"وانی اور جان آج اسکول نہیں جائیں گے"
"کیوں ؟"
توس پر جیم لگاتے ہوئے ربان نے ٹیڑھی آنکھ سے اسے دیکھا
"وانی کو بخار ہے جان اکیلے جانا نہیں چاہ رہا"
"اچھا"
مختصر سا جواب دے کر ربان پھر ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا مگر کنول کی آنکھیں پھیلتی چلی گئیں
پھر ان میں غصہ جھلکنے لگا
اور پھر نا پسندیدگی
"آپ کی بیٹی کو بخار ہے اور آپ بس ایک اچھا کہ کر فارغ ہو گئے"
کنول کو رونا آنے لگا اتنے لاپروہ باپ پر
اسے اپنا باپ یاد آنے لگا جو آسائشات تو انہیں نہیں دے سکا تھا مگر اعتماد اور محبت بہت دی تھی ان سب بہنوں کو
"تو تم کیا چاہتی ہو ایک ٹانگ پر ناچنا شروع کر دوں میں ؟
اور تم کس لیئے ہو
ان کی پیاری پیاری ممی جان
کرو اپنی مامتا نچھاور"
"میں نے آپ جتنا بدتمیز انسان نہیں دیکھا قسم سے"
"کبھی فرصت ملے تو خود کو دیکھ لینا"
منہ بنا کر کہتا ہوا ربان وانی کے کمرے کی طرف بڑھنے لگا اور اسے اس کمرے میں جاتا دیکھ کر کنول اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی
"آپ کہاں جا رہے ہیں"
"ابھی تم نے بتایا نا کہ وانی کو بخار ہے"
"تو آپ نے بھی تو کہا میں ہوں نا ان کی پیاری پیاری ممی جان"
کنول کے گھبرائے ہوئے انداز پر ربان کچھ مشکوک سا ہو گیا
"کیا چاہتی ہو تم؟"
"آپ آفس جائیں وانی کے پاس میں ہوں"
"میں وانی سے مل کر ہی جائوں گا اب"
ربان ضد میں آنے لگا تو کنول نے بھی ہاتھ جھاڑ دیے
"ٹھیک ہے جائیں ہنہہ"
"کبھی تمہیں برا لگ رہا ہے کہ میں اپنی بیٹی کے بخار کو اہمیت نہیں دے رہا
کبھی تم مجھے اس سے ملنے سے روک رہی ہو
کبھی اجازت دے رہی ہو
تمہارے دماغ میں چل کیا رہا ہے ؟"
کمر پر ہاتھ ٹکا کر ربان کنول کو گھورنے لگا
"غلطی ہو گئی مجھ سے معاف کریں مجھے"
کنول نے ہاتھ جوڑ دیے تھے اپنے
"ہنہہ"
ربان نے بلکل اسی کے انداز میں ہنکار بھری
"بخار اگر زیادہ ہی بڑھ جائے تو مجھے فون کر کے بتا دینا میرے بچوں کی ممی"
"جی اچھا مسٹر بدتمیز"
کنول نے بھنا کر کہا تھا
"کیا کہا ہے تم نے مجھے"
"جی اچھا کہا ہے"
"مسٹر بدتمیز کسے کہا ہے؟"
"آپ کو نہیں کہا ہے
میں آپ کو مسٹر کیوں کہنے لگی؟
مسٹر تو بڑا مہذب لفظ ہے"
"اینڈ واٹ ابائوٹ بدتمیز؟"
"اس کے بارے می "
کنول نے بات روک کر اپنے کمرے کے دروازے سے جھانکتے ہوئے جان اور وانی کو دیکھا تھا
"آپ آفس جائیں نا سر کھا لیتے ہیں میرا"
"سر ہی کھایا جا سکتا ہے تمہارا دماغ تو کیونکہ ہے ہی نہیں"
تیکھی نظروں سے کنول اسے جاتا دیکھتی رہی
"ڈیڈی چلے گئے؟"
جان اور وانی کمرے سے باہر نکل آئے
"ہاں (شکر ہے) چلے گئے"
کنول نے شکر ہے دل میں کہا تھا
"اچھا چلو اب پارٹی کی تیاری شروع کرتے ہیں"
"یس"
جان اور وانی ایک ساتھ چہکے
"ممی آپ کو پتا ہے یہ ڈیڈی کی فرسٹ برتھ ڈے ہے جو سیلیبریٹ کر رہے ہیں"
