شام نے ہر روز کی طرح آج بھی آسمان کو اپنا کینوس سمجھ کر اس پر خوب رنگ بکھیرے تھے۔ یہ کبھی نہ واپس آنے کو ڈھلتے دن کے لیے شام کا الوداعی خراج تھا
جو وہ روز بنا تھکے اتنی ہی فراغ دلی سے پیش کرتی تھی۔
رات کی سیاہی میں لمحہ لمحہ ڈوبتے رنگوں سے مزین آسمان کے نیچے ترکی کے دارالحکومت انقرہ کا بین القوامی ائیرپورٹ واقع تھا، ایسنبوا حوالیمانی۔ جسکے ڈیوٹی فری ایریا میں موجود ایک بینچ پر وہ سیاہ ڈریس پینٹ اور نیلی شرٹ میں ملبوس کسی ماہانہ طبی رسالے کے مطالعے میں غرق تھا۔ کوٹ دائیں بازو پہ لٹک رہا تھا۔ سیاہی مائل بھورے بال جو بنا سیٹ کیے پیشانی پر بکھر جاتے تھے ویسے ہی جمے تھے جیسے صبح اسنے کانفرنس کے لیے اوپر کر کے ایک طرف سیٹ کیے تھے۔ بس ایک لٹ خود کو چھڑا کر اسکے سیاہ موٹے فریم کے ریڈنگ گلاسس کو چھو رہی تھی۔
چہرے پر سنجیدگی تھی اور نظروں میں گہرائی۔
آنکھوں کی پتلیوں میں بغور جھانکوں تو رسالے کے عکس کے بہت پیچھے بجھے ہوئے دیوں سی ٹھنڈک تھی۔
وہ اس سرزمین سے نامراد لوٹ رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ کسی امید کا دامن تھامے یہاں آیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہی ہونا ہے۔ پر جاننے اور جھیلنے میں فرق ہوتا ہے۔ یہی فرق اسے اپنے وجود کے بہت اندر کانچ سا چبھ رہا تھا۔
" زید، تم یقین نہیں کرو گے میں نے ابھی کس کو دیکھا ہے، اف، تم بھی کیا یاد کرو گے کہ علایہ عبید جیسی دوست ہے تمھاری" علایہ دس قدم دور سے شاپنگ بیگز اٹھائے بولتی ہوئی اس تک آئی۔
وہ فلائٹ سے تین گھنٹے پہلے کانفرنس سے سیدھا ائیر پورٹ آئے تھے کیونکہ علایہ نے ڈیوٹی فری سے اپنی فیملی کے لئے تحائف لینے تھے۔ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے یہاں بیٹھا علایہ کی شاپنگ ختم ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔ اسے کچھ نہیں لینا تھا کیونکہ مام ڈیڈ کے لیے سب سے بڑا تحفہ یہی تھا کہ وہ اس oncology کی بین الاقوامی کانفرنس میں melonoma کے علاج کے لئے ٹارگٹڈ اور ایمیونو تھیرپی پر اپنا پیپر پرزنٹ کرکے دس ماہ بعد گھر لوٹ رہا تھا۔
" اٹھو بھی، وہ چلی نہ جائیں کہیں"
علایہ نے اسے کہنی سے پکڑ کر زبردستی کھڑا کیا۔
وہ بھی زید کی طرح ہی فارمل اٹایر میں ملبوس تھی، سلک بلاوز اور ڈریس پینٹ، سیدھے گھور سیاہ بال کندھوں تک گول کٹے تھے۔ اسکے چہرے پر بچوں سی خوشی تھی۔
" کون چلی نہ جائے؟"
ایسا کون تھا جسے دیکھ کر وہ اتنی پر جوش تھی۔
"تم آو تو، سرپرائز ہے تمھارے لئے"
وہ جواب دینے کے بجائے اسے کھینچتے ہوئے اس موبائل اکسیسریز کی دکان میں لے گئی۔
وہ اب بھی علایہ کو دیکھتا ذرا بیزار سا اسکے ساتھ کھنچ رہا تھا۔ جب وہ وائر لیس چارجرز کے ریک کے قریب ایک دم رکی۔
