سرخ گلابوں سے سجے گولائی میں بنے اس وسیح و عریض کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے کنول نے چونک کر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ربان عباد کو دیکھا تھا اور پھر سر جھکا کر اپنے آپ میں اور بھی سمٹ گئی تھی
سرسری سی نظر اس کے سجے سنورے روپ پر ڈال کر اس نے ہنکار بھری تھی
دروازہ لاک کر کے وہ اس کے سامنے ہی ٹہلنے لگا
"مجھے نہیں پتا تم نے میرے بچوں پر کیا جادو کیا ہے
وہ کیوں مجھ سے بھی زیادہ تمہیں چاہنے لگے ہیں
لیکن سنو
وہ بچے ہیں
تمہاری پیار بھری اداکاری کا جادو ان پر تو چل گیا
مگر میں !
میں بچہ نہیں ہوں
اچھی طرح سمجھتا ہوں تمہاری چال
میں نے اپنے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کے لیئے تمہیں رکھا تھا یا ان کی ماں بننے کے لیئے؟
ویل
تمہاری خواہش پوری ہوئی
تم غریب گھرانے کے دو نمبر لڑکی ایک رئیس گھرانے کی بہو بن گئی ہو
اب میں چاہتا ہوں تم میرے بچوں کا اچھی طرح خیال رکھو
تمہیں جو چاہیے یعنی آسائشات
وہ تمہیں بن کہے حاصل ہوتی رہیں گی
مگر مجھ سے کوئی امید مت رکھنا
بچوں کی ماں بننے کا شوق تھا نا تمہیں
بہت محبتیں جتاتی تھی نا میرے بچوں سے
بس اب ماں ہی بنی رہنا ان کی
میری بیوی بننے کے لیئے ایک عورت میں جو کچھ ہونا چاہیے تم میں وہ ایک آدھ کوالٹی بھی نہیں ہے
میں کب سو رہا ہوں
کھانا کیوں نہیں کھا رہا ہوں
میں غصے میں کیوں ہوں
میں ہنس کیوں رہا ہوں
میں گھر کس وقت آیا ہوں
کس وقت گھر سے نکلا ہوں
تم مجھ سے کوئی سوال کرنے کا حق نہیں رکھتیں
یا یوں کہ لو کہ حق تو رکھتی ہو
مگر میں تمہیں اس حق کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا
آئی ہوپ کہ تم سمجھ رہی ہو
اب اٹھو یہاں سے اور میرے واش روم سے نکلنے سے پہلے میرے کمرے سے نکل جائو"
وارڈروب سے کپڑے نکال کر وہ بنا اس کی طرف دیکھے واش روم میں گھس گیا
"یہ کیا کہ گئے ہیں ربان سر
میں دو نمبر لڑکی
رئیس گھر کی بہو بننا چاہتی تھی
اتنی غلط باتیں کیوں کی انہوں نے ؟
ہاں میں نے جان اور وانی پر اور بچوں سے زیادہ توجہ دی تھی مگر اس کی وجہ کچھ اور تھی
ان بن ماں کے چھوٹے چھوٹے بچوں پر کسی رحم نہیں آتا ہوگا
میں نے تو صرف اس لیئے ہی ان پر خاص توجہ دی تھی
ان کی پڑھائی کے علاوہ میں نے انہیں کچھ اچھی باتیں بھی سکھا دیں تو کیا غلط کیا
ایسی بات کیسے کر سکتے سر"
وہ واقعی عام سی لڑکی تھی
وہی جزبات تھے اس شب کے حوالے سے اس کے بھی
جو کسی بھی لڑکی کے ہوتے ہیں
ماں باپ نے اس رشتے کے لیئے منظوری دی تو وہ بھی مشرقی لڑکیوں کی طرح سر جھکا کر ماں باپ کی رضا پر ربان عباد کے نکاح میں اس گھر میں آئی تھی
اس کے دل میں اس کی سوچوں میں کوئی کھوٹ نہیں تھا جب ہی ربان عباد کی باتیں بہت تکلیف دے رہی تھیں
مہندی بھرے ہاتھوں کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے کنول نے ڈر کر اسے دیکھا تھا
تو ربان عباد نے بھی کوفت سے اب تک اسے بیڈ پر بیٹھے دیکھا تھا
"کس بات کے انتظار میں بیٹھی ہو ؟
اٹھو نکلو یہاں سے
سمجھ نہیں آ رہی تمہیں ؟"
وہ جس طرح چلّا کر بول رہا تھا کنول کو ڈر لگا تھا کہ کہیں وہ دھکے مار کر اسے کمرے سے نکال دے
