" تم گوگل پر ریسیپیز ڈھونڈنے تو نہیں بیٹھ۔۔"
اچھے چند منٹ کچن کاونٹر کے ساتھ رکھے اسٹول پر بیٹھے اسکا انتظار کرنے کے بعد وہ زید کو دیکھنے کمرے میں آئی۔ وہاں کے منظر نے قوت گویائی سلب کی۔
وہ اسکے سوٹ کیس کے پاس ایک گھٹنا موڑے بیٹھا کفن سا سفید چہرہ لیے اس فائل کے صفحے پلٹ رہا تھا۔ قریب اسکا پرس گرا ہوا تھا۔
منیزے نے کرب سے سر نفی میں ہلایا۔ کیا قسمت کی جھولی میں اسکے لیے چند سکے راحت کے نہیں تھے؟ چند پل جو وہ اس عزیز از جان شخص کے ساتھ ساری دنیا بھول کر گزار سکتی؟
اسکے ساتھ قدرت اتنی ناانصاف کیوں تھی؟
اسکی آواز پر زید نے آنکھوں میں سراسیمگی لیے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ نفی میں بے یقینی سے سر ہلاتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ میڈیکل ریپورٹوں کا فائل نما پلندہ ہاتھ سے چھوٹا۔
اسکی خوف سے لبریز نظر دروازے پر کھڑی منیزے کے دل کے مقام پر گڑی جیسے وہاں دل کے بجائے کوئی ٹائم بم موجود ہو جو کسی بھی ساعت پھٹ سکتا ہو۔
اسینڈنگ اروٹک انیورزم Ascending Aortic Aneurysm ایسا ہی تھا وہ کبھی بھی پھٹ کر اسے موت کے منہ میں دھکیل سکتا تھا۔
وہ اسکے چہرے سے رنگ غائب ہوتے دیکھتی اس تک آئی۔
" تم ٹھیک کہہ رہے تھے، میرا دل احتجاجاً دھڑکنا بند ہو رہا ہے۔۔"
اسکے دونوں ہاتھ تھامتے کپکپاتی آواز میں مسکرانے کی کوشش کرتے کہا۔
مشھد، عراق میں دو سال قبل ان کی وین پر راکٹ حملہ ہوا تھا۔ ڈرائیور کی کوشش کے سبب وین ایک لمحے کے فرق سے نشانہ بننے سے بچی تھی پر عین پیچھے ہوا وہ دھماکہ گاڑی کو گھومتے ہوئے الٹ کر پاس موجود پہاڑی سے ٹکرانے پر مجبور کر گیا تھا۔
شدید ٹکراؤ سے ان سب کو بہت سی چوٹیں آئیں تھیں پر ان میں سے کوئی بھی جان لیوا ثابت نہیں ہوئی تھی۔ گاڑی انکے نکلتے ہی دھماکے کی صورت تباہ ہوگئی تھی۔
ظاہری زخم مندمل ہوئے تو اسنے بھی تفصیلی ٹیسٹ وغیرہ کی طرف دھیان نہیں دیا جس وجہ سے بلنٹ ٹراما کے سبب وجود میں آنے والا یہ انیورزم تشخیص نہ ہو سکا۔
اسکی علامات کو وہ ٹراما کے سبب پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل سمجھتی رہی۔
کراچی میں انکی سمندر کنارے ملاقات سے ایک دن قبل ماہر نفسیات کے ساتھ اپائمٹمنت کے دوران انہوں نے اس مسئلے کو پینک panic یا انزائٹی anxiety اٹیک ماننے سے پہلے حافظ ماتقدم کے تحت اسے ایکسرے اور ای سی جی کرانے کا کہا جس وجہ سے دو سال بعد بالآخر یہ مسئلہ آشکار ہوا۔
وہ دو سال سے بے خبری میں اس طبی ٹائم بم کو جسم میں لیے گھوم رہی تھی۔
ڈاکٹر نے فوراً سرجری کا مشورہ دیا تھا پر ساتھ میں یہ بھی کہا تھا کہ لوکیشن ایسی ہے کہ دوران آپریشن ایوروٹک ڈائسیکشن ( آروٹا کی دیوار کا پھٹ جانا) سے جان جانے کا خطرہ ایسے عام کیسز سے کہیں زیادہ ہے۔
" آپ چلیں میرے ساتھ۔۔ کچھ نہیں ہوگا آپ کو۔۔ ڈاکٹر سمانتھا ولیمز شہر میں ہیں۔۔ میں نے انکے انڈر ریزیڈنسی کی تھی۔۔ ہم ہاسپٹل چلتے ہیں۔۔"
اسنے ہوش میں آتے فائل اٹھائی۔۔ اسکا ہاتھ پکڑے وہ کمرے سے نکلنے لگا۔
"زید۔۔"
منیزے نے قدم نہیں اٹھایا وہ اسے حواس باختہ ہوتے دیکھ رہی تھی۔
" شی از ون آف دا بیسٹس۔۔میں انہیں کہوں گا تو وہ فوری کوئی اپائنٹمنٹ دے دیں گی سرجری کے لیے۔۔ میں کہہ رہا ہوں ناں کچھ بھی نہیں ہوگا۔۔"
اسکے گال پر ہاتھ رکھتے یقین سے کہتے اسنے ساتھ سٹینڈ پر موجود اسکا کوٹ اٹھایا۔
وہ اسے سن ہی نہیں رہا تھا۔
" پھر ہاسپٹل جانا ہوتا تو وہاں سے بھاگ کر یہاں نہ آتی میں۔۔ آج سرجری تھی۔۔"
وہ دوہا سے ہسپتال کے کمرے کی وحشت سے سرجری سے ایک دن قبل سب چھوڑ کر یہاں بھاگ آئی تھی۔۔ اس کے پاس۔
" تو آپ یہاں۔۔ منیرے۔۔ کیا کرتی ہیں آپ؟ کیوں کرتی ہیں؟"
اسکے بلند آواز میں کہنے پر زید کے حواس بحال ہوئے۔
اسے بے بسی سے دیکھا، سوال کیا۔
" مجھ پر ذرا رحم نہیں آتا ناں آپ کو؟"
وہ رک گیا تھا پر ہر گزرتے لمحے کی تاخیر حلق پر چلتی کند چھری سی محسوس ہو رہی تھی۔
