جان تم آگئی"
" مولوی صاحب کدھر ہیں، تم نے کہا تھا کہ وہ چار بجے آئینگے، اس لیے میں پانچ بجے آئی ہوں، مگر مولوی صاحب ابھی تک کہیں نظر نہیں آرہے" رضیہ نے تیوری چڑھاتے ہوۓ کہا
" آرہے ہیں، راستے میں ہیں، تمھارے آنے سے دومنٹ پہلے میں نے ان کو کال کی تھی، ان نے کہا تھا کہ وہ راستے میں ہیں، تم اندر آؤ، کپڑے چینچ کرو، تب تک مولوی صاحب بھی آجائیں گے "
" کیا مطلب چینچ کرو، میں نے جو پہنا ہوا ہے وہ ٹھیک ہے"
" کیا ہو گیا ہے جان، اب شادی ہر روز تھوڑی ہی ہوتی ہے، میں نے تمھارا ڈریس ریڈی کر کے رکھا ہے تم پہن لو روم میں جاکر"
" اچھا"
" تم کپڑے چینچ کرو، تب تک میں تمھارے لیے جوس لے کر آتا ہوں "
دس منٹ بعد اس نے کپڑے چینچ کر لیے تھے.وہ ریڈ کلر کی شارٹ فراک اور گولڈن کلر کے چوڑی دار پاجامے میں پری لگ رہی تھی. ڈوپٹہ اس نے حجاب کے سٹائل میں لیا ہوا تھا. کپڑے چینچ کرنے کے بعد وہ کمرے سے باہر آگئی کہ اچانک اس نے کچھ الفاظ سنے جس نے اُسے عرش سے اٹھا کر فرش پہ دے مارا.
" ہاہاہاہا شادی وہ بھی اس مڈل کلاس لڑکی سے، ہوش میں تو ہے نہ تو، کہیں نشہ وشہ تو نہیں کر لیا، میں نے بس نکاح کا ڈرامہ رچایا، اب تجھے تو پتا ہے کہ یہ مڈل کلاس لڑکیاں بڑی ہی ٹیپکل سوچ رکھتی ہیں، جب تک ان سے نکاح کرنے کا وعدہ نہ کر لو، تب تک یہ اپنے ساتھ ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتی، اور ویسی بھی اب میں اتنا بھی بےغیرت بھی نہیں ہوں کہ اُس جیسی لڑکی سے شادی کروں جو ایک نامحرم کے لیے اپنے گھروالوں کی عزت داؤ پر لگا کر آئی ہے، جو آج میرے لیے اپنے گھروالوں کو چھوڑ سکتی ہے، کیا پتا کل کسی اور کے لیے مجھے بھی چھوڑ دے، اور ویسے بھی اس جیسی لڑکی سے شادی کر کے میں نے اپنی زندگی خراب نہیں کرنی، پیسہ تو ہے ہی نہیں اس کے پاس، ایک عزت تھی، وہ بھی میرے لیے بیچ آئی ہے، اچھا میں فون رکھتا ہوں، وہ تیار ہوگئی ہو گی"
جمال کی باتیں رضیہ کے سر پر کسی بم کی طرح آکے گری. جانے انجانے میں اس سے کتنی بڑی غلطی ہوگئی تھی. اس کے ذہن میں عالیہ بھابی کے الفاظ گونج رہے تھے کہ" جو تم کر رہی ہو، اس کا انجام بچھتاوے کےسوا کچھ بھی نہیں" وہ ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر فلیٹ سے باہر نکلنے کے لیے دوڑی. ابھی وہ دروازے کے پاس ہی پہنچی تھی کہ جمال اپنی خباثت بھری نگاہیں لے کر اس کے سامنے آگیا
" کہاں جا رہی ہو میری بلبل، ابھی کچھ ہی دیر میں ہمارا نکاح ہونے والا ہے"
" مجھھھ..... سے...... دور.... رہو، مجھے نہیں کرنی شادی تم سے"
" شادی کرنے کا کہ کون رہا ہے"جمال نے رضیہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا
" میں نے کہا ہے دور رہو مجھ سے، اگر تم میرے قریب آۓ تو میں تمھارے سر پھوڑ دوں گی" رضیہ نے دروازے کے ساتھ رکھے گے ٹیبل سے کانچ کی بوتل اٹھاتے ہوئے کہا
" تمممم..... مجھے... مارو گی... اپنی محبت کو... "
" نہیں محبت مجھے تم سے، سنا تم نے، میں کہہ رہی ہوں کہ یہ بوتل تمھارے سر پر مار دوں گی"
اس کی دھمکیوں کے باوجود جمال اس کی طرف بڑھ رہا تھا. رضیہ کو جب کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا تو اس نے وہی کانچ کی بوتل اس کے سر پر مار دی اور دروازہ کھول کر بھاگ گئی.
