محمود شاہد سے دستاویزات لے کر وہ ان سے رخصت لیتا ان کے گھر سے باہر آیا اور پارکنگ میں جاتے ہوئے آرین کو کال ملائی۔ ایک جگہ معین کر کے اسے وہاں بلایا اور خود بھی کار سڑک پر لا دی۔
تقریباً ایک گھنٹہ بعد وہ دونوں میز پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
روحان اور آرین ایک ایک کر کے سارے کاغذات دیکھ رہے تھے جس میں اخبارات کے کٹے آرٹیکل، بیلا کی پوسٹ مارٹم رپورٹس، کچھ نیجی چینل کے رانا مبشر کے خلاف اشتہارات، بیلا کا جائیداد رانا مبشر کے نام کرنے کے ڈاکیومینٹز، محمود شاہد اور بیلا کے والد شمس ڈار کے انٹرویوز کے نوٹس، یہاں تک کہ بیلا کی اس پسٹل کا ماڈل اور ڈیزائن جو وہ ہمیشہ اس کے پاس ہوتی اور اس کے انتقال کے دن سے غائب تھی، سب موجود تھے۔
آرین نے سارے کاغذات احتیاط سے واپس فائل میں بند کئے اور روحان کے بجھے بجھے چہرے کو دیکھا جو گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
"آپ کو نہیں لگتا اس سب سے رانا سر بہت برا پھنسے گے۔۔۔۔۔۔۔ معاملہ بہت گھمبیر بن جائے گا۔۔۔۔۔۔ ہمیں یہ دستاویزات عدالت میں نہیں بھیجنے چاہیئے۔" آرین نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
روحان نے لمبی سانس لی اور اپنے جذبات قابو کئے۔
"میں سب جانتا ہوں آرین۔۔۔۔۔۔ لیکن تم شاید اب تک رانا مبشر کو ٹھیک سے پہچان نہیں پائے ہو۔۔۔۔۔۔ کوئی چھوٹا موٹا کیس ہوا تو وہ MNA کو ایک فون کال ملائے گے ایک بھاری رقم کے ساتھ اپنا مینیجر ان کے پاس بھیجے گے اور ایک گھنٹہ میں پھر سے آذاد ہوجائے گے۔۔۔۔۔۔ جب وہ کرن کے لیے میری ساس کو دس کڑوڑ دے سکتے ہے۔۔۔۔۔ تو اپنے لیے تو۔۔۔۔۔۔ پوری دولت لگا دے گے۔" روحان نے آئندہ کے اندیشوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔
آرین کو روحان کی آواز میں چھلکتی تکلیف نمایاں طور پر محسوس ہو رہی تھی۔
"میں چاہتا ہوں کیس پوری طرح ہمارے ہاتھ میں ہو۔۔۔۔۔۔ اور کرن کو بھی کورٹ کچہری کے زیادہ چکر نہ کاٹنے پڑے۔۔۔۔۔ اس لیے یہ سب کرنا ضروری ہے۔" اس نے لب کاٹتے ہوئے کہا۔
آرین نے اسے دلاسہ دینے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے دباؤ دیا۔
"آپ فائنانشل ڈیپارٹمنٹ میں کہاں پڑ گئے۔۔۔۔۔ آپ کو تو آئی ایس آئی میں ہونا چاہیئے تھا۔۔۔۔۔۔ کیا خرافاتی دماغ پایا ہے۔۔۔۔۔۔ کر کیسے لیتے ہو اتنا سب" آرین نے ماحول میں بڑھتا تناو کم کرنے ہنسی مذاق میں کہا۔
"وہ کیا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔ فائنانس میرا پیشہ ہے۔۔۔۔۔ اور سبق آموز ناولز پڑھنا میرا شوق۔۔۔۔۔ دونوں کو مکسر میں ڈال کر نکالو تو روحان بنتا ہے۔" روحان نے فخریہ انداز میں کالر اچکاتے ہوئے اپنے تعریف میں کہا۔
