ماضی
ابا، خالہ غلط نہیں کہہ رہی ہیں آپ مان لیں انکی بات، اچھے لوگ ہیں، علیزے خوش رہے گی"
آج ابا اوپر اسکے کمرے تک آئے تھے۔ اخبار ہاتھ میں پکڑے اسکے آج کے آرٹیکل پر تبصرہ کرتے اب وہ اس کی کتابوں کی ریک میں نئے اضافے کو بغور دیکھتے اپنے پڑھنے کے لیے کوئی کتاب چن رہے تھے تبھی منیزے نے انھیں مخاطب کیا۔
وہ پلنگ کی پائنتی پر ٹکی ان سے سفارش کر رہی تھی۔
" میں منع تو نہیں کر رہا بس تمھاری کہیں بات طے ہو جائے تب تک انتظار کرنے کو ہی کہہ رہا ہوں۔"
انھوں نے ایک کتاب منتخب کر کے اسکی پلنگ پر بیٹھتے تکیے سے ٹیک لگا لی۔
" انھیں جلدی ہے ابا، وہ اتنا انتظار نہیں کریں گے"
وہ جانتی تھی کہ خالہ یہ سب ان سے کہہ چکی ہے۔
" تو ایسے لوگوں سے کیا رشتہ داری جوڑنا جو آپ کی مجبوری پر اپنے خود ساختہ ٹائم ٹیبل کو ترجیح دیں؟"
وہ کتاب کی ورق گردانی کرتے کہہ رہے تھے۔
انداز ایسا تھا جیسے کوئی بہت سرسری سی بات ہو۔
" ہماری کوئی مجبوری تو نہیں ہے، آپ کیوں بضد ہیں؟ مجھے بھی مل ہی جائے گا کوئی نہ کوئی"
وہ اپنا ذکر لے ہی آئی۔
"جب مل جائے پھر علیزے کا بھی دیکھ لیں گے"
انھوں نے پنا پلٹا۔
" اسے مجھ سے مت جوڑیں ابا، آپ رضا مندی دے دیں۔ آپ کی سرجری ہوجائے پھر آپ کمر کس کر نکلیے گا میرے لیے رشتہ ہنٹ پر"
اب وہ اٹھ کر انکے ساتھ آکر بیٹھتی انکے گھٹنے کو تھامے لجاجت سے کہہ رہی تھی۔
" آپریشن تھیٹر سے زندہ واپسی کی گارنٹی مجھے خدا نہیں دے رہا ناں۔۔"
انھوں نے صفحے سے نظر اٹھا کر ایک لمحہ منیزے کو دیکھتے مسکرا کر کہا۔
" ابا۔۔"
وہ گنگ سی اس ایک لفظ کے سوا کچھ نہ کہہ پائی۔ انھیں یہ خوف تھا؟
"تم سب کہتے ہو ناں کہ تم لوگوں کی اتنی کوشش اور دعاوں کے بعد بھی ڈونر نہیں مل رہا، پتا ہے کیوں؟ کیونکہ شاید میری خدا سے التجا آڑے آجاتی ہے کہ جب تک تمھیں میں کسی مضبوط رشتے سے جڑا نہ دیکھ لوں تب تک یہ نئے گردے اور آپریشن کا معاملہ ٹلا رہے"
وہ کتاب ایک طرف رکھتے سیدھے ہو بیٹھے تھے۔
"آپ۔۔ ابا۔۔ آپ کو مجھ پر رحم نہیں آتا؟ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟ یہ شادی۔۔ رشتہ کیا یہ سب آپ کی زندگی سے زیادہ ضروری ہے؟"
اسنے نصف دہائی اپنے باپ کے لیے قطرہ قطرہ زندگی جمع کرتے گزاری تھی اور آج ابا یہ کہہ رہے تھے۔
ایک آنسو انکی بات پر احتجاجاً بائیں آنکھ کی فصیل پر آٹھہرا۔
انھون نے اسے بڑھ کر خود سے لگایا تھا۔
منیزے نے انکے سینے کی اوٹ میں اس آنسو کو بہہ جانے دیا۔