" ایکسکیوزمی میم"
وہ رخ موڑے چارجرز دیکھتی اس لڑکی سے مخاطب ہوئی، جس نے جینز اور سرمئی اوور کورٹ پہنے، سیاہ گھنگریالے بالوں کو اونچے جوڑے میں باندھ رکھا تھا۔
وہ اسکے مخاطب کرنے پر مڑی تو زید جو علایہ کو کچھ کہتے واپس پلٹنا چاہتا تھا اس چہرے پر نظر پڑتے ہی کسی ماہر سنگ تراش کے بنائے مجسمے میں ڈھلا جس کے چہرے پر بے یقینی، شاک کے ملے جلے تاثرات میں حیرت زدہ سی خوشی کسی اوٹ سے جھانکتی محسوس ہوتی تھی۔
مقابل نے اسے نہیں دیکھا تھا اس کی توجہ علایہ پر تھی۔
"آئی ایم ایکسٹریملی سوری تو ڈسٹرب یو لائک دس، بٹ یہ میرا دوست ہے ناں زید یہ آپ کا بہت بڑا فین ہے"
اس پرجوش سی گڑیا جیسی لڑکی کے اشارہ کرنے پر اسنے اسکے ساتھ کھڑے دراز قامت شخص کو مسکرا کر نظر اٹھا کر دیکھا اور وہ بھی پتھر کی ہوئی۔
" ہم ڈاکٹرز ہیں، یہ ایکچولی میرا سینئر اینڈ اٹنڈنگ (attending) ہے پر ہم دوست بھی ہیں، یہ اپنی فیلڈ کے علاوہ اگر کچھ دیکھتا یا پڑھتا ہے تو وہ آپ کا شو اور آپ کے آرٹیکلز ہیں، اور ایسا تب سے ہے جب سے میں اسے جانتی ہوں، اسنے اپنے پیپر میں مجھے ایز آ کو آتھر(as a co-author) شامل کیا اور یہاں آکر مجھے انٹروڈکٹری پارٹ پریزنٹ کرنے دیا مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا میں اسے کیا تھینک یو گفٹ دوں اور دیکھیں آپ مل گئیں"
علایہ ان دونوں کی حالت سے بے خبر بولے جا رہی تھی۔
تو رومی کی سرزمین نے اسے نامراد نہیں لوٹایا تھا۔
اسنے اس کروڑوں کی آبادی والے ملک میں پچھلے تین دن غیر شعوری طور پر ہر چہرے پہ یہ نقش کھوجے تھے۔ سڑکوں پر چلتے ہوئے، کیفیز میں، سیاحتی مقامات پر، ہر بار اسکی نظر ناکام لوٹی تھی اور اب جب وہ ہمیشہ کی طرح شکست قبول کر کے لوٹ رہا تھا تب یوں قسمت نے اسے کھینچ کر اسکے سامنے لاکھڑا کیا تھا۔
وہ نظریں اٹھائے اس چہرے کو دیکھ رہی تھی جسے اسنے پانچ سال قبل دنیا کی بھیڑ میں گم ہو جانے دیا تھا۔ جسکے نظر سے اوجھل ہوجانے کے بعد ہر منظر اپنا رنگ کھوتا گیا۔ اسکی نظر اسکے چہرے سے ہوتی اسکے کوٹ تھامے بازو پر گئی۔ یہ وہ ہاتھ تھا جس سے اپنا ہاتھ اسنے خود چھڑایا تھا، جس کے بعد وہ آج تک کوئی اور ہاتھ نہیں تھام پائی تھی۔
وہ کتنا بدل گیا تھا۔ ہمہ وقت مسکراتے رہنے والے چہرے پر یہ سنجیدگی کس قدر اجنبی تاثر تھا۔ تراشیدہ ہلکی بڑھی شیو اور موٹے فریم کا وہ چشمہ اور پھر یہ فارمل تھری پیس۔
وہ ایسا کب ہوا کرتا تھا؟
اسے جینز ٹی شرٹ میں کھلنڈرا سا کلین شیوڈ زید یاد آیا۔ وہ اسے بھولا کب تھا۔ وہ جس کی آنکھیں مسلسل اسکے چہرے کا طواف کیا کرتی تھیں۔ وہ جو اسکے حوالے سے جانے جانے پر خوش ہوتا تھا، جو کہتا تھا اگر وہ چاہے تو وہ اپنے ماتھے پر منیزے فاورق کے نام کا ٹیگ لگا کر گھوم سکتا ہے۔
