کاریڈور کے موڑ پر ایک ڈاکٹر اسکے سامنے سے گزرا، پھر ایک نرس۔
اور اب پوری طرح مڑنے پر اس کی نظر منیزے پر پڑی وہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھے صدمے میں کھڑی تھی۔
اس کے دیکھتے دیکھتے ہی وہ گرنے کے سے انداز میں بینچ پر بیٹھتے چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔
وہ رو رہی تھی؟
دل کسی انہونی کے خوف سے کانپا۔
ہاتھ میں پکڑے کھانے پینے کی اشیاء کے شاپر چھوٹے۔
وہ اسکی طرف بھاگا۔
" منیزے۔۔ کیا ہوا ہے؟"
وہ اسکے سامنے دوزانوں بیٹھا.
اسکا گھٹنا تھاما۔
"یہاں دیکھیں"
اسنے کوئی جواب نہ دیا تو بڑھ کر دونوں ہاتھ اسکے چہرے سے ہٹائے۔
اسکی سیاہ آنکھیں سرخ ہو کر چھلک رہی تھیں۔
اسنے کبھی ان سیاہ بدلیوں کو برستا تصور ہی نہیں کیا تھا۔
انھیں یوں نہیں برسنا چاہیے تھا۔
اسے تکلیف ہوئی۔
" منیزے ابا ٹھیک ہیں؟"
اب وہ اسکے ہاتھ دونوں ہاتھوں میں لئے پوچھ رہا تھا۔
آواز میں خوف کی لرزش تھی۔
" ٹرا۔۔ ٹراسپلانٹ ہو گیا"
اسنے بمشکل جملہ ادا کیا۔
" کامیاب ہو گیا زید۔۔"
اسکی آواز میں کسی ایسے شخص کی چال سی لڑکھڑاہٹ تھی جو زمانوں سے کندھوں پر بوجھ لادے چل رہا ہو اور ایک دن اچانک وہ بوجھ غائب ہوجائے اور وہ وزن کی کمی کے سبب توازن قائم نہ رکھ پائے۔۔ لڑکھڑا جائے۔
" یار تو آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔"
اسے لگا اسکی رکی ہوئی سانسیں منیزے کے الفاظ نے بحال کی ہوں۔
" پتا نہیں۔۔"
اٹھارہ سال کی عمر سے اس کی زندگی باپ کی اس ایک بیماری کے گرد گھومتی رہی تھی۔ ابا کی صحت اسکے ہر فیصلے کا محور تھی۔ کتنا لمبا سفر گزرا تھا۔ پیروں میں دوران سفر کتنے کانٹے چھبے تھے۔ کتنے آبلے پڑے تھے اور وقت کی کمی کے سبب وہ انھیں بنا نکالے بے مرہم ہی چلتی رہی تھی کہ رک کر انہیں ایک نظر دیکھنا بھی عیاشی تھی۔ آج سفر کے اختتام پر وہ خوش ہونے کے بجائے ان سب زخموں پر رو دی تھی جن پر تب نہیں رو پائی تھی۔ جو اب بھی بھر جانے کے بعد بھی رستے تھے۔
" مجھے لگا۔۔ اف۔۔ جان نکال کر رکھ دی میری آپ نے، ایسے کون کرتا ہے؟"
وہ اسی انداز میں بیٹھا اسے آنسو بہاتے دیکھتا پوچھ رہا تھا۔
جو لوگ نہیں روتے ان کے آنسو پوچھنا ان سے بھلائی کے زمرے میں نہیں آتا۔
انھیں بہہ جانے دینا چاہیے۔
اسنے بھی بہہ جانے دیا۔
♤♤♤♤♤
"آپ کی جگہ انھیں آپ جیسا نہیں پر اٹلیسٹ تھوڑا بہت کامپیٹنٹ بندہ تو رکھنا چاہیے، کس قدر ڈل لگ رہا ہے شو، اس بندی کو سوال ہی نہیں کرنے آرہے"
وہ ہاسپٹل کینٹین میں منیزے کے مقابل بیٹھا کانٹے سے سلاد کے پتے منہ میں رکھتا وہاں موجود بڑے سے ٹی وی پر منیزے کے شو کا ریپیٹ ٹیلی کاسٹ دیکھتے بدمزہ سا بولا۔