" وہ ایمرجنسی کانٹیکٹ مانگ رہے تھے، کوئی ایسا جو ناکامی کی صورت میں باڈی کلیکٹ کر سکے۔۔ میرے پاس ایسا کوئی نمبر نہیں تھا۔۔ کوئی ایسا شخص نہیں تھا۔۔ نہ شہر میں، نہ ملک میں، نہ پورے خطے میں۔۔"
اسکے آنسو چھلک پڑے تھے، آج اسنے انہیں چھپایا نہیں تھا، انہیں بہنے سے روکا بھی نہیں۔۔
" آپ مجھے بلا لیتیں، میں کبھی بھی آپ سے اتنا دور نہیں ہوا کہ آپ کی ایک آواز پر نہ آسکوں۔۔ یہ رسک لینے کی کیا ضرورت تھی؟"
اسکا چہرہ ہتھیلیوں کے پیالے میں بھرتے وہ سوال کر رہا تھا۔ مان دے رہا تھا۔
" جو میں نے تمھارے ساتھ کیا اس سب کے بعد اپنی بیماری کے لیے تمھیں کس منہ سے بلاتی؟ تم کیا کہتے؟"
اسکی کلائیاں تھامتے وہ اپنے خودداری میں لپٹے خدشے بیاں کر رہی تھی۔
" میں کہتا ہر شئے کے بعد آج بھی میں اتنا اہم ہوں کہ تکلیف پر آپ نے مجھے آواز۔۔۔ خیر ہم یہ باتیں بعد میں کریں گے آپ چلیں ابھی ٹیسٹ، سکریننگز ہونگی پھر سے۔۔ بہت جلدی بھی کل دوپہر تک سرجری شروع ہو پائے گی۔۔ مزید دیر نہیں کر سکتے ہیں ہم۔۔ ابھی اس سب کا وقت نہیں ہے۔۔"
اسکے دل کے مقام پر نظر پڑتے اسے پھر وقت کے پھسل جانے کا خوف ہوا۔
" یہ وقت پھر کب ملے گا؟"
وہ اسکی جلد بازیاں نظر انداز کیے پوچھ رہی تھی۔
" سرجری کے بعد۔۔"
زید نے التجائیہ انداز میں جواب دیا کہ خدارا میری زندگی کے ساتھ یوں نہ کرو۔
" آپریشن تھیٹر سے زندہ واپسی کی گارنٹی مجھے خدا نہیں دے رہا ناں۔۔"
کبھی باپ کا خود سے کہا وہ جملہ منیزے نے من و عن زید کے سامنے دہرایا۔
اس جملے پر اس کی شکل بھی تب ضرور ایسی ہوئی ہوگی جیسی اب زید کی ہوئی تھی۔
" ہم اس پر کوئی بحث نہیں کریں گے۔۔ میں نے ہمیشہ آپ کی سنی ہے مانی ہے اس دفعہ نہیں۔۔اس معاملے میں نہیں"
لب بھینچتے اسنے سختی سے اسکی کلائی تھامی۔ بہت ہوگیا تھا۔
یہ ایسا معاملہ نہیں تھا جس پر وہ اسکی مان لیتا۔
" تم جانتے ہو وہاں ہاسپٹل بیڈ پر مجھے سرجری ناکام ہونے کے خیال سے خوف نہیں آیا۔۔ زندگی کبھی جی ہی نہیں، بس گزاری ہے۔۔ تو اس کے ختم ہونے کے خیال سے کیسا ڈر؟"
وہ اپنی لئے میں کہہ رہی تھی۔ زید کے اسکی کلائی تھامے اسے اپنے ساتھ گھسیٹتے قدم پھر رکے۔
" سوچا موت کو حقیقت تو ماتم بناتا ہے۔۔ مجھے کون روئے گا؟ ایسے بہت لوگ ہیں جنھیں شاید دکھ ہو۔۔ افسوس ہو۔۔ اخبار میں شاید ایک عاد obituary ( خبر مرگ)۔۔ رونا؟ تمھارے علاوہ میرے ذہن میں کوئی نام نہیں آیا۔۔"
وہ مڑا۔
کیسی باتیں کر رہی تھی وہ؟
" تمھارے پاس میں زندگی جینے آئی ہوں۔۔ شاید پہلی دفعہ ۔۔ شاید ایک آخری مرتبہ۔۔ پہلی بار میں نے دل کی سنی ہے۔۔ اسے اسکی مرضی کرلینے دو۔۔ آخری خواہش سمجھ کر ہی۔۔"
بے دردی سے کہتی وہ سراپا التجا ہوئی۔
وہ تو حکم دیتی اچھی لگتی تھی، فیصلے سناتی۔
اسکا منت بھرا ٹوٹا بکھرا لہجہ زید ابراہیم کو توڑ گیا۔
"منیزے۔۔"
وہ شاید پہلی دفعہ اس سے کچھ مانگ رہی تھی۔ وہ اس سوال پر کائنات کا ہر سامان اس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا پر وہ تو اپنی زندگی مانگ رہی تھی۔ اسکی زندگی مانگ رہی تھی۔ وہ کیسے دے دیتا؟
" صرف آج کا دن۔۔ پلیز۔۔ کل تم جیسا کہو گے میں کروں گی جہاں کہو گے چلوں گی۔۔ صرف آج۔۔ یہ کچھ گھنٹے۔۔"
وہ کہتے ہوئے اسکے قریب آئی۔
آنسو صاف کرتے اس کی ہر شرط مانی، اسکی آنکھوں میں امید لیے جھانکا۔
" تم خدا نہیں ہو زید۔۔ تم مجھے زندگی دینے پر قادر نہیں ہو۔۔ سو فیصد تو تم بھی نہیں کہہ سکتے کہ جہاں تم مجھے لے جا رہے ہو وہاں سے میں زندہ واپس لوٹوں گی۔۔"
ان آنکھوں میں تذبذب دیکھ الفاظ میں سختی در آئی، بے رحمی بھی۔
وہ بے چین ہوا اسکی سفاکی پر۔
" پر جو میں مانگ رہی ہوں۔۔ وہ صرف تم دے سکتے ہو۔۔ صرف تم۔۔ مر گئی ناں اگر میں تو پچھتاو گے میری بات نہ ماننے پر"
" ہمیشہ اپنی مرضی کرتی ہیں آپ۔۔ ہمیشہ۔۔کبھی میری نہیں سنتیں۔۔۔ جانتی ہیں کتنی بری لگتی ہے آپ کی یہ عادت مجھے؟"
ہار مانتے اسکا کوٹ جھنجھلاہٹ سے واپس سٹینڈ پر رکھا۔
