" تمھیں کیا ضرورت ہے ایسے کاموں میں پڑنے کی، اچھا بھلا چل رہا ہے سب۔۔ کیوں ہماری جانوں کی دشمن بنی ہوئی ہو۔۔ میرا بیٹا وہاں اکیلا۔۔ اللہ۔۔ آپ اسے واپس بلا لیں۔۔ یہ دیکھیں میرے جڑے ہاتھ۔۔"
ہاجرہ نے منیزے کا مدعا سن کر فاروق احمد کے آگے باقاعدہ ہاتھ جوڑے۔
یہ معاملہ سنجیدہ تھا اس نے سیکیورٹی کے لئے بھی درخواست دی تھی جو قبول کر لی گئی تھی۔
اب وہ ہاجرہ اور فاروق احمد کو سامنے بٹھائے انہیں مسئلے کی نوعیت اور خطرے سے آگاہ کر رہی تھی۔
فاروق احمد نے خاموشی سے بات سنی تھی۔ ہاجرہ کا البتہ فشار خون بلند اور شوگر کی سطح پست ہوگئی تھی۔
" سفر سیف نہیں ہوگا۔۔ وہ آرمی کالج میں ہے وہ جگہ محفوظ ہے، اسے چند دن باہر نہ نکلنے کی تاکید کر دی ہے میں، احد بات ماننے والا بچہ ہے"
فاروق احمد کے بجائے منیزے نے جواب دیا۔
" تم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی ناں اپنی طرف سے، اور علیزے وہ اکیلی ہے اسکا شوہر دبئی میں، ساس سسر بیٹی کے پاس قطر، چھ ماہ کے بچے کے ساتھ۔۔"
اسے الزام دیتے انھیں احد کے بعد علیزے یاد آئی۔
یہ کیسی نوکری تھی جسکا خطرہ گھر کی دیواریں پھلانگ کر اندر آگیا تھا۔
" اس کے گھر کے گرد بھی سیکیورٹی کا انتظام ہے، وہ بھی اگر چند دن احتیاط کرے یہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا"
وہ انکی اونچی آواز میں کہے جملوں کا دھیرج سے سامنا کر رہی تھی۔
" اور کیسے حل ہو جایے گا یہ معاملہ؟"
اب کے انکے سوال میں استہزا تھی۔
مذاق اڑاتا تاثر کہ بی بی ہمیں بھی بتاؤ اپنا حل۔
" ایک دفعہ پبلش ہوجائے گا کام تو جواز ہی ختم ہو جائے گا ان دھمکیوں کا۔۔"
" یا اللہ! مطلب تم بعض آنے کے بجائے مزید پھرتیاں دکھانے کا سوچ رہی ہو۔۔ آپ روکیں گے نہیں اسے؟"
انھیں اس جواب کی توقع نہ ہو کر بھی تھی۔
وہ ایسا ہی کچھ کہہ سکتی تھی۔
وہ پھر خاموش بیٹھے شوہر کو گفتگو میں کھینچ لائیں۔
" وہ کام کر رہی ہے اپنا۔۔ تم چاہو تو چند دن علیزے کے پاس رہ آؤ ویسے بھی وہ اکیلی ہے۔۔"
جہاں سے انوکھے تھے یہ باپ بیٹی۔
" اور آپ؟ آپ کو چھوڑ جاوں؟"
" میں کون سا نکلتا ہوں زیادہ کہیں، دروازے پر حفاظت کو پولیس کی گاڑی موجود ہے ہمہ وقت۔۔ بس۔"
انکے لئے جیسے بڑی بات نہیں تھی۔
وہ ایسے ہی تھے ہمیشہ سے حالات کی سنگینی کو گھٹانے کو سرسری رویہ اپنانے والے۔ جو اگلے کو تسلی کے بجائے تاؤ ہی دلاتا تھا۔
وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھتیں بڑبڑاتی اٹھ گئیں۔
♤♤♤♤♤♤
" تمھیں ایلکٹویز electives کے لیے چلے جانا چاہیے تھا یو ایس جیسا انکل چاہتے تھے۔۔"
اپنے آفس میں ٹیبل کے دونوں اطراف موجود کرسیوں پر آمنے سامنے بیٹھے اس نے زید سے یہ لاحاصل بحث دوبارہ چھیڑی جس سے وہ ہمیشہ دامن بچا جاتا تھا۔