فاروق احمد کی سرجری کو تین ہو گئے تھے۔
منیزے نے سرجری کے لئے دس دن آف لیا ہوا تھا اور اچانک ڈیسیزڈ ڈونر کڈنی کا انتظام ہوجانے کے سبب وہ شو ریکارڈ نہیں کروا پائی تھی اور اب اسکی جگہ ایک نئی لڑکی کچھ دنوں کے لئے شو کر رہی تھی۔
" محنتی لڑکی ہے زینش، سیکھ جائے گی جلد"
اسنے زیادہ دھیان نہیں دیا۔
" کیوں سیکھے گی؟ آپ کا شو ہے آپ نے ہی کرنا ہے"
زید اسکے شو کو لے کر ذرا پوزیسو ہوا۔
" اب میں ہمیشہ تو نہیں کرتی رہوں گی ناں۔۔"
منیزے نے اسکے باکس میں سے کھیرا اٹھاتے کہا۔
" کچھ نیا پلین کر رہی ہیں؟"
زید نے اسکے اپنے کام سے لاپرواہ انداز کا ترجمہ کیا۔
" نہیں، ابھی تو نہیں پر کرنا ہے۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے کیرئیر کی شروعات میں ہی ریٹائیر کر کے کرسی ہر بٹھا دیا ہو، میں فیلڈ پر جانا، وہاں کا ماحول، ہر نئے دن کا نیا تجربہ بہت مس کرتی ہوں۔۔ یہ حال آگئے ہیں مجھے اپنے شو کے رپورٹرز کی ٹیم سے جیلسی ہوتی ہے۔۔"
وہ جو کرائم رپورٹنگ میں مجبوراً گئی تھی اب دو سال سے اسٹوڈیو میں روز میک آپ ہئیر کروا کر مختلف لوگوں سے سوال کرتے تھکنے لگی تھی۔
صحافت اسکا جنون تھا پر اسکی چار دیواری میں مقید رہ کر کی جانے والی قسم اسکے لئے نہیں بنی تھی۔
جو نشہ اس جگہ موجود ہو کر اسکا حال لوگوں تک پہنچانے کا تھا اس کے سامنے اسٹوڈیو کے اے سی کی ہوا ہیچ تھی۔
" آپ سیٹسفائیڈ نہیں ہیں تو پھر دیکھیں کچھ اور۔"
" ہاں گارجین سے بات ہو رہی ہے کچھ آئیڈیاز کی پچ بھیجی تھی انھیں ، اب وہ کچھ دنوں تک کوئی ایک پچ اور اینگل اوکے کر کے بھیجیں گے تو میں کام شروع کرتی ہوں، ساتھ میں اس شو کا بھی دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے"
" آپ تو بہت بیزار بیٹھی ہیں۔۔"
جملے کے آخر تک شو کے ذکر پر اسکی بیزاری واضع تھی۔
" میں نے بنا سوچے سمجھے قبول کی تھی اس شو کی آفر تب پیسہ چاہیے تھا، اب ابا ٹھیک ہیں، علیزے کی شادی ہو گئی ہے۔ احد کی پڑھائی کے علاوہ ایسی کوئی خاص ذمہ داری نہیں ہے۔۔ سو اب کوئی مجبوری نہیں"
فیلڈ جرنلزم جتنی کٹھن اور پر خطر تھی ٹی وی کے مقابلے وہاں پیسہ کم تھا اور گلیمر تو ذرا بھی نہیں۔
منیزے کو ان دونوں چیزوں سے خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔
" سو منیزے فاروق بیک ان ایکشن"
زید نے کانٹے کو جہاز کی طرح اڑایا۔
" ہوپ فلی"
♤♤♤♤♤
" منیزے۔۔ میں سوچ رہا تھا یہ جوینائل پریزن juvenile prison پر شو کل ہی۔۔"
معیذ اسکے آفس کا دروازہ کھلا دیکھ فائل میں سر دیے بنا اجازت داخل ہوا۔