لہجہ سخت بے بس خفا خفا سا تھا۔
"کتنی؟"
خوشی سے اسکے گلے لگتے وہ پوچھ رہی تھی۔
آواز میں ہنسی کی چھنک سن اسے چند لمحوں قبل بہائے اسکے آنسو یاد آئے۔
یہ ذرا سا وقت اسکے لیے کتنا اہم تھا یہ اسکا ہر عمل، ہر لفظ بتاتا تھا۔
اسنے اتنی احتیاط سے اسکے گرد ہاتھ پھیلائے جیسے اسکے قلب کی وہ ناقص شریان زید کے لمس سے پھٹ جائے گی۔
" یہ کب ڈائگناز ہوا؟"
اسے ساتھ لگائے زید نے آہستہ سے سوال کیا۔
وہ اس روح فرسا حقیت کو منیزے کی طرح نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔
" جس دن ہم ملے تھے اس سے ایک دن قبل۔۔"
اسنے کرب سے آنکھیں میچیں۔
کتنے سخت الفاظ کہے تھے اسنے منیزے کو اس دن کہ وہ اب اسکا انتظار نہیں کریگا۔
وہ کتنی اذیت میں ہوگی تب۔
مقابل کا کہا کوئی جملہ اسے یاد نہیں آیا۔
اسکے لہجے سے اپنے دل کو پہنچنے والی ہر اذیت محو ہوئی۔
کچہری دل لگائے تو کٹہرے میں اپنی ذات ہی کھڑی ملتی ہے ہمیشہ، محبوب تو ہر الزام سے ازل سے بری الذمہ رہا ہے۔۔ معصوم۔
گزرے ایک سال میں اسے لگتا تھا زندگی اتنی آگے بڑھ گئی ہے کہ اب وہ پچھلے سارے خدشے بھلا کر انہیں ایک اور موقع دے سکتی ہے۔
بہت مرتبہ، کئی بار دل کرتا تھا سب چھوڑ کر اس کے پاس چلی آئے پر پھر لگتا تھا وہ آگے بڑھ گیا ہوگا۔۔ دو سال سے اسنے کوئی ای میل بھی تو نہیں بھیجی تھی گھر کے نئے پتے کی۔
شاید، شاید وہ وقت کی گرد میں ماضی دفنا چکا ہو۔ ایک دفعہ سب ختم کرنے کے بعد وہ کیسے خود غرض ہو کر زید کی زندگی کا سکون تباہ کرنے واپس چلی آئے۔۔
لیکن اس دن جب زید کو اتنے وقت بعد بھی اپنا منتظر پایا۔۔ جب اسنے اسے روکا تھا تب اگر یہ یہ سب نہ ہوا ہوتا تو وہ آنکھیں بند کیے اسکے ساتھ چل پڑتی جہاں وہ کہتا۔۔ جہاں وہ لے جاتا۔۔
" میں تھک گئی ہوں زید۔۔ بہت زیادہ۔۔ اکیلے چلتے چلتے۔۔ بنا کسی سینس آف بیلانگنگ کے، میں اب خود غرض ہونا چاہتی ہوں۔۔ اپنے لیے جینا چاہتی ہوں۔۔ تمھارے ساتھ۔۔"
سر اٹھائے وہ اسے کہہ رہی تھی۔
کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو انسان انسان ہی ہوتا ہے، انسان ہی رہتا ہے۔
" پھر چاہے وہ چند گھنٹے ہوں یا چند پل۔۔"
وہ ان الفاظ میں اسے بتا رہی تھی اگر وہ اس کے ساتھ تھی تو اسے فرق نہیں پڑتا وہ کہ وہ کتنا جیتی ہے، اس عارضے کے ہاتھوں زندہ رہتی بھی ہے یا نہیں۔۔
" سرجری نہیں کرانی تو چھے گھنٹے سے فاسٹنگ پر کیوں ہیں؟ آجائیں کچھ کھاتے ہیں۔۔"
زید اسکی بات کا جواب دینے کے بجائے اسے لیے کمرے سے نکلا۔
وہ اسکی اس طرز کی سانسیں روکتی باتیں نہیں سن سکتا تھا۔
یہ دن، یہ چند گھنٹے اسے یہ سب سنتے نہیں گزارنے تھے۔
♤♤♤♤♤
شب کی تاریکی سحر کی روشنی میں گم ہوئی تو نیا دن انگڑائی لیتے بیدار ہوا۔
کروٹ بدلنے کو خفیف سی آنکھ کھلی تو پاس منیزے کو نہ پاکر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔
اسکی آنکھ لگنے سے پہلے تک وہ وہیں اسکے بازو کو تکیہ بنائے سو رہی تھی۔
وہ اسکے سو جانے کے بعد اسکی فائل اسٹڈی کرتا رہا تھا۔ اسکی ریپورٹیں ڈاکٹر ولیمز کو ای میل کیں۔۔ منیزے کی نیند کھل جانے کے خیال سے میسج پر اسکا کیس ڈسکس کیا۔ اپنی چھٹی منظور کرائی، سرجری کے لیے کل دوپہر کی اپائنٹمنٹ فکس کی اور پھر شاید ایک گھنٹا پہلے اسکا جسم اور آنکھیں جواب دیتے نیند سے غافل ہوئیں۔
وہ جو چھے گھنٹے کی سرجری کے سبب کئی گھنٹے قبل تھکن سے نڈھال تھا منیزے کو دیکھ سب بھول گیا تھا تبھی وہ اتنی گہری نیند سویا تھا کہ اسکا اٹھ جانا بھی محسوس نہیں کر پایا۔
اس سے پہلے ہڑبراہٹ گھبراہٹ میں بدلتی اسے وہ کافی تھامے سفید ٹراوزر اور سیاہ ٹی شرٹ میں ملبوس پلنگ کی بائیں جانب موجود کھڑکی پر کھڑی نظر آگئی۔
اس کھڑکی سے سمندر دکھتا تھا۔
اسے دیکھتے اسنے بستر چھوڑا۔
مجھے لگا آپ۔۔ آپ نے ڈرا دیا مجھے۔۔"
وہ مندی مندی آنکھیں لیے عین اسکے پیچھے کھڑا ہوا ہے۔
" یہ کیا ہوا ہے؟"
