تو سالار صاحب آپ کا کیا ارادہ ہے" فرقان صاحب نے اپنے اکلوتے بھتیجے سے کہا
" جی... تایا ابو کس بارے میں "
" شادی کے بارے میں "
" وہ تایا ابو، میں پہلے سٹیبل ہونا چاہتا ہو ں، اُس کے بعد ہی شادی کے بارے میں سوچوں گا"
" میاں اور کتنا سٹیبل ہونا چاہتے ہیں آپ، اب تو ماشاءاللہ سے آپ ڈاکٹر ہیں" آفتاب صاحب نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا
" لیکن بابا جان فی الحال میں شادی نہیں کرنا چاہتا"
" اس کو چھوڑیں، آفتاب صاحب، میں نے رانیہ کی دوست حیا کو اس کے لیے پسند کیا ہے، آپ لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے "
" بھئی، ہمیں کیا اعتراض ہوگا، اتنی اچھی بچی ہے حیا، مجھے تو وہ بہت پسند ہے" فرقان صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
" مجھے بھی وہ بہت پسند ہے، ہم جلد ہی اُس کے گھر جائیں گے"
" مگر میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا "
" افففف بھائی آپ بھی نہ، اتنی اچھی تو ہے حیا، اب تو اگلے ہفتے زوہیب بھائی بھی پاکستان آرہے ہیں "
" او ہاں، بس زوہیب آجائے پھر ہم جائیں گے" سعدیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
" انشاللہ"
________________________________
" حیا بیٹا آپ نے کچھ کھایا ہی نہیں " رضا صاحب نے کھوئی ہوئی حیا سے کہا
" نہیں انکل، کھایا تو تھا" حیا کو جتنی بھی گالیاں آتی تھی، اس نے دل ہی دل میں رضا صاحب کو ان تمام گالیوں سے نوازہ.
" بھابی کھانا بہت ہی مزیدار تھا، اب آپ بھی ہمارے گھر آنا، اور ہمیں بھی خدمت کا موقع ضرور دیجئیے گا"
" شکریہ آسیہ، ضرور آئیں گے، تم بھی کھانا پکانے میں کسی سے کم نہیں ہو"
" شہریار نظر نہیں آیا ، وہ کہاں تھا"
" بھائی صاحب اس کے سر میں درد تھا، تو میڈیسن لے کر سویا ہوا ہے"
" اچھا"
" اب ہمیں اجازت دیں، بہت شکریہ آپ سب کا"
" پھر ضرور آۓ گا"
" جی ضرور، مگر اب آپ کی باری ہے، آپ ہمارے غریب خانے میں کب آرہے ہیں "
" بہت جلد " رضا صاحب نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا
" اللہ حافظ "
" اللہ حافظ"
________________________________
حیا گھر آتے ساتھ ہی اپنے کمرے میں گھس گئی، اور پتا نہیں رات کو کتنی دیر تک اس کی آنکھوں سے موتی گرتے رہے. اسے شہریار کی ساری باتیں یاد آرہی تھی. چلو شہریار تو اپنا نہیں تھا، پرایا تھا، سدرہ تو اس کی کزن تھی، اُس نے کیوں کیا ایسا، اتنا تو وہ جانتی تھی کہ سدرہ اس کو کچھ خاص پسند نہیں کرتی، مگر اتنی نفرت کرتی تھی، اس بات کا اسے اندازہ نہیں تھا. اور شہریار مجھے بے حیا کہ رہا تھا خود وہ کیا ہے، کم ازکم میں نے کسی کے جزبات سے تو نہیں کھیلا، اگر وہ اتنا ہی شریفزادہ تھا تو اس کو کیا ضرورت تھی مجھ سے جھوٹا پیار کا ڈرامہ کرنے کی، اور سدرہ ویسے تو بہت اسلامی بنتی تھی، اب کہاں گیا اسلام، اس کو یہ سب کرتے ہوئے زرا شرم نہیں آئی، اسلام تو ہمیں یہ سب کرنے کا درس نہیں دیتا، میرے کردہ گناہوں کے باوجود بھی اللہ نے مجھے بچا لیا، اور میں ایک گناہگار جس کو یہ بھی نہیں پتا کہ اس نے آخری دفعہ نماز کب پڑھی تھی، افففف میں کتنے خسارے میں تھی. شاید انسان ہمیشہ ہی خسارے میں ہوتا ہے، ہم مسلمان جب دنیا میں آتے ہیں تو دنیا میں آنے کا مقصد بھول کر دنیا کی رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں، ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں دنیا میں کیوں بھیجا ہے، دنیا کی محبتوں میں کھو کر ہم اللہ سے عشق کرنا بھول جاتے ہیں اور آخر میں صرف نام کے مسلمان بن جاتے ہیں.
