" پھپھو آج تو ایک سال ہوگیا ہے مگر آپ نہیں آئی، سب صیح کہتے ہیں کہ آپ خودغرض ہیں، آپ کو سالار بھی نہیں یاد آیا، آپ جھوٹی ہیں پھپھو، آپ نے سالار سے جھوٹا وعدہ کیا، آپ میری سالگرہ پر بھی نہیں آئی، آئی ہیٹ یو پھپھو، آئی ہیٹ یو" سالار نے رضیہ کی تصویر پھاڑتے ہوئے کہا
حیا اور رانیہ جونہی کالج سے باہر نکلے، انھیں پارکنگ ایریا میں سالار اپنی بائیک پر بیٹھا دکھائی دیا جو کہ حیا اور رانیہ کو دیکھتے ساتھ ہی اپنے بائیک سے اُترا اور ان کی طرف آنے لگا.
" السلام علیکم"
" وعلیکم السلام بھائی، آج آپ یہاں کیسے، آج تو فاطمہ کالج نہیں آئی" رانیہ نے سالار کو دیکھتے ہوئے کہا
" فاطمہ نے ارم آپی کے گھر ناشتہ لے کر جانا تھا تو اس وجہ سے کالج نہیں آئی، مجھے حیا سے بات کرنی تھی تو میں آپ کے کالج آگیا. اگر آپ برا نہ مانے تو میں حیا سے اکیلے میں بات کرسکتا ہوں"
" حیا ســے.... خیر تو ہے" رانیہ نے مسکراتے ہوئے حیا کو دیکھا جو کب سے سالار کو نظرانداز کیۓ موبائل میں مگن تھی.
" مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی" اپنا نام سن کر حیا ایک دم پھٹ پڑی اور ضبط کرنے کے باوجود بھی اس کی آواز اونچی ہوگئی.
" دیکھیے مس حیا، مجھے غلط مت سمجھیے، میں آپ کے قیمتی وقت سے صرف دس منٹ لوں گا"
" اوکے پھر، جو بھی بات کرنی ہے، یہی پر کریں رانیہ کے سامنے"
" کیا ہو گیا ہے، دس منٹ کی تو بات ہے، اور ویسے بھی سالار بھائی تو فاطمہ کے بھائی ہیں، دس منٹ بات کر لو گی تو طوفان نہیں آجاۓ گا، تم ان سے بات کرو، میں گاڑی میں بیٹھ رہی ہوں "
" حیا مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے، پلیز مجھے غلط نہیں سمجھیے گا" رانیہ کو جاتا دیکھ کر سالار شروع ہوگیا
" جی" حیا نے صرف جی کہنے پر ہی اکتفا کیا
" حیا میں آپ کو پسند کرتا ہوں اور آپ کو اپنے گھر کی عزت بنانا چاہتا ہوں، میں آپ کے گھر اپنے گھروالوں کو بھیجنا چاہتا ہوں، آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے" سالار نے حیا کو دیکھتے ہوئے کہا
" تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی یہ سب کہنے کی، اففف میں ہی پاگل تھی جو تمھیں دوست کا بھائی سمجھ کر عزت دیتی رہی، مگر تم عزت کے قابل بھی نہیں ہو،تمھیں تھوڑی عزت کیا دے دی تم تو اپنی اوقات ہی بھول گے، مجھ سے شادی کرنے کا خواب دیکھ رہے ہو، ہاہاہاہا، مشہور بزنس مین سلیم ملک کی اکلوتی بیٹی سے، تم جیسے مڈل کلاس لڑکوں کو میں خوب سمجھتی ہوں،تم لوگ اپنے بچپن سے ہی ایک خواب دیکھتے ہو کہ کسی امیرزادی سے شادی کرکے اس کے جائیداد پر عیش کرسکے، مگر میں تمھیں ایسا نہیں کرنے دوں گی، دفع ہو جاؤ، ویسے تمہاری بہن بہت اسلام اسلام کرتی ہے، اب کہاں گیا اسلام، مجھے تمھیں پہلے ہی سمجھ لینا چاہیے تھا، یو سوکالڈ مسلمان میری نظروں سے دور ہو جاؤ اور آئندہ میرے سامنے نہ آنا، اور اپنی سو کالڈ اسلامی بہن کو بھی بتا دینا کہ مجھ سے دور رہے"حیا نے سالار کو انگلی دیکھاتے ہوئے کہا.