"رک جاؤ، تمھیں ایسے نہیں جا سکتی" رضیہ کو ایسی بہت سی آوازیں سنائی دی مگر وہ ایک لمحے کو بھی پیچھے نہ مڑی. وہ بھاگتے بھاگتے اب پارکنگ ایریا میں پہنچ گئی تھی کہ اسے مغرب کی آذان سنائی دی. سردیاں ہونے کی وجہ سے مغرب جلدی ہوگئی تھی. اسے پارکنگ میں ایک آدمی نظر آیا جو اپنی گاڑی پر بیٹھ رہا تھا.ابھی وہ اس کے پاس جا ہی رہی تھی کہ اسے پیچھے جمال اپنی طرف آتا ہوا دکھائی دیا. رضیہ نے کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر اس آدمی کے پاس چلی گئی. ایک لڑکی کو یوں اپنی گاڑی کی طرف بھاگتا دیکھ کر وہ حیران رہ گیا اور گاڑی سے باہر سے نکلا.
" پلیز مجھے بچا لیں، یہ لڑکا مجھے تنگ کر رہا ہے" رضیہ نے روتے ہوئے کہا
" آپ" اس آدمی سے بامشکل یہی بولا گیا
" یہ جھوٹ بول رہی ہے، بھائی، یہ اپنی مرضی سے یہاں آئی ہے، پیسے کم ملنے کی وجہ سے آپ کے سامنے شریف بننے کا ناٹک کر رہی ہے"
" اپنی بکواس بند کرو، میں اس لڑکی کو اچھی طرح جانتا ہوں، دفعہ ہو جاؤ یہاں سے" اس آدمی نے جمال کا گریبان پکڑتے ہوۓ
" بھائی آپ میری بات سمجھ نہیں رہے، یہ لڑکی اپنی مرضی سے یہاں آئی ہے"
" بس جمال بس، اب ایک اور لفظ نہیں، تم میرے دوست کے چھوٹے بھائی ہو اس لیے میں تمھارا لخاظ کر رہا ہوں، ورنہ اگر تمھاری جگہ کوئی اور ہوتا تو میں کب کا اس کا منہ توڑ دیتا، ابھی تم جاؤ یہاں سے"
" مگر سلیم بھائی "
" اگر مگر کچھ نہیں، جمال، جو میں نے کہا ہے وہ کرو"
سلیم کی انگلی دکھانے پر جمال چپ چاپ وہاں سے چلا جاتا ہے، جبکہ رضیہ کب سے چپ چاپ سلیم کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔
" آپ گاڑی میں جاکر بیٹھ جائیں "
" کون میں.... آپ مجھ سے کہہ رہے ہیں؟ "
" نہیں تو ہمارے درمیان کوئی تیسرا بھی کھڑا ہے جس کو میں کہوں گا"
اس کی بات سن کر رضیہ چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ جاتی ہے.
