وہ آج بہت خوش تھی۔اسے آج اپنا خواب پورا ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔اچانک موبائل فون کی گھنٹی بجی۔اس نے پہلی ہی رنگ میں فون اٹھا لیا،اور فون اٹھاتی بھی کیوں نہ،فون جو اس کی دوست رانیہ کا آیا تھا۔رانیہ نے ایک دم چیخ کر کہا
"یار تمھیں بہت بہت مبارک ہو"
حیا نے بھی اسی پیار بھرے انداز میں کہا
"تمھیں بھی بہت بہت مبارک ہو،اب ہم دونوں ڈاکٹر بنیں گی۔مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا"
"یار کیوں نہ بنتیں ہم ڈاکٹر،اتنی محنت کی تھی ہم نے"
رانیہ نے مغرور بھرے لہجہے میں کہا
"اچھا یار یہ خبر میں ماما بابا کو دے آؤ،خداحافظ"
"خداحافظ"
یہ کہ کر رانیہ نے بھی فون رکھ دیا
"ماما بابا آپ دونوں کے لیے میرے پاس بہت اچھی خبر ہے"
آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
"ایسی بھی کیا خبر ہے جو میری بیٹی شلوار اور قمیص اور پہن کر سنانے آگئ ہے"
سلیم صاحب نے انھیں ٹوکتے ہوۓ کہا
"تم بھی کمال کرتی ہو،آسیہ بیگم ،بات تو کرنے دو ہماری بیٹی کو"
"ماما بابا میرا اور رانیہ کا آرمی میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہو گیا ہے"
بہت مبارک ہو میری جان،آپکی اس خوشی میں کیوں نہ کل ملک ہاؤس میں پارٹی رکھی جاۓ،تمھارا کیا حال ہے،آسیہ بیگم"
آسیہ بیگم مسکراتے ہوئے بولی
"ضرور پارٹی رکھی جاۓ،حیا نے اتنی محنت جو کی ہے،حیا تم اپنی ساری دوستوں کو بلوانا"
"شکریہ ماما بابا، اب میں سو جاؤ جا کر"
حیا نے خوش ہوتے کہا
*************************
" بھائی " فاطمہ نے چلاتے ہوئے کہا
" کیا ہوا فاطمہ، اتنا شور کیوں مچا رہی ہو"
" بھائی میرا نام میرٹ پر آگیا "
" کیا سچ میں، یہ تو بہت اچھی بات ہے"
" یہ سب آپ کی محنت ہے "
" میری کیا محنت ہے، یہ سب آپ کی محنت کا نتیجہ ہے"
" سچ میں بھائی، آپ دنیا کے سب سے اچھے بھائی ہیں" فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا
" اور میری فاطمہ دنیا کی سب سے اچھی بہن ہے، ویسے امی کو بتایا تم نے" سالار نے مسکراتے ہوئے کہا
" نہیں ابھی نہیں بتایا، کل ان کی سالگرہ ہے تب ہی ان کو سپرائز دوں گی" فاطمہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا
" اففف، فاطمہ ایک تو امی کی جان نکل رہی ہے دعائیں کر کر کے اور تمھیں سپرائز دینے کی پڑی ہے، سدھر جاؤ، ابھی وقت ہے" سالار نے ہنستے ہوئے کہا
" اففف بھائی میں آپ کی طرح کنجوس نہیں ہوں، جو کسی کی سالگرہ میں کیک کھانے کے لیے شامل ہوں" فاطمہ نے سالار کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
" ارے واہ، فاطمہ تم تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہو، یار سچ میں، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو مجھے تم دنیا کا سب سے اچھا بھائی کہہ رہی تھی" سالار نے منہ بناتے ہوئے کہا
" مجھے اس پر بھی فخر ہے بھائی، آپ اپنا بتائیں، خاتم طائی کی قبر پر کب لات ماریں گے"
