ماضی
منیزے کے گھر کی طرف گامزن اسکی گاڑی کا ماحول مضطرب تھا بالکل اسکے دل کی مانند۔
تقریبا ایک ماہ ہونے کو آیا تھا منیزے سے ملے ہوئے۔ وہ ہر دفعہ کوئی نہ کوئی عذر دے کر ٹال جاتی تھی۔ فون پر چند منٹوں سے زیادہ
بات نہیں کرتی تھی اس میں بھی زیادہ وہ الجھتی تھی۔
اس بدلاو کا کوئی سرا ڈھونڈنے پر بھی اسکے ہاتھ نہیں آتا تھا۔
کیا ہوا تھا؟ کیا بدلا تھا؟
اور آج تو یہ اضطراب حد سے سوا ہوا تھا۔
اسنے فون کرکے منیزے کو اسکے گھر آنے کا بتایا تو اسنے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ آفس میں ہے۔
وہ اسے بنا بتائے اسے دیکھنے کی خواہش لیے اس کے آفس پہنچا تو وہ خالی تھا۔ اسے ڈھونڈتے وہ اس کے شو کے اسٹوڈیو کنٹرول روم گیا تو وہ وہاں بھی نہیں تھی۔
وہاں معیذ اور ایک نیوز اینکر بیٹھے تھے۔ انکی اس پر نظر پڑے وہ اس سے پہلے ہی پلٹا پر ودیعہ کی آواز نے ایک لمحے کو قدم جکڑے۔
" اپنے اس ہوپ لیس کرش سے نکل آؤ۔۔ منیزے کمیٹڈ ہے بلکہ نکاح شدہ۔۔"
معیذ کی منیزے کے لیے پسندیدگی تو اسنے بھی محسوس کی تھی پر کیا وہ یوں یہ سب کو بتاتا پھر رہا تھا؟ اسنے سر جھٹک کر جانا چاہا پر معیذ کے پر اعتماد جملے نے پاؤں کے بجائے اسکے دل کو ہوا میں معلق کیا۔
" زیادہ دن نہیں رہے گی۔۔"
غصے میں رگیں تنیں وہ ان کے بارے میں کیسے بات کر رہا تھا۔
" کیا مطلب۔۔"
ودیعہ بھی زید کی طرح اسکے جملے پر حیران ہوئی تھی۔
" وہ آج کل جیسے اپنے فیانسے کو اگنور کر رہی ہے مجھے یقین ہے یہ رشتہ لمبا نہیں چلنا۔۔"
معیذ نے سرسری انداز میں اتنے دنوں میں منیزے کے رویے کا کیا گیا تجزیہ بیان کیا۔
اب کے زید غصہ ہونے کے بجائے شل ہوا وہ جس بات کو اپنا وہم سمجھ کر جھٹکنا چاہتا تھا وہ اتنی واضح تھی کہ دوسروں کو بھی محسوس ہو رہی تھی۔
" میں نہیں مانتی وہ خوش ہیں کافی۔۔"
ودیعہ نے نفی میں سر ہلاتے انکار کیا۔
" خوش تھے۔۔ اس کی کالز آرہی ہوتی ہیں اور منیزے نہیں اٹھاتی اور اسی وقت کوئی اور کال آجائے فوراً پک کر لیتی ہے۔۔ اس دن کام ختم کر کے گھر جا رہے تھے جب زید کی کال آئی، وہ شاید ملنے کا کہہ رہا تھا، اسے اسنے مصروفیت کا بہانہ دیا جب کہ ہم فری تھے اور پھر وہ میرے گھر امی سے ملنے چلی میرے ساتھ۔۔ تم نے پچھلے اتنے دنوں سے اسے یہاں دیکھا بھی ہے؟"
وہ اب تفصیلاً بتاتا اسے قائل کر رہا تھا کہ ایسا ہی ہے۔
زید کو اسکے یقین کی مضبوط ڈور اپنی گردن کے گرد کھنچتی محسوس ہوئی۔
" ہاں۔۔ پر آپس اینڈ ڈاؤنز تو چلتے رہتے ہیں۔۔ تم اتنے شیور کیسے ہو؟"