" علیزے اور احد کے پاس ماں ہے، تم ہو، انکی طرف سے تسلی ہے مجھے۔ پر تم۔۔ موت سے بڑا خوف یہ لاحق ہے مجھے کہ میرے بعد تم اکیلی رہ جاو گی۔۔ جانتا ہوں میں بہت مضبوط ہو تم رہ لو گی اکیلے وغیرہ۔۔ پر انسان تنہا رہنے کے لیے ڈیزائن ہی نہیں ہوا۔ اسے ساتھی چاہیے ہوتا ہے، اسے رشتے درکار ہوتے ہیں۔ خاندان کی ضرورت ہوتی ہے اسے۔ جذباتی سہارے کے لیے، اگے بڑھتے رہنے کے لیے، ہر حال میں چلتے رہنے کے لیے ایک موٹیویشن۔ زندگی پروفیشن، کیرئیر سے بڑی شئے ہے۔ تم میرے بعد مشین بن جاو گی۔ مجھے نظر نہیں آتا کیا کہ ہاجرہ، علیزے، احد میرے رشتے ہیں اور میرے بعد وہ تینوں ایک فیملی رہیں گے پر تم۔۔ تم کسی کامپیٹنٹ روبوٹ competent robot میں ڈھل جاو گی۔۔"
وہ دھیرے دھیرے اسے خود سے لگائے اپنے اندیشے بتا رہے تھے۔
منیزے سن رہ گئی تھی۔
وہ کتنے ٹھیک تھے۔
وہ اسے کس قدر گہرائی تک جانتے تھے۔
" اپنی زندگی میں تمھیں ایک پرخلوص ساتھی کے ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں، کیا یہ بہت زیادہ ہے جو تم لوگ ایسے برتاو کر رہے ہو؟"
انھوں نے اسے خود سے الگ کرتے اسکی آنکھوں میں جھانک کر سوال کیا۔
وہ جواب نہیں دے پائی۔
" کیا چین سے مرنا میرا حق نہیں ہے؟ اور جب تک میری یہ ایک فکر دور نہیں ہوتی تب تک میری دعا ہے کہ خدا کوئی ڈونر نہ بھیجے"
وہ انھیں یک ٹک دیکھ رہی تھی جو اب دوبارہ کتاب اٹھا چکے تھے۔
وہ ڈر گئی تھی۔
ابا اگر اس سوچ کے ساتھ ٹرانسپلانٹ کے لیے راضی ہو بھی جاتے تو انکی باڈی کڈنی ریجکٹ کر دیتی۔
♤♤♤♤♤♤♤♤
"کیا مطلب کوئی نیفرولوجسٹ موجود نہیں ہے تو پھر ڈائلاسس سینٹر کھولا کیوں ہوا ہے آپ لوگوں نے"
وہ نرس سے الجھ پڑی۔
پریشانی میں ہسپتالوں کا مشینی سا عملہ مزید اذیت کا باعث بن جاتا تھا۔
کل ابا کا ڈائلیسس ہوا تھا اور آج صبح دونوں ہاتھوں میں ایکسس سپاٹس پر سوجن تھی جو خطرے کی نشانی تھی۔
انفیکشن کے امکان تھے۔
وہ بھاگ کر ہسپتال آئے اور اب یہاں کوئی سینیئر نیفرولوسٹ یا یورولوجسٹ موجود ہی نہیں تھا۔ جونئیر ڈاکٹر بیٹھے تھے صرف۔
" میم صرف آج انفارچونیٹلی unfortunately کوئی بھی سپیشلسٹ ایویلایبل available نہیں ہے ورنہ روز ہی ہوتے ہیں، اور ڈاکٹر صفدر کہہ رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہے صرف آج کی رات انڈر ابزرویشن رکھنا ہے"
نرس نے وہی بات مختلف الفاظ میں دوبارہ دہرائی۔
" ڈاکٹر صفدر خود سیکھ رہے ہیں ابھی، ابا کے ایکسس سپاٹس سولن ہیں مجھے تسلی نہیں ہوگی ایسے، ڈاکٹر نعمان سلیم کو بلائیں آپ۔۔"
اسنے ابا کے اپنے ڈاکٹر کا نام لیا۔ وہ کل شام تک ابا کے چیک اپ کے وقت یہیں تھے۔ انھیں بلایا بھی تو جاسکتا تھا۔
