ماضی۔
"سبز چائے بناوں ابا؟"
اسنے ابا اور زید کو پلنگ پر آمنے سامنے بیٹھے شطرنج کھیلتا دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ٹرانسپلانٹ کے بعد ایمیونودپریشنٹس immunodepressents پر رہنے سے ابا کی طبعیت کچھ خراب تھی۔
ڈاکٹر نے سب ٹھیک ہے کا کہہ کر انڈر آبزرویشن رکھنے کا کہا تھا جس پر ابا نہیں مانے تھے کہ وہ ہسپتالوں میں رہ رہ کر اکتا چکے ہیں۔
زید اور منیزے انھیں گھر لے آئے تھے۔
ہاجرہ علیزے کے ہاں جلد متوقع بچے کی پیدائش کے سبب اسکی طرف گئی ہوئیں تھیں۔
احد مری تھا۔
زید وہیں رک گیا تھا یہ کہہ کر کہ میں ڈاکٹر ہوں اور ابا میرے انڈر ابزرویشن رہیں گے۔
" تم پیو گے؟"
فاروق احمد نے اثبات میں سر ہلایا تو اسنے زید سے بھی پوچھا۔
" لیٹ می۔۔"
وہ ہاں کرنے کے بجائے خود ہی کھڑا ہو گیا۔
" تم کیسے۔۔ میں بناتی ہوں"
منیزے گڑبڑائی۔
زید اور کچھ بنانا۔
" میں کیسے کیا مطلب اب اتنا بھی یوزلیس useless نہیں ہوں میں، کیوں ابا؟"
وہ باقائدہ برا مان گیا۔
"بالکل"
فاروق احمد نے اسکے خود سے پوچھنے پر اثبات میں سر ہلایا۔ اتنے مان سے پوچھ رہا تھا وہ۔
اس کے جانے کے چند منٹوں بعد کچن سے برتن گرنے کی اونچی آواز گونجی۔
کتنے بلند حوصلے کے ساتھ گیا تھا جیسے جنگ پر جا رہا ہو۔ اب واقعی کچن میں جنگ ہوتی ہی محسوس ہورہی تھی۔
وہ باپ بیٹی ہنس پڑے۔
" وقت کے ساتھ زید مجھے بہت پیارا ہوگیا ہے"
فاروق احمد نے مسکراتے ہوئے دروازے کئ جانب دیکھتے کہا۔
" مجھے بھی۔۔"
انکی بات پر روانی سے تائید کرتی وہ رکی۔
اس مرتبہ کچن تک انکا مشترکہ قہقہہ پہنچا۔
" جاو دیکھو اسے ہاجرہ کا کچن ہی نہ توڑ دے وہ اور بتی بجھا دو"
انھوں نے اپنا تکیہ ٹھیک کرتے منیزے سے کہا۔
" آپ چائے نہیں پئیں گے؟"
" وہ پیارا ہے مجھے پر زندگی بھی پیاری ہے۔۔ مجھ ناتواں نے کہاں برداشت کر پانا ہے یہ پہلا تجربہ"
وہ کہتے ہوئے لیٹ گئے تھے۔
منیزے نے ہنستے ہوئے بتی بجھائی اور نکل گئی۔
♤♤♤♤
" آپ کیوں آگئیں، میں پانچ منٹ تک لا رہا تھا چائے"
منیزے اس کے برابر آکر کھڑی چائے کا جائزہ لے رہی تھی۔
" جتنا تم شور کر ہے ہو، اگلے پانچ منٹ تک کچن بچنا ہی نہیں تھا"
پتیلی کے کناروں میں اتھٹے سبز بلبلے دیکھتے اسنے چوٹ کی۔
" حد ہے یار، ایک گرین ٹی جتنا بھروسہ بھی نہیں آپ کو، ہٹیں۔۔"
اسنے ذرا خفا سا دونوں شانوں سے تھام کر اسے ایک طرف کیا۔
اب اگر ایک پین نکالتے تین اور گر گئے تو اس میں طنز کرنے والی تو کوئی بات نہیں تھی۔
" گرین ٹی جتنا ہی بھروسہ نہیں ہے"
منیزے اب سنک کے پاس کھڑی اسے شرارت سے دیکھتی کہہ رہی تھی۔
" کیوں ہنس رہے تھے آپ لوگ"
اسنے ان قہقہوں کی بابت پوچھا۔
