"یہ کیا ردی اٹھا لائی ہو ؟"
وہ دونوں سامان کی شفٹنگ کم اور لڑ زیادہ رہے تھے
مگر اب جب ربان نے اس کے ناولز اور ڈائجسٹوں کو ردی کہا تو گویا انتہا کر دی تھی ربان نے
کنول نے آستینیں چڑھائیں اور سر سے پیر تک ربان کو اچھی طرح گھورا پھر بولی
"خبردار جو آئندہ میرے رسالوں کو ردی کہا
آپ سے زیادہ عزیز ہیں مجھے یہ رسالے
ان کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کروں گی میں ہنہہ"
"تم مجھے ردی سے کمپئر کر رہی ہو ؟"
ربان کو اپنی قسمت پر رونا آنے لگا
"پھر ردی ؟
میں جا رہی ہوں واپس اپنے کمرے میں اپنے سامان سمیت"
کنول ربان کے کمرے سے نکلنے لگی تھی جب ربان نے پیچھے سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا
کنول کی پشت ربان سے ٹکرا گئی تھی
ایک منٹ کو دونوں ہی جھینپ گئے تھے
پھر ربان پہلے سمبھلا اور بولا
"اچھا رکھ لو یہیں پر اپنی مجھ سے بھی عزیز ردی"
"پھر ردی ؟"
کنول غصے میں اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی جب کمرے کا دروازہ کھول کر جان اور وانی کمرے میں چلے آئے
کمرا سائونڈ پروف تھا اس لیٙے کنول اور ربان ان کے اسکول سے لوٹنے سے نا واقف تھے
"آ گئے میرے بچے؟"
کنول نے آگے بڑھ کر جان کا ماتھا چوم لیا تھا اور وانی کو گود میں اٹھا کیا تھا
"ممی آپ ڈیڈی کے روم میں کیوں شفٹ ہو رہی ہیں ؟"
جان کے معصومیت سے پوچھنے پر کنول ہونق سے انداز میں مسکرا کر رہ گئی جبکہ ربان نے آگے بڑھ کر جان کا کان پکڑ کر مروڑ ڈالا تھا
"تم میرے بیٹے ہو یا میری سوتن ؟"
"سوتن کیا چیز یے ممی ؟"
کان چھڑوا کر ناراضگی سے ربان کو دیکھتے ہوئے جان نے کنول سے پوچھا
"سوتن"
کنول کوئی الٹا سیدھا جواب دینے والی تھی جب ملازمہ بھی ہڑبڑاتی ہوئی کمرے میں گھس آئی
"سر
جان اور وانی کی ماما آئی ہیں"
ملازمہ کی بات سن کر سب ہی کچھ دیر کے لیئے حیران رہ گئے تھے
"اب کیوں آئی ہے وہ؟"
ربان نے دل میں سوچا
"سوتن کا ذکر ہوا اور سوتن حاضر"
کنول نے بھی ناگواری سے سوچا
جان کو اپنی اصل ماں کی صورت بھی یاد نہیں تھی
اور وانی نے تو ہوشبھی نہیں سمبھالا تھا جب ربان کی اپنی فرسٹ وائف سے ڈائیوارس ہوئی تھی اس لیئے اس کی کوئی فیلنگ نہیں تھی
وہ آرام سے کنول کے جھمکے سے کھیلتی رہی
"اچھا چلو تم میں آتا ہوں"
ربان نے ملازمہ کو سر پر کھڑا دیکھ کر گھرکا
اور پھر کنول کو دیکھا جس کے چہرے پر کوئی ایکسپریشن نہیں تھا
"تم بھی آئو میرے ساتھ"
ربان نے کہا
"مجھے کوئی شوق نہیں ہے کباب میں ہڈی بننے کا"
اور آخر کار کنول بھی جل ہی گئی
دل میں خوش ہوتے ہوئے ربان کمرے سے نکل گیا
🍁🍁🍁
"ربان اوہ ڈیئر ہائو آر یو؟"
عنایہ ربان کی طرف بڑھی اور اس کے گال سے گال مس کیا
ربان بھی جواب میں ہلکا سا مسکرا دیا
ڈائیوارس دونوں کی رضامندی سے ہوئی تھی اس لیئے کوئی ایک قصوروار نہیں تھا
تو دونوں کا جب کبھی ملنا ہوتا تھا اچھے طریقے سے ملتے تھے
ان کے سرکل میں یہ عام بات تھی
" گھر کیسے آنا ہوا؟"
وہ دونوں گھر یا کسی پارٹی وغیرہ میں ملتے تھے
عنایہ کا گھر میں آنا اسے حیران کر رہا تھا
"مجھے بچوں کی یاد آ رہی تھی "
عنایہ لاڈ سے ربان سے بولی
اور عنایہ کے اس انداز سے ربان کو کسی گڑبڑ کا احساس ہوا
وہ پلٹ کر ابھی لائونج میں آنے والی کنول کو دیکھنے لگا
"ہو از شی؟"
عنایہ ربان اور کنول کا رشتہ سمجھ تو گئی تھی پھر بھی بن کر پوچھنے لگی
"میں آپ کے سابقہ شوہر کی حالیہ بیوی ہوں عنایہ آپا"
کنول نے ربان کو گھورتے ہوئے عنایہ کو جواب دیا