گول گلے کی ٹی شرٹ میں ہوا کے دوش سے بال اڑے تو یخ بستہ دھوپ اسکے دائیں کندھے اور گردن کے درمیان موجود اس زخم کے نشان پر پڑی۔
جس پر سوال کرتے الجھ کر زید نے ہولے سے انگلیاں رکھیں۔
" بلٹ انجری۔۔"
اسنے کھڑکی کے پار بہت دور دکھتے سمندر کی گود سے ابھرتے سورج کو تکتے جواب دیا۔
" کتنا برا ہینڈل کیا ہے۔۔"
جلد کی ناہمواری محسوس کرتے وہ افسوس سے گویا ہوا۔
گولی کا جسم چیرتا درد اور پھر یہ زخم۔۔ اس پر آڑے ترچھے ٹانکے۔۔ کتنی بار خراب ہوا ہوگا، کتنا وقت لگا کر ٹھیک ہوا ہوگا۔
کتنی تکلیف۔۔کتنی اذیت۔۔
" وہاں ہاسپٹل کہاں ہوتے ہیں اور نہ تمھارے جیسے ماہر سرجن۔۔زندگی بچا لینا ہی بیسٹ ہینڈل کرنا ہوتا ہے۔۔۔"
کافی کا گھونٹ بھرتے بات کو سرسری رنگ دیا۔
وہ پہلے ہی اسے لے کر اتنا سراسیمہ تھا وہ پچھلے زخم کیا گنواتی؟
" اور کتنے زخم ہیں؟"
اسکے گرد بازوؤں کا حصار باندھتے چہرہ گھنگریالے سیاہ بالوں میں چھپایا۔
نیند جو اسے نہ پاکر غائب ہوئی تھی اب پھر پپوٹے بوجھل کر رہی تھی۔
وہ کھڑے کھڑے آنکھیں موند گیا۔
" نشان ہیں اب صرف، زخم نہیں۔۔"
" کیا کرتی رہی ہیں آپ؟"
خمار آلود آواز میں اذیت کی آنچ تھی۔
"اپنی جاب۔۔"
سورج اب سمندر سے ابھر کر آسمان پر چھائی بدلیوں کے دھندلکے میں گم ہو رہا تھا۔
منیزے کی نظر اب بھی اسی پر تھی۔
" اب بھی کرتی رہیں گی؟"
" اب نہیں کر سکتی۔۔ ان فٹ ہوں۔۔"
یہ مسئلہ ڈاکٹر نہ پکڑتے تو وہ شاید اس وقت افغانستان میں ہوتی، کتنا غلط ہوتا وہ۔
اگر ایک مرض اسے آج کی صبح کا سورج اور من چاہی سنگت دے گیا تھا تو وہ صحتیابی پر ہر بار اسے ہی ترجیح دیتی۔
" ٹھیک ہونے کے بعد۔۔"
وہ ہنوز اسی انداز میں کھڑے مستقبل کی بات کر رہا تھا۔
" بعد کا یقین نہیں۔۔"
اس بات پر منیزے کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔
" شش۔۔ ایسی کوئی بات نہیں کریں گی آپ۔۔ بالکل بھی نہیں۔۔"
اسے ٹوکتے زید نے اسکے بالوں میں چھپا اپنا چہرہ نفی میں ہلایا۔
" نہیں کرتی۔۔"
اپنے گرد موجود اسکے بازو پر ہاتھ رکھتے یقین دہانی کرائی۔
"یہاں سمندر خوبصورت نہیں ہے۔۔ بے رونق سا۔۔ دھندلا دھندلا۔۔"
منیزے بات بدل گئی۔
" ہاں۔۔ ایسا ہی تھا۔۔"
اسنے عجیب انداز میں ماضی کا صیغہ استعمال کرتے تائید کی۔
" تھا؟"
وہ نہیں سمجھی۔
سمندر کیسے 'تھا' ہو سکتا ہے؟
" آپ کے آنے سے پہلے تک۔۔"
زید کا جملہ مکمل کرنے پر تبسم کی چھب منیزے کے چہرے پر آئی۔
" تم اب بھی ہوپ لیس رومانٹک ہو۔۔"
" ہاں۔۔ کیا کہتی تھیں آپ۔۔چیپ۔۔"
اسنے تائید کی، اسکا دیا نام یاد کرایا۔
ایک لفظ ماضی سے کتنی یادداشتیں کھینچ لایا تھا۔
"تمھاری آنکھیں تک نہیں کھل رہی ہیں، سو جاؤ کچھ دیر۔۔ کہیں نہیں بھاگ رہی میں۔۔"
اسنے زید کے آرام کے خیال سے کہا جس پر وہ پھر نفی میں سر ہلا گیا۔
یہاں ایسے اسے سکون محسوس ہو رہا تھا۔
کچھ دیر یوں ہی کھڑے رہنے کے بعد منیزے اس کی طرف گھومی اور اپنی آدھی پی ہوئی کافی اسے تھمائی کہ اگر وہ سونا نہیں چاہتا تو مکمل جاگ جائے۔
♤♤♤♤♤
زید سے کیے وعدے کے مطابق ایک خوشنما دن اسکے ساتھ گزار کر آج وہ اس کے ساتھ ہسپتال آگئی تھی۔
سب اسکرینز اور ٹیسٹ دوبارہ ہونے کے بعد اب وہ اس پرائیوٹ روم میں ہسپتال کا ہلکے نیلے رنگ کا گاون پہنے بیڈ پر ٹیک لگائے لیٹی ہوئی تھی۔
وہ قریب اسٹول پر کہنی اسکی پلنگ پر جمائے ہاتھ پر چہرہ رکھے مسلسل نگاہیں اس پر جمائے بیٹھا تھا۔
جیسے وہ نظر ہٹائے گا تو وہ ہوا میں تحلیل ہو جائے گی۔
" فائنلی۔۔زی کی میسٹری وومن سے ملاقات ہوگئی۔۔"
قریب ہی موجود ڈاکٹر ولیمز نے اسکے چارٹ دیکھنے کے بعد ٹیبلٹ ساتھ کھڑی انٹرن کو تھماتے ہنستے ہوئے منیزے کو مخاطب کیا۔
وہ چالیس پینتالیس سال کی بہت معتبر اور خوبصورت ملنسار سی خاتون تھیں۔
" میسٹری؟"
منیزے نے زید کو دیکھتے سوال کیا جو ان دونوں کی گفتگو پر اسے تکتے صرف مسکراتے رہنے پر اتفاق کر چکا تھا۔
" مجھے شروع سے لگتا تھا کوئی تو ہے پر یہ جواب ہی نہیں دیتا تھا۔۔ ہمیشہ بات بدل جایا کرتا تھا۔۔"