" تم پر۔"
اب وہ اسے تو نہیں بتانے والی تھی کہ کیوں ہنس رہے تھے۔
" ابا یہ نہیں کریں گے۔"
زید پر یقین تھا۔
" میں کر سکتی ہوں مطلب؟"
اسنے مصنوعی گھورا۔
زید نے کندھے اچکاتے تین کپ کاونٹر پر رکھے۔
"ابا سو گئے، دو کپ کافی ہیں"
منیزے نے ایک کپ واپس رکھا۔
مگوں میں چائے بھرنے سے پہلے منیزے نے کہیں سے چھانی برآمد کر کپ کے منہ پر رکھی۔
"تم فری ہو نیو ائیر پر؟"
زید نے پہلا کپ بھر کر منیزے کی جانب بڑھاتے اسکا سوال سنا۔
" پتا نہیں شفٹ کا نہیں پتا۔۔"
اسنے سوچتے ہوئے کہا۔ ڈگری مکمل ہوگئی تھی اب وہ اپنے ہی کالج کے ہاسپٹل میں ہاوس جاب کر رہا تھا۔
" اگر فری ہو تو چینل کی طرف سے انویٹیشن ہے"
منیزے نے کپ تھاما۔
" مجھے؟"
اپنے لئے چائے بھرتے سوال کیا۔
" نہیں مجھے پر ود پلس ون سو"
" آپ تو نہیں جاتی ہیں ایسے ایونٹس پر"
کپ تھامے کاونٹر سے ٹیک لگاتے وہ اسی کے انداز میں منیرے کے برابر کھڑا ہوا۔
" ہاں معیذ بہت اصرار کر رہا تھا"
وہ چائے سے اٹھتا دھواں دیکھ رہی تھی۔
" پچھلے ای پی کی تو آپ ایک نہیں سنتی تھیں، معیذ مسٹ بھی گڈ"
" ای پی تو ویسا ہی ہے پر ہم نے یونیورسٹی ٹائم ایک جگہ ساتھ انٹرن شپ کی تھی سو فرینڈلی ٹرمز ہیں۔۔"
وہ کہہ رہی تھی۔
اور پھر یہ شاید میرا آخری نیو ائیر ہو وہا۔۔"
کہتے کہتے کپ منہ سے لگایا اور اگلے لمحے سنک میں جاکر قے کی۔
" یہ کیا زہریلا قہوہ بنایا ہے تم نے"
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کاڑھے نما قہوے کی بابت پوچھ رہی تھی۔
منہ کا زاویے بری طرح بگڑے ہوئے تھے۔
" کیا؟ میں نے پروپر ریسیپی فالو۔۔"
زید نے پریشانی سے جیب سے فون نکال کر دکھایا جس پر ابھی بھی ترکیب گوگل پر کھلی تھی اور ساتھ جانچنے کو کپ ہونٹوں سے لگایا۔
ذائقے نے اپنا دفع کرنے لائق نہیں چھوڑا۔
" کیا ڈالا تھا اس میں؟"
اسنے زید سے کپ لے کر سنک میں خالی کیا۔
" پانی اور ٹی لیوز"
" کون سے ٹی لیوز؟"
پتی اور پانی سے بننے والا یہ قہوہ کیسے اتنا خراب ہو سکتا تھا۔
یہ زید کا ہی کمال تھا۔
" یہ۔۔"
اسنے سبز سوکھی پتیوں والی جیم کی شیشی کاونٹر سے اٹھا کر منیزے کو دکھائی۔
وہ صدمے سے کچھ لمحے بول ہی نہیں پائی۔
" زید۔۔ یہ سوکھی میتھی ہے۔۔"
" پر یہ بلکل سیم۔۔"
اف۔ گوگل نے ایسی کوئی احتیاط نہیں بتائی تھی۔
" نکلو کچن سے فوراً۔۔ یہ جگہ تمھارا اعتاب نہیں سہہ سکتی اور نہ میں۔۔"
منیزے نے اسے اس قدر فاش غلطی پر کچن بدر کیا۔
" تمھارا بستر لگا دیا ہے، آجاو"
کچھ دیر برآمدے میں کھڑا رہنے کے بعد منیزے نے اسے احد کے کمرے سے نکل کر اسے جانے کا اشارہ کیا۔
" پر آپ کا روم تو اوپر ہے"
اسنے جواباً اپنے جیسا الٹا پلٹا سوال کیا۔
"تو؟"