"وٹ آپا ؟"
عنایہ تڑپ گئی
"آپ آپا"
کنول نے اور تڑپایا
"تم تو بچوں کو یاد بھی نہیں ہوں گی عنایہ پھر یہاں آنے کا مطلب ؟"
ربان کنول کی ناگواری محسوس کر کے روڈ سے انداز میں عنایہ سے پوچھنے لگا
"بچوں کو میں یاد نہیں ہوں بٹ مجھے تو تو بچے یاد ہیں نا
کہاں ہیں وہ ؟
جان مائی سن
وانی ؟"
بچوں کو حق سے پکارتی ہوئی عنایہ کنول کو اتنی بری لگ رہی تھی
کنول پیر پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی
اور ربان اسے اپنے کمرے کی جگہ کنول کے ہی سابقہ کمرے میں جاتے ہوئے دیکھ کر پریشان ہو گیا
🍁🍁🍁
آو مائی بے بی کتنا کیوٹ ہو گیا ہے نا یہ ؟"
عنایہ جان کو پیار کرتے ہوئے ربان سے بولی
مگر ربان چپ رہا
وہ دیکھ رہا تھا دونوں بچے بہت ڈسٹرب ہو رہے تھے عنایہ کی مسنوعی ہنسی اور چمیوں اور جھپیوں کی وجہ سے
"ماما کے ساتھ چلو گے ؟"
عنایہ کے پوچھنے پر دونوں نے بلا تاخیر نفی میں سر ہلا دیا
عنایہ شرمندہ سی ہو گئی
"جائو تم دونوں اپنی ممی کے پاس"
ربان کے کہنے پر جان اور وانی عنایہ کے ہاتھ جھٹک کر بھاگ نکلے تھے
"اس مڈل کلاس لڑکی نے تو ان پر جادو کر دیا ہے"
عنایہ نے کہا
"مجھ پر بھی کر دیا ہے"
ربان کے جواب نے عنایہ کو شاک پہنچایا تھا
تب ہی فوراً کچھ نہیں بول پائی
"ویل مجھے تمہیں کچھ بتانا تھا"
گلا کھنکار کر عنایہ بولی
"کیا ؟"
ربان نے ماتھے پر بل لا کر پوچھا
"یہ کہ شہیر اور میری ڈائیوارس ہو گئی ہے"
"اوہ سیڈ
تو ؟"
"شہیر کے ساتھ رہتے ہوئے مجھے اندازہ ہو گیا مجھے کچھ چیزوں پر تم سے بحث کرنے کی جگہ تمہاری بات مان لینی چاہیے تھی
میں بدل گئی ہوں اب
کیا ہم پھر سے ایک ہو سکتے ہیں ؟"
"وٹ ؟"
ربان کو کرنٹ لگا تھا عنایہ کی بات پر
"اتنا حیران کیوں ہو رہے ہو ؟
اصل ماں جیسے خیال رکھ سکتی ہے بچے کا کوئی اور نہیں رکھ سکتی
کل کو اس کا اپنا بے بی ہوگا تو وہ جان اور وانی کو گھاس نہیں ڈالے گی"
عنایہ کے پیار سے کہنے پر بھی ربان کے ماتھے کی لکیریں کم نہیں ہوئیں
"وہ کیا کرے گی
کیا نہیں کرے گی
وہ ہمارا فیملی معاملہ ہے
اور یاد رکھو ڈائیوارس سے پہلے تم۔نے خود قانونی تقاضے پورے کیئے تھے
انفیکٹ بڑی خوشی سے پورے کیئے تھے کہ بچوں پر حق نہیں جتائو گی
بچوں سے محبت کا ڈرامہ کون کر رہا ہے مجھے اچھی طرح نظر آ رہا ہے سب
اسٹوپڈ نہیں ہوں میں
بلکہ بچے بھی فیل کر گئے تمہاری بناوٹی محبت"
ربان کی آواز جب اپنے کمرے کے دروازے سے کان لگا کر کھڑی کنول تک پہنچی تو وہ مطمئین ہو کر گنگناتی ہوئی پیچھے ہو گئی
اور کچھ سننے کی ضرورت ہی نہیں تھی
ربان اپنی کہ کر کنول کے کمرے کی طر جانے لگا جب عنایہ نے بھاں بھاں کر کے رونا شروع کر دیا
ربان کوفت سے اسے دیکھنے لگا
"آئی ایم سوری
مجھے اندازہ ہو گیا ہے تمہارے اور بچوں کی زندگی میں میری کوئی امپورٹنس نہیں رہیں
جو میں نے کہا اسے بھول جائو پلیز"
"بھول تو نہیں سکتا ہاں اگنور کرتا ہوں"
ربان نے ناگواری سے جواب دیا
"ربان ڈیئر ڈونٹ مائنڈ
کیا میں صرف ایک دن کے لیئے یہاں رہ سکتی ہوں ؟
کل صبح ہی چلی جائونگی
ایکچلی ڈائیوارس کے بعد میرے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں
موم ڈیڈ بھی ابروڈ شفٹ ہو گئے ہیں
اس وقت میں بہت ڈسٹرب ہوں
ہوٹل میں اسٹے نہیں کرنا چاہتی
صرف ایک دن
اپنے بچوں کے ساتھ گزار لوں ؟"
ربان کچھ ٹائم تک چپ رہا پھر بولا
"ڈائیوارس کب ہوئی تھی ؟"
"آج ہی
کچھ دیر پہلے"
"یعنی اس نے عدت بھی پوری نہیں کی طلاق کی"
ربان نے افسوس سے سوچا پھر اجازت دے دی
"اوکے"
🍁🍁🍁