لہجا ایسا ہتھیار ہے جس سے کوئی انسان کو اپنا بھی سکتا ہے اور دور بھی کر سکتا ہے۔ رانا صاحب کے سخت لہجے نے کرن کو ان سے دور کر دیا تھا ویسے ہی آرین کی دو تین ملاقاتوں کے نرم لہجے نے کرن کو اس کی طرف مائل کر دیا تھا۔
وہ لاشعوری طور پر ٹیرس پر بیٹھ کر آرین کا انتظار کرتی اور سر کتاب پر جھکائے انجان بننے کی اداکاری کرتی رہی لیکن آرین نہیں آیا۔ اس کا دل اچھاٹ ہوگیا تھا کتاب پڑھنے کا بھی مزا نہیں آرہا تھا تو وہاں سے اٹھ گئی۔
اگلے دن اس نے رانا صاحب سے پوچھ کر ڈرائیور کے ہاتھوں کچھ اردو ناول بھی منگوا لیئے تھے۔ دل ہی دل میں اپنے آپ کو آرین کا انتظار کرنے پر کوستی وہ ٹیرس پر بیٹھی اردو ناول پڑھ رہی تھی جب اس نے سامنے دیوار پر سایہ نمودار ہوتے دیکھا اس نے مسکراہٹ دبائے ہوئے نظریں نیچے کر لی اور سپاٹ تاثرات بنائے کتاب پڑھنے کی اداکاری کرنے لگی۔
آرین دبے پاؤں آیا اور کچھ کہے بنا دو فٹ کے فاصلے سے اس کے ساتھ بینچ پر بیٹھا اور انجان بن کر نظریں گھماتا ہوا ٹیرس کے نظارے کرنے لگا۔
پیر ہلاتا ہاتھ باہم مسلتا وہ کرن نے ردعمل کا انتظار کرنے لگا اسے لگا کرن پھر اس پر جھڑپے گی اور سناتے ہوئے اندر چلی جائے گی لیکن اس کے توقعات کے بر عکس کرن خاموش بیٹھی رہی اور اپنے آگے پڑا کافی کا مگ کھسکا کر آرین کے آگے کیا۔ آرین کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی اس نے بے یقینی سے کرن کو دیکھا جو ابھی بھی کتاب پر نظریں جمائے ہوئے تھی پھر کافی کے مگ کو دیکھا جس سے ابھی بھی گرم بھاپ نکل رہے تھے۔ اس نے چہکتے ہوئے ہاتھ بڑھایا اور مگ اٹھا کر کافی پینے لگا۔ کرن نے کتاب بند کر کے رکھی اور مسکراہٹ دبائے ہوئے اسے دیکھنے لگی۔
"تھینکس۔۔۔۔۔ کافی بہت اچھی تھی" آرین نے کافی ختم کر کے مگ واپس ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
"تم باز نہیں آو گے نا" کرن نے سنجیدگی سے کہا
آرین نے اس کی بات سے مسرور ہوتے ہوئے ہنسی دبانے لب مینچھے اور نفی میں سر ہلایا۔
کرن لمبی سانس لیتی آبرو اچکا کر سامنے دیکھنے لگی
"ڈر نہیں لگتا۔۔۔۔۔ رانا صاحب کو پتہ چلا تو جانتے ہو نا کیا حشر ہوگا" اس نے ساتھ پڑے گلاب کے کھلے پھولوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"زندگی میں جب تک adventure نا ہو جینے کا مزا نہیں آتا۔۔۔۔۔۔ میں تو کہتا ہوں جب تک طاقت ہے انسان کو پوری طرح مزے لے کر جینا چاہئے۔" آرین نے ہاتھ ہوا میں لہرا کر جوشیلے انداز میں جواب دیا۔
کرن اس کی خوش مزاجی اور اعتماد سے محظوظ ہو رہی تھی۔ آرین نے بات کرتے کرتے کرن کو دیکھا وہ مسکرا رہی تھی۔
"ہمیشہ ایسے خوش کیوں نہیں رہتی۔۔۔۔۔ اچھی لگتی ہو۔" آرین نے شفقت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