خطرے کے پیش نظر وہ پبلک پلیسس پر نہیں مل رہے تھے۔ زید کو اپنے گھر آنے سے اسنے منع کر رکھا تھا اور خود بھی وہ اسکے گھر نہیں جا رہی تھی۔
اگر اسکا نام لسٹ میں نہیں تھا تو وہ نہیں چاہتی تھی کہ اسکی پروفائلنگ ہو۔
ڈاکٹر ابراہیم اور سعدیہ سیکیورٹی کے ساتھ ہی نکلتے تھے شہر کے حالات کے پیش نظر۔
زید کی سپورٹس کار منیزے نے زبردستی گیراج میں کھڑی کروا کر ڈرائیور اور گارڈ کے ساتھ آنے جانے پر اسے منایا تھا۔
وہ کام کی جگہ پروٹوکول کے ساتھ جانے کے خلاف تھا۔
" یہاں بھی تو ہاوس جاب کر ہی رہا ہوں، اچھی جگہ کر رہا ہوں۔۔۔"
ٹیبل پر موجود پیپر ویٹ کو دائیں سے بائیں لڑھکاتے وہ کہہ رہا تھا۔
ملک کے سب سے اچھے میڈیکل کالج کا گریجوئیٹ تھا وہ جہاں اسے ہاتھوں ہاتھ انٹرن شپ کے لیے بھی لے لیا گیا تھا۔
اس نے پھر بات سمیٹنے کی کوشش کی۔
گھر میں مام یہاں منیزے وہ تنگ آگیا تھا۔
ڈیڈ نے اسکا فیصلہ خاموشی سے سنا تھا، ردعمل میں ایک لفظ نہیں کہا تھا۔
ان کی خاموشی سب سے زیادہ شور کرتی محسوس ہوتی تھی۔
" تو یہ والی تو شمار نہیں ہوگی جب لائسنس کے لئے اپلائی کرو گے وہاں۔۔ اور ٹیسٹ کی تیاری بھی مجھے نہیں لگتا تم کر رہے ہو۔۔"
وہ اسے وہی سب بتا رہی تھی جو وہ جانتا تھا۔ USMLE کے کرائیٹیریا میں یہاں کی پریکٹس شمار نہیں ہوتی تھی۔
" دیکھیں گے منیزے۔۔"
وہ جتنا اس موضوع سے بچنا چاہ رہا تھا۔۔ پیپر ویٹ ایک ہاتھ سے اچھال کر دوسرے سے کیچ کیا۔
" کیا ہو گیا ہے زید۔۔ تم کب سے اتنی نان ایمبیشئیش non-ambitious باتیں کرنے لگے ہو۔۔"
وہ باقاعدہ حیران ہوتے غصہ ہوئی۔
اسکا اتنا شاندار تعلیمی ریکارڈ اسنے کتنی محنت کی تھی اور اب وہ یہ کر رہا تھا۔
" نان ایمبئشئیش کی کیا بات ہے؟ یہاں رہ کر بھی تو میں کر سکتا ہوں پریکٹس۔۔ سرجیکل ریزیڈنسیز، فیلوشپش پاکستان بھی آفر کرتا ہے۔۔"
اسے بھی جھنجھلاہٹ ہوئی اب۔
وہ سب ایسے برتاو کر رہے تھے جیسے وہ ہر چیز ترک کر کے گھر بیٹھ گیا ہو۔
وہ اب بھی اتنی ہی محنت کر رہا تھا۔
وہ اپنے بیچ کا سب سے زیادہ کامپیٹنٹ ڈاکٹر تھا۔
اسکے اساتذہ، سینئیرز اس سے خوش تھے۔
ایک ملک بدلنے سے کیا ہو جانا تھا؟ کچھ ہو بھی جاتا تب بھی اسے نہیں بدلنا تھا۔
" یہ تمھارا پلین تو نہیں تھا۔۔"
" پلین بدل جاتے ہیں۔۔"
وہ اب کرسی گھماتا شیشے میں بند مچھلیاں دیکھ رہا تھا۔
" جب بہترین میثر ہو تو کم پر کیوں قناعت کرنا۔۔"
منیزے کے پاس ہزار دلائل تھے۔
" یار آپ سب یہاں ہیں۔۔ میں وہاں اکیلا کیا کروں گا؟ مجھ سے نہیں رہا جائے گا۔۔"
وہ چند لمحے چپ ہوئی۔
" کمفرٹ کو کیرئیر پر ترجیح دے رہے ہو؟"
جب بولی تو الفاظ کچھ بھی کہیں آواز کہہ رہی تھی مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔
" بات کیرئیر اور کمفرٹ کی نہیں ہے۔۔ کیرئیر اور فیملی کی ہے۔۔ اور میں کسی ایک کو چوز نہیں کر رہا کیونکہ جب دونوں ایک ساتھ بیلنس ہو سکتا ہے تو میں کیوں کوئی ایک چنوں۔۔"
زید کو اسکی آواز کی مایوسی نے مزید جھنجھلاہٹ کا شکار کیا۔
وہ سمجھ کیوں نہیں رہی تھی۔
" آنٹی تو تمھارے ساتھ چلنے کو بھی تیار ہیں۔۔ انکل بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔۔"
منیزے نے حل بتایا۔
" اور آپ؟"
اس نے سوال کیا۔
اسکی فیملی میں خود کو کیوں شمار نہیں کر رہی تھی وہ۔
" میں بھی آجایا کروں گی سالانہ۔۔ تم بھی ہر چھے ماہ میں آسکتے ہو"
منیزے نے پلان ترتیب دیا۔
سال میں تین دفعہ؟ وہ منیزے کو لے کر اتنا قانع نہیں ہو سکتا تھا کبھی بھی۔
" دو سال ہونے والے ہیں ، میں یہاں شادی کا سوچ رہا ہوں اور آپ لانگ ڈسٹینس کی تیاریوں میں ہیں"
اسنے بات کو ہلکا رنگ دینا چاہا۔
" تو ان دو چیزوں کا تعلق ہی کیا ہے آپس میں؟ کر لیتے ہیں شادی پھر چلے جانا تم۔۔"
منیزے سنجیدہ تھی۔
اسکے لیے ہر اعتراض قابل حل تھا۔
" آپ کے بنا نہیں جانا، آپ چلیں تو سوچا جا سکتا ہے۔۔"
اس کے ارد گرد سناٹا ہوا۔
وہ اسکے لیے نہیں جا رہا تھا؟ وہ اسکے لیے رک رہا تھا؟ وہ تھی وجہ؟ وہ اتنا بڑا میثر موقع ہاتھ بڑھا کر نہیں تھام رہا تھا کیونکہ وہ اسے اس سے دور لے جائے گا؟ یہ غلط تھا۔
"ہاں تمھیں کیرئیر پر فوکس کرنے کا کہہ کر اپنا کیرئیر تیاگ کر نکل پڑوں تمھارے ساتھ"
اسنے بات مذاق میں اڑانا چاہی، وہ نہیں اڑا پائی۔
" ابھی چند سال یو ایس مجھے کوئی خاص کیرئیر اپارچیونٹی نہیں آفر کر سکتا۔۔ میں فی الحال نہیں آسکتی پر تم کیوں اپنا قیمتی وقت۔۔"
اسنے سمجھانا چاہا۔
پہلے اسے اس کے لیے سمجھانا چاہ رہی تھی اب اپنے لیے۔
یہ جانتے ہوئے کہ اپنے ہاتھوں کیے گئے زید کے اس نقصان کی وجہ وہ ہے وہ کیسے رہ پاتی۔
" تو آپ نہ چلیں ناں میں بھی نہیں جا رہا۔۔
۔۔ چند سال بعد سوچیں گے۔۔"
وہ کوئی ڈیمانڈ تو نہیں کر رہا تھا، وہ کیوں وضاحت کر رہی تھی۔
یہ بحث تلخ کلامی کے دہانے پر آکر زید کی ہسپتال سے کال آنے پر ادھوری رہ گئی تھی۔
♤♤♤♤♤♤
" انکل، میں آجاوں؟ اگر آپ بزی نہیں ہیں تو؟"
اسنے دروازہ پر دستک دینے کے بعد اجازت ملنے پر کھڑے کھڑے ایک اور بار مسکرا کر پوچھا مبادا انہوں نے کوئی اور سمجھ کر اجازت دی ہو۔
وہ ابا کی رپورٹس کے سلسلے میں ڈاکٹر ابراہیم کے ہسپتال آئی تھی، سوچا ان سے ملتی جائے۔
" شیور۔۔ بزی نہیں ہوں میں۔۔ آجاو ۔۔"
انہوں نے اسے دیکھتے ہاتھ میں پکڑی فائل بند کی۔
اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے۔
" آپ یہاں۔۔ سب ٹھیک؟"
جو بھی تھا یہ ہسپتال تھا یہاں خیریت میں لوگ نہیں آتے۔
