" اور جہاں تک آپ کا مجھے نہ جاننے کا سوال ہے تو آئی ایم امیزڈ (I am amazed) کہ میری لائف میرا فیوچر ایسے برباد کرنے کے بعد یو ہیو دی اوڈیسیٹی ٹو ٹیل می آن مائے فیس (you have the audacity to tell me on my face ) کہ آپ مجھے نہیں جانتیں۔۔"
اسنے تیش کے عالم میں ہاتھ میں پکڑی گن منیزے کی کرسی کے ہتھے پر ماری۔
وہ ڈر کر پیچھے ہوئی۔
" کیا چاہتے ہو تم؟"
منیزے نے بہت سیدھا سوال کیا۔ یہ صاف تھا کہ وہ جو چاہتا تھا اسی سے چاہتا تھا۔ یہ کوئی غلط فہمی نہیں تھی۔
" میں چاہتا ہوں کہ آپ کسی سے کوئی بھی رابطہ کیے بنا یہاں اس کمرے میں بند رہ کر دو دن گزاریں اور تیسرے دن میں آپ کو آپکے گھر چھوڑ آوں تاکہ سوسائٹی، آپکے گھر والے آپ سے ان گزرے دنوں کا حساب مانگ سکیں۔ اور بےقصور ہوکر بھی آپ کی کوئی وضاحت نہ سنی جائے۔ میں چاہتا ہوں آپ کو اپنے لیے اپنے پیرنٹس کی آنکھوں میں سوال اور ڈساپائنٹمنٹ(disappointment) نظر آئے۔ میں چاہتا ہوں آپ بھی میری طرح وہ اذیت فیل کریں جو بے بسی سے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی زندگی، اپنی ریپوٹیشن تباہ ہوتے دیکھنے پر ہوتی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کو پتا چلے کہ اپنی وجہ سے ماں باپ کا معاشرے کے سامنے جھکا سر دیکھ کر اپنی زندگی ختم کر لینے کی خواہش کتنی تیزی سے زور پکڑتی ہے۔۔"
" میں نے کیا کیا ہے؟"
وہ مزید بولتا رہتا اگر منیزے اگلا سوال نہ کرتی۔
اسے معاملے کی جڑ تک جلد از جلد پہنچنا تھا۔
اس قدر غصے میں، بدلے کی آگ میں جلتے ہوئے بھی اس کے انداز میں، طرز تخاطب میں مخالف صنف کے لیے جو عزت تھی اس کے ساتھ واقعی کچھ بہت غلط ہوا تھا جو اسکے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت یوں سلب کر گیا تھا۔
وہ اسکے سوال پر ہنس دیا۔ عجیب نوحہ کناں سی اپنا مذاق اڑاتی ہنسی۔
" میں زید ابراھیم ہوں، آپ کے بریک تھرو ڈرگ ڈیلنگ اسکینڈل کے نتیجے میں تین دن لاک آپ میں رہنے والا، کالج سے نکال دیا جانے والا فارمر میڈیکل سٹوڈنٹ، amnesia ختم ہوا آپ کا؟"
اس سے زیادہ کم مائیگی کا احساس کیا ہوگا کہ آپ کی زندگی تباہ ہوجائے اور کرنے والے کو آپ کی شکل تک یاد نہ ہو۔
منیزے نے ذرا آگے ہوکر اس لڑکے کا چہرہ دیکھا۔ وہ اتنی توجہ سے اپنا کام کرتی تھی، اسے ہر چہرہ یاد رہتا تھا۔ اسنے پورے پندرہ دن یہ سٹوری فالو کی تھی اسے یہ چہرہ یاد آنا تو دور دیکھا ہوا بھی نہیں لگ رہا تھا۔
کہیں کچھ غلط تھا۔
" میں کرائم رپورٹر ہوں میرا کام ہے کرائم رپورٹ کرنا تمھیں ان سب میں انوالو ہونے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا"
اسنے پھر بھی نڈر ہو کر اسے جھاڑنا چاہا۔
" ایسی باتیں مت کریں کہ میں آپ کو اور خود کو یہیں شوٹ کر دوں"
اسکی کشادہ پیشانی پر مارے ضبط کے بائیں آنکھ کے اوپر کونے میں ایک پھولی ہوئی نس ابھری۔
