ربان ٹھوڈی کے نیچے ہاتھ رکھ کر کنول کو دیکھ رہا تھا تو کبھی گھڑی کو دیکھ رہا تھا
دو گھنٹے سے اوپر ہو گئے تھے مگر کنول کی تیاری پوری ہونے میں نہیں آ رہی تھی
اور اب ربان کا پارہ ہائی ہو رہا تھا
"بیوٹی پارلر چلی جاتیں یار
اتنی دیر میں تو بریانی بھی تیار ہو جاتی ہے
اور ایک تم ہو
مانا کے تھوڑی زیادہ اگلی ہو مگر اب ایسا بھی کیا"
کنول لپسٹک کے شیڈز چیک کرتے ہوئے جل کر بولی
"میں اگلی ہوں ؟
بہت شکریہ آپ کا"
"مائی پلیژر"
ربان دل پر ہاتھ رکھ کر ہنس کر بولا پھر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس ہی ایک گھٹنہ ٹیک کر بیٹھ گیا اور کنول کے ہاتھ سے لپسٹک لے کر بولا
"آئو میں مدد کروائوں"
"آپ کیا مدد کروائیں گے؟"
کنول نے حیرت سے پوچھا اور پھر اس وقت شاکڈ ہو گئی جب ربان لپسٹک کنول کے ہونٹوں پر تھپکنے لگا
کنول مسکراہٹ دبا کر ربان کو دیکھتی رہی جو لپسٹک لگا کر اسے ناقدانہ نظروں سے دیکھ رہا تھا
"آپ کو پتا ہے ربان
ہماری خاندانی زبان میں آپ جیسوں کو جورو کا غلام کہتے ہیں۔"
ربان نے پہلے کنول کو گھورا پھر اطمینان سے بولا
"اور میری زبان میں مجھ جیسوں کو آئیڈیل ہزبینڈ کہتے ہیں"
"آئیڈیل ہزبینڈ جورو کے غلام کا ہی مہذب نام ہے"
"جو بھی ہے
تم خوش ہو نا؟"
ربان اکثر ہی کنول سے یہ سوال پوچھتا تھا
"ہر اگلا دن گزشتہ دن سے زیادہ خوشیاں لاتا ہے میری زندگی میں"
ربان کو ہمیشہ کنول کا یہ جواب سننا اچھا لگتا تھا
تب ہی تو وہ پوچھتا تھا
"اچھا آپ گاڑی نکالیں میں بس آتی ہوں"
"ہو گئی نا سب تیاری؟"
ربان بیزا ہونے لگا اس کی تیاری سے
"ہاں جی سب ہو گیا ہے آپ چلیں نا میں آ رہی ہوں"
کنول نے بولتے ہوئے ربان کو کمرے سے باہر دھکیلا تھا پھر سینڈلز پہن کر شیشے کے سامنے خود کا سر سے پیر تک جائنزہ لے کر باہر آ گئی
گاڑی میں بیٹھ کر کنول پیچھے کی سیٹ کی طرف متوجہ ہوئی جہاں جان اور وانی بیٹھے تھے
"ارے جان سو گیا ؟"
"تم نے جتنی دیر لگائی ہے شکر کرو بس سویا ہے رویا نہیں ہے"
ربان کے ناراضی سے کہنے پر کنول ہنس پڑی
"کیا کروں؟
میرے لیئے ڈبل خوشی کا موقح ہے
میرے بھائیوں جیسے کزن اور بہنوں جیسے اکلوتی سہیلی کی شادی ہے
میں تو ابھی بھی مطمئین نہیں ہوں اپنی تیاری کی وجہ سے"
"بس بہت ہو گیا
لفظ "تیاری" اور مت بولنا"
ربان کے جھڑکنے پر وہ "ہنہہ" کر کے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی
"مجھے سمجھ نہیں آتی اچانک تمہارے خالہ خالو مان کیسے گئے اس شادی کے لیئے؟"
"وقاص بھائی بیچارے تو بس اپنا خاموش احتجاج کر رہے تھے
کسی سے بات چیت نا کرنا
گھر کم جانا
خالا خالو پر کیا اثر ہونا تھا اس رویئے کا
وہ تو وقاص بھائی کی چھوٹی بہن وردہ کے سسرالی جو تھے نا
بہت زیادہ اونچے گھرانے کے تھے
وہ وردہ کو بہت باتیں سناتے تھے
کیونکہ جب وردہ کی شادی ہوئی تھی تب خالہ خالو کے حالات اتنے اچھے نہیں تھے اس لیئے وہ وردہ کو زیادہ کچھ دے بھی نہیں پاضے تھے
وردہ بھی سارے حالات خالہ خالو سے چھپاتی رہی تھی وہ تو خالہ ایک بار اچانک وردہ کے سسرال گئیں تو خود اپنی آنکھوں سے سب دیکھ لیا اور وہیں ان کی برین واشنگ بھی ہو گئی