آرین کی مسکراہٹ سمٹ گئی ماضی کی کچھ یادیں تازہ ہوئی اسے یاد آیا جب کرن روحان کے کمرے میں اس کی ناولز کولیکشن پڑھتی تھی ایک آدھ دفعہ تو کوئی دلچسپ کہانی آرین کو بھی سنائی تھی۔ اس نے روحان سے اپنے جذبات چھپانے رخ موڑ لیا اور شیشے کے پار نظر آتی ٹریفک جام پر نظریں جمائی۔
" چلو تم جلدی سے یہ فائل وکیل صاحب کو دے آو۔۔۔۔۔۔ میری ان سے بات ہوگئی ہے وہ ایک دو دن تک آگے کی کاروائی سے روشناس کرے گے۔" روحان نے اپنا فون بٹوہ اور گلاسس اٹھاتے ہوئے کہا اور جانے کے لیے کھڑا ہوگیا۔
آرین اس کے ساتھ کھڑا ہوا اور مظبوطی سے فائل تھامے آگے بڑھ گیا۔
******************&&&&&*****************
کاغذات جمع کروانے کے دو ماہ بعد جواب موصول ہونا تھا۔
ان دو مہینوں کے دوران کرن پابندی سے نمازیں ادا کرتی اور ہر نماز میں یہ معاملہ خیر سے نپٹ جانے کی دعائیں کرتی۔ ہر دن گرزنے کے ساتھ اسے رانا صاحب کے ردعمل سے خوف محسوس ہوتا اس نے اپنے ساتھ روحان اور نور کی بھی زندگی خطرے میں ڈال رکھی تھی آرین اور محمود شاہد کے شمولیت سے تو وہ بے خبر رہے تھے۔
اس دن صبح سویرے ہی وکیل صاحب نے انہیں اپنے دفتر بلایا تھا خلا کے کاغذات روحان کے درج کروائے شرائط و ضوابط کے مطابق تیار ہو کر آگئے تھے۔
"اب بس ان کاغذات پر رانا مبشر صاحب کے دستخط کروانے ہے۔۔۔۔۔ اور اگلی پیشی پر مس کرن کو بھی ایک دفعہ جج صاحب کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا" وکیل صاحب نے آنکھوں سے چشمہ ہٹاتے ہوئے کہا۔
روحان نے تین صفحات پر مشتمل خلا نامہ کی فائل تھامی اور مصافحہ کرتے ہوئے وکیل صاحب سے رخصت لے کر آفس سے باہر آئے۔ کوریڈور میں چلتے ہوئے روحان نے معصومیت سے آرین کو دیکھا۔
"ایسے مت دیکھو مجھے۔۔۔۔۔۔ میں تو اگر ان کے سامنے بھی گیا وہ مجھے شوٹ کر دینگے۔۔۔۔۔۔۔ اور جعلی دستخط کروانے کا سوچنا بھی مت مسٹر جیمز بانڈ۔۔۔" آرین نے ناک سے مکھی اڑاتے ہوئے ہوا میں ہاتھ اٹھائے اور مشہور جاسوس کے نام سے روحان کو مخاطب کیا۔
روحان اس کی بات کا اثر لیئے بغیر سپاٹ انداز میں سامنے چلتا گیا۔ اسے پتہ تھا یہ کام اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا۔ آرین کو بھیج کر وہ فائل لیئے آفس آیا۔
اپنے کیبن میں اضطراب میں بیٹھا 11 بجنے کا انتظار کرنے لگا۔ 11 بجے رانا بھائی کو میٹینگ کے لیے جانا تھا اور وہ صحیح موقع تھا ان کا بنا پڑھے کوئی پیپر سائن کروانے کا۔
" رانا بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ میرے نئے پروجیکٹ کی بجٹ بل پر آپ کے سائن چاہیئے۔" روحان نے ہڑبڑی میں رانا بھائی کو ان کے کیبن کے دروازے پر ہی روک کر کہا۔ رانا صاحب نے ضبط کرتے ہوئے پہلے روحان کو دیکھا پر گھڑی کو جہاں 11 بج چکے تھے۔ انہوں نے تیزی سے جیب سے قلم نکالا اور بنا عنوان دیکھے یا کوئی دستور پڑھے سیدھے سادھے سائن کر دیئے اور روحان کو پرے کرتے کانفرنس ہال کی جانب بڑھ گئے۔ روحان نے سائن دیکھ کر سکون کی سانس لی اور صد شکر ادا کئے۔