"میم وہ آوٹ آف کنٹری ہیں، آپ صبح تک ویٹ کر لیں ڈاکٹر شمشاد آجائیں گی نو بجے تک"
اب کہ وہاں ہاوس جاب کرتی اس ڈاکٹر نے مصالحت بھرا انداز اپناتے کہا۔
" میں اٹھارہ گھنٹے انتظار نہیں کر سکتی، یہ رسک ہے، میں کڈنی سینٹر لے جاوں گی انھیں۔۔ آپ ایڈمٹ مت کریں۔۔"
منیزے نے فیصلہ کرتے احد کو چلنے کا اشارہ کیا۔
وہ پریشان سا ابا کو لینے انکے کمرے کی طرف بڑھا پر ڈاکٹر کی آواز پر رک گیا۔
وہ آٹھویں جماعت سے تعلیم کے سلسے میں مری میں ہوتا تھا۔ پہلے کرسچن بورڈنگ اسکول، اب کیڈٹ کالج۔ ابھی چند دن پہلے ہی چھٹیوں پہ گھر آیا تھا۔
" میم ٹائم لگے گا پیشنٹ کے لیے بہتر ہے کہ آپ انھیں فوری ایڈمٹ کریں"
" عجیب ہے وہ اٹھارہ گھنٹے آپ کے ڈاکٹر کے آنے کا انتظار تو کر سکتے ہیں مگر ایک گھنٹے کی مسافت پر موجود کڈنی سینٹر نہیں جا سکتے۔۔"
اب کے منیزے کا اس بےتکی بات پر پارہ پہلے سے زیادہ چڑھا۔
زید تیز تیز قدم اٹھاتا شیشے کا دروازہ اجلت میں کھولتا اندر داخل ہوا۔ ایک نظر منیزے کو نرس اور ثنا سے الجھتے دیکھ احد کی طرف بڑھا۔
ایک لمحے کو انکی نگاہیں ملیں تو زید کی آنکھوں نے اس سے اسے ابا کی طبعیت سے بے خبر رکھنے پر گلہ کیا۔
اسکا کیمپس اسی ہاسپٹل سے منسلک تھا۔
سمیر نے منیزے کو یہاں دیکھ کر زید کو بتایا تھا وہ حقیقتاً بھاگتا ہوا آیا تھا۔
" کیا ایشو ہے؟"
زید کو دیکھ کر احد کے تاثرات کچھ پرسکون ہوئے۔
اسنے اسے مسئلہ بتایا۔
" تم لوگ ابھی مت جاو لیٹ می ٹرائی، پانچ منٹ بس"
وہ چند لمحے سوچتا ہوا فون نکالتا ایک طرف ہوا۔
اسکے ایک پروفیسر نیفرولوجسٹ تھے۔ ضعف کے سبب میڈیسن پریکٹس کرنا چند سال پہلے ترک کر چکے تھے اور تدریس سے وابستہ ہو گئے تھے۔ آج انکا لیکچر تھا قوی امکان تھا وہ اب تک یہیں اپنے آفس میں ہونگے۔
" میں ٹھیک۔۔آپ کیسے ہیں پروفیسر؟۔۔آپ آفس میں ہیں؟۔۔۔ ایک فیور چاہیے تھا"
اس نے مختصر ترین الفاظ میں مسئلہ بتایا۔
" اگر آپ آسکیں زیادہ ٹائم نہیں لگے گا، کوئی اور ڈاکٹر اویلایبل ہوتا تو ولڈنٹ ہیو بودرڈ یو wouldn't have bothered you۔۔ پیشنٹ از فیملی سر۔۔ اٹ ول مین آلاٹ اِف یو۔۔ جی میں خود آتا ہوں آپ کو پک کرنے بہت شکریہ، تھینک یو پروفیسر"
وہ ان کے ہامی بھرنے پر پھر باہر کی طرف بھاگا۔
ڈاکٹر ربانی عمر کے اس حصے میں نہیں تھے کہ کیمپس سے یہاں تک چل کر آسکتے۔
منیزے قدرے فاصلے پر کھڑے اسکی پوری بات نہیں سن پائی تھی پر اتنا اسے سمجھ آگیا تھا کہ ڈاکٹر کا انتظام ہوگیا ہے۔
ہاں، ایک جملہ اسکے کانوں میں ضرور پڑا تھا " پیشنٹ از فیملی سر۔۔"
♤♤♤♤♤