یہ سب سوچتے ہوئے اسے کب نیند آئی اسے خود بھی پتا نہیں چلا. صبح اس کی سوجھی ہوئی آنکھوں سے ہوئی. آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر وہ خود بھی حیران رہ گئی، اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایک دن میں ایسا کیا ہوا کہ اس کی یہ حالت ہوگئی، کیا اسے شہریار سے اتنی محبت تھی کہ وہ اس کے لیے پوری رات روتی رہی، نہیں اس نے تو شہریار کی بیوفائی پر ایک آنسو بھی نہیں بہایا، اس تو دکھ اس بات کا تھا کہ اب تک وہ اندھی کیوں بنی رہی، وہ اللہ سے اتنا دور کیسے رہی، وہ اللہ کو ماننے والی تھی مگر سواۓ اللہ کو ماننے کے، اس نے کیا ہی کیا تھا. اپنی سوجھی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر اس نے فیصلہ کیا کہ اسے آج کالج نہیں جانا چاہیے، مگر اگر وہ آج کمزور بن جاتی تو شاید وہ زندگی بھر پھر بہادر نہ بن سکتی. اس نے اپنا کالج بیگ اٹھایا اور کمرے سے باہر نکل گئی.
________
" خیر تو ہے، آج ہماری بیٹی بہت جلدی اٹھ گئی" سیلم صاحب نے مسکراتے ہوئے حیا سے کہا جو کہ ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھ چکی تھی.
" بابا وہ آج میری پریزینٹیشن ہے نہ، اس لیے میں جلدی اٹھی ہوں"
" اچھا تبھی میں سوچوں کہ آج شہزادی حیا جلدی کیسے جاگ گئی" آسیہ بیگم نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
ان کی بات سن کر حیا نے ہمیشہ کی طرح منہ چڑھا لیا جبکہ سلیم صاحب ضبط کرنے کے باوجود اپنی ہنسی کنٹرول نہ کرسکے.
" جی نہیں ماما، میں ہمیشہ وقت پر ہی اٹھتی ہوں"
" ہمیں نہ بتاؤ بیٹا جانی، ہمیں پتا ہے کہ آپ کس ٹائم اٹھتی ہیں " اب کی بار سیلم صاحب نے حیا کو چھیڑا
" حیا یہ تمھاری آنکھوں کو کیا ہوا ہے، اتنی سوجھی ہوئی کیوں ہیں" آسیہ بیگم نے حیا کی طرف دیکھا جو کب سے اپنا سر نیچے کر کے ناشتہ کر رہی تھی
" ماما.. وہ... میری... پریزینٹیشن ہے نہ.. آج اس لیے میں نے رات دیر تک جاگ کر... پڑھائی کی، تو شاید اس لیے سوجھ گئی ہیں" حیا نے لڑکھڑاتے ہوئے جواب دیا
حیا آسیہ بیگم کے اس اچانک سوال سے گھبرا گئی تھی. بے شک وہ کمرے سے ہی سوچ کر آئی تھی کہ اگر کسی نے پوچھا کہ وہ اس کی آنکھیں کیوں سوجھ گئی ہیں، تو وہ پریزینٹیشن کا بہانہ کرۓ گی، مگر ماں تو پھر ماں ہوتی ہے، آنکھیں پڑھنا کوئی ماں سے سیکھے، اس لیے حیا نے جواب دیتے ہوئے تھوڑا گھبرا گئی تھی