اگلے دن روحان اور کرن ساتھ میں نکلے اتنے دیر میں آرین نے روحان کے لیپ ٹاپ پر سے رانا صاحب کے لیپ ٹاپ پر گھر کے کیمرے میں کچھ ٹیکنیکل خرابی کر دی تا کہ کرن کے لوٹنے تک اس کے گھر میں غیر موجودگی کا رانا صاحب کو پتہ نہ چلے۔
عدالتی کمرے میں وکیل صاحب نے جج صاحب کے سامنے کرن کو رانا مبشر کے دستخط شدہ کاغذات پیش کئے اور اسے سائن کرنے کے لیے کہا۔ کرن نے لرزتے ہاتھوں سے پین اٹھایا اس کا دل بھر آنے لگا اسے رانا صاحب ساتھ گزارے 10 ماہ یاد آئے شادی کے پہلے دن سے لیکر اب تک کی ہر یاد اس کی آنکھوں میں لہرا رہی تھی۔ اپنے آپ کو رونے سے روکنے وہ لب کاٹنے لگی۔ روحان نے نظریں گھما کر اس کی جانب دیکھا اور اس کے کندھے کو ہلکے سے جنبش دے کر متوجہ کیا۔ کرن نے خود کو کمپوز کرتے ہوئے آس پاس دیکھا اور پیپر سائن کر دیئے۔
رانا صاحب آفس کا چکر کاٹ کر اپنے کیبن میں آئے اور نشست سنبھال کر لیپ ٹاپ پر گھر کی مصروفیات دیکھنے کی کوشش کرنے لگے لیکن کچھ کھٹک محسوس ہوئی صفحہ جام ہوگیا تھا اس میں کوئی حس و حرکت نہیں ہورہی تھی۔ وہ بار بار صفحہ ریفریش کرنے لگے لیکن کچھ نہیں ہو سکا۔ وہی دوسری جانب آرین روحان کے لیپ ٹاپ پر بٹن دباتے رانا صاحب کی کوششیں ناکام کرنے میں لگا رہا۔
جیسے ہی کرن گھر نے اندر داخل ہوئی اور کمرے میں جا کر چادر اتاری یہاں آرین نے کلک کر کے لاک ہٹایا اور وہاں رانا صاحب کے لیپ ٹاپ پر ویڈیو بحال ہوگئی۔
کرن کو گھر میں موجود دیکھ کر رانا صاحب تسلی ہوئے اور اپنے کام میں جٹ گئے۔
سارا معاملہ ان کے پلان کے مطابق چل رہا تھا اب انہیں پولیس اور عدالت کے اگلے اقدام کا انتظار تھا۔ جس دن پولیس کی ریڈ متوقع تھی نور صبح صبح ہی کرن کے کہنے پر روحان کو اپنے ساتھ باہر لے گئی تھی۔ جب رانا مبشر کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو روحان نور کو سیدھے ایرپورٹ لے گیا۔
"نور تم کچھ دنوں کے لیے U.S چلی جاو۔" ایرپورٹ کے پارکنگ میں کھڑے ہو کر روحان نے نور کو ہدایت دی۔
"لیکن کیوں روحان۔۔۔۔۔۔۔ سب کچھ ٹھیک تو چل رہا ہے۔" نور نے متفکر انداز میں کہا۔
"ہاں لیکن۔۔۔۔۔ میں کوئی رسک نہیں لے سکتا۔" روحان نے اپنا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
"لیکن میں تمہیں اس حال میں اکیلے چھوڑ کر نہیں جاو گی۔" نور نے منہ بھسورتے ہوئے کہا اور ہاتھ باندھ کر رخ موڑ لیا۔
