برآمدے میں ابا کے کمرے کی چوکھٹ پر سر رکھے وہ چٹائی پر گھٹنوں کے گرد دونوں ہاتھ باندھے بیٹھی تھی۔
ہاری ہوئی سی۔۔ شکست خوردہ۔۔ پتھرائی ہوئی آنکھیں لیے۔
وہیں جہاں انکے ہاتھ سے گلاس چھوٹا تھا۔
سامنے برآمدے کے عین درمیان فاروق احمد کی میت رکھی تھی۔
گھر لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔
ایک طرف ہاجرہ کسی رشتے دار عورت سے گلے لگی رو رہی تھیں۔ علیزے انکے پہلو میں اپنے چند ماہ کے بیٹے کو گود میں لیے تر چہرہ کے ساتھ۔ بیٹھی تھی۔
احد ابھی تک مری سے نہیں پہنچا تھا۔
باپ کی میت تدفین کو اسی کی منتظر تھی۔ زید حارث کے ساتھ مل کر ستا ہوا چہرے لیے ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر رہا تھا۔
منیزے نے خالی نظروں سے اسے لوگوں سے ملتے انھیں بٹھاتے دیکھا اور پھر سفید کفن میں لپٹے اس وجود پر نظریں جمائیں۔
ایک فیصلہ اسنے خود کیا تھا، دوسرا اس کے لیے قدرت نے کیا تھا۔
دونوں کی تکلیف دہرا کر رہی تھی۔ موت اور زندگی کے درمیان جھولتی وہ جان کنی کے عالم میں تھی۔
گھر کا داخلی دروازہ کھلا تھا۔
اسنے ابراہیم حسین اور سعدیہ ابراہیم کو اندر آتے دیکھا۔
سعدیہ خواتین کے پاس برآمدے تک جانے سے پہلے صحن میں کھڑے زید کے پاس رکیں۔
اسکی سرخ آنکھیں ضبط کا پتا دیتی تھیں۔
وہ انھیں دیکھ انکے گلے لگا۔ فاروق احمد کے وہ بہت قریب تھا۔ زید سے الگ ہوتے وہ منیزے کی جانب بڑھیں۔
اسے شکستہ سی مورت بنے بیٹھا دیکھ دل کو کچھ ہوا تھا۔ اس سے ہزار مسائل سہی پر یوں اس حال میں دیکھنا تکلیف دہ تھا۔ اسکے برابر میں بیٹھتے بازو اسکے کندھے کے گرد پھیلاتے اسے اپنے ساتھ لگایا۔ سیاہ دوپٹہ اوڑھے سر پر ہونٹ رکھے۔
ان سے الگ ہوتے منیزے نے سابقہ ویران نظروں سے انہیں دیکھا۔
اس کے دکھ میں غمگین ہو کر بھی وہ کتنی مکمل تھیں، کتنی آسودہ۔ انکا کوئی اپنا ان سے نہیں بچھڑا تھا۔
اسکی ذات کا ادھورا پن اسکی وجہ سے انکے حصے میں نہیں آئے گا۔
وہ اپنے تنہا رہ جانے کے خوف سے خودغرض نہیں ہو سکتی تھی۔
ایک آخری نظر اسنے زید کو دیکھا۔
♤♤♤♤♤♤♤
آج فاروق احمد کو گئے چوتھا دن تھا۔
گھر میں بس وہ گھر کے لوگ ہی رہ گئے تھے۔
ہاجرہ روتی ہوئیں علیزے اور حارث کے ساتھ انکے گھر جا رہی تھیں۔
منیزے یہ آوازیں ابا کے کمرے میں انکی پلنگ سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھی سن رہی تھی۔
انکے رونے میں وقفوں وقفوں سے منیزے کے لیے آہیں بھی شامل تھیں اور بدعائیں بھی۔ اس نے سب کے جاتے انہیں بتا دیا تھا کہ وہ چند دنوں میں نئی نوکری کے لیے دوہا جا رہی ہے غیر معینہ مدت کے لیے۔ جس کا مطلب تھا ہاجرہ یہاں بالکل تنہا اپنی عدت نہیں گزار سکتی تھیں، نتیجتاً انہیں علیزے کے ساتھ جانا پڑ رہا تھا اور وہ مسلسل اسے خود غرض ہونے اور انہیں اپنے گھر میں اپنی عدت تک نہ مکمل کرنے دینے پر بہت کچھ سنا رہی تھیں۔
وہ انکے ساتھ رہ لیتی یہاں اگر رہ سکتی۔
اگر اس مدت میں اسکے خود کے گزر جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو۔
