آنکل جی آپ ہم پر بھروسہ رکھیں ہم اپکی بیٹی کو انچ بھی نہیں آنے دینگے۔۔۔
نہیں بس میری بیٹی بیکاٶ نہیں ہے۔۔۔لیکن
بس بول دیا نہ۔۔۔اتنا شوق ہے تو اپنی ماں بیٹی بہن کو لے جا ڈال دے ان دارندوں کے آگے۔۔آٸینہ ہی تو دیکھایا تھا ہم کچھ بھی کرنے سے پہلے بھول جاتے ہیں کے اگر اسکی جگہ ہماری بہن بیٹی بیوی ماں ہوتی تو۔۔۔۔۔
معاف کر دیں انکل جی۔۔۔
***********
یہ میری بیٹی عفاف۔۔۔ادھر آٶ بیٹا شماٸلہ بیگم نے اسے اپنے پاس بیٹھایا۔۔۔
ماشاءاللہ ندرت تمھاری بیٹی بہت پیاری ہے۔۔ہماری طرف سے تو ہاں ہے آپ لوگوں کی اجازت ہو تو انگوٹھی پہنا دوں۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم شہریار اور عفان ساتھ ڈراٸنگ روم میں داخل ہوۓ۔۔۔
ارے آگے تم لوگ شماٸلہ یہ میرا داماد ہے ہیام کا شوہر۔۔۔ندرت بیگم نے بڑے شان سے اسکا تعارف کرایا۔۔۔
عفان نے پہلی بار عفاف کو ایسے دیکھا تھا۔۔۔سر پر ڈوپٹہ نظریں جھکی ہوٸی۔وہ عام طور پر میک اپ نہیں کرتی تھی۔۔۔مگر آج وہ عفان کواپنے دل میں اترتی محسوس ہوٸی۔۔۔ عفاف کی نظریں اٹھی دوپل کے لیے دونوں کی نظریں ملیں۔۔۔
عفاف کی آنکھوں میں کیا کچھ نہیں تھا آس امید عفان نظریں چرا گیا اور اپنے دل میں آۓ سارے خیالات کو پوٹلی میں باندھ کر کھی دور پھینک دیا دو منٹ لگے تھے اسے خود کو نارمل کرنےمیں۔۔۔
ایسے تعارف پر ہیام نے شہریار کو دیکھا۔۔۔۔جو اسی کو دیکھ رہا تھا جیسے کہنا چاہ رہا ہو دیکھ لو قدر کرو شوہر کی۔۔۔
اور یہ۔۔۔شماٸلہ نے عفان کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔۔۔یہ شہریار کا دوست ہے لندن میں شہریار کے ساتھ ہوتا تھا۔۔۔
اچھا جی اب باتیں تو ہوتی رہیں گی۔۔۔ انگوٹھی پہنا دٶں۔۔نیک کام میں دیر کیسی بسمہ اللہ کریں۔۔
عفاف اپنے آنسو چھپانے کی پوری کوشش کررہی تھی۔۔۔ اور شماٸلہ بیگم نے سب کا منہ میٹھا کرایا۔۔
سلطانہ آپا اب عفاف ہماری ہوٸی آپ لوگ بس شادی کی تیاری کریں انشا۶اللہ اسی مہینے کے آخر کی کوٸی ڈیٹ فکس کر لیتے ہیں ہم رخصت کرکے لے جاٸیں گے اپنی بیٹی کو آپ فکر نہ کریں عفاف اپنے دوسرے گھر ہی جاٸیں گی۔۔
اتنی کیا جلدی ہے۔۔شماٸلہ ہمیں تیاری کے لیے وقت چاہیے ہوگا۔۔۔آپااسنے کون سا یہاں رہنا ہے۔دبٸی چلی جاۓ گی۔۔
بس ضرورت کی شاپنگ کرلے۔۔۔باقی اللہ کا دیا سب ہے۔۔۔ لیکن پھر بھی بہت جلدی ہے۔
کوٸی جلدی نہیں ہے آج کل تو سب ریڈی ملتا ہے۔۔۔ہے بس بہن جیسے شادی ہوگی کاغات بنا کر عفاف بیٹی بھی وہی چلی جاۓ گی عیش کرے گی۔۔
آنٹی آپکا ایک ہی تو بیٹا ہے اسے بھی آپ خود سے دور اتنی خوشی سے بھیج رہی ہیں۔۔۔حیرت کی بات ہے۔۔۔عفان کو اتنی جلد بازی کسی مصیبت کی طرف اشارہ کرتی دیکھاٸی دے رہی تھی۔۔
عفان کے پوچھےپر جیسے سب متوجہ ہوۓ ویسے ہی عفاف نے اسکی طرف دیکھا۔۔
کیونکہ عفان اتنا کسی سے بات نہیں کرتا تھا اور زیادہ تر اپنے کام پر ہوتا تھا کسی کے معاملے میں بولنا اسکی عادت نہیں تھی۔۔۔۔