کرن کی مسکان سمٹ گئی اس کے پاس آرین کے اس سوال کا جواب نہیں تھا وہ رخ پھیر کر دوسرے جانب دیکھنے لگی۔ اسے گم سم ہوتا دیکھ کر آرین بھی سنجیدہ ہوگیا۔
"ویسے۔۔۔۔۔۔ میرے دوست تمہیں سکیم گرل سمجھتے ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہی جو دولت شہورت کے لیے بڑے بزنسمین سے سیٹ ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر مجھے ایسا نہیں لگتا۔۔۔۔۔۔۔ شاید کہانی کچھ اور ہے۔" آرین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا اور کرن کو دیکھا کہ شاید وہ اسے کہانی بتا دیں لیکن وہ اب بھی چپ تھی تو آرین نے سرد آہ بھری وہ کرن کو مزید اضطراب میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا اس لئے موضوع بدل دیا اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ کتاب اٹھائی جو وہ اس کے آنے سے پہلے پڑھ رہی تھی۔
" کس چیز کی کتاب ہے۔۔۔۔ کیا پڑھ رہی تھی میرے آنے سے پہلے۔" اس نے صفحات پلٹاتے ہوئے پوچھا۔
"ہر کوئی پریشان ہے میرے کم بولنے سے
اور میں تنگ ہوں اپنے اندر کے شور سے۔"
کرن نے وہ شعر دہرایا جو اس نے کتاب میں پڑھا تھا
"واہ" آرین نے داد دیتے ہوئے کہا حالانکہ اسے شعر و شاعری کی سمجھ نہیں تھی پر وہ کرن کی حوصلہ افزائی کرنے داد دینے لگا
"سنا تھا تیرے شہر میں وفا ملتی ہے
ٹوٹے ہوئے دلوں کی دوا ملتی ہے
یہی سوچ کر آئے تھے ہم تیرے شہر میں
مگر یہاں تو کھول کر جینے کی سزا ملتی ہے۔"
یہ شعر سناتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوگئی اسے رانا صاحب یاد آگئے وہ دیوار کے جانب رخ کر گئی اسے آرین کے سامنے جذباتی نہیں ہونا تھا۔ کرن معذرت کرتی ہوئی اٹھی اور اندر چلی گئی۔ آرین نے بھی اسے نہیں روکا وہ کرن کو ہنسانا چاہتا تھا نہ کہ رولانا تو خاموشی سے واپس دیوار پھلانگ کر چلا گیا۔
کمرے میں آکر وہ واشروم چلی گئی اور منہ پر پانی کی کچھ چھینٹے ڈالے۔ لمبی سانس لیتے ہوئے خود کو کمپوز کرنے لگی۔
"پتا نہیں جذبات میں آکر میں نے آرین کے سامنے کیا کچھ کہہ دیا" اس نے پھر سے منہ پر پانی ڈالتے ہوئے سوچا۔
"نہیں کرن۔۔۔۔۔۔ تمہیں کسی کے سامنے کمزور نہیں پڑنا ہے۔" وہ خود کو تردید کرتے ہوئے سیدھی ہوئی۔
"مجھے اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر میں شادی شدہ ہوں اس طرح آرین کے ساتھ بیٹھنا ٹھیک نہیں ہے" وہ دل ہی دل خود کو برا بھلا کہتی مایوسی سے باہر آئی اور بیڈ پر لیٹ گئی۔
***********&&&&*************
اگلے دن وہ آرین کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹیرس پر جانے سے گریز کرتی رہی جب مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ گزر گیا وہ ٹیرس پر گئی تو آرین اب بھی وہاں موجود تھا اس نے اپنے آنے کی غلطی پر سر پکڑا۔