احد کے دو دن بعد سالانہ امتحان تھے پھر اسے وہاں انٹری ٹیسٹ کی تیاری کرنی تھی۔
زید اسے ائیر پورٹ چھوڑنے گیا تھا۔
وہ واپس آیا تو گھر ایسے خالی تھا جیسے وہاں کوئی ذی روح نہ بستی ہو۔
ابا کے کمرے میں جھانکا تو منیزے اسے وہیں ویسے ہی بیٹھی نظر آئی جیسے وہ چھوڑ گیا تھا۔
ان گزرے دنوں میں وہ کوئی بات نہیں کر پائے تھے۔ ایک موت ساتھ جھیل لینے کے بعد جیسے ایک دوسرے کو کہنے کو الفاظ کھو گئے تھے۔
وہ آکر اسی کے انداز میں اسکے پاس بیٹھا۔
وہ باپ کے بعد کتنی اکیلی لگ رہی تھی، کتنی تنہا، کتنی خالی۔
اسکے جانے کے بعد کیا ہوا تھا وہ لاعلم تھا۔
اسے لگا تھا وہ سب اسے یوں اکیلا چھوڑ کر خود گئے ہیں۔
" آپ گھر چلیں بس اب۔۔ یہاں اکیلے مت رہیں۔۔ سامان ہم کسی اور دن آکر لے جائیں گے ابھی بس ایسنشیلز اٹھا لیں۔۔ میں پیک کر دوں؟"
اسکے کندھے کے گرد ہاتھ پھیلائے وہ نرمی سے کہہ رہا تھا۔
منیزے نے اسے دیکھا، اس نظر سے جس سے کسی دشت کا مسافر اپنی متاع میں موجود پانی کی آخری بوند کو دیکھتا ہے۔
اپنے کندھے پر موجود اسکا ہاتھ جھٹکا۔
" میں نہیں جاؤں گی کہیں۔۔"
آواز سخت ہوئی اور لہجہ تلخ۔
" جیسے آپ چاہیں۔۔ ہم کچھ دن یہیں رہ لیں گے۔۔"
وہ اسکے لہجے کی کڑواہٹ کو اس کے صدمے کا مجاز سمجھتے نظر انداز کر گیا۔
منیزے کو اسکا کا بار بار 'ہم' کہنا تکلیف دے رہا تھا۔ وہ دو الگ لوگ تھے، دو مختلف دنیاوں سے، جن کے راستوں کا مدغم ہونا کوئی خیر نہیں لایا تھا، نہ لا سکتا تھا۔
وہ اسکی ہر خواہش، ہر کوشش کے بعد بھی 'ہم' نہیں ہو سکتے تھے۔
"تمھیں سمجھ کیوں نہیں آرہی ہے مجھے تمھارے ساتھ کہیں نہیں جانا۔۔ کہیں نہیں رہنا۔۔"
وہ اس سے دور ہوتے کھڑی ہوئی۔
صاف الفاظ میں اپنا ارادہ واضح کیا۔
وہ بھی گنگ سا کھڑا ہوا۔ وہ اس سب میں انکے درمیان گزشتہ ہر تناو بھلا بیٹھا تھا۔
" ابا چلے گئے تمھارے سوالات کا بوجھ لیے، اب مجھ سے کیا چاہتے ہو تم؟ جاو یہاں سے اور دوبارہ مت آنا۔۔"
جارہانہ انداز میں اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے پیچھے دروازے کی طرف دھکیلا۔
"منیزے۔۔"
وہ صدمے سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ کیا کہہ رہی تھی؟ اسے کیسا الزام دے رہی تھی؟ اتنا بھاری۔۔ اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔
" مجھے تمھیں اب نہیں دیکھنا، نہیں ملنا۔۔ کوئی تعلق نہیں رکھنا۔۔"
" آپ یہ۔۔"
وہ اسے کچھ بھی کہنے کا موقع دیے بنا کہے جا رہی تھی۔
" کتنے عزیز تھے تم انہیں۔۔ کتنا اعتبار تھا انہیں تم پر۔۔ اور تم نے کیا کیا؟ میرا باپ اپنی آنکھوں میں تمھارے رویے کی الجھن لیے مر گیا۔۔ چلے گئے وہ۔۔اب نہیں آئیں گے۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔ تم بھی جاؤ۔۔ چلے جاؤ اور دوبارہ مت آنا۔۔۔ کبھی نہیں۔۔"
وہ کہتے کہتے پلنگ پر دکھتا سر ہاتھوں میں دیے بیٹھی۔
آواز نم ہو رہی تھی۔
وہ نہیں چاہتی تھی وہ اسے روتا دیکھے۔
" میں نے ایک سوال کیا تھا صرف۔۔"
اسکا غم اتنا بڑا تھا کہ اسکے ہر لفظ، ہر الزام کے باوجود وہ اس سے کوئی سخت جملہ نہیں کہہ پایا۔
" میرے کردار پر کیا تھا!"