زید چند لمحوں کے اس شاک سے نکل آیا تھا، اسنے اسکے لب ہلتے دیکھے، اور حیاتِ نو کی نوید سی اس کی آواز نے اسکی سماعتوں کا نصف دہائی پر محیط بن باس تمام کیا۔ وہ کہہ رہا تھا،" کیسی ہیں آپ منیزے؟"
یہ آواز۔۔ دماغ کے کسی کونے میں وہ نمی میں گھلے الفاظ گونجے جو اسنے جانے سے قبل کہے تھے۔
" میں جا رہا ہوں منیزے، اس لیے نہیں کیونکہ میں نے ہار مان لی ہے یا میں تھک گیا ہوں، اس لیے کیونکہ یہ آپ کی خواہش ہے۔ آپ چاہیں تو گھر سے نکل سکتی ہیں میں آپ کا راستہ روکنے کے لیے اب موجود نہیں ہونگا، آپ چاہیں تو اپنا فون آن کر لیں، آپ کو میری طرف سے اب کوئی ان چاہا رابطہ نہیں برداشت کرنا پڑے گا"
یہ الفاظ زید نے اسکے گھر کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر کہے تھے اور اسنے دروازے کی دوسری طرف خاموش آنسو بہاتے سنے تھے۔
"زید۔۔"
یہ نام منیزے کے لبوں سے کسی عزیز تر ادھوری خواہش کی حسرت سا خارج ہوا۔
علایہ نے ٹھٹھک کر زید کو دیکھا، اسکا پر استہزا، پر حزن سا انداز اور اس اتنی بڑی آوارڈ وننگ جرنلسٹ کی آنکھوں میں ابھرتے سرخ ڈوروں کا جال۔
کچھ غلط تھا۔
وہ زید کو دی منیزے فاروق کا محض مداح سمجھی تھی۔ وہ اپنی ذاتیات کو لے کر اس قدر خود تک رہنے والا شخص تھا کہ اگلے کو اندازوں سے ہی کام چلانا پڑتا تھا۔
پھر اسنے زید کے منہ سے تو کبھی کوئی ذکر نہیں سنا تھا ہاں بس اسے خاموشی سے منیزے کا شو اور آرٹیکلز دیکھتے، پڑھتے ہی دیکھا تھا۔
علایہ اتنی تہذیب یافتہ تو تھی کہ دو لوگوں کو خود کو دوبارہ کمپوز کرنے کے لیے پراویسی فراہم کرے۔
وہ وہاں سے ہٹ گئی۔ باقی دونوں کو اس کے جانے کا احساس تک نہ ہوا۔
وہ منیزے کا مداح ضرور تھا، پر صرف مداح نہیں تھا۔
زید کی نظریں پہلے کی طرح آج بھی اسکے چہرے پر ٹکی تھیں۔ وہ آج بھی ویسی ہی تھی، خوبصورت، انٹیمیڈیٹنگ۔
تو کیا گزرے پانچ سال جس نے اس کی ذات میں اس قدر انقلاب پیدا کر دیے تھے کہ وہ اب خود بھی پہلے والے زید ابراہیم کو پہچان نہیں پاتا تھا، منیزے فاروق کو چھو کر بھی نہیں گزرے تھے؟ کیا ہجر اس اکیلے کو لاحق تھا؟
وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں گزرے سالوں کے نشان تلاشتے وہاں زمان و مکان کی ہر حد سے بالاتر ہوئے۔ مزید کوئی لفظ ایک دوسرے سے نہیں کہہ پائے۔
ایک زمانہ یوں ہی کھڑے کھڑے بیت جانے کے بعد منیزے نے نظریں چرائیں۔
زید کو اسکے پلکوں کی اس گریز آمیز جنبش سے اسی کی کسی گزری صدی کی پسندیدہ نظم کے چند مصرعے یاد آئے۔
یہ جو تم مجھ سے گریزاں ہو میری بات سنو
ہم اسی چھوٹی سی دنیا کے کسی رستے پر
اتفاقاً کبھی بھولے سے کہیں مل جائیں