" بہت جلد، اب تم جاؤ، مجھے سونا ہے" سالار نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے کہا
" شب بخیر "
" شب بخیر "
************************
حیا کو نیند کہاں آنے والی تھی۔اسے تو کالج جانے کی جلدی تھی۔اسے آرمی میں جانے کا بچپن سے شوق تھا۔ وہ جب بھی کسی سرکاری ہسپتال جاتی،بھری حسرت سے دیکھا کرتی تھی وہ آرمی ڈاکٹر کو۔اسے تو بس کالج کے پہلے دن کا انتظار تھا۔
آخرکار وہ دن آگیا جس کا اسے بھری بصبری سے انتظار تھا۔وہ میڈیکل کی یونیفارم میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔کالج پہنچتے ہی اس نے رانیہ کو کال کی"کہاں مر گئ ہو میڈم صاحبہ آپ"
دوسری طرف سے ہر بار کی طرح لیٹ ہونے پر بہانہ آیا
"یار ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہوں۔بس پہنچنے ہی والی ہوں "
"مجھے کچھ نہیں سننا،دو منٹ میں یہاں پہنچو"
حیا نے غصے میں کہا
رانیہ سے بات کر کے وہ غصے میں تیز تیز چلنے لگی،اور خود سے کہنے لگی اس کا ہر بار یہی ڈرامہ ہوتا ہے۔آج آۓ تو اسکو بتاتی ہوں"
ابھی وہ یہ ہی کچھ کہ رہی تھی کہ سامنے آنے والے بندے سے ٹکر ہو گئی
"اندھے ہو کیا"
حیا نے غصے سے کہا
"تم اندھی ہو کیا،پتا نہیں کس پاگل نے تمھیں ایڈمیشن دے دیا یہاں"
ابھی حیا اسے کچھ 'اچھا خاصا' سنانے ہی والی تھی کہ رانیہ آگئ
"کدھر تھی تم میڈم،کب سے تمھیں ڈھونڈ رہی تھی میں،تمھیں تو میں بعد میں ٹھیک کرتی ہوں،پہلے یہ بتاؤ یہ کون ہے"
حیا نے طنزیہ جواب دیتے ہوے کہا"
خود ہی پوچھ لو اس پاگل انسان سے،میں تو نہیں جانتی اس کو"
"یہ پاگل کس کو بولا آپ نے"
سامنے والے نے عجیب شکل بناتے ہوئے کہا
"آپ کو"
حیا بھی تو تھی پھر،کبھی بھی کسی کو سر پر چڑھنے کا موقع نہیں دیا کرتی تھی
______________
ابھی دونوں کی بحث ہو رہی تھی کہ فون پر گھنٹی بجی اس نے پہلی ہی رنگ پر فون اٹھا لیا
"کہاں ہو آپ"
فون کرنے والے نے شدید غصے میں کہا
"آرہا ہوں بابا،کالج میں ہی ہوں ،ایک پاگل پیچھے پڑ گئی ہے اور کچھ نہیں بس"
"مجھے کچھ نہیں سننا بیٹا آپ جلدی آؤ،میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں"
**********************
حیا اس کی باتیں سن کر حیران رہ گئ
اس نے بھی اس سے یہی سوال پوچھا جو وہ اس سے پانچ منٹ پہلے پوچھ چکا تھا
"یہ پاگل کس کو بولا"
"آپ کو"
وہ بھی جنرل رضا احمد کا بیٹا تھا۔ادھار رکھنا تو اسے کبھی آیا ہی نہیں تھا۔مگر یہ کہ کر وہ ایک پل کے لیے بھی نہ رکا کیونکہ اسے پتا تھا سامنے والی پارٹی خطرناک ہے۔حیا تو بس اس کو دیکھتے ہی رہ گئ۔ہوش میں آنے کے بعد وہ پھر پہلی والی حیا بن گئ جو مکھی تک کو اپنے ناک پر نہیں بیٹھنے دیتی تھی۔وہ تو بس اتنا ہی بول سکی"بندر کہیں کا"رانیہ حیرت زدہ ہوتے ہوۓ بولی"کون تھا یہ پاگل"
یار تھا کوئی ،اب کیا مضمون لکھنے بیٹھنے جاؤں اس پر"
حیا نے غصے سے کہا
رانیہ نے کہا"تم اپنا موڈ کیوں خراب کر رہی ہو،آج کا دن تو ہمارے لیے بڑا اسپیشل ہے۔آؤ جا کر اپنی کلاس ڈھونڈتے ہیں"