"آپ کو کیسے پتا چلا ڈیڈی کے برتھ ڈے کا ؟"
وانی نے کافی سمجھداری والا سوال کیا تھا اپنی عمر کے حساب سے
کنول شانے اچکا کر رہ گئی
اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ وہ ان کے ڈیڈی کے جاسوسی کرتی رہی ہے
ربان کے برتھ ڈے سمیت اس کی پسند نا پسند کے متعلق بہت کچھ پتا چل چکا تھا کنول کو
کیونکہ ربان نے بے شک نکاح کو مزاق سمجھ رکھا تھا
مگر کنول کے لیئے یہ شادی بہت اہمیت رکھتی تھی
ہاں سیلف رسپیکٹ اسے اپنا حق مانگنے سے روک رہی تھی
🍁🍁🍁
وہ تینوں ٹیبل پر کیک سجا کر بیٹھے تھے
ربان بچہ تو تھا نہیں جو بلونز وغیرہ سے گھر سجایا جاتا
بس ہلکی پھلکی تیاری تھی اور گفٹس تھے صرف
جان اور وانی کی طرف سے دینے کے لیئے ان کی خواہش پر کنول نے واچ منگوائی تھی مگر اپنا گفٹ کسی کو بتایا نہیں تھا
"ڈیڈی آ گئے"
گاڑی کی آواز سن کے وانی چیخ پڑی
اپنی دھن میں مگن ربان نے جب لائونج میں قدم رکھا تو موم بتیوں سے سجی ٹیبل پر رکھا کیک دیکھ کر حیران رہ گیا
"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو
ہیپی برتھ ڈے ڈیٙر ڈیڈی
ہیپی برتھ ڈے ٹو یو"
جان اور وانی کنول کی ہدایت پر گانا شروع کر چکے تھے اور کنول ہنستے ہوئے سب سے زور سے تالیاں بجا رہی تھی
ربان کے قدم گویا زمین نے جکڑ لیئے تھے
ربان کا باپ تو اس کے بچپن میں ہی دنیا سے چلا گیا تھا
ماں تھی تو وہ بھی دنیا کی مصروف ترین عورت تھی
کبھی ایک شہر کبھی دوسرے ملک
پہلی بیوی بھی ماں کی ہی ہم مزاج تھی
ربان کو یاد نہیں پڑ رہا تھا کبھی کسی نے اس کی برتھ ڈے پر یسں وش کیا ہو
وہ تو خود اپنا برتھ ڈے بھول چکا تھا
"ڈیڈی آپ رو رہے ہیں؟"
کنول تو اس کی آنکھ سے اچانک گرتا آنسو دیکھ کر ٹھٹھک گئی تھی
جان نے ہی پریشانی سے پوچھا
"نو یہ تو بس ایسے ہی
"اچھا آئو کیک کاٹتے ہیں"
ربان نے جان اور وانی کو گود میں اٹھا لیا تھا
"ہیپی برتھ ڈے"
ربان نے جب چھری اٹھائی تو کنول نے کہا
"تھینک یو"
گہری نظروں سے ربان نے کنول کے متناسب سراپے پر غضب ڈھاتی گہری نیلی ساڑھی کو دیکھ کر کہا
یہ ساڑھی کنول نے اسی لیئے پہنی تھی کیونکہ اسے پتا چلا تھا کہ ربان کا پسندیدہ رنگ نیلا ہے
اور نیلے رنگ میں پسنیدہ شیڈ وہی تھا جو کنول نے پہنا تھا
"یہ کیک کی سجاوٹ کتنی فضول ہے
کس نے کی ہے؟"
ربان نے یہ کہہ کر پرانا بدلہ چکایا تھا
کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کیک گھر میں ہی بنایا گیا ہے جو ظاہر ہے کنول نے بنایا ہوگا
"جس کے لیئے کیک سجایا ہے وہ خود کون سا کوئی کمال کی چیز ہے
جیسا وہ خود ہے ویسی ہی میں نے ڈیکوریٹنگ بھی کر دی"
ربان شائد بھول گیا تھا سامنے کنول ہے
جو ہمیشہ الٹا اور زوردار جواب دیتی تھی
"پلیز آپ لوگ پھر نہیں لڑنے لگ جائیے گا"
جان نے منہ بنا کر کہا
وہ دونوں ایک دوسرے کو گھورنے لگے