" حیا میں تمھیں آخر کتنی بار منع کروں کہ رات کو دیر تک مت جاگا کرو، بیٹا پڑھائی کا اتنا سٹریس کیوں لیتی ہو، اپنی صحت کا بھی خیال رکھا کرو، آسیہ آپ ہی کچھ سمجھایا کرو اسے"
" بابا آئندہ ایسا نہیں ہوگا" حیا نے نظریں چراتے ہوئے کہا
" سلیم میں، میں کیا سمجھاؤں اسے، میری سنتی ہے کبھی، جب بھی ڈانٹتی ہوں آپ درمیان میں بول پڑتے ہیں، آپ کے ہی لاڈ پیار نے بگاڑا ہے اسے" آسیہ بیگم نے انتہائی اونچی آواز میں کہا
آسیہ بیگم کی بات سن کر حیا کو لگا کہ آسیہ بیگم نے آج سالوں بھر کی بھڑاس نکالی ہے، حیا نے اپنی ہنسی مشکل سے کنٹرول کی، کیونکہ اسے پتا تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے، ماما ہمیشہ کی طرح آخر میں بابا سے ناراض ہو جائیں گی، اور بابا بچارے ان کو مناتے رہیں گے، کتنی اچھی فیملی ہے میری، دل سے محبت کرنے والے لوگ ہیں، اسے نہیں یاد تھا کہ آخری دفعہ کب ماما بابا کی لڑائی ہوئی ہو، اور بابا نے ماما کو منایا نہ ہو، بابا ہمیشہ ماما کے آگے جھک جاتے ہیں شاید اس لیے کیونکہ وہ ماما سے سچی محبت کرتے ہیں، بابا ماما سے ناراض ہو ہی نہیں سکتے ، کیونکہ جن سے محبت کی جاۓ، ان سے ناراض تھوڑے ہی ہوا جاتا ہے، ابھی وہ یہی کچھ سوچ رہی تھی کہ بابا کی جوابی کاروائی نے اسے حقیقت کی دنیا میں واپس لانے پر مجبور کر دیا.
" آسیہ بری بات، ہماری حیا کوئی بگڑی ہوئی بچی نہیں ہے، بس تھوڑی ناسمجھ ہے، اور کچھ نہیں، میں آپ کو حیا کو ڈانٹے سے اس لیے منع کرتا ہوں کہ مجھے نہیں اچھا لگتا کہ میری بیٹی کو کوئی میرے سامنے کچھ برا بھلا کہہ، باقی اکیلے میں جو آپ کا دل چاہے ، وہی کیا کریں، اگر چاہے تو دو تین ہڈیاں بھی توڑ سکتی ہیں" سلیم صاحب نے حیا کو آنکھ مارے ہوئے کہا
" افففف بابا، آپ کتنے بڑے چیٹر ہیں "
" اب اتنی بھی ظالم نہیں ہوں سلیم، جتنا آپ مجھے سمجھتے ہیں، بس کبھی کبھار حیا کو تھوڑا بہت ڈانٹ لیتی ہوں، پر دل سے کبھی بھی نہیں، مجھے پتا ہے میری حیا دنیا کی سب سے اچھی بیٹی ہے" آسیہ بیگم نے حیا کے سر پر مارتے ہوئے کہا
" بالکل صحیح کہا آسیہ تم نے، ہماری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے، حیا جیسی بیٹی نصیب والوں کو ہی ملتی ہیں " سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
" اب میری تعریف ہوگئی ہوں، تو میں جاؤ" حیا نے وال کلاک پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
" جی بابا کی جان، آپ جا سکتی ہیں "
" اللہ حافظ"