احد کو اسنے گھر بھیج دیا تھا۔ ابا دوا کے زیر اثر سو رہے تھے اور وہ اضطراب سے کمرے میں دائیں سے بائیں چکر کاٹ رہی تھی۔
بے چینی کا مرکز باہر کاریڈور میں اس غیر آرامدہ سے بینچ پر سکون سے بیٹھا وہ شخص تھا جو ابا کی طبیعت کے خیال سے یہیں رک گیا تھا۔
" تمھیں یہاں رکنے کی ضرورت نہیں ہے، گھر چلے جاو"
جب ضبط چھلک پڑا تو اسنے جاکر زید کے سر پر کھڑے اسے بے مروتی سے مخاطب کیا۔
" میں یہیں ہوں، کوئی ایشو نہیں۔۔"
اسکا انداز بہت ٹھنڈا تھا، اس ائیر کنڈیشنڈ کاریڈور جیسا۔
" مجھے ایشو ہے۔ تم نے جو بھی کیا اس کے لیے بہت شکریہ پر اب بس"
وہ رکھائی سے کہہ رہی تھی۔
" شکریہ مت ماریں میرے منہ پر میں انکل کے لیے رکا ہوں آپ کے لیے نہیں۔"
وہ اسکے انداز پر راکھ ہوتا کھڑا ہوا۔
" وہ میرے ابا ہیں اور ہر چیز کے بعد اس ڈھٹائی پر تمھیں شرم نہیں۔۔"
منیزے کو پھر غصہ آیا۔
سب ایسے مٹی کر کے وہ کس بنا پر ایسا برتاو کر رہا تھا جیسے غلطی اسکی ہو۔
"میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس پر مجھے شرم محسوس ہو، میں اب بھی اپنی بات پر قائم ہوں اور وہ ہونگے آپ کے ابا پر وہ فاروق انکل ہیں، مجھے بہت عزیز ہیں،میں ان کے لیے رکوں گا یہاں، آپ کو کوئی ایشو ہے تو میں کچھ نہیں کر سکتا، آئی ایم ناٹ ایون ٹاکنگ ٹو یو I am not even talking to you۔۔"
وہ دونوں رات کے ایک بجے ہسپتال کے اس سنسان کوریڈور میں کھڑے جھگڑ رہے تھے۔
" دن میں ڈاکٹر کو لے کر کتنا ایشو ہوا تھا، اس وقت ویسے بھی صرف انٹرنز اور ریزیڈنٹس ہوتے ہیں اگر کوئی ایشو ہوا تو آئے کین میک سم کالز، میں گھر چلا جاتا اگر مجھے ایک پرسنٹ بھی گارنٹی ہوتی کہ آپ ایسا کچھ ہونے پر مجھے کال کریں گی، سو میں نہیں جاوں گا"
زید نے گہری سانس لے کر اپنا غصہ قابو کیا۔
آواز نیچی کیے اپنے وہاں رکنے کی وجہ اسے صاف بتائی اور دوبارہ اس بینچ پر دونوں ہاتھ سینے پر باندھے سر جھکائے بیٹھ گیا۔
منیزے چند لمحے اس کی اس قدر ضد پر اسے دیکھتی پیر پٹختی واپس کمرے میں چلی آئی۔
♤♤♤♤♤
" تمھیں کتنا عرصہ ہوگیا ہے گھر آئے ہوئے میں پچھلے پورے ہفتے سے منیزے کو کہہ رہا تھا تمھیں کہے چکر لگا جائے۔۔ اب کیا تم سے ملنے مجھے ہر بار ہسپتال داخل ہونا پڑے گا؟"
فاروق احمد اب بہتر تھے ڈاکٹر ربانی نے ٹھیک وقت پر آکر مسئلہ پکڑ لیا تھا۔
منیزے ڈسچارج کے پیپرز وغیرہ دیکھنے گئی تھی اور زید انکی پلنگ کے پاس اسٹول رکھے بیٹھا انکے شکوے سن رہا تھا۔
" آپ وعدہ کریں دوبارہ یہاں نہیں آئیں گے میں روز گھر آجایا کروں گا"
اسنے ڈرپ کی رفتار کو ایک نظر دیکھتے ان سے وعدہ مانگا۔
