" منگنی کی رسم کے بجائے اگر اتنی ہی سادگی سے نکاح کر دیا جائے۔۔ باقی سب وہی جیسا مل کر طے ہوا ہے۔"
انکی بات پر سعدیہ نے حیرت سے بے اختیار انھیں دیکھا۔ زید اور منیزے نے صدمے سے ایک دوسرے کو اور ڈاکٹر ابراہیم نے گہری نظروں سے ان دونوں کو یوں شاک سے ایک دوسرے کو دیکھنے پر۔
فاروق احمد سب کے تاثرات سے نظریں چرائے ابراہیم کو دیکھتے اپنی بات رکھ چکے تھے۔
بچے کتنے بھی بڑے ہو جائیں اتنے بڑے نہیں ہوتے کہ ماں باپ اپنی اصل فکروں سے ہٹ کر ان کے دیے بہلاوں میں آجائیں، مطمعین ہو جائیں۔
ابراہیم نے منیزے اور زید کے حیران تاثرات سے یہ اخذ کر لیا تھا کہ یہ فقط فاروق احمد کی خواہش ہے۔ بطور ہارٹ سرجن انھیں ایک بیمار شخص کا جسکی زندگی کی کوئی گارنٹی نہ ہو اپنی بیٹی کے معاملے میں زبانی کلامی عہد سے بڑھ کر چاہنے میں کچھ انوکھا نہ لگا۔ انھوں نے ایسے بہت سے خدشے اپنے پاس علاج کے لئے آئے لوگوں کے چہروں پر دیکھے تھے۔
پھر ایسا کوئی مضائقہ بھی نہیں تھا انکی بات میں۔
♤♤♤♤♤
" ابا آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔۔ صرف بات طے کرنی تھی۔۔ زید اپنے پیرنٹس کو یہ کہہ کر لایا تھا، وہ کیا سوچتے ہونگے۔۔"
ابا کی بات پر ابراہیم حسین اپنے خاندان کی طرف سے ہامی بھر کر جاچکے تھے اور اب منیزے انکے سامنے کھڑی جواب طلبی کے موڈ میں تھی۔
" کیا سوچتے ہونگے؟"
انہوں نے تھوڑی پہ ہاتھ رکھ کر اشتیاق سے پوچھا۔
" یہی کہ۔۔ یہی۔۔ یہ غلط تھا اس سب کا نہ یہ کوئی وقت ہے اور نہ ضرورت۔۔"
وہ یہ کہتے کہتے کہ وہ سوچتے ہونگے کہ وہ اسے ان پر تھوپ رہے ہیں، رکی۔
" انھیں اعتراض ہوتا تو وہ کہہ دیتے۔۔"
وہ اب بھی بات کو معمول سے زیادہ اہمیت نہ دیتے ہوئے سرسری سا کہہ رہے تھے۔
" ڈاکٹر سعدیہ کا پورا چہرہ ہی اعتراض میں ڈھل گیا تھا۔۔"
اسے انکی ابا کی بات پر حیرت سے پھٹتی آنکھیں یاد آئیں۔
۔
" نہیں، انھیں صرف میری اچانک بات سے حیرت ہوئی تھی۔۔"
یہ اعتراض بھی جھٹلایا گیا۔
" کیا مسئلہ ہے تم نے اپنی مرضی سے ہاں کی تھی ناں؟ اور شادی کے لئے ہی کی تھی۔۔"
اسے جھنجھلا کر کچھ مزید کہتا دیکھ وہ سنجیدگی سے پوچھ بیٹھے۔
" ہاں۔۔ پر فوری طور پر نہیں"
ساری فساد کی جڑ ہی یہ ہاں کرنا ٹھہری تھی۔
" فوری تو اب بھی کچھ نہیں ہو رہا"
" اگلے ہفتے آپ نے نکاح رکھ دیا ہے، فوری اور کیا ہوتا ہے؟"
اس کی آواز نے اب کے حیرت کی زیادتی سے پھٹ جانا تھا۔
" صرف نکاح ہی ہے رخصتی تو نہیں۔۔ تم کیوں مسئلہ بنا رہی ہو؟"
منیزے کے ردعمل پر اب وہ بھی جھنجھلائے۔