آنسو پیچھے دھکیلتی وہ بپھری ہوئی دوبارہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
" معیذ کی نیت پر کیا تھا۔۔"
اب کہ زید نے بھی اپنے جملے پر زور دیا۔
" مجھ سے کیوں کیا تھا پھر؟ اسی سے کرتے۔۔ اسکا گریبان پکڑتے۔۔ تم مردوں کو جواب دہی کے لیے عورت ہی کیوں ملتی ہے ہمیشہ؟ خاص کر تب جب وہ تم سے جڑی ہو۔۔ بیوی ہو۔۔"
اسکے الفاظ پر اسکا بہار زمانوں میں کہا جملہ یاد کی سماعتوں میں گونجا۔
"کیا یہ آلریڈی اسٹیبلیشڈ فیکٹ already established fact نہیں ہے کہ یو آر این ایکسیپسن you are an exception؟"
وہ تو مستثنی تھا، وہ کب منیزے کی نظروں میں عام مردوں کی صف میں کھڑا کر دیا گیا؟ اسے کیوں پتا نہیں چلا تھا؟ اسے کیوں نہیں بتایا گیا تھا؟
" میری ایسی کوئی نیت۔۔ آپ مجھے کیوں نہیں سمجھ رہی ہیں؟ آپ بھی نہیں سمجھیں گی تو میں کہاں جاؤں گا؟"
وہ بے بسی سے صفائی دیتے سوال کر گیا۔
زید کا پر ہزن سا آخری جملہ آنچ دیتا اسکا بنایا خول پگھلانے لگا۔
وہ مزید ایسے دل چیرتے سوال کرتا رہتا تو وہ کب تک عیاں ہونے سے روک پاتی خود کو؟
" جہاں جانا چاہو چلے جاؤ۔۔"
سختی سے اسے دہلیز کے پار دھکیلتے وہ دروازہ اسکے منہ پر بند کر گئی تھی۔
وہ پھر بھی دروازہ بجاتا رہا۔
بہت دیر تک اسکے نہ کھولنے پر اسے دوبارہ آنے کا کہہ کر چلا گیا تھا۔
♤♤♤♤♤
وہ دوبارہ آیا تھا، ہر روز آتا تھا پر اسکے لیے گھر کا دروازہ ہی نہیں کھولا جاتا تھا اب۔
وہ دستک دیتے دیتے تھک جاتا تو لوٹ جاتا اگلے دن نئی توانائی نئی امید کے ساتھ لوٹنے کو۔
فون منیزے نے اپنا بند کر رکھا تھا۔
ہر طرح سے خود کو اسکے لیے نا قابل رسائی بنا چکی تھی وہ۔
زید کو دور کر کے اس نے باپ کی موت کا ماتم دل کی طرح سائیں سائیں کرتے اس گھر میں خود کو محصور کر کے کیا تھا۔
♤♤♤♤
وکیل کے آفس سے وہ قانونی دستاویز ہاتھ میں لیے نکلا۔
گاڑی میں بیٹھتے اسکی آنکھوں میں میدان جنگ میں معارکہ ہو جانے کے بعد کی ویرانی تھی۔
فاتح جو بھی ٹھہرا ہو تباہی اسی کے حصے میں آئی تھی۔
ایک ماہ سے وہ سائل بن کر اس ایک دروازے سے ہر روز بے فیض لوٹتا تھا۔
جو بات منیزے کے لفظ اسے نہیں سمجھا پائے، اسکی سرد مہری، اسکی خاموشی نہیں سمجھا پائی وہ اسکے پی اے کا ایک فون سمجھا گیا جو اسنے کل شام کیا تھا۔
" ہیلو، زید بھائی۔۔"
" ہیلو۔۔ کیسے ہو آصف؟"
وہ اس فون کال کا مقصد نہیں سمجھ پایا تھا۔ کچھ الجھتے ہوئے اسکی خیریت پوچھی۔
" میم کا فون بند ہے اتنے عرصے سے، ان سے بات کرنی تھی۔۔ضروری"
" وہ میرے ساتھ نہیں ہیں اس وقت۔۔تم جانتے ہو انکے فادر۔۔ اگر ورک ریلیٹڈ ہے تو کچھ دن رہنے دو۔۔"