" مجھے گھر جانا ہے"
" میں اس حالت میں آپ کو آپکے گھر نہیں چھوڑ سکتا. آپ میرے گھر چلیں، میں خود آپ کو کل آپ کے گھر چھوڑ دوں گا، اگر میں اس حالت میں آپ کو آپ کے گھر لے کر گیا، تو آپ کے گھر والے مجھے غلط سمجھیں گے
" مگررررر مجھے میرے گھر جانا ہے"
" دیکھیے میڈم، اگر آپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں ہے تو آپ اتر کر جاسکتی ہیں اپنے گھر"
اس کی بات سن کر رضیہ چپ ہوگئی اور آدھے گھنٹے کے سفر میں کچھ نہیں بولی، کیونکہ وہ بھی جانتی تھی کہ اگر وہ گاڑی سے اتر گئی تو جمال پھر آجائے گا اسے لینے. آدھے گھنٹے بعد گاڑی ایک علیشان بنگلے کے آگے رکی. سلیم کے اترتے ساتھ ہی وہ بھی گاڑی سے اتر گئی.
" سلیمہ، میڈم کو کپڑے دو پہننے کے لیے" سلیم نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا
" آئیں میڈم" سلیمہ نے رضیہ کو کہا
" ان کو کچھ کھانے کے لیے بھی دینا، اور بعد میں ان کا کمرہ بھی ان کو دکھا دینا"
" جی صاحب"
___________________
پوری رات وہ سکون سے نہ سو سکی.اسے اپنے گھروالوں کی یاد ستاتی رہی، پوری رات اُس نے ان باتوں کو یاد کرنے میں گزار دی جو کبھی اسے دنیا کی فضول ترین باتیں لگتی تھی. امی کے وہ الفاظ "میں تمھاری ماں ہوں، تمھارا غلط تھوڑے ہی سوچ سکتی ہوں" بہت کوشش کرنے کے باوجود بھی اس کے دماغ سے نہیں نکل رہے تھے. امی کی نصیحتیں جو وہ کبھی مزاق میں اڑا دیتی تھی، آج اسے پتا چلا کہ وہ نصیحتیں کتنی انمول تھیں. اسے اپنی معصومیت پر ترس آرہا تھا کہ اس نے جمال جیسے انسان پر بھروسہ کیا اور اپنے گھر والوں کی محبت کو بھول کر اُس کے لیے اپنا گھر تک چھوڑ دیا. اور بدلے میں اس نے جمال سے مانگا ہی کیا تھا، صرف عزت، اور وہ گھٹیا انسان وہ بھی نہ دے سکا اُسے. اُسی کے لیے تو اُس نے اپنا گھر چھوڑا تھا، اور وہ آج اسکو ہی بدکردار کہہ رہا تھا. اففف ہم لڑکیاں بھی کتنی بدھو ہوتی ہیں، کسی کے پیار بھرے دوبول سن کر اپنی سب سے قیمتی چیز یعنی عزت داؤ پر لگا دیتی ہیں. کاش وہ امی کی بات سن لیتی، تو وہ آج یوں کسی اجنبی کے گھر بیٹھ کر رو نہ رہی ہوتی. پر ہوتا وہی ہیں جو اللہ نے ہمارے نصیب میں لکھا ہوتا ہے. رونے سے کب کسی کے نصیب بدلے ہیں جو اس کے بدل جاتے.