" اللہ حافظ بیٹا"
**********************
" امی، امی، امی کدھر ہیں آپ" فاطمہ نے کہا جو کہ کب سے عالیہ بیگم کو ڈھونڈ رہی تھی، پر وہ اُسے مل نہیں رہی تھی
" کیا ہوا، امی کو کیوں ڈھونڈ رہی ہو، آج تو تمہاری پریزینٹیشن ہے نہ، لیٹ نہیں ہورہی تم" سالار نے ایک نظر فاطمہ پر ڈالتے ہوئے کہا جو ہاتھوں میں دانت بریش پکڑے عالیہ بیگم کو ڈھونڈ رہی تھی
" بھھھھائی.... وہ مجھے امی سے پیسے چاہیے تھے"
" کتنے پیسے چاہیے، مجھ سے لے لو" سالار نے اپنا والٹ نکالتے ہوئے کہا
" پر بھائی، مجھے امی سے بات بھی کرنی ہے"
" یار امی تو تائی امی کی طرف گئی ہوئی ہیں"
" اچھا پھر میں تائی امی کی طرف چلتی ہوں "
" تمھیں مجھ سے پیسے لینے سے کیا پرابلم ہے"
" پرابلم تو کوئی نہیں ہے بھائی، پر کسی کی سالگرہ کا تحفہ، اُس کے اپنے ہی پیسوں سے تھوڑے ہی لایا جاتا ہے " فاطمہ نے دوسرا جملہ انتہائی آہستہ آواز میں کہا
" اففف فاطمہ، تمھیں سمجھنا میری سمجھ سے باہر ہے، پتا نہیں کیا بڑ بڑ کر رہی ہو "
" اوہو، بھائی آپ تو جاۓ نہ، آپ کو دیر نہیں ہورہی "
" اگر میں چلا گیا تو تم کس کے ساتھ کالج جاؤ گی"
" او ہاں، میں تو بھول ہی گئی تھی بھائی، آپ بس پانچ منٹ میرا انتظار کریں، میں دس منٹ میں واپس آتی ہوں " فاطمہ نے ہنستے ہوئے کہا
" ہاہاہاہا، جلدی جاؤ ڈرامے باز" سالار نے ہنستے ہوئے فاطمہ کو کہا
***********************
" کیا ہوا حیا، تمھیں کیا بات کرنی تھی، سوری یار میں نے تمھارے میسچ صبح پڑھے ہیں"
" شہریار نے مجھے دھوکا دیا ہے"
" کککککک.... کیا، تم سچ کہہ رہی ہو حیا، اگر یہ مذاق ہے تو تم مجھ سے بہت مار کھاؤ گی"
" میں مذاق نہیں کر رہی ہے، رانیہ اس نے مجھے سچ میں چیٹ کیا ہے، اس نے میری کزن سدرہ کے کہنے پر پیار کا جھوٹا ناٹک کیا ہے"
" کککک کیا سچ میں، مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے، تمھیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی"
" غلط فہمی تب ہوتی جب کوئی اور مجھ سے یہ آکر کہتا، مگر میں نے خود اپنے کانوں سے سننا ہے، چلو مان لیا کہ مجھے سننے میں کوئی غلطی ہوگئی ہوگی، مگر شہریار سدرہ کا منگیتر ہے یہ تو ہرگز غلط خبر نہیں ہوسکتی، کیونکہ شہریار کے ماما پاپا نے مجھے خود بتایا ہے رات کو"
" یہ سب کرنے کا فائدہ" رانیہ نے حیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، حیا کو ایسا لگا جیسے رانیہ کو اس کی بات پر یقین نہ ہو.