مدعا سمجھتے اسنے اسے ٹالنا چاہا۔
ان دونوں کے درمیان جو بھی تھا وہ اب تک زبان زد عام نہیں ہوا تھا۔
" ہے تو کام کی بات پر ضروری ہے۔۔ الجزیرہ والے فون کر رہے ہیں۔۔ انہیں اگلے ہفتے دوہا میں جوائنگ دینی ہے۔۔ اور میم ابھی تک کونسلیٹ ویزا کے لیے بھی نہیں گئیں۔۔ آپ ٹائم نکال کر آج یا کل میں لے جائیں انہیں پلیز "
آصف بہت عام انداز میں کہہ رہا تھا۔
وہ لمحہ ادراک کا لمحہ تھا۔
وہ اسکی زندگی سے چلے جانے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ اب سے نہیں بہت پہلے سے اور اسے اطلاع بھی نہیں کی تھی۔
وہ اپنے ارادوں کی کتنی اٹل تھی کیا وہ نہیں جانتا تھا۔ اس سے بہتر کون جانتا تھا؟
وہ جن قدموں پر جھکا سر پٹخ رہا تھا وہ تو کب کے آگے بڑھ چکے تھے۔ وہاں اب صرف پیروں کے نشان باقی تھے۔ وہ نقش پا جو ہمیشہ رہنے تھے۔ اسکے دل پر، زندگی میں۔۔
♤♤♤♤
" کون؟"
بیل بجنے پر منیزے نے کچن سے دروازے تک آتے سوال کیا تھا۔
دوسری طرف سے آتی خاموشی یہ بتانے کو کافی تھی کہ اس پار کون موجود تھا۔
وہ کتنا ثابت قدم تھا۔
اسے اور خود کو مسلسل بار بار اذیت دیتا تھا اور تھکتا بھی نہیں تھا۔
ٹھکرا دینے کی اذیت، ٹھکرائے جانے کی اذیت۔۔
وہ واپس پلٹنے لگی تھی پر اسکی آواز پر رک گئی۔
" مت کھولیں دروازہ۔۔میری بات سن لیں صرف۔۔"
بے آواز قدموں سے چلتی وہ دروازے کے پاس آکر رکی۔
کسی آہٹ میں لپٹی کوئی خوش فہمی وہ اسے نہیں تھامنے دے سکتی تھی۔
" کچھ دنوں میں میری یو ایس کی فلائٹ ہے۔"
وہ اسے نہ دیکھ کر بھی جانتی تھی وہ ضرور یہ کہتے اذیت سے مسکرایا ہوگا۔
تو وہ تھک گیا تھا۔
میں تمہارے علاوہ کسی سے بے وفائی نہیں کر سکتی تھی
کہ میں نے تمہارے علاوہ
کسی سے محبت نہیں کی۔۔
" مجھے سمجھ آگیا ہے کہ آپ میرا ساتھ نہیں چاہتیں۔۔ کیوں؟ میں نہیں جانتا پر اتنا پتا ہے کہ جو آپ کہہ رہی ہیں سچ اس سے کہیں زیادہ ہے۔"
اسکی مغموم سی آواز سنتے منیزے نے سر دروازے سے لگایا۔
ایک باغی اشک سخت حد بندی کے باوجود سرحد پار کرتا رخسار پر پھسلا۔
میرے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں تھا
سوائے اس راز کے
کہ کئی بار محبت کم پڑ جاتی ہے
"وہ کیا ہے؟ یہ سوال چاہے مجھے کبھی سونے نہ دے پر میں اس کا جواب لینے اب آپ کے پاس نہیں آؤں گا۔"
زید نے ٹھیک اس جگہ ہاتھ رکھا جہاں اس پار وہ اپنا سر ٹکائے ہوئے تھی۔
میں نے تمہارے ذہن میں سوال بوئے
اور انہیں رت جگوں کا پانی دیا
" میں سمجھ گیا ہوں آپ کی فیوچر پلیننگ میں میں شامل نہیں رہا۔۔"
میں نے کہانیاں تراشیں
جن میں تم نہیں تھے
تاکہ تم انہیں سن سکو
" اور نہ اب آپ کی زندگی میں، خوابوں میں میری لیے کوئی جگہ رہی ہے"
