ماضی
وہ ڈزائینر کے پاس اچھا خاصا وقت برباد کر کے تیار ہو کر یہاں پہنچا تھا۔
صبح سے ہی عجیب ہڑبونگ تھی۔
پہلے تقریب کا اس جگہ ہونا اس کے حواس معطل کر گیا تھا مطلب مام کو ساری دنیا میں یہ ایک جگہ ملی تھی؟ جہاں کا رخ اسنے اپنی اس حرکت کے بعد اتنے سال شرمندگی کے سبب کیا ہی نہیں تھا۔
پھر کپڑے فٹ نہیں آئے۔
یہ مسئلہ حل بمشکل ہوا کہ سمیر اسے کھینچ کر ہیئر ڈریسر کے پاس لے گیا۔
نکاح سے آدھا گھنٹا پہلے وہ پہنچ پائے تھے اور اب وہ سفید شلوار کمیز میں ملبوس نفاست سے سجے لان میں موجود مختصر مہمانوں سے کچھ خوش سا کچھ نروس سا ایک ایک کر کے مل رہا تھا۔
فاروق احمد کی ایک ہی بہن تھیں جنکا انتقال ہوئے عرصہ ہو گیا تھا ان کے بچے لاہور ہوتے تھے۔ منیزے کی طرف سے ہاجرہ کے میکے سے دو تین لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ اسکے علاوہ زید کے چند دوست، اسکی پھوپھو، خالہ اور ماموں کی فیملی موجود تھی۔
کچھ دیر میں رسم شروع ہوئی۔
ازل سے دہرائے جانے والے جملے ادا ہوئے۔ اقرار مانگا گیا، اظہار سونپا گیا۔ مبارک سلامت کا شور اور اندر کی جامد خاموشی۔
کچھ دیر بعد وہیں مرکزی صوفہ پر بیٹھے اسنے گھر کے اندرونی دروازے سے علیزے اور عینا کے ساتھ منیزے کو آتے دیکھا۔
وہ روایتی دلہنوں جیسی تیار نہیں ہوئی تھی۔
سفید لمبی کمیز اور چوڑی دار پاجامہ۔
کمیز کے دامن سے بہت اوپر تک اور تمام آستین پر چاندی رنگ کا کام تھا جن میں کہیں کہیں گلابی پھول تنکے تھے۔ بھاری کام سے پوجھل بارڈر والا ڈوپٹہ سر کے بجائے کندھے پر ساڑھی کے پلو کی طرح سیٹ کیا گیا تھا۔ گھنگھریالے بال دائیں طرف کان کے پیچھے کچھ سیاہ پن لگا کر کھلے چھوڑ رکھے تھے۔ زیور کے نام پر گلے میں صرف چاندی رنگ کا گلو بند موجود تھا اور بس۔
دوپٹے کے موتی دامن کی زری سے الجھے تو وہ چلتے چلتے ایک لمحہ رکی۔
علیزے نے دھاگا سلجھانا چاہا تو منیزے نے اسے نرمی سے منع کرتے خود ذرا جھک کر ڈوپٹے کو جھٹکا۔
وہ ذرا قریب آئی تو وہ جو اسکے استقبال کو اپنی نشست سے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا، ساتھ کھڑے سمیر کے کہنی مارنے پر ہوش میں آیا۔ وہ ساتھ کھڑا اسے کوئی اشارہ کر رہا تھا، وہ نہیں سمجھا۔
اب کہ سمیر نے اسے آنکھیں دکھائیں۔ اس بونگے انسان کو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ دلہن کو سٹیج پر آنے میں اسنے مدد دینی تھی؟
وہ اس دفعہ اسکی بات سمجھتے ہوئے آگے بڑھا۔
مزید دو قدم بعد علیزے اور عینا رک گئی تھیں۔
اور اب سامنے زید ہاتھ بڑھائے کھڑا تھا۔اسنے ناسمجھی سے اسکے بڑھے ہاتھ کو دیکھا۔ وہ اسے سہارا کیوں دے رہا تھا؟ وہ چل سکتی تھی خود۔۔
زید نے اسکی نظروں کا مفہوم سمجھتے سمیر کو کوسا۔ اب وہ یہاں کھڑے اسکا ہاتھ جھٹک دیتی تو؟ جیسے ابھی پہلے علیزے کو ٹوکا تھا۔