"ہاں چلو"
حیا نے کہ تو دیا تھا مگر اس کا دماغ ابھی تک اسی بندر پر اٹکا ہوا تھا۔
"سر باسط اس کالج کے پرنسپل ہیں آپ سب سے بات کرنا چاہتے ہیں"کلرک نے کہا
"مجھے پتا ہے کہ آپ لوگوں نے بہت محنت کی ہے تبھی آپ لوگوں کو اس کالج میں ایڈمیشن ملا ہے۔مجھے امید ہے کہ آپ لوگ دل لگا کر محنت کریں گے۔اور ایک اچھے ڈاکٹر بنیں گے۔چلوں بچوں مجھے تھوڑے کام ہیں۔آپ سب سے بات ہوتی رہے گی"
سر عمر کلاس میں آچکے تھے۔سب بچوں کو مبارکباد دینے کے بعد اب سب بچوں کو ان کا تعارف کروانے کا کہ رہے تھے۔
"میرا نام حیا ہے"
"میرا نام دانیال ہے اور پیار سے دانی کہتے ہیں مجھے"
"اور ویسے کیا کہتے ہیں"
اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے لڑکے نے کہا
ساری کلاس ہسنے لگی
"اب تو بڑے ہو جاؤ آپ لوگ ۔جس قوم کے ڈاکٹروں کا یہ حال ہے اس قوم کا کیا بنیں گا آپ اپنا تعارف کروائیں "
"میرا نام شہریار ہے"
حیا نے اس کی طرف دیکھا تو اچھا اس بندر کا نام شہریار ہے۔
***********************
وہ جیسے ہی گھر پہنچی تو اس کے چہرے پر ناگواری چھا گئی۔سامنے اس کی تائی امی بیٹھی تھی۔
"او میرے خدا،اس لڑکی کو تو ڈوپٹہ بھی نہیں رکھنا آتا۔اس سے اچھا ہے کہ اس کو گھر ہی بیٹھا لیا جاۓ۔ایک میری سدرہ اور حفصہ ہیں گھر سے برقعہ پہن کر نکلتی ہیں،اور ایک یہ"
"آپکی بیٹی جو کرتی ہے نہ وہ آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں تو پلیز میرا منہ مت ہی کھلوایے"
"اس لڑکی کی زبان تو قینچی کی طرح چلتی ہے۔بڑوں سے بات کرنی کی تمیز ہی نہیں"
حیا ابھی ان کی طبعیت صاف کرنی ہی والی تھی کہ آسیہ بیگم نے اسے اوپر جانے کا کہا۔حیا اوپر تو آگئی تھی لیکن دماغ ابھی بھی اسی بندر پر ٹکا ہوا تھا۔کاش دنیا میں دو قتل جائز ہوتے تو میں ایک تائی امی کا اور اس بندر کا کرتی
حیا کو چین ہی نہیں آرہا تھا۔اس نے بندر سے بدلہ لینے کا پلان بنایا۔اسے تو بس اب کل کا انتظار تھا۔
************************
" زوبی آج ایک سال ہوگیا ہے اور تم منحوس ابھی تک واپس نہیں آئے" رانیہ نے غصے سے کہا
" آرہا ہوں اسی سال" زوہیب نے کان پکڑتے ہوۓ کہا
" ہاں پتہ ہے مجھے تمہارا، ہر بار یہی کہتے ہو"
" پیچھلے سال نہیں آیا تھا کیا"
" ہاں تو پیچھلے سال آۓ تھے، اس سال تو نہیں"
" تو اس سال بھی آؤں گا نہ"
" پکا پرامس"
" اچھا میرے لیے کیا لاؤں گے " رانیہ نے ڈھیٹ بنتے ہوئے پوچھا
" زہر" زوہیب نے ہنستے ہوئے کہا
" وہ تم خود ہی کھاؤ، تمہاری تو فیورٹ ہے" رانیہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
" ناراض تو نہ ہو نہ یار، اچھا بتاؤ کیا چاہیے "
" مجھے کچھ نہیں چاہیے بس تم آجاؤ"
" ہاہاہاہا ، اففف مجھے یقین نہیں آرہا اپنے کانوں پر، کالج کی سب سے بھوکی لڑکی کو کچھ نہیں چاہیے"
" دفعہ ہو جاؤ، میں بات نہیں کرتی اب تم سے" یہ کہہ کر رانیہ نے کال کاٹ لی.