میں نے تمہارے خواب کارنس پر رکھ دیے
تاکہ وہ گر کر ٹوٹ جائیں
" میں نے چاہا تھا ہم ساتھ جائیں، پر صرف میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔۔ ٹھیک بھی ہے۔۔"
میں نے تمہاری خواہشیں گرد آلود کتابوں میں دبا دیں
اور ان کے بد رنگ ہو جانے کی ذمہ داری وقت پر عائد کی
" آپ حق رکھتی ہیں کہ جسے چاہیں اپنی زندگی میں رہنے دیں، جسے چاہے نکال دیں۔۔ سچ کہہ رہی تھیں آپ شاید ساری غلطی میری ہی تھی۔۔"
کرب سے آنکھیں میچیں۔
سیاہ پردوں پر اسکا چہرہ پورے حق سے براجمان ہوا۔
میں نے تم سے سچ بولے جو جھوٹے تھے
اور جھوٹ چھپا لیے جو سچے نکل سکتے تھے
" پر میں تو ہر غلطی ماننے کو تیار تھا۔۔ اب بھی ہوں۔۔ معافی مانگنے کو بھی۔۔ مگر میں نے آپ کو کوئی ایسا الزام نہیں دیا جیسا کہ آپ کہہ رہی ہیں پر اب دیتا ہوں۔۔ ہمیں، مجھے ایک موقع تک نہ دینے کا الزام۔۔ یوں اچانک ہاتھ چھڑا لینے کا الزام۔۔ میری محبت کے ساتھ یہ کرنے کا الزام۔۔"
میں نے تمہیں خود پر عائد کرنے کے لیے الزام فراہم کیے
اور انہیں درست ثابت کرنے کے لیے خاموشی اوڑھے رکھی
"میں جا رہا ہوں منیزے، اس لیے نہیں کیونکہ میں نے ہار مان لی ہے یا میں تھک گیا ہوں، اس لیے کیونکہ یہ آپ کی خواہش ہے۔ آپ چاہیں تو گھر سے نکل سکتی ہیں میں آپ کا راستہ روکنے کے لیے اب موجود نہیں ہونگا، آپ چاہیں تو اپنا فون آن کر لیں، آپ کو میری طرف سے اب کوئی ان چاہا رابطہ نہیں برداشت کرنا پڑے گا"
آج اس دست برداری کے غم میں دنیا میں کہیں کوئی نیا ٹیولپ نہیں کھلا ہوگا۔ جو پہلے سے ہونگے وہ مرجھا گئے ہونگے کہ سوگ ان پر واجب تھا۔
" لیکن آپ مجھے اپنا انتظار کرتے رہنے سے، آپ سے محبت کرتے رہنے سے نہیں روک سکتیں۔۔ آپ جب چاہیں لوٹ آئیں میں زندہ رہا تو وہیں کھڑا ملوں گا جہاں آج ہوں۔۔۔ کیونکہ یہ میرا حق ہے۔"
یہ ایک حق اس سے کوئی نہیں چھین سکتا تھا منیرے بھی نہیں۔
میرا جرم تمہیں میسر نہ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں تھا
" جانے سے پہلے آپ کو یہ دینا تھا۔۔"
وہ نہیں سمجھ پائی کہ بند دروازے سے وہ اسے کیا دینا چاہتا ہے پر اگلے ہی لمحے اسکے قدموں کے پاس دروازے کے نیچے کی درز سے ایک تہہ شدہ کاغذ کھسکایا گیا۔
وہ کھڑے کھڑے اسکا عنوان تو نہ پڑھ پائی پر اسکی قانونی نوعیت ضرور بھانپ گئی تھی۔
مٹھی ضبط سے بھینچی۔
سب خود اپنے ہاتھوں سے اس نہج پر لانے کے بعد علحیدگی کا یہ پروانہ اتنا غیر متوقع کیوں ثابت ہوا تھا یا شاید وہ اس کی اتنی جلدی توقع نہیں کر رہی تھی۔
وہ زردی مائل سفید کاغذ اسے سرخ نظر آیا۔