"تمہیں اور کوئی کام نہیں ہے۔۔۔۔ آفس ٹائم میں نکل کر آجاتے ہو۔۔۔ کوئی کچھ کہتا نہیں ہے تمہیں۔" اس نے جھڑکتے ہوئے کہا۔
"وہ کیا ہے نا۔۔۔۔۔۔ آپ کے شوہر نہایت خڑوس ہے۔۔۔۔۔۔ میرا کام پسند ہی نہیں آتا۔۔۔۔۔ دو ماہ سے صرف ٹرائل پر ہی رکھا ہوا ہے۔۔۔۔ کوئی ڈھنگ کا کام دیتا ہی نہیں ہے۔" آرین نے چڑتے ہوئے جواب دیا۔
کرن قدم قدم چل کر آئی اور بینچ پر بیٹھ گئی تو آرین بھی ساتھ بیٹھ گیا۔
"ویسے۔۔۔۔۔۔ تم نے اب تک میرے سوال کا جواب نہیں دیا" آرین نے اسے اپنا سوال یاد کروایا تو کرن پھیکا مسکرائی۔
کرن نے سرد آہ بھری اور آسمان کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔
"رانا صاحب سے میری شادی ایک مجبوری کے تحت ہوئی۔۔۔۔۔ پر میں نے اس رشتہ کو تسلیم کر لیا رانا صاحب کو قبول کیا۔۔۔۔۔ شروع شروع میں وہ بہت اچھے تھے میرا بہت خیال کرتے تھے لیکن۔۔۔۔۔۔ پھر ان کا رویہ بدلتا گیا۔۔۔۔ بات بات پر جھڑکنا ہاتھ اٹھانا ۔۔۔۔" کرن نے ایک کے بعد دیگر آرین کو ساری داستان سنا دی۔
والدین کی موت، انس چاچو کی شفقت لیکن پھر ان کا انتقال، نگار چچی کا اس سے ملازمہ جیسے سلوک کرنا، نور کی محبت اور دوستی، حادی کی ہراسمنٹ، رانا صاحب سے ملاقات پھر ان کی شرط، چچی کا ان سے پیسے وصول کرنا، اور پھر رانا صاحب کی سختی ان کی سموکنگ ڈرنکنگ ہاتھ اٹھانا ڈانٹنا اور اپنی بے بسی کی ساری سچائی سنا دی۔
آرین دم سادھے اسے سنتا گیا اسے کرن کی آپ بیتی سن کر بہت ہمدردی ہورہی تھی۔ کرن کو ناگہانی میں پتہ نہیں چلا بات کرتے کرتے اس نے کب آرین کے کندھے پر سر رکھ لیا تھا۔ آرین نے ہمدردی سے ہاتھ بڑھا کر دلاسہ دینے اس کے رخسار پر ہاتھ رکھا۔
کرن کو جب اپنے چہرے پر اس کے لمس کا احساس ہوا تو جھٹ سے اس کا ہاتھ ہٹایا اور گڑبڑا کر دور ہوگئی۔
بالوں کو پیچھے کرتے اس نے موضوع بدل دیا ۔
"خیر میری چھوڑو تم اپنی بتاو" کرن نے پیر اوپر کئے اور بازو پر چہرہ ٹھکائے معصوم نظریں آرین پر جمائی۔
آرین نے سستاتے ہوئے رخ کرن کے جانب کیا۔
"میں پنجاب کے چھوٹے سے گاوں سے تعلق رکھتا ہوں۔۔۔۔ فیملی میں ماں باپ ہیں ایک چھوٹی بہن ہے۔۔۔۔۔۔ گاوں کے پرائویٹ اسکول میں پڑھاتا تھا۔۔۔۔۔ پھر چھوٹی آنکھوں میں بڑے خواب لے کر شہر آیا سوچا اچھی نوکری ملے گی اچھا کماوں گا۔۔۔۔ ماں باپ کا سہارا بنوں گا۔۔۔۔۔ یہاں آکر پتا چلا میرے جیسے ہزاروں نوجوان در در بھٹک رہے ہیں۔۔۔۔۔ ایک دوست رانا سر کا employee ہے۔۔۔۔۔ اسے دیکھ کر مجھے بھی رشک آیا۔۔۔۔ اس شہر میں ایسا کون ہے جو رانا مبشر کے آفس میں نوکری نہ کرنا چاہے گا۔۔۔۔ اسی دوست کے سفارش سے رانا سر کے ہاں ٹرائل پر editor کی نوکری ملی اور پچھلے دو مہینوں سے ٹرائل پر ہی چل رہا ہوں۔۔۔۔۔ وہاں گاوں میں ماں باپ سوچتے ہے بیٹا کمائے گا اچھا گھر بنا کر دیگا ہمیں حج عمرہ کروائے گا۔۔۔۔۔ بہن کی امیدیں ہے بھائی اس کی دھوم دھام سے شادی کروائے گا۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کبھی ان کی امیدوں پر پورا اتروں گا بھی کہ نہیں۔" اس نے مایوسی سے کہا۔