وہاں منیزے کے بجائے کسی اجنبی کو دیکھ چپ ہوا۔
"سوری آپ؟"
زید جو رخ موڑے ایکویریم میں مچھلیوں کی نقل وحرکت دیکھتا منیزے کا انتظار کر رہا تھا آواز پر پلٹا۔
" زید۔۔ زید ابراہیم۔۔"
اسنے مسکرا کر مصاحفے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔
وہ معیذ کو بطور منیزے کے شو کا نیا ای پی جانتا تھا۔
" یہاں؟"
معیذ نے اس سے ہاتھ ملاتے پھر سوال کیا۔
کتنی بے تکلفی سے کھڑا تھا یہ شخص منیزے کے آفس میں۔
منیزے اور بے تکلفی؟ دونوں الفاظ ہی ضد تھے ایک دوسرے کی۔
" منیزے کو پک کرنا تھا سو۔۔بٹ شی از بزی تو انتظار کر رہا ہوں۔۔"
اسنے اب بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
" سر یہ میم کے فیانسے ہیں"
اسکے پیچھے آتے آصف نے زید کا تعارف کرایا۔
جتنا وہ یہاں آتا جاتا تھا یہاں پہلے سے کام کرنے والا ہر فرد ہی اسے جانتا تھا۔
" اوہ۔۔ آئی ایم سوری مجھے نہیں پتا تھا۔"
معیذ نے حیرت چھپاتے ایک دفعہ پھر نئے تعارف پر ہاتھ ملایا۔
" اٹس فائن"
اب اس دس دن پہلے آنے والے بندے نے ظاہر ہے بےخبر ہونا تھا۔
" میم کہہ رہی ہیں وہ پانچ منٹ تک آجائیں گی"
آصف زید کو پیغام دیتا واپس مڑ گیا۔
معیذ بھی چند رسمی جملے کہتا پلٹ گیا۔
وہ منیزے کو اپنی خالہ کے ہاں ہونے والی سالانہ دعوت پر جانے کے لئے پک کرنے آیا تھا۔
جب بھی انکے سب بہن بھائی پاکستان میں جمع ہوتے تھے وہ ایسی کسی دعوت کا اہتمام کرتی تھیں۔
پچھلے چند ماہ سے منیزے بھی اب خاندان کا حصہ تھی اور وہ بھی اس طرح کے گیٹ ٹو گیدرز میں موجود ہوتی تھی۔
ہاں، سعدیہ کے سرکل میں اسنے اس پہلی پارٹی کے بعد جانے سے توبہ ضرور کر لی تھی۔
♤♤♤
"میرا بلکل موڈ نہیں ہو رہا آنٹی زینی کی دعوت پر جانے کا"
زید نے ڈرائیو کرتے ہوئے ذرا منہ بنا کر اعلان کیا۔
"کیوں؟ تمھارے موڈ کو کیا ہوا اچانک؟"
ساتھ بیٹھی منیزے نے فون سے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"آپ۔ "
اسنے اس مصروف شاہراہ پر ڈرائیو کرتے بمشکل ایک نگاہ اس پر ڈالی۔
"ہیں؟"
" اتنی کوئی اچھی لگ رہی ہیں آپ، وہاں جا کر آپ نے مجھے ذرا بھی لفٹ نہیں کروانی"
دعوت کے لئے اسنے گہرا سرمئی فراک اور ٹراوز پہن رکھا تھا جس پر سیاہ دھاگے سے شیشے کڑھے تھے۔ گلے میں موجود ڈوپٹے پر کڑھے انگنت شیشیوں کا عکس اسکے چہرے پر کہکشاں بکھیر رہا تھا۔
پھر سامنے سے باریک چٹیوں میں گندھے آدھے کھلے بال اور آنکھوں کا کاجل۔
اسنے اپنے شو کی میک آپ آرٹسٹ سے کہہ کر آج تیاری میں ذرا اہتمام کر لیا تھا۔
اور زید ٹریفک کے چکر میں ٹھیک سے گردن موڑ کر اسے دیکھ بھی نہیں پا رہا تھا۔
