" یس۔۔ who؟"
" سعدیہ، سعدیہ ابراہیم۔۔"
منیزے نے فون کان سے ہٹا کر اسے دیکھا۔
اسے لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔
" منیزے۔۔؟"
دوسری طرف اتنے طویل سناٹے کے سبب سعدیہ نے تصدیق کے لیے پکارا کہ کہیں کال نہ ڈراپ ہو گئی ہو۔
" جی کہیے۔۔"
اسے یقین کرنا پڑا۔ وہ سعدیہ ابراہیم ہی تھیں۔
" تمھاری طرف شاید دن ہوگا ، آئی ایم ناٹ شیور کے تم کہاں ہوتی ہو آج کل، ڈسٹرب تو نہیں کر رہی میں۔۔؟"
انکا لہجہ پہلے سا ہی تھا، بہت سے تکلفات سے پُر، نرم پر شاہانہ۔
" کراچی میں ہوں، یہاں بھی رات ہی ہے"
پانچ سال بعد ماضی کس بری طرح اسکے سامنے آرہا تھا۔
وہ اس بہتے ریلے پر کہاں کہاں بند باندھے کہ وہ اسے ساتھ بہا کر نہ لے جائے۔
" تم کراچی میں ہو؟"
اب کے سعدیہ کو لگا کہ انھیں سماعت کا دھوکا ہوا ہے۔
وہ دونوں اتنے عرصے بعد پھر اس شہر میں ساتھ موجود تھے۔
یہ اتفاق تھا یا قدرت کا کوئی مذاق۔۔
" جی۔۔"
" کیسی ہو؟"
انھوں نے بنیادی تکلف نبھایا۔
" ٹھیک۔۔"
منیزے نے ایک لفظی جواب دیا۔
کیسا غیر آرامدہ مکالمہ تھا یہ۔
"آپ؟"
اسے بھی مروت یاد آئی۔
" میں بھی۔۔"
" مجھے بات کرنی تھی تم سے، تم شہر میں ہو تو مل لیتے ہیں۔۔"
وہ فوراً موضوع پر آئیں۔ اب وہ شہر میں تھی تو بہتر تھا کہ بات آمنے سامنے کی جاتی۔
" مل کر کیا کریں گے؟"
منیزے کے لہجے میں زخمی سی ترش ہنسی کی غیر محسوس گھلاوٹ تھی۔
"بات، اٹس امپارٹنٹ۔۔its important"
اسنے انکی بات کا چند لمحے کوئی جواب نہیں دیا۔
انکے مابین بات کرنے کو رہ ہی کیا گیا تھا؟
" تم مجھے انکار کر رہی ہو؟"
جب خاموشی کا وقفہ طویل ہوا تو سعدیہ نے اس سے ہی منیزے کا جواب اخذ کر لیا۔
وہ انکار کر سکتی تھی؟ وہ زید کی ماں تھیں۔ اُسے اتنی عزیز تھیں۔ وہ کیسے انھیں کسی بھی چیز کے لیے انکار کر سکتی تھی۔
" نہیں، آپ بتائیں کہاں آنا ہے"
اسنے ہار مانی۔
یہ زخم ہرے ہونے کے دن تھے۔
" میں تمھیں وقت اور جگہ ٹیکسٹ کر دیتی ہوں۔۔"
الوادعی کلمات کے بعد وہ فون رکھ چکی تھیں۔ منیزے اب بھی فون ہاتھ میں تھامے اسی انداز میں کھڑی تھی۔
پہلے زید پھر سعدیہ۔
کیا وہ انکی چند دن قبل ہونے والی اس ملاقات سے واقف تھیں؟
اسے پاکستان نہیں آنا چاہیے تھا۔
وہ پچھتائی۔
♤♤♤♤♤♤
ماضی
" منیزے سے بات ہوتی ہے تمھاری؟"
وہ تینوں ہی ناشتے کے لیے ڈائینگ ٹیبل کے گرد موجود تھے۔ جب ابراہیم نے اخبار کی اوٹ سے زید کو مخاطب کیا۔
" جی اکثر ہو جاتی ہے"
اسنے سیرئیل چبانا روک کر جواب دیا۔ وہ معمول کے جینز ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ ڈیڈ کو صبح صبح منیزے کہاں سے یاد آگئیں؟ اسنے سوچا۔
" اچھی لڑکی ہے ، اچھا لکھتی ہے۔۔"
یہ ایک لفظ اچھا وہ بچپن سے اپنے باپ کے منہ سے سننے کو ترستا آیا تھا۔ منیزے کے لیے وہ کتنی آسانی سے استعمال کر رہے تھے۔ وہ بھی ایک جملے میں دو بار۔
" وہ لکھتی ہیں؟"
وہ اسکے کالم لکھنے سے انجان تھا۔
" ہاں۔۔ تمھیں نہیں پتا؟"
ابراہیم نے اخبار تہہ کر کے منیزے کا کالم سامنے کرتے اسے تھمایا۔
ہارڈر ٹائمز (Harder times) کے عنوان کے ساتھ مفلر نما دوپٹا لیے گھنگریالے بال کھولے وہ بے رنگ تصویر منیزے ہی کی تھی۔
وہ فوراً ناشتہ بھول اخبار تھامے پڑھنے لگا۔
" ایک وجہ یہ بھی تھی اس سارے ڈرگ ایپیسوڈ میں تم پر لگے الزامات پر یقین کرنے کی کہ وہ منیزے کی طرف سے تھے، آئی نیو ہر تھرو ہر پین۔۔۔I knew her through her pen"
زید اخبار پر نظریں ٹکائے انکی بات سن رہا تھا۔ انکی وجہ کافی ویلڈ valid تھی وہ ہوتا تو شاید وہ بھی یقین کر لیتا۔
" پھر تو مایوس ہوئے ہونگے آپ کہ وہ غلط ثابت ہوئی۔۔"
سعدیہ نے براون بریڈ پر مکھن لگا کر زید کو تھماتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیا۔
" اسنے جیسے اپنی غلطی اون کی مجھے مایوسی سے زیادہ فخر ہی ہوا۔۔۔ جرنلسٹس کی ینگ لاٹ میں سب سے زیادہ پوٹنشل ہے اس میں۔۔"
وہ آملیٹ کو چھری کانٹے سے نفاست سے توڑتے کہہ رہے تھے۔
" تم نے اسے انوائٹ کیا ہے سیٹرڈے کے ڈنر پر؟"
انھیں جیسے یاد آیا۔
اسکا فرسٹ ائیر کا رزلٹ آیا تھا۔ اپنی کلاس میں سب سے پہلا نمبر لے کر وہ ڈیڈ کو خوش کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا تھا۔
" کیا نہیں ہے پر کرنا ہے۔۔ انکے بنا اٹ ولڈنٹ ہیو بین پاسبل۔۔ it wouldn't have been possible"
