رات کے پونے ایک بجے وہ گھر لوٹی تھی۔ یہ ایک سہلوت تھی کہ شام چھ بجے کے بعد کام کی صورت میں گھر پہنچانے کا ذمہ چینل پر تھا۔
اسنے بیل پر ہاتھ رکھا۔ وہ کب سے سوچ رہی تھی کہ دروازے پر ایک آٹومیٹک لاک لگوا لے تاکہ روز کسی نہ کسی کو اسکے لیے دروازہ کھولنے کے انتظار میں رات گئے تک جاگنا نہ پڑے۔
بارہ بجے تک ابا انتظار کرتے تھے اسکے بعد وہ کسی نہ کسی کی ڈیوٹی لگا دیتے کیونکہ اس سے زیادہ انھیں جاگتا دیکھ منیزے ان سے بات کرنا ترک کر دیتی تھی۔ وہ اپنی صحت کے تو نہیں پر منیزے کی خفگی کے خیال سے اس کا انتظار ایک وقت کے بعد نہیں کرتے تھے۔
" آج تمھاری پھوپھی حرمت آئی تھی"
دروازہ ہاجرہ نے کھولا تھا۔
وہ ان کے ساتھ چلتی ہوئی برآمدے کے تخت تک آئی اور وہاں بیگ رکھے کچھ دیر بیٹھ گئی۔ ابا کے کمرے کو ایک نظر دیکھا۔ وہاں کی بتی بند تھی۔
پھر توجہ ہاجرا کی باتوں پر دی جو اسکے لیے اتنے میں کونے میں رکھے گھڑے سے پانی بھر لائی تھیں۔
" قرضے کا کہہ رہی ہونگی؟"
پھوپھی حرمت کا ذکر انکے تین سال پہلے ابا کے علاج کے لیے گئے قرضے کے بنا اس گھر میں نہیں ہوتا تھا۔
وہ ابا کی رشتے کی پھوپھی زاد تھیں اور اسکی ماں کی سگی خالہ زاد پر وہ انھیں پھوپھی ہی بلاتی تھی، ماں سے جڑا ہر رشتہ ہر حوالہ تو انکے اسے اور ابا کو چھوڑ جانے پر ہی دفن ہو گیا تھا۔
"سیدھا تو نہیں کہا پر اشاروں میں یاد کروا رہی تھی، میں نے کہہ دیا انھیں کہ اگلے ماہ تک قرض کی پہلی قسط دے دیں گے۔"
تخت کے سامنے پڑے موڑھے پر گھٹنوں پر ہاتھ رکھے بیٹھتے ہوئے ہاجرہ نے منیزے کو بتایا۔
وہ پریشان ہوئی۔
"اگلے ماہ تک تو ممکن۔۔"
پر اسکی بات مکمل نہیں ہو پائی۔
" میں نے کمیٹی ڈالی تھی وہ نکل رہی ہے اگلے ماہ، وہ دیں دیں گے تو اسے آسرا ہو جائے گا، اگلا کچھ عرصہ چپ رہے گی"
" آپ اپنی کمیٹی۔۔شکریہ خالہ۔۔"
اسے اطمعنان ہوا پر ساتھ حیرت بھی۔
ہاجرا گھریلو خرچ سے کی جانے والی بچت سے قرضہ دینا چاہ رہی تھیں یہ بڑی بات تھی ورنہ ان مہانہ کمیٹیوں کا وہ کیا کرتی تھیں منیزے کے علم سے باہر تھا۔
شاید علیزے کے لیے جہیز جمع کرتی تھیں یہ اسکا اندازہ تھا۔
" ہاں تو نجانے کب تم رقم جمع کر پاو گی تب تک وہ خاندان میں اٹھتے بیٹھتے ہماری غربت اور قرض داری کے قصے کہے گی، خاندان والے اتنا گیا گزرا سمجھیں گے تو تم دونوں کو کیسے بیاہوں گی میں، کون آئے گا رشتہ لے کر اس در پہ؟"
جب سے علیزے اٹھارہ کی ہوئی تھی ہاجرا کو اس نئی فکر نے آگھیرا تھا وہ تبھی اپنی کمیٹی دینے پر راضی ہوئی تھیں۔