کنول شاہنواز کو اپنی سیلف رسپیکٹ بہت عزیز تھی
جب ہی لہنگا سمبھالتی کمرے سے نکل گئی
"گھر میں بہت کمرے ہیں
جہاں چاہو سو جائو"
احسان کرنے والے انداز میں کہ کر ربان نے دروازہ اس کے منہ پر بند کر دیا تھا
اپنی قسمت پر حیران ہوتی کنول شاہنواز ٹیوی لائونج میں رکھے صوفے پر سکڑ کر بیٹھ گئی اور چہرہ گھٹنوں میں چھپا لیا
بہت دیر رو چکمے کے بعد اس کا دل جب کچھ ہلکا ہوا تو وہ دل میں ربان عباد سے مخاطب ہوئی تھی
"ربان سر بہت غلط کیا آپ نے
میرے ناکردہ جرم کی سزا دی مجھے
آپ کے بچے اگر مجھ سے پیار کرتے تھے تو اس لیئے کیونکہ میں بھی انہیں محبت اور توجہ دیتی تھی
جو آپ بھی دے سکتے تھے اور اپنے بچوں کے دل میں اپنی جگہ بنا سکتے تھے
مگر میری زندگی کا تماشہ بنا کر آپ نے بلکل ٹھیک نہیں کیا
آپ کو اندازہ نہیں ہے مجھے میری سیلف رسپیکٹ کتنی عزیز ہے
کبھی نہیں بڑھوں گی میں آپ کی طرف"
🍁🍁🍁
کنول شاہنواز اپنے ماں باپ اور چار چھوٹی بہنوں کے ساتھ غربت بھری مگر پرسکون زندگی گزار رہی تھی
باپ مزدوری کرتا تھا اور اماں کپڑے سیا کرتی تھی
چاروں بہنیں اسکول میں تھیں وہ ہی ایک تھی جو کالج سے فارغ ہو چکی تھی اور ماں باپ کا ہاتھ بٹانے کے لیئے پرائوٹ بی ایس سی کے ساتھ ساتھ ٹیوشن بھی پڑھایا کرتی تھی
ذہین بہت تھی جب ہی بڑے بڑے گھروں کے لوگ بھی اس سے اپنے بچوں کے کو ٹیوشن پڑھوایا کرتے تھے جن میں ربان عباد بھی شامل تھا
ربان عباد کی بیوی اس سے طلاق لے کر جا چکی تھی
ربان عباد کی تمام توجہ پیسہ کمانے پر تھی
وہ شہر کا جانا مانا بزنس مین تھا
اس کے پاس اپنے بچوں کو دینے کے لیئے سب کچھ تھا بس وقت اور محبت نہیں تھی جو جان اور وانی کی حالت پر ترس کھاتی کنول نے انہیں دی تھی
توجہ کو ترسے ہوئے بچوں نے باپ سے پہلی بار ضد شروع کر دی تھی
جس نے ربان عباد کے دل میں کنول شاہنواز کے لیئے غلط فہمیاں پیدا کر دی تھیں
اسے لگتا تھا کنول اس کی دولت کے لیئے بچوں سے محبت جتا رہی ہے
دوسری شادی تو اسے کرنی ہی تھی
تو اس نے کنول شاہنواز کا ہی انتخاب کر لیا تھا
"بڑی مہربان بنتی تھیں
اب دیکھیں کب تک کرتی ہیں یہ محبت کا ناٹک"
ناگواری سے سوچتے ہوئے وہ سونے کے لیئے لیٹ گیا تھا
🍁🍁🍁
روٹین کے مطابق وہ صبح چھ بجے اٹھ کر وہ ٹھنڈے ٹھار پانی سے نہایا تھا اور گیلے بالوں میں انگلیاں چلاتا ہوا جب وہ کمرے سے باہر نکلا تو اس سے ٹکرا گیا
تصادم بہت شدید تھا
اپنی ٹھوڑی سہلاتے ہوئے ربان نے گھور کر اسے دیکھا تھا
"بیوقوف لڑکی
دروازے سے جڑی کیوں کھڑی تھیں"
"میں دستک دینے والی تھی
مگر پھر سوچنے لگی آپ پتا نہیں سو رہے ہیں یا جاگ گئے ہیں ڈسٹرب نا ہو جائیں دستک سے"
سرد لہجے میں جواب دے کر وہ سائڈ سے گزر کر کمرے میں گھس گئی کیونکہ اس کے کپڑے اور باقی سارا سامان ربان کے ہی کمرے میں تھا
حیرت زدہ سا ربان جو سوچ رہا تھا
وہ رو رہی ہوگی
منتیں کرے گی اس کی
یا غصہ تو لازمی کرے گی
اس کے پتھر مار انداز پر چونک گیا تھا
"اوہ
ایٹیٹیوڈ
وہ بھی ربان عباد کے سامنے"
طنزیہ نظر اس پر ڈال کر وہ گھر سے جوگنگ کرنے کے لیئے نکل گیا
🍁🍁🍁