وہ اسکے جملے ہر زیر لب مسکرائی پر کوئی جواب نہیں دیا۔
" ڈنر پر چلیں کہیں؟"
زید کو اچانک خیال آیا۔
اب وہ گاڑی چلاتے آس پاس نظر ڈالتے کوئی اچھا ریسٹورانٹ دیکھ رہا تھا۔
" اور جب سعدیہ آنٹی پوچھیں گی کہ بیٹا جی تمھیں ڈنر کے لئے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے وہی دن ملا تھا جب میری بہن نے دعوت پر بلایا تھا پھر؟"
منیزے نے صاف منع کیا۔
زینی آنٹی نے زید کو کہنے کے بجائے اسے بذات خود کال کی تھی اور اسنے ان کے اصرار پر ہامی بھری تھی۔
" پھر میں کہہ دوں گا کہ آپ اتنے اہتمام سے کہاں روز روز تیار ہوتی ہیں"
ہر سوال کا جواب تھا اسکے پاس۔
" تو تم کہہ رہے ہو کہ جب تک میں اتنی اوور تیار نہ ہوں تمھیں عام حلیے میں مجھے ڈنر پر لے جانے کا دل ہی نہیں کرتا ہے؟"
منیزے نے اسکے لفظ پکڑے۔
" اب یہ بھی نہیں کہہ رہا میں"
وہ گڑبڑایا۔
"مطلب تو یہی تھا ناں"
ذرا خفگی دکھائی گئی۔
" نہیں یار۔۔میں ایسا کیسے۔۔"
وہ روہانسا ہوگیا۔
" تم اب مکر نہیں سکتے، بس زید بس۔"
زیر لب مسکراتے، کھڑکی کی طرف رخ موڑتے کچھ اور ایکٹنگ کی۔
" منیزے۔۔"
وہ ہنس دی۔
مزید ڈرامہ کرتی اگر زید کا بوکھلاہٹ میں گاڑی مار دینے کا خطرہ نہ ہوتا۔
" یہ اپنے سوالوں کے ہتھیار آپ پلیز اپنے چینل چھوڑ کر آیا کریں۔۔ مجھ غریب پر گولہ باری سے پرہیز کیا کیجیے۔"
زید اب ذرا ناراض ناراض سا کہہ رہا تھا۔
مطلب وہ مذاق کر رہی تھیں؟
یعنی کہ انکا مذاق ٹھہرا اور ادھر۔۔
" شرافت سے چلو اپنی خالہ کے گھر۔۔ تم ٹھہرے لاڈلے۔۔ پیشی میری لگ جائے گی تمھاری مام کے آگے۔"
منیزے نے اسے اب بھی یہاں وہاں نظریں گھماتے ریسٹورانٹ ڈھونڈتے دیکھا تو ٹوکا۔
" فائن۔۔"
اسنے کچھ انکھیں گھماتے ہار مانتے نظریں روڈ پر جمائیں۔
♤♤♤♤♤♤
" آپ ٹھیک ہیں؟ چلیں ہمیں نکلنا ہے یہاں سے۔۔"
وہ منیزے کو اپنی طرف آتا دیکھ گاڑی سے اترتا اسکی طرف بھاگا۔
ایک ہاتھ میں کیمرہ پکڑے فون پرس میں ڈالتی وہ اسکی طرف آرہی تھی۔
وہ ٹھیک لگ رہی تھی اسنے پھر بھی اسکے سامنے رکتے پوچھا۔
" ہاں، میں ٹھیک۔۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"
وہ جواب دیتے دیتے سوال کر گئی۔
وہ گینگ وارز پر اپنے ایک آرٹیکل کے لئے لیاری آئی ہوئی تھی۔
" آپ کے چینل گیا تھا، دے سیڈ آپ یہاں ہیں اور یہ کہ یہاں پولیس اور گینگز میں کوئی مسئلہ۔۔ آپ گاڑی میں بیٹھیں ہم بات کرتے ہیں۔۔"
وہ چینل پر اس خبر کو لے کر پھیلی افراتفری دیکھ منیزے کو لینے بھاگا تھا۔
وہ اس متوقع تصادم سے پہلے یہاں آئی تھی تب حالات بگڑنے کی ایسے کوئی اثار نہیں تھے۔
