ماضی
وہ بہت نروس سا منیزے کے آفس پہنچا۔
بیک ویو مرر میں ایک نظر خود پر ڈالی، ہاتھ پھیر کر ہزار دفعہ کے ٹھیک کئے بال ایک آخری دفعہ سیٹ کیے اور پیسنجر سیٹ پر رکھا چار رنگ برنگے ٹیولپس پر مشتمل گلدستہ اٹھاتے گاڑی سے اتر آیا۔
اسکا ارادہ یہاں سے منیزے کو پک کر کے کسی خوبصورت خاموش جگہ جا کر اپنا مدعا رکھنے کا تھا۔
وہ منیزے کا پوچھتا سٹودیو کنڑول روم پہنچا جہاں وہ دروازے کی طرف پیٹھ کیے مانیٹر سکرین پر جھکی ہوئی تھی۔ بال دو پین پھنسا کر ڈھیلے جھوڑے میں بندھے تھے۔
" ہے! Hey"
زید نے اسے متوجہ کرنا چاہا تو وہ کیبورڈ پر جھنجھلاہٹ میں ایک بٹن زور سے دباتی مڑی۔
" کیا ہوا ہے؟"
اسنے نے منیزے کا انداز نوٹ کرتے ذرا محتاط سا پوچھا۔
اسکا موڈ اسکے ارادوں کے لیے انتہائی غیر موزوں تھا۔
" تم آدمی لوگ سمجھتے کیا ہو خود کو؟ محبت کے نام پر کچھ بھی کرو گے اور عورت سہتی رہےگی؟"
کمر پر ایک ہاتھ رکھے غصے میں کہتے اسنے زید کی طرف قدم بڑھائے۔
اسنے بااختیار نفی میں سر ہلایا۔
محبت وحبت۔۔ جو بھی تھا وہ منیزے کے ہاتھوں کم از کم قتل تو نہیں ہونا چاہتا تھا۔
اسے پہلے سے کیسے پتا تھا کہ وہ کیا کہنے آیا ہے؟
" چار پھول دے کر خرید لیا ہے تم نے عورت کو زندگی بھر کے لئے؟"
مسلسل نفی میں سر ہلاتے اسنے پھولوں والا ہاتھ بے اختیار کمر کے پیچھے کیا۔
چار پھول؟ اسنے کب گنے؟
" کیا ہے یہ؟"
اپنے غصے میں وہ پھول نہیں دیکھ پائی تھی۔
" نہیں، کچھ نہیں، آپ کہہ رہیں تھیں کچھ؟"
زید نے اسکا دھیان بٹایا۔
" ہاں، ایک لفظ محبت کے بدلے وہ زرخرید غلام بن جائے تمھاری؟ تم جو مرضی کرتے پھرو۔۔"
وہ اتنی غصے میں تھی کہ اسکا دھیان بٹ بھی گیا۔
" تمھیں کام تھا کوئی؟"
اسے زید کے کچھ دیر قبل کی کال یاد آئی جس میں وہ پوچھ رہا تھا کہ وہ بزی نہیں ہے تو وہ اسے پک کرنے آجائے۔
وہ مصروف نہیں تھی کیونکہ جس عورت کو کل کے شو کے لیے انٹرویو پریپ کرانی تھی اسنے آخری منٹ پر آنے سے انکار کر دیا تھا۔
وہ گھریلو تشدد کے اس کیس کے ذریعے اپنے شو پر معاشرے میں خواتین کے خلاف گھریلو سطح پر ہونے والے جرائم کو اجاگر کرنا چاہتی تھی۔ پالیسی سازوں اور قانون دانوں کو بلایا جاتا۔ پاکستان میں اس کے خلاف قوانین کی عدم موجودگی زیر بحث لائی جاتی پر عین وقت پر اس عورت کے شوہر نے محبت کے واسطے اور چند پھول دے کر اسے ٹی وی پر آنے سے روک دیا تھا۔ اور اب تب سے منیزے کا پارہ آسمان چھو رہا تھا۔
" نہیں آپ کہیں۔۔"
زید نے اپنی خیر منائی۔ آواز میں گڑبڑاہٹ واضع تھی۔
" استحصال کو شگر کوٹ کرنے کے لیے محبت کا نام دیتے ہو، ایک اظہار کے بعد ہاتھ جھاڑ کر بیٹھ جاتے ہو اب سارا ایموشنل لیبر عورت کرے۔۔۔"
وہ پھر شروع ہو چکی تھی۔ زید کے سامنے جب تک اپنی ساری بھڑاس نہ نکال لیتی اسے چین نہیں آنا تھا۔
بےخبری میں بولتے ہوئے وہ اگلے کا اچھا خاصا ترہ نکال چکی تھی۔
" اور ایموشنل ابیوز کو تو چھوڑو فزیکل ابیوز بھی محبت کےخاطے میں ڈالتے ہو تم لوگ۔۔"
وہ دو قدم مزید آگے بڑھی اور زید ڈر کر دو قدم پیچھے۔
" میں نے تو فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر کوئی مرد محبت محبت کرتا آئے تو الٹے قدموں نکل لو اور جانے سے پہلے اسے اتنی سناو کے اس لفظ کے ہجے ہی بھول جائیں اسے۔۔ چھوڑو تم بتاو"