"سمجھنے کی کوشش کرو نور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر بات بگڑ گئی تو مجھے کچھ نہیں ہوگا رانا بھائی مجھے کبھی نقصان نہیں پہنچائے گے۔۔۔۔۔۔ لیکن تمہیں کچھ دن منظر عام سے غائب ہونا پڑے گا۔۔۔۔۔۔ پلیز میری جان۔۔۔۔۔۔ میری خاطر۔۔۔۔" روحان نے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
نور نے افسردگی سے اسے دیکھا اور آبدیدہ آنکھوں سے اپنے شوہر کے بانہوں سے جا لگی۔ روحان نے شفقت سے اس کے پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے اس کا پاسپورٹ اور ٹکٹ پکڑائے جو وہ دو دن پہلے ہی اس موقع کے لیے تیار کر چکا تھا۔ نور کو الوداع کرتے وہ واپس کار میں سوار ہوا اور پولیس سٹیشن کے طرف کار چلا دی۔
ایک انسان کے غلط رویئے نے سب کی زندگیوں میں بوال مچا کر رکھ دیا تھا۔ روحان اپنے باپ جیسے رانا بھائی سے محروم ہوگیا تھا۔ نور اپنی ماں سے تو خفا تھی حادی بھائی سے بھی رابطہ نہیں رہا تھا اور اب روحان سے بھی دور جانا پڑ رہا تھا۔ کرن کا ہنستا گھرانا اجڑ چکا تھا آرین کو پیار میں ناکامی ملی تھی بیلا اپنی زندگی ہی گنوا چکی تھی اور خود رانا مبشر کال کوٹھڑی میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔
############# موجودہ دن #############
روحان روتے روتے وہی رانا بھائی کے کمرے کے فرش پر ہی سو گیا تھا صبح صادق اس کی آنکھ فون بجنے سے کھلی۔ فرش پر سوئے رہنے سے اس کی کمر اکڑ گئی تھی۔ اس نے انگڑائی لیتے کمر کو ورزش دیتے کال اٹھائی وہ نور کی کال تھی اور اپنے امریکہ پہنچنے پر اسے با خبر کر رہی تھی۔ روحان نے کچھ دیر اس سے حال احوال دریافت کر کے فون بند کیا اور گردن دائیں سے بائیں گھماتے درد کم کرنے کی کوشش کرتا اپنے کمرے میں آگیا۔
9 بجے تک تیار ہوکر وہ عدالت کے لیے روانہ ہوگیا۔ آج رانا مبشر کی پیشی تھی۔ کورٹ کے سامنے کھلبلی مچی تھی میڈیا کے لوگ مجمع بنائے کھڑے تھے۔ جیسے ہی پولیس کی وین عدالت کے حدود میں داخل ہوئی میڈیا کے اہلکاروں میں واویلا مچ گیا سب ایک ساتھ رانا مبشر کے جانب چھڑپ پڑے جنہیں سیکیورٹی کے دائرے میں عدالتی ہال میں لے جا رہے تھے جرنلسٹ کے ریلے نے سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی تھی لیکن رانا مبشر خاموشی سے تیز تیز آگے بڑھ رہے تھے ویسے ہی روحان پر بھی سوالوں کی برسات ہورہی تھی وہ اپنے باڈی گارڈز کے گھیرے میں بھاگتا ہوا عدالتی ہال میں داخل ہوا اور اپنی نشت پر جا بیٹھا۔
جج صاحب نے سب کا احترام وصول کرتے ہوئے کارروائی شروع کرنے کا حکم دیا۔
رانا مبشر روحان کو نظرانداز کرتے ہوئے سپاٹ انداز میں کٹھڑے میں کھڑے سامنے دیکھ رہے تھے البتہ کرن منظر عام سے اوجھل تھی اس کی ساری وکالت اس کا وکیل کر رہا تھا۔