" آپ ابا کے پاس نہیں سو رہیں کیا؟"
پھر سوال۔ وہ بھی عجیب۔
" سو رہی ہوں"
منیزے نے نا سمجھتے ہوئے جواب دیا۔
" تو مجھے کیوں یہاں سلا رہی ہیں؟"
شکایتی انداز۔
" تو کہاں سلاوں؟"
حیرت میں غوطہ زن سوال۔
" کتنی کوئی نان کرٹییئس non-courtious ہیں آپ، میرے گھر آئی تھیں آپ جب بلٹ انجری کے ساتھ میں نے آپ کو اپنا کمرہ دیا تھا اور آپ مجھے گیسٹ روم میں سلا رہی ہیں، میری تو حسرت رہ جائے گی آپ کا روم دیکھنے کی"
آخر کار اسنے بات کھولی۔
" ہاں پر وہاں پنکھا ہے صرف۔۔"
نیچے دونوں کمروں میں اے سی تھا۔
ستمبر تھا اور موسم بہتر تھا پھر بھی زید کہاں عادی تھا۔
" تو؟"
" اور واش روم بھی نیچے ہے"
منیزے نے دوسرا مسئلہ بتایا۔
" اب اتنا بھی فریجائل اسپائلٹ fragile, spoilt نہیں ہوں میں"
ایک تو وہ منیزے کے خود کو اس قدر نازک مذاق سمجھنے پر تنگ آیا ہوا تھا۔
" اتنے ہی ہیں آپ"
منیزے نے ہی ہر زور دیا۔
" مجھے اتنا کوئی شوق ہے آپ کا روم دیکھنے کا، آپ کی رائیٹنگ ٹیبل، بکس اور پِلو ۔۔"
اسکا یہاں آنا بس نیچے کی منزل تک ہی محدود تھا ہاجرہ آنٹی کی جانچتی ڈراونی نظریں اسے بس ابا خے کمرے تک ہی محدود رکھتی تھیں۔
"اور بیڈ جہاں بیٹھ کر آپ وال کلاک دیکھتے ہوئے مجھے فون رکھنے کا کہتی ہیں کہ لیٹ ہو رہا ہے۔۔ اور میرا دل کرتا ہے میں اس کلاک کی ڈائلز توڑ دوں یا ایٹ لیسٹ اسکی بیٹریز ہی چھپا دوں۔۔۔"
منیزے نے ہار مان کر پانی کا جگ گلاس اٹھایا۔ اسے کمپفرٹر تھمایا اور اوپر کا رخ کیا۔
" آجاو۔۔ اور خبردار میرے گھڑیال کو کچھ بھی ہوا تو۔۔"
وہ دھمکانا نہیں بھولی تھی۔
یہ گھڑیال کالج میں کوئی تقریری مقابلہ جیتنے پر ملا تھا۔ تب سے اسکے کمرے میں موجود تھا۔ زید سے کیا بعید۔۔
♤♤♤♤♤♤
معیذ نیو ائیر نائٹ پر چینل کی طرف سے دی جانے والی پارٹی پر پارکنگ میں کسی سیاسی چیف گیسٹ کے استقبال کو کھڑا تھا جب اسنے منیزے کی گاڑی کو اندر داخل ہوتے دیکھا۔
گاڑی پارک کر کے اب وہ اور زید ایک دوسرے سے کچھ کہتے ہوئے اتر رہے تھے مگن سے۔
چند قدم آگے چل کر منیزے ہنس کر کچھ کہتے اسکے سامنے کھڑی ہوئی۔ اب وہ اپنی فراک سے میچنگ زید کے سیاہ ڈنر سوٹ پر پہنی گہری نیلی ٹائی درست کر رہی تھی۔
اسنے ذرا جھک کر اسکے کان میں کوئی سر گوشی کی جس پر وہ مسکراہٹ دباتی ایک طرف ہوئی۔
وہ دونوں اسے نہیں دیکھ پائے تھے۔
چند مزید قدم بعد زید نے اپنی کہنی آگے بڑھائی جس پر منیزے نے ایک چپت لگائی پر وہ اسکے تھامنے کو کہنی یوں ہی بڑھائے کھڑا رہا تو اس نے ذرا آنکھیں گھما کر اپنے ہاتھوں سے اسے تھام لیا۔
وہ دونوں ساتھ بہت اچھے لگتے تھے۔
ارد گرد سے بے نیاز، خود میں مگن۔