" آپ نے بات کمٹمنٹ سے لیگل کانٹریکٹ میں بدل دی ہے اور مسئلہ میں بنا رہی ہوں؟"
" آئم سوری۔۔"
باپ کے سامنے آواز اونچی ہونے کا خیال آیا تو اسنے اسی وقت معذرت کی۔
اختلاف اپنی جگہ۔
" ابا آپ کو اتنی بے اعتباری کیوں ہے، میں بھاگی تو نہیں جا رہی، میں نے آپ کی پہلے کون سی بات ٹالی ہے؟"
ان کے پاس بیٹھ کر اسنے عادتاً انکا گھٹنا تھاما۔ آواز میں منت بھرا احتجاج تھا۔
وہ صرف انکے سامنے اس لہجے میں بولتی تھی اور وہ واحد ہی تھے جو اسکی اس انداز میں کی گئی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
وہ اپنی بیٹی کو جانتے تھے۔
" سادہ سی بات ہے کہ جب اتنا وقت دینا ہو تو بنیاد مضبوط ہونی چاہیے، زبانی کلامی پر دو تین سال تک ٹالنا کہاں کی عقل مندی ہے؟"
فاروق احمد کا انداز اب منیزے جیسا ہوا۔
منطقی، غیر جذباتی۔ انھوں نے جال پھینکا تھا۔
" رشتوں میں اتنے حساب کتاب نہیں ہوا کرتے"
انکی مچھلی جال میں آبھی گئی۔
" یہ تم کہہ رہی ہو ؟"
انکی نظریں ایسی تھیں جیسے وہ اسکی سوچیں پڑھ سکتے ہوں۔ جیسے اسنے ذہن میں چلتا سارا حساب کتاب انکے سامنے بیٹھ کر ہی تو کیا ہو۔ ہر کھاتہ انکے آنکھوں کے سامنے کھولا ہو۔ ہر ضرب، ہر تقسیم انھیں ساتھ بٹھا کر لگائی ہو۔
وہ کہہ نہیں پائی کچھ۔
انکا جملہ اسے اچھے سے جتا گیا تھا کہ وہ اسکے فیصلے کے پیچھے کے ہر سبب سے واقف ہیں اور وہ اسے رشتے کے نام پر ناپ تول نہیں کرنے دیں گے۔
وہ کچھ دیر انھیں دیکھتے جب لفظ جٹانے میں ناکام ہوئی تو خاموشی سے وہاں سے اٹھ آئی۔
کمرے کی دہلیز پار کرتے اسے خالہ ملیں۔
" اب کس بات پر بحث ہو رہی ہے سب ہو تو گیا ہے۔"
وہ اندر ہونے والی بحث سے خائف تھیں۔
" کچھ نہیں، جی سب طے ہو گیا ہے۔۔ آپ حارث کی فیملی کو ہاں کر دیں، انھیں گھر پر بلائیں اور جیسے وہ چاہتے ہیں شادی وغیرہ کی تاریخ انھیں دے دیں، تیاری کی فکر نہ کریں سب ہو جائے گا"
سکون کے وہ سکے جو اسنے اپنا اطمعنان رول کر ان کے لئے جوڑے تھے انھیں تھما کر وہ آگے بڑھ گئی۔
♤♤♤♤♤♤
"کیسی ہیں آپ؟"
وہ بھاگتے ہوئے ایک ہاتھ میں کتاب تھامے اپنے کالج کی پارکنگ میں کھڑی منیرے کی گاڑی تک آیا، کھڑکی پر ہاتھ رکھتے جھک کر پوچھا۔
منیزے نے اسے ضروری کام کا کہہ کر بلایا تھا۔
"سب خیریت؟"
اسنے اسکے حال پوچھنے کا کوئی جواب نہیں دیا تو اسنے دوسرا سوال کیا۔
وہ اسے ہاں کرنے کے بعد سے بہت کم بات کرتی تھی۔ پہلے والی بے تکلفی اب منیزے کی طرف سے نہیں رہی تھی۔
" بات کرنی تھی"
ابا نہیں سن رہے تھے پر ان دونوں کے درمیان ایسا کچھ طے نہیں ہوا تھا۔ زید اور اسکے والدین نے بس ابا کی بات رکھ لی تھی اور یہی بات اسکی خوددار طبعیت پر بھاری سل کی صورت دھری تھی۔
