" سب سامان رکھ لیا ہے نہ" سعدیہ بیگم نے گاڑی پر بیٹھتے ہوئے کہا
" جی تائی امی رکھ لیا ہے، خود تو آپ کا بیٹا صبح سے غائب ہے، اور آپ دوسروں پر حکم چلا رہی ہیں" فاطمہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا مگر دوسرا جملہ اس نے صرف سوچا، بولنے کی جسارت نہیں کی، کیونکہ اُسے پتا تھا کہ دوسرا جملہ بولنے پر تائی امی کی بیٹے کے لیے محبت جاگ جاتی .
" اب تم کیا سوچ رہی ہو، گاڑی میں بیٹھنا ہے کہ نہیں، یا یہی پر چھوڑ کر چلے جاۓ ہم تم کو " تائی امی نے گاڑی کے دروازہ کے قریب کھڑی فاطمہ سے کہا جو کہ خیالات کی دنیا میں ان کی شان کے قصیدے پڑھ رہی تھی.
" مجھے چھوڑ کر جائیں گے، تو آپ لوگوں کو انٹری کون دے گا اندر جانے کی، مت بھولیں، حیا میری دوست ہے " فاطمہ نے چڑتے ہوئے کہا
" ہاں پتا ہے، تمہاری دوست ہے، اب چلو گاڑی میں جلدی سے بیٹھو، ہم پہلے ہی لیٹ ہو گے ہیں" سالار نے گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
" میں تائی امی کی گاڑی پر نہیں بیٹھوں گی، آپ کی گاڑی پر بیٹھوں گی"
" نہ تم سعدیہ بھابی کے ساتھ ہی بیٹھو، ہماری گاڑی میں سامان رکھا ہوا ہے" عالیہ بیگم نے گاڑی کے شیشے سے منہ نکالتے ہوۓ فاطمہ کو کہا
" اچھا، ٹھیک ہے" فاطمہ نے منہ بناتے ہوئے کہا اور اپنے فرقان تایا کی گاڑی میں بیٹھ گئی
" لوٹ کے بدھو گھر کو آۓ" تائی امی نے پیچھے مڑ کر فاطمہ کو دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا، جس کو سن کر فاطمہ کو منہ مزید پھیل گیا
**************************
حیا تیار ہو چکی تھی. اُس نے گہرے بلیو کلر کی گھٹنوں تک آتی ریشمی فراک پہنی ہوئی تھی جبکہ ساتھ میں گولڈن کلر کا پاجامہ پہن رکھا تھا. فراک کے دامن میں گولڈن کلر کے موتی فراک کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہے تھے. فراک کو دیکھ کر یہی محسوس ہورہا تھا کہ اس کو بنانے والا کوئی نامور ڈیزائنر ہی ہوگا. اُس نے گولڈن کلر کا ریشمی ڈوپٹہ گلے میں ڈال رکھا تھا. بال اس نے آج فل سٹریٹ کیے ہوۓ تھے. میک اپ تو آج خصوصاً آسیہ بیگم نے خود کیا تھا، مگر اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی اُس کا دل اداس تھا، شاید اس لیے کہ وہ آج دل سے تیار نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ آج اپنی زندگی میں پہلی بار کسی کے لیے تیار ہوئی تھی. اُسے آج احسان کا بدلہ چکانا تھا، وہ احسان جو اُس کی ماں نے اُس کو پال کر کیا تھا. بچپن سے لے کر آج تک اُس نے جو مانگا، اُس کے ماں باپ نے اُس کو لے کر دیا، آج ریٹرن گفٹ کا وقت آچکا تھا. آج اُس نے اپنی ماں کی خواہش کو پورا کرنا تھا. اور اُس خواہش کو پورا کرنے میں وہ کوئی بھی کوتاہی نہیں کرنا چاہتی تھی تو اس لیے، اُس نے بغیر کسی چوچرا کے اپنا میک اپ کرنے دیا.
وہ تیار ہونے کے بعد آسیہ بیگم کے ساتھ نیچے لاؤنچ میں آگئی جہاں پر سلیم صاحب ان دونوں کا انتظار کر رہے تھے
" ماشااللہ، ہماری بیٹی کتنی پیاری لگ رہی ہے آج، حیا تم نے اپنی ماں کی بات سنی ہے نہ، دیکھنا تم عمر بھر خوش رہو گی"
" انشاءاللہ" حیا صرف اتنا ہی کہہ سکی، کیونکہ وہ زندگی کے اس موڑ پر کوئی اچھی امید نہیں رکھ سکتی تھی.