وہ کہتی ہوئی عین اسکے سامنے آکر کھڑی ہوئی۔
زید نے تھوک نگلا۔
دل نے کس قدر اوکھا پنگا لیا تھا۔
" میری کلاس ہے،مجھے لیٹ ہو رہی ہے"
سارے ارادے ہوا ہوئے۔ وہ فوراً جانے کے لیے پلٹا۔
"تم نے کہا تھا تم فری ہو، کوئی پلان تھا تمھارا؟"
منیزے نے حیرت سے اسے دیکھا۔ جب کلاس تھی تو آیا کیوں تھا وہ؟
" نہیں کوئی پلین نہیں تھا۔۔ راستے میں ٹیکسٹ آیا کہ لاسٹ منٹ پر کلاس ارینج ہوئی ہے۔۔۔ اٹس امپورٹنٹ۔۔میں۔۔میں چلتا ہوں۔۔"
وہ الٹا سیدھا بہانہ دیتا سر پر پیر رکھ کر بھاگا تھا وہاں سے۔
" زید۔۔"
وہ آوازیں دیتی رہ گئی وہ نہیں رکا۔
عجیب الٹا پلٹا انسان تھا زید بھی، وہ واپس مانیٹر کی طرف مڑی۔
♤♤♤♤♤♤
" آخرکار میں نے کراچی کے لوکل ٹرانسپورٹ پر لعنت بھیج ہی دی"
زید گاڑی میں بیٹھا تو اسنے اعلان کے سے انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔
ابا کے ٹرانسپلانٹ کی رقم جمع ہوچکی تھی، قرضہ اتر گیا تھا، ہر خرچہ پورا ہوجانے کے باوجود بھی اسکے پاس اتنی رقم موجود تھی کہ ایک سیکنڈ ہینڈ مہران لی جا سکتی تھی۔
بس اب ابا کے لیے ڈونر مل جائے صرف۔
اسکا اور احد کا بلڈ گروپ مختلف تھا۔ خالہ کو خود پتھری کے مسائل تھے اور علیزے کا ٹیسٹ انھوں نے کرانے ہی نہیں دیا تھا کہ اسکے سامنے ساری زندگی پڑی ہے۔ اور یہ کہ خاندان میں جب پتا چلے گا تو انکی ایک گردے والی بیٹی کون لے گا۔
منیزے کو خالہ کے علیزے کی شادی سے ابسیشن پر اتنا غصہ اس سے پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔
بہرحال ڈاکٹر نے امید دلائی تھی کہ جلد ہی کسی ڈیسیزد ڈونر کڈنی (deceased donor kindney)کا انتظام ہو جائے گا۔
" کانگریچولیشنز، یہ بہت اچھی ہے، آئ ایم رئیلی ہیپی فار یو۔۔۔ انکل کو کیسی لگی؟"
وہ خود جو فورڈز کی سپورٹس کار چلاتا تھا اسکی مہران کو دیکھ کر بہت زیادہ امپریس ہوتے کار کو جائزہ لیتے کہہ رہا تھا۔
" انھوں نے نہیں دیکھی ابھی، ڈیلر نے چینل بھجوائی تھی تھوڑی دیر پہلے وہاں سے سیدھا یہاں آرہی ہوں میں، سوچا تم سے لی گئی ان گنت لفٹس کا ادھار چکا دوں۔۔"
وہ چند دن پہلے جیسے اسکے آفس آیا تھا اور پھر بھاگا تھا۔ وہ ضرور کوئی اہم بات تھی۔
وہ تو اپنی لے میں بولتے ہوئے اسکا بدلہ ہوا حلیہ بھی نہیں نوٹ کر پائی۔
اسی کا ازالہ کرنے اپنی کار لیے وہ سب سے پہلے یہاں اسکے کالج آئی تھی۔
گاڑی مین شاہراہ کے بجائے اسنے قریب کے رہائیشی علاقے کی طرف موڑ لی۔ کم سپیڈ پر ڈرائیو کرتے وہ ساتھ ساتھ بات بھی کر رہی تھی۔
" آپ اور آپ کے ادھار۔۔"
منیزے اور اسکی خود داریاں۔
زید نے سر جھٹکا۔
" اس دن تم کال پر اتنے ایکسائیٹڈ لگ رہے تھے اور میں نے تمھارے پہنچنے پر اپنا ہی راگ آلاپنا شروع کردیا۔۔ آصف بتا رہا تھا تم پھول لائے تھے، کیا کچھ بہت ضروری تھا؟"
اسنے ذکر چھیڑا۔
" ہاں محبت ہوگئی ہے، کنفیس کرنا تھا"
زید نے بیزاری سے روانی میں کہا۔
تھک گیا تھا وہ اس ایک پل سے ڈرتے ڈرتے۔
" اوہ۔۔ اوہ۔۔ آئی ایم سوری۔۔ اور میں نے تمھیں انکرج کرنے کے بجائے اپنا اینٹی محبت مونولاگ چھیڑ دیا۔۔ تبھی تم یوں بھاگے۔۔ اف۔۔"
اسے خود پر غصہ آیا۔
زید اسے خود کو ملامت کرتے خاموش نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ نہیں سمجھی تھی۔
