" تم اگر واقعی اتنے ہی سنجیدہ ہو تو خود ابا سے بات کرنے کے بجائے اپنے پیرنٹس کو بھیجو۔۔"
سابقہ انداز میں اسنے کچھ ایسا کہا جس کے معنی مقابل کا جہاں بدلنے پر قادر تھے۔
چند لمحے لگے اس یقین کرنے میں اور اس سے زیادہ ردعمل دینے میں۔
" آپ۔۔۔آپ سچ کہہ رہی ہیں؟"
جب گویا ہوا تو الفاظ میں بے یقین سی لرزش تھی۔
" میں دوبارہ نہیں دوہراوں گی زید۔۔"
منیزے اب بھی سپاٹ سا کہہ رہی تھی۔
زید کو اسکے الفاظ کے بعد اسکے لہجے سے فرق نہیں پڑا تھا۔
" آئی کانٹ بلیو۔۔ مائی گاڈ۔۔ آپ ہاں کہہ رہی ہیں۔ میں۔۔ میں بات کرتا ہوں مام ڈیڈ سے۔۔ مجھے یقین نہیں آرہا، آئی تھاٹ میں نے کھو دیا آپ کو"
آواز میں بے یقینی اب خوشی کی کپکپاہٹ میں بدلی۔
" میں آپ پر مجھے انکار تک نہ کرنے پر غصہ تھا اور آپ مجھے ہاں کہہ رہی ہیں"
وہ اسے خاموشی سے سن رہی تھی۔
" ایک فوری کمٹمنٹ میرے بہت سے مسائل حل کر سکتی ہے، میرے پاس وقت اور آپشنز دونوں نہیں ہیں، ابا کے پسندیدہ ہو تم، تمھارے ساتھ ہوں گی تو وہ مطمعین ہوکر آپریٹ کرائیں گے، اور بھی کچھ ریزنز ہیں، مل کر ڈسکس کر لیتے ہیں، تمھیں اندھیرے میں نہیں رکھنا چاہتی ہوں۔۔"
ایک گہری سانس اندر کھینچتے اسنے اپنی وجوہات بتانا چاہیں۔
" مجھے نہیں سننے ریزنز یو آر سیئنگ یس میرے لئے اٹس مور دین انف۔۔"
جنھیں سننے میں اگلے کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
" مجھے برا لگ رہا ہے، تمھیں استعمال کر رہی ہوں۔۔ تم یہ ڈیزرو نہیں کرتے تھے"
اسنے افسوس سے سر جھٹکتے کہا۔
زید کی خوشی نے مزید مجرم کیا۔ بہت سے تحفظات کے باوجود پہلی بار وہ اسکے جذبوں کی سچائی جھٹلا نہیں پائی تھی۔
" میں واقعی آپ کو ڈیزرو نہیں کرتا۔۔ آئی کانٹ بلیو۔۔ اتنا لکی کیسے ہوگیا میں؟"
وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں کہہ رہا تھا۔
اسکی ایک ہاں کے بعد باقی الفاظ کے معنی وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔
" فی الحال صرف ایک آفیشل کمٹمنٹ اور بس۔"
منیزے نے اب کہ ذرا سختی سے اپنی بات دہرائی کیونکہ اسے لگ رہا تھا وہ سن نہیں رہا۔
وہ اسے ہاں کہہ رہی تھی یہ سوچ کر کہ اگلے ایک عاد سال میں جہاں اسے یہ ایک سہولت ملنی تھی کہ وہ اپنے مسائل سے نبٹ لے وہاں زید کو بھی یہ موقع ملتا کہ وہ اپنے جذبات کے کھرے پن کو پرکھ لے۔
وہ کھوٹے نکلیں تو راستہ جب چاہے جدا ہو سکتا تھا۔
" جیسے آپ کہیں، جو آپ کہیں"
وہ سن رہا تھا بس اسے فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
وہ چپ ہوئیز کیا کہتی؟
"تھینک یو منیزے، بہت شکریہ"
اسکے الفاظ کے ساتھ ساتھ اسے اسکی خاموشی بھی محسوس نہیں ہوئی۔