" تمھیں میرے بجائے خود کو بلیم کرنا چاہیے، خود کو امپروو کرو، ساری زندگی پڑی ہے تمھارے آگے۔ بجائے اپنا کام ایمانداری سے کرنے والوں سے بدلے لینے کے"
اسنے دوبدو کہا۔
وہ اسکا غصہ دیکھ کر دل ہی دل میں لمحے بھر کو ڈری ضرور تھی پر نجانے کیوں اسے یقین تھا یہ لڑکا گولی نہیں چلائے گا۔ یہ یقین کتنا سچ ثابت ہونا تھا یہ تو وقت ہی بتا سکتا تھا۔
" ایتھیکل جرنلزم کی اے بی سی بھی آتی ہے آپ کو؟" وہ سوال کرتے ہوئے چلایا۔
منیزے کے ایمانداری کا لفظ استعمال کرنے پر زید کا رہا سہا ضبط بھی جاتا رہا۔
" تم ہوتے کون ہو میرے ورک ایتھکس پر سوال کرنے والے؟"
اب کے وہ بھی چیخ پڑی۔
" میں وہ بےقصور ہوتا ہوں جس کی زندگی آپ کے کیئر لیس ورک ایتھکس نے تباہ کر دی"
اسنے بالآخر وجہ بتائی۔
" تمھیں اپنے کیے کی سزا۔۔"
" چلیں ٹھیک ہے مان لیا، مجھے بتائیں اسٹوری کی لیڈ ملنے سے اسے چینل پر بریک کرنے تک کتنا وقت لگا آپ کو؟"
اسنے منیزے کا جملہ مکمل ہونے دینے کے بجائے بات کا رخ موڑ دیا۔
" پندرہ دن"
اسنے فوراً دو لفظی جواب دیا۔
" پولیس کو انفارم کرنے سے پہلے آپ کی ٹیم نے کتنے انڈر کوور آپریشنز کر کے ثبوت اکھٹے کیے تھے؟"
زید کی طرف سے ایک اور سوال آیا۔
"پانچ"
دو ہفتے میں چھوٹے موٹے ملا کر پانچ سٹنگ sting آپریشنز کیے تھے انھوں نے اس اسٹوری پر۔
اسکی ٹیم تین کے بعد ہی پولیس کو شامل کرنا چاہتی تھی پر وہ بطور ٹیم لیڈر مکمل اطمعنان کیے بنا کوئی قدم اٹھانے پر تیار نہیں تھی۔
" پانچ اسٹنگ آپریشنز مینز means بہت سارا ویڈیو ایویڈنس evidence، پھر میرا نام چھوڑیں چہرہ تک کیوں یاد نہیں آپ کو؟"
دونوں کہنیاں گھٹنوں پر رکھے زرا سا جھک کر اسنے سوال کیا۔
یہاں منیزے لاجواب ہوئی۔ ایسا کیوں تھا؟ یہیں تو وہ بھی ٹھٹکی تھی۔
وہ اسٹوڈنٹس کے اس گروہ میں سب کو نام کے ساتھ شناخت کر سکتی تھی۔ فائز رضا، عبداللہ راشد، سمیر احمد، ہاشم سلطان۔۔ زید ابراہیم ہی کہیں نہیں تھا بس۔
" کیونکہ میرا اس گروپ سے، ڈرگ ڈیلنگ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، مجھے تو فائز اپنا پوٹنشل کلائنٹ potential client سمجھ کر وہاں لے گیا تھا، اس لیے میں نہ تو دو ویکس میں جمع کیے ایویڈینس میں کہیں ہوں اور نہ آپ کی میموری میں۔۔۔"
زید نے اپنے کیے سوال کا جواب خود ہی دیا۔
"میرا قصور صرف اتنا تھا کہ غلط انسان کے کہنے پر غلط وقت پر غلط جگہ پر موجود تھا۔ اس سے پہلے کہ مجھے سمجھ آتا وہاں کیا ہو رہا ہے پولیس نے ریڈ کر دی۔ لیکن کیا یہ قصور اتنا بڑا تھا کہ میرے ہزار چیخنے پر میری ایک بھی پلیح Plea سنے بنا مجھے ان کرمنلز کے ساتھ کھڑا کر کے میری تصوریں نیوز چینلز پر چلا دیں جائیں؟ کیا میرا قصور اتنا بڑا تھا کہ مجھے کالج سے رسٹیگیت کر دیا جائے اس کلاز clause کے ساتھ کے دوبارہ کہیں ایڈمیشن نہ لے پاوں؟ کیا یہ اتنا بڑا جرم تھا کہ میرا فیوچر یوں تباہ کیا جاتا؟۔۔"