اسکے جذبے اتنے ہی انہونی تھے کہ منیزے کے ذہن کا آخری خیال بھی نہ ٹھہرتے۔
" خیر یو ہیو مائے بلیسنگز you have my blessings ۔۔۔۔۔ شی از ویری لکی تم بہت خوبصورت انسان ہو زید۔۔پھر بتایا اسے؟"
وہ حقیقتاً خوش تھی اسکے لیے۔
" آپ کے مونولاگ کے بعد ہمت نہیں ہوئی۔۔"
زید نے اسکے غلط سمجھنے پر کڑوی سی مسکان لیے سر جھٹکا۔
"تم نے کیوں میری بات کا اتنا اثر لے لیا، کیا یہ آلریڈی اسٹیبلیشڈ فیکٹ already established fact نہیں ہے کہ یو آر این ایکسیپسن you are an exception؟"
منیزے کو افسوس ہوا اسکے انداز پر۔
وہ خود کو ہر ایک کی صف میں کیسے کھڑا کر سکتا تھا؟ وہ بھی اسکے الفاظ کے سبب؟
ابا کے بعد مخالف صنف میں صرف وہی تھا جو معاشرے کے سم آلود سانچوں پر پورا نہیں اترتا تھا۔
"ویسے بڑے ہی کوئی چھپے رستم نکلے ہو تم، ہوا بھی نہیں لگنے دی اتنا وقت، عین اظہار سے قبل بتا رہے تھے مجھے۔۔"
وہ اسکی گم سم سی خاموشی سمجھ نہیں پائی۔
افسوس کے بعد اسے شکوہ یاد آیا۔ وہ کتنا بولتا تھا اور یہ اتنی اہم بات اسنے اسے نہیں بتائی تھی۔
" ہے کون وہ؟ مسٹ بی سم ون رئیلی سپیشل must be someone really special ۔۔"
خاص تو وہ تھی۔
" اٹس یو۔۔"
زید نے اسکے سادہ سے مسکراتے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
منیزے کا پاوں بے اختیار بریک پر پڑا۔
آنکھیں اپنے ناپ سے بہت زیادہ پھیلیں۔
"اٹس یو۔۔میں مزید نہیں چپ رہ سکتا۔۔ مجھے ایسے مت دیکھیں میرے پاس کوئی ایکسپلینیشن نہیں ہے، ہر چیز ایکسپلین ہو بھی نہیں سکتی۔۔"
وہ جو وسط شاہراہ پر گاڑی روکے اس امید میں اسے دیکھ رہی تھی کہ شاید اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے زید نے بہت صاف الفاظ میں اس پر پہاڑ گرایا۔
" مجھے لگا میں نے غلط سنا ہے۔۔ تمھیں اندازہ بھی ہے کہ تم کہہ کیا رہے ہو؟"
بہت دیر خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ہوئی۔
لمحوں میں کیسے سب تہہ و بالا ہوگیا کر دیا تھا زید نے۔
" آئی ایم کپملیٹلی ان مائے سینسس I am completely in my senses، مجھے اچھے سے اندازہ ہے میں کیا کہہ رہا ہوں۔ مجھے آپ کے رئیکشن کا بھی اندازہ تھا۔۔ بٹ آئی ایم سیئنگ اٹ اینی وے آئی رئیلی لائک یو but I am saying it anyway, I really like you۔۔ جب آپ یوں ہی کسی کو بھی کنسیڈر کر سکتی ہیں تو مجھے کیوں نہیں۔۔ میں بہت سیرئیس ہوں۔۔ وانٹ ٹو سپینڈ ریسٹ آف مائے لائف want to spend rest of my life۔۔"
وہ بہت مصبوط لہجے میں اپنی بات کہہ رہا تھا۔
خوف صرف ہوجانے سے پہلے تک کا ہوتا ہے۔
" شٹ آپ۔۔۔ چپ ہو جاو۔۔جو جملے بول رہے ہو جو لفظ استعمال کر رہے ہو تمھیں پتا بھی نہیں کہ ہاو ہیوی دے آر how heavy they are؟۔۔ بہت ہی واہیات ہے اگر یہ مذاق ہے تو۔۔"
ایک حد کے بعد وہ اسکے الفاظ نہیں سن پائی تھی۔
" مجھے انکا مطلب بھی پتا ہے اور ویٹیج weightage بھی، نہیں ہوتا تو مجھے ایک سال نہیں لگتا ہمت مسٹر muster کرنے میں یہ چند جملے آپ کے سامنے بولنے کے لیے۔۔ آپ کو لگتا ہے یہ آسان ہے سب سٹیک stake پر لگا کر کنفیس کرنا۔۔ آپ جن نظروں سے مجھے ابھی دیکھ رہی ہیں انکے تصور سے ڈر کر ہی میں چپ رہا ہوں۔۔ پر کب تک؟ منافقت نہیں ہوتی مجھ سے، نہ ہی آپ کو کھونا افورڈ کر سکتا ہوں۔۔"