انتظار کرتے رہنے کا کہہ کر جدائی کو یوں دوام کون بخشتا ہے؟
" جانتا ہوں آپ کو کوئی تعلق نہیں رکھنا پر میں ایسا کچھ نہیں چاہتا۔۔۔ چاہ ہی نہیں سکتا۔۔طلاق دینے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں، آپ مطالبہ کرتیں تو میں پورا نہ کر پاتا سو یہ حق آپ کو تفویض کر رہا ہوں۔۔ آپ جب چاہیں اس رشتے سے، اس تعلق سے آزاد ہو جائیں۔۔"
تو وہ طلاق نامہ نہ تھا۔ زید کے اس آخری عمل پر ضمیر نے خود پر روح ادھیڑتا چابک برسایا حالانکہ یہ فعل اسنے خالصتاً اپنے لیے کیا تھا۔
اپنے ہاتھوں سے ایسا کوئی دستخط وہ خود کرتا تو شاید دوسری سانس نہ لے پاتا۔ خود کو کند چھری سے ذبح کرنے کی اذیت سے بچایا تھا اسنے۔
اسکی کپکپاتی نم آواز میں کی جانے والی یک طرفہ گفتگو کا ہر لفظ سل کی مانند دل پر دھرا تھا۔ ایک کے اوپر ایک، کوئی آسیب زدہ اجڑا مینار ہو جیسے۔
اور اس کی تلافی میرے خود کو دستیاب ہوئے بغیر ممکن نہیں۔۔۔
" اپنا بہت خیال رکھیے گا۔۔"
منیزے کی سماعتوں نے اسکے قدموں کے پلٹنے کی آہٹ سنی اور پھر خود سے دور بہت دور جانے کی چاپ۔
دنیا میں اس سے مکروہ آواز بھی کوئی ہوتی ہوگی؟
وہ اپنا دل اس دہلیز پر چھوڑ کر جا چکا تھا۔
♤♤♤♤♤
حال
سیاہ جینز، سرمئی لانگ کوٹ، سرخ مفلر اور ٹخنوں سے چند انچ اوپر آتے کوٹ شوز میں اسکے پلنگ پر اسکے تکیے پر سر رکھے کروٹ کے بل جوتوں سمیت لیٹی گہری نیند میں ڈوبی وہ منیزے تھی۔
وہ دھیمے قدموں سے پلنگ تک آیا، اتنی احتیاط سے جیسے کانچ پر چل رہا ہو کہ اگر یہ خواب ہے تو ٹوٹ نہ جائے کہیں۔
قدم اس کے پیروں کے پاس رکے۔
جوتوں سمیت، اوور کوٹ پہنے وہ یوں سو رہی تھی جیسے صدیوں کی مسافت سے گھر لوٹی ہو۔
اسکے وجود پر اس کٹھن تنہا سفر کی نادیدہ گرد زید کو صاف نظر آئی۔ صرف اسے ہی آسکتی تھی۔
آہستگی سے اسکے پیروں کے پاس بیٹھتے انہیں جوتوں سے آزاد کیا۔
دید کی تشنگی مٹانے کو وہ اٹھ کر سائڈ ٹیبل اور پلنگ کے درمیان زمین پر پنجوں کے بل اسکے سامنے بیٹھا۔
وہ پلنگ کے کنارے اسکی جانب کروٹ کیے لیٹی تھی۔ ایک ہاتھ چہرے کے نیچے رکھے ہوئے تھی اور دوسرا پہلو میں دھرا تھا۔
یوں بیٹھے اسے تکتے نجانے کتنی گھڑیاں بیتیں، نجانے کتنے زمانے، نجانے کتنی صدیاں۔۔ جب اسنے اسکے لب ہلتے دیکھے۔
" تم ایسے گھورتے رہو گے تو میں سوؤں گی کیسے؟"
وہ آنکھیں موندے مسکراتے پوچھ رہی تھی۔
وہ ہنس دیا۔
کتنے زمانوں بعد وہ یوں ہنسا تھا کہ یہ فعل مشقت نہیں لگا۔
وہ اب آنکھیں کھولے مسکاتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔
وہ اسے دیکھ کر آخری بار کب مسکرائی تھی اسے یاد نہیں آیا۔