منیزے اب زیادہ مصروف ہوتی تھیں۔ پچھلے چند ماہ سے وہ جس چینل پر جاب کر رہی تھیں وہاں پوری سپہر جرائم سے متعلق خبروں کے لیے خصوصی سلاٹ موجود تھا۔ مطلب زیادہ محنت۔ اسکی دعوت دینے کے لیے کی گئی آخری کال بھی وہ نہیں اٹھا پائی تھی۔
" گڈ۔۔ یو شلڈ۔۔"
انھوں نے تائید کی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
آج انھیں ایک لیکچر کے کیے زید کے کالج جانا تھا۔ اور زید کی گاڑی سروسنگ کے لیے گئی ہوئی تھی تو اسنے ڈیڈ نے ساتھ ہی جانا تھا۔
" زید تم آرہے ہو؟۔۔"
انھوں نے زید کو اب بھی اخبار میں ڈوبے دیکھا تو پوچھا پر وہ زیادہ ہی محو تھا۔
"زید؟"
ابراہیم نے اب کہ زور سے پکارا۔
" یس ڈیڈ۔۔"
وہ فوراً ہوش میں آیا۔ توس منہ میں دبایا ایک ہاتھ میں بیگ پیک اٹھائے دوسرے میں اخبار تھامے وہ ابراہیم کے پیچھے بھاگا۔
وہ اخبار اٹھاتا بھی نہیں تھا، کجا کہ اتنا غرق ہو کر پڑھنا۔
سعدیہ نے سر جھٹکا، ان دونوں باپ بیٹے کا اس لڑکی سے آبسیشن۔۔
♤♤♤♤
" لوگ تو ٹاپ کر کے توپ چیز ہو گئے ہیں۔۔ یاد ہی نہیں کرتے۔۔"
کال اٹھاتے ہی منیزے کا شوخ جملہ اسکی سماعتوں سے ٹکرایا۔
" واہ، اتنے دن نو کال بیک، نو ریپلائی، بزی آپ رہی ہیں اور توپ چیز میں ہو گیا ہوں۔۔"
زید نے نرم سا مصنوعی شکوہ کیا۔
" میں واقعی بزی تھی۔۔"
ایسا ہی تھا۔
" آئی نو۔۔ آئی ایم ناٹ کمپلیننگ I am not complaining"
وہ جانتا تھا کہ یہی وجہ ہے۔
" سیٹرڈے نائٹ کیا کر رہی ہیں آپ؟۔۔"
اسے فون کرنے کی اصل وجہ یاد آئی، اب تو ڈیڈ نے خاص تاکید کی تھی۔
" ابھی تو کنفرم نہیں۔۔ شاید کام۔۔ کیوں؟"
اسنے سوچتے ہوئے دنوں کا حساب لگایا۔
ایک ماہ کی بے رودزگاری کے بعد اسے بطور کرائم ریپورٹر دوبارہ جاب مل گئی تھی۔ یہ بھی اسے پچھلے چینل کے اس حریف چینل پر اس لیے ملی تھی کہ مخالف چینل کو نیچا دکھایا جا سکے اور بتایا جا سکے کہ کیسے مالکان نے اپنی غلطی قبول کرنے کے بجائے سچ کہنے والی امپلائی کو نکال دیا۔
سافٹ مارکیٹینگ کا ایک حربہ۔
میڈیا انڈسٹری بھی سیاست ہی تھی۔ اس کھینچا تانی میں اسکا فائدہ ہو سکتا تھا تو ہرج ہی کیا تھا۔
ابا کی زندگی کو وہ اپنی خود داری کے ساتھ تولتی تو پلڑا ہمیشہ خود داری کا ہلکا نکلتا تھا۔
اس لیے وہ مول تول کرنا ترک کر چکی تھی۔
دنیا دکھاوے کو اسکی تنخواہ بھی پچھلی بار سے پندرہ فیصد زیادہ مقرر کی گئی تھی۔
ٹرانسپلانٹ کے لیے کی جانے والی بچت میں معمولی سی تیزی آئی تھی۔
" انوائٹ کرنا ہے آپ کو، مام نے رزلٹ سیلیبریٹ کرنے کے لیے ڈنر پلین کیا ہے اور آپ نے آنا ہے۔"
وہ بہت مان سے دھونس جما رہا تھا۔
" میں وہاں آکر کیا کروں گی؟"
وہ مام کی پارٹی کا سن کر فوراً بدکی۔
" کتنا روڈ رسپانس ہے میری سنسئیر sincere انوائٹ کا"
زید نے مصنوعی آہ بھری۔
" نہیں واقعی، میں وہاں کسی کو نہیں جانتی، میرے سرکل سے کوئی نہیں ہوگا وہاں۔۔"
منیزے نے وضاحت کرنی چاہی۔
" میں تو ہوں گا ناں۔۔"
وہ میں پر زور دے رہا تھا۔
" تم ہوسٹ ہو، تم بزی رہو گے۔۔"
منیزے کو اب منع کرتے برا لگ رہا تھا۔
" میں نہیں رہوں گا بزی، سارا ٹائم آپ کے ساتھ رہونگا پرامس۔۔"
زید نے اپنے تئیں مسئلے کا حل نکالا۔
"زید۔۔"
" یہ آپکے بنا ممکن نہیں ہو پاتا منیزے۔۔ آپ آئیں گی تو مجھے خوشی ہو گی۔۔"
اسکے لہجے میں اصرار بڑھا۔
" یہ تمھاری کامیابی ہے، مجھے کریڈٹ مت دو، میں نے اس میں وقتی رکاوٹ ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے۔۔"
منیزے نے اسے ٹوکا۔ کتنی محنت کی تھی اسنے، وہ کتنی آسانی سے کریڈٹ اسکی جھولی میں ڈال رہا تھا۔ اسے برا لگا، زید کو اپنی کامیابی پورے اعتماد سے اون کرنا سیکھانا تھا۔
" اب باتوں میں تو آپ سے جیتنے سے رہا میں، پر ڈیڈ نے اسپیسفکلی specifically آپ کو انوائٹ کرنے کا کہا تھا، یو آر دا اونلی ون ان مائے سرکل ہی اپرووز you are the only one in my circle he approves، آپ ہونگی تو وہ مجھے زرا کم کریٹیکل critical نظروں سے دیکھیں گے۔۔"
" تمھیں اپنی بات منوانے کے کتنے بہانے آتے ہیں"
منیزے نے ہار مانی۔
یہ واحد شخص تھا جو سو تاویلیں دے کر منیزے سے اپنی بات منوا لیتا تھا۔
" آپ آرہی ہیں مطلب؟"
وہ اسکا مطلب سمجھتے یکدم ہی خوش ہوا۔
" اور کوئی آپشن ہے میرے پاس؟"
منیزے کے سوال میں شوخ سی بیزاری تھی۔
" نہیں!"