کارروائی کے چلتے دونوں وکلا میں خوب بحث و مباحثہ ہوتا رہا اور آخر میں مکالمہ ختم ہونے لگا تو رانا مبشر کے وکیل نے کرن کے کردار پر جملے کسنا شروع کئے۔ روحان کے آبرو تن گئے لیکن وکیل صاحب نے آنکھ کے اشارے سے اسے ضبط کرنے کا کہا تو روحان نے جبڑے سخت کر دیئے اور مٹھیاں میچھ کر رخ موڑ لیا۔
"جج صاحب۔۔۔۔۔۔ وہ تھی ہی بد چلن عورت۔۔۔۔۔۔۔ رانا صاحب کے نکاح میں ہو کر بھی دوسرے مردوں سے روابط رکھے تھے۔۔۔۔۔۔۔ رانا صاحب کے پیٹھ پیچھے چپ چپ کر غیر مردوں سے ملتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی عورتیں گھر نہیں بسا سکتی۔۔۔۔۔۔ وہ بس اپنے حوس کے لیے الگ الگ درجے کے مردوں کو آزماتی ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔ " وکیل صاحب نے ایک کے بعد دیگر نازیبا کلمات کہنے شروع کئے۔ وہ اور بھی جملے کستا کہ رانا صاحب نے اسے مخاطب کیا۔
"جعفر۔۔۔۔" انہوں نے تنے ہوئے اعصاب سے گھور کر اسے دیکھا تو وہ چپ ہو گیا۔
عدالتی کمرے میں سناٹا چھا گیا جرنلسٹس کی چی مگوئیاں بھی خاموش ہوگئی۔ روحان نے تعجب سے رانا بھائی کو دیکھا۔
جج صاحب نے رانا صاحب کو اپنے وکیل کو چپ کرواتے دیکھا تو غور سے رانا صاحب کے جانب متوجہ ہوئے
"مسٹر رانا مبشر۔۔۔۔۔۔ آپ کو اپنے دفاع میں کچھ کہنا ہے۔" جج صاحب نے رعب دار آواز میں کہا
رانا مبشر نے نظریں گھما کر اس عدالتی کمرے میں موجود افراد پر نظر گردانی کی اپنے سٹاف ممبران کے علاوہ انہیں کئی نئے چہرے بھی دکھے۔ میڈیا رپورٹرز کی تنقیدی نظریں خود پر محسوس کی۔ آخری کے قطار میں کونے کی سیٹ پر انہیں محمود شاہد بیٹھے ہوئے نظر آئے ایک پل کے لیے رانا صاحب کو محمود سے ہوا آخری جھگڑا یاد آیا جس میں انہوں نے رانا صاحب کو ان کے مستقبل سے رونما کیا تھا۔
رانا مبشر نے سرد سانس خارج کی اور رخ جج صاحب کی جانب کیا۔
"نہیں جج صاحب۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہنا۔۔۔۔۔۔ پراسیکیوٹر صاحب کے لگائے سارے الزامات سچ ہے۔۔۔۔۔ بیلا کی موت سے لیکر کرن کے خلا کے مطالبے تک ہر چیز کا ذمےداری میں ہوں۔" رانا مبشر نے اپنے اسی با اعتماد لہجے میں کہنا شروع کیا۔
ان کا اعتراف سن کر روحان اور محمود سمیٹ سارے وکلا اور خود جج صاحب بھی دنگ رہ گئے۔ رپورٹرز کی انگلیاں تیری سے ان کا بیان درج کرنے لگی۔
"یہ کیا کر رہے ہے رانا صاحب۔" ان کے وکیل نے کٹھڑے کے قریب آکر سرگوشی کے انداز میں کہا اور بے بسی سے پیچھے کھڑے ڈی آئی جی صاحب کو دیکھا جو دانت پیستے رہ گئے تھے۔
"آپ یہ اعتراف اپنی مرضی سے کر رہے ہے مسٹر رانا۔" جج صاحب نے تصدیق چاہی۔
"جی بلکل جج صاحب۔۔۔۔۔۔ میں اپنے پورے ہوش و حواس میں اپنے ہر جرم کا اعتراف کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔ معزز پراسیکیوٹر صاحب نے جو جو شواہد پیش کئے ہے۔۔۔۔ وہ بنا کسی کھوٹ کے سو فیصد درست ہے" رانا مبشر نے بنا کسی کے ردعمل کا اثر لیئے سب جرائم قبول کر لیئے۔ ان کی شکست کے ایثار ان کے چہرے پر نمایاں طور پر نظر آرہے تھے لیکن وہ ضبط کئے کھڑے رہے۔