معیذ کو اعتراف کرنا پڑا۔ تکلیف دہ اعتراف۔۔
منیزے فاروق کی زندگی میں زید ابراہیم کا مقام اسکے لئے صدمہ تھا ایسا صدمہ جس پر واویلا کرنا غیر اخلاقی پن کے زمرے میں آتا تھا۔
" تم بھی ابھی آئے ہو، آئی تھاٹ ہوسٹ تم کر رہے ہو"
منیزے کی اس پر نظر پڑی تو وہ اس کے قریب آکر مخاطب کیا۔
زید نے ہاتھ بڑھایا۔
" نہیں کافی دیر ہوئی ہے آئے ہوئے۔۔ کسی کو ریسیو کرنے آیا تھا۔"
معیذ نے مسکرا کر جواب دیتے اس سے ہاتھ ملایا۔
" تم بہت اچھی لگ رہی ہو آج"
اسنے تعریف کی۔
" شکریہ"
جسے منیزے نے رسماً مسکرا کر قبول کیا۔
پر زید کو معیذ کے چہرے پر پڑتے نارسائی کے تاریک سائے نے الجھایا۔
اسکی تعریف رسماً نہیں تھی۔ لاحاصل کی حسرت میں ڈوبے لفظ۔
اسے اچھا نہیں لگا تھا۔
"اندر ملتے ہیں"
وہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے تھے۔ معیذ وہیں کھڑا رہ گیا۔
♤♤♤♤♤
اسٹوڈیو کنٹرول روم میں ان گنت سکرینز کی طرف منہ کیے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے وہ آج کے لئے سکریپٹ ٹائپ کر رہی تھی جب معیذ نے اندر داخل ہوتے اسے پکارا۔
" منیزے؟"
" ہوں؟"
" کیا کر رہی ہو؟"
اسکے پاس رکھی کرسی سنبھالتے وہ پوچھ رہا تھا۔
" کچھ نہیں، تم کہو۔۔"
اسنے کرسی کا رخ معیذ کی جانب موڑا۔
" معذرت کرنی تھی"
اسنے تھوڑی کھجاتے اپنا مدعا رکھا۔
"کیا کیا ہے تم نے؟"
وہ نہیں سمجھی۔
اسکے انداز پر وہ ہنس دیا۔
وہ سیدھی بات کرتی تھی اسے اس کی یہ ایک عادت بہت پرکشش لگتی تھی۔
کیا تو نہیں پر کروں گا۔۔ تم جو لینڈ گریبنگ پر گوٹھ شاہو میں کام کر رہی ہو وہ آن آئیر نہیں جائے گا، اوپر سے آرڈر ہے۔۔"
شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے اس نے اپنی مجبوری بتائی۔
" ایسے کسی امتحان میں تمھیں ڈالتی بھی نہیں میں۔۔ ڈونٹ وری۔۔ وہ چینل کے لئے نہیں ہے؟"
وہ ہنسی۔
معیذ نیا آیا تھا چینل کے یہ اوپر کے آرڈر تو آئے روز کا قصہ تھے۔
" پھر۔۔"
تجسس فطری تھا۔
" بہت سے میڈیمز ہیں جو لوکل اثر و رسوخ سے ماورا ہیں۔۔"
وہ واشنگٹن پوسٹ کو دینے کا سوچ رہی تھی یا کوئی بھی ایسا بین القوامی جریدہ جس کی پاکستان میں کوئی شاخ نہیں تھی۔
" ہوں۔۔ دھیان سے پلیز۔۔"
وہ اسے احتیاط کی تاکید کرتا اٹھ گیا۔
منیزے کو روکنے کا فائدہ نہیں تھا پر وہ ڈر ضرور گیا تھا۔
♤♤♤♤♤
آفس لاک کرتے نکلتے ہوئے وہ اس عجیب سی ای میل آئی ڈی سے بھیجی گئی اٹیچمنٹ کھول رہی تھی۔
دو پی ڈی ایف فائلز تھیں۔
پہلی میں اسکے گھر کے کاغذات تھے جو کہ جعلی تھے کیونکہ وہ ابا کے بجائے اس شخص کے نام تھے جس کے قبضہ گروہ کے خلاف وہ آج کل کام کر رہی تھی۔
یہ دھمکی تھی۔
اسنے لاپرواہی سے دوسری اٹیچمنٹ کھولی اور اب چلتے ہوا اسکا پیر ہوا میں معلق ہوا۔