یہ کہنے کے بعد حیا ایک پل کے لیے بھی نہ رکی اور بغیر پیچھے دیکھے، گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی.اگر وہ پیچھے مڑ کر سالار کی آنکھوں میں آنسوؤں دیکھ لیتی تو زیادہ نہیں تو وہ سالار سے معافی ہی مانگ لیتی، مگر شاید سالار کی قسمت ہی خراب تھی، زندگی میں دو ہی تو لوگ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز تھے، حیا اور حیا کی ماں، حیا کی ماں تو اُسے آج سے بیس سال پہلے ہی چھوڑ کر جا چکی تھی، اور آج انہی کی بیٹی سالار کو ایک بار پھر عورت زاد سے نفرت کرنے پر مجبور کر گئی تھی.
"سالار حیا کو جاتا ہوا دیکھ رہا تھا، وہ اسے چاہ کر بھی نہ روک سکا،وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیا اس نے پیسوں کی خاطر حیا سے محبت کی تھی، نہیں اُسے تو شروع میں نہیں پتا تھا کہ حیا ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتی ہے، حیا نے اسے سوکالڈ مسلمان کیوں کہا تھا کیا اسلام میں پسند کی شادی گناہ ہے.... میں نے تو حیا کو اپنی عزت بنانے کا سوچا تھا، حیا نے مجھے غلط کیوں سمجھا، کیا ہم مڈل کلاس لوگوں کے دل نہیں ہوتے، کیا ہم مڈل کلاس لوگوں کو پیار نہی ہوسکتا،نہیں میں نے حیا سے سچے دل سے محبت کی تھی، اور سچے دل سے محبت کرنے والوں کو ان کی منزلیں ضرور ملتی ہیں، اگر اللہ نے چاہا تو حیا مجھے ضرور ملے گی".یہ سوچنے کے بعد سالار نے اپنی آنکھوں میں آۓ ہوئے آنسوؤں کو صاف کیا اور وہ بھی اپنی بائیک پر بیٹھ کر اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگیا.
_________________________________
" کیا کہہ رہے تھے سالار بھائی تمھیں"
" جناب اپنی اوقات بھول کر مجھ سے محبت کر بیٹھے ہیں"
" کیا سچ میں، تو تم نے کیا کہا انھیں"
"کہنا کیا تھا، اس دو ٹکے کے انسان کو اس کی اوقات یاد دلا دی، اسے یاد دلایا کہ حیا ملک تک پہنچنا اتنا آسان نہیں ہے، تبھی مجھے مڈل کلاس لوگوں سے نفرت ہے، دو منٹ کیا اُن سے مسکرا کر بات کر لو، تو یہ محبت سمجھ لیتے ہیں، کہاں میں، کہاں وہ پرائیویٹ ہسپتال کا جونیئر ڈاکٹر " حیا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
" یار حیا مانا کہ وہ حیثیت کے لحاظ سے تم سے کم ہیں مگر یار پھر بھی وہ اتنے اچھے ہیں کہ صرف پیسوں کی وجہ سے انھیں ریجیکٹ نہیں کیا جاسکتا، اور تو اور وہ ڈاکٹر بھی ہیں"
" اگر اتنے ہی پسند ہے تو تم خود کر لو نہ شادی" حیا نے غصے سے رانیہ کو دیکھا
" اگر انھوں نے مجھے کہا ہوتا تو میں کر بھی لیتی ان سے شادی، یار وہ اتنے اچھے انسان ہیں، تم ان کا دل مت توڑو"
" یار جب تمھیں پتا ہے کہ میں شہریار کو پسند کرتی ہوں پھر یہ ساری بکواس کس لیے کر رہی ہو"
" اچھا ہے، بلکہ بہت اچھا ہے، تمھیں اب میری باتیں بھی بکواس لگنے لگی ہیں "رانیہ نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا
" او نہیں یار، میں تو تمھاری سوچ پر ماتم کر رہی ہوں، آخر تم کیوں بھول جاتی ہو میں شہریار خان کو پسند کرتی ہوں"
" اوکے میڈم اب یاد رہے گا" رانیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
" یہ لو میڈم جی آپ کا گھر آگیا ہے" حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
" تھینک یو ڈرائیور " رانیہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
" باۓ"
" باۓ"
رانیہ کو اس کے گھر چھوڑنے کے بعد حیا نے گاڑی کو اپنی گھر کی طرف موڑا.