زید اسکا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کی طرف بڑھا پر منیزے نے دوسرا قدم نہیں اٹھایا۔
" ہاں، مجھے پتا چلا اور تم جاو یہاں سے یہاں حالات کبھی بھی خراب ہو جائیں گے"
اسے فون آیا تھا آصف کا زید کی کال سے پہلے۔
" جانتا ہوں تبھی لینے آیا ہوں آپ کو"
دور کہیں کسی احتجاجی جلوس کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔
روڈ پر پولیس کی بھری ہوئی تین چار گاڑیاں آکر رکیں۔
" مجھے یہ کوور کرنا ہے، میرا کام ہے زید۔۔ تم۔۔ تم جاو"
وہ اب اتر رہے تھے، ڈنڈے تھامے، گیس ماسک پہنے۔
منیزے نے اپنا ہاتھ چھڑا کر اسے گاڑی کی جانب دھکیلنا چاہا۔
وہ اب یہاں سے ان حالات میں جانے والی تو نہیں تھی زید کے یہاں کال کر کے روڈ پر بلانے سے پہلے وہ اپنے لئے کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ رہی تھی جو نسبتاً محفوظ بھی ہو اور وہاں سے کوریج بھی ہو سکے۔
" کیسے کوور کریں گی آپ؟ آپکی ٹیم نہیں ہے یہاں۔۔ اکیلی کیا۔۔ آپ بعد میں آجایے گا۔۔ ابھی پلیز۔۔چلیں"
زید نے اسکے ارادے سن کر بحث کرنی چاہی پر جلوس کے اس روڈ پر مڑنے اور پولیس کے اُس پر لاٹھی چارج کے ارادے سے بڑھنے پر ارادہ ترک کیا۔
وہ اسکی اسے یہاں چھوڑ کر اکیلے چلے جانے والی بات سن ہی نہیں پا رہا تھا۔
" ٹیم تو چینل کی ہے اور یہ میں ایک آرٹیکل کے لئے۔۔۔زید تم نکلو یہاں سے بحث کا وقت نہیں ہے"
وہیں کہیں فائر گونجا۔
منیزے نے ادھر ادھر دیکھا۔
پولیس اہلکار اصلحہ استعمال نہیں کر رہے تھے پھر فائر؟
پیشن گوئی گینگز اور پولیس کے تصادم کی تھی۔ اللہ
" آپ کو یہاں چھوڑ کر نہیں جاوں گا۔۔۔میں کیسےجاوں؟"
وہ منع کرتا بے بس ہوا۔
ایک اور فائر گونجا۔
" یہ کیسی ضد۔۔ زید!"
اسنے متوحش سا چیخ کر اسے وہاں سے ہٹانے کی کوشش کی۔
بات کرتے اسے زید کے پیچھے موجود عمارت کی چھت پر کوئی اصلحہ بردار ہیولا نظر آیا۔
دھوپ کے سبب شکل واضع نہیں تھی پر وہ بندوق انھیں کی سمت تانے کھڑا تھا شاید انکے پیچھے موجود اہلکاروں پر۔
وہ سنائیپر گن نہیں تھی نشانہ چوک سکتا تھا۔
کسی کو بھی لگ سکتا تھا۔
"منیزے.."
ایک پولیس اہلکار منیزے کا کیمرہ دیکھ ڈنڈا اٹھائے انکی طرف بڑھ رہا تھا۔
منیزے کی پیٹھ تھی وہ دیکھ نہیں پائی۔
زید نے دونوں بازووں سے منیزے کو ڈھانپ کر جھکایا۔
وہ قد میں اونچا تھا، چوڑا بھی وہ مکمل چھپ گئی تھی۔
حولدار نے ڈنڈا اونچا کیا۔
گولی کی آواز پھر بلند ہوئی۔ اب اس آواز پر پھیلنے والے خون کی بو مانوس سی تھی۔
خود پر سایہ فگن زید کے وجود کو یکے بعد دیگرے دو جھٹکے لگنے پر منیزے کی دھڑکن کا تسلسل ٹوٹا۔
دوسری بار تو وہ کراہ بھی نہیں پایا۔
♤♤♤♤