وہ ہنسا۔
" پر اگر مجھے تمھارا ایلیٹ سرکل دیکھ کر اختلاج قلب ہوگیا تو ذمہ دار تم ہوگے۔۔"
وہ ہامی بھر کر اپنا خدشہ زبان پر لائی۔
" آپ میرے ساتھ ہونگی تو آپ کو اخ۔۔ اخت۔۔ واٹ ایور نہیں ہوگا۔۔"
وہ کیمبرج سیسٹم کی پیداوار تھا۔ جتنے مشکل لفظ منیزے بولتی تھی اتنے اسنے اسکول میں اردو کی کتاب میں بھی نہیں پڑھے تھے۔
اسکے لفظ کی ادائیگی پر اٹکنے پر منیزے کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
♤♤♤
زید کے گھر ڈنر پر وہ آدھے گھنٹے سے زیادہ نہیں رک پائی تھی۔
سیاہ چوڑی دار کے ساتھ سیاہ سادہ شیفون کی لمبی کمیز پہنے کسی بھی قسم کے زیور کے بنا سیاہ بال کھولے زید کے اسرار پر وہ چلی تو آئی تھی ہر اب خود کو اس پارٹی میں مس فٹ محسوس کر رہی تھی۔
" یار منیزے آپ کتنی زیادہ اچھی لگ رہی ہیں"
زید اسے دیکھ کر سب چھوڑ کر اسکی طرف آیا تھا۔ اور آتے ہی اسکی تعریف کی۔
" تم بھی کم نہیں لگ رہے، شاید ٹاپ کر کے لوگ زیادہ ہینڈسم ہو جاتے ہیں"
زید کی آواز اتنی بلند تھی کہ آس پاس کھڑے چار لوگوں نے اسے مڑ کر دیکھا۔ اپنے کام پر تعریف وہ حق سمجھ کر وصول کرتی تھی۔ ظاہری حلیے پر کی جانے والی تعریف کا کیا کرنا ہوتا ہے اسے وقعی نہیں پتا تھا۔
اسنے خود پر سے دھیان ہٹانے کو اس کی تعریف لوٹا دی۔ وہ واقعی اچھا لگ رہا تھا فل سوٹ میں ذرا بڑا، میچیور سا۔
زید نے ہنس کر اپنے ڈنر جیکٹ کا کالر ٹھیک کیا۔ یہ مام اسکے لیے لائیں تھیں ورنہ وہ ٹی شرٹ اور جینز ہی پہننے کا سوچ رہا تھا۔
" شکریہ، ویسے میں ہمیشہ سے اتنا ہی ہینڈسم ہوں"
اسنے شرارت بھرے انداز میں تعریف قبول کی۔
وہ ڈاکٹر ابراہیم سے مل کر کچھ مزید وہاں رک کر کام کا بہانہ کر کے چلی گئی تھی۔
یہ ملک کے دس فیصد امراء کی دنیا اس کے لیے نہیں تھی۔ اور پھر جیسے زید ہر مہمان بھلائے اسے کمپنی دے رہا تھا اسنے چلے جانا ہی بہتر سمجھا۔
وہ اسکی تقریب تھی، اسکے مہمان تھے، اسے انھیں وقت دینا چاہیے تھا۔
♤♤♤♤
وہ ذرا ریلنگ پر آگے کو جھکی سر نیچے کیے سمندر کی لہروں کو دیکھنے میں مصروف تھی۔ سیاہ گھنگریالے بال ہوا کے سبب اسکا چہرہ ڈھکے ہوئے تھے۔
وہ آج اداس تھی۔ دل بوجھل تھا۔
ہائی وے پر ہونے والے ڈاکے اور قتل کی واردات کوور کرتے وہ چپ سی ہوگئی تھی۔ ایک عورت مصلح ڈاکووں کو اپنی نوعمر بیٹی کی طرف بڑھتے دیکھ ان سے الجھ پڑی تھی اور نتیجاتاً انکی گولیوں کا نشانہ بن گئی۔ لڑکی ٹھیک تھے، اسکی حفاظت اسکی ماں نے اپنی جان دے کر کی تھی۔
فون پر اسکی بوجھل آواز سن کر زید اسے سمندر کنارے بنے اس سیاحتی مقام پر لے آیا تھا اور اب دونوں ہاتھ ریلنگ پر ٹکائے گردن ترچھی کیے اسے دیکھ رہا تھا جو کہہ رہی تھی،
" مائیں تو ایسی ہوتی ہیں، وہ عورت اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے نہتی ان چار ڈاکوؤں سے بھڑ گئی، تمھاری مام بھی تو ہیں اور ایک میری تھیں۔۔"
" وہ اب بھی ہیں۔۔"
اسنے منیزے کے ماضی کا صیغہ استعمال کرنے پر تصحیح کی۔
" میرے لیے تو تھیں۔۔ تمھیں پتا ہے میں بطور عورت انھیں سمجھ سکتی ہوں کہ انھیں نہیں تھی ابا سے محبت، جس سے تھی اسکے ساتھ چلی گئیں وہ۔۔ ٹھیک کیا انھوں نے۔ زبردستی کے بندھے رشتوں کی عمر اتنی ہی ہوتی ہے۔۔ پر وہ ماں بھی تو تھیں۔۔ وہ مجھے کیسے چھوڑ کر چلی گئیں۔ انکی زندگی میں میرے لیے ذرا بھی گنجائش نہیں نکلی۔۔ میں تو انکے وجود کا حصہ تھی ناں۔"
منیزے کے لہجے میں بچپن کی ٹوڑ پھوڑ کی باقیات تھی، نارسائیوں کے عذاب تھے۔
ایسی باتیں وہ ہمیشہ سے خود سے کرتی آئی تھی۔ اب اتنی ہی روانی سے زید سے کرنے لگی تھی۔
" انھیں معاف کر دیں منیزے، یو ول فائینڈ پیس You will find peace"
" نہیں کر سکتی یار، وہ غلط نہیں لگتی ہیں تو اپنا آپ لگنے لگتا ہے۔"
منیزے نے بےبسی سے زور سے سر نفی میں ہلایا۔
" انھیں قصور وار نہ ٹھہراوں تو خود کو ٹھہرانے لگتی ہوں، ان کی مزید اولاد بھی تو ہے ان سے تو محبت ہے انھیں، شاید مجھ میں ہی کمی تھی،میں ہی انکی محبت کے لائق نہیں تھی، جو انسان خود کو ماں کی محبت کے لائق نہ سمجھے اسکی سیلف ورتھ اپنی نظروں میں پھر کیا ہی رہ جاتی ہے۔۔"
زید نے اسے دیکھا۔ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔
وہ تو تصور بھی نہیں کر سکتا تھا منیزے کا کرب۔
" کچھ چیزیں شاید ہمارے لئے ہوتی ہی نہیں ہیں تو ان پر فوکس کیوں نہ کیا جائے جو ہمارے پاس ہیں۔ میں نے اس دن سرسری ایک خبر دیکھی تھی کہ ایک شخص نے کھانا وقت پر نہ ملنے پر اپنی چھے سالہ بیٹی کو تندور میں پھینک دیا۔ ایسے بھی باپ ہوتے ہیں۔ یہ سوچنے کے بجائے کے آپ کو ایک اچھی ماں نہیں ملی آپ یہ کیوں نہیں دیکھتیں کہ آپ کے فادر بہترین ہیں۔ وہ آپ سے دنیا میں سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں، اپنی باقی دو اولادوں سے بھی زیادہ۔ آپ کو دیکھتے ہوئے، آپ کے ذکر پر جو انکی آنکھوں میں واضع پرائیڈ اور یقین ہوتا ہے وہ مجھے ڈیڈ کی آنکھوں میں ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا۔ ہی لوز یو انف ٹو اوور کمپنسیٹ یور مدرز ایبسینس۔۔ he loves you enough to over compensate your mother's absence."