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم دوسرے لوگوں کی طرح
کچھ تکلف سے سہی ٹھہر کے کچھ بات کریں
اور اس عرصۂ اخلاق و مروت میں کبھی
ایک پل کے لئے وہ ساعت نازک آ جائے
ناخن لفظ کسی یاد کے زخموں کو چھوئے
اک جھجکتا ہوا جملہ کوئی دکھ دے جائے
کون جانے گا کہ ہم دونوں پہ کیا بیتی ہے؟۔۔۔
بس وہی جانتے تھے کہ ان دونوں پہ کیا بیتی ہے۔۔
♤♤♤♤♤♤♤
وہ نظریں کھڑکی کے پار بادلوں پر ٹکائے ترکش ایئرلائنز کی انقرہ سے کراچی جانے والے فلائیٹ کے بزنس کلاس میں اپنی سیٹ پر بیٹھا تھا۔
چہرے پر اب تک گذشتہ ملاقات کا عکس تھا۔
گہرے دھیان میں وہ اب بھی سالوں بعد ہونے والی اس چند لمحوں کی ملاقات کو سوچ رہا تھا۔ وہ مکالمہ جو انکے درمیان ہوا اب بھی اسکی دماغ کی شریانوں میں گردش کر رہا تھا۔
آنکھیں اپنی سالوں کی تشنگی بجھنے پر جگمگاہٹ لیے تھیں۔ یہ ٹکراو انکی کہانی کا اختتامیہ تھا یا پھر ایک نئے قصے کا آغاز کون بتا سکتا تھا۔
وہ ساحر آنکھیں آج بھی دھڑکنوں میں تلاطم برپا کرنے پر قادر تھیں۔۔۔
پانچ سالوں میں کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔ دل اب بھی وہیں منیزے کے گھر کی دہلیز پر پڑا دھڑک رہا تھا جہاں اسنے اسے چھوڑ کر خود جلاوطنی قبول کی تھی۔
علایہ زید سے بات نہیں کر پائی تھی۔ اسے لگ رہا تھا جس ثانیے زید کی نظر منیزے پر پڑی تھی اس لمحے کی طلسمی خیزی نے اسے زید کے لئے غیر مرئی کر دیا تھا۔ وہ دس منٹوں کے بعد لوٹ کر اسی بینچ پر آکر بیٹھ گیا تھا۔ اور فلائیٹ کا وقت ہونے پر وہاں سے اٹھ کر یہاں آگیا۔ اس دوران وہ اسکے ساتھ تو تھی پر اسے شاید نظر آنا بند ہو گئی تھی۔
اسکے چہرے پر کوئی ایسا بےنام سا تاثر تھا کہ وہ پھر اس سے ایک لفظ بھی نہیں کہہ پائی۔
" زید۔۔"
اب بھی اسنے بہت ہمتیں مجتمع کرکے اسے پکارا تھا۔
دوسری دفع بلانے پر زید نے رخ اسکی طرف موڑا ۔ چپ اسنے اب بھی ویسی ہی سادھی ہوئی تھی۔
" آئی ایم سوری، میری غلطی تھی، آئی شلڈ ہیو آسکڈ یو اور ایٹ لیسٹ انفارمڈ یو (I should have asked you or atleast informed you)۔۔ مجھے لگا تم انکا کام اتنی دلچسپی سے دیکھتے ہو تو۔۔۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اٹ کلڈ بی سمتھنگ (it could be something personal) پرسنل۔۔ اگین سوری فار۔۔"
" اٹس ناٹ نیڈیڈ، ڈونٹ وری ( its not needed, don't worry)۔۔" زید نے دو مختصر جملوں میں اسے اسکے گلٹ سے نکالنا چاہا۔
وہ تو شکر گزار تھا۔
جو پہرے اسنے اپنی ذات پر بٹھائے تھے وہ اسے کبھی اجازت نہ دیتے کہ وہ عہد شکنی کر کے یوں منیزے کے مقابل کھڑا ہو جائے۔ عائلہ نہ ہوتی تو وہ اسے دیکھ کر بھی یوں اسکی آنکھوں میں نہ جھانک پاتا جیسے اب پایا تھا۔ خود کو دیکھنے پر مقابل کے چہرے پر بے یقینی، حیرت، تکلیف، گلٹ اور آسودگی کا وہ انوکھا سنگم خود میں جذب نہ کر پاتا۔