" تمھیں مجھ پر یقین نہیں ہے"
" حیا مجھے تم پر یقین ہے، بس میں صرف یہ پوچھ رہی ہو،. یہ سب کرکے سدرہ اور شہریار کو کیا ملا"
" تمھیں تو پتا ہے، میری اور سدرہ کی بچپن سے لے کر آج تک نہیں بنی، سدرہ نے یہ سب مجھے نیچا دکھانے کے لیے کیا ہے"
" حیا مجھے یقین نہیں آرہا، شہریار تو چلو پھر تمہارا کچھ نہیں لگتا تھا، مگر سدرہ تو تمھارے اپنے سگے تایا کی بیٹی تھی، اس کو تمھارے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے ذرا بھی شرم نہیں آئی، مجھے پتا ہے کہ سدرہ تم سے جلتی ہے، مگر وہ اتنا نیچے گر سکتی تھی، یہ تو میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی"
" میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اللہ نے میرے ساتھ کچھ بھی غلط ہونے سے ہی مجھے ہی بچا لیا"
" ہاں واقعی میں، تم نے تو ابھی تک شہریار کے جھوٹے پیار کا جواب بھی نہیں دیا تھا، چلو شہریار تو نکل گیا لائن سے، اب سالار آفتاب کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے"
" دفعہ ہو جاؤ رانیہ، میرے لیے تمھیں وہی پینڈو ہی ملا تھا"
" کیوں کیا برائی ہے سالار بھائی میں "
" چھ سات سال بڑے ہیں مجھ سے، تمھیں یہ نظر نہیں آرہا "
" اففف حیا تم بھی بالکل بچی ہی ہو، عمر کوئی معانی نہیں رکھتی"
" کیوں نہیں معانی رکھتی، مجھے پتا ہے کہ تم نے اپنے لیے کوئی شہزادہ ہی ڈھونڈنا ہے، اور میرے لیے پینڈو پسند کر رہی ہو" حیا نے منہ بناتے ہوئے کہا
" ہاہاہا، اچھا چلو نہ کرنا سالار بھائی سے شادی، منہ تو نہ بناؤ، اب تو کالج بھی آگیا ہے"
" پہلے سوری بولو "
" کس بات کی سوری"
" اس بات کی سوری کہ تم نے مجھے سالار سے شادی کرنے کو کہا" حیا نے حکم چلاتے ہوئے کہا
" افففف، بڑی ہو جاؤ حیا تم، اب تم دودھ پیتی بچی نہیں ہو، پورے انیس سال کی ہو"
" ہاں بس تم میری عمر ہی گنتی رہو" حیا نے منہ بناتے ہوئے کہا
" اب پھر تم ناراض ہوگئی، افففف حیا تمھارا کچھ نہیں ہوسکتا"
" میری برائیاں کرنے سے اگر فرصت مل گئی ہو، تو باہر چلیں"
" ہاں چلو"
***********************
" السلام علیکم"
" وعلیکم السلام، فاطمہ آج کافی دنوں بعد چکر لگایا ہے، اتنا نہیں ہوتا تم سے کہ دو تین سیڑھیاں چڑھ کر اپنی تائی امی سے ہی ملنے آجاؤ"
" اففف تائی امی دو تین سیڑھیاں، پورے بچیس سیڑھیاں ہیں، اور جہاں تک آپ کے اکیلے پن کی بات ہے، تو زوہیب بھائی آرہیں نہ، تو پھر آپ کا اکیلا پن دور ہی ہوجاۓ گا، ویسے یہ بتائیں امی کہاں ہیں، نظر نہیں آرہی "
" عالیہ تو کچن میں ہے، میرے منع کرنے کے باوجود برتن دھو رہی ہے"
" اچھا چلیں، میں امی سے مل کر آتی ہوں، مجھے کالج کے لیے دیر ہورہی ہے"
" ہاں جاؤ بیٹا "
" امی، میری پیاری امی، ناشتہ کیا ہے آپ نے"
" کام کی بات کرو، کام کیا ہے فاطمہ"
" افففف توبہ ہی ہے امی، کیا میں بغیر کام کے اپنی امی کو پیار نہیں کرسکتی، آپ ہٹیں میں برتن دھوتی ہوں " فاطمہ نے عالیہ بیگم کو پیچھے کرتے ہوئے کہا