*********************
" مل آئی آپ مہررانی سے " سدرہ نے سیب کاٹتے ہوئے پوچھا
" ہاں نہ، مہررانی صاحبہ کے تو انداز ہی بدلے ہوۓ تھے، میڈیکل میں ایڈمیشن جو ہو گیا اُس کا "نسرین بیگم نے طنزیہ انداز میں کہا
" پہلے کون سا، اس میں غرور کم تھا، پر اب تو شاید ہواؤں سے بات کرے" سدرہ نے منہ بناتے ہوئے کہا
" ہمیں کیا جو مرضی کرۓ، پر تم فکر نہ کرو، آسیہ کے کان میں خوب بھر کر آئی ہوں" نسرین بیگم نے سدرہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا
" افففف امی، آپ اور آپی کے ساتھ بیٹھ کر کوئی سکون سے پڑھ بھی نہیں سکتا، جب دیکھو، دوسروں کی برائیاں کرنے میں لگے رہتے ہو" حفضہ نے کہا جو کہ ان کے شور سے تنگ آچکی تھی
" ہاں تو، ہم نے کون سی تمہاری منتیں کی ہیں کہ ہمارے پاس بیٹھ کر پڑھو، جاؤ اپنے کمرے میں جاکر پڑھو " سدرہ نے غصے سے کہا
" جارہی ہوں، مجھے کوئی شوق نہیں ادھر بیٹھنے کا" حفضہ نے اپنی کتابیں اٹھاتے ہوئے کہا
" امی دیکھا آپ نے اس کو" سدرہ نے حفضہ کے جانے کے بعد کہا
" تو دفعہ کر، اس کے منہ ہی نہ لگا کر، ایک دو دن حیا کے پاس رہے گی تو خود ہی اُس کی محبت کا بھوت اتر جاۓ گا" نسرین بیگم نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے کہا
****************
عاشر صاحب کے دو بچے ہیں. راشد صاحب اور سلیم صاحب. راشد صاحب بڑے بھائی ہیں۔راشد صاحب فالج کا شکار ہے جس کی وجہ سے وہ گھر میں ہی رہتے ہیں ۔ان کا خرچا بھی ان کے چھوٹے بھائی سلیم صاحب ہی اٹھاتے ہیں.سلیم صاحب کی صرف ایک ہی بیٹی ہے حیا جبکہ راشد صاحب کی دو بیٹیاں سدرہ اور حفضہ ہیں۔
********************
حیا آج معمول کے خلاف وقت سے پہلے ہی اٹھ گئ۔اٹھتے ساتھ ہی اسے بندر کا خیال آیا۔اور اس کا موڈ خراب ہونے لگا۔اس نے سر جھٹکا اور واشروم چلی گئی۔آج وہ بالکل سٹارپلس کی ساتھ نبھانا ساتھیہ کی راشی لگ رہی تھی۔اپنے بالوں کو ہاتھوں سے باندھتے ہوۓ وہ آئینہ میں اپنے آپ کو دیکھنے لگی۔بکھرے ہوۓ بال اور میک اپ خراب ہونے کی وجہ سے اس کا حلیہ بہت خراب لگ رہا تھا۔۔تیار ہونے کے بعد وہ جیسے ہی ٹی وی لاونج میں آئی،اسے سلیم صاحب کھانے کی میز پر اخبار پڑھتے ہوئے نظر آئے۔سلیم صاحب حیا کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولے
"آج تو سورج مغرب سے نکل آیا ہے۔ہماری شہزادی آج پہلی دفعہ وقت پر جاگی ہے۔لگتا ہے آپ کو کالج بہت ہی پسند آگیا ہے،ویسے پہلی کلاس کس ٹائم ہوتی ہے"
"بابا کلاس تو میری نو بجے شروع ہوتی ہے۔لیکن میں نے رانیہ کو پک کرنا ہے۔اس کا ڈرائیور آج چھٹی پر ہے،اس نے مجھے رات کو کال کر کے بتایا ہے"
ضرور چلی جانا،پہلے ناشتہ تو کر لو"آسیہ بیگم نے کہا