" اب تم مجھے لالچ دے رہے ہو لڑکے"
انھوں نے مصنوعی سا گھورا۔
"آپ آجائیں ناں لالچ میں۔۔"
وہ مسکرا دیے، کاش وہ اس لالچ میں آسکتے۔
" پڑھائی کیسی جا رہی ہے؟"
جن دنوں وہ لمبا عرصہ غائب رہتا تھا وہ اکثر امتحانات کے دن ہوتے تھے۔
" اچھی، بس ابھی کچھ دن تک پروفس ہیں پھر فائنل ائیر اور پھر انٹرنشپ"
زید نے تفصیلی جواب دیا۔
" اس بار بھی ٹاپ ہی کرنا ہے؟"
" مجبوری ہے ورنہ ڈیڈ نے گھر میں گھسنے نہیں دینا۔۔"
زید نے منہ بنایا، مصنوعی آہ بھری۔
"تمھارے والد صاحب تو بہت سخت ہیں بھئی، اتنا نیک، قابل اور پیارا بیٹا ہو تو کس کا دل کرتا ہے سختی کرنے کا؟"
جیسے زید انکا ذکر کرتا تھا ابرہیم حسین بڑے سخت گیر باپ معلوم ہوتے تھے۔
"اکارڈنگ ٹو ہم according to him میں اتنا نیک، قابل اور پیارا انکی سختی کی وجہ سے ہی ہوں۔"
زید نے انھیں ڈیڈ کی لاجک بتائی وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔
وہ بھی انکے ہنسنے پر ہنس دیا۔
منیزے نے کمرے میں داخل ہوتے ان دونوں کو یوں ہنستے دیکھا۔
گھر میں قہقہہ تو دور ابا مسکراتے بھی کتنا کم تھے۔ انھیں کتنی فکروں نے ہما وقت جکڑے رکھا تھا۔
سب ٹھیک ہوتا تو وہ ضرور زید کو شکریہ کہتی۔
اسے آتا دیکھ زید وہیل چئیر لے آیا تھا۔ ابا کو اس پر بیٹھنے میں مدد کرنے سے پارکنگ میں گاڑی میں بٹھانے تک انکی وہیل چئیر گھسیٹتے ہوئے ان سے مسلسل بات کرتے اس نے برابر میں خاموشی سے چلتی منیزے کو ایک بار بھی مخاطب نہیں کیا، نہ اسکی طرف دیکھا تھا۔
♤♤♤♤♤♤♤
ابا کے کمرے سے کچن کی طرف جاتے ہوئے اسے علیزے کھلے دروازے سے اپنےکمرے میں پلنگ پر ہاتھ گھٹنوں کے گرد باندھے گم سم سی بیٹھی نظر آئی۔
ابا کی صحت میں الجھ کر وہ علیزے کا مسئلہ بھول گئی تھی۔
اسنے بے اختیار دروازے پر دستک دی۔
"میں آجاوں؟"
علیزے نے سر اٹھا کر دیکھا تو منیزے نے سوال کیا۔
اسے نہیں یاد پڑتا تھا وہ آخری دفعہ اس کمرے میں کب آئی تھی۔
اسنے سر ہلا کر اجازت دیتے پاوں ذرا سمیٹ کر منیزے کے لیے جگہ بنائی۔
" کیا مسئلہ ہے؟"
وہ اسکی بنائی جگہ پر بیٹھی۔
علیزے اسکے سوال پر جھجکی۔
انھوں نے کبھی ایسے بات نہیں کی تھی۔
"تم مجھے بتا سکتی ہو۔۔"
اسکی آنکھیں اور لہجہ حوصلہ افزا تھا۔
" حارث اور تم۔۔ وہ پسند کرتا ہے تمھیں؟"
وہ اب بھی خاموش رہی تو منیزے نے خود ہی شروعات کی۔
علیزے کی سرخ پریشان آنکھیں اسی ایک امکان کی طرف اشارہ کرتی تھیں۔
" ہم دونوں ہی۔۔"
وہ مجرمانہ سا سر جھکائے منمنائی۔
"پھر ایشو کیا ہے جب محبت کرتا ہے تم سے تو کچھ وقت انتظار نہیں کر سکتا؟"