وہ سرخ چہرے کے ساتھ اس سے سوال پر سوال کر رہا تھا۔
ہر وہ سوال جو وہ پچھلے دو ہفتے سے اس سے کرنا چاہتا تھا۔
اسکی بھینچی ہوئیں مٹھیاں بتاتی تھیں کہ وہ کس مشکل سے اپنے مجرم کا گریبان پکڑنے کی خواہش ضبط کیے ہوئے ہے۔
" آپ جانتی ہیں میرے فادر کون ہیں؟ ڈاکٹر ابراہیم حسین، کنٹری کے سب سے بڑے کارڈیو تھوراسک سرجن، آپ کے اس کئیرلیس ڈیڈ deed سے پہلے کالج کے ڈین مجھے ریکوئسٹ کیا کرتے تھے کہ میں ڈیڈ کو وہاں ایک دن ایز آ گیسٹ لیکچرر آنے پر منا لوں۔۔ انکا سر جھک گیا آپ کی وجہ سے۔ وہ اتنے اصول پسند ہیں کہ انھوں نے میری بیل bail کے لیے کوئی سورس استعمال نہیں کی، تین دن اس ہیل hell میں گزارنے کے بعد بھی وہ اس لیے آئے بکز because مام کو میری ٹینشن میں مائنر انجائنا اٹیک ہوگیا تھا۔ میری مدر کی صحت کی تباہی کی ذمہ دار آپ ہیں، مجھے میرے فادر کی نظروں میں کبھی نہ اٹھنے کے لیے گرانے کی ذمہ دار آپ ہیں۔۔ خیر آپ کو یہ سب بتانے سے کیا فرق پڑے گا اب ، جو ڈسٹرکشن destruction کرنی تھی آپ کر چکیں۔۔"
وہ جذباتیت سے کہتے کہتے اٹھ کھڑا ہوا۔
جیسے منیزے پر مزید الفاظ ضائع نہیں کرنا چاہ رہا ہو۔
" لیٹ می برنگ یو سم فوڈ let me bring you some food، پھر دو دن بعد ملیں گے"
وہ کہتے ہوئے مڑا۔
" زید۔۔"
پہلی دفعہ زبان نے یہ لفظ ادا کیا۔
وہ رکا پر پلٹا نہیں۔
" تمھاری گاڑی میں میرا بیگ پڑا ہے، میرا لیپ ٹاپ لا دو گے؟"
" ویکیشنز پر نہیں آئیں ہیں آپ۔۔"
وہ غصے میں پلٹا۔
" دیکھو، نیٹ ڈیوائس نہیں مانگ رہی میں، بنا نیٹ کے کہیں کانٹیکٹ نہیں ہوسکتا۔ اس میں اس اسٹوری کا سارا ڈیٹا ہے، میں صرف تمھاری بات کنفرم کرنا چاہ رہی ہوں"
منیزے نے مصالحت کی راہ اپنائی، اسے تصدیق کرنی تھی۔
"کنفرم کر کے کیا کریں گی آپ؟"
مذاق اڑاتا سا لہجہ تھا اسکا۔
"یہاں دو دن بیٹھ کر کیا کروں گی؟ بہتر ہے پچھتا ہی لوں، نہیں؟"
منیزے نے سوال میں لپیٹ کر توجیہہ دی۔
کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو اسکے پاس کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ اسکا لیپ ٹاپ بھی تھا۔
زید دیوار کے پاس رکھی ٹیبل پر کھانے پینے کی اشیاء شاپر سے نکال کر رکھ رہا تھا۔ اور منیزے ہنوز اسی کرسی پر بیٹھی لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظریں جمائے زید ابراہیم کو سچا ثابت ہوتا دیکھ رہی تھی۔
یہ کیا ہوگیا تھا اس سے؟
آپریشن کے آخری دن پولیس ریڈ سے قبل گھر سے کال آئی تھی ابا کی طبعیت اچانک بگڑنے کی۔ وہ جو کالج کے قریب اس زیر تعمیر عمارت میں جہاں ڈیلنگ ہو رہی تھی کے باہر اپنے ایک کلیگ کے ساتھ کھڑی اندر موجود اپنی ٹیم کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھی وارث کی یقین دہانی پر کہ وہ سنبھال لے گا، سب چھوڑ کر بھاگی تھی۔