"ایسے کیوں سوچتے ہو۔۔۔۔۔ جن میں کچھ کرنے کا آگے بڑھنے کا جذبہ ہو وہ ضرور کامیاب ہوتے ہے۔۔۔۔۔۔ تم میں بھی یہ جذبہ ہے۔۔۔۔ ایک دن اپنی منزل تک ضرور پہنچو گے۔" کرن نے خوش دلی سے اس کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
آرین نے چمکتی ہوئی آنکھوں سے سر ہلا کر ہامی بھری۔
"اور اپنے لیے کیا سوچا ہے۔۔۔۔۔ کوئی گرل فرینڈ؟" کرن نے شرارتی انداز میں آبرو اچکا کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"اب تک ایسی کوئی ملی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ اب جو پسند آئی تو۔۔۔۔۔ وہ شادی شدہ نکلی۔" آرین نے گہری نظر سے کرن کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
کرن اس کی نظروں سے چھنپ گئی اور رخ موڑ لیا۔
************&&&&&**************
ملاقاتوں کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ آرین روز اس کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر آتا جو کبھی شادی سے پہلے کرن کالج یا یونیورسٹی میں کھایا کرتی تھی۔ کبھی برگر تو کبھی چنہ چاٹ تو کبھی گول گپے کبھی بھٹہ گولہ یا کبھی شکر کند۔ کرن خوشی سے چہک اٹھتی اور مزے لے لے کر کھاتی۔ آرین اپنے دوست رفیق اسلم سے سنے سارے لطیفے اسی انداز میں کرن کو سناتا اور کرن ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتی۔ ہر روز وہ خود کو ملنے سے روکتی آرین سے پھر نہ ملنے کی قسمیں کھاتی لیکن ہر دن دل کے ہاتھوں مجبور ہوجاتی۔ آہستہ آہستہ اس کے مزاج میں مثبت تبدیلی آرہی تھی اپنی زندگی کی حقیقت کو بھلائے وہ آرین سے مل کر خوش رہنے لگی تھی۔ اسے روز صبح ہونے کا انتظار ہوتا اور اگر کسی روز مصروفیات کی وجہ سے آرین نہ آپاتا تو کرن پورا دن ناک چڑائے بیٹھ جاتی اسے آرین کی عادت سی ہوگئی تھی۔ یہ ایک ماہ کیسے گزرا اسے اندازہ بھی نہیں ہوا۔ آنکھ تب کھلی جب رانا صاحب واپس لوٹے۔
اس صبح وہ سیڑھیوں کے سرے پر کھڑی ہوگئی تھی جب ملازم رانا صاحب کے بیگز اندر لایا اور اوپر کمرے میں رکھنے بھاگ گیا۔ اس کے پیچے رانا صاحب اپنی بزنس مین کے ہولیے میں چلتے کرن کے قریب آئے اور اسے اپنے بانہوں کے حصار میں مظبوطی سے لے لیا۔
"کرن۔۔۔۔۔۔ i missed you so much۔۔۔۔" انہوں نے اس کی کمر سہلاتے ہوئے کہا۔
کرن کا دل ڈوبنے لگا پچھلے دنوں سے آرین کے ساتھ وہ بھول ہی گئی تھی کہ رانا صاحب نے واپس بھی آنا ہے یہ ان کا گھر ہے اور وہ ان کی بیوی۔ ان کی بانہوں میں آکر کرن لب کاٹنے لگی۔
