اپنی پیشانی سے جڑی ربان کی پیشانی کو حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کے بعد کنول نے ربان کی آنکھوں میں دیکھا تھا بلکہ گھورا تھا
"آپ زبردستی نہیں کر سکتے میرے ساتھ مسٹر ربان
آپ کو انتظار کرنا ہوگا میری رضامندی کا"
"سوری مسز ربان
میں کوئی فرشتہ ٹائپ چیز نہیں ہوں
جو انتظار کروں جبکہ دوسری طرف کوئی اور نہیں
میری سلی سی وائف ہے
ویل
میں باہر سے کچھ آرڈر کروا رہا ہوں ڈنر کے لیئے
تم میڈز کے ساتھ اپنا سامان میرے روم میں شفٹ کروائو"
"میں نے کہا نہیں مطلب نہیں"
کنول کے جھنجلانے پر ربان نے نا گواری سے اسے دیکھا تھا
"لسن سویٹ ہارٹ
مجھے کسی کے نخرے اٹھانے کی عادت نہیں ہے
اور اگر تم مانی نہیں اور ایسے ہی نخرے دکھاتی رہیں تو میں نخرہ تو تب بھی نہیں اٹھائوں گا
لیکن تمہیں ضرور اٹھا لوں گا
چھوئی موئی سی تو ہو"
کنول تو ربان کے اچانک اتنے بدل جانے پر حیران ہی رہ گئی تھی
"سمجھنے کی کوشش کریں آپ
میں ذہنی طور پر بلکل تیار نہیں ہوں"
کنول رونے کو ہو رہی تھی
"مگر میں ہر طرح سے تیار ہوں"
ربان آنکھ مار کر کہتے ہوئے کچن سے نکل گیا تو کنول کچھ ٹائم تک تو پریشان سی کھڑی رہی
پھر اپنے کمرے میں بھاگ گئی اور دروازہ لاک کر لیا
"میں آپ کی مرضی کے مطابق نہیں چلوں گی مسٹر کھڑوس
میری کوشش کو آپ نے دھتکار دیا تھا نا
اب میں بھی آپ کا ہاتھ تب ہی تھاموں گی جب میں چاہوں گی
کیونکہ انا مجھ میں بھی بہت ہے"
🍁🍁🍁
"ممی ڈنر کیوں نہیں کر رہیں؟"
جان نے ڈنر شروع کرنے سے پہلے کنول کا پوچھا تھا
"ممی شرما رہی ہیں"
ربان نے مسکراہٹ دبا کر بتایا تھا
"مگر کیوں؟"
جان بحث کے موڈ میں لگتا تھا
"یہ تو ممی سے ہی پوچھو"
اور ربان کی بات پر جان ہی نہیں وانی بھی کنول کے کمرے کے باہر پہنچ گئے تھے
"ممی آپ ڈنر کیوں نہیں کر رہیں؟"
"مجھے بھوک نہیں ہے یار"
ان دونوں بچوں کی آواز سن کر کنول بھی دروازے کے قریب چلی آئی لیکن کھولا نہیں
"کیوں نہیں ہے؟"
وانی کو اعتراز ہوا
"بس ایسے ہی"
کنول گھبرا رہی تھی
"اپنی ممی سے دروازہ کھلوائو
کہانی بھی تو سننی ہے نا ابھی"
ربان کو مزہ آ رہا تھا کنول کی حالت پر
"میری آج طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی بچوں آج اسٹوری نہیں"
"آج اسٹوری نہیں تو کل کے بارے میں کیا خیال ہے ؟"
بچوں کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ربان معنی خیزی سے بولا
"کل میں ایسی کہانی کا انتظام کروں گی کہ مزہ آ جائے گا آپ کو"
کنول نے بھی ذومعنی سا جواب دیا
"اوہ
آئی ایم ویری اکسائٹڈ"
ربان نے ہلکی سی تالی ماری اور ٹکر ٹکر خود کو گھورتے ہوئے جان اور وانی کو لے کر ڈائننگ ٹیبل پر پہنچ گیا
🍁🍁🍁
ربان کی طبیعت میں اگر من مانی کرنا تھا تو کنول ضد کی پکی تھی
ربان جب تک گھر ہوتا کنول کے پیچھے پڑا رہتا اور کنول اس بھاگتی چھپی رہتی
ربان اسے ستاتا تو تھا
مگر دل میں وہ بھی فیصلہ کر چکا تھا کہ کنول کے راضی ہونے پر ہی آگے بڑھنا ہے
یہ آنکھ مچولی کا کھیل جان اور وانی سمجھنے سے قاصر تھے مگر انجوائے وہ بھی کر رہے تھے
ان ہی آنکھ مچولی کے دنوں بہت عرصے بعد اچانک کنول کی اماں چلی آئی تھیں مگر اکیلے نہیں
🍁🍁🍁
"وقاص بھائی آپ ؟"
کنول چیخ پڑی تھی اسے دیکھ کر
"جی ملکہ عالیہ ، خادم"
اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر وہ خوش دلی سے بولا
اور ربان جو آج کنول کو ڈنر پر باہر لے جانے کے خیال سے کافی جلدی گھر پہنچ گیا تھا
ناگوار نظروں سے کنول اور اس شخص کے مسکراہٹوں کے تبادلے نوٹ کرنے لگا
"ربان آپ بھی آ گئے؟"
کنول وقاص کے پیچھے کھڑے ربان کو دیکھ کر خوشی سے بولی
"ہاں میں بھی آ گیا
شکر ہے تمہیں نظر بھی آ گیا"
ربان کے طنز کو کوئی بھی نہیں سمجھ پایا تھا
"کیسے ہو ربان بیٹا"
اماں الرٹ ہو گئیں
"میں ٹھیک ہوں اماں"
تمیز کے ساتھ انہیں اماں کہ کر ربان نے اماں کو ہی نہیں کنول کو بھی خوش کر دیا تھا
"ربان ان سے ملیں یہ ہیں میرے کزن اور ہمارے خاندان کے فخر وقاص
آپ کو پتہ ہے یہ ہارٹ سرجن ہیں
اور سونے چمچہ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئے بلکہ اپنی ذہانت پر اسکالرشپ لے کر آج اس مقام پر ہیں ہم ان پر جتنا فخر کریں کم ہے"
ربان کو ایسا لگنے لگا جیسے کنول اسے سنا رہی ہو کہ
"تم تو پیدائشی رئیس ہو ورنہ تم کیا حاصل کر لیتے دنیا میں"
"اور وقاص یہ ربان عباد
بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ کون"
وقاص قہقہ لگا کر ہنس پڑا
پھر اپنا ہاتھ ربان کے آگے بڑھایا
"آپ سے مل کر خوشی ہوئی ربان صاحب"
"مگر مجھے نہیں"
ربان نے بھی ہاتھ ملا کر تلخی سے جواب دیا
اور پھر سب کے حیران ہونے پر مسنوعی قہقہ لگا کر ہنس دیا
"ہاہاہا آئی واز جسٹ کڈنگ"
ربان کی بات پر سب پھر سے ہنس دیئے
لائونج میں جاتے ہوئے کنول نے دانت کچکچا کر ربان عباد کو گھورا تھا جواباً ربان عباد نے بھی منہ پھلا کر گردن کاٹنے کا اشارہ کر کے وقاص کی طرف اشارہ کیا تھا
"سنکی سیاں"
کنول سوچ کر رہ گئی
🍁🍁🍁