دفاعی وکیل نے طیش میں آکر ہاتھ ہوا میں اٹھا دیئے قلم اچھالتا ہوا اپنی نشست پر جا بیٹھا اور رانا مبشر کی بیوقوفی پر سر پکڑ لیا۔
جج صاحب نے ان کے سامنے پڑے دستاویزات ایک مرتبہ پھر مشاہدہ کئے اور سب کو چپ کروا کر فیصلہ سنانے لگے۔
"سارے ثبوتوں اور گواہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے۔۔۔۔ اور بھری عدالت میں رانا مبشر کا اعتراف سن کر۔۔۔۔۔ کہ بیلا شمس پر تشدد کر کے انہیں خودکشی پر مجبور کرنے اور کرن جمیل پر تشدد کر کے انہیں خلا کے مطالبے تک پہنچانے میں رانا مبشر ذمےدار ہے۔۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ اپنے آفس کے کارکنان اور گھر کے ملازمین پر بھی ظلم ڈھانے کا جرم کرتے رہے ہے۔۔۔۔۔ یہ عدالت رانا مبشر کو ان کے جرائم کے لیے 13 سال قید کی سزا۔۔۔۔۔ اور مس کرن جمیل کو حق مہر کے 5 کڑوڑ ادا کرنے کا حکم سناتی ہے۔۔۔۔۔۔۔" جج صاحب نے فیصلہ سنا کر عدالت برخاست کر دی۔
رانا مبشر نے کرب سے آنکھیں بند کر کے لمبی سانس لی اور روحان نے افسردگی سے آنکھیں موند کر بہت سارے آنسو اپنے اندر اتارے۔ وکیل اس کے پاس آیا اور اسے دلاسہ دیتے ہوئے رانا صاحب کی سزا کم کروانے کا اپنا وعدہ یاد کروایا۔ وہ سر کو جنبش دیتے ہوئے اٹھا اور رانا صاحب کی جانب لپکا جو پولیس اہلکاروں کے حصار میں کورٹ سے باہر جا رہے تھے۔
"رانا بھائی۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔۔۔ رانا بھائی" روحان نے ان کے گلے لگ کر روتے ہوئے کہا۔
رانا مبشر اپنے جذبات قابو کئے ہوئے روحان کو خود سے الگ کرنے لگے لیکن اس نے مظبوطی سے انہیں جکڑ رکھا تھا۔ عدالتی کمرے میں افراتفری ختم کرنے ڈی آئی جی آگے آیا اور اپنے دو تین اہلکاروں سمیت روحان کو بازوں سے جکڑ کر پیچے گھسیٹنے لگے۔ رانا صاحب اس کی گرفت سے آذاد ہوئے تو سیکورٹی فورسز سب کو پرے دھکیلتے ہوئے ان کو پولیس موبائل تک لے گئی اور ان کے سوار ہوتے ہی گاڑی تیزی سے روانہ ہوگئی۔
روحان پیچے ان کو پکارتا رہ گیا۔ وکیل صاحب اس کو تسلی دیتے گھر لے آئے اور اس کے سنبھل جانے تک وہی بیٹھے رہے۔
***************&&&&&*************
############## 3 ماہ بعد #############