اللہ وردہ کے حالات پر رحم کرے
شکر ہے اس کے شوہر بہت سپورٹو ہیں
شوہر ساتھ دے تو سب برداشت ہو جاتا ہے
بس اچھی بات یہ ہے کہ خالہ ٹھیک ہو گئی ہیں
اور خالو تو ان ہی کے دماغ سے چلتے ہیں"
نان اسٹاپ بولنے کے بعد جب کنول نے ربان کو دیکھا تو تلملا گئی کیونکہ ربان نے کان میںٹشو ٹھونسے ہوئے تھے
کنول کو چپ ہوتے ہوئے دیکھ کر ربان نے ٹشو کانوں سے نکال لیئے
"تم کتنا بولتی ہو"
"یہ میرے بولنے کا ہی کمال تھا جو عنایہ آپا صبح صبح گھر سے نکل پڑی تھیں
کچھ اندازہ ہے ورنہ کے کیا ہوتا؟ "
"یہ تو ہے
ہڈن کیمرے سے زیادہ اسے تمہارے بک بک نے ڈرایا ہوگا"
ربان کہ کر ہنسنے لگا اور کنول اسے گھورنے لگی
"کنول سنو"
"سنائیں"
"مجھ پر ہمیشہ ایسے ہی اعتبار کرتی رہنا"
ربان نے کہا تھا
"آپ بھی ہمیشہ میرے محافظ بنے رہیے گا"
"کہنے کی بات ہے؟ "
ربان نے کہا
"میں بھی یہی کہوں گی
کہنے کی بات ہے؟"
کنول کے جواب پر ربان آسودہ سا مسکرا دیا
🍁🍁🍁
"کنول"
"جی آنٹی؟"
رخشندہ کی ماں کی پکار پر کنول ان کے پاس چلی آئی
"ہم نے وقاص کے لیئے جو بھجوائے تھے وہ کیوں نہیں پہنے وقاص نے ؟"
کنول کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہونا تھا؟
تو وہ جواب مانگنے اپنی خالہ کے پاس پینچ گئی
"وہ گھٹیہ کپڑا میں اپنے بیٹے کو پہناتی وہ بھی ایسے خاص موقح پر ؟
نا بابا نا مجھے بھری برادری میں شرمندہ نہیں ہونا
ویسا کپڑے تو ہم جھاڑ پونچ میں استعمال کرتے ہیں"
"فطرت کبھی نہیں بدلتی"
کنول افسوس سے اپنی خالہ کو دیکھتے ہوئے اسٹیج پر پہنچ گئی
"رخشندہ
مجھے لگتا ہے حالات ابھی اتنے سازگار نہیں ہیں
تمہیں بہت صبر اور برداشت کا مظاہرہ کرنا ہے"
کنول رخشندہ کے قریب ہو کر بولی تو وقاص نے بھی سن لیا تھا
"تم فکر مت کرو
جب تک وقاص میرے ساتھ ہیں میں سب برداشت کر لوں گی"
رخشندہ کے جواب پر وقاص مسکرا کر بولا
"اور میں تمہیں کچھ برداشت کرنے نہیں دوں گا"
رخشندہ جھینپ گئی اور کنول ہنستے ہوئے ان کی بلائیں لیتی نیچے ربان اور بچوں کے پاس پہنچ گئی
"ماشااللہ ان کی جوڑی کتنی پیاری لگ رہی ہے نا"
کنول نے ربان سے کہا
"ہماری جوڑی سے کم"
ربان نے جو جواب دیا تھا کنول کو اس ہی جواب کی امید تھی
"یہ تو ہے"
ربان نے ایک گہری نظر کنول پر ڈالی پھر ہلکی آواز میں بولا
"کنول"
"جی؟ "
"آئی لو یو"
کنول نے سر پر ہاتھ مار لیا
"دن میں کتنی بار اظہار محبت پر یقین رکھتے ہیں آپ؟"
"یہ تو ڈیپینڈ کرتا ہے اس شخص پر جس سے آپ اظہار کر رہے ہیں"
"تو آپ مجھ سے اتنی بار اظہار کیوں کرتے ہیں ؟"
"کیونکہ ہم آپ سے بہت پیار کرتے ہیں"
ربان کے جواب پر کنول کھلکھلا کر ہنس پڑی اور ساتھ میں ربان بھی ہنسنے لگا
دور چمکتا چاند اس منظر کو دیکھ کر کوفت زدہ ہو گیا اور اپنے آس پاس ٹہلتے بادل سے بولا
"یار میرے سامنے آ جائو
مجھ سے دنیا والوں کی یہ شوخیاں نہیں دیکھی جاتیں"
اور سیاہ بادل نے "سیم یار" کہ کر چاند کو اپنی اوٹ میں لے لیا 🌚
🍁🍁🍁
ناول تمام ہوا🌚