" کین آئے آسک کہ تم دونوں ایک دوسرے کو کیسے جانتے ہو؟"
بہت ڈرتے خود سے لڑ کر علایہ نے یہ سوال کیا تھا۔
اسکے لیے زید صرف دوست نہیں تھا، وہ پچھلے تین سالوں سے اس نرم مزاج پر سنگی دل کے مالک شخص کے پگھلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اگر وہ اسکے ذکر نہ کرنے کے باوجود اس پر اتنی گہری نگاہ رکھتی تھی کہ اسکی ایک اتنی خاموش عادت سے منیزے فاروق کی اہمیت جان سکے تو اسے ان دونوں کے درمیان تعلق کی نوعیت جان کر اپنے دل کو ایک کنارے لگا لینا چاہیے تھا۔
اسکے سوال پر زید بہت دھیما سا ہنس دیا۔ وہ منیزے کو کیسے جانتا ہے؟
" زیادہ کچھ نہیں بس۔۔ اینشینٹ ٹائمز (ancient times) میں ساتھ کئے گئے چند سیگنیچرز، کچھ آئی ڈوز (I do's) اور چند گواہان یو نو۔۔"
اسے مزہ آیا تھا اس سوال کا جواب دے کر۔
اسنے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی کوئی اس سے یہ پوچھے گا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو کیسے جانتے تھے۔ وہ بھلا منیزے کے علاوہ جانتا ہی کس کو تھا؟
"اوہ، اف، مجھے اتنی شرمندگی ہو رہی ہے، شی از یور ایکس اور میں نے تمھیں یوں اسکے سامنے کھڑا کر دیا۔۔ کتنا آکورڈ۔۔"
"شی از ناٹ مائے ایکس"
زید نے علایہ کی بات کاٹی۔
"تو؟"
وہ جو انکا تعلق کوئی ختم ہو چکا باب سمجھ کر سکون کی سانس لینا چاہ رہی تھی زید کے انداز پر ٹھٹکی۔
" شی از مائے وائف۔۔"
علایہ کو اپنے کانوں میں بلاسٹ کے بعد سماعتیں سن ہوجانے کے سبب جو بیپ گونجتی ہے زید کے جملے کے بعد بس وہی سنائی دی تھی۔
دل کی دنیا کوئی یوں چار لفظوں میں بھی اجاڑ سکتا تھا؟
پھر زید کی مام کی طرف سے ہمیشہ ہی حوصلہ افزاء رویہ کیا تھا بھلا؟
اس کے دل کی دنیا اندازوں، خوش فہمیوں اور عدم معلومات پر کھڑی تھی۔ اسنے یوں ہی منہدم ہونا تھا۔
♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤
" سب ٹھیک ہے زید؟"
وہ کافی کا مگ تھامے گہرے دھیان میں اپنے کمرے کے بالکونی میں بیٹھا آسمان کے بدلتے رنگ دیکھ رہا تھا۔
کل کی شفق سے آج کی شفق تک پورے چوبیس گھنٹے وہ اس ایک چہرے کے علاوہ کچھ بھی تو نہیں سوچ پایا تھا۔
مام کی آواز پر وہ چونکا۔
" جی۔۔" اسنے کوشش کر کے خیال کی طنابیں انقرہ حوالیمانی سے چھڑا کر خود کو حال میں حاضر کیا۔
" اتنے کھوئے کھوئے سے کیوں ہو تم؟"
وہ ماں تھیں، اپنے اکلوتے بیٹے کے چہرے پر پڑنے والے ہر خیال کے سائے کو بھانپ سکتی تھیں۔
" انقرہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔"
اسنے جھوٹ نہیں بولا بس سچ چھپایا۔