اپنے اس طرح جکڑے جانے کی جھنجھلاہٹ الگ تھی۔
ابا واقعی پھر اسی کے ابا تھے۔
" کریں"
وہ پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہوا۔
"بیٹھو۔۔"
اسنے پیسنجر سیٹ کی طرف اشارہ کیا، ایسے کیسے کھڑے کھڑے بات کی جاتی ہے۔
" نہیں۔۔ سوری۔۔ پڑھنا ہے پروفس ہو رہے ہیں۔۔"
اسنے کھڑکی سے ذرا ہٹ کر پارکنگ کے دروازے پر موٹی موٹی کتابیں لیے زید جیسا ہی سفید اوور آل پہنے اپنے لیے منتظر کھڑے اپنے دوستوں کی طرف اشارہ کیا۔
انھیں وائیوا کی ریویژن کے لیے گروپ سٹڈی کرنا تھی۔
ان دونوں کو اپنی طرف دیکھتا پا کر ان سب نے پر جوش سا ہنستے ہوئے کورس میں ہاتھ ہلایا۔
انکی ہنسی بتاتی تھی زید انھیں سب بتا چکا ہے۔ منیزے نے مجبوراً انکی طرف دیکھتے ہاتھ ہلایا۔ اپنی کھڑکی پر جھکے شخص کو تیکھی نظروں سے دیکھا۔
" آپ کہیں۔۔ میں سن رہا ہوں"
وہ واپس اسی پوزیشن میں کھڑکی پر ہاتھ رکھے اس سے مخاطب ہوا۔
" آئی ایم سوری۔۔ گھر پر جو بھی ہوا۔۔ ابا نے مجھے پہلے انفارم کیا ہوتا تو میں منع کر دیتی۔۔ تمھارے پیرنٹس کے سامنے تمھیں آکورڈ سیچویشن میں ڈال دیا۔ تم اب بھی چاہو تو منع کر سکتے ہو۔۔"
وہ بھی سیدھا موضوع پر آئی اسکے پروفس کے چلتے پورا ہفتہ انھیں ٹھیک سے بات کرنے کا موقع نہیں ملنا تھا وہ جانتی تھی اور پروفس ختم ہونے تک تقریب نے سر پر پہنچ جانا تھا۔
" نہیں اب نہیں کر سکتا۔ڈیڈ نے انکل کو خود ہاں کی ہے میں نے منع کیا تو کہاں زندہ چھوڑنا ہے انھوں نے مجھے۔۔"
اسنے بے بس سی بیچارگی سے کہا۔
"لیکن تم کیوں زبردستی میرے ابا کی بات پر پریشرائیز ہو کر اپنی مرضی کے خلاف کچھ کرو۔۔"
منیزے کو اسکی بے بسی پر تاو آیا اس سے زیادہ اپنی بے بسی پر غصہ۔
ابا نے کیسے اسکے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھے تھے۔
" ایک منٹ۔۔ میری مرضی کے خلاف تو کچھ نہیں ہو رہا، ٹھیک ہے اٹ واز ناٹ پلینڈ اور انکل کی بات پر مجھے شاک لگا۔۔ اور مجھے یہ تھا کہ آپ نے فی الحال کمنٹمنٹ کا کہا تھا اور آپ کے لئے میں کر سکتا تو انکار کر دیتا۔۔"
منیزے کو اسکے سو بار کی تکرار جیسے اظہار کے بعد بھی لگ رہا تھا وہ مجبوراً مانا ہے؟
"بٹ مجھےتو جتنا چاہا تھا اس سے کہیں زیادہ ہی مل رہا ہے۔۔ اتنا بھی نا شکرا نہیں ہوں میں اب"
اب کہ اسکی آنکھوں اور الفاظ میں ایک سی نرمی تھی، اسی ملائمیت سے مسکراتے وہ اسکے چہرے کو تکتا کہہ رہا تھا۔
منیزے نے آنکھیں سکیڑ کر اسے اسکے انداز پر گھور کر دیکھا۔
وہ فوراً سنبھلا۔