فون کاٹنےسے پہلے زید کا تشکر بھرا جملہ کان میں پڑا۔
♤♤♤♤♤
وہ فون ہاتھ میں لیے ابراہیم حسین کے نمبر سے موصول ہونے والا پیغام دیکھ رہا تھا۔
وہ اسے اپنے کمرے میں آنے کو کہہ رہے تھے۔
لبوں پر زبان پھیرتے انھیں تر کرتے وہ جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔
انکا اپنے کمرے میں بلانے کا بچپن سے یہی مطلب ہوتا تھا کہ اس سے غلطی ہوئی ہے اور اب باپ کے سامنے عدالت لگنی تھی جہاں جرح اور فیصلہ دونوں وہی کرتے۔
اسنے صبح کسی وقت مام سے بات کی تھی اور انکے چہرے کا شاک اور بدلتی رنگنت بتاتی تھی کہ حالات اچھے نہیں ہیں۔
وہ دستک دیتا کمرے میں داخل ہوا۔
ایک نظر اسٹڈی کے دروازے کی درز سے آتی روشنی کو دیکھا اور خاموشی سے کاوچ پر بیٹھ گیا۔
ڈیڈ ہمیشہ اسے یہاں بیٹھ کر انتظار کرواتے تھے۔ شاید اپنی سوچیں اور دلائل یکجا کرنے کا موقع دیتے تھے۔
ڈاکٹر سعدیہ پلنگ پاوں لٹکائے لیپ ٹاپ کھولیں بیٹھی تھیں۔
اس طرح کی پیشیوں پر انکا کردار ہمیشہ سے خاموش تماشائی کا ہوتا تھا۔ لیکن آج سے پہلے انکا رویہ اس قدر حوصلہ شکن کبھی نہیں رہا تھا۔
وہ چپ رہ کر بھی ہمیشہ اسی کا ساتھ دیتی تھیں۔
انھیں صدمہ اسکا پروپوزل لے کر کسی کے گھر جانے کی بات سے زیادہ منیزے کے نام پر ہوا تھا۔
منیزے سے جن حالات میں انکی پہلی ملاقات ہوئی تھی وہ بھول نہیں پائیں تھیں اب تک۔
دس پندرہ منٹ کے بعد ابراہیم اسے دیکھتے کمرے میں داخل ہوئے۔
"کیا پیغام بھجوایا ہے اپنی مام کے ساتھ؟"
وہ بیٹھے نہیں۔ وہ بیٹھا نہیں کرتے تھے۔ یہ معمول تھا۔
" پیغام نہیں بجھوایا صرف بات کی تھی ان سے"
ایک بار پھر خشک لبوں کو زباں پھیر کر تر کیا۔
" تو مجھ سے بھی کرنی چاہیئے تھی"
وہ دائیں سے بائیں ٹھہلتے ایک لمحے کو رکے۔
" کرنی تھی۔۔"
زید نے سر جھکائے کہا۔
منیزے اگر اسے یوں مجرموں سا سر جھکائے بیٹھے دیکھتی تو شاید ڈیڈ کو منانے کی نوبت ہی نہ آتی وہ خود منع کر دیتی۔
" کرو۔۔"
وہ اب ہاتھ باندھے عین اسکے سامنے کھڑے ہوئے۔
" منیزے اچھی لگتی ہیں مجھے، میں نے انھیں پروپوز کیا تو شی سیڈ کہ اگر میں سیرئیس ہوں تو آپ کے تھرو انکے فادر سے بات کروں۔۔"
اب کے اسنے سر اٹھا کر ٹھوس انداز میں کہا۔
اس سے پہلے یہ پیشیاں اسکی غلطیوں پر لگتی تھی آج اسکی کوئی غلطی نہیں تھی تو وہ کیوں سر جھکائے بیٹھا تھا۔
"تو تم ہو سیرئیس؟"
اس ایک سوال کا وہ کتنی بار جواب دے۔
پہلے منیزے اب ڈیڈ۔۔ وہ کیا شکل سے اتنا غیر سنجیدہ لگتا تھا؟
" یس۔"
اسکی آواز مضبوط تھی۔
" کیوں؟"
"جی؟"
انکے اگلے سوال پر وہ گڑبڑایا۔
کیوں سنجیدہ ہے یہ تو اسنے کبھی نہیں سوچا تھا۔ ڈیڈ ایسے ہی سوال کرتے تھے۔