ابا کے ساتھ ہسپتال میں ادھر سے ادھر دوڑتے اسے آن ائیر جانے سے پہلے مکمل تیار شدہ پیکج دیکھنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔ بس اسنے پرائم ٹائم پر فون کے ذریعے نیوز اینکر کو بطور لیڈ رپورٹر ہسپتال کے کاریڈور میں بیٹھ کر اس کہانی کے متعلق سوالات کے جوابات دیے تھے۔ اور چینل سے اسٹوری کی کامیابی پر داد وصول کی تھی۔
جب تک ابا کی طبعیت سنبھلی خبر پرانی ہو چکی تھی۔ اسے بھی کچھ ریچیک کرنے کا خیال نہ آیا۔
" تم ٹھیک کہہ رہے ہو میری غلطی ہے۔۔"
اسنے لیپ ٹاپ کو ہاتھ مار کر بند کرتے ہوئے اعلان کیا۔
زید نے خالی شاپر کچرے دان میں پھیکنتے اسے مڑ کر دیکھا۔ اسے لگا تھا وہ اپنی صفائی دے گی۔ اسے غلط ثابت کرنے کو دلائل دے گی پر وہ تو اتنی جلدی مان گئی تھی۔
کیا اعتراف جرم اتنا آسان ہوتا ہے؟ شاید باضمیر لوگو کے لیے ہوتا ہوگا۔
" یہ فارم ہاوس تمھارا اپنا ہے ناں؟"
وہ جو معذرت کی توقع کر رہا تھا منیزے کے اچھوتے سوال پر حیران ہوا۔
" جی"
" تو تمھارے کپڑے بھی موجود ہونگے یہاں؟"
منیزے نے اسے سر سے پاوں تک دیکھتے ہوئے اسکے حلیے کا تنقیدی جائزہ لیا۔
"شاید۔۔"
" جاو شاور لو چینج کرو، تمھارے کالج جانا ہے ہمیں۔۔"
پہلے لیپ ٹاپ اب یہ، وہ کیسی ہاسٹیج hostage تھی جو یوں حکم چلا رہی تھی، وہ کیسا کڈنیپر تھا جو تعمیل کر رہا تھا۔
" کیا کریں گی آپ وہاں جاکر؟"
وہاں جانا تکلیف دہ تھا۔
" اپنی غلطی سدھارنے کی کوشش۔۔ دیکھو تمھارے پاس کھونے کو ویسے بھی کچھ نہیں ہے، مجھے یہ کوشش کر لینے دو اس اسٹوری کے بعد تمھارے ڈین سے ملی تھی میں، وہ جانتے ہیں مجھے ہوپ فلی میری بات سنیں گے ، نہیں ہوئی کامیاب تو تمھارا یہ پلین تو ہے ہی، اب تو تم مجھے بدلے میں گولی بھی مار دو تو میں شکایت نہیں کروں گی"
وہ جو ہر امید کھو کر اس راہ پر نکلا تھا منیزے کے الفاظ اسے امید کی ڈور دوبارہ تھما رہے تھے۔ وہ تذبذب کا شکار تھا پر منیزے کے دلائل نے اسے یہ موقع دے کر دیکھنے پر قائل کر ہی لیا۔
♤♤♤♤♤♤
ڈین کے آفس کے باہر اسے آدھا گھنٹا ہو رہا تھا منیزے کا انتظار کرتے ہوئے۔ وہ سر جھکائے سیاہ آدھے بازووں کی ٹی شرت اور نیلی جینز پہنے ہوئے بینچ پر بیٹھا تھا اور صبح کی نسبت کافی زیادہ فریش لگ رہا تھا۔
سب ختم ہونے کے بعد جب وہ خود کو ختم کرنے لگا تھا تب یہ امید پکڑا دی گئی تھی۔
اور وہ بھی اس انسان کی طرف سے جس نے سب اپنے ہاتھوں سے ختم کیا تھا۔
چند لمحوں بعد ڈین کے پی اے نے اس سے نام کی تصدیق کرکے اندر جانے کا کہا۔
اسکی ڈھڑکنوں کی رفتار کچھ اور تیز ہوئی۔ وہ یہاں تک آکر دوبارہ سے انکار کا منہ پر مارا جانا کیسے برداشت کریگا؟
وہ اندر داخل ہوا تو ڈین اسے دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔
" ویلکم بیک زید"
انھوں نے اپنی ٹیبل کے پار سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا جسے زید نے بہت سے واہموں اور خوش فہمیوں میں گھر کر تھاما۔ ویلکم بیک؟ تو کیا واقعی سب ٹھیک ہوگیا تھا؟
" مجھے افسوس ہے اتنے دن آپ کی اسٹڈیز کا لاس ہوا۔ آپ چاہیں تو ابھی سے واپس جوائن کر سکتے ہیں۔ میم نے اپنے سامنے آپ کے رسٹیگیشن کی کینسلیشن کا نوٹیفکیشن جاری کر وایا ہے"
مسکراتے وہ منیزے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
زید نے بے یقینی سے منیزے کو دیکھا۔ اتنا آسان تھا یہ سب؟
منیزے کی ٹیم نے یہ اسٹوری کچھ یوں بریک کی تھی کہ توجہ شہر بھر میں منشیات فروشی کے طلبہ میں بڑھتے رجحان اور اسکے معاشرے اور انکی زندگیوں پر منفی اثرات پر دی گئی تھی بجائے کالج کی ساکھ کو میڈیا میں نشانہ بنانے کے۔ کوئی اور ہوتا تو ریٹنگ کے لیے اس ملک کے مشہور ترین میڈیکل کالج کے نام پر فوکس کر کے خوب فائدہ اٹھاتا۔ کالج انتظامیہ منیزے کی ٹیم کی مشکور تھی وہ اسکے کہنے پر اتنا تو کر ہی سکتے تھے۔
ابراھیم حسین کے بیٹے کو نکالنے پر انتظامیہ یوں بھی تعمل کا شکار تھی پر انھوں نے خود رابطہ کر کے کہا تھا کہ زید کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک صرف اس کے ان سے تعلق کی بنا پر نہ کیا جائے۔ ہر چیز کو مد نظر رکھ کر جو فیصلہ باقی سب کے لیے لیا گیا زید بھی اسی میں شامل تھا۔
" یہ کل سے جوائن کریں گے اِف اِٹس اوکے، مجھے ابھی زید کے پیرنٹس سے بھی ملنا ہے"
منیزے نے اٹھتے ہوئے کہا۔
" شیور"
انھیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔
منیزے نے ڈین سے اجازت لی۔ خواب کی سی کیفیت میں زید اسکی معیت میں آفس سے نکلا۔
اگر اسے پتا ہوتا کہ یہ سب یوں ہونا تھا تو وہ کب کا منیزے سے انسانوں کی طرح رابطہ کر لیتا۔ پر اسنے کیا کیا؟ کڈنیپنگ؟ وہ کہاں منہ چھپائے گا اب۔۔ جو غلطی نہیں کی تھی اس پر ڈیڈ نے اسکے ساتھ یہ سلوک کیا تھا کہ وہ خودکشی کا سوچ رہا تھا۔ انکا وہ تھپڑ۔۔۔ اب جب قصور اسکا تھا تب وہ کیا کریں گے۔ وہ کچھ نہ بھی کریں تو وہ خود کتنا شرمندہ تھا۔
♤♤♤♤
اس وقت ساڑھے گیارہ ہو رہے تھے اور وہ صبح سے یہ تیسری بار اس لڑکے کے ساتھ اسکی گاڑی میں بیٹھی کہیں جا رہی تھی۔
اسنے ایک نظر ڈرائیو کرتے زید کو دیکھا وہ ششدر، پریشان اور شرمندہ سا ڈرائیو کر رہا تھا۔ گاڑی اسکے گھر کی طرف رواں تھی۔
صبح والے تیش اور غصے کا اس کے چہرے پر شائبہ تک نہ تھا۔
" مجھے فون مل سکتا ہے میرا، آفس کال کرنی ہے"
منیزے نے خاموشی توڑی۔
" آف کورس، آپ پوچھ کیوں رہی ہیں، آئ ایم سوری۔۔" اسنے ہڑبڑا کر ڈیش بورڈ کھول کر اسکا بیگ نکال کر کچھ شرمندہ شرمندہ سا اسے تھمایا۔ اپنی سیٹ پر پڑی گن ڈال کر ڈیش بورڈ دوبارہ بند کیا۔