پروفس اور نکاح سے پہلے منیزے کے ہاتھوں قتل ہوتا وہ کوئی اچھا تو نہیں لگتا۔
" دیکھیں کوئی ایشو نہیں ہے جہاں آپ نے رنگ پہننی تھی وہاں ساتھ میں دو سگنیچرز بھی کر دیجئے گا، کیا فرق پڑتا ہے ڈونٹ سٹریس اوور اٹ"
وہ اب اپنے ازلی دوستانہ انداز میں کہتا اپنے تئیں اسے تسلی دے رہا تھا۔
" ایشو کیسے نہیں ہے۔۔"
وہ اسکی بات پر مزید بپھری۔
ابا اور اب زید۔۔ انھیں لگ ہی نہیں رہا تھا کہ کوئی بڑی بات ہے۔ اس سے بڑی بات کیا ہوتی ہے پھر؟
" ایشو تب ہوگا جب ہم بنائیں گے۔۔ اور ہم نہیں بنائیں گے ناں۔۔ کچھ نہیں بدل رہا ڈونٹ وری یار۔۔ مجھے واقعی جانا ہے۔۔ بائے"
وہ اس کے تحفظات سمجھ رہا تھا اور اپنی طرف سے وہ مختصر الفاظ میں کھڑکی پر رکھا اپنا ہاتھ گاڑی کے دروازے پر تھپکاتا اسے تسلی دیتا چلا گیا۔ وہ لوگ مسلسل اسے بلا رہے تھے۔
اپنے دوستوں کی طرف تیز قدموں سے جاتے ہوئے وہ ایک لمحے کو منیزے کی جانب مڑا اسے ٹھیک سے وقت نہ دے پانے پر منہ سے بنا آواز کے سوری کہا اور دھوپ سے بچنے کو کتاب اپنے سر پر تانتے پارکنگ کے گیٹ کی اور دوڑ لگا دی۔
اسنے اس ہوا کے گھوڑے پر سوار انسان کو دیکھا۔
کچھ نہیں ہو سکتا تھا اب اسکا اپنا کیا تھا سب۔ غصے میں ایکسلیریٹر پر دباو بڑھاتی وہ گاڑی سٹارٹ کر چکی تھی۔
♤♤♤♤♤♤
سعدیہ نے چھوٹی سی اس تقریب کا اہتمام اپنے فارم ہاوس پر کیا تھا۔
گیٹ سے انھیں ریسیو کرنے کے بعد عمارت کے اندر انھوں نے اسے تیار ہونے کے لئے وہی کمرہ دکھایا تھا جہاں کبھی وہ اسے بندوق کے زور پر لایا تھا۔
منیزے کو یہ اتفاق سے زیادہ مذاق لگ رہا تھا قسمت کا۔ قدرت کی حس مزاح بھی تھی اور کافی سیاہ قسم کی تھی۔
وہ کمرے کا دروازہ دھکیلتی اندر داخل ہوئی تو اسے سالوں پہلے اسکی بات پر زید کا غصے سے یہی دروازہ دے مارنا یاد آیا۔
یہاں کا انٹیرئیر ان کے گھر سے نسبتاً سادہ تھا۔ دیواروں اور پردوں کی کریم رنگ کی تھیم، ایک سنگل بیڈ، ڈریسنگ ٹیبل اور ایک طرف رکھی دو کرسیاں۔
ویسا ہی جیسا تین چار سال پہلے تھا۔
وہی کرسیاں جن میں سے ایک پر وہ بیٹھی تھی کبھی اور دوسری پر عین اسکے سامنے بیٹھا وہ اسے بندوق دکھاتے غصے کی انتہاوں کو چھوتا کچھ کہہ رہا تھا۔
وقت آگے نکل گیا تھا اور وہ جیسے کہیں پیچھے کھڑی رہ گئی تھی۔
زید اسے اس دن کالج پارکنگ کے بعد نہیں دکھا تھا، نہ فون پر کوئی رابطہ رہا تھا۔
پیپرز نے اسے واقعی مصروف رکھا تھا پورے ہفتے۔
اسکی مام کے مطابق وہ اپنا ڈریس بھی ٹرائے نہیں کر پایا تھا اور صبح پہن کر دیکھنے پر وہ تنگ نکلا تھا۔ جس کے سبب وہ اس وقت بھی یہاں موجود ہونے کے بجائے سمیر کے ساتھ ڈیزائنر کی طرف گیا ہوا تھا۔