منیزے نے اسے منع کرنے سے پہلے ایک نظر آس پاس دیکھا، سب انھیں ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ اسے سہارا نہیں دے رہا تھا غلاباً یہ کوئی پروٹوکول تھا۔ اسنے اسکے بڑھے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا۔
زید نے شکر کیا ورنہ منیزے سے کیا بعید۔
"آئی ایم رئیلی سوری، مجھے صبح پتا چلا کہ وینیو یہ ہے ورنہ آئی ولڈ ہیو چینجڈ اٹ، میں دوبارہ یہاں آپ کے ساتھ آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا وہ بھی آج کے دن اف آئی ایم اشیمڈ"
اسکے ساتھ برابر میں بیٹھتے زید نے چھوٹتے ہی کہا تھا۔
وہ صبح سے اس سے اس وینیو کے لیے معذرت کرنا چاہ رہا تھا پر وہ فون نہیں اٹھا رہی تھی شاید مصروفیت کے سبب۔
" یہ آئرنی Irony انجوائے کی میں نے۔۔"
تو وہ یہ کہنے نکاح سے پہلے اس کے کمرے میں اس سے بات کرنے آیا تھا تب علیزے اور عینا نے اسے یہ کہہ کر دروازے سے بھگا دیا تھا کہ ایسی کون سی بات تھی جو ان دونوں نے پچھلے تین سال میں نہیں کی یا نکاح کے بعد نہیں کر سکتے۔۔
اتنی بھی بڑی بات نہیں تھی یہ۔
بڑے بڑے مسائل دیکھ لینے کے بعد اب وہ نان اشوز کو مسئلہ بنانے والوں میں سے تو نہیں رہی تھی کم از کم۔
" ہاں پر سٹل۔۔"
وہ مزید کہتا اگر سعدیہ اسکے پاس آکر منیزے کا ہاتھ تھام کر انکے پاس بیٹھتیں اسے مخاطب نہ کرتیں۔
" تو زید ٹھیک شاپنگ کی تمھاری منیزے کی میں نے؟"
منیزے انکے تمھاری لفظ کا بھاری پن ضرور محسوس کرتی اگر وہ زید کا جواب سنے بنا اس کی طرف متوجہ نہ ہوتیں۔
" پتا ہے تمھیں سارا ویک اسنے کتابوں میں سر دیے میرا دماغ کھائے رکھا ہے۔۔ مام منیزے ہائی ہیلز نہیں پہنتیں، مام شی ڈزنٹ پریفر لاوڈ کلرز، مام انھیں ہیوی جیولری نہیں پسند۔۔ مام یہ مام وہ۔۔، آئی ہوپ آئی گاٹ اٹ آل رائٹ"
انکا لہجہ اور خوشی اپنے بیٹے کی محبت سے لبریز تھی۔
انداز کچھ کچھ اس سے زید کی شکایت کرتا فکر مند سا تھا آیا اسے سب پسند بھی آیا کہ نہیں۔
انہوں نے بہت دل سے اسکے لیے آج کی شاپنگ کی تھی۔
" سب بہت اچھا ہے، بہت خوبصورت۔۔"
منیزے نے انکے ہاتھ میں موجود اپنے ہاتھ کو ذرا دباتے انھیں مسکرا کر کہا۔
وہ ایک دم ہی خوش اور مطمعین ہوئیں۔
ایک سال کیمرے کے سامنے رہ کر ہر طرح کی دماغی کیفیت کے باوجود مسکرانے کی اسکی بہت پریکٹس تھی۔
♤♤♤♤♤♤♤
انگوٹھی تبدیل کرنے کی رسم کے بعد کھانا لگ گیا تھا۔
سب ٹیبلز کی طرف بڑھے تو اسٹیج پر وہ دونوں ہی رہ گئے۔ ان کے لئے بھی سامنے رکھی ٹیبل پر کھانا چن دیا گیا تھا۔
منیزے نے اپنی پلیٹ میں کچھ چاول، سلاد اور کباب کا ایک ٹکڑا لیا اور پیچھے کو ہو کر بیٹھی۔ صبح سے مصروفیت اور جلدی میں وہ ناشتہ نہیں کر پائی تھی اور اب دوپہر تین بجے اسے کافی بھوک لگ رہی تھی۔