" تم نے تو ابھی پروفیشنل لائف شروع بھی نہیں کی اور تم چاہ رہے ہو ہم تمھارا پروپوزل لے کر جائیں۔۔کس بنیاد پر؟ کس منہ سے؟"
انھوں نے اسکی حیثیت منہ پر مارنے والے انداز میں جتائی۔
انھوں نے اسے کبھی بھی خاندانی مرتبے کے زعم میں نہیں رہنے دیا تھا۔
" منیزے فائنانشلی انڈیپنڈنٹ ہیں۔۔انھیں میرے پروفیشنل سٹیٹس سے فرق نہیں پڑتا، انھیں رشتے کے نام پر فائنانشل سیکیورٹی نہیں چاہئے اور میرے کیرئیر، سٹیٹس ہر چیز سے ہٹ کر میں ایک فرد ہوں اور وہ مجھے جانتے ہیں۔۔ منیزے بھی اور انکے فادر بھی۔۔"
وہ کسی زعم میں تھا بھی نہیں۔ اسنے دلیل کےطور پر اپنی حیثیت کے مقابلے اپنی ہستی رکھی۔
" آئی نو آپ کو یہ سب جلدی لگ رہا، رشڈ۔۔ اٹس جسٹ۔۔ میں ویٹ کر سکتا ہوں۔۔ منیزے کا سوشل بیک گراوئنڈ۔۔ ان پر شادی کا پریشر ہے۔۔ اگر میں مزید ویٹ کرتا تو انھیں کھو دیتا۔۔ میں صرف چاہ رہا ہوں آپ لوگ جا کر ان لوگوں سے بات کر لیں۔۔ جسٹ ٹو میک تھنگز آفیشل اور بس"
وہ سمجھ رہا تھا ڈیڈ ک کیا اعتراضات ہو سکتے ہیں۔ وہ اتنے غلط بھی نہیں تھے پر غلط وہ بھی نہیں تھا۔
وہ کر سکتا تو کر لیتا انتظار۔
" کتنا وقت ہوا ہے اس ریلشینشپ کو؟"
انھوں نے اگلا سوال کیا۔
"جی؟"
اب کہ وہ بھونچکا رہ گیا۔
" ایسا۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے، میں نے ڈائریکٹلی پروپوز کیا ہے انھیں۔۔"
اسنے فوراً سے پہلے انکا غلط گمان دور کرنا چاہا۔
" تو تم کہہ رہے ہو کہ منیزے نے بنا کسی ایموشنل انوالومنٹ کے تمھارا پروپوزل ایکسپٹ کیا ہے سوللی بیسڈ آن یور کریڈنشلز ؟"
وہ پر استہزا ہوئے۔
" جی۔۔"
وہ اور کیا جواب دیتا۔
" گڈ۔۔"
ابراہیم نے سر ہلایا۔
"جی؟"
وہ کب سے جی جی ہی کر رہا تھا۔ کبھی سوالیہ تو کبھی جواباً۔
" یہ ویک اینڈ ٹھیک رہے گا؟"
انھوں نے آخری سوال کیا۔ اس دفعہ وہ مسکرائے۔ زید کے جوابات نے انھیں مطمعین کیا تھا۔
" ڈیڈ۔۔"
" ابراہیم۔۔"
سعدیہ اور زید ایک ساتھ بے یقینی سے بول اٹھے۔
زید کی بے یقینی خوشی میں ڈھلی ہوئی تھی اور سعدیہ کی غصے اور صدمے میں۔
" آپ کہہ کیا رہیں ہیں؟"
سعدیہ کو لگا تھا وہ زید کو بعض رکھیں گے اپنے ارادوں سے پر یہاں تو۔۔
زید کھڑا ہو گیا، دو قدم چل کر باپ کی طرف بڑھا تو ابراہیم نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگا لیا۔
" یہی کہ آئی ایم پراوڈ کہ تمھیں لوگوں کی پرکھ ہے۔۔ تمھاری چوائس نے مجھے خوش سے زیادہ حیران کیا ہے، تم اتنے بڑے اتنے میچیور کب ہو گئے"
انھوں نے سعدیہ کو جواب زید سے مخاطب ہو کر دیا۔
" آپ اسے روکنے کے بجائے اسے شہہ دے رہے ہیں"
اب سعدیہ بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر انکی طرف بڑھیں۔
زید نے انھیں پریشانی سے دیکھا۔