" اچھا سوچا آپ نے۔۔"
اسنے پھیکا سا مسکرا کر کہا۔ شادیاں۔۔ رشتے وہ کبھی بھی معاشرے کے ان تقاضوں کو نہیں سمجھ پائی تھی۔ خیر وہ جانتی تھی کہ خالہ علیزے کی بات کر رہی ہیں۔
" تمھاری پھوپھی خوب سنا کر گئی ہے مجھے"
اسنے پانی پیتے سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔
پھوپھی سنا کر گئیں تھیں مطلب اب وہ سب اسے بھی سننا تھا۔
" یہی کہ تم آدمیوں والی نوکری کرتی ہو۔۔ میری سگی بیٹی ہوتیں تو تمھیں کبھی یوں ایسا خطرناک کام کرنے نہیں بھیجتی میں۔۔"
پھوپھی منیزے کی ماں سے رشتے کے سبب اس سے علیزے اور احد کی نسبت زیادہ نرمی سے پیش آتی تھیں۔ اور خالہ کو بھی اکثر اس سے ناانصافی کرنے کے خلاف تنبیہہ کرتی رہتی تھیں۔
وہ بھی ناں! اسکے ابا اسکے ساتھ تھے۔ اسے بھلا کسی اور کے رویے سے کیا فرق پڑتا۔
" نوکری تو نوکری ہوتی ہے۔۔"
وہ اور کیا کہتی؟
" اور یہ کہ تمھیں سولہ سال سے کمانے پر لگایا ہوا ہے، علیزے اور احد پر ایسی کوئی ذمہ داری نہیں، اپنے بچوں کے لیے تمھیں استعمال کر رہی ہوں میں۔۔"
وہ تھکی ہوئی آئی تھی۔ اتنا لمبا اور مشکل دن گزرا تھا۔ اتنی توانائی نہیں تھی اس میں کہ وہ خالہ کو ان باتوں پر مطمعین کرے جو کہیں نہ کہیں سچ ہی تھیں۔ اور وہ خود بھی یہ جانتی تھیں بس یہ سن کر اطمعنان کرنا چاہتی تھیں کہ منیزے ایسا کچھ نہیں سمجھتی۔
منیزے سمجھتی تو تھی پر اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔ اپنی ماں نے جو کیا تھا اسکے بعد کسی بھی اور سے کیسی شکایت۔
آج جعلی ادویات بنانے والی اس فیکٹری کو اس کی ایک ماہ کی محنت کے بعد بالآخر تالا لگ گیا تھا۔ سرکاری ڈسپنسریوں پہ یہ زہر دوا کے نام پر اس کے طبقے کے لوگوں میں بکتا تھا۔ وہ بھی تو ابا کی دوائیں کچھ عرصہ پہلے تک ایسی ہی جگہوں سے خریدتی تھی۔۔ ابا کو کچھ ہوجاتا تو؟ یہ اسٹوری اسکے لیے ذاتی نوعیت کی تھی۔
یہاں محنت بھی اسنے اس حساب سے کی تھی اور اب وہ بس سونا چاہتی تھی۔
" لوگوں کی باتیں کیا دل پر لینا اور زیر بحث لانا، وہ ہمارے مسائل نہیں جانتے، جو رشتہ دار مدد نہیں کرتے وہ بس رائے ہی رکھتے ہیں، انھیں رکھنے دیں، کیا فرق پڑتا ہے۔۔"
اسنے بات سمیٹنا چاہی۔
" ہاں، پر ایسی باتیں وہ جگہ جگہ کرتی ہوگی۔۔"
وہی خاندان میں بدنامی کا خدشہ۔ علیزے کا رشتہ۔۔
" اگلی دفعہ ان سے ملی تو انھیں کہہ دوں گی کہ مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے اور وہ آپ کو غلط سمجھ رہی ہیں، میں کچھ کھا لوں۔۔"