اسنے ایک نظر ساتھ بیٹھے زید کو دیکھا جو گھٹنوں پر کہنیاں جمائیں، دونوں ہاتھ باہم پھنسائے انھیں گھور رہا تھا، گم سم سا۔
" زید؟"
اسنے اسے پکارا۔
"ہوں۔۔"
وہ اب بھی ہاتھوں پر نظریں جمائے نجانے کس دھیان میں تھا۔
" کھانا لگ گیا ہے"
اسے اطلاع دی۔
" ہوں"
وہی سابقہ انداز۔
تو کیا وہ پچھتا رہا تھا؟ ابھی ایک گھنٹا بھی نہیں ہوا تھا۔
بالکل ٹھیک سمجھی تھی وہ زید کے جذباتی پن کو۔ اف، اسنے ہاں کرنے میں کتنی جلدی کر دی، پھر نکاح بھی کرالیا ایک ہفتے میں۔
" کیا کر رہے ہو؟"
اسنے کچھ غصے میں چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجا کر پوچھا۔
وہ بہت سی نگاہوں کا مرکز تھے۔
ٹھیک ہے اسے دیر سے ہی لیکن سمجھ آگئی تھی آخرکار پر یہ کون سا وقت تھا سوگ منانے کا؟ وہ بھی یوں اسٹیج پر بیٹھ کر۔
اب آگے کیا کرنا تھا اسنے؟ ابا کو تو بہت برا لگنا تھا۔
" یقین کرنے کی کوشش"
اسکی مفروضوں سے لدی خیالات کی ریل کو زید کے جواب نے اسٹیشن سے کچھ آگے ہی روک لیا۔
" کس بات پر ؟"
کتنا غیر متوقع جواب تھا یہ۔
" کہ یہ ابھی آپ نے مجھے پہنائی ہے"
اسنے دایاں ہاتھ سیدھا کر کے انگلی میں موجود اس پلیٹینیم بینڈ کو دیکھا۔
تقریب کا سارا خرچہ حتی کہ منیزے کی شاپنگ تک زید کی طرف سے تھا۔
منیزے کو یہ بات کہاں گوارہ ہونی تھی۔
اس لئے اسنے آج کے دن کے لئے مختص اپنا بجٹ ان کی طرف سے زید کو دیے جانے والے اس واحد گفٹ پر لگا کر یہ بینڈ خریدا تھا۔
جسے اس وقت وہ بے یقینی سے گھور رہا تھا اور وہ نجانے کیا کیا سوچ بیٹھی تھی۔
" میں نے کبھی نہیں سوچا تھا یہ سب اتنا آسان ہو گا۔۔ اتنا اچیوایبل achievable ۔۔ اتنا پاسیبل۔۔"
خواب کی سی کیفیت میں وہ کہہ رہا تھا۔
خواب ہی تو تھا سب۔
" یہ لو۔۔"
منیزے نے اسے اپنے لیے بنائی پلیٹ پکڑائی۔
" اور ایکسپریشنز ٹھیک کرو سٹیج پر بیٹھے ہو تم۔۔"
اپنے لیے دوسری پلیٹ اٹھاتے اسنے اسے گھرکا۔
خالہ کی بہن کب سے انھیں گھورتیں نوالے توڑ رہی تھیں۔
زید کی بے یقینی کے چکر میں وہ خاندان کی گوسپس کی فرنٹ پیج ہیڈلائن نہیں بننا چاہتی تھی۔
اسنے منیزے کی نظروں کے تعاقب میں آنکھیں چندھیا کر خود کو گھورتی اس خاتون کو دیکھا اور مسکرانے کی کوشش کی۔
یہ زبردستی کی بناوٹی مسکراہٹ منیزے پر نظر پڑتے سچی خوشی میں بدلی۔
وہ آج کس قدر خوبصورت لگ رہی تھی۔ غیر روایتی اور غیر معمولی حسین۔
" کین آئی سے سمتھنگ؟"
زید نے بے اختیار اجازت چاہی۔
" کیا؟"
وہ دوبارہ سے ذرا آگے کو ہوکر اپنے لئے چاول نکال رہی تھی۔
اسکے چہرے کے رنگ دیکھ لیتی تو یہ پوچھنے کی حماقت نہ کرتی۔
" کہ آپ آج اتنی اچھی لگ رہی ہیں اتنی اچھی جتنی کوئی بھی لڑکی مجھے کبھی بھی نہیں لگی"
وہ پورے جذب سے سچائی اور خوشی لیے اسے بتا رہا تھا۔