اسے سب سے مشکل محاز منیزے اور ڈیڈ لگے تھے اور وہ دونوں ہی اتنی آسانی سے مان گئے تھے اور مام جن پر وہ تکیہ کیے ہوئے تھا وہ ایسا ردعمل دے رہی تھیں۔
ابراہیم نے اسے آنکھ کے اشارے سے تسلی دیتے کہ وہ سنبھال لیں گے جانے کا کہا۔
" شہہ نہیں دے رہا ہوں صحیح فیصلے پر سراہ رہا ہوں۔۔"
زید چلا گیا تو انہوں نے سعدیہ کو مخاطب کیا۔
" اس میں صحیح کیا ہے؟ وہ لڑکی، وہ بہت مختلف ہے، ان دونوں کے۔۔"
وہ طبقہ کہتے کہتے رکیں، جانتیں تھیں شوہر یہ تفریق پسند نہیں کرتے، لفظ بدلے،
"۔۔کی دنیاوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔ مجھے تو وہ بطور اسکی دوست بھی ہضم نہیں ہوتی تھی۔"
" ایسا بھی کوئی فرق نہیں ہے وہ کسی بھی طبقے کی ہو وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ اسے اپنے خاندان کا حصہ بنا پانا خوش نصیبی ہے"
ڈاکٹر ابراہیم نے انکے اعتراضات رد کئے۔
" آپ سمجھ کیوں نہیں رہے زید تو ناسمجھ ہے اگر وہ سوشل کلائمبر نکلی تو؟"
اب وہ انکے سامنے کھڑی بے بسی سے کہہ رہی تھیں۔
انھیں بہت سے خدشے تھے۔
وہ انکے زید کے لیے لائف پاٹنر کے طور پر گھڑے گئے کسی بھی سانچے میں ٹھیک نہیں بیٹھتی تھی۔
" وہ سوشل کلائمبر ہوتی تو پچھلے چند سالوں میں آپ کی دی ہوئی ان گنت پارٹیز میں سے زید کے اتنے اسرار پر کم از کم آدھی پر تو ضرور آتی۔۔ وہ تو آپ کے گھر، آپ کے سوشل سٹیٹس، آپ کے پیسے کی طرف دوسری نگاہ ڈالنا بھی پسند نہیں کرتی۔۔"
انہوں نے افسوس سے منیزے کا دفع کیا۔
" چلیں مان لیا پر عمروں کا فرق؟ وہ بڑی ہے زید سے۔۔"
انہوں نے دوسرا نکتہ اٹھایا۔ ایک مسئلہ تھوڑی تھا۔
" آپ بھی مجھ سے چھے سال چھوٹی ہیں، اس سے ہماری شادی پر کیا فرق آیا ہے؟"
یہ اعتراض بھی تحمل سے سوال کی صورت رد ہوا۔
" اپنے بیٹے کی پسند پر بھروسہ کریں۔۔ اسے خود فیصلہ کرنے دیں۔۔ وہ ٹین ایجر نہیں رہا کہ ہم اسکے لیے اسکا سرکل اپروو کریں۔"
وہ اب انھیں نرمی سے بازو سے تھامیں سمجھانے کے انداز میں قائل کر رہے تھے۔
سعدیہ نے اپنے بازو پر موجود انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔
انھیں سو اعتراض سہی پر وہ جانتی تھیں کہ ابراہیم زید کے کیے غلط فیصلہ نہیں کریں گے۔ اس اعتماد نے ہی انھیں شوہر کے پرورش کے کڑے اصولوں پر بیٹے سے اس قدر محبت کے باوجود سوال نہیں کرنے دیا تھا۔
ابرہیم انکے قائل ہو جانے ہر مسکرا دیے۔
وہ لڑکی جس کی آنکھوں میں کچھ کر گزرنے کی آگ تھی۔ اسکے مضبوط اصول اور بلند اخلاق۔ جو انکے بیٹے کو اس سے جڑی دولت، رتبے سے ہٹ کر دیکھتی تھی۔ جو اسکی زندگی میں نہایت مثبت اضافہ تھی۔ وہ اگر انکے خاندان کا فرد بننے پر رضامند تھی تو وہ کیوں خوش نہ ہوتے؟
♤♤♤♤♤♤♤
" ہے!"