فی لاحال یہاں صرف زید کے پیرنٹس، اسکے گھر والے اور معاونوں کی یہاں سے وہاں بھاگتی ایک فوج تھی۔
آج کا دن عجیب تھا۔ مشکل اور اپنے تمام تر بھاری پن کے باوجود عام سا۔
کسی معمول جیسا۔
اسنے ایک نظر اپنا ہینڈ بیگ سنگھار میز پر رکھتے خود کو آئینے میں دیکھا۔
پتا نہیں اب آگے اس ایک فیصلے سے کیا بدلنا تھا۔
اس کے جیسے لوگوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ سرنڈر کر دینے کے بعد بھی اپنے ہاتھ سے حالات کے کنٹرول کی ڈور چھوٹنے نہ دینے کی بے سود سی کوشش ضرور کرتے ہیں پھر چاہے ساری ریت پھسل جائے پر اپنے ہی سامنے اپنا بھرم قائم رکھنے کو بند مٹھیاں نہیں کھولتے۔
وہ بال سمیٹتی گہری سانس لیتی ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئی جہاں اس کے کپڑے پہلے سے موجود تھے۔
اسے تیار ہونا تھا۔
♤♤♤♤
حال
سمندر شاید اب پہلے جیسا نیلا نہیں رہا تھا یا اس کی آنکھیں اب کوئی رنگ سیاہی کی ملاوٹ سے پاک دیکھنے کی صلاحیت کھو چکی تھیں۔ وہ یہاں ہر دوسرے دن آتی تھی۔ کافی پیتے سمندر کی لہروں کے شور میں ماضی کو گونجتے سنتی تھی۔
قہقہے، ہنسی، جھنجھلاتے بحث کرتے مستقبل سے لاعلم بے فکر جملے۔۔
ہوا سے اڑتے اپنے بال کان کے پیچھے کرتے چہرے پر پگھلتا سا مانوس نگاہوں کا لمس محسوس ہوا تو اسے نے رخ موڑ کر بائیں جانب برابر کھڑے اس شخص کو دیکھا جو اسے دیکھتا یوں کھڑا تھا جیسے عہد جدید کی ابتدا سے اسے کسی نے یہاں کوئی جاذب نظر مجسمہ سمجھ کر نسب کر دیا ہو۔
اس کے ہاتھ میں بھی ویسا ہی کافی کا کپ تھا جیسا اسنے تھاما ہوا تھا۔
وہ اسے نہ جانتی ہوتی اور یہ اس جگہ کے علاوہ کوئی اور جگہ ہوتی تو ضرور اپنا پیچھا کرنے کا الزام اس پر دھر دیتی۔
کہاں پانچ سال ایک دوسرے کی شکل نہیں دیکھی تھی اور کہاں ایک ہی ماہ میں دو بار۔
لیکن یہ جگہ، اس سے انسیت اس اکیلی ہی کو نہیں تھی اس پر مقابل بھی اتنا ہی حق رکھتا تھا۔
یادیں انکا مشترکہ اثاثہ تھیں۔
آج اسے وہاں دیکھ کر رومی کی سرزمین پر غالب آنے والی کیفیت دوبارہ نہیں طاری ہوئی تھی۔
پہلی اور دوسری بار کا فرق۔
لاشعور کے پنہاں خانوں میں کہیں یہاں آئے دن آتے ہوئے خود سے بھی پوشیدہ ایک خواہش اس ٹکراو کی تھی۔
وہ ایک ہی شہر میں تھے، یہ ایک حقیقیت بہت سی بےضرر مگر خطرناک تمناوں کی آبیاری کو کافی تھی۔
اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ زید کے ہونٹوں کے خط تبسم میں ڈھلے۔۔ وہی اسی ایک کے لیے مخصوص آنکھوں میں روئی سی نرمی لیے محبت میں گندھی مسکراہٹ۔