" یہ گن کس کی ہے؟"
منیزے نے اس چھوٹی سی جدید روہربا برینڈ کی پسٹل کو دیکھتے پوچھا۔ وہ بھی اس گاڑی کی طرح ہی مہنگی خرید تھی۔
" میری۔۔"
زید کی نظریں روڈ پر جمی تھیں۔
" تمھارے نام پر ایشوڈ ہے؟"
ایک اور خیال آنے پر اسنے پھر سوال کیا۔
سوال کرنا تو اپنے پیشے کے سبب جیسے عادت ہی ہوگئی تھی۔
" نہیں ڈیڈ کے۔۔"
زید نے سابقہ انداز میں جواب دیا۔
" واٹ؟ تم اپنے فادر کے نام لائسنسڈ گن لیے لوگوں کو کڈناپ کرتے پھر رہے ہو؟"
منیزے کی آنکھیں پھیلیں۔
اسکی اونچی آواز پر زید کا پاوں بریک پر پڑتے پڑتے رہ گیا۔
" انکی جاب جا سکتی ہے، جیل الگ، ایون انکا میڈیکل لائسنس کینسل ہو سکتا ہے اس چکر میں۔۔"
یہ لڑکا اتنا بیوقوف تھا کیا؟
" انکا کیوں؟ کرائم تو میں نے کیا ہے۔"
اسکے سوال نے ثابت کیا کہ ہاں وہ اتنا ہی تھا۔
" پر کرائم ویپن انکے نام سے رجسٹرڈ۔۔ اف، تم نے لاء نہیں پڑھا کیا؟"
منیزے سمجھاتے سمجھاتے جھنجھلائی۔
" نہیں میں میڈیکل سٹوڈنٹ ہوں"
کیا جواب دیا تھا زید نے۔
" تو میں کونسا کوئی لائیر ہوں پر اپنے ملک کا قانون تو سب نے بیسک پڑھ رکھا ہوتا ہے"
منیزے کو اس کم علمی پر یقین نہ آیا۔
" ٹائم ہی نہیں ہوتا کچھ اور پڑھنے کا"
وہی میڈیکل والوں کے اذلی رونے۔
" تبھی ایسی حرکتیں کرتے پھرتے ہو۔۔"
منیزے نے آنکھیں گھمائیں۔
" دوبارہ کوئی جرم کرنے کا خیال آئے تو گن اپنے نام پر ایشو کروا لینا پہلے، اپنے فادر کی یوز مت کرنا"
وہ بہت سنجیدگی سے مشورہ دے رہی تھی۔
" ڈونٹ وری ابھی جب آپ جا کر انھیں بتائیں گی کہ میں نے کیا کیا ہے تو وہ گن لے کر مجھے یوں بھی گھر سے نکال دیں گے، شاید اسی سے شوٹ بھی کر دیں، دوبارہ انکی گن استعمال کرنے کا موقع ہی نہیں ملے گا"
زید نے بات بوجھل سی ہنسی میں اڑائی۔
" تمھیں لگ رہا میں تمھارے گھر تمھاری شکایت کرنے جا رہی ہوں؟"
وہ چونکی۔
"تو؟"
" اور تمھارے پیرنٹس میری بات سن کر تمھیں گھر سے نکال دیں گے؟"
اسنے تصدیق چاہی۔
" پیرنٹس نہیں، صرف ڈیڈ"
زید نے بے پرواہی سے تصحیح کی۔
" تو تم مجھے منع کیوں نہیں کر رہے ہو؟ اور خود لفٹ بھی دے رہے ہو گھر تک؟"
منیزے کو اس لڑکے پر حیرت ہوئی۔
" کیونکہ غلطی تو میری ہے بلکہ کرائم۔۔ آپ ٹھیک کر رہی ہیں۔۔ میں کس منہ سے روکوں آپ کو؟"
اسنے سادگی سے وجہ بتائی۔
منیزے نے اس بے ریا سادہ سے ملیح چہرے والے لڑکے کو دیکھا۔ وہ اپنی غلطی کی ذمہ داری لینے کے لیے، نتائج بھگتنے کے لیے تیار تھا۔ یہ کردار کی بلندی کی علامت تھی۔ وہ متاثر ہوئی۔
" میں ان سے معافی مانگنے جا رہی ہوں میری غلطی کی، تمھاری شکایت کرنے نہیں"
اسنے زید کی غلط فہمی دور کی۔ اپنے عمل پر کیے جانے والے ردعمل کی کیا شکایت کرنا۔
وہ جب سے ملے تھے ایک دوسرے کو حیران کر رہے تھے۔