سنا تھا محبت اور انتظار کا چولی دامن کا ساتھ ہوا کرتا ہے۔
" اس کی امی نہیں مان رہیں تھیں بہت مشکل سے حارث نے منایا ہے وہ بھی اس شرط پر کہ ہم جلد جواب دیں ورنہ پھر وہ اپنی مرضی سے کردیں گی اسکی شادی"
جب منیزے نے اسے سرزنش کرنے کے بجائے مسئلہ سمجھنا چاہا تو اس کی بھی ہمت بندھی بات کھولنے کی۔
" تم بات کرو اس سے، میں کوشش کر رہی ہوں ابا مان جائیں گے جلد۔۔ چند دن آگے پیچھے ہو بھی گئے تو وہ سنبھال لے۔۔"
چند دن میں اس عباد ساجد نامی بندے سے ملنا تو تھا ہی، کوئی نہ کوئی حل وہ نکال ہی لیتی۔
" وہ ناراض ہے بات نہیں کر رہا کہ جب وہ اپنی امی کو منا سکتا ہے تو میں کیوں نہیں۔۔"
اب کے علیزے کی نم آنکھیں چھلکیں۔
وہ اسکی ناراضگی کے خیال سے اتنی مضحمل تھی۔
منیزے کو اس کے آنسو دیکھ افسوس ہوا۔
جذبات بھی بڑی خوار شئے تھے۔
" سٹل ابا کی طبعیت پوچھنے کو تو کال کی ہوگی اسنے۔۔"
اسنے اپنی لے میں پوچھا۔
" نہیں۔۔"
علیزے نے اسے یوں دیکھا کہ ناراض تھا تو ناراض تھا، کسی بھی وجہ سے کیوں بات کریگا وہ؟
منیزے کیا کہتی کہ اسنے تو اس شخص کی ناراضگی دیکھی تھی جو اسکے باپ کی تکلیف کا سن کر ہر برہمی کے باوجود بھاگتا ہوا آیا تھا۔
یخ کاریڈور کے بنا ٹیک والے دھات کے سخت بینچ پر ساری رات بیٹھا رہا تھا۔
اپنے لفظوں کی کڑواہٹ اس پہ یوں انڈیلنے پر بھی اسکے باپ سے میٹھا بولتا رہا تھا۔
لاشعور میں کہیں اسکا ابا سے بات کرتا مسکراتا چہرہ ابھرا۔
" ہو جائے گا کچھ نہ کچھ، میں دیکھ لوں گی"
وہ علیزے کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے دباتی تسلی دیتی اٹھ گئی۔
♤♤♤♤♤♤
" آٹ واز نائس میٹنگ یو منیزے تم اپنے شو سے زیادہ انٹرسٹنگ ہو"
عباد نے الوداعی انداز میں مسکراتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھتے سر کو خم دیا۔
کافی اور سینڈوچ پر اس کیفے میں بیٹھے انھیں دو گھنٹے ہوئے تھے۔
" اور تم اپنے پیپرز سے۔۔"
اسنے کھڑے ہوتے جواب دیا۔
اسکی حاضر جوابی پر اسنے قہقہہ لگایا۔
" آئی ہوپ ہم دوبارہ ملیں گے۔۔"
اسنے عینک ٹھیک کرتے کہا۔
" سیم ہیئر۔۔"
وہ بھی اعتماد سے مسکرائی۔
عباد جا چکا تھا۔
وہ وہیں بیٹھی اس کے ساتھ گزرے ان دو گھنٹوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
اسے جتنا مشکل اس سے ملنا لگ رہا تھا اس سے بات کرنا اتنا ہی آسان ثابت ہوا تھا۔
ان کے خیالات اور ویلیوز سب میں کافی مماثلت تھی۔
ابا اس پروپوزل سے ٹھیک مطمعین تھے۔
وہ اس سے ملنے سے پہلے ہی سوچ کر آئی تھی کہ وہ ہاں کر دے گی اور اب ملنے کے بعد۔۔
ابا نے اسے ڈرا دیا تھا۔