پر الفاظ کے مرہم تو وہ رکھ ہی سکتا تھا۔
" ٹھیک کہہ رہے ہو تم، ابا ہی تو ہیں ایک۔ اتنا اچھا بولنا کہاں سے سیکھا تم نے۔۔"
منیزے کو لگا اسے جیسے ان الفاظ کے کہے جانے کی ضرورت تھی۔
" آپ لکھتی بھی ہیں، یو نیور ٹولد می۔۔"
اسنے اپنی تعریف پر بات بدلی۔
وہ اب ٹھیک تھی۔ کسی نئے ٹریگر تک اسنے ٹھیک رہنا تھا۔
" ذکر ہی نہیں نکلا کبھی، ویسے بھی تم نے اپنی کورس بکس کے علاوہ کونسا کچھ پڑھنا ہوتا ہے۔"
منیزے نے کندھے اچکائے، ساتھ اسکے مطالعے کی عادت نہ ہونے پر چوٹ بھی کی۔
" اب ایسا بھی نہیں ہے، آپ لکھیں گی تو میں کیسے نہیں پڑھوں گا۔ ڈیڈ از آ بگ فین بائے دا وے dad's a big fan by the way."
اسنے ابراہیم کی تعریف منیزے تک پہنچائی۔
باقی کسی رائٹر اور منیزے میں فرق تھا اب، اسے وہ نصابی کتابوں کی ہی طرح پڑھ سکتا تھا۔
" اور تم؟"
منیزے نے اسکی رائے جاننا چاہی۔
" میں تو ہوں ہی۔۔"
زید کا انداز ایسا تھا کہ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے؟
♤♤♤
اسنے ابا کے کمرے میں جھانکا تو وہ کمرے کے کونے میں پڑی اپنی سنگل بیڈ پر لیٹے کسی کتاب کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔
"اتنی جلدی آگئیں واپس؟"
انھوں نے نظر اٹھا کر چشمے کے پار سے اسے مسکرا کر دیکھا۔
وہ ساٹھ کے لگ بھگ تھے۔ کم وزن، چہرے کی جھلسی ہوئی رنگت اور آنکھوں کے گرد حلقے کسی پرانی مسلسل بیماری کا پتا دیتے تھے۔
اس سب سے ہٹ کر انکی روشن آنکھیں اور ملیح مسکراہٹ بتاتی تھی کہ جسم میں روگ لگنے سے پہلے وہ ضرور بہت وجیہہ رہے ہونگے۔
" آپ مجھ پر طنز کر رہے ہیں ابا، گیارہ بج رہے ہیں"
وہ انھیں دیکھتی مسکراتی ہوئی انکے پاس آکر بیٹھی۔
" اب ڈانٹنے، سرزنش کرنے کی عمر سے تو بڑی ہو چکی ہو تم۔۔ طنز ہی کر سکتا ہوں۔۔"
انھوں نے نظر اسکی خوشامدی سی مسکان سے پھیرتے ہوئے صفحہ پلٹا۔
" کبھی بھی اتنی بڑی نہیں ہو سکتی میں کہ آپ ڈانٹ نہ سکیں۔۔"
منیزے نے بڑھ کر کتاب انکے ہاتھ سے لی اور انکے سینے پر سر رکھ دیا۔
اس سے زیادہ فاروق احمد کے غصے میں سکت نہیں تھی کہ وہ منیزے کے آگے ٹھہر سکے۔
انھوں نے سر جھکا کر اسکے پھولے ہوئے جھوڑے والے سر پر لب رکھے۔
" آج کا سبق سنائیں۔۔"
اسنے کچھ دیر یوں ہی انکے سینے سے لگے انکی خوشبو خود میں جذب کی، دنوں کی تھکن اتاری اور کچھ خیال آنے پر سر اٹھا کر انھیں دیکھتے ہوئے کہا۔
وہ ہنس دیے، وہ انھیں آج بھی اپنی آنکھوں میں بچپن سا اشتیاق اور انتظار لیے دیکھ رہی تھی۔
وہ تین سال کی عمر سے ابا کے دیے روزانہ کے اسباق کی عادی تھی جو اخلاقیات ہر مبنی چھوٹے ایک عاد جملوں کے کتابوں، نظموں، اخباروں سے چرائے اقوال ہوتے تھے جو فاروق احمد نے اپنی بیٹی کی گھٹی میں ملائے تھے۔
یہ اسکے بچپن کا بہت اہم حصہ تھا۔ آسودہ حصہ۔۔۔
انھوں نے کچھ دیر سوچا۔
" تو سنو،
'میرے بیٹے
کبھی اتنے اونچے نہ ہونا
کہ کوئی کندھے پر سر رکھ کر رونا چاہے
تو اسے سیڑھی لگانی پڑے۔۔'"
وہ اپنے چہرے پر صدا کی مسکان لیے بہت نرم الفاظ میں صبح پڑھی اس نظم کا اپنا پسندیدہ حصہ دہرا رہے تھے۔
" واہ۔۔ میں ٹویٹ کر رہی ہوں اسے۔۔"
منیزے نے جھٹ ان سے الگ ہوکر فون نکالا۔
" یہ تمھارے لیے تھا۔"
انھوں نے اسکے فون پر تھرکتی انگلیاں دیکھ مصنوعی افسوس میں سر ہلایا۔
" میرے ساتھ چار اور لوگ اگر اس پر عمل پیرا ہو گئے تو مضائقہ تو کوئی نہیں۔۔"
انکی بیٹی کے پاس اپنے ہر عمل کا جواز ہمیشہ ہوتا تھا۔
" یہ دیکھیں زید نے ریٹویٹ بھی کر دیا۔۔"
منیزے نے فون انکے آگے کیا۔
" کیسا ہے زید؟ اتنے دنوں سے نہیں دکھا۔۔"
انھوں نے زید کے ذکر پر اسکی بابت پوچھا۔
انھیں کیا سمجھ آنا تھا یہ سوشل میڈیا۔
" جی پڑھائی میں مصروف تھا کچھ، بات ہوئی تو بتاوں گی کہ آپ یاد کر رہے تھے اسے، فوراً پہنچ جائے گا۔"
زید سے انکی ملاقات گزرے ڈیڑھ سال میں دو تین مرتبہ ہوئی تھی۔ ایک دفعہ وہ منیزے کو چھوڑنے گھر آیا تھا۔
اسکے علاوہ وہ اسکے کالج سے ملحقہ ہسپتال میں طبعیت کی خرابی کے سبب ایک عاد بار داخل رہے تھے تو زید سے تفصیلی ملنا ہوا تھا۔ وہ کلاسوں کے درمیان انھیں دیکھ جاتا تھا۔ آف ہونے کے بعد انکے کمرے میں بیٹھ کر گھنٹوں باتیں کیا کرتا تھا۔