وہ جان گیا تھا یہ مام کا منصوبہ ہے، وہ چاہ کر بھی ان پر غصہ نہیں کر پایا۔
وہ آج بھی یہاں آتی تھیں اس بات نے اسے مسکرانے پر مجبور کر دیا تھا۔
یہ کیسا قطع تعلق تھا جو اس کے وجود کے علاوہ اس کی ذات سے جڑی باقی کسی شئے سے نہیں کر پائی تھیں وہ۔
ہمیشہ پیچھے مڑ کر دیکھنے پر ہی انسان پتھر کا نہیں ہوتا کبھی کبھار ماضی ناک کی سیدھ میں چلنے والوں کے سامنے بھی آجاتا ہے۔
انسان کو سنگ میں بدلنے کے طلسم پر بعض مسکراہٹیں بھی قادر ہوتی ہیں، بعض چہرے بھی، بعض آنکھیں بھی۔
وہ اپنے اندر خود سے چھڑی بغاوت دباتی وہاں سے جانے کو وحشت زدہ سی پلٹی کہ قدموں سے ایک نظم کے مصرعے لپٹے۔
"یہ جو تم مجھ سے گریزاں ہو میری بات سنو"
زید کی آواز میں سوز تھا اور لہجے میں التجا۔
" ہم اسی چھوٹی سی دنیا کے کسی رستے پر
اتفاقاً بھولے سے کبھی مل جائیں"
یہ نظم پچھلی بار اسے دیکھ کر یاد آئی تھی آج نوک زبان پر اسکے رخ موڑنے پر اسے روکنے کو بے اختیار آئی۔
" کیا ہی اچھا ہو ہم دوسرے لوگوں کی طرح
کچھ تکلف سے سہی ٹھہر کر کچھ بات کریں"
اسکے لفظ ریشم کی ڈوری سے آہنی زنجیر بنے۔
وہ جا نہیں پائی۔ ایک بار یہ کرنے کے لئے اسنے پہاڑوں سا حوصلہ جوڑا تھا۔
کچھ تکلف سے ٹھہر کر بات کرنے میں ہرج ہی کیا تھا؟
ہر شئے کے باوجود، ہر چیز کے بعد کیا وہ چند لمحے کھڑے اس کی بات نہیں سن سکتی تھی؟
کیا وہ اتنا حق بھی نہیں رکھتا تھا؟
کیا وہ خود زندگی پر اتنا حق بھی نہیں رکھتی تھی؟
وہ کافی کے کپ پر ہاتھ کا دباو بڑھاتے پلٹی۔
وہ کب تک حیات اپنے کئے فیصلوں کے آسیبوں سے بھاگتے گزارے گی۔
" مجھے لگا تھا پاکستان چھوڑنے کے بعد تمھیں بچی کچھی اردو بھی بھول چکی ہو گی"
جملہ ویسا تھا جیسے مکالمے انکے درمیان ہوا کرتے تھے لہجے کی نمی بتاتی تھی ان مکالموں کو ہوئے صدیاں بیتی ہیں، زمانے گزرے ہیں۔
" آپ کے بعد آپ کے بہت سے مشاغل میں آپ کو ڈھونڈا ہے، اردو بھی ان میں سے ایک تھی"
وہ اسکی مصرعوں میں لپٹی گزارش پر ٹھہر گئی تھی۔
زید کی مسکراہٹ نے ہونٹوں کی حدود پار کر کے چہرے کا احاطہ کیا۔
" یہاں روز آتی ہیں آپ؟"
اگر مام نے اس پر نظر رکھوا کر اسے اس جگہ، اس وقت ڈھونڈ نکالا تھا تو اس کا مطلب تھا یہ جگہ اسکی روٹین کا حصہ تھی، کیونکہ مام کل شام سے ہی لانگ ڈرائیو پر جانے کے متعلق بات کر رہیں تھیں۔
" اکثر۔۔"
وہ اس شہر میں اس ایک جگہ کے سوا کہیں گئی ہی نہیں تھی۔
" اور تم؟"
یک لفظی جواب کے بعد اسنے ٹھہر کر دو لفظی سوال کیا۔
اس ایک شخص کے ساتھ تکلف تکلیف دہ تھا۔