" تم اچھے خاصے شرمندہ ہو اور تمھاری شکل بتا رہی ہے کہ تم دوبارہ ایسا کچھ کبھی نہیں کرو گے سو بھول جاتے ہیں کہ آج کچھ ہوا۔۔ ویسے تمھیں بدلہ لینے کے لیے یہ ترکیب سوجھی کیسے؟"
منیزے نے بات کرتے کرتے موضوع بدلا۔
زید نے کندھے اچکائے کہ بس آگیا۔
" کیوں؟"
اسے سمجھ نہیں آیا منیزے کے سوال کا مقصد۔
" کیونکہ تمھیں دیکھ کر لگتا تو نہیں ہے کہ تم نے کبھی کوئی دیسی ڈرامہ یا ناول پڑھ رکھا ہوگا لیکن تمھارا ریونج پلین ایگزیکٹلی وہیں سے چرایا ہوا ہے۔۔"
اسے اسکا پلین یاد کر کے ہنسی آئی دو دن بند رکھ کر گھر چھوڑ آنا کہ اب گھر والوں کو جواب دو کہ کہاں گزرا یہ وقت۔ کس قدر ڈرامائی انتقام تھا۔
" کچھ فیمیل کلاس فیلوز کو کوئی اسٹوری ڈسکس کرتے سنا تھا کسی ڈرامے یا ناول کی"
اسنے کچھ جھجھکتے اصلی وجہ بتائی۔
زید کی بات پر منیزے نے اپنا قہقہہ پھوٹ جانے دیا۔
" دیکھیں میں بہت غصے میں تھا اور اکیلے ایگزیکیوٹ execute کرنے کے لیے یہی پلین مجھے سب سے زیادہ فیزیبل feasible لگا۔۔ آپ ایسے ہنسے تو مت اب"
وہ اسکے یوں ہنسنے پر اچھا خاصا خجل ہوا تھا۔
" نہیں ہنستی۔۔ خوش؟"
وہ کہتے کہتے ہنس پڑی۔ زید نے کچھ برہمی سے اسے دیکھا تو اسنے فورا انگلی لبوں پر رکھ لی۔
منیزے نے ساتھ پڑا پیکٹ کھول کر ایک چپس منہ میں رکھا۔ یہ اسنے فارم ہاوس سے نکلتے ہوئے ان چیزوں میں سے اٹھایا تھا جو زید اسکے وہاں دو دن رہنے کی صورت میں اسکے کھانے پینے کے لیے لایا تھا۔
وہ اب چپس کھاتے آفس والوں کو فون پر اپنے لیٹ ہو جانے کی وضاحت دے رہی تھی۔
♤♤♤♤♤♤
" میرے بیٹے کی زندگی تباہ کر کے تم کہہ رہی ہو تم سے غلطی ہو گئی ہے۔۔ میں کیا کروں تمھاری ایکسپلینیشن کا؟ یا تمھارے غلطی ماننے کا، تمھاری کنسائینس conscience(ضمیر) مطمعین ہوجائے گی پر جو کچھ تم نے بگاڑا ہے وہ تو نہیں ہوگا ٹھیک"
وہ اس لڑکی کا اپنے گھر آنے کا سن کر بہت برہم تھیں، اگر وہ زید کے ساتھ نہ آئی ہوتی اور وہ منت نہ کرتا تو وہ شاید اسے بنا ملے ہی دروازے سے رخصت کر دیتیں۔
کتنے پر اذیت گزارے تھے ان سب نے پچھلے دو ہفتے۔ انکے بیٹے کا کیرئیر، انکی اپنی صحت، شوہر کی سالوں کی کمائی عزت کچھ بھی تو نہیں بچا تھا انکے پاس۔ اور وہ لڑکی کہہ رہی تھی کہ اس سے غلطی ہوگئی۔
ایسی غلطیاں کون کرتا ہے؟ اتنی بڑی؟
وہ ان سے عیادت بھی کر رہی تھی۔ جو انھوں نے بیٹے اور شوہر کی موجودگی کے سبب خاموشی سے قبول کر لی تھی پر وہ کیسے بھولیں وہ دن جب اپنی اکلوتی اولاد کی فکر میں گھل کر سینے میں وہ ناقابل برداشت درد اٹھا تھا۔
سب اس ایک لڑکی کی غلطی کی وجہ سے؟ اور وہ اب معافی مانگ رہی تھی؟ وہ کیسے معاف کر دیں اسے؟
" زید کل سے کالج جائے گا۔ میں یہاں آنے سے پہلے اسکے کالج گئی تھی ، میری غلطی کی سزا اسے نہ ملے آئی ہیو میڈ شیور آف اِٹ I have made sure of it"
سعدیہ چند لمحے لاجواب ہوئیں۔