اس سے ملنے سے پہلے انھیں منیزے سے زید کا ذکر سن کر حیرت ہوتی تھی کہ انکی لوگوں سے ہزار فٹ کا فاصلہ بنائے رکھنے والی بیٹی نے اسے دوست کیسے مان لیا۔ ملنے کے بعد انکی حیرت جاتی رہی تھی۔ وہ پر خلوص سا مسکراتا لڑکا تھا ہی اس قابل کہ اسے دوست بنایا جائے۔
" بڑا ہی اچھا بچہ ہے، بہت بے ساختگی اور معصومیت ہوتی ہے اسکی باتوں میں، آجکل کے نوجوانوں سے بہت الگ۔۔"
انکے لہجے میں شفقت تھی۔
" وہ بھی آپ کے بارے میں ایسا ہی کچھ کہتا ہے"
منیزے نے ہنس کر کہا۔ زید اور ابا کی بھی عجیب بونڈنگ تھی۔
♤♤♤♤♤♤
وہ حسب معمول رات کے کھانے کے بعد کتابیں کھولے بیٹھا تھا۔ بائیو کیمسٹری کا یہ چیپٹر شیطان کی آنت ثابت ہو رہا تھا وہ پچھلے پانچ دن سے اسے ختم کرنے کی کوشش میں تھا۔ دفعتاً اسکا فون دھیما سا گنگنایا۔ کوئی اور نمبر ہوتا تو وہ پڑھائی کے وقت کبھی نہ اٹھاتا۔ پر اسکرین پر جگمگاتا منیزے فاروق کا نام وہ نظر انداز نہیں کر پایا۔ وہ فون نہیں کیا کرتی تھی، اگر کر رہی تھی تو کچھ ضروری تھا۔
" تم گھر پر ہو؟"
فون کان سے لگاتے ہی منیزے کی اجلت سے بھری آواز کسی سلام دعا کے تکلف کے بنا کانوں میں پڑی۔
"جی، خیری۔۔"
وہ پریشان ہوا تھا، منیزے کی آواز میں ایک عجیب سا تاثر شامل تھا۔
" اور تمھارے پیرنٹس؟"
ایک اور پرعجلت سوال اسکی طرف اچھالا گیا۔
"ہاسپٹل"
آج مام اور ڈیڈ دونوں ہی آن کال تھے۔
"گڈ۔۔" اسنے چند لمحے خاموشی سے گزارے۔
"کالج میں سلائی کڑھائی سیکھی ہے کچھ یا نہیں؟"
"مطلب؟"
وہ بلکل نہیں سمجھ پایا کہ اس سوال کی کیا تک بنتی تھی۔
"زخم سی لیتے ہو؟"
زید کو اس کی آواز میں وہ بےنام تاثر جیسے ایک لمحے میں سمجھ آیا۔ وہ تکلیف میں تھی۔ گفتگو میں وہ وقفے اس لئے تھے کیونکہ وہ شاید اپنی کراہ دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔
"آپ ٹھیک ہیں؟" وہ فوراً کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
" نہیں۔"
وہ سیدھی بات کرتی تھی۔
"کہاں ہیں آپ؟"
منیزے کی پردرد مگر پر سکون آواز اسے اضطراب میں مبتلا کر رہی تھی۔
"تمھارے گھر کے باہر"
وہ فوراً فون کان سے لگائے گیٹ کی جانب بھاگا۔
"بیل بجاوں گی تو تمھارا یہ سویا ہوا چوکیدار اٹھ جائے گا، میں نہیں چاہتی مجھے کوئی یہاں ایسے دیکھے"
سیڑھیاں اترتے وہ منیزے کی بات سن رہا تھا۔
"میں آرہا ہوں"
" اپنے ملازموں کے ٹولے کا بھی کوئی بندوبست کرو"
اسنے ایک اور مسئلہ بتایا۔
"سب اپنے کوارٹر میں ہیں"
زید نے فی الفور تشفی کی۔
تین کنال کا یہ محل نما بنگلہ اتنا بڑا تھا کہ اسے وقت لگا گھر کے بیرونی حصے تک پہنچنے میں۔
"تمھارے بھاگنے کی آواز یہاں تک آرہی ہے، یوں ہی شور کرو گے تو میں یہیں سے چلی جاوں گی"
اسنے گیٹ کی طرف بڑھتے زید کے قدموں کی آواز پر اسے ڈانٹے ہوئے دھمکایا۔
زید کی سپیڈ کو ایک دم بریک لگی۔
وہ دھیمے سے گیٹ کھول کر باہر آیا تو اسے گیٹ کی بائیں دیوار سے لب کاٹتے ٹیک لگائے کھڑے پایا۔
اوائل نومبر میں اسکے سپید چہرے پر موجود پیسنے کی ننھی بوندیں درد کی شدت کا پتا دیتی تھیں۔
وہ اسے دیکھ کر سیدھی کھڑی ہوتی مسکرائی تھی۔ زید کی نظر اسکے مسکراتے چہرے سے ہوتی ہوئی اسکے دائیں بازو پر پڑی جو اسنے بائیں ہاتھ سے سختی سے پکڑ رکھا تھا۔ آستین کا خاکی کپڑا خون سے تر سیاہ پڑ رہا تھا۔
اسنے پھٹی ہوئی آنکھوں سے اس زخمی مسکراتی پر ہمت لڑکی کو دیکھا۔ وہ فوراً اسے چلنے میں سہارا دینے کو اسکی طرف بڑھا پر منیزے نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔ وہ چل سکتی تھی خود۔
وہ ساتھ چلتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔
جب وہ گیٹ پر سوئے گارڈ سے اتنا دور آگئے کہ وہ انکی آواز نہ سن پائے زید فوراً منیزے کی طرف مڑا تھا۔
" کیا ہوا ہے آپ کو، یہ چوٹ کیسے لگی؟ اتنا خون، بہت درد ہو رہا ہوگا"
وہ ایک ہی سانس میں بہت سے سوال کر گیا۔
منیزے کا اس حالت میں اسکے گھر ہونا سب کچھ ہی بہت عجیب تھا۔
" ریلیکس کچھ نہیں ہوا ہے بس ہلکی سے گولی لگ گئی ہے، وہ تم سنبھال۔۔"
"واٹ"
زید کی آنکھیں ابل پڑی تھیں اسکی بات سن کر۔
ہلکی سی گولی؟
" آپ یہاں رکیں میں گاڑی کی چابی لے کر آتا ہوں، ڈونٹ وری، ہاسپٹل یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے"
وہ کہتے ہوئے گھر کے اندرونی حصے کی طرف بھاگا تھا۔
"زید۔"
منیزے نے دھیرے سے اسے روکنا چاہا، اسنے نہیں سنا۔
" زید!"