وہ انھیں انکی مرضی کا جملہ سنا کر اٹھ گئی، رخ برآمدے میں ہی موجود کچن کی طرف تھا۔
" تمھاری پھوپھی اپنے شوہر اور بیٹوں کے لیے بھی کھانا لے گئی تھی کچن میں کچھ نہیں ہے، میں نے سوچا تم آو گی تو تمھیں گرم گرم کچھ بنا دوں گی۔"
خالہ کے جملے پر وہ رستے میں ہی رک گئی۔
رات کا ایک بج رہا تھا وہ اس وقت اسکے لیے کیا بنائیں گی۔
" میں چائے بریڈ لے لوں گی اتنی بھوک نہیں ہے، آپ سوجائیں دیر ہو گئی ہے۔"
اس نے منع کر دیا تو وہ مطمعین ہو کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔
وہ منع نہ کرتی تو وہ اسے بنا دیتیں کچھ نہ کچھ۔ ہاں منع کرنے کے بعد ویسا اسرار نہ کرتیں جیسا اپنے بچوں کو کر کے کھلاتی تھیں۔
وہ بری نہیں تھیں بس منیزے کے ساتھ اپنے بچوں جتنی اچھی نہیں تھیں اور ٹھیک بھی تھا۔ عورت اپنی اولاد جتنی محبت کسی اور کو نہیں دے سکتی۔
یہ قدرت تھی۔
منیزے سمجھتی تھی اسے برا نہیں لگتا تھا۔
ویسے بھی وہ کون سا انھیں وہ درجہ دے پائی تھی جو وہ تقاضا کرتی۔
بہت لیا دیا سا ضرورتًا مخاطب ہونے والا انداز تھا اسکا ہاجرا سے۔ ماننا الگ بات وہ تو انھیں ماں بلا بھی نہیں پائی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ انھیں اپنی ماں کی جگہ نہیں دے پائی تھی بلکہ اس کے دل میں ماں نام کی کسی ہستی کے لیے کوئی جگہ بچی ہی نہیں تھی تو وہ کیا دیتی پھر کسی کو۔
اسنے چائے بنانے کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے فریج سے دودھ والی دیگچی نکال کر گلاس میں انڈیلی اور اپنے کمرے کی طرف جاتیں سیڑھیاں چڑھ گئی۔
نیچے دو کمرے تھے ایک ابا کا اور ایک میں علیزے اور احد ہوتے تھے۔ اسے عرصہ ہوا تھا اپنا مختصر سامان لیے چھت پر بنے اس اسٹور میں شفٹ ہوئے۔
یہاں خاموشی ہوتی تھی۔ اسے خاموشی پسند تھی۔۔۔
♤♤♤♤♤
وہ لیپ ٹاپ سامنے رکھے گود میں رکھی نوٹ بک پر جھک کر کچھ لکھ رہی تھی۔ سیاہ گھنگھریالے بال کھلے ہوئے تھے اور جھکنے کے سبب اسکے چہرے پر جھالر سے گرے تھے، فون بجنے کی آواز پر لکھتے لکھتے اسنے سر اٹھایا۔
ایک طرف رکھا فون اٹھاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے بال پیچھے کیے۔ کوئی انجان نمبر تھا۔ اسنے اٹھا لیا۔
"ہیلو۔؟"
سوالیہ سا ہیلو دوسری طرف ائیر پیس پر گونجا۔
"منیزے؟"
اگلے نے تصدیق چاہی۔
"جی۔۔"
وہ آواز نہیں پہچان پائی۔
" میں زید۔۔ زید ابراہیم۔۔ لاسٹ ویک ہم ملے۔۔"
زید کی اپنا تعارف کرانے کی کوشش منیزے نے درمیان میں اچک لی۔
" جتنی دھماکے دار انٹری تم نے دی تھی تمھیں واقعی لگتا ہے تمھیں تعارف کی ضرورت ہے؟۔۔"