_________________________________
کون کہتا ہے کہ رات صرف رضیہ نے ہی جاگ کر گزاری ہے، سلیم بھی ایک پل کے لیے نہ سو سکا، آج اُس نے پہلی بار رضیہ کو تھوڑے ہی دیکھا تھا، پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ رضیہ نے اس کو پہلی بار دیکھا تھا. آج سے تین سال پہلے سلیم روزانہ شام کو پارک میں واک کرنے کے لیے جاتا تھا، تب رضیہ اور اس کا خاندان اسلام آباد رہتے تھے. رضیہ بھی اسی پارک میں دو بچوں کے ساتھ آیا کرتی تھی. نازک سی رضیہ، جس کی بڑی بڑی آنکھیں سامنے والے کو دیکھنے پرمجبور کرتی تھی، سلیم کو بہت پسند تھی. سلیم نے اُس سے بہت بار بات کرنے کی کوشش کی مگر سامنے رضیہ تھی جو کسی کو خاطر میں لاۓ بغیر اپنے کام سے کام رکھتی تھی.پھر اچانک اس نے پارک میں آنا چھوڑ دیا. سلیم نے اسے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہیں ملی، شاید وہ شہر چھوڑ کر جا چکی تھی. مگر آج تین سالوں بعد جب رضیہ ملی بھی تو پتا نہیں کیوں سلیم کو خوشی نہیں ہوئی تھی، رضیہ کو اس حالت میں دیکھ کر اُس کی روح تک کو تکلیف ہوئی تھی. اگر وہ نہ آتا اور کچھ ہو جاتا تو...... وہ اس سے آگے نہیں سوچ سکتا تھا. مگر اب وہ ارادہ کر بیٹھا تھا کہ اب رضیہ کو خود سے دور نہیں جانے دے گا.
_________________________________
پوری رات جاگنے کی وجہ سے ابھی وہ سو رہی تھی کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی. ناچاہتے ہوئے بھی وہ اٹھی اور دروازہ کھولا، سامنے سلیمہ تھی
" صاحب آپ کو ناشتے کے لیے بلا رہیں ہیں"
" ٹھیک ہے، آپ جائیں، میں منہ ہاتھ دھو کر آتی ہوں"
یہ کہنے کے بعد وہ منہ ہاتھ دھونے واشروم چلی گئی، آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر وہ حیران رہ گئی، کہاں وہ ہستی مسکراتی رضیہ، اور کہاں یہ سوجھی ہوئی آنکھوں والی رضیہ ، کاش وہ ایک دن پیچھے جاسکتی اور سب ٹھیک کر دیتی پر افسوس گیا وقت دوبارہ ہاتھ نہیں آتا. یہ سوچتے ہوئے ضبط کرنے کے باوجود اُس کی آنکھوں میں آنسوؤں آگے.مگر جلد ہی اس نے اپنے چہرے پر آۓ ہوۓ آنسوؤں کو صاف کیا، اور منہ ہاتھ دھونے کے بعد وہ نیچے لاؤنچ میں چلی گئی جہاں سلیم صاحب اس کا انتظار کر رہے تھے.
" السلام علیکم" سلیم نے کھوئی ہوئی رضیہ سے کہا
" وعلیکم السلام" رضیہ نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا
" آپ جلدی سے ناشتہ کر لیں، میں پھر آپ کو آپ کے گھر چھوڑ آؤں گا"
" جی" رضیہ صرف اتنا ہی کہہ سکی.
ناشتہ کرنے کے بعد وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر رضیہ کے گھر کی طرف چلے گے. دورانِ سفر بالکل خاموشی چھائی رہی. اور پتا بھی نہ چلا کہ کب رضیہ کا گھر آگیا.
" آپ میرے ساتھ کیوں آرہے ہیں، آپ نے میری بہت مدد کی، آپ کا شکریہ، اب آپ جا سکتے ہیں" رضیہ نے سلیم سے کہا جو گاڑی سے اتر کر اُس کے ساتھ رضیہ کے گھر جارہا تھا. رضیہ احسان فراموش ہرگز نہ تھی، بس اسے ڈر تھا کہ کہیں سلیم اس کے گھروالوں کو سب سچ نہ بتا دے.
" مجھے آپ کے گھروالوں سے ملنا ہے، مجھے غلط مت سمجھیے گا پر میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، فکر نہ کریں کل جو بھی ہوا، میں ان سے نہیں کہوں گا"
" اچھا" رضیہ صرف اتنا ہی کہ سکی کیونکہ آگے بولنے کا موقعہ ہی نہ مل سکا، سالار جو آگیا تھا.