" نہیں تم جاؤ، تم لیٹ ہو رہی ہو، میں خود دھو لوں گی"
" کچھ نہیں ہوتا امی، دس پندرہ منٹ اگر کالج سے لیٹ ہو جاؤں گی تو کالج والے نکال تھوڑے ہی دیں گے"
" اچھا چلو جیسی تمہاری مرضی"
" امی آج ڈیٹ کیا ہے"
" تین جولائی"
" ہمارے گھر میں آج کسی خاص بندے کی سالگرہ ہوتی ہے"
" او ہاں مجھے یاد آیا ہے، آج تو سالار کی سالگرہ ہے"
" تو پھر نکالیں پیسے"
" پیسے کس بات کے"
" ان کے لیے اچھا سا تحفہ لینے کے لیے"
" اچھا اب میں سمجھی، تبھی تم میری اتنی خدمتیں کر رہی تھی" عالیہ بیگم نے فاطمہ کے کان مڑوڑتے ہوئے کہا
" نہیں ایسی بات نہیں امی"
" بیٹا ماں ہوں میں آپ کی، سب سمجھتی ہوں، مجھے بچہ نہ بناؤ، اچھا چلو نیچے، میرا پرس نیچے پڑا ہے"
" آپ جاکر پیسے لے آئیں، میں تب تک برتن دھو لیتی ہوں"
" نہیں تم چھوڑو، تم پہلے ہی لیٹ ہوگئی ہو، میں بعد میں خود دھو لوں گی"
" سعدیہ بھابی میں ذرا دو منٹ میں واپس آئی، فاطمہ کو پیسے دینے ہیں "
" کتنے پیسے چاہیے، مجھ سے لے لوں "
" نہیں، نہیں میں ابھی دے کر واپس آتی ہوں "
" تم چپ کرو، عالیہ، فاطمہ تم بتاؤ کتنے پیسے چاہیے ہیں "
" تین ہزار "
" اچھا یہ لو " سعدیہ بیگم نے پرس سے پیسے نکالتے ہوئے کہا
" تھینک یو تائی امی"
" بھابی آپ نے اچھا نہیں کیا،. میں آپ کو پیسے واپس کروں گی"
" واپس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں نے پیسے واپس کرنے کے لیے نہیں دیۓ"
" یہ اچھی بات تو نہیں ہے، ایسے بچوں کی عادتیں خراب ہوتی ہیں "
" کیا عادتیں خراب ہوتی ہیں، فاطمہ بھی میری اپنی ہی بچی ہے، بے شک اب ہم ایک گھر میں نہیں رہتے ہیں، مگر ہمارے دل تو ایک ساتھ جڑے ہوئے ہیں، فاطمہ تم جاؤ بیٹا، تم لیٹ ہورہی ہو"
" اللہ حافظ "
" اللہ حافظ"
" عالیہ کیوں ڈانٹتی ہو بچی کو، فاطمہ بھی میرے لیے ارم کی طرح ہے، اگر میں نے اس کو پیسے دے دیۓ تو کوئی بڑی بات نہیں"
" آپ کی بات ٹھیک ہے سعدیہ بھابی، پر اچھا تھوڑے ہی لگتا ہے کہ آپ پیسے دیں"
" افففف عالیہ تم بھی پتا نہیں کیا باتیں سوچتی رہتی ہو، فاطمہ میری بیٹی ہے، اور اپنی بیٹی پر پیسے خرچ کرنا میرے لیے بوجھ تھوڑے ہی ہے"
***********************
جونہی وہ کالج کے اندر داخل ہونے، انھیں شہریار کالج کے ایک کونے میں کھڑا نظر آیا، حیا کا تو اُس کو دیکھتے ساتھ ہی موڈ آف ہوگیا، وقت وقت کی تو بات ہوتی ہے ساری، یہ شہریار بھی وہی تھا اور یہ حیا بھی وہی تھی مگر اب وقت پہلا جیسا نہیں تھا، کسی کے دل میں جگہ بنانے کے لیے انسان کو کافی محنت کرنی پڑتی ہے تب جاکر وہ انسان کسی دوسرے کے دل میں اپنی جگہ بنا پاتا ہے، مگر دل سے اترنے کے لیے ایک لمحہ ہی کافی ہوتا ہے، ہم کبھی کسی کی زندگی میں اُس کی زندگی سے بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں مگر کبھی ہماری اہمیت اُس کی الماری میں پڑے کپڑوں کی طرح ہوجاتی ہے کہ جب دل چاہا پہن لیۓ اور جب دل چاہا پھینک دیۓ. ہم کسی کے لیے اہمیت کا حامل تو ہو سکتے ہیں پر ضروری نہیں ہے کہ ہر وقت.