وہ زید کی طرف اشارہ کرتی بتا رہی تھیں۔
" میں کوئی گناہ تو نہ تھی کہ چھپائی جاتی۔۔"
وہ ہنس دی۔
" اسکا جواب تم اس سے لینا۔۔"
کہتے ہوئے چند ایک مزید ہدایات اپنے ریزیڈنٹ ڈاکٹر کو دیتے جانے سے پہلے وہ اسکے پلنگ کے قریب آئیں۔
" اینڈ سرجری کے رسک فیکٹرز تمھیں میرے انٹرنز بتا چکے ہونگے۔۔ سٹل میں ایسے سیم تین چار کیسز ہینڈل کر چکی ہوں پہلے اینڈ وہ دونوں کامیاب سرجریز تھیں۔۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گی کہ یہ بھی ہو۔۔"
جھک کر اسکا ہاتھ تھام کر تسلی دی، اسکی آنکھوں میں دیکھتے حوصلہ دیا جس پر منیزے نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
وہ جانتی تھی وہ پوری کوشش کریں گی۔ زید اسے لے کر یونہی کسی پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتا تھا۔
" سو ڈاکٹر زی ہاں؟"
سب کے جانے کے بعد منیزے نے اس عجیب طرز تخاطب کا حوالہ دیتے اسے مخاطب کیا۔
" زیڈ سے بہتر ہی ہے۔۔ نہیں؟"
امریکی تلفظ کے فرق کے باعث زید کے بجائے یہاں ہسپتال میں سب اسے شروع شروع میں زیڈ بلاتے تھے جو نجانے کب ذی ہو کر زبان زد عام ہوا وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
" تم سارا دن یہیں بیٹھے رہو گے؟ کوئی کام وام نہیں ہے؟"
اسکے مسلسل دیکھتے رہنے پر منیزے نے اسکی توجہ ہٹانی چاہی یوں بھی وہ اسے کام کرتا بطور ایک کامیاب پروفیشنل اسکے ورک پلیس میں دیکھنا چاہتی تھی۔
" میں چھٹی پر ہوں۔۔ بلکہ اچھا یاد دلایا، ایک نظر جین کو دیکھنا تھا مجھے۔۔ بس پانچ منٹ۔۔"
اسی انداز میں بیٹھے کہتے کہتے اسے اپنی پیشنٹ یاد آئی جو پوسٹ اوپ کے سلسلے میں پچھلے چند دن سے ہسپتال میں تھی۔
وہ اسے جلد واپس آنے کا کہہ کر اٹھ گیا۔
♤♤♤،♤♤
" یہاں آیا ہر پیشنٹ چڑیا گھر میں لائے گئے کسی نئے جانور جیسا ہی محسوس کرتا ہے یا میں کوئی اسپیشل کیس ہوں؟"
کھلے دروازے اور شیشے کی کھڑکی سے ہر آتے جاتے بندے کو جھانک کر خود کو دیکھنے پر اسنے اس انٹرن سے پوچھا جو زید کے جاتے ہی آئی تھی۔
کچھ لوگ تو باقائدہ دو دو تین تین کے گروہ میں آکر اسے دیکھ جا رہے تھے۔
" اوہ۔۔ نہیں۔۔ سوری فار دیٹ۔۔ یہ سب آپ کا سن کر ذرا کیورئیس ہیں۔۔ اگر آپ کو اچھا نہیں لگ رہا تو میں منع کر دیتی ہوں انہیں۔۔"
کھڑکی کے پار موجود اپنے ساتھی انٹرنز کو آنکھیں پھیلا کر دفع ہونے کا اشارہ کرتے لائزا نے صفائی دی۔
" نہیں۔۔پر کیورئیس کیوں ہیں؟ اتنا کوئی ریر کیس نہیں ہے میرا۔۔"
انیورزم (aneurism) کسی بھی ہسپتال کے سرجیکل ونگ میں آئے دن کا قصہ ہی تھے۔
" کیس نہیں آپ۔۔ آئی مین یہ سب ڈاکٹر زی کی وائف کو لے کر کیورئیس ہیں۔۔ سب ہی یہی گوسپ کر رہے ہیں آج۔۔"
عادتاً مسکراتے وضاحت کی۔
زید کی اتنے سالوں کی مطمعین تنہائی کا راز ایک عدد اچانک بیوی کی صورت کھلا تھا پورے ہسپتال میں۔
تجسس تو بنتا تھا۔
" ڈاکٹر زی کافی پاپولر معلوم ہوتے ہیں یہاں۔۔"
اسنے نے تھوڑی مٹھی پر جمائے مسکراتے ہوئے دلچسپی سے پوچھا۔
" اوہ۔۔ ہی از دا بیسٹ ایور ٹیچر۔۔ اتنے پولائٹ ورنہ باقی اٹینڈگنز تو ایسے ٹریٹ کرتے ہیں جیسے ہم انکے غلام ہوں۔۔ بلکہ نہیں وہ ہمیں انسان ہی نہیں سمجھتے۔۔اینڈ آ ٹرولی گفٹڈ سرجن۔۔ انکا کام اتنا پریسائز precise ہوتا ہے۔۔ اتنا نیٹ۔۔ ایک ڈراپ بلڈ کا ایکسٹرا نہیں بہنے دیتے۔۔"
پیلے بالوں والی اس انٹرن کو جیسے موقع مل گیا زید کی تعریفوں کا۔
وہ پرجوش سی اسے بتا رہی تھی۔
اسے اچھا لگ رہا تھا زید کی تعریفیں، اسکی کامیابیوں کے قصے سننا۔
پانچ سال قبل جب وہ اپنا کیرئیر چھوڑ پاکستان میں اس کے لیے رکنا چاہ رہا تھا، اگر وہ رک جاتا تو آج یہاں نہ ہوتا۔
اسکی ستائش میں کہا گیا ہر لفظ اس کی ریاضت کا ثمر تھا۔
" اور تمھیں بھی مسلسل وہی یہاں کھڑا رہنے کو کہہ گیا ہوگا۔۔ اٹس اوکے۔۔ تم جا سکتی ہو۔۔"
اتنا تو وہ جانتی تھی کہ مریض کے ساتھ ہر لمحے کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا اسے ضرور خاص ٹریٹمنٹ دیا جا رہا تھا۔