ودیعہ اب بھی نفی ہی کر رہی تھی۔ اسے زید اور منیزے ساتھ بہت اچھے لگتے تھے۔ بہت مکمل۔
" کیونکہ منیزے ایسے ڈیل نہیں کرتی ہے ان سب سے انلیس وہ ختم کرنا چاہ رہی ہو رابطہ۔۔ اس دفعہ میں انتظار نہیں کروں گا۔۔ آئی ایم گونا پروپوز ہر۔۔"
اسکے پاس ہر جواب موجود تھا اور اسکا آخری جملہ مستقبل کی اسکی مرضی کی منظر کشی کرتا محسوس ہوا۔
زید سے مزید رکا نہ گیا۔
اسے ہراساں کرنے کو تو یوں بھی منیزے کا رویہ ہی بہت تھا معیذ کی باتوں سے مزید سراسیمہ ہو کر کیا کرتا وہ۔
آفس سے نکلتے آصف ملا تھا جس کے مطابق منیزے نے دو دن چھٹی لی تھی۔
وہ ہر سیاہی اوڑھے خیال کو جھٹکتا گاڑی میں آبیٹھا۔
رخ منیزے کے گھر کی جانب تھا۔
اسے منیزے سے بات کرنی تھی ابھی، آج ہی۔
♤♤♤♤♤
" تم؟"
ملگجے سے حلیے میں بالوں میں تیل ڈالے منیزے نے دروازہ کھولا اور اسے دیکھ کر حیران ہوئی۔
اسنے منع کیا تھا تو اسے یہاں آنے سے۔
" آپ تو گھر پر نہیں تھیں۔"
زید کے جملے میں دکھ کی کوک تھی۔
یہ دروازہ بجاتے اسنے دل سے چاہا تھا کہ اسے منیزے نہ کھولے۔
اپنے کہے کے مطابق وہ گھر پر نہ ہو۔
اسکا اس سے کہا جھوٹ نہ نکلے۔
" میں نکل ہی رہی ہوں۔"
غلط بیانی کی کوئی شرمندگی کہیں سے نہ ٹپکی۔
نہ لہجے سے نہ الفاظ سے۔
ابا دوپہر کا کھانا کھا کر سو رہے تھے۔
خالہ اپنی بہن کے ہاں گئی ہوئیں تھیں۔ یہاں بات ہو سکتی تھی مطلب۔ سیدھی، صاف۔
" کیوں کر رہی ہیں آپ یہ سب۔۔"
وہ یہاں وہ سب سننے نہیں آیا تھا جو پچھلے اتنے دنوں سے سنتا رہا تھا تبھی سیدھا سوال کیا۔
" کیا کر رہی ہوں میں؟"
اسنے اپنی سرد آنکھیں زید کی آنکھوں پر ٹکائے سوال ہی کیا، جواب نہیں دیا۔
" آپ جانتی ہیں آپ کیا کر رہی ہیں۔۔ مجھے بس کیوں کا جواب دے دیں۔۔"
منیزے کے لہجے کی ٹھنڈک اس کے اعصاب جما رہی تھی۔
ایک انہونی سا وہم ہو رہا تھا کہ انکے درمیان جاڑے کا یہ موسم جانے کے لیے نہیں آیا۔
" مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے؟ کوئی بات بری لگی ہے آپ کو۔۔ آئی ایم سوری۔۔ میں شرمندہ ہوں۔۔ معافی مانگ رہا ہوں۔۔ آپ بتائیں مجھے دوبارہ ایسا کچھ کبھی نہیں ہوگا۔۔"
سوال کرتے کرتے اسنے اسکا ہاتھ تھام لیا۔
آنکھیں اور الفاظ موم ہوئے۔
وہ یہاں لڑنے نہیں آیا تھا۔
جواب دہی بھی اسکا مقصد نہیں تھا بس منیزے کا رویہ ٹھیک ہو جاتا تو وہ یہ کچھ عرصہ کوئی سوال کیے بنا بھلا دیتا۔
" کیا کہہ رہے ہو تم۔۔ مجھے دیر ہو رہی ہے تیار ہونا ہے مجھے۔۔ آفس پہنچنا ہے۔۔ تم جاو۔۔"