زید نے ایک پوری رات اپنی خوش قسمتی پر یقین کرنے کی کامیاب کوشش کے بعد اگلے دن اسے فون کیا تھا۔
" ہوں۔۔"
بہت مصروف سا ہوں ائیر پیس پر ابھرا۔
" آپ مصروف ہیں؟"
" نہیں بس۔۔ تم کہو"
تفصیل بتاتے بتاتے وہ رکی۔ پہلے سا کہاں سب رہا تھا۔
وہ کل کے شو کے لیے کی جانے والی ریسرچ کو ایک دفعہ مزید چیک کر رہی تھی۔ نوٹ پیڈ پر کچھ لکھتے اس سے بات بھی کر رہی تھی۔
" میں پوچھنا چاہ رہا تھا کہ مام ڈیڈ کب آئیں انکل سے ملنے؟"
وہ مصروف تھی، زید سیدھا موضوع پر آیا۔
جسکے جواب میں اسے طویل خاموشی سننے کو ملی۔
" منیزے؟"
اسنے یہ دیکھنے کے لئے کہ فون کٹ تو نہیں گیا اسے پکارا۔
" جب بھی وہ وقت نکال پائیں، ابا تو گھر پر ہی ہوتے ہیں۔۔"
اسنے بالآخر کہا۔ اب کچھ تو کہنا تھا۔
" ڈیڈ پوچھ رہے تھے اف اٹس اوکے تو اس ویک اینڈ پر آجائیں ہم؟"
" وہ کیسے مانے؟"
اسنے اسکے سوال کا جواب دینے کے بجائے سوال کیا۔
اسے نہیں لگ رہا تھا اسکے پیرنٹس اتنی آسانی سے مان جائیں گے۔
" ڈیڈ تو یو نو آپ کے کتنے بڑے فین ہیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی مجھے۔۔"
منیزے کا سوال اپنی جگہ ٹھیک ہی تھا۔
"اور مسز ابراہیم؟"
انکی منیزے کو لے کر ناپسندیدگی پہلی ملاقات سے کچھ خاص ڈھکی چھپی نہیں رہی تھی۔
" انھیں مسٹر ابراہیم نے منا لیا۔"
زید کا انداز ایسا تھا کہ اگر کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس پر ہنس دیتی۔
"سو دس ویک اینڈ دین؟"
اسنے پچھلا سوال دہرایا۔
" ہاں"
وہ یہی کہہ پائی۔
♤♤♤
" آپا، ابا مجھے سیرئیس ہی نہیں لے رہے، ہر دفعہ جان کر ہار جاتے ہیں، میں بچہ تو نہیں ہوں۔۔ آپ آئیں اور بلکل لحاظ مت کیجئے گا میرا۔۔"
وہ ابا سے بات کرنے آئی تھی۔ احد اور انھیں انکی پلنگ پر ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے شطرنج کی بساط بچھائے دیکھ دروازے پر ہی رک گئی۔
ابا نے اسے دیکھا تو احد نے بھی گردن موڑی۔ اسے دیکھ کر دہائی کے انداز میں باپ کی شکایت کی اور ساتھ اسکے بیٹھنے کے لیے کھسک کر جگہ بنائی۔
" دیر ہوگئی ہے احد، سو جاو اب، یہاں روٹین خراب کر لیتے ہو اور وہاں جاکر پورا ہفتہ ٹائم پر نہ اٹھ پانے پر ڈانٹ کھاتے ہو۔۔"
منیزے کا انداز بتاتا تھا اسے کوئی ضروری بات کرنی تھی، فاروق نے احد کو بھیجنا مناسب سمجھا۔
" ابا بارہ بھی ابھی بجے ہیں۔۔"
اسنے احتجاج کیا۔
" نو بجے سونے والوں کے لئے بارہ بہت سے بھی زیادہ دیر ہے۔"
" چلیں شب بخیر۔۔ شب بخیر آپا"
ابا کی بات پر وہ کچھ کہتے کہتے رکا۔