منیزے کے ہاتھ سے رائتا نکالتا چمچ چھوٹا۔
" اور۔۔"
ابھی اور بھی کچھ مزید کہنا تھا اسنے؟
" نہ کبھی لگے گی"
اسنے جملہ مکمل کیا۔
" یہ تو دعوی ہے اب"
" نہیں سچ ہے اور۔۔"
وہ اتنا خوش تھا کہ اسکے خود کو جھٹلانے کو محسوس نہیں کر پایا۔
پھر سے اور کا اضافہ۔
" زید۔۔"
منیزے نے اسے مزید کہنے سے روک دیا۔ وہ ایسے جملوں کی عادی نہیں تھی۔
" یار اب اتنا پبلکلی ایکسیپٹ publically accept کیا ہے آپ نے مجھے ود مائے فیلنگز اینڈ آل سو ناو تھوڑا بہت تو بئیر ود اٹ bear with it"
وہ کچھ دلیل دینے والے انداز میں اسکے ٹوکنے پر گویا ہوا۔
" یہ تھوڑا بہت ہے؟"
" تو اور؟ دیکھیں آئی ہیو نو ریزن ٹو ہائیڈ اٹ اینی مور I have no reason to hide it anymore۔۔ آپ کو بتایا اینڈ یو ایکسیپٹڈ، سو"
اسنے بے پرواہ سے کندھے اچکائے، منیزے اسے دیکھ کر رہ گئی۔
یہ زید ہی تھا؟
" میں نے تمھیں بتایا تھا تو میرے کچھ ریزنز۔۔"
اسے اب بھی لگتا تھا جتنا وہ خوش تھا زید نے اسکی ہاں کے بعد اسکی اس مثبت جواب کے پیچھے کارفرما کوئی وجہ نہیں سنی تھی۔
" تو وہ تو آپ کی طرف سے ہیں ناں۔۔ آپ کو تو کوئی فورس نہیں کر رہا۔۔ اب میں بھی کتنا ہینڈسم لگ رہا ہوں بٹ میں نے کہا آپ کو کہ آپ میری تعریف کریں؟ چلیں یہ نہ کہیں کہ میں آپ کو سب سے زیادہ اچھا لگ رہا ہوں پر ایٹ لیسٹ یہ تو کہہ دیں کہ میں اچھا لگ رہا ہوں۔۔ پر دیکھیں میں نے نہیں کہا؟ میں نہیں کہہ رہا۔۔ نو پریشر ایٹ آل"
وہ ہاتھ میں پکڑی پلیٹ میں موجود چاولوں کو ادھر ادھر کرتے بہت سمجھداری سے چمچ میں بھرتا کہہ رہا تھا۔
اسکا انداز ایسا تھا کہ وہ مسکرائے بنا نہیں رہ پائی۔
اتنے دنوں کی چھائی کلفت جیسے چھٹ گئی۔
سفید شلوار کمیز میں وہ واقعی اچھا لگ رہا تھا۔
منیزے نے اسے اس طرز کے لباس میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔
" تم اچھے لگ رہے ہو زید۔۔"
اسنے خود کو کہتے سنا۔
تکلف، جھجھک، رکھائی کوشش کے باوجود وہ اسکے ساتھ نہیں برت پائی تھی۔
یہ ایک چیز جیسے اس کے بس سے باہر تھی۔
فاروق احمد نے دور سے اپنی بیٹی کو مطمعین نظروں سے مسکراتے دیکھا۔
اتنے دنوں میں وہ پہلی دفعہ کھل کر مسکرائی تھی۔ وہ بنا کسی مروت، تکلف کے ایسے دل سے کتنا کم مسکراتی تھی۔ اسکی اس مسکراہٹ کی چابی انکے بعد قدرت نے اس کے ساتھ بیٹھے شخص کو تھمائی تھی۔
♤♤♤♤
گاڑی پارک کرتے وہ منیزے کی گاڑی کو اپنے گھر میں کھڑا دیکھ مطمعین سا اترا جب وہ اسے تیز تیز چلتی پرس سے چابی نکالتی اپنی گاڑی کی طرف آتی دکھائی دی۔
"ختم ہوگئی گیدرنگ؟"
زید نے اسکا راستہ روکا۔
آج سعدیہ نے منیزے کا اپنے فرئنڈز سرکل میں تعارف کرانے کے لئے گھر میں چھوٹی سی دعوت نما پارٹی رکھی تھی۔