__________________________________
" شہریار آج تم نے باہر نہیں جانا، آج سلیم بھائی اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آئیں گے"
" وہ کیوں آرہے ہیں" شہریار نے منہ بناتے ہوئے کہا
" تو کیا سدرہ کو آنا چاہئے"
" جی مام بالکل" شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
" بہت شریر ہوگے ہو تم، ابھی بیس سال کے بھی نہیں ہوۓ اور تمھاری شادی کروا دوں، ہاؤس جاب سے پہلے اپنی شادی کا سوچنا بھی نہ، پہلے ہی تمہاری ضد کی وجہ سے ہم نے تمہاری اور سدرہ کی منگنی کی ہے"
" کیوں آپ کو سدرہ نہیں پسند"
" ہاں کچھ خاص نہیں، مجھے تو حیا پسند تھی تمھارے لیے، دیکھو نہ حیا اور ہمارا سٹیٹس بھی ملتا ہے، اس کے بابا کا بزنس میں نام ہے اور تمھیں پسند بھی آئی تو کنگال سدرہ، پھر سوچ لو ایک بار، زندگی نہیں ملی گی دوبارہ " شہریار کی بات سن کر تو صائمہ بیگم نے آج اپنے دل کی بھڑاس نکال ہی لی.
" اففف مام، آپ کی اتنی چھوٹی سوچ ہے، مجھے یقین نہیں آرہا، آپ حیا کے ساتھ شادی کرنے کا کہہ رہی ہیں، جو ہر دوسرے تیسرے لڑکے سے بات کرتی ہے، میرا پاس سب کچھ ہے، اور اگر نہیں ہے تو سدرہ، اب مجھے اس بارے میں آپ سے کوئی بات نہیں کرنی، میں سونے جارہا ہوں، مجھے نہیں ملنا آپ کی شریف زادی حیا سے" شہریار نے غصے سے کہا اور صائمہ بیگم کا جواب سنے بغیر اپنے کمرے میں چلا گیا.
__________________________________
" ماما بابا کہاں کی تیاری ہے" حیا نے لاؤنچ میں داخل ہوتے ہوۓ سلیم صاحب اور آسیہ بیگم کو کہا جو کہ سجے سجاۓ بیٹھے ہوئے تھے
" بیٹا، ہم رضا بھائی کے گھر جارہے ہیں، آپ کا انتظار کر رہے تھے، آپ جلدی تیار ہو تاکہ ہم جا سکیں"
" اوکے ماما مجھے صرف پندرہ منٹ دیں، میں ابھی تیار ہو کر آتی ہوں" حیا نے مسکراتے ہوئے کہا اور اپنی کمرے میں چلی گئی.
_____________
پندرہ منٹ بعد حیا تیار ہوچکی تھی. اورینج کلر کی گھٹنوں تک آتی فراک اور گرین کالر کا پاجامہ حیا کے ساتھ بہت اچھا لگ رہا تھا. ڈوپٹہ اُس نے ہمیشہ کی طرح گلے میں رکھا ہوا تھا.آج اُس نے معمول کی مطابق بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا. میک اپ کے نام پر آج اس نے معمول کے خلاف ریڈ کلر کی لپسٹک، کاجل اور اضافے میں ہائی لائٹر بھی لگایا تھا. جوتیاں اُس نے گولڈن رنگ کی پہنی تھی. موبائل بیگ میں ڈال کر، بیگ کو کندھے سے لٹکا کر وہ باہر لاؤنچ میں آگئی.