وہ شخص صاف گو تھا اپنے بارے میں کچھ چھپایا نہیں تھا اسنے۔
وہ گہری سانس لیتی اٹھ گئی۔ زندگی میں کچھ بھی تو سیدھا نہیں تھا۔
کشمکش اخیال کی لکیروں کی صورت چہرے پر عیاں تھی۔
♤♤♤♤
وہ چند لمحے بے یقینی سے بجتے فون کی اسکرین کو دیکھتا رہا۔
منیزے کال کر رہی تھی اسے؟
فون لے کر وہ کمرے سے ملحق بالکونی میں آگیا۔
کمرے میں حبس اچانک بڑھا تھا۔
آج کل یوں بھی منیزے کے الفاظ اسکے لیے ہوا میں سے اکسیجن گھٹا دیا کرتے تھے۔
اسنے سبز بٹن پر ہاتھ رکھتے فون کان سے لگایا۔
دوسری طرف خاموشی تھی، بول وہ بھی کچھ نہیں پایا۔
بعض مکالمے اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ انکے بعد کچھ بھی مزید کہنا مشقت ہوتی ہے۔
" تم نے کال نہیں کی، میں انتظار کر رہی تھی"
وہ یوں ہی چپ رہا تو وہ گویا ہوئی۔
اسے گاڑی سے نکالنے سے پہلے کی گئی اپنی آخری بات کا حوالہ دیا۔
اتنا کچھ چل رہا تھا گھر میں زندگی میں اور سننے کو وہ نہیں تھا۔ کس قدر بری عادت ہو گئی تھی اسے اس شخص کی گزرے سالوں میں۔
اس سے پہلے وہ اپنے مسئلے ڈائری کے پنوں پر اتار کر ہلکی ہو جایا کرتی تھی۔
زید سے ملنے کے بعد اسکی یہ عادت آہستہ آہستہ چھوٹ گئی تھی۔
ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔
یہ انسانی سہارے بھی کتنے ناپائیدار ہوتے ہیں اور انکی عادت کس قدر جان لیوا۔۔
" بخار نہیں تھا جو اتر جانے کے بعد کال کر لیتا۔۔"
زید نے بھی اسکی آخری بات کا ہی حوالہ دیا۔
وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھا۔
" تم نے سب داو پر لگا دیا۔۔ کیا یہ بہت ضروری تھا یا ہماری دوستی اتنی غیر اہم۔۔"
منیزے کی آواز پر حزن تھی احساس زیاں میں گھلی ہوئی۔
" مجھے اہم اور لازم میں سے چننا تھا"
چناو اسکے لیے بھی کہاں آسان تھا۔
" تم واقعی سیرئیس ہو؟"
اسے کیا ہوگیا تھا؟ کیسی پیچیدہ باتیں کرنے لگا تھا وہ؟ کتنی سنجیدہ۔۔
" نہ ہوتا تو کبھی آپ کو نہ کہتا۔۔ آپ مجھے نہیں جانتی ہیں کیا؟"
دکھ اسی بات کا تھا کہ وہ اب بھی بےیقینی کی دہلیز پر کھڑی تھی۔
اسے اس کے جذبے کھوٹے لگتے تھے۔
اسکا انکار بھی اب جتنی اذیت نہ دیتا شاید۔
" بہت جلدی نہیں ہے یہ، کیوں؟"
اب اسکے سوال میں جھجھلاہٹ تھی۔
وہ کیوں ایسے سوال کر رہی تھیں؟
" مجھے جلدی نہیں ہے پر آپ کی اور میری ٹائم لائن میں بہت فرق ہے۔۔ صحیح وقت آنے تک بہت دیر ہو جائے گی۔۔ اور فی الحال میں صرف کمٹنٹ کی بات ہی کر رہا تھا"
وہ اب بھی مضبوطی اور شفافیت سے جواب دے رہا تھا۔
وہ اس ایک معاملے میں کسی بھی الجھاو کا شکار نہیں تھا جیسا کہ منیزے اسے سمجھ رہی تھی۔