وہ اسکے سوالوں پر سرد مہری اپنا سکتی تھی پر وہ نگاہوں اور لہجے کی اس نرم دلدل کا کیا کرے جس میں ڈوبنے کو دل بڑی طرح آمادہ تھا۔
اسنے اسکے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ چھڑاتے اسے جانے کو کہا۔
" آپ نے دو دن آف لیا ہے۔۔ آپ کے آفس سے ہی آرہا ہوں میں۔۔"
وہ پھر بہانہ گھڑ رہی تھی۔
یہاں آکر وہ مزید الجھ گیا تھا۔
" تم کیوں گئے تھے وہاں؟"
دکھ کو غصے کے غلاف میں چھپانے کا عذر ہاتھ آیا۔
" آپ نے کہا تھا آپ گھر پر نہیں ہیں آفس میں ہیں سو آپ سے ملنے گیا تھا۔۔ تین ہفتے ہو گئے ہیں منیزے۔۔ آپ کیوں مجھے اوائیڈ کر رہی ہیں؟"
اسے اسکے غصے سے فرق نہیں پڑا۔
" میں مصروف رہی ہوں۔۔ تمھیں اوائیڈ نہیں کر رہی۔۔ دنیا تمھارے گرد نہیں گھومتی ہے"
اسے اپنی دنیا کو اسکے گرد گھومنے سے روکنا تھا پھر چاہے وہ وش میں بجھے الفاظ کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔
" دکھ رہی ہے آپ کی مصروفیت۔"
زید نے ایک نظر اسے سر تا پیر دیکھتے اسکے حلیے پر چوٹ کی۔ طنزیہ سا زخمی لہجہ۔
" تم بات کس طرح کر رہے ہو مجھ سے؟"
منیزے کی آواز بلند ہوئی۔
" آپ بی ہیو کس طرح کر رہی ہیں؟"
اسنے اسی کے انداز میں سوال کیا۔
" منیزے کیا بات ہے؟ ہم مل کر سارٹ آؤٹ کر لیں گے، آپ مجھے بتا سکتی ہیں۔۔"
اسکی کہنی تھامتے آواز پھر پست ہوئی۔
" مجھے تمھیں کچھ نہیں بتانا۔۔ اگر کچھ ہے بھی تو میں دیکھ لوں گی ۔۔ اپنے مسائل حل کرنے کے لئے تمھاری ضرورت مجھے کبھی نہیں رہی۔۔"
جھٹکا دیتے کہنی چھڑائی گئی۔
الفاظ کے کھردرے پن سے جذبات کی جلد چھل گئی۔ ننھی ننھی سرخ بوندیں سطح پر ابھریں۔
"ضرورت کہاں سے آگئی ہمارے تعلق میں؟"
وہ اس قدر سفاکی پر اندر ہی اندر کرلایا۔
" مجھے بحث نہیں کرنی ہے۔"
" معیذ ٹھیک کہہ رہا تھا۔۔"
اس ایک لمحے یہ جان گسل احساس الہام کی مثل وارد ہوا کہ وہ جو یہاں سب ٹھیک کرنے آیا تھا وہ نہیں کر سکتا۔ وہ اسے کیسے منائے جب وہ ماننا ہی نہیں چاہتی۔ وہ ناراض نہیں تھی وہ ناراض نہیں ہوتی تھی۔ پھر؟
منیزے نے اسکے زخم خوردہ مسکراتے جملے پر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ معیذ کا یہاں کیا ذکر؟
" آپ مجھے مصروفیت کا کہہ کر اسکے گھر چلی گئیں۔۔ جانتی ہیں وہ پروپوز کرنے کا سوچ رہا ہے آپ کو کیونکہ آکارڈنگ تو ہم ہمارا رشتہ اب زیادہ دن نہیں چلنا۔۔"
وہ الفاظ دہرانے میں سننے سے زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوئے تھے۔
" تم نے معیذ سے بات کی؟ ہم دونوں کی بات کسی تیسرے سے کیسے کی تم نے؟ تمھیں ابھی بھی پوچھنا ہے تمھیں کہ تم میں کیا مسئلہ ہے۔۔"