" حیا جیسے ہی میں تمھیں بلاؤں گی، تم باہر آجانا، اور پلیز اپنے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ رکھنا" آسیہ بیگم نے حیا کو سمجھتے ہوئے کہا
" کیا یہ سب کرنا ضروری ہے، ماما " حیا نے اکتاتے ہوئے کہا
" ہاں ضروری ہے"
ابھی حیا کچھ کہنے ہی والی ہوتی ہے کہ ملازم اندر آتا ہے
" بیگم صاحبہ وہ لوگ آگے ہیں، میں نے ان کو ڈرائنگ روم میں بیٹھا لیا ہے"
" اچھا تم جاؤ، میں آتی ہوں"
" حیا تم ادھر ہی بیٹھی رہنا، جب میں بلاؤں گی تب آجانا "
" اففف کتنی بار کہہ گی ماما" حیا اب اس تماشے سے بیزار ہونے لگ گئی تھی
" سلیم مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے"
" کچھ نہیں ہوتا، میں تمہارے ساتھ ہوں "
" حیا، یار آنٹی کی کہانی بہت ہی اداس تھی" آسیہ بیگم اور سلیم صاحب کے جاتے ہی رانیہ شروع ہوگئی
" ہاں یہ تو ہے، اب اللہ کرۓ کہ ماموں لوگ سب کچھ بھول کر امی کو معاف کر دیں"
" تم فکر نہ کرو، وہ معاف کر دیں گے"
" انشاءاللہ "
*************************
" السلام علیکم" آسیہ نے مرجھائی ہوئی آواز میں ڈرائنگ روم کے صوفوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا
" رضیہ تمممممم......" نجانے کتنے لوگوں نے " رضیہ" ایک ساتھ کہا، دروازے کے پیچھے چھپی حیا چاہ کر بھی نہ گِن سکی
" رضیہ مجھے معاف کر دو" آفتاب صاحب نے آسیہ بیگم کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا
یہ الفاظ آسیہ کے ساتھ ساتھ سلیم اور حیا کے لیے کسی جھٹکے کے لیے کم نہیں تھے
" یہ آپ کیا کر رہے ہیں بھائی، پیچھے ہٹیں" آسیہ نے افتاب صاحب کو پیچھے کرتے ہوئے کہا
جب کہ سالار آسیہ کو دیکھتے ساتھ ہی باہر چلا گیا.
" رضیہ تم ٹھیک تھی، کاش ہم تمہاری بات سن لیتے، مگر ہماری انا نے ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دی" اب کی بار عالیہ نے آسیہ کے قریب جاکر روتے ہوئے کہا
ان سب کی باتیں آسیہ کی سمجھ سے باہر تھی
" آپ لوگ کہنا کیا چاہتے ہو "
" آسیہ تم ہمیں معاف کر دو، تم نے ہم بتایا بھی تھا کہ امجد خراب لڑکا ہے مگر ہم نے رسم ورواج کی خاطر تمہاری بات پر یقین نہیں کیا اور تمھیں غلط قدم اٹھانے پر مجبور کیا، تم ٹھیک ہی تو کہتی تھی کہ امجد خراب لڑکا ہے ، وہ جو اپنی ماں کا نہ ہو سکا، وہ تمہارا کیا ہوتا. تمہارے گھر چھوڑنے کے ایک ہی ہفتے بعد اُس کم ظرف نے اپنی ماں سے چھپ کر گھر بیچ دیا، اور ملک چھوڑ کر بھاگ گیا. نجمہ خالہ بڑھاپے میں اکلوتے بیٹے کی بے وفائی برداشت نہ کر سکی اور اس واقعہ کے ایک ہفتے بعد ہی خالقِ حقیقی سے جا ملی. تمھیں پتا ہے تمھارے جانے کے ایک سال بعد معافی مانگنے جمال آیا تھا ہمارے گھر اپنی ویل چیئر پر، اُس نے ہی ہمیں بتایا کہ کیسے تم نے اپنا دفاع کیا، جسے سن کر ہمارے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچا تھا، کاش ہم دو منٹ تمھیں سن لیتے. جمال نے ہی ہمیں بتایا کہ تم نے سیلم سے شادی کر لی ہے اور بہت خوش ہو اپنی زندگی میں، جسے سن کر ایک سال کے طویل عرصے میں ہم نے سکھ کا سانس لیا. جب ہمیں پتا چلا کہ تم اسلام آباد شفٹ ہوچکی ہو تو ہم نے ایک دن نہ لگایا، اپنا سامان باندھنے میں، اور فوراً اسلام آباد آگے. یہاں پر آکر