لی۔ دل اور دماغ کے کشمکش سے جھولتے وہ تاریک آسمان میں دھواں اڑانے لگے۔
*************&&&&&***************