وہ اسے گنگ سی سن رہی تھی۔ زید اسے چپ دیکھ مزید گویا ہوا۔
" ابھی بہت کچھ کرنا ہے مجھے، آئی ایم ناٹ اسٹیبلشڈ، کیا کہہ رہی تھیں اس دن آپ، آئ مے بی ناٹ یور ٹائپ I may be not your type، نہ سیلف میڈ ہوں، نہ انٹلکچوول، سٹرگل تو زندگی میں کبھی دیکھا ہی نہیں۔۔ آپ کے کسی سٹینڈرد پر پورا نہیں اترتا، پر میں بہت محبت کرتا۔۔"
" انفیچوئیشن infatuation کو محبت کا نام مت دو۔۔ ہماری دوستی کی توہین کرنے کے بجائے یو شلڈ ہیو گوٹن اوور اٹ you should have gotten over it۔۔"
وہ یہ سب کب تک سنتی؟ وہ کیا کہہ رہا تھا، کیوں کہہ رہا تھا۔
" انفیچوئشن نہیں ہے یہ، آئی ایم ہنڈرڈ پرسنٹ شیور آف اٹ i am hundred percent sure of it، آئ ایم ان لو ود یو I am in love with you، وانٹ ٹو سپنڈ ریسٹ آف مائے لائف ود یو want to spend rest of my life with you۔۔ آئی ایم سیرئیس انف i am serious enough کہ اگر آپ ہاں کہیں تو ول پروپرلی ٹاک ٹو یور فادر will properly talk to your father۔۔۔"
" نارمل ہے، ہوتا ہے ایسا بھی، تم لڑکوں کو پہلا سیرئس کرش اپنے آس پاس موجود کسی بڑی عمر کی لڑکی پر ہی ہوتا ہے جس بےوقوفی پر تم لوگوں کو دس سال بعد ہنسی ہی آتی ہے۔"
منیزے جیسے اب اسکے جملے پروسیس کر چکی تھی۔ اسکے انداز میں مایوس سا مذاق اڑاتا ہوا تاثر زید کو اپنے منہ پر تمانچے سا پڑتا محسوس ہوا۔
" آپ منع کریں گی تو دوبارہ یہ ذکر میں کبھی نہیں کروں گا۔ آپ کو پورا حق ہے انکار کا، پر آپ کو کوئی حق نہیں ہے میرے جذبات کو یوں ڈسمس dismiss کرنے کا، انکا یوں مذاق اڑانے کا، میں تئیس کا ہوں تیرا کا نہیں کہ کرش اور محبت میں فرق نہ کر پاوں۔"
اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہوا، بولتے ہوئے آواز ذرا معمول سے اونچی تھی۔
"آپ مجھے اتنے اچھے سے جانتی ہیں، مجھے دکھ ہو رہا ہے کہ آپ نے تو مجھے انکار کے لائق بھی۔۔"
اسکے دکھ میں ڈوبے جملے کو منیزے نے پورا ہونے نہیں دیا۔
" آوٹ۔۔ میں مزید نہیں سن سکتی تمھیں۔۔"
لب بھینچے سختی سے سٹیرنگ ویل پر ہاتھ مارتے اسنے اسے گاڑی سے نکل جانے کا کہا تھا۔
زید نے ایک آخری نظر اسکے تیش میں تپتے چہرے کو دیکھا۔
" جب یہ بخار اتر جائے تو کال کر لینا وی ول پریٹنڈ کے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔"
گاڑی سے اترتے ہوئے اسنے منیزے کا جملہ سنا پر وہ رکا نہیں۔
بخار کہہ رہی تھی وہ اسکی محبت کو۔
منیزے کو یقین نہیں آیا یہ آخری جملہ اسنے کہا ہے ہر چیز کے بعد بھی زید کے لئے گنجائش نکل آئی تھی، کوئی اور ہوتا تو قطع تعلق کرتے اسے لمحہ بھی نہ لگتا۔
اسے اس رہائیشی علاقے کے ویران روڈ پر اتار کر وہ گاڑی زن سے لے گئی تھی۔ یہاں سے تو کوئی رکشہ ٹیکسی بھی نہیں ملنی تھی۔ کیا تو ادھار چکایا تھا منیزے نے زید کی دی ہوئی ان گنت لفٹس کا۔
♤♤♤♤♤♤♤
وہ گھر پہنچی تو گھڑی رات کے نو بجا رہی تھی۔ سات بجے شو کرنے کا فائدہ یہ تھا کہ اب پہلے کی طرح دن رات کی تمیز کے بنا کی خواری نہیں رہی تھی اس کے لیے اب رپورٹرز کی الگ سے ٹیم تھی۔
کیسا واہیات دن گزرا تھا۔ زید کے الفاظ اب بھی کانوں میں گونج رہے تھے۔ پاگل واگل ہو گیا تھا وہ۔
لاک کھولتی وہ صحن میں داخل ہوئی تو برآمدے میں خلاف معمول رش تھا۔ ذرا نذدیک پہنچی تو بوا حرمت بمع شوہر اور بیٹا تخت پر براجمان نظر آئیں۔