وہ واڈز سے شام چھ بجے فارغ ہو کر گھر پہنچا تھا۔ فائنل ائیر تھا پڑھائی سے زیادہ اب پریکٹکل کو وقت دینا ہوتا تھا۔
" نہیں مجھے کچھ کام تھا۔۔"
منیزے نے جلدی سے کہتے اسکے پاس سے گزرنا چاہا۔
" رکیں۔۔ یہاں دیکھیں۔۔ آپ بھاگ رہی ہیں ناں؟"
اسنے اسکی کہنی تھام کر روک لیا۔
" سوری۔۔ بٹ میں وہاں بلکل بھی ایزی۔۔"
وہ کام کا بہانہ کرتی ان ایلیٹ آنٹیوں کے جھرمٹ سے وقعتاً بھاگی ہی تھی۔
" آئی نو، میں مام سے کہہ رہا تھا اس سب کی ضروت نہیں ہے بٹ شی انسسٹڈ، سوری فار دیٹ"
زید کو اس کا تھکا ہوا چہرہ دیکھ افسوس ہوا۔
اسنے منع بھی کیا تھا سعدیہ کو پر ان پر انکی سہیلیوں کا کافی پریشر تھا بہو سے ملوانے کا۔
" وہ اپنی جگہ ٹھیک ہیں، میں ہی شاید۔۔ میں چلتی ہوں"
وہ بات سمیٹتی کہنی چھڑاتی جانے لگی۔
" خود کو بلیم مت کریں اور ایسے کیسے جا رہی ہیں آپ، آپ کے ساتھ کافی کی لالچ میں میں شاٹ کٹ لے کر آیا ہوں، گاڑی کا ہشر ہو گیا۔۔"
اسنے اسے گرد سے اٹی اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کر تے روک لیا۔
" اندر نہیں جا سکتی میں"
منیزے نے کچھ بے بسی سے گھر کی عمارت کو دیکھا جہاں سے وہ بہانہ کرکے بمشکل نکلی تھی۔
" وہ سب تو ڈرائینگ روم میں ہونگے، ہم اوپر چلتے ہیں۔۔ آجائیں"
زید نے اسکا اعتراض دور کیا۔ اسنے کچھ تامل سے ہامی بھر ہی لی۔
اسے بھی سخت قسم کے ڈی ٹاکس کی ضرورت تھی۔
♤♤♤♤♤
" سو کیسا رہا ایکسپیرئنس؟"
اسنے سوال کر کے منیزے کو بھڑاس نکالنے کا موقع دیا۔
وہ اب کافی کے گول سے مگ ہاتھوں میں تھامے زید کے کمرے کی بالکنی میں کھڑے تھے۔
" بہت مسئلے تھے وہاں سب کو، پہلے انھیں میرے ڈاکٹر نہ ہونے سے مسئلہ ہوا جو میرے مڈل کلاس سے ہونے پر مزید بڑھا، دین میری مہران انھیں تمھارے گھر کی انسلٹ کرتی ہوئی لگی"
وہ بھی بنا رکے انکے خود سے سارے مسائل انگلیوں پر گنوانے لگی۔
"پھر میری عمر کا ایشو اٹھا، پھر انھیں میرے کبھی بھی کسی اور ملک نہ جانا کھٹکا اینڈ فائنلی ان سب نے مل کر ججمنٹ دی کہ میں گولڈ ڈگر ہوں دین۔۔"
" ہاو ڈیر دے، آپ چلیں میرے ساتھ ان سب کی ہمت کیسے ہوئی آپ کے گھر میں آپ کو یہ سب کہنے کی"
زید سے مزید نہیں سنا گیا۔
" پہلی بات تمھاری کلاس کا یہی تو مسئلہ ہے اوپنلی تھوڑا ہی کچھ کہتے ہیں شگر کوٹ کر کے سیانائڈ cyanide جیسے لفظوں کی مار مارتے ہیں اور میں بھی کافیوں کو جواب دے کر ہی آئی ہوں اپنے طریقے سے سو تمھیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں"
منیزے نے اس کا غصہ بٹھایا۔
اسے اپنی طرف سے کھڑے ہونے کو کبھی بھی اپنے سوا کسی کی ضرورت رہی تھی اور نہ عادت۔
" اور دوسرا یہ میرا گھر نہیں ہے، تمھاری مام کا ہے جنھیں بہرحال بہت کچھ سننے کو ملا ہے آج میری وجہ سے۔۔"
اسے ڈاکٹر سعدیہ کے لئے ہی افسوس تھا۔