منیزے نے اسکی جھولی میں الزام ڈالا اور اس پر یقین انداز میں ڈالا جیسے وہی ایک سچ رہ گیا ہو دنیا میں۔
" ہولڈ آن، میں نے کسی سے کوئی بات نہیں کی۔ صرف معیذ کو کسی سے کہتے سنا۔۔ آپ کا رویہ مجھے لے کر اتنا پبلکلی خراب ہے کہ تیسرے لوگ خود با خود آرہے ہیں ہمارے درمیان۔۔"
وہ اسکے ایک سوال کا سیدھا جواب دینے کے بجائے گفتگو کے معنی کہاں سے کہاں لے گئی تھی۔
اور جو آگے اسنے کہا وہ زید کی سماعتوں پر اب تک کا سب سے گراں جملہ ثابت ہوا۔
" تو تم معیذ کی بات پر مجھ سے سوال کرنے آئے ہو؟ تمھیں لگ رہا ہے میں نے انکرج کیا ہے اسے؟ ہاؤ ڈیر یو۔۔ تم میرے کردار پر بات کر رہے ہو۔۔ تم کر کیسے سکتے ہو؟"
اسکی آنکھوں کی جوالا بتاتی تھی کہ وہ اسکا گریبان پکڑنے کے درپے ہے۔
" میں ایسا کچھ۔۔ آپ غلط مطلب کیوں لے رہی ہیں میری ہر بات کا۔۔"
بات کا رخ کس قدر غلط سمت لے گئی تھی منیزے۔
وہ ایسا کر سکتا تھا؟
سوچ بھی سکتا تھا؟
" غلط مطلب میں لے رہی ہوں؟ الزام تم لگا رہے ہو مجھ پر اور غلط مطلب میں لے رہی ہوں۔۔"
وہ مزید بپھری۔
یہ طے تھا کہ آج اسے اسکے کسی جملے کو مثبت انداز میں نہیں لینا تھا۔
وہ ہاتھ چھڑانے کو کسی ٹھوس وجہ کی منتظر تھی۔
زید نے انجانے میں اسے یہ وجہ دے دی تھی۔
" اسکی ماں کی عیادت کو گئی تھی میں اسکے۔۔۔۔بلکہ نہیں میں تمھیں کیوں بتاؤں۔۔ تم۔۔ جسے لگتا ہے میں ایسی ہوں کہ ایک رشتے میں ہوتے ہوئے میں دوسروں کو بڑھاوا دے رہی ہوں کہ آکر مجھے پروپوز کریں؟ تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے یہ سوال۔۔"
تیش میں کہتے اسکا جملہ ادھورا رہ گیا۔
اپنے کمرے کی دہلیز پر سہارے سے کھڑے فاروق احمد کے ہاتھ سے گر کر گلاس ٹوٹا تھا اور اس کے بعد وہ خود بھی دہلیز کے سہارے بایاں ہاتھ مسلتے بیٹھتے چلے گئے۔
گلاس ٹوٹنے کی آواز میں لپٹی کسی رودالی کے بین کی گونج پورے گھر میں کافور کی مہک سی پھیلی۔
"ابا۔۔"
وہ دونوں ہر چیز بھول کر برآمدے کی طرف بھاگے۔
♤♤♤♤♤♤
" ابا۔۔"
شیشے کی کرچیوں کو جوتوں تلے روندتے زید اور منیزے انکے ارد گرد بیٹھے۔
صبح سے طبعیت بوجھل سی تھی۔ وہ دوا لے کر سوئے تھے۔
پیاس لگنے پر نیند کھلی تو منیزے اور زید کی آواز پر وہ پوری طرح بیدار ہوئے۔
بوجھل پن اب سینے اور بائیں ہاتھ میں کھنچاؤ اور درد میں تبدیل ہو گیا تھا۔ جبڑے میں درد بھی حد سے سوا ہوا۔ وہ بمشکل گلاس تھامے دہلیز تک آئے۔ منیزے کے جملے سن کر انہیں شاک و صدمہ دونوں ہوا۔