"ماشاءاللہ ہماری بیٹی کتنی پیاری لگ رہی ہے"
" ماما آپ بھی کبھی میری تعریف کر دیا کریں، ہمیشہ بابا ہی میری تعریف کرتے ہیں" حیا نے منہ بناتے ہوئے کہا
" بیٹا آپ کے بابا جھوٹ بول سکتے ہیں، پر میں نہیں" آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
" اففف آسیہ تم بھی نہ، کیوں ہماری جان کو تنگ کر رہی ہو، آج تو ہماری بیٹی شہزادی لگ رہی ہے"
" سچی بابا " حیا نے سلیم صاحب کو گلے لگاتے ہوئے کہا
" جی میری جان، میری بیٹی دنیا کی سب سے پیاری اور اچھی بیٹی ہے" سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
" اگر آپ لوگوں کا ڈرامہ ختم ہوگیا ہو، تو اب ہم چلیں، وہ لوگ ہمارا ویٹ کر رہیں ہونگے" آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
" جی جناب چلیں" سلیم صاحب نے ٹیبل سے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے کہا
اس کے بعد وہ تینوں باہر پورچ میں آگے اور گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے
__________________________________
" بھائی آپ کہاں تھے، صبح سے گھر سے باہر تھے، ابھی پانچ بجے گھر واپس آۓ ہیں"
"میں دوست سے ملنے گیا تھا، سوری بتانا یاد نہیں رہا مجھے، امی کہاں ہیں، نظر نہیں آرہی"
" امی اور تائی امی ارم کے گھر گئی ہوئی ہیں"
" اچھا"
" بھائی میں کھانا لاؤ آپ کے لیے، آج آپ کی فیورٹ ڈش بریانی بنی ہے"
" نہیں مجھے بھوک نہیں ہے، میں نے کھانا باہر سے کھا لیا تھا"
" بھائی تھوڑا سا کھا لیں، میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کے لیے بریانی بنائی ہے"
" جب میں نے ایک دفعہ کہہ دیا ہے کہ مجھے بھوک نہیں ہے، تو پھر ضد کیوں کر رہی ہو، جاؤ بیٹھ کر پڑھو تم، مجھے بھوک لگی تو میں خود کھا لوں گا "
" کیا ہوا بھائی، آپ ایسے کیوں بول رہیں ہیں، کوئی پریشانی ہے آپ کو"
" مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے، تم جاؤ اپنا کام کرو" اب کی بار سالار کا لہجہ تھوڑا نرم تھا
' بھائی بتائیں نہ، میں آپ کی بہن ہوں، مجھے نہیں بتائیں گے"
" فاطمہ حیا نے مجھے انکار کر دیا، میں آج چھٹی کے وقت تمھارے کالج گیا تھا، میں نے اس کو اپنے دل کی بات بتائی مگر اس نے نہ صرف مجھے انکار کیا بلکہ اس نے یہ بھی کہا کہ میں صرف پیسوں کی وجہ سے اس میں دلچسپی لے رہا ہو، کیا تمھیں میں ایسا لگتا ہوں "
" نہیں بھائی آپ ایسے نہیں ہیں، حیا کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی، میں خود حیا سے بات کروں گی"
" نہیں تمھیں بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں خود یہ مسئلہ دیکھ لوں گا"
" مگر بھائی"
" اگر مگر کچھ نہیں فاطمہ ، میں جلد ہی امی اور تائی امی کو حیا کے گھر بھیجو گا"
" لیکن حیا تو انکار کر چکی ہے، پھر یہ سب کرنے کا فائدہ"
" مجھے پتا ہے فاطمہ، مگر میں پھر ایک بار کوشش ضرور کروں گا"
" اب تو میں یہی دعا کرسکتی ہوں کہ اللہ حیا کے دل میں آپ کے لیے ہمدردی پیدا کر دے"
" آمین؛ "
" بھائی وہ مجھے آپ سے ایک کام بھی تھا"
" پتا تھا مجھے، تبھی بریانی کھلانا چاہتی تھی مجھے"
" ہاہاہا نہیں بھائی، ایسی بات نہیں ہے"
" پتر مجھے پتا ہے سب، اب ڈرامے نہ کرو، کام بتاؤ"
" بھائی مجھے وہ رانیہ کے گھر جانا تھا، مجھے اُس سے نوٹس لینے ہیں"
" اس ٹائم جانا اچھا نہیں لگتا، تم ایک کام کرو کل کالج میں لے لینا نوٹس"
" اس لیے میں کب سے آپ کا انتظار کر رہی تھی بھائی، مگر آپ لیٹ آئیں، اب کل پریزینٹیشن ہے، اس لیے مجھے نوٹس چاہیے، پلیز چلیں نہ"
" اچھا جاؤ تیار ہو جاؤ"
" تھینک یو بھائی" فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا
دس منٹ بعد فاطمہ تیار ہو چکی تھی، اس نے ہمیشہ کی طرح بلیک کلر کا گاؤن پہنا ہوا تھا اور ساتھ میں بلیک کلر کا ڈوپٹہ حجاب کے سٹائل میں رکھا ہوا تھا. اس کو باہر آتا دیکھ کر سالار صوفے سے اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا. فاطمہ بھی اس کے ساتھ گھر سے باہر آگئی اور بائیک پر بیٹھ گئی. اور کچھ ہی دیر بعد ان کا بائیک نظروں سے اوجھل ہوگیا.