ناشتہ کرنے کے بعد حیا نے ماما بابا سے اجازت لی اور باہر پورچ میں آگئ۔گاڑی میں بیٹھتے ہوۓ بھی وہ آج ہونے والے واقعہ کے بارے میں سوچتے ہوۓ مسکرانے لگ گئ۔
رانیہ کے گھر کے باہر اس نے گاڑی پارک کی۔اور رانیہ کو کال کرنے لگ گئ۔
"یار کہاں رہ گئ ہو،تمھارے گھر کے باہر تمھارا ویٹ کر رہی ہوں،جلدی آؤ"
"بس آگئ میں،دو منٹ"
اور واقعی میں ،وہ دو منٹ بعد گھر کے باہر تھی۔
"شکر ہے آگئ تم،آج میں اس بندر کو مزہ چکھاؤ گی"حیا نے کہا
"کون بندر،کس کا کہ رہی ہو"
"یار وہی جس نے مجھ سے کل بہت بدتمیزی کی تھی"حیا نے کہا
"اف تمھیں ابھی تک وہ یاد ہے"رانیہ نے کہا
"ہاں تو کیا مطلب،تمھیں تو پتا ہے نہ،جب تک میں اپنا بدلہ نہ لے لوں،سکون نہیں ملتا مجھے"حیا نے کہا
ہاہاہاہا،چلو جیسی تمھاری مرضی"رانیہ نے کہا
تھوڑی دیر میں وہ کالج کے گیٹ کے باہر تھے۔کل کی طرح آج بھی سب اپنی ہی باتوں میں مصروف تھے۔اتنے لوگوں میں اسے ڈھونڈنا بہت مشکل کام تھا۔مگر یہاں پر حیا تھی جو بچپن سے ہی بہت ضدی تھی۔جب کسی کام کو کرنے کی ٹھان لیتی تھی تو وہ کر کے رہتی۔آخرکار اسے بندر نظر آہی آگیا۔لیکن وہ شاید کسی بڑے افسر سے بات کر رہا تھا۔رانیہ یہ دیکھ کر ڈر گئ
"میرا مشورہ یہ ہے کہ تم اس کو اللہ کے نام پر معاف کر دو،اگر یہ کسی افسر کا بیٹا نکلا تو ہمیں تو کالج سے نکال دیا جاۓ گا"رانیہ نے کہا
"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ جنرل کا بیٹا ہو یا آرمی چیف کا،یہ میرا دشمن ہے اور میرے لیے یہ ہی کافی ہے۔"حیا نے غصے سے کہا
"جو کرنا ہے اکیلے کرو،میں تمھارا ایک پرسنٹ بھی ساتھ نہیں دوں گی"
رانیہ نے کہا
" نہ دو،میں تمھیں فورس نہیں کرتی،میں اپنے لیے کافی ہوں"حیا نے کہا
کچھ دیر بعد انھوں نے افسر کو جاتا ہوا دیکھا۔حیا کو اپنا راستہ صاف نظر آتا ہوا دکھائی دیا۔اس نے رانیہ کو کہا کہ وہ بس اس کو چپ کر کے دیکھے۔خود وہ تیزی سے چلتے ہوۓ ان سیڑھیوں کے نیچے آکر کھڑی ہو گئی جس سے وہ کچھ دیر بعد گزرنے والا تھا۔حیا نے اپنے ارد گرد دیکھا،اس کو سب اپنے کاموں میں مصروف دکھائی دیے۔اس کو موقع غنیمت جان کر اس نے چھپکے سے پانی کی بوتل سے آدھا پانی فرش پر گرا دیا۔اور بس اب پیچھے جاکر چھپکے سے اس کو نیچے آتا ہوا دیکھنے لگی۔اچانک کسی کے گرنے کی آواز آئی۔حیا کا دل زور سے مچلا۔وہ ایک دم سامنے آگئ۔شہریار نیچے گرا ہوا تھا۔
"کسی کا بچہ گر گیا ہے،ایمبولینس منگواؤ جلدی سے"حیا نے طنز کرتے ہوئے کہا
اب حیا آگے جانے ہی والی تھی کہ اس کا پاؤں بھی پھسل گیا،اور وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور گر گئ۔
"اوہو،آنٹی گر گئ ہیں،جلدی کرو کہیں اوپر نہ پہنچ جاۓ"
شہریار نے کہا
وہ بھی تو حیا سے کم کہا تھا۔اور ہار مان لینا تو اسے بھی کبھی نہیں آیا تھا۔یہ کہ کر وہ خود کھڑا ہو گیا۔اور حیا کی رونی صورت دیکھنے لگا۔اچانک حیا کی طرف کسی نے ہاتھ بڑھایا۔وہ ہاتھ ایک لڑکی کا تھا۔اس لڑکی نے شرعی پردہ کر رکھا تھا۔حیا اس کے ہاتھ کی مدد سے کھڑی ہو گئی۔