وہ ٹھیک کہہ رہے تھے اسے ہفتہ نہیں مہینہ بھر ڈانٹ سننے کو ملتی تھی۔
وہ بورڈ سمیٹت کر سونے کے لئے اٹھ گیا۔
وہ احد کی چھوڑی ہوئی جگہ پر آبیٹھی۔
" زید اپنے پیرنٹس کو لانا چاہ رہا ہے۔۔ اسنے پروپوز کیا تھا، میں نے ہاں کر دی۔۔"
کچھ لمحے سوچتے ہوئے جملہ ترتیب دیا۔
" قائل کر ہی لیا اسنے تمھیں۔۔"
وہ ہنس دیے۔
منیزے کا منہ انکے باخبر ہونے پر حیرت سے کھلا۔
" آنکھیں رکھتا ہوں، ہاسپٹل میں ماحول کا تناو ایسا کچھ ڈھکا چھپا بھی نہیں تھا۔"
انھوں نے بڑھ کر اسکی تھوڑی کے نیچے نرم سا دباو ڈالتے اسکا حیرت سے کھلا منہ بند کیا۔
اسکے انداز پر انھیں اٹھ سالہ منیزے یاد آئی جو حیران ہونے پر یوں ہی لب وا کئے انھیں تکتی تھی۔
" تناو تو کسی بھی سبب ہو سکتا ہے۔۔"
ابا اسے کس قدر جانتے تھے۔ اسکی بات پر وہ مسکرائے۔
" میں نے ٹھیک کیا؟"
اسنے پوچھا۔
" یہ تو اس بات پر منحصر ہے کہ تم نے کیا سوچ کر کیا۔۔"
وہ اسکے خیالات پرھ سکتے ہوں جیسے۔
" اسے جانتی ہوں میں۔۔اچھا انسان ہے۔۔ سینسئیر۔۔ ریلائی کیا جا سکتا ہے اس پر"
وہ سوچتے ہوئے ٹھہر ٹھہر کر کہہ رہی تھی۔
" تو بہت ہی کوئی سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا گیا ہے جمع تفریق کے بعد۔۔"
کاش وہ کہہ دیتی اس لیے کیونکہ اسکا دل آمادہ تھا یا اس لئے کیونکہ اس میں اس کی خوشی تھی۔
" مجھے بہت پیارا ہے وہ، قدر کرنا اسکی۔۔"
انھوں نے اپنی رضامندی کا اظہار اچھوتے انداز میں کیا۔
وی جانتی تھی وہ انکار نہیں کریں گے۔
وہ ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ وہ اپنے فیصلے خود لے۔
" یہ آپ کو اصولاً اسے کہنا چاہئے نہیں؟"
وہ یاسیت سے مسکرائی۔
" اسے کیا کہوں۔۔ محبت کرنے والے ناقدرے نہیں ہوتے"
انہوں نے اسے پھر حیران کیا۔
" کب آرہے ہیں وہ لوگ؟"
" ویک اینڈ تک۔۔ اور فی الحال صرف آپ لوگ مل کر بات طے کر لیجئے گا۔۔ ابھی زید کا فائنل ائیر رہتا ہے پھر ہاوس جاب تب تک آپ بھی ٹھیک ہو جائیں گے، علیزے احد۔۔"
وہ اسے ٹوکے بنا نہیں رہ سکے۔
" حساب کتاب سے نکل بھی آیا کرو کبھی، مجھے خوش تو ہو لینے دو ٹھیک سے۔۔"
وہ اسکے فیصلے پر خوش تھے۔
منیزے کے طرز خیال کو لے کر ہزار خدشے سہی پر انھیں زید کی طرف سے اطمعنان تھا۔ وہ لڑکا انکی بیٹی سے ویسی ہی احترام بھری محبت کرتا تھا جیسا کہ انکی خواہش تھی کہ انکے علاوہ کوئی کرے اور یہ اس کے ہر انداز سے عیاں تھا۔
چند مزید باتیں کر کے وہ اٹھ گئی تھی۔
وہ اسے جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