" جی ابا کے کارڈیولجسٹ کو رپورٹس دکھانی تھیں۔۔ ڈائلسیسس اور ٹرانسپلانٹ کی وجہ سے کارڈیو وسکولر ایشوز ہیں چند۔۔ امید دلائی ہے انھوں نے کہ مسئلہ نان سرجیکلی حل ہو سکتا ہے"
وہ انکے مقابل کرسی سنبھالتے بتا رہی تھی۔
اسکی بات سنتے ہوئے انھوں نے ہاتھ بڑھا کر فاروق احمد کی فائل مانگی۔
" اچھا پلین آف ٹریٹمنٹ ہے، ڈونٹ وری"
چند منٹ مطالعے کے بعد منیزے کو مسکرا کر تسلی دی۔
" میں دراصل معذرت کرنا چاہ رہی تھی آپ نے ڈنر پر بلایا تھا میں نہیں آسکی، کام سے ریلیٹڈ کچھ مسئلے ہیں، جیسے ہی سب ٹھیک ہوتا ہے میں گھر آوں گی۔۔"
وہ پچھلے دو ہفتوں سے احتیاط کے سبب ایک ڈنر پر ابراہیم حسین کے بلانے پر نہیں جا پائی تھی۔ اس ای میل میں انکا ذکر نہیں تھا تو امکان تھا کہ وہ منیزے کے اس خاندان سے تعلق کو لے کر انجان ہوں۔ وہ اس امکان کو اپنی بے احتیاطی سے ختم نہیں کرنا چاہتی تھی۔
" آئی انڈرسٹینڈ، کام کی مجبوریاں۔۔ اینڈ ورک کمز فرسٹ"
ڈاکٹر ابراہیم کے چہرے پر وہی ازلی سوبر سی مسکان تھی۔
جو مدھم ہونے سے قبل مایوسی میں لپٹی۔
" زید نے بہت مایوس کیا ہے مجھے۔۔ بہت خواب تھے میرے اسے لے کر"
منیزے کو انکے الفاظ اندر کہیں کھبے۔
" میں نے بات کی تھی اس سے، آپ اگر ذرا سختی سے کہیں گے تو آپ کی بات نہیں ٹال پائے گا وہ"
اسکے لئے ابراہیم انکل کی خاموشی سمجھ سے باہر تھی۔ وہ ایک دفعہ سختی سے کہتے زید انکار نہیں کر پاتا۔
" ہی از این اڈلٹ، پروفیشنل، ناٹ آ سٹودنٹ اینی مور، میں کب تک سختی کروں گا اور مجھے مایوسی اسکی اپنی چوائس پر ہوئی ہے۔۔ میری سختی کرنے پر وہ چلا بھی گیا تو میری مایوسی ختم نہیں ہوگی۔۔"
انھیں ایمبئشئیش، اپنے کام کو لے کر جنونی اور مخلص لوگ بھاتے تھے۔ منیزے انہیں بہت حد تک اسی وجہ سے پسند تھی۔
وہ بس کہہ رہے تھے۔ کچھ جتا نہیں رہے تھے کچھ بتا نہیں رہے تھے پر منیزے کو احساس جرم ہوا۔
اسے زید سے پہلی ملاقات یاد آئی ان حالات میں وہ اپنے باپ کی خود سے مایوسی کے احساس سے کس قدر جنونی ہو گیا تھا اور اب۔۔ وہ اس کے لئے نہیں جانا چاہتا تھا۔
اسکے ساتھ کے لئے اسے والدین کی مایوسی کی، انکے خود کو لے کر خوابوں کی پرواہ نہیں رہی تھی۔ اپنے پیشے میں بہتر سے بہترین کی جستجو نہیں رہی تھی۔
وہ چاہے اپنے شوق سے پہنے تب بھی اسے اسکے پیروں کی بیڑیاں نہیں بننا تھا۔
♤♤♤♤♤
رائٹنگ ٹیبل پر بیٹھی وہ آخری نظر لیپ ٹاپ میں کھلے اپنے آرٹیکل پر ڈال رہی تھی۔ اسے یہ بس اب بھیج دینا تھا۔ کام چھپ جاتا، اسے بین القوامی توجہ مل جاتی تو اسے، اسکے اپنوں کو نقصان پہنچانا اتنا آسان نہیں رہتا۔
جبھی اسکا پیچھے پلنگ پر رکھا فون بجا۔
مڑ کر نمبر دیکھا تو ڈاکٹر سعدیہ کی کال تھی۔
اسنے بے اختیار نظر اٹھا کر وقت دیکھا۔