"بہت بہت ،شکریہ آپ کا"
اس لڑکی نے جواب دیا
"خیر ہے ،یہ تو میرا فرض تھا"
حیا ابھی تک اس کے نورانی چہرے کو دیکھ رہی تھی۔کچھ چمک سی تھی اس کے چہرے میں جو حیا کو اس کی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ورنہ حیا تو برقعہ کرنے والی لڑکیوں کو مجاہد کہتی تھی۔ابھی وہ اسے بات کرنا چاہ رہی تھی کہ کلاس کا ٹائم ہو گیا۔وہ سب کلاس کی طرف چلے گے۔کلاس میں آنے کے بعد بھی اس کا دماغ اسی برقعہ پوش لڑکی پر ٹکا ہوا تھا۔لگتا تھا وہ آج ہونے والی بےعزتی کو بھول ہی گئ ہو جیسے۔حیا ایسے ہی تھی ،وہ زیادہ دیر چیزوں کو اپنے اوپر سوار ہونے نہیں دیتی تھی۔اسے بس اس لڑکی سے ایک دفعہ بات کرنی تھی۔اس نے سوچا کہ وہ بریک ٹائم اس سے ضرور بات کرۓ
_________________
جیسے ہی سر عمر کلاس سے باہر نکلے۔کلاس میں شور مچ گیا۔سب بچے اپنی سیٹوں سے کھڑے ہو گے۔کچھ بچے باہر جا رہے تھے۔وہ رانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اس لڑکی کو ڈھونڈنے لگی۔کلاس میں رش ہونے کی وجہ سے اسے وہ لڑکی نظر نہیں آرہی تھی۔وہ رانیہ کے ساتھ کلاس سے باہر آگئی۔رانیہ جو کب سے اس کی حرکتوں کو خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔بولی
"یار تم اس نقاب پوش مجاہد کو کیوں ڈھونڈ رہی ہو"
"کچھ نہیں یار،بس میں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں"حیا نے اس کی طرف دیکھ بغیر کہا۔اس کی نظریں ابھی بھی اسی لڑکی کو ڈھونڈ رہی تھی۔اچانک فون پر گھنٹی بجی۔فون آسیہ بیگم کا آیا تھا۔
"بیٹا آج جلدی گھر آنا،آج آپ کے پاپا کے دوست اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آرہے ہیں"
"اچھا،میں کوشش کروں گی ،جلدی آنے کی,ابھی میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہوں،آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں،خدا حافظ"
"خداحافظ"،یہ سن کر حیا نے خود ہی فون رکھ دیا۔
"کیوں بلا رہی ہے آنٹی تمھیں آج جلدی گھر"
"یار وہ بابا کے دوست اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آرہے ہیں"
"اچھا،آؤ کینٹین چلتے ہیں،مجھے بہت بھوک لگی ہے"
اب وہ دونوں کینٹین کی طرف جارہی تھی۔کینٹین کو کافی سجایا ہوا تھا۔وسیع لان اس کی خوبصورتی کو مزید بڑھا رہا تھا۔لان میں طرح طرح کے پھول ایک دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔کینٹین کے ایک سائیڈ پانی پینے کی جگہ بنائی ہوئی تھی۔لان میں بیٹھنے کے لیے ٹیبلز لگاۓ ہوۓ تھے۔کینٹین میں بچوں کا کافی رش تھا۔ہر کوئی اپنے دوستوں کے ساتھ باتیں کرنے میں مصروف تھا۔کچھ لفنگے لڑکیوں کو بھی تاڑنے میں مصروف تھے تو کچھ لڑکیاں بھی لڑکوں پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔کچھ لوگ کولڈڈرنک اور بریانی کے مزے لے رہے تھے تو کچھ لوگ چاۓ اور پکوڑوں سے اپنی بھوک مٹا رہے تھے۔