کتنی بڑی ہو گئی تھی وہ باپ کو من پسند ذائقے کا لالی پاپ تھما کر مطمعین کرنا چاہ رہی تھی۔
♤♤♤♤♤♤♤
اتوار کو عصر کے بعد برآمدے کا منظر پر رونق سا تھا۔ دو کمروں کے دروازوں کے درمیان پڑے تخت پر فاروق احمد اور زید بیٹھے تھے، انکے مقابل بچھی کرسیوں پر سعدیہ اور ابراہیم حسین اور بائیں طرف موجود موڑھوں پر منیزے اور ہاجرہ۔
درمیان میں موجود ٹیبل پر ہاجرہ اور علیزے کے بنائے کئی قسم کے پکوان رکھے تھے، شامی کباب، دہی بھلے، چاٹ، سموسے۔
منیزے نے سختی سے کوئی بہت خرچا کرکے اہتمام کرنے سے سب کو روک دیا تھا۔ وہ چاہتی تھی وہ جیسے ہیں انھیں ویسے ہی نظر آئیں۔
ہاجرہ سے جو گھر پر بن پڑا اس حد تک چھوٹا موٹا اہتمام کر لیا تھا انہوں نے۔ گھر کی تفصیلی صفائی، تخت کا نیا پوش، کرسیوں کے کوور، دھلے ہوئے استری شدہ پردے، خاص موقعوں کے لیے خریدی گئی کراکری۔
وہ خوش تھیں کافی۔
منیزے سفید اور منٹ رنگ کے پرنڈڈ ٹراوزر شرٹ پر دوپٹہ مفلر کی طرح گردن کے گرد لپیٹے وہاں ایسے بیٹھی تھی جیسے آفس کی ان پچ میٹنگز پر بیٹھتی تھی جنکا ایجنڈا اور ٹائم سلاٹ دونوں سے اسکا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ جہاں اسکی موجودگی ایک فارمیلٹی ہوتی تھی کہ ریکارڈ میں رہے کہ پوری ٹیم کے باہمی اتفاق سے سب طے ہوا ہے۔ وقتاً فوقتاً کسی کو دیکھ کر مسکرا دینا، کسی ایسی بات پر جو وہ بے دھیانی میں سن نہیں پائی ہو سر ہلا دینا۔
لاتعلق سی، کسی حد تک بے نیاز۔
" اب اتنا بھی جلاد نہیں ہوں میں جتنا یہ پورٹرے کرتا ہے"
ابراہیم حسین، فاروق احمد کی اس بات پر کہ زید کی باتوں سے وہ انھیں بہت بارعب شخصیت لگے تھے کا جواب دیتے مسکراتے ہوئے شامی کباب کا آخری ٹکڑا اپنے منہ میں رکھ رہے تھے۔
اشارے سے سعدیہ کو بھی پلیٹ میں کچھ لینے کا کہا۔
سعدیہ انھیں دیکھ کر رہ گئیں۔
وہ کس قدر کھانے پینے میں پرہیز کرتے تھے اور اب شامی کباب کے بعد سموسہ پلیٹ میں رکھتے یوں محو گفتگو تھے جیسے یہاں روز بیٹھ کر یہ سب کھانے کے عادی ہوں۔
انہوں نے ایک نظر ہر چیز پر ڈال کر فروٹ چاٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
وہ فروٹ چاٹ چاٹ اپنی پلیٹ میں لیتے ہوئے منیزے کو دیکھ رہی تھیں۔
اسکے انداز پر غور کر رہی تھیں۔
وہ مطمعین سی وہاں بیٹھی تھی پر خوش۔۔ خوش نہیں لگ رہی تھی۔ چائے کا کپ تھامے ان سب کی باتیں سنتے جیسے اسکی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ نہ ہو رہا ہو کسی تیسرے کا ذکر ہو رہا ہو جسکا اس سے کوئی بہت گہرا تعلق نہ ہو۔