" رانیہ تم یہاں کھڑی رہو، میں شہریار سے بات کرکے آتی ہوں"
" تم کیا بات کرو گی شہریار سے، پلیز حیا کوئی تماشہ نہ کرنا"
" اگر میں نے تماشہ ہی کرنا ہوتا نہ تو کب کا کر چکی ہوتی، میں صرف بات کرنے جارہی ہوں، تم کلاس میں جاؤ، میں بات کرکے آتی ہوں "
" اچھا" رانیہ صرف اتنا ہی کہہ سکی کیونکہ سامنے کھڑی حیا اُس کی بات سننے سے پہلے ہی جا چکی تھی.
" حیا تم، یار کہاں تھی تم، میں تمھیں کب سے کالز کر رہا ہوں "
" بس بہت ہوگیا شہریار، اپنا ڈرامہ بند کرو "
" کککک... کون سا ڈرامہ، کیا کہہ رہی ہو تم "
" وہی ڈرامہ جو تم نے سدرہ کا کہنے پر کیا ہے"
" یہ کیا کہہ رہی ہو تم حیا، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا، آخر تم کیا کہنا چاہتی ہو"
" مجھے سب پتا چل گیا ہے کہ کیسے تم نے سدرہ کے کہنے پر پیار کا جھوٹا ناٹک کیا"
" حیا تم غلط سمجھ رہی ہو، ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں، چلو میرے ساتھ "
" مجھے کہی نہیں چلنا تمھارے ساتھ، تمھیں پتا ہے کہ کل پوری رات مجھے سکون کی نیند نہیں آسکی، پوری رات میں اپنے آپ کو جواب دیتی رہی کہ تم نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا اور پتا ہے کیا پوری رات سوچنے کے بعد میں اس نتیچے پر پہنچی ہوں، کہ جو کچھ بھی ہوا اس میں میرا ہی قصور تھا، ہاں شہریار میرا ہی قصور تھا، تم نے مجھے بےحیا کہا ہے، تو صحیح ہی تو کہا ہے تم نے، میں بے حیا ہی تو ہوں، تم سے بات کرنے سے پہلے میں نے ایک بار بھی یہ نہیں سوچا کہ میں کسی نامحرم سے بات کر رہی ہوں، اسلام میں نامحرم سے بات کرنے والوں کو بےحیا ہی تو کہا جاتا ہے، اپنے ماں باپ سے چھپ کر کسی لڑکے سے بات کرنا اس کی سزا تو بہت بڑی ہونی چاہئے تھی، پر پتا نہیں میری کون سی نیکی کام آگئی کہ میں برباد ہونے سے بچ گئی، اب مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ تم نے مجھے بدکردار کیوں نہیں کہا، شاید وہ تم نے آنے والے وقت میں سدرہ کو کہنا ہوگا "
" سدرہ کے بارے میں ایک لفظ بھی کہا نہ، تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا، دفعہ ہو جاؤ یہاں سے" شہریار نے حیا کی بات کاٹتے ہوئے کہا
" تمیز سے بات کرو مجھ سے، میں تمھاری نوکر نہیں ہوں اور جہاں تک جانے کی بات ہے تو شہریار خان، یہ تمھارے باپ کا کالج نہیں ہے، تمھیں جانا ہے تو تم جاسکتے ہو، مجھے جانے پر مجبور نہیں کرسکتے "
" ابھی تو میں جارہا ہوں، مگر اب تم مجھ سے بچ کر ہی رہنا "
" کون کسی سے نظریں چرا کر بھاگتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا" حیا یہ کہہ کر وہاں سے چلی جاتی ہے. جبکہ شہریار حیا کو جاتا ہوا دیکھ رہا ہوتا ہے.