حیا ابھی اپنے اور رانیہ کے بیٹھنے کے لیے کوئی مناسب جگہ ڈھونڈ رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر کینٹین کے ایک کونے میں اکیلی بیٹھی لڑکی پر پڑی۔وہ وہی نقاب والی لڑکی تھی۔حیا اس کو دیکھ کر مسکرانے لگی اور رانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اس کی طرف جانے لگی۔وہ لڑکی بھی حیا کو اپنی طرف آتا دیکھ کر مسکرانے لگی
"السلام علیکم"
اس لڑکی نے کہا
"وعلیکم السلام"
دونوں نے ایک ساتھ کہا
"آپ یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہیں"
حیا نے کہا
"کیوں کہ تنہائی بہترین ساتھی ہے"اس کی بات سن کر رانیہ کی ہنسی نکل آئی۔حیا نے اس کو غصے سے دیکھا۔
"میرا مطلب،آپ کا کوئی دوست نہیں ہے"حیا نے ایک بار پھر سوال پوچھا
"انسان خود ہی اپنا بہترین ساتھی ہے"اس کی بات سن کر رانیہ فون پر لگ گئی۔کچھ لمحے کے بعد حیا کو میسچ موصول ہوا۔میسچ رانیہ کا آیا تھا۔"تمھیں اگر اس بڈھی روح کے ساتھ بیٹھنا ہے تو شوق سے بیٹھو ،میں جارہی ہوں ۔وہ مسلسل ہمیں اگنور کر رہی ہے اور تمہارے سوال نہیں ختم ہو رہے" اس کے جواب میں حیا نے کہا
"تم جاکر کھانے کی چیزیں لو،میں آتی ہوں تھوڑی دیر تک"اس کے جانے کے بعد اس نے اس لڑکی سے پوچھا
"آپ نے ابھی تک اپنا نام نہیں بتایا۔میرا نام حیا ہے اور آپ کا"
"میرا نام فاطمہ ہے،کیا آپ میری دوست بن سکتی ہیں"حیا اس کا سوال سن کر حیران رہ گئی۔وہ بھی اس سے ابھی یہی سوال پوچھنے والی تھی۔
"کیوں نہیں،آج سے ہم دوست"
"تو کیا مجھے اپنی دوست کا نمبر مل سکتا ہے"
"کیوں نہیں"
حیا نے جیسے ہی اس کا نمبر نوٹ کروایا۔فاطمہ کے موبائل میں کسی کی کال آئی۔فاطمہ نے فون اٹھایا
"بھائی آرہی ہوں بس"
حیا صرف اتنا ہی سن سکی
"اچھا حیا بعد میں بات کرتے ہیں،میرے بھائی مجھے لینے آرہے ہیں،اللہ حافظ"
"اللہ حافظ"
حیا اس کو جاتا ہوا اور رانیہ کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھ رہی تھی۔رانیہ کے ہاتھوں میں بریانی کی پلیٹیں تھی۔
"کہاں چلی گئی وہ"
"اس کا بھائی اس کو لینے آیا تھا۔وہ اس کے ساتھ چلی گئی"
"اچھا،وہ لڑکی تمھیں کیا کہ رہ تھی"
"یار کچھ خاص نہیں،مزے کی بات بتاؤں اس نے مجھ سے میرا نمبر مانگا"
"تو تم نے اسے دے بھی دیا"
ہاں نہ یار،میں خود اس کا نمبر مانگنے ہی والی تھی کہ اس نے مانگ لیا"
"حیا،تم پاگل تو نہیں ہو گئی،تم ایسے کیسے ہر کسی کو اپنا نمبر دے سکتی ہو،پتا نہیں وہ ہے کون۔تم نے اس سے ایسی کون سی باتیں کرنی تھی جو تم نے اسے اپنا نمبر دے دیا"