" تمھیں پتا ہے اینڈریہ کہہ رہی تھی کہ وہاں موجود تمام ینگ ڈاکٹرز میں سے تمھارا پیپر سب سے زیادہ انویٹو (innovative) تھا"
انھیں انقرہ سے پھر کانفرنس اور اسکا پیپر یاد آیا۔
" آپ کہہ رہی تھیں کچھ؟"
مام مسلسل اسکے پاس بیٹھیں کچھ نہ کچھ کہہ رہی تھیں۔ جن میں سے آخری چند باتیں وہ سن نہیں پایا تھا۔
انکا دھیان اپنی تعریفوں سے ہٹانے کے لئے اسنے انھیں یاد دلایا۔
وہ ایک عاد دن کے لیے ان گزرے سالوں میں جب بھی پاکستان آیا تھا مام یونہی اپنی ہر مصروفیت ترک کئے اسکے ساتھ وقت گزارتی تھیں۔
ڈیڈ کی بھی یہی کوشش ہوتی تھی پر اپنے عہدے کے سبب وہ ایک حد سے زیادہ کام کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے۔ آج بھی صوبائی میڈیکل بورڈ کی ایک ضروری میٹنگ تھی اور انھیں جانا پڑا تھا۔
" ہاں میں کہہ رہی تھی کہ پرسوں کے ڈنر میں علایہ اور اسکی فیملی کو بھی انوائٹ کرنا چاہیے۔ اسکے گھر والوں سے پروپر میٹ اپ ہونا چاہیے اب۔"
سعدیہ اپنی پچھلی بات کی جانب متوجہ ہوئیں۔
" اسکی بہن کی شادی ہے، وہ سب مصروف ہونگے"
اسنے صاف ٹالا۔ انھیں یاد دلانے پر پچھتایا بھی۔
انقرہ سے واپس سیئیٹل (Seattle) جانے کے بجائے کراچی آنے کا پروگرام علایہ کے گھر ہونے والی شادی کی وجہ سے ہی ترتیب دیا گیا تھا۔ اتنے ماہ ہوگئے تھے مام ڈیڈ کو دیکھے ہوئے کہ زید نے اکیلے واپس یو ایس جانے کے بجائے علایہ کے ساتھ پاکستان آنے کو ترجیح دی۔
" وہ وقت نکال لیں گے، اور اگر نہ نکال پائے تو شادی کے بعد انھیں کسی دن الگ سے بلایا جا سکتا ہے۔"
وہ جانتا تھا کہ گفتگو کا رخ کہاں مڑ رہا ہے۔
" میں نے اسے منیزے کے بارے میں بتا دیا ہے"
اسنے ہاتھ میں پکڑے مگ کو دیکھتے انکشاف کیا۔
سعدیہ کا ہنستا چہرہ ایک دم ماند ہوا۔
اسنے نظریں نہیں اٹھائیں۔ وہ ماں کا پھیکا پڑتا چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔
" یہ تو اچھا ہے، کسی بھی تعلق کو آگے بڑھانے کے لئے ایک دوسرے سے پاسٹ ہسٹری شئیر کرنا از آ سٹیپ ٹوواردز پراگریس (is a step towards progress)"
سعدیہ نے چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجا کر بات کو اپنی مرضی کا رنگ دینے کی کوشش کی۔
اسے مام پر ترس آیا۔
" کیسا تعلق؟ وہ بس ایک ورک فرینڈ ہے مام، اور منیزے صرف میرا ماضی نہیں ہیں۔" زید نے بہت ضبط سے آواز کو نرم رکھا۔
" ماضی نہیں ہے تو کیا ہے؟ وہ جا چکی ہے زید۔ پانچ سال ہوگئے ہیں۔ تم مان کیوں نہیں لیتے ہو؟ آگے بڑھو، خوشیوں کو ایک موقع دو۔ علایہ بہت اچھی لڑکی ہے، خوبصورت ہے، اچھی فیملی سے ہے۔ تمھیں بہت پسند کرتی ہے۔ تمھاری فیلڈ سے ہے۔ ایز آ پارٹنر تمھارے لئے ہر لحاظ سے موزوں رہے گی وہ۔"
سعدیہ نے جیسے انگلیوں پر علایہ کے گن گنوائے۔ وہ انکے معیار کا ہر خانہ ٹک کرتی تھی۔