اپنے کمرے کے باہر رکھی کرسی پر ابا بیٹھے تھے اور ایک طرف موڑھے پر خالہ۔
بوا تو کبھی اپنے خاندان کے ساتھ نہیں آتی تھیں۔ آج کیوں؟ قرضہ چکا تو دیا تھا انکا۔۔
وہ اونچا اونچا کچھ کہہ رہی تھیں۔
" دیکھیں بھائی جی ہمارا تو کاروبار ہے روزی روٹی یہیں سے آتی ہے۔ آپ کو ضرورت مند دیکھ کر مدد کردی۔۔ پر اب آپ کے حالات اچھے ہیں سو صرف اصل چکا کر آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ قرضہ اتر گیا تین لاکھ کا پچھلے چار سالوں میں چودہ پندرہ لاکھ بنتا ہے۔"
انکی بات سن کر منیزے کے تاثرات بدلے۔
انکا شوہر سود پر پیسے دیتا تھا پر بوا نے انھیں قرضہ دیتے ہوئے سود کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ گزرے سالوں میں وہ جب بھی گھر آئیں تھیں اس 'قرض حسنہ' کا ذکر خیر کرنا نہیں بھولیں تھیں۔
" یہ صرف میری آپ سے رشتہ داری کے لحاظ میں چپ ہیں اور معاملہ ابھی بھی رشتہ داری کے لحاظ میں دبایا جاسکتا ہے۔ آپ ہاں کر دیں رشتے کے لیے، ہم دوبارہ رقم کا نام بھی نہیں لیں گے۔۔"
اسکے تاثرات جو پہلے تھکاوٹ سے حیرت میں بدلے تھے اب ان پر واضع برہمی تھی۔
صرف ابا کی کرسی کا رخ ایسا تھا کہ وہ اسے آتے ہوئے دیکھ چکے تھے۔
" بن ماں کی بچی ہے مجھے تو اپنی بیٹی کی طرح پیاری ہے اور بیٹی بنا کر ہی رکھوں گی"
بوا اسکی موجودگی سے بےخبر اب بھی بول رہی تھیں۔
" بیٹیوں کے سود کی رقم کے ایوض سودے نہیں کیے جاتے۔"
ابا کی کرسی کے قریب کھڑے ہوتے اسنے بہت کوشش سے خالہ کے الفاظ پر آیا تیش چھپا کر سپاٹ سے جملے میں انھیں جواب دیا۔
" اور مجھےنہیں یاد پڑتا کہ میں نے آپ سے قرضہ لیتے ہوئے خود کو گروی رکھا تھا"
وہ کوئی چیز تھی؟ کیسے کیسے لوگ بستے تھے دنیا میں۔
" ایسا کون کہہ رہا ہے خدانخواستہ، ہم تو بڑی چاہ سے سوال کر رہے ہیں، کیوں جی؟"
بوا اسے دیکھ کر گڑبڑائیں۔ وہ تو فاروق احمد کے سبھاو سے دیے رشتے پر معذرت کرنے پر پیسوں کی بات لے آئیں تھیں دباو ڈالنے کو۔ منیزے کو ٹی وی پر دیکھ انکا بیٹا جو ضد کر بیٹھا تھا۔
انہوں نے ٹوہکا دے کر ساتھ بیٹھے شوہر کو شامل کیا۔
" بلکل۔۔"
" آپ رقم کا ذکر نہ کرتیں تو ہم سوچنے کے لیے ضرور وقت لیتے پر اب نہیں، میں انکار کر رہی ہوں۔ نو بج رہے ہیں آپ لوگوں کو گھر پہنچنے میں دیر ہو جائے گی"
منیزے نے ان تینوں کو باری باری دیکھتے ہوئے دروازے کی طرف اشارہ کر کے باہر کا راستہ دکھایا۔
" ایسے کیسے، کس قدر بدتمیزی کر رہی ہو تم، بھائی جی آپ اسے کچھ کہیں گے نہیں؟"
بوا حرمت کا تو منہ ہی کھل گیا تھا۔ منیزے کو اس انداز میں بات کرتا انھوں نے صرف ٹی وی پر سیاست دانوں سے دیکھا تھا۔
" غلط نہیں کہہ رہی وہ۔۔"
وہ یہ سب خود کہنا چاہتے تھے پر منیزے کو آتا دیکھ چپ ہو گئے۔ انکی بیماریوں سے لپٹی زندگی کی ایسی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ وہ منیزے کی لڑائیاں خود لڑیں۔
والدین بچوں کی ڈھال بننے کو ہمیشہ موجود نہیں رہتے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی انھیں اپنی ڈھال خود بننا سکھا جائیں۔ اپنے لیے بولنا سکھا جائیں۔
انکے مفلس ہاتھوں میں بچوں کو دینے کے لیے زندگی کے اہم اسباق کے علاوہ تھا ہی کیا؟