دل کا وہم مٹانے کو یہ کہ سچ ہے سراب نہیں زید نے ہاتھ بڑھا کر انگلیوں کی پشت اسکے چہرے سے مس کی۔
منیزے نے پہلو میں دھرا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا۔
وجود پر لگے کتنے زخموں پر وہ لمس ٹھنڈے مرہم سا محسوس ہوا تھا۔
"کب آئیں آپ؟"
ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانکتے اس نے پوچھا۔
"چھے بجے۔"
"کچھ کھایا؟"
اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے۔
وہ ساڑھے پانچ گھنٹے کی بھرپور نیند لے کر اٹھی تھی۔
گزرے پانچ سالوں میں یہ ساڑھے پانچ گھنٹے ہی تو سوئی تھی وہ۔
"پلین میں کھایا تھا۔۔ ہاں کافی پی۔۔"
" میں کچھ لاتا ہوں۔۔"
وہ اٹھتے ہوئے بولا تو منیزے نے اپنے گال پر دھرے اسکے ہاتھ پر دباو بڑھا کر اسے روک لیا۔
" آپ کال کر لیتیں تو میں پہلے آجاتا۔۔"
وہ دوبارہ اپنی سابقہ پوزیشن میں بیٹھا پوچھ رہا تھا۔
" تمھارا نمبر نہیں تھا میرے پاس بس ایڈریس تھا۔۔"
" وہی پرانا نمبر ہے میرا اب بھی۔۔"
پانچ سال سے یہ نمبر اس ایک رابطے کے لیے رومنگ پر کھلا رکھا تھا اسنے۔
" محفوظ نہیں رکھ سکی میں۔۔"
اسکے چہرے پر نظروں کا حصار باندھے اسنے افسوس سے پر لہجے میں کہا۔
مشھد میں انکی وین پر وہ راکٹ حملہ۔۔ جب وہ اپنے زخموں سے زیادہ اپنا موبائل تباہ ہو جانے پر روئی تھی۔
کتنی یادیں تھیں اس فون میں۔۔ کتنی تصویریں، زید کا نمبر۔۔ جو اسنے ازبر نہ ہونے پر خود کو کتنا عرصہ ملامت کرتے گزارا تھا۔۔ حالانکہ رابطہ کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا پھر بھی خسارے کا احساس کس قدر ہاوی ہو گیا تھا۔
" جائیں گی تو نہیں ناں اب؟"
وہ کیوں گئی تھی، کہاں رہی تھی، کیوں واپس آئی تھی، کچھ بھی تو نہیں پوچھا اسنے۔ گزرے ماہ و سال کا کوئی حوالہ کوئی گلہ اسنے نہیں کیا۔ پوچھا بھی تو کیا کہ وہ دوبارہ چلی تو نہیں جائے گی۔
واپسی کا راستہ خود راہ بدل لینے والوں کے لیے اتنا آسان کب ہوا کرتا ہے؟ اس کی خوش بختی کا نام زید ابراہیم تھا۔
" میں نہیں جانا چاہتی اب کہیں۔۔"
زید کے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ بڑھایا، آواز آخر میں کانپی۔
" بھوک لگ رہی ہے۔۔ کچھ کھلاؤ گے نہیں؟"
خود پر قابو پاتے وہ اٹھ بیٹھی، بات بدلی۔
" لاؤنج میں چلیں میں بناتا ہوں کچھ۔۔ کیا کھائیں گی؟"
خود کھڑے ہوتے اسکا ہاتھ پکڑے اسے بھی ساتھ کھڑا کیا۔
" تم بناؤ گے؟"
میتھی کے کڑوے قہوے کا ذائقہ زبان کو یاد آیا۔
" اب بنا لیتا ہوں۔۔"
منیزے نے مقابل کھڑے اس شخص کو دیکھا۔
جو نرم مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
روشن آنکھوں کی رونق مدھم مسکراتے تاثر میں تبدیل ہو چکی تھی۔