ساری گولہ باری کے دوران اسے انکا پھیکا پڑتا چہرہ یاد آیا۔
" ایسا نہیں ہے، آپ کا کوئی قصور نہیں ہے"
وہ کیوں خود کو الزام دے رہی تھی۔ زید کو برا لگا۔
" میرا نہیں ہے میں جانتی ہوں پر مسز ابراہیم کا بھی نہیں ہے وہ ڈیزرو کرتی تھیں کوئی اپنے بیٹے کے لیے انکے سٹینڈرڈ کی اپر کلاس ڈاکٹر لائف پارٹنر جسے اپنے سرکل میں انٹروڈیوس کراتے انھیں آج جیسی شرمندگی نہ ہوتی"
اسے خود کو لے کر کوئی احساس کمتری نہیں تھا پر وہ اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کر سکتی تھی کہ جو بھی تھا وہ اس خاندان میں مس فٹ ضرور تھی۔
" پہلی بات تو وی آل آر ویری پراوڈ آف یو، ہم جو ڈیزرو کرتے تھے آپ اس سب سے کہیں زیادہ ہیں، دوسری کہ یار اب تو انھیں مسز ابراہیم کہنا چھوڑ دیں، آپ انھیں مام بلا سکتی ہیں"
زید نے اسی کی انداز میں پہلی اور دوسری بات کی گردان کی۔
" ماوں کی نہیں بنتی مجھ سے، میرے لیے یہ لفظ ہی کرسڈ ہے"
ماں کا رشتہ اس دنیا میں اس کے لئے نہیں تھا۔
" آنٹی ٹھیک ہے؟"
اسنے بات کا بوجھل پن زائل کرنے کو کہا۔
" مچ بیٹر"
اسے کیا اعتراض ہونا تھا۔
ان پندرہ دنوں میں اس رشتے کو لے کر بہت سے خدشے ختم ہوئے تھے۔ انکی دوستی پر کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ اب بھی اس کے ساتھ کوئی مستقبل تصور نہیں کر پاتی تھی پر یہ سب حال میں بھی اس کے لیے ہیجان آمیز نہیں رہا تھا جیسا کہ اسنے سوچا تھا کہ ہوگا۔
♤♤♤♤
ایک ماہ کے اندر ہی علیزے کی شادی کا شور اٹھا۔
کام بہت تھا اور وقت کم۔
زید فاروق احمد کے ساتھ برآمدے میں بچھی کرسیوں ہر بیٹھا نوٹ پیڈ پر آج کے کرنے والے کاموں کی لسٹ بنا رہا تھا۔
باقی بھی بہت سے حساب کتاب وہاں درج تھے۔
اسنے مہندی کے لئے ٹینٹ والوں کا ایڈوانس لکھنے کو قلم لینے کے لئے مصروف سے انداز میں احد کے سامنے ہاتھ پھیلایا تو اسنے ہنستے ہوئے اسکے کان میں پھنسا قلم نکال کر اسے تھمایا۔
وہ مصروفیت میں لکھتے ہوئے درزیوں کے سے انداز میں سوچ سوچ کر لکھتے پین وہیں پھنسا کر بھول گیا تھا۔
" میری گاڑی میں جگہ ہوتی تو تم بھی ساتھ چل سکتے"
اپنی گاڑی میں دو سے زیادہ سیٹ نہ ہونے پر افسوس سے احد کو کہا۔
اسے آج ابا کے ساتھ جاکر چند اہم کام نبٹانے تھے۔
" نہیں مجھے ویسے بھی امی اور آپی کو ٹیلر کے پاس لے جانا ہے ابھی آپا آتی ہیں تو"
اور آپا آگئیں۔
اسنے آکر ان سب کو سلام کیا اور گاڑی کی چابی آحد کی طرف اچھالی۔
وہ تھکی تھکی سی تھی۔
ایک بین القوامی نیوز ایجنسی کی طرف سے پاکستانی صحافیوں کی عالمی معیار کے مطابق ٹریننگ کے لئے ہفت روزہ ورک شاپ کروائی جا رہی تھی۔
چینل کی طرف سے اسکا نام دیا گیا تو اسنے منع کرنا چاہا تھا۔