وہ جھنجھلا کر چلا آٹھی۔
" ہاسپٹل جانا ہوتا تو سیدھی وہاں جاتی میں، تمھارے پاس کیوں آتی؟ گولی لگی ہے پولیس کیس ہے یہ، پولیس انولو ہوگی تو ابا کو پتا لگ جائے گا، وہ جاب نہیں کرنے دیں گے، جاب نہیں کروں گی تو پیسے نہیں آئیں گے، پیسے نہیں ہونگے تو ابا کا ڈائلیسس نہیں ہوگا، وہ مر جائیں گے، ابا مر جائیں گے زید"
اسنے کہنا غصے میں شروع کیا تھا پر جملے کے آخری حصے تک آتے آتے اس کی آواز نقاہت زدہ سی سرگوشی میں بدل چکی تھی۔
وہ یونہی بازو پکڑے لب کاٹتی برآمدے کی سنگی سیڑھیوں پر ہانپتے ہوئے بیٹھ گئی۔
جسم میں رستا زخم موجود ہو تو سانس لینا بھی مشقت ہوتی ہے۔
" میں سیکنڈ ائیر کا سٹودنٹ ہوں مجھے گولی نکالنی نہیں آتی، اور یہ پتا نہیں کتنی ڈیپ ہے، آپ کی بون نہ ڈمیج ہوئی ہو" وہ اس کی ضد دیکھ کر بہت بے بسی سے پلٹا۔
اب اسکے سر پر کھڑا اس کے زخم کو پریشانی سے دیکھتا کہہ رہا تھا۔
" گولی نکالنی نہیں ہے، چھو کر گزری ہے، تم نے بس ٹانکے لگانے ہیں، یہ بھی نہیں کر سکتے تم؟"
درد نے اسے چڑچڑا سا کر دیا تھا۔
" آپ اندر چلیں، میں دیکھتا ہوں کچھ"
اسنے جھک کر اسے اٹھنے میں مدد دینی چاہی جسے منیزے نے پھر جھٹک دیا۔
" مجھے تمھارا سہارا نہیں میڈیکل ہلپ چاہیے زید"
اسنے اپنے ہاتھ جلدی سے پیچھے کیے مبادا وہ غصے میں اٹھ کر چلی نہ جائے یہاں سے۔
کچھ دیر بعد وہ ڈیڈ کے کمرے سے ساری ضرورت کی سپلائیز لے کر اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ جہاں منیزے اسٹڈی ٹیبل کی آفس چئیر میں گھومتی ہوئی آس پاس کا جائزہ لیتی اپنا بازو پکڑے بیٹھی تھی۔
" میرا پورا گھر تمھارے اس کمرے سے چھوٹا ہوگا"
وہ اسے دیکھ کر ہنسی۔
" زخم دکھائیں اپنا"
وہ اسکے زخم سے اتنا گھبرایا ہوا تھا کہ اپنی امارت پر اسکے طنز پر ہمیشہ کی طرح برہم نہیں ہو پایا۔
" پہلے ایک کپڑا لاو، بلکہ کوئی بیڈ شیٹ جسکا پرنٹ تمھیں بہت برا لگتا ہو اور جسکے ضائع ہونے پر تمھیں ذرا بھی دکھ نہ ہو"
وہ نہیں چاہتی تھی کہ کہیں بھی خون کے دھبے پڑیں۔ جیسے شہزادوں کی طرح زید رہتا تھا اسے یقین تھا کہ وہ کسی کی مدد کے بنا نشان صاف نہیں کر پائے گا۔
" وہ عجلت میں ڈریسنگ روم سے ایک شیٹ اٹھا لایا۔ منیزے نے اسے نیچے بچھانے کا اشارہ کیا، اسنے فور"ا بچھائی۔
وہ پلنگ سے ٹیک لگائے فرش پر اسکی بچھائی شیٹ پر بیٹھی اور اپنا زخم والا ہاتھ آگے کیا کہ وہ معائنہ کر لے۔
"آپ نے اس پر اسکارف باندھ کر خون بہنے سے روک کر بہت اچھا کیا، ورنہ بہت بلڈ لاس ہو جاتا"
وہ اسکا زخم دیکھتے ہوئے زخم کے عین اوپر بندھے کپڑے کی طرف اشارہ کرتا کہہ رہا تھا۔
" میں نے فرسٹ ایڈ کلاسس لے رکھی ہیں، تمھاری طرح تھوڑا ہی ہوں"
منیزے نے اسے کانپتے ہاتھوں سے باکس کھول کر چیزیں ادھر ادھر کرتا دیکھ اس پر چوٹ کی۔
زخم صاف کرنے کے لئے سپرٹ کی بوتل کھولی تو وہ خالی تھی۔ وہ بھاگ کر ڈیڈ کے روم فریج سے برانڈی کی بوتل اٹھا لایا۔
" کیسے ہوا یہ سب"
وہ اسکے زخم پر الکحل گراتے اس سے پوچھ رہا تھا۔ زخم پر محلول گرا تو اسکا چہرہ درد کے مارے مزید پیلا پڑا۔
" تم ڈرنک کرتے ہو، واہ"
وہ درد سے دھیان ہٹانے کو اسے چھیڑ رہی تھی۔
" ڈیڈ کی ہے یہ"
وہ گڑبڑایا، چہرہ سرخ ہوا۔
" مجھے بتائیں گولی کیسے لگی؟"
اسنے اپنا سوال دہرایا۔
" یار یہاں تمھارے ایریا کے ایک بنگلو میں پارٹی چل رہی تھی، وہاں چھوٹے شہروں سے سمگلڈ لڑکیاں لائی گئیں تھیں، سٹوری کوور کرتے پکڑے گئے، بھاگے تو پیچھے سے گارڈ نے فائیر کھول دیا، کیمرہ توڑ دیا کمینے نے ہمارا، نقصان ہوگیا"
زید نے بوتل سے نمبنگ ایجنٹ سرنج میں بھرتے اسے ایک نظر دیکھا جسے گولی لگنے سے زیادہ کیمرہ ٹوٹنے کی فکر تھی۔
"آپ کی ٹیم آپ کو ایسے ہی چھوڑ کر چلی گئی، اس حالت میں؟"
وہ اب سوئی منیزے کے بازو میں زخم کے پاس چھبو رہا تھا۔ پسینے کے دو ننھے قطرے اس کی پیشانی پر بھی نمودار ہوئے تھے۔
" نہیں میں نے انھیں کہا کہ اس گھر میں میرا بہت قابل ڈاکٹر دوست رہتا ہے جسکی پوری فیملی ڈاکٹر ہے، مجھے سیف ہاتھوں میں دیکھ کر چلے۔۔۔"
اسنے سیوچرز شروع کیے تو منیزے نے ہونٹ بھینچ لیے، گردن پیچھے چھوڑ کر سختی سے آنکھیں میچے سر پیچھے گرا لیا۔
زید نے لائیو ٹشو پر آج سے پہلے کام نہیں کیا تھا یہ فورتھ ففتھ ائیر میں جب وارڈز شروع ہوتے ہیں تب سکھائے جاتے ہیں یہ بھی خوش قسمتی تھی کہ دو ماہ پہلے ایک پوسٹ مارٹم کیس پر ڈاکٹر انصاری انھیں لے گئے تھے اور اسنے اسٹچز پریکٹس کئے تھے ورنہ آج وہ یہ بھی نہ کر پاتا۔ زخم سل گیا تھا، خون رک گیا۔
اسنے اپنی بیس سالہ زندگی میں اتنے شدید دباو میں کبھی کچھ نہیں کیا تھا۔