بھی ہم نے تمھیں ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر تمہارے گھر کا پچھ پتا نہ چل سکا، مگر شاید ہمارے نصیب میں تم سے معافی مانگنا لکھا تھا تبھی آج تم ہمارے سامنے ہو، خدا کے لیے ہمیں معاف کردو رضیہ، ہم بڑے ہی بدنصیب ہیں، بیس سال کے طویل عرصے میں ایک بھی رات میں چین کی نیند نہیں سویا، تمھارا مسکراتا چہرہ اور تمھاری آنکھوں میں اپنے لیے مان دیکھنے کے لیے ترس گیا تھا، امی کی خاطر آج ہم سب کو معاف کر دو" آفتاب صاحب نے آنکھوں میں آۓ ہوئے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا
" بھائی پلیز آپ ہاتھ تو نہ جوڑیں، آپ میرے بڑے ہیں، غلطی ساری میری تھی کہ میں نے جمال پر یقین کیا اور اُس کی خاطر اپنی ماں اور بھائیوں کی محبت کو بھول گئی"
" نہیں رضیہ غلطی ہماری تھی، ہمیں تمہاری سننی چاہیے تھی، اسلام بھی پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے، مگر ہم انا کے نشے میں اتنا ڈوب چکے تھے کہ ہمیں اپنی بہن کی پسند نظر ہی نہیں آرہی تھی، اور ہماری دلوں کی سختی یہ تھی کہ ہم نے تمھیں امی سے آخری بار بھی نہیں ملنے دیا، معاف کر دو رضیہ ہمیں، ہم تمھارے مجرم ہیں "
" امی کو کیا ہوا تھا" یوں لگ رہ تھا کہ فرقان بھائی کی باتوں نے آسیہ کے پرانے زخم ہرے کر دیے تھے.
" تمھارا خط ملنے کے بعد، میں نے سب کو پڑھ کر سنایا، جس کو سن کر امی برداشت نہیں کر سکی، اور نروس بریک ڈاؤن ہونے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگئی، ہمیں لگا کہ ہم امی کو بچا لیں گے مگر ہم تب غلط ثابت ہوئے جب ڈاکٹر نے ہمیں کہا" شی از نو مور "، ڈاکٹر کے لیے یہ تو صرف انگلش کے چند الفاظ تھے مگر کوئی ہم سے پوچھے کہ ہمیں ان چند انگلش کے الفاظ سن کر کیسا لگا، بس تب ہم نے سوچ لیا تھا کہ زندگی میں ہماری اگر تم سے پھر ملاقات ہوجاتی ہے، تو ہم، تم سے نہیں ملے گے، اس لیے اگلے دن ہم نے تمھیں امی کو آخری بار بھی نہیں دیکھنے دیا، اور پتا ہے تمھارے جانے کے بعد سالار کو تو جیسے چپ ہی لگ گئی تھی، وہ راتوں کو اٹھ کر روتا تھا، اُسے تم سے شکوہ نہیں تھا، وہ ہمیشہ ہمیں ہی غلط کہتا تھا. پہلے پہل وہ ہمیں تمھاری برائی کرنے سے روکتا تھا، یہ تب کی بات تھی جب ہمیں حقیقت کا نہیں پتا تھا، مگر حقیقت کا پتا چلنے کے بعد ہم تو ہر وقت تمھارے لیے دعا ہی کرتے تھے مگر سالار کو جیسے کچھ پا لینے کی خواہش باقی ہی نہیں رہی تھی، ہر وقت اپنے کمرے میں گھسا رہتا تھا، ہم تو اُس کے سامنے تمھارا نام لینے سے بھی ڈرتے تھے. کون کہتا ہے کہ پھپھو اور بھتیجے کا رشتہ خالہ اور بھانجے کی نسبت کمزور ہوتا ہے، میرے نزدیک تو یہی ہے کہ رشتے تب ہی مضبوط ہوتے ہیں جب ہم سچے دل سے رشتےداری نبھاتے ہیں، تمھارے اور سالار کے رشتے نے برسوں پہلے قائم کی گئی اس روایت کو توڑ ڈالا کہ خالہ اور بھانجے کا رشتہ، پھپھو اور بھتیجے کے رشتے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے." اب کی بار سعدیہ بیگم نے آسیہ بیگم سے معافی مانگی
" سالار کہاں ہے" سالار کا نام سنتے ہی آسیہ بیگم نے سالار کا پوچھا
" بھائی باہر گے تھے تھوڑی دیر پہلے، میں ان کو کال کرتی ہوں" فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا
" یہ کون ہے"
" یہ ہمارے گھر کی رونق فاطمہ ہے" آفتاب صاحب نے کہا جو کہ پیچھلے ایک گھنٹے کے بعد دل سے مسکراۓ
" ماشاءاللہ ، ادھر آؤ پھپھو کے پاس" آسیہ بیگم کے بلانے پر فاطمہ اٹھ کر آسیہ بیگم کے پاس چلی جاتی ہے
پانچ منٹ بعد
" یہ دیکھو، رضیہ تمہارا بیٹا آگیا" عالیہ بیگم نے سالار کو ڈرائنگ روم میں داخل ہوتا دیکھ کر کہا
" ماشااللہ سالار کتنے بڑے ہوگے ہو"
" پھپھو، آپ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے"
" چھوڑ جانے کا شکوہ نہیں کرو گے"
" نہیں پھپھو اپنوں سے شکوہ کیسا پر ایک وعدہ ضرور لینا چاہوں گا آپ سے "
" کیا"
" آپ باقی زندگی، میرے ساتھ رہیں گی"
" جیتے رہو، میرے بچے، میں خوشی سے اپنے سالار کے ساتھ رہوں گی" آسیہ نے سالار کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
" السلام علیکم " ڈرائنگ روم میں سلیم صاحب داخل ہوتے ہیں
" وعلیکم السلام، جناب، ہم آپ کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں، کم ہے، آپ کی بہت مہربانی کہ آپ نے ہمارے گھر کی عزت کو اپنے گھر کی عزت بنایا "
" اس میں، میرا کوئی کمال نہیں ہے، یہ سب تو اللہ کے کام ہیں، میں آج کے دن آپ لوگوں کی تعریف کرنا چاہوں گا کہ آپ لوگوں نے آسیہ کی تربیت بہت اچھی کی ہے. میری یہ خوش قسمتی ہے کہ آسیہ اس دنیا میں میری شریک حیات بنی "
" آسیہ کون" سب نے سلیم صاحب کی طرف دیکھا
" ہاہاہاہا، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں رضیہ کو آسیہ کہتا ہوں "
" ہاہاہاہا چلیں پھر ٹھیک ہے"
ابھی آسیہ بیگم حیا کو بلانے ہی والی ہوتی ہے کہ ملازم ڈرائنگ روم میں آجاتا ہے"
" صاحب، آپ کے لیے یہ کسی نے بھیجا ہے " ملازم نے فائل سلیم صاحب کو پکڑاتے ہوۓ کہا
" کس نے بھیجا ہے"
" پتا نہیں صاحب، کورئیر والا آیا تھا دینے کے لیے "
" اچھا، تم جاؤ میں اس کو دیکھتا ہوں "
********************
ملازم کے جانے بعد جب سلیم صاحب نے فائل کھولی تو انھیں حیا کی کچھ تصویریں نظر آئی. وہ حیا کے بچپن کی تصویریں تھیں. انھوں نے مسکراتے ہوئے فائل سے ساری تصویریں نکال لی اور ہاتھ میں پکڑ کر دیکھنے لگے. ابھی ان نے تین چار ہی تصویریں دیکھی تھی کہ آسیہ بیگم نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور کہا
" کیا ہے اس فائل میں سلیم"
" کچھ خاص نہیں.... بس حیا کے بچپن کی کچھ تصویریں ہیں. شاید اُس کی کسی دوست اس خاص موقعے پر نے بھجوائی ہیں"
" بھائی صاحب ہمیں بھی دکھائیں ذرا ہماری گڑیا کی تصویریں" عالیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
" کیوں نہیں باجی یہ لیں" سیلم صاحب نے مسکراتے ہوئے فائل عالیہ بیگم کو پکڑاتے ہوئے کہا
اپنی تصویروں کا سنتے ہی حیا نے سوالیہ نظروں سے رانیہ کو دیکھا. جو کہ اب حیا کو دیکھ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنس رہی تھی. رانیہ کو دیکھ کر حیا کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھی، اور وہ کچھ ہی دیر میں بغیر کچھ کہہ رانیہ کی شامت کرنے کے لیے اُس کا ہاتھ پکڑ اُسے کر ٹی وہی لاونچ میں لے گئی. جبکہ سالار اور فاطمہ حیا کی تصویروں کا سنتے ہی عالیہ بیگم کے پاس آکر بیٹھ گے.