وہ مسکرا کر اس سے پوچھ رہی تھی۔
دن میں کسی وقت زید نے اسے فیس بک پر انباکس میں اسکا فون نمبر لینے کے لیے رابطہ کیا تھا جو اسنے دے دیا تھا۔
" آئی ایم رئیلی سوری فار دیٹ۔۔"
وہ اپنے تعارف کے حوالے پر فی الفور شرمندہ ہوا۔
"خیر ہے، تم بتاو۔۔ پڑھائی شروع ہوگئی دوبارہ؟"
منیزے نے بات بدل دی۔
" جی۔۔ میں نے آپ کو تھینکس کہنے کے لیے کال کی تھی، آپ کے پبلکلی بات کلئیر کرنے کے لیے۔۔ اٹ رئیلی میٹرڈ اینڈ مینٹ آ لاٹ it really mattered and meant alot"
چند دن پہلے اسنے اپنے ٹوئٹر پر ایک ٹوئیٹ کے ذریعے اس اسٹوری میں ہونے والی غلطی کا اعتراف اور زید کا نام کلئیر کیا تھا۔
تب پاکستان میں ٹوئٹر تک ہر ایک کی رسائی نہیں تھی پر مخالف میڈیا گروپس نے وہ ٹوئیٹ اپنے پرائم ٹائم پر ایک سے زیادہ بار دکھائی تھی۔
ٹوئیٹ میں اسنے بطور ٹیم لیڈر ساری زمہ داری اپنے سر لی تھی اور چینل کو برالزمہ قرار دیا تھا۔
" شکریہ کی کیا بات ہے، میں نے ایک غلطی میڈیا پر کی تھی تو اسکا اعتراف بھی وہیں کرنا تھا"
یہ ابا کے سکھائے سبق بول رہے تھے۔
" آپ کل کب فری ہیں؟ ہم مل سکتے ہیں؟"
زید نے زرا جھجک کر پوچھا۔
شکریہ کے لیے ہہ سہی لیکن کسی بھی لڑکی کو یوں ملنے کے لیے پوچھنے کا یہ پہلا موقع تھا
" خیر میں؟"
منیزے کو لگا شاید کوئی مسئلہ ہے۔ اسکی زندگی مسئلوں کے گرد گھومتی تھی۔ اسے پہلا خیال انھیں کا آتا تھا۔
" جسٹ وانا پے گریٹیٹیود ان پرسن just wanna pay gratitude in person ، میں آپ کے چینل آجاوں؟ ایک کافی؟"
اسنے وضاحت کی۔
" میرے چینل؟"
زید بھی ناں، وہ ہنسی تھی۔
" میرے ابا کا چینل نہیں ہے وہ، میں وہاں صرف کام کرتی تھی"
اسنے روانی میں دھماکا کیا۔
" تھی؟۔۔"
اسے لگا اسنے شاید غلط سنا ہے۔
" ہاں اب نہیں کرتی۔۔"
منیزے نے معمول کے انداز میں کہا۔
" آپ نے جاب چھوڑ دی؟کیوں؟"
حیران و پریشان زید کی آواز اسکے کان میں گونجی۔
وہ پھر ہنسی۔
" چھوڑی نہیں، نکال دیا۔۔ میں اتنی پریولیجڈ privileged نہیں ہوں کہ چھوڑ کے آجاوں"
اسنے چینل پر اس نادانستگی میں کی جانے والی غلطی کی تصحیح کے لیے پرائم ٹائم پر تیس سیکنڈ کی بات کی تو اسے رد کر دیا گیا، جس کے بعد اسنے اپنے ذاتی ٹوئٹر پر ٹوئیٹ کی۔
چینل کا نام اسنے کہیں نہیں لیا پر پھر بھی جیسے یہ خبر باقی جگہ چلائی گئی چینل کا نام بھی آیا۔ نتیجاتاً اسے کل سے نہ آنے کا عندیہ دے دیا گیا۔
اب ایک ہفتے سے وہ دوسری جاب ڈھونڈتے ہوئے جس انگریزی اخبار میں ماہانہ دس آرٹیکلز لکھتی تھی وہاں بیس لکھنے کی بات کر کے چند پیسے مزید حاصل کرنے میں کامیاب ہو پائی تھی۔