بارہ بج رہے تھے۔
وہ اس وقت کال کیوں کر رہی تھیں؟
زید کے گولی والے حادثے کے بعد سے انکے انداز میں پہلے سی گرم جوشی نہیں رہی تھی، رہی سہی کسر زید کے امریکہ نہ جانے کی ضد نے پوری کر دی تھی۔
اس کے بہت سے قصور نکلتے تھے انکے کھاتے میں۔
" ہیلو۔۔"
" ہیلو، منیزے کیسی ہو؟"
انداز بتاتا تھا وہ تکلف نبھا رہی ہیں۔
" میں ٹھیک، سب خیریت ہے؟"
وہ پوچھے بنا نہیں رہ پائی۔
"ہاں، زید کو کہو اپنا فون آن کرے اور مجھے بتائے وہ کب تک آئے گا۔"
" زید میرے ساتھ نہیں ہے۔۔ اسکا فون بند ہے؟"
وہ کتنی پریقین تھیں کہ وہ اسی کے ساتھ ہوگا۔
فون بند ہونے کی بات پر اسکی بے اختیار نظر لیپ ٹاپ پر کھلے آرٹیکل پر پڑی۔
ایک منحوس کافور میں نہائے خیال کو اسنے بمشکل جھٹکا۔
" آخری بات کب ہوئی تھی تمھاری اس سے؟"
اب سعدیہ کی آواز میں واضح پریشانی تھی۔
" دوپہر میں کسی وقت۔۔"
وہ ڈاکٹر ابراہیم سے ہونے والی گفتگو کے بعد زید سے چند دنوں سے زیادہ بات نہیں کر پائی تھی۔ اس مسئلے کا حل سوچتے اس کا دماغ شل ہونے لگا تھا۔ وہ سوچ سمجھ کر اس سے حتمی بات کرنا چاہتی تھی۔
" کیا ہوا ہے؟"
اسے ڈاکٹر سعدیہ کی آواز پریشان کر رہی تھی۔
" فون بند ہے اسکا، اسکے دوستوں کو کال کی تو کہہ رہے ہیں اسکی شفٹ چھے بجے ہی ختم ہو گئی تھی۔ مجھے لگا اسکی نائٹ شفٹ ہے۔۔ تمھارے ساتھ بھی نہیں ہے وہ اور کہاں ہو سکتا ہے۔۔ مجھے پریشانی۔۔ مجھے ابراہیم کو کال کرنی ہے۔۔ سب ٹھیک ہوگا ناں منیزے؟"
انھوں نے پریشانی سے کہتے ہوئے فون رکھنے سے قبل سراسیمگی سے پوچھا۔
انکی آواز کے اندیشوں نے کہیں اندر تک اسے لرزایا۔
" سب ٹھیک ہوگا میں کوشش کرتی ہوں اس سے رابطہ کرنے کی"
اسنے انھیں وہی کہا جو وہ سننا چاہتی تھیں۔
کسی حد تک کھوکھلی تسلی۔
خشک لبوں پر زبان پھیرتے زید کا نمبر ملایا۔
نمبر بند تھا۔
کسی نئی انہونی کی آہٹ نے خدشات کو سر اٹھانے پر مجبور کیا۔
روابط کی فہرست میں زید کا نمبر کھلا تھا جب اوپر کسی میل کی موصولی کا نوٹیفکیشن آیا۔
جسم کے اندر دل کہیں اندیشوں کی کھائی میں ڈوبا۔
اسی آئی ڈی سے میل آئی تھی۔
پھر ایک اٹیچمنٹ۔
اس بار کوئی دس سیکنڈ کی ویڈیو تھی۔
اس کے مضبوط اعصاب چٹخے، ویڈیو کو چھوتی انگلی کانپی۔
کیا کیا خیال نہ آیا۔
کسی نیم تاریک کمرے میں موجود واحد لوہے کی چارپائی پر سر ہاتھوں میں دیے بیٹھا وہ شخص زید ہی تھا۔ وہ اسکے سر اٹھائے بنا اسے پہچان سکتی تھی۔ اسکا سفید اوور آل پاس ہی پڑا تھا۔ ویڈیو ختم ہونے سے تین سیکنڈ قبل اسنے سر اٹھا کر ایک نظر سی سی ٹی وی کیمرے کو دیکھا تھا۔
ڈاکٹر سعدیہ کے چند ماہ قبل کہے الفاظ کانوں میں گونجے، " یو آر ڈینجرس فار ہم"
"آر ڈینجرس فار ہم۔۔"
" ڈینجرس فار ہم۔۔"
♤♤♤♤