" پھپھو آپ کہاں چلی گئی تھی، میں نے آپ کو بہت یاد کیا، پھپھو آپ کے جانے کے بعد پتا نہیں کیا ہوا کہ دادی جان صبح سے آنکھیں نہیں کھول رہی، سب رو رہے ہیں، سب لوگ کہہ رہیں ہیں کہ دادی اللہ جی کے پاس چلی گئی ہیں، آپ اللہ جی سے کہہ نہ کہ سالار کی دادی، سالار کو واپس کر دیں"
سالار کی باتیں سن کر رضیہ کو یوں لگا کہ جیسے کسی نے اس کو گہری کھائی میں دھکا دے دیا ہوا. وہ دوڑتے ہوۓ لاؤنچ کی طرف بھاگی جہاں اس وقت اُس کی جان سے بھی پیاری ماں کی میت رکھی گئی تھی. میت کے اردگرد سب لوگ چار قل پڑھنے میں مصروف تھے. مگر وہ سب سے بےخبر، میت کے پاس جا کر بیٹھ گئی، وہ اس لمحے یہ بھول گئی کہ وہ کل دن سے گھر سے باہر تھی.
کچھ عورتیں اس کو یوں میت کے پاس بیٹھا دیکھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئی
" یہ مرحومہ کی چھوٹی بیٹی ہے نہ، میں نے سنا ہے کہ کل دن سے گھر سے غائب تھی، آج اس کا نکاح تھا، میری بیٹی تو یہ بھی بتا رہی تھی کہ کوئی خط وط بھی لکھ کر گئی تھی، ہاۓ منحوس ماں کو تو کھا گئی ہے، اب پتا نہیں کیا کرنے آئی ہے.
" صیح کہتی ہو تم بہن، توبہ توبہ آج کل کی لڑکیاں نے تو گھر سے بھاگنے کو فیشن سمجھ لیا ہے، اب اس کو دیکھو، بے شرموں کی طرح منہ کالا کر واپس آگئی، یہ بھی نہیں سوچا کہ لوگ کیا کہہ گے، ہاۓ بدنصیب غزالہ، مرنے کے بعد بھی بے چاری کو سکون نہ مل سکا"
" رضیہ تمممممممممم....... " سعدیہ بھابی نے کہا
" بھابی، دیکھیں نہ امی کو کیا ہوا ہے" رضیہ نے سعدیہ کو گلے لگتے ہوئے کہا
" ہاتھ نہ لگنا مجھے، پتا نہیں کہاں منہ کالا کر کے آئی ہو" سعدیہ نے رضیہ کو خود سے دور کرتے ہوئے کہا
" یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں بھابی "
" میں کیا کہہ رہی ہوں، اگر تمھیں جمال پسند تھا، تو ہمیں پہلے ہی بتا دیتی، اب امی کی جان لینے کے بعد واپس آئی ہو، نکل جاؤ اس گھر سے، اس گھر میں تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں " سعدیہ نے رضیہ کو دھکے مارتے ہوئے کہا
"یہ یہاں کیا کر رہی ہے سعدیہ " فرقان نے رضیہ کو دیکھتے ہوئے کہا
" بھائی دیکھیں نہ، بھابی کیا کہہ رہی ہے"
" صیح کہہ رہی ہے، جس کے ساتھ آئی ہو، اسی کے ساتھ واپس جاؤ، اس گھر میں تمھارے لیے کوئی جگہ نہیں "
" بھائی میری بات تو سنیں"
" نکل جاؤ اس گھر سے" عالیہ نے لاؤنچ میں آتے ہوئے کہا
" بھابی آپ تو میری بات سنیں"