سیونگ تھی اسکے پاس دو تین ماہ نکل جاتے پر وہ ابا کے ٹرانسپلانٹ کے لیے بچائے گئے پیسے تھے۔
انھیں یوں خرچ کر دینا تکلیف دہ تھا۔
" آپ کو۔۔ میری وجہ سے آپ کی جاب چلی گئی منیزے۔۔ مجھے نہیں سمجھ آرہا میں کیا کہوں، مجھے بہت۔۔ آپ نے سب ٹھیک کر دیا تھا، اس آخری چیز کی ضرورت نہیں تھی۔۔"
زید کے الفاظ کھو گئے، بے ربط جملوں میں وہ یہی کہہ پایا۔
" تمھاری وجہ سے کچھ نہیں ہوا، غلطی ہماری ہوتی ہے تو نتائج بھی ہم نے ہی بھگتنے ہوتے ہیں، اور کوئی نہیں ہوتا اس اکویشن equation میں۔۔"
وہ کہیں نہ کہیں تیار تھی اس سب کے لیے۔
" سٹل آپ کا کیرئیر۔۔ آپ کو نہیں کرنا چاہیے تھا"
اسنے تاسف سے کہا۔
" اپنے کیرئیر کے لیے ہی کیا ہے، اس کی بنیادوں میں کوتاہیاں دبی ہونگی تو آگے جا کر یہ عمارت چاہے کتنی ہی اونچی ہوجائے کبھی بھی دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔۔ تب زیادہ تکلیف ہوگی اور سب دوبارہ سے شروع کرنے کے لیے بہت دیر ہو چکی ہوگی۔۔"
منیزے کی آواز مضبوط اور ہر قسم کے افسوس سے پاک تھی۔
" آپ مشکل باتیں کرتی ہیں، آپ کی کوئی بھی بات میرا گلٹ نہیں ختم کر سکتی۔۔"
وہ کالج سے نکالے جانے پر پاگل ہوگیا تھا اور منیزے جاب چلے جانے پر اتنی کمپوزڈ تھی۔
ٹھیک ہے شاید یہ دونوں باتیں برابر نہیں تھیں پر پھر بھی۔
" ایسے ہی گلٹ گلٹ کرو گے تو کل نہیں ملوں گی تم سے میں۔۔"
منیزے نے موضوع کا بوجھل پن زائل کرنا چاہا۔
" مطلب آپ ملیں گی مجھ سے؟"
وہ یک دم خوش ہوا۔
" تم کہو گے تو مل لوں گی۔۔"
زید کی بےیقینی پر اسنے مسکان دباتے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
" میں کہہ رہا ہوں ناں۔۔آپ کی فیورٹ جگہ کون سی ہے؟"
وہ اشتیاق سے پوچھ رہا تھا۔
اسے لگا تھا منیزے انکار کر دے گی۔
" فرئیر ہال کے باہر راجے کی چاٹ۔۔"
منیزے نے سوچتے ہوئے کہا۔
" راجے کی چاٹ۔۔دیسی فیوژن ریسٹورانٹس آج کل ٹرینڈ میں ہیں"
زید کو بات اپنے حساب سے ہی سمجھ آئی۔
اب کے منیزے کی ہنسی قہقہے میں ڈھلی۔
" زید۔۔ یہ فیوژن ریستورانٹ نہیں ہے فٹ پاتھ پہ لگا ایک ٹھیلا ہے جہاں لوگ کھڑے ہو کر چاٹ اور گول گپے کھاتے ہیں"
اسنے ہسنی کے وقفوں کے درمیان بتایا۔
" اوہ"
ڈاکٹرز کی اولاد ہونے کا ایک نقصان یہ تھا کہ اسے اتنا سیدھا نام لینے کے باوجود یہ ممکن نہیں لگا کہ لوگ ٹھیلوں کا کھانا بھی پسند کر سکتے ہیں۔