مدھم ہوتی حرکت قلب نے کسی ردعمل کا موقع نہیں دیا۔
" ابا کی ٹیبلیٹس میں نائٹروگلیثرین ہوگی جلدی لائیں۔۔ "
انکے پاس بیٹھتے اسنے منیزے کو ہدایت کی انکا بایاں بازو دائیں ہاتھ سے دبانا یہ بتانے کو کافی تھا کہ یہ دل کا دورہ ہے۔
" تم کیا کہہ رہے تھے منیزے سے؟"
فاروق احمد نے خود کو سہارے سے دیوار سے ٹیک لگانے میں مدد دیتے زید سے سوال کیا۔
انہوں نے منیزے کے آخری جملے سنے تھے اور بےیقین تھے کہ زید ایسا کچھ کہہ سکتا ہے جس کے جواب میں انکی بیٹی وہ سب کہے۔
" نائٹرومنٹ نام کی ٹیبلیٹ۔۔ اور ایسپرین۔۔"
اسنے انکا سوال سنتے دواؤں کی تھیلی سے الجھتی منیزے کو طبی اصطلاح کے بجائے دوا کا پرچے پر لکھا نام بتایا۔
"زید۔۔"
انہوں نے اپنے کندھے کو تھامے زید کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔
اس کی طرف دیکھا۔
اسنے بے بسی سے انہیں دیکھا پھر منیزے کو، یہ وقت نہیں تھا ان سب باتوں کا۔
" ابھی نہیں ابا۔۔ آپ ٹھیک ہوجائیں پہلے پلیز۔۔"
انکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ان سے منت کرتے اس نے دوا زید کو تھمائی۔
اسنے فورا اسے انکی زبان تلے رکھا اور ہسپتال فون ملایا۔
فاروق احمد نے کچھ کہنا چاہا تو اپنے ہاتھ پر بڑھتے منیزے کے ہاتھ کے دباؤ نے کچھ مزید نہ کہنے کی خاموش التجا کی۔
وہ یوں بھی پریشان تھی وہ اس کا چہرہ دیکھ چپ ہو گئے۔
" ایمبولینس آدھے گھنٹے میں پہنچے گی اتنا ٹائم نہیں ہے۔۔ آپ گاڑی سٹارٹ کریں میں ابا کو لاتا ہوں۔۔"
انہیں سہارا دے کر اٹھاتے ہوئے اسنے منیزے سے کہا۔ وہ سر اثبات میں ہلاتے فورا اٹھی۔
♤♤♤♤♤♤
گاڑی چلاتے ہوئے اس کی سراسیمہ نظریں بار بار بیک ویو مرر میں نظر آتے پیچھے بیٹھے فاروق احمد اور منیزے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ ان دونوں کے ہی چہرے پر تکلیف کے آثار تھے۔ ایک کو جسمانی تکلیف تھی اور دوسرے کو اس تکلیف کے خیال سے جذباتی۔
" آپ کو صبح چلنا چاہیے تھا ہاسپٹل، میں نے کتنا کہا۔۔"
باپ کا کندھا تھامے انکا بازو دباتے وہ کہہ رہی تھی۔ خود پر اس قدر غصہ تھا کہ اسے ابا کی بات نہیں ماننی چاہیے تھی جب انکی طبعیت کے پیش نظر چھٹی لے لی تھی تو انہیں ہسپتال بھی لے جانا چاہیے تھا۔
کتنی فاش غلطی تھی یہ۔
زید نے دائیں طرف گزرتا ہسپتال دیکھا۔ یو ٹرن بہت آگے جاکر تھا لیکن اس علاقے میں دوسرا ہسپتال اس سے بھی بہت آگے تھا۔
گاڑی اس طرف موڑنے کا سوچتے نظر پھر شیشے پر گئی۔
فاروق احمد کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔
منیزے انکے کالر کے بٹن کھول رہی تھی انکا چہرہ نہیں دیکھ پائی۔
" منیزے ابا۔۔" ٹریفک کے سبب گاڑی روکتے اسنے اسکی توجہ انکی طرف دلائی، خود بھی گردن گھما کر پیچھے دیکھا۔
" ابا۔۔"
اسکے چہرے پر خوف کا رقص نمایاں ہوا۔
بند ہوتی انکھوں سے جنگ کرتے انہیں کھلا رکھتے اپنا ہاتھ اٹھا کر انہوں نے بیٹی کے گال پر رکھا۔
وہ بچپن میں ڈر جایا کرتی تھی تو وہ یوں ہی اپنے ہاتھ سے اسکا گال سہلا کر اپنے اسکے پاس ہونے کا یقین دلاتے تھے۔
ماں کے چلے جانے کے بعد چار سالہ منیزے باپ کے ذرا دیر بھی نظر سے اوجھل ہوجانے پر سہم جاتی تھی کہ کہیں وہ بھی اسے چھوڑ کر چلے نہ جائیں۔
آج بھی اسکی آنکھوں میں اسی ڈر کا عکس تھا۔
انہوں نے مسکرانے کی سعی کرتے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
آخری تسلی۔۔ آخری لمس۔۔ آخری مسکراہٹ۔
انکی مشقت سے آتی جاتی سانسوں کی رفتار سست ہو کر کسی ایک لمحے تھمی۔
منیزے کے گال پر رکھا ہاتھ یوں پہلو میں گرا جیسے کٹھ پتلی کی ڈور ٹوٹی ہو۔
"ابا۔۔"
بچپن کے خوف کو آنکھوں کے سامنے مجسم ہوتا دیکھ اسکی پکار کسی نامراد فریاد میں بدلی۔
زید نے پوری طرح مڑ کر انکی نبض ٹٹولی، حرکت قلب محسوس کرنے کی کوشش کی۔
سب خاموش تھا۔
موت کا سا خاموش۔
ایک نظر بے بسی سے بھاری ٹریفک کو دیکھا اور منیزے کو مخاطب کیا۔
" آپ آگے آئیں مجھے سی پی آر دینا ہے۔۔"
باپ کے سینے پر سر رکھ کر انہیں خود سے الگ نہ ہونے دینے کی شدید خواہش دباتے سرخ پڑتی آنکھوں کے ساتھ اثبات میں سر ہلاتے زید کے ساتھ جگہ بدلنے کو وہ گاڑی سے اتر گئی۔
دل دھک دھک کے بجائے سائیں سائیں کر رہا تھا۔
وہ اب زید کی جگہ بیٹھی اسے ابا پر جھکے دونوں ہاتھ انکے سینے پر ایک خاص انداز میں رکھ کر دباتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔
پانچ منٹ کی مسلسل کوشش بے سود رہی۔
دھڑکن ہوتی تو بحال ہوتی۔
نبض ہوتی تو ملتی۔
زید نے شکستہ سے ہاتھ ہٹائے ایک تھکی ہوئی پرسوز نظر منیزے پر ڈالی جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی مڑ کر اسے دیکھ رہی تھی۔ اسکے ہاتھ سٹیرنگ وہیل سے ویسے ہی بے جان ہوکر ڈھلکے جیسے کچھ لمحوں قبل فاروق احمد کا اسکے گال سے گرا تھا۔
زید کی نظر کا پیغام الفاظ کا محتاج نہیں تھا۔
یہ بہت واضح تھا۔
اسکے ابا جا چکے تھے۔
کبھی نہ واپس لوٹنے کو۔
شہر کی مصروف شاہراہ پر ٹریفک کے ہنگاموں کے درمیان پھنسی اس چھوٹی سی سفید مہران کے اندر کیا قیامت ٹوٹی تھی باہر کی دنیا اس سے انجان تھی۔
♤♤♤♤♤♤