"کیسی ہو تم۔۔۔۔۔۔ کافی چینج لگ رہی ہو۔۔۔۔۔ لگتا ہے مجھے بہت مس کیا ہے" رانا صاحب نے اس کے چہرے کو چومتے ہوئے کہا اور اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ کمرے میں لے جانے لگے۔ وہ اس سے اپنے ٹرپ اور اس کے لیے لائے تحائف کے بارے میں بتاتے رہے اور کرن گلا تر کرتی بھاری قدموں سے اوپر چڑھتے ہوئے بار بار روحان کے کمرے کا بند دروازہ دیکھ رہی تھی جس کے پار آرین اس کا منتظر کھڑا تھا۔
*************&&&&************
دو گھٹنے تک چکر لگا کر ناخن چباتے انتظار کرتے رہنے کے باوجود جب کرن نہیں آئی تو آرین دل گرفتگی سے واپس آفس آگیا۔ آفس میں اس وقت کھلبلی مچی ہوئی تھی آرین نے ایک کارکن کو روکا۔
"یہ آفس آج مچھلی بازار کیوں بنا ہے۔۔۔۔۔ اتنی کھلبلی کس بات کی مچی ہے۔" اس نے حیرانگی سے پوچھا۔
"رانا صاحب واپس آگئے ہے نا۔۔۔۔ تو ان کے آفس آنے سے پہلے سب اپنا اپنا کام نپٹانے میں لگے ہیں اس لیے ہڑبڑی میں ہے" اس کارکن نے مصروف انداز میں جواب دیا اور تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
اس کا جواب سن کر آرین کی مسکراہٹ سمٹ گئی اسے آج کرن کے ٹیرس پر نا آنے کی وجہ سمجھ آگئی تھی اس نے افففف کرتے سرد سانس خارج کی اور بالوں کو کھجانے لگا۔ اپنے اضطراب کو چپانے وہ لب کاٹنے لگا اس کے دل میں کرن کے لیے پنپتے جذبات کو اس کا کرن کا رانا صاحب کے ساتھ رہنا گوارہ نہیں ہورہا تھا اور ان دونوں کے رشتے کا سوچ کر آرین کو تکلیف ہورہی تھی اس نے کرب سے آنکھیں بند کر کے سر جھٹکتے ہوئے اپنے خیالات مہو کئے اور اپنے ٹیبل کے جانب بڑھ گیا۔
کرسی پر بیٹھ کر اس نے کہنیاں ٹیبل پر ٹکائی اور ہاتھوں کی مٹھی بنا کر اس پر سر ٹکا دیا۔ اسے کرن کے یادوں سے نکلنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا لیکن وہ اس کے علاوہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتا تھا اس لیے اپنا دھیان بٹانے اس نے لیپ ٹاپ کھولا اور کام میں مشغول ہوگیا۔
**************&&&&*************
کرن رانا صاحب کے لائے تحائف اٹھا کر الماری میں رکھ رہی تھی کہ رانا مبشر نے اس کی کمر کے گرد بازو مائل کرتے ہوئے اسے خود سے لگایا۔
"آج تمہارے ہاتھوں کی بنی بریانی کھانے کا بہت دل کر رہا ہے۔۔۔۔۔ بنا دو گی" انہوں نے کرن کے کان سے لب لگا کر سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
کرن کو وہ آج شادی کے پہلے دو مہینوں والے رانا صاحب لگے۔ اس نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے سر اثابت میں ہلایا۔
رانا صاحب شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سے الگ ہوگئے اور ڈریسنگ روم میں چلے گئے کرن نے انہیں دیکھتے ہوئے آرین کو اپنے ذہن سے جھٹکا اور کچن جانے کے لیے کمرے سے باہر آئی۔