***********************
" بھائی بس یہاں اتار دیں"
" یہاں کیوں"
" بھائی، آپ پہلے ہی لیٹ ہوگے ہیں، یہاں سے آگے میں چلی جاؤ گی"
" لیٹ تو میں واقعی ہی ہوگیا ہو، پر اب اتنا بھی لیٹ نہیں ہوا کہ اپنی بہن کو کالج کے گیٹ تک نہ چھوڑ سکوں"
" بھائی یہاں سے آگے میں چلی جاؤ گی، اگر آپ نے مجھے یہاں نہ اتارا تو میں آپ سے بات نہیں کرو گی"
" افففف ، فاطمہ یہ بھی کوئی ناراض ہونے والی بات ہے، اچھا چلو یہی پر اتر جاؤ، اب خوش"
" تھینک یو بھائی "
" پاگل اب جاؤ نہ کالج تاکہ میں بھی ہسپتال سکون سے جاسکوں"
" میں آپ کو تھینک یو کہہ رہی ہو اور آپ مجھے پاگل کہہ رہیں، یہ کہاں کا انصاف ہے"
" اگر میرا پاس وقت ہوتا تو میں ضرور یہاں کھڑا ہوکر تمھاری بکواس سنتا، پر افسوس میرے پاس وقت نہیں ہے " سالار نے اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے کہا
" اب آپ کو میری باتیں بکواس لگنے لگی ہیں" فاطمہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
" اففف فاطمہ مجھے تو لگتا ہے کہ آج تمھیں کالج جانے کا دل نہیں کر رہا، مجھے دیر ہورہی ہے، میں تو جارہا ہوں، تم یہی پر کھڑی رہو "
" اللہ حافظ"
" اللہ حافظ"
فاطمہ سالار کے جاتے ساتھ ہی رکشے والے کو اشارہ کرتی ہے اور رکشے میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتی ہے.
شہریار کو " اچھا خاصا" سننانے کے بعد حیا کلاس میں چلی گئی. رانیہ ہمیشہ کی طرح آخری بینچ میں بیٹھی ہوئی موبائل استعمال کر رہی تھی جو کہ حیا کو دیکھتے ساتھ ہی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی.
" کیا بات ہوئی تمھاری شہریار سے؟" رانیہ نے حیا سے کہا جو کہ اب بینچ پر بیٹھ گئی تھی
" کچھ خاص نہیں"
" کیا مطلب، کچھ خاص نہیں، بتاؤ نہ یار کیا بات ہوئی ہے"
" یار میں نے اُسے بتا دیا کہ مجھے سب پتا چل گیا ہے"
" پھر اس نے کیا کہا، تم صحیح طرح سے نہیں بتا رہی" رانیہ نے کسی بے چین روح کی طرح حیا کی طرف دیکھا
" دھمکیاں دے رہا تھا، اور کیا کہنا تھا اُس بزدل نے"
" اُس کی اتنی ہمت، تمھیں دھمکی دے رہا تھا، چلو میرے ساتھ، ابھی میں اُس کا منہ توڑتی ہوں، ویسے دھمکیاں کیا دے رہا تھا"
" افففف رانیہ کی بچی، بس کر دو اب، تنگ آگئی ہوں میں تمھارے سوالات سے ، اللہ اللہ کرکے ایک کلاس فری ملی ہے اور تم ضائع کر رہی ہو" حیا نے کہا جو کہ اب رانیہ کے سوالات سے تنگ آچکی تھی"
" اچھا نہ بتاؤ" رانیہ نے اٹھتے ہوئے کہا
" تم کہاں جارہی ہو" حیا نے رانیہ سے کہا جو کہ رانیہ کو یوں اچانک کھڑا ہوتا دیکھ کر حیران رہ گئی تھی
" جہنم میں، تمھیں چلنا ہے" اب کی بار رانیہ نے حیا کا ہی لہجہ اپنایا
" نہیں تم ہی جاؤ جہنم میں" حیا نے بھی غصے سے کہا اور اپنا موبائل استعمال کرنے لگی
**************************