زید نے گہری سانس لے کر سر اٹھایا تو وہ گردن پیچھے دھلکائے نیم بے ہوش سی تھی۔
"منیزے؟"
اسنے اسے اندیشوں میں گھر کر پکارا کہ کہیں اسے کچھ ہو نہ گیا ہو۔
"ہوں؟"
اسنے ہلکا سا سر اٹھا کر اسے مسکرا کر دیکھا۔
"ہوگیا۔۔"
اسے بولتا دیکھ زید کو اطمعنان ہوا۔
"گڈ"
" یہ رسک تھا منیزے، میں نہ کر پاتا تو؟"
اسنے زخم پر پٹی باندھتے کہا۔
" تم کر لیتے مجھے یقین تھا"
وہ اب ایک اور سرنج میں پین کلر بھر رہا تھا۔
" یہ نمبنگ ایجنٹ ہے"
منیزے نے اسے ٹوکا تو زید نے شیشی آنکھوں کے قریب لے جا کر بغور دیکھی۔
" تو جو پہلے میں نے آپ کو لگایا وہ کیا تھا"
اسنے گھبرا کر وہ خالی بوتل اٹھائی، پین کلر تو وہ تھی۔
اف، وہ اسکے زخم کو بنا سن کیے ہی اس پر الٹے سیدھے ٹانکے لگا چکا تھا۔
" آپ نے بتایا کیوں نہیں"
زید کے چہرے پر بے یقینی، شرمندگی، ملال سب تھا۔
وہ اس درد کا تصور بھی نہیں کر پایا جو ابھی منیزے نے اس کی غلطی کے سبب بنا اف کیے سہا تھا۔
" تمھیں اس وقت ٹوکتی تو تمھارا مورال ڈاون ہوجاتا، پھر میرا ہاتھ کون سیتا؟"
وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ اسنے خود کو پھر بھی ملامت کی۔
پٹی بندھ گئی تو وہ سب سمیٹنے میں اسکی مدد کرنے لگی۔
"میں کر لوں گا، آپ آرام سے بیٹھیں" ہر چیز باکس میں واپس ڈال کر اسنے منیزے کے خون آلود آستین کے ٹکڑے جو اسنے زخم دیکھنے کے لئے کاٹے تھے، اسکارف، روئی اور بیڈشیٹ ایک شاپر میں ڈال کر گرہ لگائی۔
سب سمٹ گیا تو وہ اٹھنے لگی۔
" کہاں جا رہی ہیں؟"
"گھر، آج دو بجے تک کا کہا تھا گھر پر، ابا پریشان ہونگے"
کرائم رپورٹنگ جان جوکھوں کا کام تھا اور اس پیشے میں میڈیکل کی ہی طرح دن رات کی تمیز مفقود تھی۔
" ابھی ساڑھے گیارہ ہو رہے ہیں، آپ ایک ڈیڑھ گھنٹا آرام کریں دو بجے سے پہلے میں آپ کو ڈراپ کر دوں گا"
وہ اتنا نقاہت زدہ محسوس کر رہی تھی کہ اس دفعہ اسے منع نہیں کر پائی۔
زید نے پلنگ کی طرف اشارہ کیا تو وہ سست قدموں سے چلتی پلنگ پر لیٹ گئی تھی۔
" یار۔۔۔ میں سوچتی تھی تم امیروں کو ضمیر پر اتنا بوجھ ہونے کے باوجود نیند کیسے آجاتی ہے، ایسا نرم بستر ہو تو نیند کس کافر کو نہیں آئے گی"
اسنے ہنستے ہوئے گدے کو اپنے ٹھیک ہاتھ سے ایک دو دفعہ تھپکایا۔
زید نے اسکی بات پر نہ چڑنے کا فیصلہ کرکے سر جھٹکتے روشنی مدھم کی اور کمرے سے نکل گیا۔
♤♤♤♤♤
حال
" آپ کہیے، کچھ ضروری تھا غالباً"
وہ ڈاکٹر سعدیہ کے بتائے اس روف ٹاپ کیفے میں سپہر کے چار بجے ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔رسمی سلام دعا کے بعد وہ سیدھا موضوع پر آئی۔
" ہاں۔۔"
وہ منیزے کو دیکھ رہی تھیں۔ گزرے سالوں میں وہ بدلی تو نہیں تھی ہاں مزید خوبصورت ہوگئی تھی۔ باہر کی آب و ہوا کا اثر تھا شاید۔۔
وہ اپنے خیال کا اظہار منیزے کے سامنے کرتیں تو وہ ہنس پڑتی، یہ ایک سال ترکی میں رہ کر شکل کچھ ٹھیک ہوئی تھی ورنہ شام، عراق اور مصر میں گزرے ساڑھے تین سال تو بس یوں تھا کہ ایک دن مزید زندہ رہ جانا ہی کامیابی تھی، معجزہ تھا۔
" زید کو آزاد کردو منیزے۔۔"
وہ کچھ لمحوں کے توقف و تردد کے بعد گویا ہوئیں۔
" یہ بات کرنی تھی آپ نے؟ چھوڑ تو چکی ہوں میں اور کیسے چھوڑتے ہیں؟"
اسے حیرت ہوئی تھی اور وہ اسے کیوں
کہہ رہی تھیں یہ، وہ بھی اتنے سال بعد۔
" ہاں، بٹ ناٹ فارمرلی، ڈائیورس ہم۔۔but not formerly, divorce him"
سعدیہ نے اپنی بات رکھی۔
" میں اس کی زندگی میں کہیں نہیں ہوں، کیا فرق پڑے گا۔۔"
وہ کتنی دیر کچھ بول نہیں پائی تھی۔
اور جب لب کھولے تو آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
انھوں نے کتنی آسانی سے اسکی زندگی میں بچی وہ آخری شئے مانگ لی تھی جو زندہ ہونے کا احساس دلاتی تھی۔
" فرق پڑتا ہے، قانوناً تم اب بھی اسکی بیوی ہو یہ چھوٹی بات نہیں ہے۔۔"
سعدیہ نے اپنی بات پر زور دیا۔
وہ دونوں کیسے ایک اتنا اہم معاملہ درمیان میں لٹکائے نارمل زندگی جینے کی اداکاری کر رہے تھے۔
" وہ مرد ہے، قانوناً اسے اس ڈائیورس کی ضرورت نہیں ہے وہ جب چاہے شادی کر سکتا ہے۔"
اسنے ایک اور توجیہہ دی۔ ایک اور کوشش کی انکے مطالبے کو ٹالنے کی۔
" جب تک اسے تمھاری طرف سے آس رہے گی وہ کبھی آگے نہیں بڑھ پائے گا، وہ پانچ سال سے وہیں کھڑا ہے۔"
وہ اپنے بیٹے کو مزید ماضی کو گردن موڑے تکتے ہوئے حال میں جیتے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔
وہ وہیں کھڑا ہے؟ تو پھر ائیرپورٹ پر اسکے ساتھ موجود وہ لڑکی۔۔
اسکی توقع کے برعکس سعدیہ ائیرپورٹ پر ہونے والی اس ملاقات سے بے خبر لگ رہی تھیں۔