انھوں نے نظر پھیر کر فاروق احمد کے برابر میں بیٹھے اپنے بیٹے کو دیکھا جس کی نظر دہی بھلوں کی پلیٹ سے بھر پور انصاف کرتے ہوئے فاروق احمد کی بات پر ہنستے ہر چند لمحوں بعد منیزے کے چہرے کا غیر محسوس انداز میں طواف کر رہی تھی۔
اسکے چہرے پر خوشی کے خالص رنگوں کا رقص، منیزے کو لے کر سو ابہام ایک طرف اور زید کا چہرہ ایک طرف۔
انھوں نے ایک نظر پھر منیزے کو دیکھا، شاید اس دفعہ زید کی نظر سے دیکھنا چاہا۔
وہ خوش شکل تھی، سیاہ گھنگھریالے بال اور گندمی سپید رنگت، سیاہ آنکھوں کی مقناطیسیت، شستہ بااثر لب و لہجہ۔
انکے سرکل میں اکثر لوگوں سے صحافت کے موضوع پر اسکی تعریف سنی تھی انہوں نے۔ اور اس سب سے ہٹ کر بھی وہ زید کی مسکراہٹ میں خوشی کی یہ چھب دیکھنے کو منیزے کو کھلے دل سے قبول کر سکتی تھیں۔
اعصاب پر طاری تناو جھٹک کر وہ اس سارے عرصے میں پہلی دفعہ ہلکی ہو کر مسکرائیں۔
جو ہماری مرضی، ہماری پلیننگ کے مطابق نہ ہو ضروری تو نہیں کہ وہ غلط ہی ہو۔
سب طے ہو گیا تھا۔
اگلے ہفتے ایک چھوٹی سی منگنی کی رسم سعدیہ نے بصد اسرار رکھوائی تھی۔
منیزے کو اعتراض تھا، اس کے لیے آج کی یہ ملاقات ہی کافی تھی پر وہ اس خیال سے چپ رہی کہ جب وہ اسے خاص پسند نہ کرنے کے باوجود پورا کا پورا قبول کر سکتی ہیں تو وہ بھی ایک چھوٹی سی رسم تو کروا ہی سکتی ہے۔
" ڈاکٹر صاحب ایک درخواست تھی اگر آپ۔۔"
ابا کی بات نے منیزے کو بے نیاز نہیں رہنے دیا۔ سب طے ہو تو گیا تھا۔
اس نے انھیں دیکھا جو اس کی طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔
کچھ غلط تھا۔
" اب آپ رشتہ داری کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب کہہ کر درخواست جیسے الفاظ استعمال کریں گے تو کیسے چلے گا۔۔ آپ حکم کریں۔"
ڈاکٹر ابراہیم نے انھیں انکے انداز تخاطب پر ٹوکا۔
" منگنی کی رسم کے بجائے اگر اتنی ہی سادگی سے نکاح کر دیا جائے۔۔ باقی سب وہی جیسا مل کر طے ہوا ہے۔"
انکی بات پر سعدیہ نے حیرت سے بے اختیار انھیں دیکھا۔ زید اور منیزے نے صدمے سے ایک دوسرے کو اور ڈاکٹر ابراہیم نے گہری نظروں سے ان دونوں کو یوں شاک سے ایک دوسرے کو دیکھنے پر۔
فاروق احمد سب کے تاثرات سے نظریں چرائے ابراہیم کو دیکھتے اپنی بات رکھ چکے تھے۔
بچے کتنے بھی بڑے ہو جائیں اتنے بڑے نہیں ہوتے کہ ماں باپ اپنی اصل فکروں سے ہٹ کر ان کے دیے بہلاوں میں آجائیں، مطمعین ہو جائیں۔
♤♤♤♤♤