اس میں اسکے گھر والوں کے شناختی کارڈ کی تصاویر، موجودہ لوکیشن اور بھی بہت سی معلومات موجود تھی۔ ابا، خالہ، احد، علیزے۔۔
یہ اب زیادہ تھا۔
اب کے وہ لاپرواہی سے اسکرین سوائپ نہیں کر پائی۔
آج سے پہلے اسے کبھی ایسی کوئی دھمکی نہیں ملی تھی جس میں اس کے خاندان کا ذکر ہو۔
ہاتھ میں پکڑا فون تھرتھرایا۔
کوئی انکرپٹڈ نمبر تھا۔
" ای میل مل گئی ہوگی، سمجھ بھی آگئی ہوگی۔۔"
فون اٹھاتے یہ جملہ سماعت سے ٹکرایا۔
" یا سمجھا دوں؟"
" مجھے نہیں ڈرا سکتے تم لوگ۔۔ میں اپنا کام نہیں روکوں گی۔۔"
لہجے میں کوہ کن کی کلائیوں جیسی مضبوطی تھی۔
" تمھیں ڈرنا چاہیے۔۔"
ٹھنڈا سفاک لہجہ۔
" اپنے لئے نہیں تو اپنوں کے لئے ہی۔۔"
اب کے وہ جو بھی تھا ہنسا تھا۔
منیزے نے جواب نہیں دیا۔ کیا فائدہ۔۔
" صرف دھمکی مت سمجھنا اسے"
اسے خاموش دیکھ وہ آخری مرتبہ ڈراوا دیتا فون بند کر چکا تھا۔
♤♤♤♤♤♤
حال سے چند روز قبل
" آپا چند دن رک جائیں، میں اگلے ماہ تک آجاوں گا۔۔ سال بھر سے نہیں دیکھا آپ کو۔۔"
وہ گھر کی چھت پر منڈیر پر اپنی مخصوص جگہ پر کھڑی احد سے بات کر رہی تھی۔
وہ جرمنی ہوتا تھا۔
جینیٹکس میں پوسٹ گریجوئیٹ کے دوسرے سیمسٹر میں۔
ہوا بند سی ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
" اگلے ماہ تک نہیں ہو پائے گا احد۔۔ ایک ہفتہ مزید رک سکتی ہوں میں۔۔ جہاں بھی گئی تمھیں ٹکٹس بھیج دوں گی۔۔"
اسے اگلے ہفتے تک دوہا رپورٹ کرنا تھا۔
استعفی دینا تھا یا آگے کہیں اور ڈیوٹی وہیں جا کر طے ہونا تھا۔
اتنے سالوں میں بس احد ہی تھا جس سے اسکا رابطہ رہا تھا۔
ابا کو وہ بیٹا ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید ان سے مماثل ہوتا جا رہا تھا۔
فیملی کے نام پر بس وہی تھا اس کے پاس۔
اس رابطے کی تاحال باحالی میں احد کا ہی زیادہ ہاتھ تھا۔
ابا ٹھیک کہتے تھے انکے بعد وہ ایک کامیٹینٹ روبوٹ میں بدل گئی تھی۔ مضبوط مگر تنہا۔
ہوا کی کمی اب سانس لینے میں دشواری کا سبب بن رہی تھی۔
" اور ویزا کا کیا ہوگا؟"
احد پوچھ رہا تھا۔
سینے میں اٹھٹی ٹیس نے بتایا ہوا بند نہیں ہوئی اسکا سانس رک رہا تھا۔ ایک اور انزائٹی اٹیک۔۔
اسکا مضبوط خول اب اندر سے چٹخنے لگا تھا۔
" ہم ملیں گے۔۔ احد۔۔۔ جلد۔۔"
چند لفظ بمشکل کہہ کر فون کاٹا۔۔ قریب ہی موجود واش بیسن کی طرف بھاگی۔
بیسن پر جھکے گہری سانسیں لیتے ایک ہاتھ سے نل پر ہاتھ رکھے دوسرے سے چہرہ تھپک رہی تھی۔
اسے دس سے پندرہ منٹ لگے تھے ٹھیک ہونے میں۔۔ دوبارہ سانس لینے کے قابل ہونے میں۔۔
عراق کے بعد سے یہ مسائل شروع ہوئے تھے۔