" تم اور تمھارا ناہنجار بیٹا ہر جگہ مجھے ایسے ذلیل کرواتے ہو۔۔یہ خاندان ہے تمھارا جس کے لیے تم مجھے اپنی رقم چھوڑنے کا کہہ رہی تھی۔۔اٹھو یا اور بھی بےعزت ہونا ہے؟"
اب کہ بوا کہ شوہر کی غیرت جاگ اٹھی جو گھر میں پیسوں کے ایوض بہو لاتے نجانے کہاں سو رہی تھی۔
وہ کھڑے ہوتے چلائے۔
" اور تم لوگوں کی طرف ٹوٹل اٹھارہ لاکھ بنتے ہیں اور مجھے ابھی تک صرف تین ملے ہیں، ایک ماہ تک رقم ادا نہیں کی تو پھر میں سیدھے بیس لوں گا۔۔"
بیوی بیٹے کے بعد وہ منیزے اور ابا سے بھی اسی انداز میں مخاطب ہوئے۔
" میں نے جتنے پیسے لیے تھے میں ادا کر چکی ہوں۔۔ سود کا تب نہ کوئی ذکر ہوا تھا اور نہ کوئی کاغذی کاروائی، تو کون سی رقم اور کیسی ادائیگی؟"
منیزے کا لہجہ تیز ہوا۔ وہ شخص اسکے باپ سے کیسے بات کر رہا تھا؟
" کس قدر بے فیض لڑکی ہے، میں نے خالہ زاد کی بیٹی سمجھ کر کس قدر شفقت دی اور یہ۔۔بلکل اپنی ماں جیسی بدذات، بدکر۔۔"
بوا کو اسکی ماں کا حوالہ یاد آیا۔
قرابت دار دکھتی رگوں سے ہاتھ اٹھاتے ہی نہیں کہ نجانے کب دبانا پڑ جائے۔
" آپ مجھ پر اپنا غصہ اپنے گھر جا کر نکالیے گا۔۔ اللہ حافظ۔۔"
فاروق احمد کچھ سخت کہنے کے لیے اٹھے تھے پر منیزے نے انھیں ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔
اولاد کو خود خاموش رہ کر اپنے لیے بولنے دینا اور دوسروں کو انکے زخم ادھیڑتے دیکھ چپ رہنا دو بہت مختلف باتیں تھیں۔
منیزے نے بہت سپاٹ لہجے میں کہا۔
یہ پتا لگنے دینا کہ یہ رگ اب بھی دکھتی ہے دوسروں کو اپنے اوپر طاقت دینے کے مترادف تھا۔
بوا اور انکا خاندان بکتا جھکتا چلا گیا۔
خالہ ابا کے خاندان کی مکاری پر تبصرہ کر رہی تھیں۔ وہ خاموشی سے سیڑھیاں چڑھ گئی۔
اسکی آنکھوں میں ماں کے حوالے پر وہ ہلکی سی نادیدہ سرخی صرف اسکے باپ نے دیکھی تھی۔
♤♤♤♤♤♤♤
چھٹی کا دن تھا وہ صبح ساڑھے دس کے قریب سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آئی۔
ناشتے کے نام پر برآمدے میں رکھے فریج سے دو کنوں اٹھائے۔
ابا کے کمرے سے ابا اور خالہ کی دھیمے سروں میں بحث کی آواز آرہی تھی جو علیزے اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑی بہت دھیان سے آنکھوں میں کوئی امید لیے سن رہی تھی۔
منیزے کو سمجھ نہیں آیا۔ کسی بھی تجسس کے بغیر وہ کنوں پکڑے صحن میں موجود تخت پر آبیٹھی۔
سرما کی کامنی سی دھوپ کی نرم حدت اپنے چہرے پر محسوس کرتی وہ آج کے دن کی سست رفتاری کا مزہ لینا چاہتی تھی پر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔
خالہ کی کمرے سے آتی آواز اب اونچی ہو رہی تھی۔ اس نے ابا کے کمرے کی طرف کچھ بیزاری سے دیکھا۔ علیزے آنکھوں میں ناامیدی لیے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر گئی تھی۔
" جب مجھے اور میرے بچوں کو اہمیت ہی نہیں دینی تھی تو بیاہ کر لائے ہی کیوں۔۔ خوش تو تھے آپ باپ بیٹی۔۔ کافی بھی تھے ایک دوسرے کو۔۔"
اس سے پہلے وہ سوچتی کہ کیا مسئلہ ہے خالہ اونچی آواز میں ابا سے کہتیں ہوئیں کمرے سے نکل کر صحن میں بچھی پلاسٹک کی دو کرسیوں میں سے ایک پر آبیٹھیں۔