سیڑھیوں پر سے اترتے ہوئے ہر سٹیپ کے ساتھ وہ پچھلے ایک ماہ میں آرین کے ساتھ بتائے وقت کو اپنے ذہن سے جھٹک رہی تھی۔
"وہ رانا صاحب کی بیوی ہے اور کسی غیر مرد کے بارے میں سوچنا بھی اس کے لیے گناہ ہے۔۔۔۔۔ میں رانا صاحب کے حق میں غداری نہیں کروں گی۔" اس نے دل میں سوچا۔
آخری سٹیپ تک پہنچ کر وہ خود کو مظبوط کر چکی تھی اس نے اپنے دل سے آرین کو مٹا دیا تھا۔ ایک لمبی سانس لے کر خود کو نارمل کرتے ہوئے اس نے آرین کو بھلانے کا آخری فیصلہ کیا اور کچن میں چلی گئی۔
ڈنر کرنے کے بعد رانا صاحب لاؤنج میں بیٹھے روحان سے کال پر بات کر رہے تھے کرن بھی ساتھ بیٹھی تھی۔ روحان سے بات پوری کر کے وہ کرن کی طرف متوجہ ہوئے۔
"پرسوں روحان اور نور بھی لوٹ رہے ہیں" انہوں نے خوشگوار مزاجی سے کہا۔
کرن ان کی بات پر بہت خوش ہوئی۔ زندگی پھر سے معمول پر روانہ ہونے لگی تھی۔ اسے روحان اور نور کے آنے سے پہلے ایک آخری دفعہ آرین سے مل کر اپنا فیصلہ سنانا تھا۔
اگلی صبح وہ بے صبری سے ٹیرس پر دائیں سے بائیں چکر کاٹ رہی تھی۔ بار بار گھڑی کو دیکھتی وہ آرین کا انتظار کر رہی تھی۔
"آرین۔۔۔۔۔ شکر ہے تم آگئے۔۔۔۔۔ مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔" آرین کے آتے ہی اس نے ہڑبڑی میں کہا۔
آرین شرارتی انداز میں ہاتھ ہوا میں بلند کر کے گلے ملنے کے انداز میں آگے آیا۔
" آ awww۔۔۔۔۔ اتنی بیتاب تھی مجھ سے ملنے " اس نے مسکراہٹ دبائے ہوئے کہا۔
کرن نے چڑ کر اس کی بازو نیچے کیے اور اسے پرے ہٹایا
"مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں میں۔۔۔۔ سیریس بات کرنی ہے۔" کرن نے تیزی سے اسے جھڑکا۔
"اچھا اچھا۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ جانتا ہوں تمہارا شوہر واپس آگیا ہے۔۔۔۔۔ پر تم اس کا غصہ مجھ پر کیوں اتار رہی ہو" آرین نے منہ بھسورتے ہوئے کہا۔
"کل نور اور روحان بھی آرہے ہیں" کرن نے سپاٹ انداز میں کہا۔
"تو۔۔۔۔۔۔ کیا یہ سیریس بات بتانے کے لیے بیتاب ہوئے جارہی تھی۔" آرین نے تنگ کرتے ہوئے کہا۔
"ہم اب کبھی نہیں ملے گے۔۔۔۔۔۔ تم دوبارہ کبھی یہاں نہیں آو گے۔" کرن نے اس کی بات کو نظر انداز کر کے کوئی تہمید باندھے بغیر کہا۔
اس کی یہ بات سن کر آرین بھی سنجیدہ ہوگیا۔
"اور وہ جو بھی کریں۔۔۔۔۔۔ تم پر ظلم ڈھائے تو وہ ٹھیک ہے" آرین نے تپ کر کہا اسے شدید غصہ آرہا تھا۔
"میری اور رانا صاحب کی جوڑی نصیب سے بنی ہے۔۔۔۔۔۔ اور میں اسے بخوبی نبھانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ چاہے وہ جیسے بھی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنے شوہر کے ساتھ بیوفائی نہیں کر سکتی۔۔۔"
کرن نے متذبذب سی ہوکر کہا۔