" ماشاءاللہ، ہماری حیا تو بالکل رضیہ تم پر گئی ہے، یہ دیکھو وہی چھوٹی چھوٹی آنکھیں" سعدیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
" پتا نہیں بھیجی کس نے ہیں یہ؟" سلیم نے سوالیہ نظروں سے آسیہ کی طرف دیکھا
" مجھے لگتا ہے کہ رانیہ نے بھیجی ہیں تبھی کچھ تصویریں اُس کی بھی ہیں حیا کے ساتھ " آسیہ نے مسکراتے ہوۓ تصویروں کو صوفے کے ساتھ رکھے گے چھوٹے ٹیبل پر رکھ دیا.
" رانیہ کون ہے" سعدیہ بیگم جو کہ سوال کرنے کی عادت سے مجبور تھی پوچھنے لگیں
" رانیہ، حیا کی دوست ہے، بہت ہی اچھی بچی ہے، ہمارے گھر بھی اُس کا آنا جانا لگا رہتا ہے، ابھی بھی وہ آئی ہوئی ہے " سلیم نے جواب دیا
" سعدیہ بھابی، آئی تو تھی رانیہ، ارم کی شادی پر، بھول گئی کیا آپ" عالیہ بیگم نے سعدیہ بیگم کی یادداشت پر ماتم کرتے ہوئے کہا
" او ہاں، یاد آیا، رانیہ تو ماشاء اللہ کافی ہنس مکھ بچی ہے، مجھے تو وہ اُس دن بھی بہت اچھی لگی تھی" سعدیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
" ارے یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی، پہلے آپ ہمیں ہماری بچیوں سے تو ملا لیں" فرقان صاحب نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا
" جی بھائی، ابھی بلا کر لاتی ہوں " عالیہ نے اٹھتے ہوۓ کہا
**************************
" یہ کیا مزاق تھا رانیہ " حیا نے رانیہ کا بازو مڑورتے ہوۓ کہا
" آ آہ.... جنگلی کہی کی... چھوڑو میرا بازو.. میں نے تمھیں گفٹ دیا ہے اور تم میرے ساتھ یہ سلوک کر رہی ہو" رانیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
" یہ گفٹ تھا.... ایسا گفٹ کوئی کسی کو دیتا ہے... کوئی کسی کو اُس کی گندی گندی تصویریں گفٹ کرتا ہے اور وہ بھی اُس دن جب اُس کا رشتہ لینے لوگ آۓ ہوں " حیا نے اپنی اونچی آواز برقرار رکھی
" یار میں نے تو نیک نیتی سے یہ تصویریں تمھیں پارسل کی تھی تاکہ عالیہ آنٹی لوگ بھی دیکھ سکے کہ حیا بچپن میں کیسی دِکھتی تھی " رانیہ نے معصوم بنتے ہوۓ کہا
" ہاں مجھے پتا ہے تمھاری نیک نیتی کا.... اگر پارسل کرنی ہی تھی تو مجھ سے اچھی تصویریں لے کر پارسل کر دیتی" حیا نے" نیک نیتی" کو زور دیتے ہوۓ کہا
" کسی کا گفٹ کسی سے تھوڑا ہی لے کر دیا جاتا ہے، یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور میں قانون کا احترام کرنے والی انسان ہوں " رانیہ نے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے کہا
ابھی حیا اس کو کچھ کہنے ہی والی ہوتی ہے کہ آسیہ بیگم ٹی وی لاونچ میں آجاتی ہیں. حیا ان کو دیکھ کر اپنا ارادہ ملتوی کر دیتی ہے ورنہ وہ رانیہ کو مزا چکھانے کا موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیتی
" حیا اور رانیہ چلو، اندر سب آپ کو بلا رہیں ہیں اور خبردار کوئی الٹی سیدھی حرکت کی" آسیہ بیگم نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا
" مجھے کیوں بلا رہیں ہیں" رانیہ نے سوالیہ نظروں سے آسیہ بیگم کی طرف دیکھا جس کی خوشی آج دیکھنے کے قابل تھی
" بیٹا آپ حیا کی دوست ہو نہ، اس لیے وہ لوگ آپ سے بھی ملنا چاہتے ہیں، آپ کو کوئی مسئلہ تو نہیں "
" نہیں آنٹی کوئی بات نہیں، آپ جائیں، ہم آتے ہیں"
" اچھا پھر میں جارہی ہوں، تم لوگ مجھے دس منٹ میں ڈرائنگ روم کے اندر نظر آؤ" عالیہ بیگم نے ڈرائنگ روم کی طرف جاتے ہوئے کہا
" اوکے ماما"
***************
"شہریار کام ہوگیا "
" نہیں سدرہ ابھی تک نہیں ہوا، بس ابھی حیا کے گھر ہی جارہا ہوں"
" ککککک... کیا مطلب، تم ابھی تک گے نہیں، میں ہی بیوقوف تھی جو تم جیسے سست انسان پر بھروسہ کیا، تمھارے جانے سے پہلے اگر حیا نے چاچو کو کچھ بتا دیا نہ تو مجھے اپنی جان سے جانا پڑے گا"
" یار جا جو رہا ہوں، دن کو ایک دوست کے گھر چلا گیا تھا، تبھی لیٹ ہوگیا، ابھی راستے میں ہوں، دس منٹ تک پہنچ جاؤں گا اُس کے گھر"
" یار پلیز جلدی کرو، جب تمھیں پتا تھا کہ آج تم نے حیا کے گھر جانا ہے تو تمھیں کیا ضرورت تھی اپنے دوست کے گھر جانے کی"
" تم اتنا کیوں ڈر رہی ہو، کیا اکھاڑ لیں گے تمھارے چاچو میرا"
" تمھیں تو شاید اللہ کے نام پر معاف بھی کردیں مگر مجھے تو وہ ذبح کر کے رہیں گے اگر انھیں ہمارے پلین کا پتا چل گیا تو"
" تم پریشان نہ ہو، میں بس پہنچنے ہی والا ہوں"
" دس منٹ سے تم یہی کہہ رہے ہو کہ پہنچنے والا ہوں، پتا نہیں کب پہنچوں گے"
" اچھا یار ادھر ٹریفک بہت ہے، میں حیا کے گھر پہنچ کر کال کرتا ہوں، باۓ" شہریار نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے کہا
" اوکے باۓ"
************************************
" پہلے تم جاؤ اندر، پھر میں تمھارے بعد جاؤں گی" حیا نے رانیہ کو دھکا دیتے ہوۓ کہا جو کہ حیا کے ساتھ ڈرائنگ روم کے دروازے کے پیچھے کھڑی تھی
" میں کیوں جاؤ،. تم جاؤ پہلے، رشتہ تمھارا آیا ہے، میرا نہیں" رانیہ نے حیا کو جتاتے ہوۓ کہا
" پھر ادھر ہی کھڑی رہو، کیونکہ میں تو نہیں جانے والی پہلے" حیا نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا
" کتنی ضدی ہو تم" رانیہ نے ہار مانتے ہوۓ کہا
" بہت شکریہ آپ کا کہ آپ نے مجھے بتایا ، مجھے تو پتا نہیں تھا کہ میں ضدی بھی ہوں "
" تمھارا تو میں، بعد میں علاج کروں گی" رانیہ نے حیا کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا
" ضرور کرنا، کس نے منع کیا ہے، ابھی اندر چلوں، اس سے پہلے ماما باہر آجائیں" حیا نے ہنستے ہوئے کہا
" ہاں چلو"
" السلام علیکم" حیا اور رانیہ نے ایک ساتھ کہا
" وعلیکم السلام" جیسی کہی آوازیں ایک ساتھ سنائی دی
" کیسی ہو آپ دونوں " آفتاب صاحب نے بات کا آغاز کرتے ہوۓ کہا
" الحمداللہ ٹھیک ہیں" حیا نے جواب دیا
" پوچھ تو ایسے رہیں ہیں جیسے اندھے ہو، لگتا ہے کہ اللہ نے آنکھیں بنٹے کھیلنے کے لیے دی ہیں" رانیہ نے حیا کے کان میں کہا جس کو سن کر حیا ہنسنے لگی مگر آسیہ بیگم کی گھورتی آنکھیں دیکھ کر ایک بار پھر چپ کرکے بیٹھ گئی.