زید چاہ کر بھی اپنے چہرے پر آنے والی بے اختیار خود اذیتی سے پر مسکان نہیں روک پایا۔ وہ اپنے سینے میں موجود اس خانہ ویران کا کیا کرے جو منیزے کی یادوں اور اسکے لوٹ آنے کی امید سے آباد تھا۔ جہاں کسی اور کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔
پہلے تین سال انھوں نے خاموش رہ کر زید کو سنبھلنے کا موقع دیا تھا۔ اور بعد کے دو سالوں سے وہ مسلسل آگے بڑھ جانے، سیٹل ہوجانے پر اسرار کر رہی تھیں۔ خاص کر جب سے وہ علایہ سے ملیں تھیں۔
" اور تمھیں نہیں لگتا تم اسکے ساتھ بھی زیادتی کر رہے ہو، کب تک لٹکا کر رکھو گے اسے یوں۔۔ تم نہ بھی بڑھنا چاہو آگے تو وہ تو چاہ سکتی ہے۔ اسنے چھوڑا تھا تمھیں۔ موو آن کرتے اسے تمھاری طرح کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ وہ خلع نہیں مانگ رہی تو تم ہی طلاق بھیج دو۔ اپنی خاطر نہیں تو اسی کی خاطر ختم کرو اب"
وہ اس لڑکی کی اپنے بیٹے کی زندگی میں چلے جانے کے بعد بھی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتی تھیں۔
آخری حربے کے طور پر انھیں اسی کا سہارا لینا پڑا۔ شاید انکے لیے، اپنے لیے زید یہ نہ کرے پر اسکے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ چاہے وہ اس سے ہمیشہ کے لیے تعلق ختم کرنا ہی کیوں نہ ہو۔
" انھیں خلع لینے کی ضرورت نہیں ہے مام"
وہ کین چئیر پر بیٹھا گھر کے خوبصورت لان کو دیکھ رہا تھا جس کا یہ نیا لک حال ہی میں ایک ماہر لینڈسکیپ آرکیٹیکٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔
" کیوں نہیں ہے؟"
سعدیہ نہیں سمجھیں۔
" میں نے جانے سے پہلے انھیں رائٹ تو ڈائیورس ڈیلیگیٹ (تفویض) کر دیا تھا۔"
وہ زید تھا اسے یہ خیال سعدیہ کی طرح پانچ سال بعد نہیں آیا تھا۔ وہ خود سے پہلے منیزے کا سوچتا تھا۔ وہ تو اسے خود سے آزاد ہونے کا ہر اختیار کب کا سونپ چکا تھا۔
ڈاکٹر سعدیہ ابراہیم اپنے بیٹے کو دیکھ کر رہ گئیں۔ یہ کیسی محبت کر بیٹھا تھا وہ جو دھتکارے جانے کے بعد بھی یوں قائم تھی۔ جسکے سانس لینے کے لیے کوئی شرط کوئی تقاضا نہ تھا۔
ان پانچ سالوں میں بس اس سے اتنا رابطہ تھا کہ وہ جب بھی اپنا رہائشی پتہ بدلتا اسے منیزے کو ای میل کر دیتا کہ طلاق کی صورت میں وہ اسے پیپرز بھیج سکے۔
وہ سرجن تھا اسے اتنی گھبراہٹ انسانی جسم چاک کرتے ہوئے محسوس نہیں ہوتی تھی جتنی ہر بار ڈاک دیکھنے پر ہوتی تھی کہ کہیں کوئی لفافہ، کوئی کاغذ منیزے کی طرف سے اسکی موت کا فرمان بنا کر نہ بھیجا گیا ہو۔ ہر دفع وہ ایک متوقع مخصوص کاغذ نہ پاکر جو خوشی اسے ملتی تھی وہ گزرے پانچ سالوں میں واحد خوشی تھی منیزے کی کامیابیوں کے علاوہ جو وہ محسوس کر پاتا تھا۔
♤♤♤♤♤♤♤