"کرن۔۔۔۔۔ تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے اس درندے کے ساتھ رہنے کی۔۔۔۔۔ تم اسے چھوڑ دو۔۔۔۔ طلاق لے لو۔۔۔۔۔۔ آذاد ہوجاو اس کے قید سے۔۔" آرین نے التجائی انداز میں اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔
"آرین۔۔۔۔ میں انہیں نہیں چھوڑ سکتی۔۔۔۔ اور مان لو چھوڑ بھی دیا تو کہاں جاوں گی۔۔۔۔۔ چچی کے گھر تو جانے سے رہی۔۔۔۔۔۔ میرا اور کوئی نہیں ہے۔" کرن نے افسردگی سے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
"تم میرے ساتھ چلو کرن۔۔۔۔۔۔ میں تم سے شادی کروں گا۔۔۔۔۔ ہم یہاں سے دور چلے جائے گے۔۔۔۔۔ میں تمہیں کبھی بھی قید کر کے دنیا سے کاٹ کر نہیں رکھوں گا۔۔۔۔۔ تم اپنی پوری آذادی سے۔۔۔۔۔۔۔ اپنی مرضی سے جیو گی۔۔۔۔۔۔ میں تمہارا رہوں گا میری ہر چیز تمہاری ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ تم جو چاہو کر سکو گی۔۔۔۔۔۔۔ اتنا پیار دوں گا کہ تم اپنی ساری تکالیف بھول جاو گی۔" آرین نے محبت سے اس کے ہاتھوں کو تھامے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
اگر یہ پیار کا اظہار نہیں تھا تو اور کیا تھا وہ اسے رانا صاحب کے پنجرے سے آزاد کرنا چاہتا تھا وہ اسے محبت کے محل میں رکھنا چاہتا تھا شیشے کے سجائے محل میں نہیں وہ اسے اپنے دل کی مالکن بنانا چاہتا تھا چند ملازمین کی نہیں وہ اسے دنیا میں کھول کر جینے دینا چاہتا تھا تنہائی کی قید نہیں۔ کرن نے کبھی جس ہمسفر کی خواہش کی تھی جس ساتھ کی امید وہ رانا صاحب سے لگا کر اس گھر آئی تھی وہ ہمسفر آرین کے روپ میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ ایک پل کے لیے کرن کا دل بیٹ مس کر گیا۔
"مجھے وہ خواب مت دکھاو آرین۔۔۔۔۔ جن کی تکمیل ممکن نہیں۔" کرن نے نرمی سے اس کے لمس سے اپنے ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا۔
"ممکن ہے کرن۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے زرا سی ہمت کرنے کی دیر ہے۔۔۔۔۔ جو بھی ہوگا میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔" آرین نے اسے قائل کرنے کی کوشش جاری رکھی۔
"آرین میں فیصلہ کر چکی ہوں۔۔۔۔۔۔ رانا صاحب مجھے کبھی طلاق نہیں دے گے۔۔۔۔۔۔ مجھے چھوڑنے سے آسان ان کے لیے مجھے جان سے مار دینا ہے۔" اس نے ہمدردی سے اس کے بازو تھام کر کہا۔ آرین اپنے طیش پر قابو رکھنے کے لیے چپ رہا۔
" تم میرے بہت اچھے دوست ہو۔۔۔۔۔۔ میں نے تمہارے ساتھ بہت بہت اچھا وقت گزارہ ہے۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں کبھی نہیں بھول سکتی۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک ماہ میری زندگی کا سب سے بہترین دورانیہ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ جس چیز کی تم امید کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔ وہ میں نہیں کرنا چاہتی۔" اس نے نرم لہجے میں وضاحت پیش کی۔ آرین س کی بات سے قائل ہوئے بغیر منہ پھلائے اس سے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے دو قدم آگے ہوا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ میرے ساتھ مت آو۔۔۔۔۔۔ لیکن روحان اور نور کو سب سچائی بتا دو۔۔۔۔۔۔۔ کم از کم رانا کے ظلم سے خود کو محفوظ کر لو" آرین نے اپنی پریشانی ظاہر کرتے ہوئے تند آواز میں کہا۔
"میں ایسا کبھی نہیں کروں گئی۔۔۔۔۔۔ دو بھائیوں میں اور ماں بیٹی میں کبھی درار نہیں بنا سکتی۔۔۔ اور تم میری رانا صاحب اور ان کے فیملی کے خلاف brainwashing بند کرو۔" کرن نے اسے جھڑکتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
آرین کا پارہ چڑھنے لگا۔
" تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔۔۔ رانا سے طلاق نہیں لینا چاہتی۔۔۔۔۔۔۔ روحان کو اس کے بھائی کے بارے میں نہیں بتانا چاہتی۔۔۔۔۔۔ نور کو اس کے ماں کے بارے میں نہیں بتانا چاہتی۔۔۔۔۔۔ تو آخر چاہتی کیا ہو تم۔" اس نے پوری قوت سے کرن پر چلاتے ہوئے کہا۔
" مر جانا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ اس دنیا سے غائب ہوجانا چاہتی ہوں۔" اسے اپنی آواز کھائی میں سے آتی محسوس ہوئی۔ سپاٹ تاثرات بنائے وہ سامنے دیوار کو دیکھ رہی تھی۔
آرین نے اس بات پر کرب سے آنکھیں بند کر لی اور لمبی آہ بھر کر سر پکڑ لیا غصے سے اس کے سر میں درد شروع ہو گیا تھا اس نے طیش میں کرسی کو لات ماری اور کرن سے نظریں ملائے بغیر جانے کے لیے مڑا۔ دیوار کی ریلنگ تک پہنچ کر وہ رک گیا۔
"کیا یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے۔۔۔۔۔۔۔ سوچ لو کرن آج میں گیا تو پھر نہیں آو گا۔"اس نے بنا مڑے اسے زخمی آواز میں مخاطب کیا۔ بیچینی بے یقینی کرب تکلیف درد ٹیس مایوسی ناامیدی افسردگی سارے جذبات امڑ امڑ کے آرین کو توڑ رہے تھے۔ اس نے رخ موڑ کر دیکھا کرن اسی طرح بے حس و حرکت کھڑی تھی آرین سے وہاں کھڑا نہیں ہوا گیا اور بھیگی آنکھوں سے تیزی سے دیوار پھلانگ کر چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد کرن پلٹی اور گیلے رخسار کو صاف کرتی دیوار کے پار دیکھنے لگی۔ اس کے لیے بھی یہ لمحہ اتنا ہی دشوار گزار تھا جتنا آرین کے لیے لیکن کرن نے اس سے تعلق توڑنا بہتر سمجھا آرین کی فیملی تھی ماں باپ چھوٹی بہن اور وہ اپنی وجہ سے اس کی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔ وہ اچھے سے سمجھتی تھی رانا صاحب کو جس دن معلوم ہوا وہ آرین کو جان سے مار دینگے اس لیے اسے خود سے دور کرنے کے لیے آرین کو خود سے بد گمان کرنا کرن کے لیے لازمی ہوگیا تھا۔
*****************&&&&******************