" مجھے بتاو میں نے تمھیں اپنی بیٹی نہیں مانا؟ پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے پورے خلوص سے تمھارے لیے رشتے ڈھونڈیں ہیں، اچھے سے اچھا خاندان۔۔۔ایک عاد جگہ جہاں واقعی بات نہیں بن پائی کے علاوہ کچھ تمھاری بے لچک ڈمانڈوں سے بھاگ گئے اور جو نہیں بھاگتے انھیں تمھارا باپ منع کر دیتا ہے۔۔"
اسے بیٹھا دیکھ انکے غصے کا رخ اسکی طرف ہوا۔
وہ یہاں آکر بیٹھنے پر پچھتائی۔
" مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، تم لوگ جاری رکھو جب تک مطمعین نہ ہو، میں کبھی بیچ میں نہیں پڑوں گی مجھے ویسے بھی تمھارے معاملے میں کوئی حق کبھی دیا ہی نہیں گیا۔۔ پر میری بیٹی کا رستہ کیوں کھوٹا کرتی ہو؟ تم تو پڑھی لکھی میم ہو تمھیں تو کبھی بھی کوئی بھی مل جانا ہے۔۔ میری علیزے کی عمر نکل گئی اسے کون پوچھے گا؟ کون آئے گا اس در پر سوال کرنے؟ تمھارے باپ کو صرف تم کیوں نظر آتی ہو؟ علیزے کو میں جہیز میں میکے سے نہیں لائی تھی۔۔"
ابا کی کتنی خواہش تھی کہ علیزے اچھا پڑھ جائے۔ کچھ علیزے کا اپنا رجحان نہیں تھا باقی خالہ نے یہ کہہ کر اسے اپنے پروں میں چھپا لیا کہ ابا چاہتے ہیں انکی بیٹی بھی منیزے کی طرح کماتی پھرے۔
اور اب وہ اس بات کو بھی الزام کے بنا کر اسے سنا رہیں تھیں۔
وہ اپنے بس میں سب کر تو رہی تھی۔
اس بےتکی سی بات کو لے کر گھر میں آئے دن کتنی تینشن رہنے لگی تھی۔
" اتنا اچھا رشتہ ہے تمھارے باپ کو سمجھ آئے تب ناں!"
وہ بولتے بولتے سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
" کون لوگ ہیں خالہ؟"
انکی کسی بھی سابقہ بات کا جواب دیے بنا اسنے سوال کیا۔
" میرے چچازاد کا بیٹا ہے، اکلوتا، اتنا اچھا گھر پڑھا لکھا، اسکی ماں نے ابھی رخشی کی شادی پر دیکھا علیزے کو تو کل ساجدہ کے ہاتھ پیغام بھجوا دیا۔۔ دیکھے بھالے لوگ۔۔ شریف، خاندانی۔۔ تمھارے باپ کو کچھ سمجھ آئے تب ناں۔۔ بیٹیاں ثمینہ بھابھی کی اپنے گھر کی ہوچکیں، اکیلی ہیں گھر میں، جلد شادی کرنا چاہ رہیں بیٹے کی۔۔ وہ زیادہ سے زیادہ بھی ایک ماہ انتظار کریں گی جواب کا۔۔ میری طرح تمھارے باپ کا منہ دیکھنے کی انکی کوئی مجبوری تھوڑا ہی ہے۔۔ خاندان میں جس لڑکی کے لیے کہیں گی وہاں ہوجائے گی انکے بیٹے کی شادی۔۔نقصان تو میری علیزے کا ہوگا۔۔"
وہ اس پر شدید غصے کے باوجود تفصیلاً بتا رہیں تھیں وہ مان جائے تو وہی واحد تھی جو انکے شوہر کو منا سکتی تھی۔
"علیزے کی کیا رائے ہے؟"
چند لمحے قبل علیزے کے چہرے پر آنے والے آس و نراس کے رنگ بتاتے تھے اسکی رائے مثبت ہے۔
"تمھارا باپ مان جائے تو میری بیٹی مجھے منع نہیں کرے گی اسکی بھلا کونسا کوئی شرائط ہیں۔۔"
انھوں نے ٹڑخ کر کہا۔
اسنے خالی نظروں سے انکا چہرہ دیکھا۔
ابا کے ٹرانسپلانٹ تک شادی نہ کرنا اور شادی کے بعد بھی بنا روک ٹوک گھر کی ساری ذمہ داری اٹھانا ان دو شرائط میں ایسی کون سی خودغرضی تھی جو انھوں نے یوں اپنے الفاظ اسکے منہ پر مارے تھے۔
"میں ابا سے بات کروں گی خالہ، یہ مسئلہ ہوجائے گا حل جلد۔۔"
وہ یقین دہانی کراتے اٹھ گئی تھی۔
کنوں یوں ہی آدھا چھلا رہ گیا تھا۔ اسنے اسے دوبارہ پھل کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ ناشتہ خالہ نے کرا دیا تھا۔
♤♤♤♤♤
حال
"اب واپس چلتے ہیں"
وہ مسلسل پچھلے چالیس منٹ سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ سعدیہ کے اسرار پر وہ آج لانگ ڈرائیو پر نکلے تھے۔