" میرے ساتھ چلنا ہے تو ایسی ہی جگہوں پر آنا پڑے گا۔۔ اور تمھارے دوبارہ کالج جانے کی خوشی میں ٹریٹ میری طرف سے۔۔"
بے روزگاری کے دنوں میں زید کے ساتھ کسی فینسی ریسٹورنٹ جا کر اسے صرف ایلیٹ طبقے کے چونچلوں پر مزید غصہ ہی آنا تھا۔
" شیور۔۔"
وہ بلا تردد مان گیا۔
♤♤♤♤♤
" پتا ہے اگر مام مجھے فٹ پاتھ پر کھڑے یہ سب کھاتے دیکھ لیں تو بے ہوش ہوجائیں"
زید نے بڑ سا گول گپا منہ میں رکھتے ہوئے بے پرواہی سے کہا۔
وہ راجے کے ٹھیلے کے پاس اس کی اسپورٹس کار کی چھت پر چاٹ کی پلیٹس رکھے پچھلے ایک گھنٹے سے کھڑے ادھر ادھر کی ڈھیروں باتیں کر چکے تھے۔
" مام تو نہیں دیکھ رہیں پر تم خود نہ مرچوں سے بےہوش ہوجاو۔۔"
منیزے نے اسکی سرخ آنکھوں ہر چوٹ کی۔
" نہیں ہو رہا، میرا سپائس تھریش ہولڈ spice threshold( تیکھا برداشت کرنے کی سکت) زیادہ ہے"
وہ اب سموسہ چاٹ کا چمچ منہ میں رکھ رہا تھا۔
"تمھاری بہتی آنکھیں تو کچھ اور بتا رہی ہیں"
اسے ٹریفک کے دھوئیں سے الرجی تھی جس کے سبب آنکھوں سے پانی آرہا تھا۔ پر یہاں کھڑے منیزے سے بات کرتے اسے اتنا مزہ آرہا تھا کہ اسنے پرواہ نہیں کی۔
" انھیں اگنور کریں آپ"
" کالج کیسا جا رہا ہے؟"
اسنے بھی اگنور کر دیا۔
" اچھا، ٹیچرز اینڈ سٹاف از کائنڈا ایکسٹرا نائس ناو teachers and staff is kinda extra nice now"
" گڈ۔۔"
منیزے نے ایک نظر کال کی رنگ بجاتے فون کو دیکھا۔
" میں یہ کال لے لوں؟"
زید نے سر ہلایا تو وہ ایک طرف ہوگئی، جہاں ٹریفک کا شور نسبتاً کم تھا۔
" سب ٹھیک؟"
وہ زرا چپ سی اپنی جگہ لوٹی جسے زید نے محسوس کیا۔
ایک اور ریجیکشن کال تھی۔ چہرے پر لمحے بھر کو سایہ سا لہرایا جسے اگلے لمحے وہ جھٹک گئی۔
"ہوں۔۔ تم بتاو کیسا لگا اسٹریٹ فوڈ؟"
منیزے نے اسے سرخ آنکھیں لیے دہی بڑا چمچ سے توڑتے دیکھا۔
" ان ایکسپکٹڈلی گڈ، میں یہاں روز آسکتا ہوں۔۔"
اسنے ایک اور چمچ منہ میں ڈالتے تعریف کی۔
" تمھاری مام اب روز بےہوش ہوں اچھا تھوڑی لگے گا"
منیزے کو اسکا پچھلا جملہ یاد آیا۔
" وہ ذرا ہیلتھ کانشئیش ہیں، نیوٹریشنٹ اپروود۔ nutritionist approved کھانا اینڈ آل"
زید نے سعدیہ کا کنسرن بتانا چاہا پر منیزے کا قہقہہ اسے مزید ہی خجل کر گیا۔
" نیوٹریشنٹ اپرووڈ کھانا۔۔۔ اللہ۔۔ یار اتنی خواری کے بعد بھی تم امیر لوگ بھی ہماری طرح آخر میں مر ہی جاتے ہو۔۔ ناٹ فئیر۔۔"
وہ مصنوعی تاسف سے سر ہلا رہی تھی۔
" مجھے رات وقفے وقفے سے تمھارے راجے کی چاٹ کو فیوزن ریسٹورانٹ سمجھنے پر ہنسی آتی رہی ہے"
اسے کل والی بات یاد آئی۔
" اس راجے غریب کو فیوژن کا ایف بھی نہیں پتا ہوگا"