تین ماہ تک لگاتار کوششوں کے بعد رانا صاحب کی سزا کم کرنے کی عرضی منظور ہوگئی۔ اس دورانیے میں رانا مبشر نے اپنے سٹاف اور وکلا کی ٹیم کو خاص تردید کر رکھی تھی کہ کہی سے بھی اس کیس میں روحان کے ملوث ہونے کی خبر میڈیا تک نہ پہنچے۔ ان کی پرسنیلٹی تو متاثر ہوگئی تھی لیکن روحان کے کردار پر اثر نہیں ہونا چاہیئے اس لیے وہ ہر ممکن جرنلسٹس سے دور رہتے اور روحان بھی کسی بھی قسم کا بیان دینے سے گریز کرتا رہتا۔ نور ایک ماہ بعد واپس آگئی تھی۔ نگار بیگم اپنے دونوں بچوں کے بے رخی کے باعث کافی بیمار رہنے لگی تھی۔ کرن کے ہی نصیحت پر نور نے اپنی ماما کو معاف کر دیا تھا اور پھر سے رابطے بحال کر لیئے تھے۔
آج رانا مبشر کی آخری پیشی تھی جس میں ان کی سزا کی مدت کم کروانے کا فیصلہ کیا جانے والا تھا۔ 13 سال کی بجائے کم کروا کر قید 9 سال کرنے کا فیصلہ ہوا پر رانا مبشر نے اسی مدت تحویل کو منظور کیا جو پہلے دن متعین کیا گیا تھا۔ روحان رانا مبشر کے اس سر زوری پر تپ کے رہ گیا پھر بھی دو گھنٹے ججوں اور وکلا سے منہ ماری کر کے اس نے کھانا پینا گھر سے بھجوانے اور ہر ہفتہ ان سے ملنے آنے کا فیصلہ منظور کروایا جس پر رانا مبشر نے خاموشی اختیار کر لی۔ عدالتی نظام سے نکل کر ایک جگہ وہ دونوں بھائی رکے۔ رانا صاحب نے مینیجر کے ہاتھ سے فائل لے کر روحان کو تھمائی جس میں انہوں نے ساری پاور آف اٹارنی اس کے نام کر دی تھی۔
"مجھے یہ سب نہیں چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے میرے رانا بھائی واپس چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز رانا بھائی۔۔۔۔۔۔۔ آپ جب مجھے نظر انداز کرتے ہے مجھے بہت ہرٹ ہوتا ہے۔" روحان نے فائل کے بجائے ان کے ہاتھوں کو تھام کر التجا کرتے ہوئے کہا۔
رانا مبشر زخمی مسکرایا 3 ماہ میں ہی داڑھی اور سر کے بال پورے خاکی پڑ گئے تھے رنگ پھیکا ہوگیا تھا۔ نور ان کو اس حال میں دیکھ کر آبدیدہ ہوگئی۔ رانا بھائی نے فخریہ انداز میں روحان کو کندھوں سے تھاما
"مجھے ناز ہے تم پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے خون کے رشتہ سے زیادہ انسانیت کے جذبہ کو ترجیح دی۔۔۔۔۔۔۔ اتنی ہمت کسی میں نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔ i am proud of you۔۔۔۔۔۔۔ " انہوں نے روحان کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔
"میرے بچے کا خیال رکھنا" انہوں نے رخ موڑ کر نور کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا اور جاتے جاتے پھر سے روحان کو مخاطب کیا۔
"اور تم۔۔۔۔۔۔ میری بہو کو زیادہ تنگ مت کرنا" جاتے جاتے انہوں نے روحان کا کان کھینچ کر ہدایت دی اور بھیگی آنکھوں سے وین کی جانب گامزن ہوئے۔
"کاش انہیں پہلے اپنی غلطیوں کا احساس ہوا ہوتا۔۔۔۔۔۔ آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا" نور نے کپکپاتی زبان سے بہتے آنسوؤں سے کہا۔ روحان نے لب کاٹتے ہوئے نور کو چپ کروانے اس کا سر اپنے سینے سے لگایا اور اپنی کار کی جانب بڑھ گئے۔
***************&&&&&***************