" نہیں۔۔ وہ تو ڈاکٹر ویلیمز کے خاص آرڈر ہیں کہ آپ کو اسپیشل ٹریٹمنٹ دینی ہے۔۔ دو سال پہلے آئس سٹورم میں سارے راستے بند ہوگئے تھے اور انکی بیٹی کو ایمرجنسی آپریٹ کرنا پڑا تھا۔۔ اتنی ایمرجنسی اور پاوور شارٹ ایج میں ڈاکٹر زی نے اتنی لمیٹڈ ٹیم کے ساتھ وہ سرجری کی تھی۔۔ ڈاکٹر ویلیمز نے مجھے زندہ نہیں چھوڑنا اگر میں یہاں سے ہلی بھی تو۔۔"
اس دوران ایک مسکراتی ہوئی نرس کمرے میں داخل ہوئی۔
لائزا کی بات سنتے نرس کو انجیکشن بناتے دیکھ اسنے اپنے گاون کا آستین زرا اوپر کیا۔
" یہ کیا۔۔ کس نے اسٹچ کیا ہے۔۔ اتنا اناڑی کام۔۔"
کپڑا ہٹانے سے کہنی کے اوپر دہائی پرانا وہ زخم کا نشان لائزا کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ پایا۔
"ہم انٹرنز کے اسٹیچز بھی اس سے بہت اچھے ہوتے ہیں۔۔ ڈاکٹر زی پہلے دو ویکس انٹرنز کو اسٹچز پرفیکٹ کرنے کی ورک شاپ۔۔"
" یہ تمھارے ڈاکٹر زی کا ہی کام ہے۔۔"
وہ زرا فخر سے بتا رہی تھی یہ سمجھ کر کے شاید پاکستان میں طب کا شعبہ اتنا پسماندہ ہے پر منیزے نے اپنے انکشاف سے اس کے جملے کو بریک لگا دی۔
اسکا منہ پورا کا پورا صدمے سے کھلا۔
" لائیو ٹیشو پر پہلا ایکسپیرئنس۔۔"
اس نشان کو دیکھتے اسے وہ زمانوں پرانی رات یاد آئی۔
چہرے پر کسی عزیز یاد کے سائے سی
مسکان آئی۔
" انکے بال تو واقعی بالکل میرے جیسے ہیں۔۔"
اس سے پہلے کہ لائزا اپنا شاک سے کھلا منہ بند کر کے کچھ کہتی معصوم سی کم سن پرجوش آواز پر ان دونوں نے دروازے کی سمت دیکھا جہاں زید وہیل چئیر تھامے کھڑا تھا۔
وہیل چئیر پر ایک آٹھ سالہ بچی ہاسپٹل گاون میں بیٹھی تھی۔ اس کے سر، ابرو اور پلکوں کے بالوں کا نہ ہونا بتاتا تھا وہ کینسر پیشنٹ ہے۔
زید اسکے یوں پرجوش ہو کر خوشی سے چلانے پر اسے دیکھ مسکراتا سر ہلا رہا تھا۔
" میں نے کہا تھا ناں۔۔"
" ڈاکٹر لائزا آپ کو ڈاکٹر ولیمز بلا رہی ہیں۔۔"
لائزا کو اطلاع کرتے اسنے آنکھ کے اشارے سے اسے منیزے کی فائل ساتھ لے جانے کا کہا۔
" منیزے یہ جین ہے۔۔ ایک بہت بہادر لڑکی۔۔ نرسز کے درمیان ہونے والی گوسپس سے اسے آپ کے بارے میں پتا چلا اور پھر جو انہوں نے آپ سے ملنے کی ضد مچائی کہ مجھے مدام کو یہاں لاتے ہی بنی "
جین اسکی پیشنٹ تھی۔
چار دن قبل اسکی سرجری ہوئی تھی۔ قوی امکان تھا کہ آپریشن کے بعد کیمو تھیراپی کے اس آخری راونڈ سے یہ موذی مرض اس پھول کی جان چھوڑ دے گا۔
جین کی وہیل چیئر گھسیٹتے وہ منیزے کو بتا رہا تھا۔
" آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی جین۔۔"
جب وہ اس کی بیڈ کے بالکل پاس آکر رکے تو منیزے نے مسکراتے ہوئے اس مرجھائی ہوئی روشن مسکان والی بچی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
" سیم ہیئر۔۔"
جسے اسنے بہت خوشی سے تھام کر ہلایا۔
" سو شی از یور سم ون اسپیشل۔۔"
اشارے سے زید کو قریب آنے کا کہہ کر وہ اب اسکے کان میں رازدارانہ سی سرگوشی میں پوچھ رہی تھی۔
کیمو تھیراپی کے لیے پہلی بار آئی اس بچی کے سیاہ گھنگریالے بال دیکھ اسے منیزے یاد آئی تھی جو تھیراپی کے باعث بال گر جانے سے خائف تھی۔ تب اسے زید نے بہت رازداری سے کان میں یہ کہہ کر راضی کیا تھا کہ اس کے بال کسی سم ون اسپیشل جیسے ہیں اور وہ جتنی جلدی کیمو کرا کر جان چھڑائے گی اسکے بال اتنی جلدی پہلے سے ہو جائیں گے۔
" یس۔۔"
اسے یہ بات یاد ہونے پر مسکراتے ہوئے اسنے جین جیسی سرگوشی میں ہی جواب دیا۔
" شی از رئیلی پریٹی۔۔"
منیزے کو دیکھتے جین نے ایک اور سرگوشی کی۔
" آئی ٹولڈ یو سو۔۔"
زید نے پورا اتفاق کیا۔
منیزے ان کی دوستی کے انداز دیکھتی مسکرا رہی تھی۔
" میں بالکل ٹھیک ہو جاؤں گی ناں جب تب میرے بال واپس آجائیں گے۔۔ بالکل آپ کے جیسے۔۔"
وہ پھر منیزے سے مخاطب ہوئی۔
" نہیں وہ میرے بالوں سے زیادہ خوبصورت ہونگے۔۔"
کہتے ہوئے اس کے دل سے اس بچی کے لیے دعا نکلی کہ اس کی یہ تکلیف جلد از جلد ختم ہو جائے۔
" آئی وش!"