مگر شکر ہوا تھا کہ لڑ نہیں پڑے تھے
🍁🍁🍁
"تھینک یو"
کنول عادت کے مطابق رات کو آٹا گوندھ رہی تھی جب ربان نھی عادت کے مطابق کافی بنانے آیا تھا اور اسے دیکھ کر بول اٹھا
"اس وقت تو بیستی کرتے رہے میرے کیک کی
اب آ گئے تھینک یو لے کر"
"میں تھینک یو کیک کے لیئے نہیں کہ رہا
کیک تو اسی قابل تھا
برتھ ڈے یاد رکھنے پر اور بچوں اور میرے درمیان فاصلے کم کرنے پر کہ رہا ہوں"
کنول نے جواب میں ربان کو گھورا
"برتھ ڈے میں نے یاد نہیں رکھا تھا
جان نے بتایا تھا مجھے"
"اچھا ؟
مگر جان تو کہ رہا تھا ممی نے ہمیں بتایا تھا آپ کی برتھ ڈے کا"
ربان نے اس کی چوری پکڑ لی تھی
کنول شرمندہ ہو کر آٹے پر زور زور سے مکے مارنے لگی
"لسن کنول
میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ تم مجھے اٹریکٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہو
میں لڑ نہیں رہا
صاف کہما چاہوں گا مجھے بچوں سے تمہارے پیار پر اب شک نہیں رہا
تم اچھی لڑکی ہو مگر میرے معیار سے بہت دور ہو
تم میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو میرا انٹرسٹ تم میں بڑھا سکے
آئی ہوپ کہ تم آئندہ ایسی کوئی کوشش نہیں کرو گی"
ربان اپنی کافی لے کر اسے دو کوڑی کا کر گیا تھا
کنول اس کے جانے کے بعد بے آواز رو پڑی تھی
کنول شرمندہ نہیں تھی کیونکہ اس نے کسی غیر کو نہیں اپنے شوہر کو اٹریکٹ کرنا چاہا تھا
ہاں لیکن دل ٹوٹ گیا تھا اس کا
"میں نے سوچا تھا میاں بیوی کے رشتے میں انا نہیں ہونی چاہیے
لیکن آپ نے میری اس کوشش پر یہ سب کہ کر غلط کیا
اب میں آپ کو بتائونگی انا کہتے کسے ہیں
معیار کی بات کر رہے ہیں آپ
تو آپ کونسا میرے آئیڈیل ہیں
مگر میں قسمت کے آگے جھک گئی
ہم لڑکیاں قسمت کے آگے جھک ہی جاتی ہیں
لیکن بس اب میں اور نہیں جھکوں گی
اب آپ دیکھیئے گا"
🍁🍁🍁
اور پھر کنول نے ربان کو ایسا نظر انداز کیا کہ ربان عباد حیران پریشان رہ گیا تھا
ربان کنول کے سامنے چیخ چیخ کر اپنی کسی فائل یا کسی بھی چیز کا پوچھتا تو کنول اسے وہ چیز اسے ڈھونڈ کر تو دیتی تھی
مگر
تب جب اس کا موڈ ہوتا
پہلے کی طرح بھاگ بھاگ کر اس کے سامان کا خیال نہیں رکھتی تھی
چار مہینے ہو گئے تھے اس ڈرامے کو چلتے ہوئے اور شادی کو چھ مہینے ہو چکے تھے
کنول گھر پر اس طرح اثرانداز ہو گئی تھی کہ اس کی مدد کی ضرورت ربان عباد کو پڑ ہی جاتی تھی اور پھر کنول کو ایٹیٹیوڈ دکھانے کا موقح مل جاتا
جو بھی تھا ربان عباد کو ناکوں چنت چبوائے تھے کنول کی بے نیازی نے
🍁🍁🍁
ربان آفس سے تھکا ہارا لوٹا تھا
کچھ تو تو میں میں ہو گئی تھی اس کی اپنے ہم اثروں سے
پھر ٹریفک جام کا بھی سامنا کرنا پڑا
کچھ وہ پیدائشی کھڑوس تھا
پھر کنول کی وجہ سے اس کا موڈ کچھ زیادہ ہی خراب رہنے لگا تھا
اوپر سے یہ دونوں مسئلے بھی ہو گئے تھے