" تم نے میری سنی تھی،میرے منع کرنے کے باوجود تم نے وہی کیا نہ جس کا مجے ڈر تھا، اب چلی جاؤ رضیہ جہاں سے آئی ہو، ادھر کوئی تمھارا منتظر نہیں ہے"
" پر بھابی"
" سعدیہ میں امی کی قبر بنوانے جارہا ہوں، واپس آنے پر یہ مجھے گھر میں نظر نہ آۓ" فرقان نے باہر جاتے ہوئے کہا
" نکل جاؤ رضیہ اس گھر، تم نے سنا نہیں، تمھارا بھائی کیا کہ کر گیا ہے"
" بس بہت ہوگیا، میں کب سے آپ لوگوں کا تماشہ دیکھ رہا ہوں، چلو رضیہ تم یہاں سے، جن لوگوں کو تم پر بھروسہ ہی نہیں، ان لوگوں کو وضاحتیں دینے کا کوئی فائدہ نہیں"
" ہاں لے جاؤ میاں، ہمیں بھی اس کی وضاحتیں سننے کا شوق نہیں، ہاں پر ایک بات سن لو، رضیہ جیسی لڑکیاں جن کو گھروالوں کی عزت کا کوئی خیال نہ ہو گھر نہیں بساتی " نجمہ نے بھی آخر اپنی دل کی بھڑاس نکال ہی لی
" بس، اب میں ایک لفظ بھی نہیں سنوں گا، چلو رضیہ " سلیم رضیہ کا ہاتھ پکڑ کر لاؤنچ سے باہر آگیا. ابھی وہ گاڑی میں بیٹھنے ہی والے ہوتے ہیں کہ سالار آجاتا ہے اور رضیہ کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے...
" پھپھو آپ نہیں جا سکتی، آپ اپنے سالار کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جاسکتی، پھپھو پلیز رک جائیں، میں پرامس کرتا ہوں کہ آئندہ آپ کو کبھی نہیں تنگ کروں گا، میں آپ کا کمرہ بھی نہیں گندا کروں گا، بلکہ میں آپ کا کمرہ خود صاف کروں گا، ہاں پھپھو ہر دن صاف کروں گا، مجھے چھوڑ کر مت جائیں پھپھو، میں آپ کے بغیر نہیں رہ سکتا، اگر آپ چلی گئی تو میں کس کے ساتھ کھیلو گا، میرے بالوں کے سٹائل کون بناۓ گا، میرے لیے چپس کون بناۓ گا، پھپھو میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں، پلیز نہ جائیں نہ"
" سالار میرے بچے پھپھو بھی آپ سے بہت پیار کرتی ہیں، مگر مجھے جانا ہوگا، میں بہت جلد آپ سے ملنے آؤں گی" رضیہ نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا اور سالار کے کچھ بھی کہنے سے پہلے گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی. سلیم بھی گاڑی میں بیٹھ گیا
" پھپھو دروازہ کھولیں گاڑی کا، میں آپ کو نہیں جانے دوں گا، پھپھو کھولیں دروازہ، آپ کا سالار کچھ کہہ رہا ہے آپ سے "سالار نے روتے ہوئے کہا
" آپ چلیں" رضیہ نے چہرے پر آۓ ہو آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا
اور کچھ ہی دیر بعد سالار گاڑی کو جاتا ہوا دیکھ رہا تھا. مگر چاہتے ہوۓ بھی وہ کچھ نہ کر سکا. جان سے پیاری پھپھو کو وہ چاہ کر بھی نہ روک سکا.