منہ بناتے ہوئے اسنے چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں گرایا۔
مام کبھی بھی اسے اتنے لمبے بال نہیں رکھنے دیتیں جتنے ڈاکٹر کی سم ون اسپیشل کے تھے۔
منیزے نے ساتھ رکھی ٹیبل پر موجود گلدان میں سے زید کے لائے مخصوص رنگوں کے چار ٹیلوپس میں سے سفید والا نکال کر جین کو تھمایا۔
چند اور باتیں کرکے زید جین کو لے گیا تھا۔
وہ پھول تھامے بہت خوشی خوشی واپس گئی تھی۔
♤♤♤♤♤♤
"میں اپارٹمنٹ بدلنے کا سوچ رہا ہوں"
زید نے پلنگ پر اسکے تکیے سے ٹیک لگائے پاؤں لٹکائے بیٹھے اپنے کندھے پر سر رکھے لیٹی منیزے کو کہا۔
" کیوں؟"
اسنے بے اختیار پوچھا۔
کتنا اچھا لگا تھا وہ چھوٹا سا اپارٹمنٹ اسے۔۔ کتنا سکون آور۔
ضرورت، سہولت کی ہر شئے موجود ہونے کے سبب اسے آرامدہ ضرور کہا جا سکتا تھا پر پر آسائش نہیں جیسے وہاں زید ابراہیم نہیں منیزے فاروق رہتی ہو۔
جیسے وہ اس کے وہاں نہ ہوتے ہوئے بھی اتنے سالوں سے اسی کا گھر ہو۔
" وہ بہت چھوٹا ہے۔۔ میرے اکیلے کے لیے تو ٹھیک تھا پر اب آپ بھی ہیں۔۔"
اٹیچڈ باتھ کے ساتھ ایک بیڈروم لاؤنج اور کچن کی وہ تنگ جگہ اسے منیزے کے شایان شان نہیں لگ رہی تھی۔
" چھوٹا تو نہیں ہے، ہم دو کے لیے تو کافی ہے۔۔"
کسی جگہ سے اس قدر انسیت اسے اتنی جلدی کبھی نہیں ہوئی تھی۔
" پر ہم نے ہمیشہ دو تھوڑا ہی رہنا ہے۔۔"
دلیل دی گئی۔
" کیوں؟ تم دوسری شادی کا سوچ رہے ہو کیا؟"
مسکراہٹ دباتے اسکی بات کو جان بوجھ کر الگ رنگ دیا۔
"چہ"
زید نے سر جھٹکا کہ منیزے آج بھی لاعلاج ہی تھی۔
ایسی بے تکی بات کا وہ کیا جواب دیتا۔
" ڈی سی سے نیوز پروڈکشن کی آفر ہے۔۔ سوچ رہی ہوں ایکسپٹ کر لوں۔۔ پانچ سال کا کانٹریکٹ ہے۔۔ ہفتے میں تین دن کا شو۔۔ یہاں سے نذدیک پڑے گا۔۔"
وہ آنکھیں اٹھائے اسے بتا رہی تھی۔
" پرفیکٹ۔۔"
بہت دھیان سے سنتے جواباً تائید کی۔
وہ کتنی مشکل سے اس پر یقین کرتے کسی اندیشے کے بنا مستقبل کا سوچنے پر راضی ہوئی تھی۔
" ہم ساتھ پاکستان بھی جائیں گے جلد۔۔"
منیزے نے ایک اور منصوبہ ترتیب دیا۔
" اس دن فرئیر ہال سے گزرتے میں نے راجے کا ٹھیلا دیکھا۔۔ ہمیں وہاں بھی ضرور دوبارہ جانا ہے۔۔"
اس ٹھیلے پر اپنی پہلی ملاقات یاد کرتے زید نے کہا۔
منیزے کے ساتھ اُس شہر میں ایسا کون سا سٹریٹ فوڈ تھا جو اس نے نہ کھایا ہو۔
منیزے کو لے جانے کے لیے شہر کا ہر اچھا چھپا ٹھیلا ڈھونڈ نکالا کرتا تھا وہ۔
کتنے زمانوں پرانی بات لگتی تھی یہ۔
" اور کچھ دن ہر سال ہم ابا کے گھر رکا کریں گے۔۔"
"ہاں۔۔ اور ہاجرہ آنٹی کے صبر کا امتحان لیا کریں گے۔۔"
زید کو منیزے کی خالہ کا بیزار چہرہ یاد آیا۔
منیزے سے بیزاری انہیں اس کے ساتھ بھی خاص اچھا سلوک روا رکھنے نہیں دیا کرتی تھی۔
" وہ وہاں نہیں رہتیں اب۔۔"
منیزے نے اسکی معلومات کو اپڈیٹ کیا۔
" وہ علاقہ شفٹ کرنا چاہ رہی تھیں۔۔ میں نے رقم ادا کر کے گھر خود رکھ لیا۔۔"
اسکی سوالیہ نظروں پر تفصیل بتائی۔
" اچھا کیا۔۔"
" اور تمھارے فارم ہاوس بھی۔۔"
اس پلین پر وہ ہنس دیا۔
کتنی خاص تھی وہ جگہ۔
" بالکل۔۔"
" مام آرہی ہیں آج۔۔ ڈیڈ گلاسگو سے کل تک پہنچیں گے۔۔ احد کے ویزا کا ایشو تھا اسے شاید تین دن مزید لگیں۔۔"
فون پر سعدیہ کا فلائٹ میں بیٹھ جانے کا پیغام دیکھتے اسنے منیزے کو اطلاع دی۔
" تم نے سب کو بلا لیا، انہیں زحمت۔۔۔"
" نہیں میں نے انہیں صرف بتایا وہ خود آرہے ہیں کیونکہ آپ انکی فیملی ہیں۔۔"
زید نے اسکا جملہ مکمل ہونے نہیں دیا۔
وہ آج بھی ویسی ہی تھی، خوددار۔ کسی کو تکلیف نہ دینے والی۔
" آپ اکیلی نہیں ہیں۔۔ ہم سب ہیں آپ کے ساتھ۔۔ او آر سے واپسی پر آپ ہم سب کو اپنا منتظر پائیں گی۔۔"
اسکی جانب رخ کیے، اسکی آنکھوں میں جھانکتے وہ کہہ رہا تھا۔