ورک شاپ اور علیزے کی شادی کی تاریخیں آگے پیچھے تھیں پر زید نے اسے یہ نہیں کرنے دیا تھا یہ کہہ کر کہ " آپ نے کیا ساری زندگی لوکل چینلز پر کام کرنا ہے؟" اور یہ کہ وہ سب دیکھ لے گا۔
اسکے کے بہت سے کام اب وہ اسی لئے اپنے سر لے چکا تھا۔ بجٹ وغیرہ ابا دیکھ رہے تھے باقی بھاگ دوڑ زید احد کے ساتھ مل کر کروا رہا تھا۔
اسے اس شادی کے کاموں نے جیسے ایک نئی دنیا ایکسپلور کرنے کا موقع دیا تھا جو اسی شہر میں پیدا ہونے کے باوجود اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ دیگ والے، نائی، ٹینٹ والے۔۔
وہ چند باتیں کرکے اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
ورک شاپ میں اسائنمنٹ بھی ملتی تھی جو اسنے رات بھر بیٹھ کر مکمل کی تھی پھر اسکے ساتھ شادی کے دنوں میں لی جانے والی غیر حاضری کے لئے شو بھی ریکارڈ ہو رہا تھا۔
سونے کا وقت بھی بمشکل مل رہا تھا آج کل۔
" منیزے نے کپڑے بنوا لئے؟"
زید کو درزی سے یاد آیا تو اسنے احد سے ہوچھا۔
" نہیں کہاں ٹائم ہی نہیں انکے پاس۔۔"
وہ ساتھ پڑے چند بیگز جو اپنے ساتھ لایا تھا اٹھاتا منیزے کے پیچھے ہو لیا۔
پھر کچھ سوچ کر واپس پلٹا ٹیبل پر رکھے جگ میں سے منیزے کے لئے پانی گلاس میں نکالا اور پھر سیڑھیاں چڑھ گیا۔
" یہ لڑکا تو بلکل باولا ہے آپ کی بیٹی کے پیچھے۔۔"
ہاجرہ نے زید کی حرکت نوٹ کرتے تبصرہ کیا تو فاروق احمد نے نے دل میں انکی بات پر ماشاءاللہ پڑھا۔
♤♤♤♤♤
" ہے۔۔ ایک سیکنڈ"
وہ آخری سیڑھی پر تھی جب زید کی آواز پر رک کر پلٹی۔
" میں کچھ لایا تھا آپ کے لئے"
اسے پانی کا گلاس تمھاتے تھیلوں والا ہاتھ ذرا اونچا کیا۔
وہ اس سے تین سیڑھیاں نیچے کھڑا تھا۔
" میرے پاس ہیں اس سب کی ضرورت۔۔"
اسنے مختلف برانڈز کے ان تین مختلف بیگز کو دیکھتے منع کرنا چاہا۔
دل ہی دل میں وہ ان تحفوں پر کراہی۔
" احد نے بتایا کہ آپ نے شاپنگ نہیں کی اور آپ کے پاس ٹائم بھی نہیں ہے ابھی سو نو بہانے"
زید نے خالی گلاس اس سے لے کر اسے زبردستی شاپر تھماتے کہا۔
" پر میں تم سے اتنے مہنگے تحفے نہیں لے سکتی۔۔"
تحفوں میں سے جھانکتے کپڑوں کو دیکھتے اسنے واپس کرنا چاہا۔
" نہ کریں یار، اب مجھ سے بھی نہیں لے سکتیں؟"
اس نے "مجھ" پر اچھا خاصا زور دیا۔
" لوں گی، جب خود کمانے لگو گے تم پر ابھی نہیں۔۔"
اسنے اسکا دل رکھنا چاہا۔
" پتا تھا مجھے یہی کہیں گی آپ، یہ لاسٹ منتھ جو پمز میں کامپٹیشن ہوا تھا اسکی پرائز منی سے خریدا ہے سب۔۔ اسے آپ میری خون پسینے کی کمائی ہی سمجھیں"
اب وہ منیزے کو اتنا تو جانتا تھا کہ ڈیڈ کے پیسوں سے اس کے لئے کچھ خرید کر نہ لاتا۔
" خون پسینے کی کمائی ایسے ضائع کرتے ہیں؟"
اسے یہ سن کر مزید افسوس ہوا، زید کی محنت یاد آئی۔
دن رات غرق رہ کر اسنے اپنے ٹیچر کی سر پرستی میں وہ پیپر لکھا تھا۔
اور اب یوں اپنا انعام اس پر خرچ کر آیا تھا۔