اسے ہر کسی پر غصہ آ رہا تھا
وہ سیکیورٹی گارڈ مالی گھر کے باقی ملازمین کے بعد جان اور وانی کو بھی ڈانٹنے لگا
کنول کو اس پر غصہ تو آیا تھا مگر وہ منہ سے کچھ بولی نہیں
"کھڑوس بدتمیز ہنہہ"
کنول دل میں غصہ کرتی ہوئی کچھ ٹائم بعد سب بھول کر اس فلم کی کہانی سوچنے لگی جو اس نے کل رات دیکھی تھی
🍁🍁🍁
ربان جب کچن میں آیا تو کنول کچھ سوچتی ہوئی پیاز کاٹنے میں لگی ہوئی تھی
ربان کافی زور زور سے پھینٹنے لگا تاکہ کنول متوجہ ہو جائی مگر سلام تھا اس فلم کی دلچسپ کہانی کو جس نے کنول کو اپنے اثر سے باہر نہیں آنے دیا
غصے میں ربان نے کافی کا مگ زور سے سیلب پر پٹخا تھا جس پر کنول چونک کر اسے دیکھنے لگی
پھر واپس نظر انداز کر دیا
اور کنول کی یہ بات ربان عباد کو بہت زیادہ غصہ دلا گئی
وہ تو پہلے ہی جلا بھنا بیٹھا تھا
"کوئی اس طرح بھی کسی کو نظر انداز کر سکتا ہے ؟
تم میری بیوی ہو مگر تمہیں خبر نہیں ہوتی میں کب گھر آیا ہوں کب گیا ہوں
اتنا ایٹیٹیوڈ کییوں
اتنا اگنور کیوں کرتی ہو مجھے ؟"
"میں وہی کرتی ہوں جو آپ نے مجھ سے کہا تھا
کیا آپ نے نہیں کہا تھا
میں یہاں صرف جان اور وانی کی ماں بن کر رہوں
آپ سے کوئی تعلق نا رکھوں
آپ کے کسی معاملے میں نا بولوں
میری ہر بات تو آپ کو اپنی طرف اٹریکٹ کرنے کی کوشش لگتی ہے
اس لیئے آپ کو اگنور کرنا ہی ٹھیک ہے"
کنول کام سے فری ہو کر جانے لگی تھی مگر ربان نے اس کے سامنے آ کر راستہ روک دیا
"تو جو کچھ میں نے کہا وہ بھلا دو
اور اپنا سامان میرے کمرے میں شفٹ کرواؤ
مگر اس سے پہلے یہاں آؤ"
ربان نے کنول کے ہاتھ تھام لیئے
"میں شائد اس دنیا کا پہلا شوہر ہوں جو اپنی بیوی کے عشق میں گرفتار ہو گیا ہوں"
کنول کا ہاتھ چھوڑ کر اور اس کا چہرہ ہاتھوں میں دبوچ کر وہ جنونی انداز میں بڑبڑایا تھا
"آپ نے خود کو سمجھ کیا رکھا ہے
اور میں کیا ہوں آپ کی نظروں میں؟"
کنول ربان کا ہاتھ چہرے سے جھٹک کر چلاتے ہوئے ربان کو حیران کر رہی تھی
"جب چاہا دو کوڑی کا کر دیا
جب چاہ عشق کر لیا
شادی کی پہلی ہی رات آپ نے مجھے کمرے سے نکال دیا
میں غریب ضرور ہوں مگر پڑھی لکھی بھی ہوں
آپ ساری صورتحال آرام سے بھی سمجھا سکتے تھے
مگر آپ نے میری عزت نفس پر وار کیا
اگر یہ آپ کی کوئی چال نہیں ہے اور بقول آپ کے آپ میرے عشق میں گرفتار ہیں تو صبر کیجیئے تب تک جب تک میں اپنے دل میں آپ کے لیئے کچھ فیل کرنا شروع نہیں کر دیتی"
بہت وقت کا غصہ نکال کر کنول جانے لگی تھی جب ربان نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کر کے اسے جانے سے روک دیا
"میں کوئی نیک صابر انسان نہیں ہوں
جو چاہتا ہوں
جب چاہتا ہوں
حاصل کر لیتا ہوں"
کنول کے سر سے سر ٹکرا کر ربان بڑے بہکے سے لہجے میں بولا تھا
کنول کا وجود پسینہ پسینہ ہو گیا
🍁🍁🍁