وہاں ایسے بیٹھے انہوں نے کتنی باتیں کی۔ ماضی کی، حال کی، مستقبل کی۔ ہر خدشہ، ہر اندیشہ، ہر امکان بھلائے۔
امید اور محبت تھامے۔
علایہ نے شیشے کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھا۔
وہ منیزے کی عیادت کے لیے آئی تھی۔
زید کی نظریں۔۔ وہ نہیں جانتی وہ یہ نگاہ رکھتا بھی ہے۔ وہ رکھتا تھا پر وہ کسی ایک کے لیے مختص تھیں۔۔ منیزے فاروق کے لیے۔
اسنے گہری سانس لیتے چہرے پر مسکراہٹ سجائی۔
وہ اسکا نہیں ہو سکتا تھا، جس کا تھا اس کے ساتھ بہت خوش تھا۔
وہ نظر رکھنے والوں میں سے نہیں تھی۔
اپنی بے ریا مسکراہٹ کے ساتھ ان دونوں کے لیے بہت سی نیک تمنائیں لیے اسنے دروازے پر دستک دی۔
♤♤♤♤
اسٹریچر پر ذرا اوپر کو ہو کر ٹیک لگائے لیٹے ہوئے اسکا ہاتھ ساتھ ساتھ چلتے زید کے ہاتھوں میں تھا۔
لائزا بھی دو قدم پیچھے انکے ساتھ تھی۔
دو میل نرس وہ اسٹریچر او آر (آپریشن روم) کی طرف لے جا رہے تھے۔
" آپ بالکل ٹھیک ہو کر واپس آئیں گی۔"
اسنے یقین کی حدت اپنے ہاتھ سے اسکے ہاتھ کو دباتے منتقل کی۔
" میں اب بھی ٹھیک ہوں۔۔ بالکل۔"
مسکاتی نظریں مقابل کے چہرے پر جمی تھیں۔
آنکھیں بند ہونے سے پہلے من پسند منظر سامنے تھا، وہ ٹھیک تھی۔
ٹھیک سے بھی کہیں زیادہ تھی۔
" میں دعا کر رہا ہوں، سب دعا کر رہے ہیں۔۔"
اسنے آج دو انٹرنز کو اپنے ان گزشتہ مریضوں کے نمبر ریکارڈ میں سے نکالنے پر معمور کیا تھا جو اسکے علاج کے بعد صحت مند زندگی گزار رہے تھے۔
ہر ایک کو فرداً فرداً فون کر کے انہیں اپنے لیے دعا کرنے کو کہا تھا کہ خدا اسے منیزے کی زندگی دے دیں۔
وہ تب بھی مطمعین نہ ہوا تو ہسپتال میں موجود ہر شخص کو پکڑ پکڑ کر دعا کو ہاتھ اٹھانے کی درخواست کی تھی۔
سب نے مسکرا کر اس کی درخواست پر دعا کرنے کی ہامی بھری تھی، اس کی دعا پر آمین کہا۔
آج جب اسکے جسم کا ہر خلیہ محو دعا تھا، ہر لب سے نکلا ہر آمین چاہیے تھا اسے اپنے لیے۔
" آپ نے مجھے اپنے مڈل ایسٹ ایڈونچر کے سارے قصے سنانے ہیں ابھی۔۔"
" اور تم نے او آر میں کی جانے والی سب کوتاہیوں کے اور اپنی کامیابیوں کے۔۔"
" ہم نے ساتھ بہت سے قصے ابھی جینے بھی ہیں۔۔"
" بہت سی خوشیاں۔۔"
" اور بہت سے غم۔۔۔"
"زندگی کی جھولی میں ہمارے لیے جو جو موجود ہے وہ سب۔۔"
" ایک ساتھ۔۔"
" ایک ساتھ۔۔"
آخری لفظ ساتھ ادا ہوئے کسی آفاقی رسم کی طرح۔
وقت، تقدیر اور قدرت سب کی آنکھوں میں محبت نے آنکھیں گاڑھے پیمان باندھے، عہد مانگے۔۔
وصل نے پیر میں پیتل کے گھنگھرو باندھے
ہجر نے چاندی کی پازیب نہیں پہنی
وہ مکالمہ کسی نثری نظم سا ادا ہوا۔
جس کی دھن ایک لے میں دھڑکتی ان دو دلوں کی دھڑکن نے ترتیب دی۔
اسٹریچر او آر کے دروازے کے عین سامنے رکا، زید کے قدم بھی۔
اس سے آگے وہ نہیں جا سکتا تھا۔
جھک کر اسکی پیشانی پر لب رکھتے اسنے دوبارہ ملنے کی امید کو مضبوطی سے مٹھی میں بھینچا۔
اپنے ہاتھ سے چھوٹتے زید کے ہاتھ میں منیزے نے آس تھمائی۔
لائزا نے انجانی زبان میں کیے جانے والے اس دعائیہ مکالمے پر ان دونوں کی آنکھوں کی جھلملاہٹ دیکھ دل ہی دل میں آمین کہتے زید کی جگہ سنبھالتے اسٹریچر تھاما۔
جذبات کی تو ایک ہی زبان ہوتی ہے جو عالمی ہے۔۔۔ آفاقی ہے۔
وہ اب لمحہ بہ لمحہ دور جا رہی تھی۔
ماربل کے فرش پر گھسٹتے سٹریچر کے پہیوں کی آواز میں ہجر کا کوئی راگ شامل نہ تھا۔
جھلمل آنکھیں ایک دوسرے پر ٹکی تھیں۔
مسکان ہونٹوں سے جدا نہ ہونے دی گئی۔
اب دروازہ بند ہو رہا تھا۔
ان دونوں نے آنکھیں میچ کر اس ملاقات اور ایک دوسرے کے عکس کو تصور کے نہاں خانوں میں ہمیشہ کو جذب کیا۔
یخ بستہ پتھریلے ماحول میں محبت نے انتظار کی دھن چھیڑی اور وفا نے پیر تھرکائے۔
موہ کی موسیقی اور مہر کے قدموں کی تھاپ نے ہر آسیب زدہ اندیشے کے شور کا گلا اٹھنے سے پہلے گھونٹا۔
دروازہ بند ہو چکا تھا۔
♤♤♤♤♤
ختم شد۔