کسی نئی جگہ پوسٹنگ ہو یا کوئی نئی جاب آفر قبول کرنا اب سائیکیٹرسٹ سے کلئیر ہوئے بنا دونوں ہی ممکن نہیں تھے۔
اتنے شدید انزائٹی اٹیکس کے ساتھ وہ کبھی کلئیر نہیں کر پائے گی۔
اسے اب ہر چیز سے پہلے اپنے اس مسئلے کو حل کرنا تھا۔
کوئی شرنک ڈھونڈنا تھا۔
اسنے احد کو سگنل ڈراپ ہو جانے کا عذر ایک ٹیکسٹ میں دیتے اسکی بھیجی ای میل کھولی جس میں اسکی سمسٹر رپورٹ تھی۔
جو بہت شاندار تھی۔
اسنے پراوئڈ آف یو کا ریپلائی کرتے جی میل بند کرنا چاہا تو اس پنڈ pinned ای میل پر نظر پڑی۔
وہ پچھلے پانچ سال سے وہیں تھی۔
زید کی طرف سے بھیجا گیا ای میل تھریڈ جس میں تین ای میلز تھیں پچھلے پانچ سالوں میں اسکے مختلف رہائشی پتے۔
بے اختیار انگلی نے اس نام کو چھوا۔
تھریڈ کھل گیا۔
ہر ای میل میں ایڈریس کے نیچے گھر کے بیرونی دروازے کے باہر موجود اضافی چابی کی پوشیدہ جگہ بھی بتائی گئی تھی۔ پہلے اپارٹمنٹ میں وہ پائیدان کے نیچے دائیں طرف چھپی تھی۔
دوسری بار مصنوعی گملے میی پھولوں کے درمیان کہیں اور موجودہ پتے پر گملوں کے آس پاس موجود آرائیشی پتھروں میں سے کسی سب سے بڑے والے کے نیچے کہ کبھی اسکا ارادہ بدلے، وہ لوٹ آئے۔
پتہ بھیجنا اسکا فرض تھا اور چابی کی خفیہ جگہ بتانا زید کی امید۔
جو وہ نہیں جانتی تھی کہ تین دن بعد وہ اتنی بری طرح توڑے گی۔
منیزے نے خوابوں میں خود کو ان دروازوں کے باہر ان خفیہ جگہوں سے چابی اٹھاتے اس نعمت کدے کا دروازہ لرزتے ہاتھوں سے کھول کر اندر داخل ہوتے ان گنت بار دیکھا تھا۔
وہ خواب تھا، خواب ہی ہو سکتا تھا۔
اسکی حقیقت پر مبنی دنیا کی واحد فینٹیسی۔۔
کسی بھولی بسری نظم کے مصرعے فضا میں خاموشی سے شامل ہوئے۔
ہوا کسی دکھی راگ پر بال بکھرائے جھومی۔
میں تمہارے علاوہ کسی سے بے وفائی نہیں کر سکتی تھی
کہ میں نے تمہارے علاوہ
کسی سے محبت نہیں کی
میرے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں تھا
سوائے اس راز کے
کہ کئی بار محبت کم پڑ جاتی ہے
سو میں نے کہانیاں تراشیں
جن میں تم نہیں تھے
تاکہ تم انہیں سن سکو
میں نے تمہارے ذہن میں سوال بوئے
اور انہیں رت جگوں کا پانی دیا
میں نے تمہارے خواب کارنس پر رکھ دیے
تاکہ وہ گر کر ٹوٹ جائیں
میں نے تمہاری خواہشیں گرد آلود کتابوں میں دبا دیں
اور ان کے بد رنگ ہو جانے کی ذمہ داری وقت پر عائد کی
میں نے تم سے سچ بولے جو جھوٹے تھے
اور جھوٹ چھپا لیے جو سچے نکل سکتے تھے
میں نے تمہیں خود پر عائد کرنے کے لیے الزام فراہم کیے
اور انہیں درست ثابت کرنے کے لیے خاموشی اوڑھے رکھی
میرا جرم تمہیں میسر نہ ہونے کے علاوہ کچھ نہیں تھا
اور اس کی تلافی میرے خود کو دستیاب ہوئے بغیر ممکن نہیں۔۔۔
♤♤♤♤♤♤