__________________________________
" السلام علیکم"
" وعلیکم السلام"
" اتنا لیٹ کیوں آۓ ہو، کبھی تو وقت پر آجایا کر سلیم" رضا نے صوفے پر بیٹھے ہوئے سلیم سے کہا
" یار ٹریفک تھی، اس لیے لیے لیٹ ہوگیا اور حیا بھی کالج سے لیٹ گھر آئی تھی"
" تیرے ٹریفک کے بہانے کو جانتا ہوں میں"
"جب جانتا ہے تو پوچھ کیوں رہا ہے" سلیم نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
" تیرا کچھ نہیں ہو سکتا سلیم، اس کو چھوڑیں، بھابی آپ سنائیں کیسی ہیں آپ، اور حیا بیٹا آپ کی کیا مصروفیات ہیں آج کل" رضا صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
" جی الحمداللہ میں ٹھیک ہوں، اور بچوں کی کیا مصروفیات ہونگی بھائی صاحب، وہی کالج گھر، بھابھی کدھر ہیں، نظر نہیں آرہی"
" آپ کی بھابی تو ہمیشہ کی طرح کچن میں مصروف ہیں"
" اچھا چلیں پھر میں ان سے مل کر آتی ہوں، چلو حیا" آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
آسیہ بیگم کے کہنے پر حیا کو نا چاہتے ہوئے اٹھنا پڑا. ان کے جانے کی دیر تھی کہ رضا اور سیلم بزنس کی باتیں لے کر بیٹھ گے. اگرچہ رضا کا تعلق آرمی سے تھا، مگر اپنے باپ دادا کا بزنس وہی سنبھالتا تھا.
" السلام علیکم "
" وعلیکم السلام آسیہ، شکر ہے آج تمھیں میرا بھی خیال آگیا ، او آج میری حیا بیٹی بھی آئی ہے، کیسی ہو میری جان" صائمہ بیگم نے حیا کو پیار کرتے ہوئے کہا
" جی آنٹی میں ٹھیک ہو، شہریار کہاں ہے، نظر نہیں آرہا"
" بیٹا اس کو کہاں ہونا ہے، بستر توڑ رہے ہیں جناب "
" اچھا آنٹی میں زرا شہریار سے مل کر آجاؤں"
" ہاں ضرور جاؤ"
__________________________________
" السلام علیکم"
" وعلیکم السلام، آپ کون" تابش نے حیرانگی سے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا
" میں رانیہ کی دوست ہوں، آپ پلیز رانیہ کو بلا لیں "
" اچھا آپ اندر آئیں، میں رانیہ کو بھیجتا ہوں"
" نہیں میں باہر ٹھیک ہوں، بس آپ رانیہ کو بلا لیں "
" اچھا پھر دو منٹ رکیں"
" جی"
دو منٹ بعد فاطمہ کو رانیہ اپنی طرف آتی دکھائی دی.
" فاطمہ تم، اچھا اندر آؤ، میں نوٹس لے کر آتی ہوں "
" نہیں یار میں باہر ٹھیک ہوں، سالار بھائی بھی باہر میرا ویٹ کر رہے ہیں"
" اچھا تم رکو، میں پانچ منٹ میں نوٹس لے کر آتی ہوں "
" ٹھیک ہے"
پانچ منٹ بعد رانیہ نوٹس لے کر آگئی. فاطمہ نے اس سے نوٹس لیے اور واپس بائیک پر آکر بیٹھ گئی.
" یہ کون تھی" تابش نے رانیہ سے پوچھا جو کہ ابھی دروازہ بند کر کے صوفے پر بیٹھی تھی.