__________________________________
" میں آپ سے نکاح کرنا چاہتا ہوں"
" نہیں یہ ممکن نہیں ہے، آپ نے میری بہت مدد کی ہے، آپ کا بہت شکریہ، اب آپ مجھے دارالامان چھوڑ دیں پلیز"
" میں نکاح کرکے آپ پر احسان نہیں کر رہا، بلکہ یہ میرے دلی خواہش ہے کہ میری شریک حیات آپ بنیں"
" مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں "
اس کے سوال پر سلیم نے رضیہ کو بتایا کہ وہ رضیہ کو آج سے تین سال پہلے سے پسند کرتا ہے
" مگر میں نہیں چاہتی کہ شادی کے بعد آپ کو کسی قسم کا پچھتاوا رہے"
" پچھتاوا تب ہوتا، جب میں آپ پر ترس کھا کر نکاح کرتا، مگر جیسا کہ میں پہلے ہی آپ کو بتا چکا ہوں، آپ میری پسند ہیں، مجھے پتا ہے کہ آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے، مگر انشاءاللہ ایک دن آپ کو مجھ پر مکمل بھروسہ ہوگا، میں آپ سے وعدہ تو نہیں کرتا، کیونکہ میرے نزدیک وعدے لوگ توڑ دیتے ہیں مگر میں آپ سے یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ میں آپ کے حقوق پورے کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا. آپ مجھے ایک اچھا ہمسفر پائیں گی، تو مس رضیہ کیا آپ سلیم ملک کی بیوی بننا پسند کریں گی"
" جی" اگرچہ رضیہ کے لیے یہ بہت چھوٹا لفظ تھا مگر سلیم کو اس کا جواب سن کر بہت خوشی ہوئی.وہ اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کرنے لگا.
_________________________________
ایک ہفتے بعد
" پھپھو آج ایک ہفتہ ہوگیا ہے، مگر آپ نہیں آئی، آپ نے سالار سے وعدہ کیا تھا کہ آپ سالار سے ملنے آئینگی مگر آپ نہیں آئی، پھپھو مجھے رات کو نیند نہیں آتی آپ کے بغیر، پتا نہیں پھپھو، امی بابا آپ کا نام بھی نہیں لینے دیتے، لیکن مجھے پتا ہے میری پھپھو بہت اچھی ہیں، وہ سالار سے ضرور ملنے آئینگی" سالار نے روتے ہوئے رضیہ کی تصویر دیکھتے ہوئے کہا
__________________________________
ایک مہینے بعد
" رضیہ میں چاہتا ہوں کہ تمھارا نام آسیہ رکھ دیا جائے، کیا خیال ہے؟ " سلیم نے مسکراتے ہوئے کہا
" جو حکم جناب کا"
" تمھیں وجہ نہیں پوچھو گی"
" نہیں "
" ہاہاہاہا، پر میں بتانا چاہوں گا، بچپن سے ہی آسیہ نام مجھے پسند ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمھارا نام آسیہ رکھا جائے "
" ہاں آسیہ نام اچھا ہے" رضیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
" چلو پھر اس خوشی میں، میں تمھیں آئسکریم کھلاؤں گا"
" پر ابھی تو ہم رضا بھائی کے گھر جارہے ہیں، واپسی پر کھا لیں گے.
" وہ تو ہے، پر اگر واپسی پر تمھارا موڈ چینچ ہوگیا تو" سلیم کو ڈر تھا کہ آسیہ وہاں پر جمال کو دیکھ کر برا نہ مان جاۓ.
" کیوں میرا موڈ کیوں چینچ ہو گا، اب چلتے ہیں، پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکے ہیں"
" ہاں چلو"
__________________________________
" شکر ہے تم لوگ آگے، کب سے تمھارا ویٹ کر رہا ہوں، اندر آئیں بھابی، آپ کا اپنا گھر ہے" رضا نے مسکراتے ہوئے کہا
" سلیم یار تو بڑا خوش نصیب نکلا کہ تجھے تیرا پیار مل گیا، آپ کو پتا ہے بھابھی، اس نے میرا سر کھایا ہوا تھا کہ آپ کی باتیں کر کر کے، شکر ہے آپ سلیم کو مل گئی، ورنہ اس نے تو پاگل ہی ہو جانا تھا" رضا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
رضا کی بات سن کر سب ہنسنے لگ گے.اچانک ملازم لاؤنچ کی طرف بھاگتا ہوا آیا
" بڑے صاحب جلدی چلیں، چھوٹے صاحب نے خودکشی کرنے کی کوشش کی ہے"
" کک..... کیا" یہ سنتے ہی رضا اور سلیم جمال کے کمرے کی طرف بھاگے، جہاں جمال اس ٹائم ویل چیئر پر بیٹھا رو رہا تھا.