" اور ہماری ریپوٹیشن، اسکا کیا؟ تمھیں اندازہ ہے تم نے ہمارا کیسا تماشا لگایا ہے سوسائٹی میں؟"
وہ اس لڑکی کے سامنے نرم نہیں پڑنا چاہتی تھیں۔
وہ کتنے اعتماد سے انکے عالیشان ڈرائینگ روم میں اس معمولی سے حلیے میں بیٹھی بات کر رہی تھی۔ وہ انکے گھر، انکی امارت سے ذرا مرعوب نہیں ہوئی تھی۔ اسکے لہجے میں شرمندگی بھی اپنی ذات کا وقار لیے ہوئے تھی۔ اسے تو سر جھکا کر انکی بے نقط سننی چاہیے تھی۔
" آپ کی یہ شکایت بھی دور ہو جائے گی، دنیا کے سامنے کی جانے والی غلطی کا اعتراف یوں اکیلے میں کرنا کافی نہیں میں جانتی ہوں، پر فوری طور پر یہ کرنا ضروری تھا۔"
وہ بہت تحمل اور عزت سے انکی بپھری ہوئی باتوں کا جواب دے رہی تھی۔ غلطی اسکی نہ ہوتی تو وہ کب کا اپنے انداز میں انھیں چپ کرا چکی ہوتی۔
" تم نئے نئے بنے جرنلسٹ سمجھتے کیا ہو خود کہ لوگوں کی زندگیوں سے۔۔"
انھیں خاک فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ شرمندہ تھی یا معافی مانگ رہی تھی۔
زید انھیں کتنا عزیز تھا، انکی تو سانسیں بھی اس سے ہوکر گزرتی تھیں۔ انھیں اسکا اپنی گود میں " مام، میں نے کچھ نہیں کیا" کی گردان کرتے منہ چھپائے رونا یاد آیا۔ انکا انیس سالہ بیٹا نو سال کے بچے کی طرح ٹوٹا تھا۔
"سعدیہ بس، آپکا بیٹا دوبارہ کالج جا رہا ہے میرے خیال میں یہ ہی اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ اپنا کام ذمہ داری سے کرتی ہیں، اور اپنی کامیابیوں کے ساتھ اپنی غلطیاں بھی اون کرتی ہیں"
انکے شوہر کے ہاں حساب الٹا تھا۔
انھوں نے نہ صرف اس لڑکی کو خندہ پیشانی سے سنا تھا بلکہ اب اسکی طرفداری بھی کر رہے تھے۔
وہ لوگوں سے بہت کم متاثر ہوتے تھے۔ اس لڑکی نے اتنی بڑی غلطی کی چھوٹی سی معافی مانگ کر انھیں کر لیا تھا۔
" شکریہ سر، میں چلتی ہوں، مجھے آفس پہنچنا ہے، ہر چیز کے لیے پھر سے معذرت "
وہ اٹھ کھڑی ہوئی تو زید اور ڈاکٹر ابراہیم بھی اسکے ساتھ کھڑے ہوئے۔ سعدیہ اب بھی اپنی جگہ پر بیٹھیں اس لڑکی کو دیکھ رہی تھیں۔
" اٹ واز نائس میٹنگ یو لیڈی"
ڈاکٹر ابراہیم نے سر کو خم دے کر اس سے الوداع لی۔
"آپ نے اپنے بیٹے کی بہت اچھی تربیت کی ہے سر اور آپ کو اپنی تربیت پر اتنا بھروسہ تو ہونا چاہیے کہ چاہے ساری دنیا بھی اسکے خلاف آپ کے پاس آئے تو آپ اسکی بات سنیں اور اس پر بھروسہ کریں کیونکہ وہ جھوٹ نہیں بولتا۔"
منیزے جاتے جاتے ڈاکٹر ابراہیم کو کہہ گئی تھی جو انھوں نے بہت غور سے سنا اور نظر بھر کر منیزے کے پیچھے اسے دروازے تک چھوڑنے جاتے اپنے بیٹے کو دیکھا، انکی آنکھوں میں فخر تھا۔
سعدیہ انھیں دیکھ کر رہ گئیں۔ وہ چیختی رہ گئیں تھیں زید کے حق میں اور ابراہیم نے انھیں اولاد کی محبت میں اندھے پن کا الزام دے کر چپ کرا دیا تھا۔ اور اب اس لڑکی کی چند باتوں نے انکا اپنے ہی بیٹے پر اعتماد بحال کر دیا تھا۔
♤♤♤♤