" بیٹا، ادھر آؤ، اپنی ماموں جان کے پاس آکر بیٹھو" آفتاب صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
" کہاں کے ماموں جان، اگر میں اتنی ہی پیاری تو میری زندگی کے انیس سال گزرنے کے بعد ہی کیوں آپ کو خیال آیا کہ آپ کی ایک عدد بھانجی بھی ہے" حیا نے یہ سب صرف سوچا، کیونکہ آسیہ بیگم کے سامنے بول کر وہ اپنا منہ نہیں تڑوانا چاہتی تھی.
" بیٹا آگے آپ کا کیا ارادہ ہے"
" کس بارے میں انکل " حیا نے جان بوجھ کر لفظ " انکل" پر زور دیا
" بیٹا آپ مجھے ماموں کہو تو مجھے زیادہ اچھا لگے گا"
" جی ماموں " حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
" تو بیٹا آپ نے بتایا نہیں، آگے آپ کے کیا ارادہ ہیں" آفتاب صاحب نے ایک بار پھر اپنا سوال دھرایا
" ابھی تو میں پڑھنا چاہتی ہوں، ویسے بھی ابھی میرا میڈیکل کا پہلا سال چل رہا ہے"
" یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ ابھی بات پڑھنا چاہتی ہو، پھر ایسا کرتے ہیں کہ ہم ابھی منگنی کر لیتے ہیں اور حیا کی پڑھائی کے بعد ہم شادی کی تاریخ رکھ لیں گے، تمہارا کیا خیال ہے آسیہ "
" بھائی منگنی کو چھوڑیں، ہم ابھی ان دونوں کا نکاح کروا دیتے ہیں اور حیا کی پڑھائی کے بعد ہم رخصتی کر لیں گے" آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا جبکہ حیا کا نکاح کے بارے میں سن کر منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
" ہاں یہ زیادہ صحیح رہے گا" عالیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
" تو پھر ایسا کرتے ہیں کہ اگلے مہینے کے پہلے جمعے کو نکاح کی تاریخ رکھ لیتے ہیں، آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے سلیم "
" نہیں، مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے، بس آپ ایک بار حیا سے پوچھ لیں کہ اُسے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے " سلیم نے کھوئی ہوئی حیا کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
" مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے" حیا نے اپنی نظریں نیچے کرتے ہوۓ کہا. وہ اعتراض کرنا چاہتی تھی مگر چاہ کر بھی نہ کر سکی کیونکہ وہ اپنی ماں کو اداس نہیں دیکھنا چاہتی تھی. جب سے وہ ڈرائنگ روم میں آئی تھی. اس نے ایک بار بھی سالار کی طرف نہیں دیکھا مگر فاطمہ کی طرف اُس نے ضرور دیکھا کیونکہ وہ کب سے اُسے ہی دیکھے جارہی تھی.
" یہ تو بہت اچھی بات ہے، چلو جی اگلے مہینے کے پہلے جمعے کو حیا اور سالار کا نکاح ہوگا"
" انشاءاللہ" سب نے ایک ساتھ کہا جس میں سب سے اونچی آواز سالار کی تھی.
" باتیں تو ہوتی رہیں گی، پہلے آپ سب کھانا کھا لیں"
آسیہ بیگم کے کہنے کی دیر تھی کہ سب آٹھ کھڑے ہوۓ ہو اور ٹی وی لاونچ میں کھانا کھانے چلے گے
سدرہ کب سے شہریار کو فون کر رہی تھی مگر اس کا نمبر ہی بند جارہا تھا جس کی وجہ سے سدرہ غصے سے ہاتھ میں فون پکڑے صحن کے چکر لگا رہی تھی
" مجھے بھروسہ ہی نہیں کرنا چاہیے تھا اس بیوقوف انسان پر، اس سے اچھا تھا کہ میں خود ہی یہ کام کر لیتی، مجھے اب ملے نہ دوبارہ، انگوٹھی اتار کر اُس کے ہاتھ میں دوں گی، افففف شہریار سے زیادہ لاپروا انسان آج تک نہیں دیکھا، اوپر سے اس نکمے نے فون بھی آف کر رکھا ہے، میں اب اور انتظار نہیں کر سکتی، بھاڑ میں جاۓ منحوس، میں جاکر سو جاتی ہوں " سدرہ نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا
**************************