" میں اسکی ہر آس توڑ کر اسکی زندگی سے نکلی تھی۔ وہ بھی تو دے سکتا ہے ڈائیورس، آپ اسے کہیں"
وہ اب تھک گئی تھی ،تمام زندگی یہی کیا تھا۔ کیا اس ایک معمولی سی شئے پر بھی وہ ذرا خودغرضی دکھانے کی حقدار نہیں تھی؟ کسی کو کیا فرق پڑتا؟
" وہ میری بات سنتا تو میں تم سے منت نہیں کر رہی ہوتی"
سعدیہ کے لہجے میں بے بسی تھی۔ زید انکی مان جاتا تو وہ یوں آج یہاں ہوتیں؟
" آپ یوں مت کہیں۔۔ مجھ سے منت مت کریں، مجھ سے وہ مت مانگے جو میں نہیں دے سکتی۔۔"
انکے منت کہنے پر اسکا ہاتھ اپنے سامنے رکھے گرم کافی کے مگ پر مضبوط ہوا جو بہرا پانچ منٹ پہلے ڈاکٹر سعدیہ کے اسکے آنے سے قبل کیے گئے آرڈر پر انکے درمیان رکھ گیا تھا۔
وہ ساری دنیا کے لیے منیزے فاروق تھی، یہ نام اسکی پہچان تھا۔ اس نام سے اسے اب بہت لوگ جانتے تھے پر کہیں سے کافی لیتے ہوئے جب اس سے ڈسپوزیبل کپ پر لکھنے کے لیے نام پوچھا جاتا تو وہ منیزے زید بتاتی تھی۔
اس کپ سے مشروب کے زندگی افزا گھونٹ دھیمی سی مسکان کے ساتھ لینا، یہ اسکی بڑی سی زندگی میں چھوٹی سی خوشی تھی، واحد خوشی تھی۔
وہ کیسے دستبردار ہوجاتی؟
" محض نام کے اس رشتے کا کیا کرو گی؟ اور کب تک کرو گی؟"
وہ اس سے سوال کر رہی تھیں، اسکے پاس انھیں دینے کو کوئی جواب نہیں تھا۔
"وہ میرا بیٹا ہے مجھے اس کی فکر ہے، پر تمھاری بھی ہے۔ آگے بڑھو۔۔ زندگی بہت طویل ہے،یہ ماضی کی چھوکٹ پر بیٹھ کر اسے تکتے ہوئے نہیں گزاری جاتی۔۔"
انھیں شروع سے ہی اس لڑکی سے بہت سے مسائل تھے۔ انکے بس میں ہوتا تو وہ اسے کبھی بھی اپنے بیٹے کی، اپنی زندگیوں میں نہ آنے دیتیں۔ وہ زید کے لیے پہلے دن سے اچھی خبر نہیں تھی۔ پر وہ ان کے نا چاہنے کے باوجود ان کی زندگیوں کا لازم جز بن گئی تھی اور اپنی موجودگی جا کر بھی قائم رکھے ہوئے تھی۔
قسمت کا قلم انکے ہاتھ میں نہیں تھا۔ قسمت کا قلم اگر ہمارے ہاتھ میں ہوتا تو مسئلہ ہی کیا تھا؟ رونا ہی کیا تھا پھر؟
وہ بڑی تھیں، ماں تھیں، انکی پریشانی بجا تھی۔ پر وہ اپنے دل کا کیا کرے؟ اسنے اسکی کبھی نہیں سنی تھی، وہ تو یوں بھی نالاں تھا، یہ آخری بات بھی نہ سنتی تو وہ شاید ڈھڑکنا بند کر دیتا۔
" تم جا چکی ہو، اسے یہ قبول کرنے دو۔۔ وہ کب تک اکیلا رہے گا؟ تم کب تک اکیلی رہو گی؟"
وہ سمجھانے والے انداز میں مخاطب تھیں۔
وہ سمجھنے کی حد پر کھڑی ہوتی تو سمجھ بھی جاتی۔ کچھ جذبات منطق کی آواز سننے سے قاصر ہوتے ہیں۔ بہرے ہوتے ہیں۔محبت ان میں سب سے پہلے آتی ہے۔
" مسز ابراہیم آپ میرے لیے بہت قابل احترام ہیں، میں آپ سب کی، زید کی زندگی سے پانچ سال قبل ہی جا چکی ہوں اور میرا واپسی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ آپ کا بیٹا اپنی لائف میں کیا کر رہا ہے یہ میرا مسئلہ نہیں ہے، وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے، وہ چاہے تو آج ڈائیورس بھیج دے، مجھے کوئی ایشو نہیں ہے۔"
وہ انھیں انکی طرح سمجھا نہیں سکتی تھی۔ اسکے پاس کوئی دلیل نہیں تھی۔ وہ منیزے فاروق بن گئی۔ پر اعتماد، اٹل، کسی کی نہ سننے والی، مقابل کو ایک فاصلے پر رکھ کر بات کرتی ہوئی۔ یہ اسکے فرار کا طریقہ تھا۔
ہاں، بس آخری جملہ اسکے اتنے اعتماد سے کہنے پر کسی اندھیری کوٹھڑی میں زنجیروں سے جکڑا قلب خوف سے سکڑا تھا۔ وہ اگر واقعی ان اوراق مرگ پر کوئی جاں گسل مہر لگا کر بھیج دیتا تو؟ اسکی ماں اسے منا لیتی تو؟
وہ وعدہ کر کے گیا تھا کہ وہ اسکی چاہ کے مطابق اس سے کوئی رابطہ نہیں کرے گا، کبھی نہیں ملے گا پر اسکا انتظار یمیشہ کرے گا۔ وہ جب چاہے اسے پکار لے وہ زندہ ہوا تو اسکی ایک آواز پر چلا آئے گا۔
وہ آج بھی اپنے کیے اس وعدے پر قائم تھا۔ اور خود وہ وہ عہد نبھا رہی تھی جو اس نے کسی سے نہیں کیا تھا۔ زید سے تو کبھی نہیں۔
" ہم دوبارہ کہیں ملے تو میں چاہوں گی ہمارے درمیان ماضی کا کوئی حوالہ نہ آئے۔ وقت نے آپ کو مزید گریس فل کر دیا ہے۔ اپنا خیال رکھیے گا۔"
وہ اپنا بیگ اٹھاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ جانے لئے مڑی پر سعدیہ کے جملے نے اسے دوسرا قدم اٹھانے نہ دیا۔
" تم بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتی ہو جتنی وہ کرتا ہے۔۔"
وہ اپنا فون ہینڈ بیگ میں ڈالتے ہوئے کڑوی سی مسکان لیے تاسف سے سر ہلا رہی تھیں۔
یہ اعتراف تو اسنے کبھی زید کے سامنے بھی نہیں کیا تھا پر اسکے نام ہر کاٹے ہجر میں شاید وہ خود سراپا اعتراف ہو گئی تھی۔ ظاہر، اتنی عیاں۔
ان محبتوں کا کیا جائے جنھیں انجام تک لانا نہ ہو ممکن؟؟
♤♤♤♤