" جو بھی تھی تم سے مطلب، اپنی گندی نظریں اس پر کی نہ، تو مجھ سے برا کوئی نہیں"
" ہاہاہا تم نے مجھے کیا سمجھ رکھا ہے، ابھی میرے اتنے برے وقت بھی نہیں آۓ کہ تمھاری دوستوں پر نظر رکھوں"
" یہ تو بہت اچھی بات ہے، تابش شیخ، اب دفع ہو جاؤ، مجھے ٹی وی دیکھنی ہے" رانیہ نے ٹی وی آن کرتے ہوئے کہا
" پڑھنا نہ تم،. بس ٹی وی ہی دیکھتی رہنا
اس کی بات سن کر رانیہ نے پاس پڑی پلاسٹک کی بوتل تابش کو ماری. تابش کی قسمت اچھی تھی کہ بوتل اس کو نہیں لگی اور وہ ہنستا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا.
__________________________________
حیا شہریار کے کمرے کے باہر کھڑی تھی. ابھی وہ سوچ رہی تھی کہ شہریار کو سپرائز دیا جاۓ کہ اندر چلنے والی گفتگو نے اس کے پیروں تلے زمین کھنیچ لی.
" سدرہ تم مجھ پر شک کر رہی ہو، تمھیں یاد ہو تو تم نے ہی مجھے حیا کے ساتھ پیار کا ناٹک کرنے کو کہاں تھا، ورنہ کہاں شہریار خان اور کہاں وہ بے حیا، مجھے تو وہ پہلے دن سے ہی زہر لگی تھی. مگر صرف تمھارے کہنے پر میں نے اس کے ساتھ اپنا لہجہ نرم رکھا، اور اب تم مجھ پر ہی شک کر رہی ہو، اوکے تم ناراض نہ ہو، آج سے حیا کا قصہ ہی ختم، اب خوش"
شہریار کے الفاظ نے حیا کو عرش سے اٹھا کر فرش پر پھنک دیا. اس کے الفاظ" کہاں میں شہریار خان، اور کہاں وہ بے حیا" نے اس کی روح تک کو زخمی کر دیا تھا. اسے لگ رہا تھا کہ جو بھی اس کے ساتھ ہوا ہے وہ مکافات ہی ہے، اس نے بھی تو دن کو سالار کو یہ ہی الفاظ کہہ تھے. وہ اپنی آنکھوں میں آۓ ہوئے آنسوؤں کو صاف کرتی ہوئی نیچے لاؤنچ میں آگئی. اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ ایک منٹ بھی یہاں نہیں رہ سکی گی.
__________
وہ جونہی لاؤنچ میں داخل ہوئی اُس نے دیکھا کہ لاؤنچ میں اب دو خواتین کا بھی اضافہ ہوگیا ہے. رضا صاحب ہمیشہ کی طرح جنگ کے قصے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور باقی لوگ ان کو ایسے سن رہیں تھے جیسے وہ جنگ کا منظر نہیں بلکہ کسی فلم کا منظر سنا رہیں ہو. حیا سب کی نظروں سے بچتی ہوئی آسیہ بیگم کے پاس جاکر بیٹھ جاتی ہے.
" ماما بات سنیں، مجھے گھر جانا ہے"اس نے ہمت کرتے ہوئے مرجھائی ہوئی آواز میں کہا
پاس بیٹھی ہوئی صائمہ بیگم حیا کی بےوجہ خواہش سن کر ڈر جاتی ہیں. حیا کا لٹکا منہ دیکھ کر ان کا دماغ فوراً شہریار کی طرف جاتا ہے.
" کیا ہوا حیا، کیا شہریار نے تمھیں کچھ کہا ہے، ابھی تھوڑی دیر پہلے تو تم بہت خوش تھی، اب ایسا کیا ہوگیا ہے کہ تم گھر جانا چاہتی ہو، مجھے بتاؤ اگر شہریار بے کچھ کہا ہے تو میں خود اس کے کان کھینچوں گی" صائمہ بیگم نے نظریں چراتے ہوئے کہا
وہ آج شہریار کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بعد کچھ زیادہ ہی پریشان تھی. اس لیے حیا کا لٹکا منہ دیکھ کر ان نے ڈرتے ڈرتے حیا سے پوچھ ہی لیا کہ کہی شہریار نے غصے میں آکر حیا کو کچھ اُلٹا سیدھا نہ کہ دیا ہو.