" نہیں بس تھوڑا سا اور آگے"
انھوں نے فون سے دھیان ہٹا کر کہا۔
اب یہاں تک آکر تو واپس نہیں جانے والی تھیں وہ۔
" مام واپس پہنچتے پہنچتے لیٹ ہو جائے گا"
سئیٹل میں اسکا اپارٹمنٹ ہاسپٹل سے چار منٹ کی ڈرائیو پر تھا. اتنے سالوں میں وہاں کی بھاگتی دوڑتی مصروف زندگی میں عادت ہی چلی گئی تھی لانگ ڈرائیو کے نام پر وقت کے زیاں کی۔
" کتنے بورنگ ہو گئے ہو تم زید، اتنے وقت بعد لانگ ڈرائیو پر نکلے ہیں ہم اور گھر پہنچ کر کرنا ہی کیا ہے؟"
سعدیہ نے اسکا اعتراض ہوا میں اڑایا۔
" مسلسل آپ فون پر بزی ہیں بات تو مجھ سے کر نہیں رہی ہیں"
اسنے شکوہ کیا۔
زید انھیں مسلسل فون پر ٹائپ کرتا دیکھ رہا تھا۔ وہ ہمیشہ کال کو ترجیح دیتی تھیں۔
اور یہ اس قدر ٹریفک والے روڈ پر لانگ ڈرائیو کی کیا تک تھی؟ وہ مضافات میں جہاں رش قدرے کم ہو وہاں بھی جاسکتے تھے۔
انکے رویے میں کچھ عجیب تھا آج، وہ نام نہیں دے پایا۔
"ہاں، نہیں یہ بس ایک ضروری ٹیکسٹ۔۔"
انھوں نے یہ آخری میسج ٹائپ کر کے سینڈ پر انگلی رکھی۔
" یہاں روکو، اس آوٹلیٹ کی کولڈ کافی بہت اچھی ہوتی ہے"
بالآخر مطلوبہ منزل آہی گئی۔ انکا دل زور سے دھڑکا۔
" چلیں؟"
اسنے کچھ دیر گاڑی روکے انکے گاڑی سے اترنے کا انتظار کیا۔
" نہیں باہر دھوپ ہے، تم لے آو"
انہوں نے صرف اسے اکیلے بھیجنے کے لیے ایک بودا سا بہانہ گھڑا۔
زید نے ایک نظر باہر آسمان پر ڈالی جو بادلوں سے ڈھکا تھا اور پھر کچھ دیر تک سورج بھی غروب ہوجاتا۔
" میں نے ٹریٹمنٹ کرایا تھا اور سن بلاک اپلائے نہیں کیا ہوا۔۔"
اسکی حیران نظروں پر سعدیہ نے جواز پیش کیا۔
وہ گہری سانس لیتا گاڑی سے اتر گیا۔
مام آج حیران کر رہی تھیں۔
دس منٹ بعد انکی کولڈ اور اپنی ریگولر کافی ہاتھ میں لیے وہ واپس آیا تو وہاں نہ سعدیہ تھیں اور نہ گاڑی۔
وہ اب حیران کے بجائے پریشان ہوا۔
♤♤♤♤♤♤
اسنے سمندر کنارے بنے اس فٹ پاتھ کے ساتھ موجود ریلنگ پر کافی کے کپ رکھ کر فون نکالا جہاں سعدیہ کا میسج آیا ہوا تھا۔
وہ اسے ضروری کام کا کہہ کر وہیں کچھ دیر انتظار کرنے کا کہہ رہی تھیں۔
اسنے فون جیب میں رکھتے مڑ کر رخ سمندر کی طرف کر لیا۔ مام کے رویے سے دھیان ہٹا تو یہ جگہ پہچان میں آئی۔
دل بےاختیار کراہا۔
وہ ان یادوں سے خائف ہوکر شہر میں نہیں نکلتا تھا اور اب وہ عین اس جگہ کھڑا تھا جو اسکی زندگی سے نکل کر اسکے خوابوں کا حصہ بن گئی تھی۔
یہاں اس ریلنگ کے سہارے کھڑے سمندر کی لہروں پر نظریں جمائے زمانے بھر کی باتیں کی تھیں کبھی۔
اسکا اور منیزے کا مخصوص سپاٹ جو منیزے کے آفس اور اسکے کالج دونوں سے ہی نذدیک پڑتا تھا۔
کافی کچھ بدل گیا تھا یہاں۔ اب جہاں فاسٹ فوڈ ریسٹورانٹ اور کیفے تھے تب انکی جگہ کھانے پینے کے چھوٹے بڑے سٹالز ہوتے تھے۔
بہت کچھ پہلے جیسا بھی تھا، سمندر اب بھی وہی تھا اور سورج بھی۔ اسکی محبت بھی۔
اسے وہم سا ہوا کہ ذرا فاصلے پر سمندر کے دوش میں لہراتے وہ سیاہ گھٹاوں سے گھنگریالے بال بھی پہلے کی طرح موجود ہیں۔
نظریں ترچھی کر کے اپنا وہم دور کرنا چاہا تو اسے مجسم موجود پایا۔
نگاہیں اپنا راستہ بھولیں اور وہیں منجمند ہوئیں۔
کافی کا کپ تھامے سمندر پر نظریں جمائے ریلنگ کے سہارے اسکی موجودگی سے بےخبر کھڑی وہ منیزے ہی تھی۔
♤♤♤♤