" کبھی نہیں۔۔"
زید کے انداز میں قطیعیت تھی۔
وہ آج بھی یہاں لایا نہ گیا ہوتا تو پورا شہر چھوڑ کر کم از کم اس ایک جگہ مر کر بھی نہ آتا۔
اور پھر دونوں کے مابین گہری خاموشی حائل ہوئی۔
وقت نے جملوں کے درمیان گہری کھائی کھودی تھی جسے وہ دونوں ہی پاٹ نہیں پا رہے تھے۔
کہنے کو اتنا کچھ تھا پر۔۔
" پلٹزر (Pulitzer، international award in journalism) کے لئے مبارک۔۔"
اسکی مبارک شکوہ کناں تھی۔
وہ حق رکھتا تھا کہ خوشی سے اسکی کامیابی پر چلا چلا کر ساری دنیا اکھٹی کر لیتا۔ خدائی میں اتنی مٹھاس بانٹتا جتنی ازل سے آج تک قدرت سے کشید کی گئی ہے لیکن اسکے ہاتھ ایسے باندھے گئے تھے کہ وہ اسے بھی یہ مبارک سالوں بعد دے رہا تھا کسی اجنبی کی طرح محض سلسلہ کلام جاری رکھنے کی خاطر۔
" تمھیں پتا چلا۔۔"
منیزے کے سرسری سے انداز میں خوشگوار سی حیرت کسی راز کی سی پوشیدہ تھی۔
اور اس عرصہ اخلاق و مروت میں کبھی۔۔
"ظاہر ہے"
زید کی محبت کوئی راز تھوڑا ہی تھی۔ وہ آج بھی اس کا علان اپنے ہر جملے سے کرتا تھا۔
" کیرئیر کیسا جا رہا ہے؟"
اسنے اسکے اعلان سے دامن بچایا، وہ یوں بھی بڑے ضبط سے کٹھورپن کا یہ ملمعہ چڑھائے کھڑی تھی۔
" آپ نہیں جانتیں؟"
ایک آس تھی کہ وہ بھی اس سے باخبر رہی ہوگی۔
ایک پل کے لئے وہ ساعت نازک آ جائے۔۔
" تمھارا پروفیشن میرے جتنا پبلک نہیں ہے۔۔"
بہت بے دردی سے اسنے اسکی اس موہوم سی آس کا گلا گھونٹا۔
شکایت تو اسکی بھی بنتی تھی اسنے کیسے خود کو گم کر لیا تھا۔ کون جانتا تھا اسنے یہ ایک نام گوگل کے سرچ بار پر کتنی دفعہ لکھا تھا، کتنی دفعہ اسے تلاشا تھا۔
" اور آپ میرے جتنی کیورئیس curious بھی نہیں ہیں"
اسکے الفاظ کی مایوسی نے منیزے کے دل کو پچھتاوں کے یخ پانیوں میں ڈبویا۔
ناخن لفظ کسی یاد کے زخموں کو چھوئے۔۔
" ایسا ہی کچھ۔۔"
دل پر ہاتھ رکھ کر اسے ایک اور غوطہ دیتے اسنے تائید کی۔
" اب واپس انقرہ جانا ہے؟"
وہ مزید ایسی سنگدلانہ تائید سہار نہیں سکا لہذا بات بدل گیا۔
" نہیں۔۔ شاید افغانستان۔۔ ایک اور چینل سے بھی آفر ہے نیوز پروڈکشن کی۔۔ دیکھوں۔۔"
منیزے نے قصداً نہیں بتایا دوسری آفر ایک امریکن چینل سے ڈی سی جانے کی ہے۔
" افغانستان نہیں منیزے۔۔"
دل خوف سے لمحے بھر کو رکا، وہ اس ملک کے نام کے آگے اس کی بات سن ہی نہیں پایا تھا۔
" سب صحافی جا رہے ہیں یہاں سے، نیا ٹرینڈ ہے۔۔"
اسنے زید کی بات کو غیر سنجیدگی سے رفع کیا جیسے کوئی بڑی بات نہ ہو۔ زندگی موت کا سوال نہ ہو۔
" وہ پاکستانی چینلز کے نمائیندے ہیں انکا نریٹو narrative مختلف ہے، آپ۔۔ آپ پلیز نہیں۔۔"