" نہیں آنٹی ایسسسسی کوئی بات نہیں ہے، شہریاررررر تو شاید سویا ہوا تھا. میں نے اُسکا دروازہ کھٹکھٹایا تھا مگر اس نے نہیں کھولا، اس لیے میں نیچے لاؤنچ میں آگئی" بہت کوشش کرنے کے باوجود حیا صحیح طرح سے نہیں بول پا رہی تھی.وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی. آج پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ حیا جھوٹ نہیں بول پا رہی تھی، ورنہ وہ تو عام طور پر اتنی مہارت کے ساتھ جھوٹ بولتی تھی کہ سامنے والا بندہ بھی اُس کی داد دیۓ بغیر نہ رہ سکتا.
حیا کی بات سن کر صائمہ آنٹی کے بےچین جسم میں جان آئی. ورنہ وہ تو آج شہریار کی پٹائی کا پورا پروگرام بنا چکی تھی.
" تو بیٹا آپ گھر کیوں جانا چاہتی ہو، اگر سر میں درد ہے تو میں تو علی سے کہ کر آپ کے لیے میڈیسن منگوا لیتا ہوں" رضا صاحب سے بھی حیا کا لٹکا ہوا منہ نہ دیکھا گیا.
حیا کو رضا صاحب اس وقت دنیا کے منحوس ترین انسان لگے. ایک ہی تو بہانہ تھا اس کے پاس، اور وہ بھی اُن نے چھین لیا، مگر جلد ہی اس نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا.
"نہیں انکل، مجھے تھوڑی دیر پہلے رانیہ کی کال آئی تھی ، اس نے بتایا ہے کہ کل ہماری پریزینٹیشن ہے، اب میں جلدی گھر جانا چاہتی ہوں تاکہ میں تیاری کر سکوں"
" تو بیٹا کھانا کھا کر چلے جانا، کھانا تو تیار ہے"
" نہیں آنکل بہت دیر ہو جائے گی"
" مجھے کچھ نہیں سننا، کھانا کھاۓ بغیر میں آپ کو نہیں جانے دوں گا"
رضا انکل کی اس بات نے تو آخری لکڑی بھی تندور میں جلا دی. حیا کو تو اب رضا انکل سے نفرت ہونے لگی تھی. ایک تو اُس سے اپنا آپ سنبھالا نہیں جارہا تھا، اور اوپر سے یہ رضا انکل کے سٹارپلس کے ڈرامے.
" آپ لوگ بیٹھیں، میں رحیمہ کو کھانا لگانے کا کہتی ہوں، اور شہریار کو بھی جگا کر آتی ہوں، تین چار گھنٹے سے سوۓ ہوۓ جناب"
_________________________________
" شہریار دروازہ کھولو"
صائمہ بیگم کی آواز سن کر شہریار کو ناچاہتے ہوۓ دروازہ کھولنا پڑا
" ماما میں آپ سے کتنی بار کہوں کہ مجھے نہیں ملنا، حیا سے" شہریار نے غصے سے بیڈ پر اپنا موبائل پھینکتے ہوۓ کہا.
" یہ تم مجھ سے کس لہجے میں بات کر رہے ہو، دماغ جگہ پر ہے تمھارا، اور جہاں تک بات حیا کی ہے، وہ بھی تم سے ملنے کے لیے مر نہیں رہی، میں تو تم سے کھانے کا پوچھنے آئی تھی"
" آپ میری فکر نہ کریں، مجھے بھوک لگی تو میں کھانا کھا لوں گا، ابھی آپ اپنی حیا کو کھانا کھلاۓ"
" یہ تم ہر بات میں حیا کو کیوں لے کر آرہے ہو، سنبھل جاؤ، شہریار خان، ابھی وقت ہے، کسی معصوم لڑکی پر بہتان لگانا بہت بڑا گناہ ہے"
" او پلیز، مجھے نہ بتاۓ، حیا کیسی لڑکی ہے"
" میری پاس تمھاری فضول بکواس سننے کے لیے کوئی وقت نہیں، میں جارہی ہوں، بھوک لگے تو کھانا کھا لینا"
صائمہ بیگم یہ کہ کر شہریار کا جواب سنے بغیر کمرے سے باہر نکل جاتی ہے