" عباد سے ملی میں۔۔"
زخموں پر جو گزرے دو ہفتے میں کھرنڈ جمی تھی اسے منیزے نے ایک جھٹکے میں ادھیڑا۔
" اچھا انسان ہے، میرے ٹائپ کا۔۔"
اب وہ نمک پاشی کر رہی تھی۔
" کانگریچولیشنز دین۔۔"
گم ہوتی آواز کو اکھٹا کرکے اسنے دو لفظی جملہ جوڑا۔
وہ بلبلا بھی نہیں پایا۔
خاص یہ بتانے کو کال کی تھی منیزے نے؟ وہ کتنی ظالم تھیں۔
" ایک مسئلہ ہے پر۔۔"
وہ کسی پر تیش ردعمل کے بجائے مبارک باد دے رہا تھا۔
وہ اسے تین چار سالوں سے جانتی تھی پر وہ اب بھی کبھی کبھار اسے حیران کر دیا کرتا تھا۔
پر وہ اس مبارک باد کا کیا کرے؟
"کیا؟"
آواز میں فکر تھی۔
" مجھ سے محبت نہیں ہے اسے۔۔"
" آپ کو کیا فرق پڑتا ہے اس بات سے۔۔"
وہ زخمی سا مسکرایا۔
یہ محبت وغیرہ منیزے کے مسائل تھوڑا ہی تھے، یہ تو اسکی جان کے روگ تھے۔
" کسی اور سے ہے۔"
زید کی تلخ مسکراہٹ سمٹی۔
"وہ کہہ رہا تھا میرے بال بالکل گایتری جیسے ہیں۔۔"
منیزے مسکرائی۔ وہ ظالم نہیں اذیت پسند تھی۔
لندن میں ملی اس انڈین لڑکی کے متعلق عباد نے کچھ نہیں چھپایا تھا۔ مذہب انکی محبت کے آڑے آگیا تھا۔
گایتری کا براہمن خاندان اسے کسی ہم مذہب سے شادی پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اب تو اسکا ایک بیٹا بھی تھا۔
عباد بھی ماں باپ کے کہنے پر راضی ہوگیا تھا پر اسکا دل اب بھی گایتری کی ساڑھی کے پلو میں اٹکا اسکے جسم سے دور کہیں دھڑک رہا تھا۔
دو گھنٹے کی ملاقات میں اسنے کم از کم دس بار گایتری کا ذکر کیا تھا۔
زندگی بھر نجانے کتنی بار کرتا۔
اسکا قصور نہیں تھا شاید۔
محبت ہوتی ہوگی ایسی۔
"واٹ؟"
زید کو عباد کی فیس بک ڈی پی پر موجود اسکا چہرہ یاد آیا۔
اس آدمی کی ہمت کیسے ہوئی تھی منیزے کو اتنا ارزاں محسوس کرانے کی؟ اسکے ایک ہاتھ کا فون پر دباو بڑھا، دوسرا مٹھی میں بدلا۔
منیزے کسی جیسی نہیں تھی، اسکے جیسا کوئی ہو بھی نہیں سکتا تھا۔ کوئی اس کے دل سے ہوچھتا۔
اسے منیزے کا رویہ، اس پر غصہ سب بھول گیا۔
"منع کر دیا اسے میں نے۔۔ محبت مسئلہ نہیں ہے میرا پر عزت نفس ہے۔"
وہ ابا کو اپنا فیصلہ سنا کر اوپر آرہی تھی۔
یہ پچھلے ایک سال میں پہلی بار تھا کہ انکار ابا کے بجائے اسنے خود کیا تھا۔
" آپ نے ٹھیک کیا۔"
وہ خود غرض نہیں تھا، وہ اسکے ساتھ نہ ہوتی پر کسی ایسے شخص کے ساتھ بھی نہ ہوتی جو اسکی قدر نہ جانتا ہو۔
" تم اگر واقعی اتنے ہی سنجیدہ ہو تو خود ابا سے بات کرنے کے بجائے اپنے پیرنٹس کو بھیجو۔۔"
سابقہ انداز میں اسنے کچھ ایسا کہا جس کے معنی مقابل کا جہاں بدلنے پر قادر تھے۔
♤♤♤♤♤♤♤