اس بات پر زید نے اسے افسوس سے ایسے گھورا کہ اسنے ہاتھ ڈال کر ان کپڑوں کو الٹ پلٹ کر بالآخر دیکھ ہی لیا۔
یہ قبولیت کا عندیہ تھا۔
نفیس رنگوں کے مہندی، بارات اور ولیمے کے لئے تین سوٹ تھے۔
وہ بہت خلوص سے لایا تھا۔ وہ محبت کا لفظ اب بھی نہیں سوچ پائی۔
اسکے پاس واقعی کپڑے نہیں تھے۔ اس نوعیت کی تقریبات میں اسنے کبھی شرکت ہی نہیں کی تھی کہ کپڑے بنوانے کی نوبت آتی۔ وہ بارات پر اپنا نکاح والا سوٹ پہننے کا سوچ رہی تھی۔ باقی دو دن عید پر لئے گئے سوٹ کام آجاتے۔
" شکریہ پر تم نے بوجھ بنا دیا ہے، تمھارے لئے بھی لینا پڑے گا کچھ اب"
اسنے ابھی سے دماغ میں اسکے لئے کچھ خریدنے کے آپشنز پر غور کرنا شروع کردیا۔
" آپ نہیں سدھر سکتیں۔۔ جائیں کچھ دیر نیند لیں۔۔ ہم جب تک یہ کام نبٹا کر آتے ہیں"
زید نے گہری سانس لے کر اسکا رخ دوسری طرف موڑ کر اسے سونے کے لئے دھکیلنے کے انداز میں بھیجا۔
منیزے لاعلاج تھی۔
♤♤♤♤
وہ سونے کے لئے لیٹی تو علیزے کے نمبر سے واٹس ایپ پر کچھ تصاویر موصول ہوئیں جو اسنے ابھی کچھ دیر پہلے کھینچیں تھیں۔
اسنے نے اسکے کمرے میں آکر اپنے جہیز کا درزی سے آیا ہر سوٹ ٹرائے کر کے دیکھا تھا۔ اور کچھ اصرار سے اسے بھی زید کے لائے گئے کپڑے پہننے کو کہا تھا۔
وہ جا رہی تھی اور اسکے ساتھ جانے سے پہلے کچھ ہنستے لمحے گزارنا چاہتی تھی۔
اسنے کپڑے پہن لئے تھے اور اس کے ساتھ کچھ تصاویر بھی بنوا لی تھیں۔ یہ وہی تصاویر تھیں۔
کچھ سوچتے ہوئے اسنے چند تصویریں زید کے نمبر پر فارورڈ کر دیں۔
اسکا جواب پانچ منٹ کے اندر آیا تھا۔
" یو جسٹ میڈ مائے ڈے۔"
"سوری نائٹ"
یکے بعد دیگرے آئے دو میسج پڑھتے اسنے مسکراتے ہوئے فون رکھ دیا۔
♤♤♤♤
ہاسپٹل کینٹین سے اپنے اور منیزے کے لیے جوس اور ڈونٹ لے کر اسنے دوبارہ آپریشن تھیٹر کے سامنے رکھے بینچ کی طرف قدم بڑھائے۔
ڈونر کڈنی کا انتظام ہو گیا تھا اور ڈاکٹر نے فوری ٹرانسپلانٹ کا کہا تھا۔
فاروق احمد کو آپریشن تھیٹر لے جائے گئے تین گھنٹے ہونے کو آئے تھے، وہ بہت مطمعین مسکراتے ہوئے گئے تھے۔ ڈاکٹر نے بہت تسلی دی تھی۔
تب سے منیزے باہر بینچ پر ایک ہی پوزیشن میں مٹھی پر ہونٹ رکھے بیٹھی تھی۔
زید بھی وہیں تھا۔
ہاجرہ بارہ بجے گھر چلی گئیں تھیں۔ یہاں اس وقت صرف وہ اور منیزے ہی تھے۔
کاریڈور کے موڑ پر ایک ڈاکٹر اسکے سامنے سے گزرا، پھر ایک نرس۔
اور اب پوری طرح مڑنے پر اس کی نظر منیزے پر پڑی وہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھے صدمے میں کھڑی تھی، اس کے دیکھتے دیکھتے ہی وہ گرنے کے سے انداز میں بینچ پر بیٹھتے چہرہ ہاتھوں میں چھپا گئی۔
وہ رو رہی تھی؟
دل کسی انہونی کے خوف سے کانپا۔
ہاتھ میں پکڑے کھانے پینے کی اشیاء کے شاپر چھوٹے۔
وہ اسکی طرف بھاگا۔
♤♤♤♤