" تم بدل گئے ہو بہت۔۔"
اسنے کہتے ہوئے اسکی گردن کے گرد بازو حمائل کرتے اپنا چہرہ اسکے کوٹ میں چھپا لیا۔
وہ ظاہر باطن میں بپا ہوئے ہر انقلاب کے بعد بھی اسکے لیے تو وہی تھا۔ اسنے وہی رہنا تھا۔
زید نے سر جھکا کر اسکے بالوں پر ہونٹ رکھے۔
" آپ نہیں بدلیں۔۔"
دھیمے سروں میں کہا گیا اسکا جملہ منیزے کی سماعتوں سے ٹکرایا۔
پانچ سال کا وہ عرصہ زندگی سے غائب ہوا۔
جیسے وہ کبھی جدا ہوئے ہی نہیں تھے۔
بہت سے پل یوں کھڑے کھڑے گزرے تو اسنے سر اٹھایا۔
منیزے کے گرم کوٹ پر نظر پڑی۔
اپارٹمنٹ کا درجہ حرارت آرامدہ تھا اسنے ذرا الگ ہو کر اسے کورٹ اتارنے میں مدد دی۔
" آپ چلیں میں یہ رکھ کر آتا ہوں۔۔"
اتنے گھنٹوں سے اسنے کچھ نہیں کھایا تھا۔
وہ چلی گئی تو اسنے ایک لمحہ رک کر اپنے ہاتھ میں موجود اسکے کوٹ کو دیکھا۔محسوس کیا۔
یہ سرمئی کوٹ اسنے تب بھی پہنا ہوا تھا جب وہ انقرہ ائیر پورٹ پر ملے تھے۔ تب وہ اسے کتنی ناقابل رسائی لگی تھی۔۔ سامنے ہو کر بھی میلوں کے فاصلے پر۔۔ کتنا بے بس محسوس کیا تھا اسنے خود کو کہ وہ چاہ کر بھی ہاتھ بڑھا کر اسکے ہونے کا یقین نہیں پا سکتا تھا۔
اسکے کوٹ کو ہاتھ میں تھامے اسے محسوس کرتے اسنے یقین کرنا چاہا کہ تقدیر اسے دیکھ پانچ سال بعد بالآخر مسکرائی تھی۔
وہ سرشار سا کوٹ سٹینڈ کی طرف مڑا۔
اسکا کوٹ لٹکایا اور اپنا اتارنے لگا۔
اسی دوران کہنی پاس رکھے منیزے کے سوٹ کیس پر موجود اسکے ہینڈ بیگ سے ٹکرائی، وہ فرش پر گرا۔ بیگ کی زپ نہیں تھی چیزیں گرتے ہی بکھریں۔ چارجر، فون، کسی کریم کی ٹیوب، ایک فائل۔۔
جھک کر گھٹنا موڑے بیٹھتے اسنے چیزیں سمیٹنا چاہیں تو نظر اس فائل پر موجود لوگو پر اٹکی، ہاتھ بے اختیار اسکی جانب بڑھا۔
♤♤♤♤♤
" تم گوگل پر ریسیپیز ڈھونڈنے تو نہیں بیٹھ۔۔"
اچھے چند منٹ کچن کاونٹر کے ساتھ رکھے اسٹول پر بیٹھے اسکا انتظار کرنے کے بعد وہ زید کو دیکھنے کمرے میں آئی۔
وہاں کے منظر نے قوت گویائی سلب کی۔
وہ اسکے سوٹ کیس کے پاس ایک گھٹنا موڑے بیٹھا کفن سا سفید چہرہ لیے اس فائل کے صفحے پلٹ رہا تھا۔ قریب اسکا پرس گرا ہوا تھا۔
منیزے نے کرب سے سر نفی میں ہلایا۔
کیا قسمت کی جھولی میں اسکے لیے چند سکے راحت کے نہیں تھے؟ چند پل جو وہ اس عزیز از جان شخص کے ساتھ ساری دنیا بھلا کر گزار سکتی؟
اسکے ساتھ قدرت اتنی ناانصاف کیوں تھی؟
اسکی آواز پر زید نے آنکھوں میں سراسیمگی لیے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔ نفی میں بے یقینی سے سر ہلاتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ میڈیکل ریپورٹوں کا فائل نما پلندہ ہاتھ سے چھوٹا۔
♤♤♤♤♤