پاکستان کے پرو طالبان صحافیوں اور الجزیرہ کے بیانیے میں اختلاف تھا۔ یہ اختلاف اس ملک میں مرگ و حیات کےمعاملات طے کرتا تھا۔
اسے افغان بارڈر پر مارے جانے والے اس انڈین صحافی کا چہرہ یاد آیا۔
" چار سال مڈل ایسٹ کوور کیا ہے۔۔ مجھے عادت ہے۔۔"
موت نامی اس خوف سے تو اسنے خود کو کب کا آزاد کر لیا تھا۔
" مجھے نہیں ہوتی عادت، ان چار سالوں میں ایک رات بھی سکون سے نہیں سویا ہوں میں"
اس کی آواز تر اور لرزش آمیز تھی، منت کی سی۔
وہ اسکی جان دنیا میں انسانوں کی بنائی ان جہنموں میں ایک دفعہ بھی اسکا سوچے بنا جھونکتی آئی تھی۔
" تمھیں سو جانا چاہئے تھا اور آگے بڑھ جانا چاہیے تھا، اپنے والدین کو کیوں ہلکان کیے ہوئے ہو۔۔"
منیزے نے اسکے خوف، التجا اور فکر کا ذکر سمیٹا۔ یہ کھاتے دوبارہ کھولنے ہوتے تو پانچ سال قبل بند ہی کیوں کیے جاتے۔
" میں تو گون کیس gone case تھا۔۔۔ آپ اتنی پریکٹکل ہو کر بھی آگے نہیں بڑھ پائیں۔۔"
وہ اسکے بات سمیٹنے پر ہنسا، جرح جیسا وہی سوال منیزے سے کیا۔
" میں بڑھ گئی ہوں، سنگل رہنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں اب بھی وہیں کھڑی ہوں۔۔"
اک جھجکتا ہوا جملہ کوئی دکھ دے جائے۔۔
" اچھا"
زید کا اس کے ہاتھ میں پکڑے کافی کے ڈسپوزیبل کپ کو دیکھتے ادا ہوا جملہ مذاق اڑاتا سا تھا کہ کیا واقعی؟
کپ پر منیزے کے ایم کے نیچے انگلیوں کی درزوں سے فاروق کے ایف کے بجائے زید کا زیڈ جھانک رہا تھا۔
منیزے نے اسکی نظروں کا ارتکاز محسوس کرتے فوراً کپ پیچھے کیا۔ اف!
" مجھے دیر ہو رہی ہے۔۔ ہمیں دوبارہ نہیں ملنا چاہیے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔تمھاری زندگی تم سے ہے اسے مجھ پر ختم مت کرو۔۔ اپنی مام کی بات مان لو۔۔ اپنا بہت خیال رکھنا۔۔"
وہ جلدی جلدی کہتی کپ کو مضبوطی سے ہاتھ میں بھینچتی جانے کے لئے مڑی۔
سنڈریلا کے بارہ بج چکے تھے وہ ایک لمحہ مزید وہاں رکتی تو شہزادے کے سامنے اسکا اصل عیاں ہونے سے کوئی فیری گاڈ مدر نہیں روک پاتی۔
" مام کہتی ہیں آپ کو واپس لے آوں۔۔"
وہ دل کے علاوہ مام کی ہی مان کر وہاں کھڑا تھا۔
وہ ان سنا کر کے اسکی طرف پیٹھ کیے مخالف سمٹ بڑھی۔
" مت جائیے منیزے، پھر سے نہیں، اب نہیں۔۔"
وہ خود سے کیا، اس سے کیا ہر وعدہ بھلا کر اسکے پیچھے لپکا۔
اسے آواز دی۔
التجا کی۔
وہ ان آوازوں پر کان لپیٹ کر آگے بڑھ جاتی اگر اسکا ہاتھ زید عقب سے پکڑ کر اسے مزید دور جانے سے روک نہ لیتا تو۔
کون جانے گا کہ ہم دونوں پہ کیا بیتی ہے؟
♤♤♤♤