" جمال کیوں کرتے ہو تم اس طرح، ایک ہی تو بھائی ہو تم میرے، دیکھنا بہت جلد تم پھر اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہوسکوں گے. جانی میں نے تمھیں کہا بھی تھا کہ تمھارے ڈاکٹر سے بات ہوگئی ہے، بہت جلد تمھارا آپریشن ہوگا، پھر تم نے کیوں کیا یہ، کیا تمھیں میرا بھی خیال نہیں ہے، میں تمھارے بغیر رہ سکتا ہوں مجھے پتا ہے تم بول نہیں سکتے، پر تم سمجھ تو سکتے ہو نہ، پھر کیوں تم میری بات نہیں سمجھتے "
رضا کی باتیں سن کر جمال رونے لگا، اور ہاتھ جوڑنے لگا، سلیم سے یہ سب دیکھا نہیں گیا اور وہ باہر آگیا. مگر دروازے پر کھڑی رضیہ یہ کو دیکھ کر حیران رہ گیا. مگر اس نے کچھ بولا نہیں اور رضیہ کا ہاتھ پکڑ کر نیچے لاؤنچ میں آگیا
" صاحب کو بولنا، ہم جارہے ہیں"
" پر کھانا"
" پھر کبھی شرفو چچا"
_________________________________
" کچھ کہوں گی نہیں جمال کی حالت دیکھ کر"
" مجھے بہت دکھ ہوا جمال کو دیکھ کر، ہاں یہ سچ ہے اس نے میرے ساتھ بہت برا کیا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ میں نے اسے کبھی بددعا نہیں دی کیونکہ میری زندگی میں ایسا لمحہ آیا ہی نہیں کہ میں اسے بددعا دوں، اگر وہ میری زندگی میں نہ آتا تو میری آپ سے ملاقات نہ ہوتی، یہ تو میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے آپ ملے. اور رہی بات جمال کو معاف کرنے کی وہ تو میں نے اسے تب ہی معاف کردیا تھا جب میرا آپ سے نکاح ہوا تھا"
" یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تم نے جمال کو معاف کردیا، رضیہ میں نے تم سے سچے دل سے محبت کی تھی شاید تبھی تم مجھے ملی ہو، میں اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہوں جو تم میری زندگی میں آئی ہو، میں نے ضرور کوئی نیکی کی ہوگی جس کی بدولت مجھے تم ملی ہو، مجھے اظہارِ محبت تو نہیں کرنا آتا مگر میں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ آج میری زندگی مکمل ہے کیونکہ میرے پاس تم ہو "
__________________________
ایک سال بعد
" آسیہ مبارک ہو ہماری چاند سی بیٹی ہوئی ہے" سلیم نے ننھی حیا، آسیہ کو پکڑاتے ہوۓ کہا
" اس کا نام میں حیا رکھوں گا"
" جو حکم بادشاہ سلامت "
" آج رضا کی کال آئی تھی، وہ بتا رہا تھا کہ جمال نے خودکشی کر لی ہے، اب دن کو جنازہ ہے، اگر تمھاری اجازت ہے تو جاؤ"
" اوہو، اللہ اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے اور آپ ضرور جائیں"
" کیا واقعی تمھیں جمال سے کوئی شکوہ نہیں، سچ میں میں نے تم جیسی عظیم لڑکی اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھی"
" مجھے جمال سے کوئی شکوہ نہیں، یہ میری ہی غلطی تھی کہ میں نے اس پر بھروسہ کیا اور اسے موقعہ دیا، خیر میرے پاس آپ ہیں، میرے لیے یہی کافی ہے، واقعی میں جب اللہ ایک در بند کرتا ہے تو اس کے ساتھ ہی دوسرا در کھولتا ہے"
________________________________