اسنے اپنے ٹھیلے کے پیچھے کھڑے سانولے لاغر راجے کی طرف اشارہ کیا جو بہت مہارت اور پھرتی سے چاٹ کی پلیٹ لگا رہا تھا۔
" وہاں ہمارے ایریا میں ایسے نام والے بہت سے ایٹنگ پوائنٹس کھل رہے آج کل"
اور ایسا ہی تھا زید ابھی چند دن پہلے ہی فیز فور کے گھر دا کھانا نام کے ایک دیسی فیوژن ڈھابے نما ریسٹورنٹ گیا تھا کلاس فیلوز کے ساتھ۔
" اب تم ڈی ایچ اے کا موازنہ صدر سے کرو گے تو ہو گیا کام"
" بٹ بڑا ہی فلیٹ فوڈ تھا انکا، راجا تو میجیشن ہے"
اسنے دور سے راجے کو تھمز آپ کا اشارہ کر کے داد دی جسے راجے نے کچھ شرمیلی سی مسکان کے ساتھ قبول کیا۔
" یہ تو ہے۔۔"
منیزے نے کہتے ہوئے خالی پلیٹیں کار کی چھت سے اٹھائیں۔
" یہ ٹریٹ تو ہوئی آپ کی طرف سے، میرا شکریہ تو رہ ہی گیا، اگلی دفعہ میری باری"
آخری ٹوٹا ہوا گول گپا پلیٹ سے اچکتے ہوئے زید نے اگلی دفعہ کا پیلن ترتیب دیا۔
" اگلی دفعہ بھی ملنا ہے تم نے؟"
منیزے نے اس نازک مزاج امیر زادے کی سرخ پڑتی آنکھیں دیکھیں۔۔ اسے لگا تھا وہ دوبارہ اب ایسی کسی جگہ کبھی نہیں آئے گا۔
" کیوں نہیں؟"
اسنے کندھے اچکا کر پوچھا۔
واقعی کیوں نہیں؟ کتنا اچھا وقت گزرا تھا۔ اسکا کوئی دوست نہیں رہا تھا کبھی،وقت ہی نہیں تھا۔ اور آج جیسے سمجھ آرہا تھا انکا ہونا کیوں ضروری ہے۔ اسکے سارے مسئلے وہیں کھڑے تھے پر وہ ان سب کے ہوتے یہاں فٹ پاتھ پر چاٹ کھاتی ہنس رہی تھی۔ وہ تو مسائل میں الجھ کر مسکرانا بھی بھول جایا کرتی تھی۔
اچھا بندہ تھا زید۔ اس سے ملا جا سکتا تھا۔
دوست بن سکتا تھا وہ۔
♤♤♤♤
حال
وہ جب سے آئی تھی گھر سے نہیں نکلی تھی۔ اسے یہ خالی گھر سکون دے رہا تھا۔ چائے کا کپ تھامے اس وقت وہ چھت پر کھڑی تھی۔ اس کونے سے منڈیر ذرا نیچی تھی دو گلیاں چھوڑ کر مین روڈ پر موجود ٹریفک کی روشنیاں رنگ برنگے تاروں سی چمچما رہی تھیں۔
کھانا پڑوس سے رفعت چچی بھیج رہی تھیں جنھوں نے اسکے آنے کی اطلاع پر گھر صاف کروایا تھا۔ چائے، کافی کا سامان انکا بیٹا لے آیا تھا۔
ہر ہنگامے سے دور ابا کا یہ گھر انکے بعد بھی انھیں جیسی تھپکی دیتا تھا۔
اسکے کہنیوں تک آتے بال سمندری ہواوں کی دوش میں لہرا رہے تھے۔
تبھی منڈیر پر رکھا اسکا فون تھرتھرایا۔
کوئی انجان نمبر تھا۔
" یس۔۔"
" از دس منیزے فاروق؟۔۔"
کوئی نسوانی آواز تھی، جانی پہچانی سی۔
" یس۔۔ who؟"
" سعدیہ، سعدیہ ابراہیم۔۔"
منیزے نے فون کان سے ہٹا کر اسے دیکھا۔
اسے لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔
♤♤♤♤♤♤