ارے بیٹا وہاں بہت اچھی نوکری ہے۔۔۔پیسہ آتا کسے برا لگتا ہے۔۔۔اور بات کا کیا ہے روز وڈیو کال ہوجاتی ہے۔۔۔شماٸلہ نے عفان کو دیکھتے ہوۓ جواب دیا
چلیں کھانے کا وقت ہوگیاہے۔۔سب کھانا کھا لیں۔۔ایمان عفاف کو لے جاٶ فریش ہوکر پھر آجانا۔۔ندرت کہتی ہوٸی کچن میں چلی گی۔۔۔
جی ممانی۔۔چلو عفاف ایمان اسے اوپر لے گی اور ہیام ندرت اور سعدیہ کے ساتھ کچن میں کام کروانے چلے گی۔۔۔
************
عفاف کمرے میں جاتے ہی ساری جیولری ڈوپٹہ اتر کر پھینکنے لگی۔۔۔اور بیڈ پر اوندھی لیٹ کر رونے لگی۔۔۔
عفاف۔۔۔۔آپی میں نہیں کروں گی شادی آپ میں سے کسی نے نہیں بتایا مجھے کہ وہ دبٸی میں رہتا ہے۔۔
تمھیں کہا تھا کہ دیکھ لو ایک بار مگر تم نے منع کردیا اور یہ بات تو مجھے بھی ابھی پتا چلی ہے۔۔۔ایمان اسے پیار سے کہنے لگیاور ویسے بھی تمھیں گھومنے کا کتنا شوق تھا نا۔۔۔
ارے تمھیں تو دبٸی بہت پسند تھا نہ کیا کہتی تھی تم ۔۔۔ جیسے پاکستان قدرت کے حسین نظاروں کا شاکار ہے ویسے ہی دبٸی انسانی تخلیق انسان کے ہنر اسکے آرکیٹکچر صلاحیتوں کامنہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔۔وہاں کی بڑی اور خوبصورت تعمیر کردہ عمارات کسی کو بھی اپنی طرف کھنچتی ہیں۔۔
اب جب موقع مل رہا ہے۔۔۔۔تو کیوں نوٹنکی کر رہی ہے دل میں تو لادو پھوٹ رہے ہیں۔۔۔آپی میں نے نہیں کرنی بس وہ پھر سے بستر منہ دیا بیٹھ گی۔۔۔
***********
دن گزار رہے تھے سب عفاف کی شادی میں مصروف ہوگے تھے۔۔۔عفاف بھی اسے اللہ کی رضا مان گی تھی۔۔۔کامیابی تب ہو جب دونوں طرف محبت ہو یہاں تو تھی ہی اک طرفہ محبت کامیابی کا دور دور تک کوٸی اثار نہیں دیکھاٸی دے رہا تھا۔۔
عفاف کی تقریباً شاپنگ ہیام اور ایمان نے کی تھی۔۔۔وہ تو کمرے کی ہوکر رہ گی تھی۔۔۔سب سمجھ رہے تھے کہ وہ اتنی جلدی شادی کی وجہ سے کر رہی ہے اصل وجہ تو ایمان کے سوا کوٸی اور جانتا ہی نہیں تھا۔۔۔۔ اب چھ دن باقی تھے شادی میں آج شہریار ذبردستی عفاف کو اسکی پسند کا بریڈل ڈریس دلوانے لے گیا۔۔
**********
ہاں شماٸل کیا حال ہیں بہت مہینے بعد چکر لگا پاکستان کا۔۔۔
ہاں جہانگیر صاحب کوٸی اچھا مال ہی نہیں مل رہا تھا۔۔۔ابھی ایک بڑی مچھلی ہاتھ آٸی ہے۔۔۔
اچھا تو شادی کے لیے آیا ہے تو۔۔۔۔جہانگیر شاہ اور شماٸل دونوں کا قہقہ ایک ساتھ پورے کمرے میں گونجا۔۔۔
ہمارا تو کام ہے۔۔۔۔میں نے کون سا رہنا ہے۔۔۔
کسی چیتے نامی شخص کو رکھ لیا ہے میرے دبٸی جانے کے بعد۔۔۔اور بڑا فاٸدہ بھی ہوا ہے۔۔سنا ہے میں نے۔۔
کون ہے ذرا ہمیں بھی پتا چلے۔۔۔کون ہے جس نے آتے ہی ہمارے صاحب کا دل جیت لیا۔۔۔
ہم کسی کو دل میں نہیں بساتے بس اپنا مطلب پورا ہو۔۔۔جہانگیر شاہ اپنی درندگی کا ثبوت دیتے پھر سے ذور سے ہنسا۔۔
یہ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے۔۔۔شماٸل بھی اسی کا سیکھایا ہوا تھا گرم لوہے پر ہتورا کیسے مارنا ہے بہت اچھے سے جانتا تھا۔۔۔
اچھا بس ذیادہ نہ بول میں نے کیا تھا فون وہ آج کل نٸے مال کی تلاش میں نکلا ہے ملواٶں گا بہت جلد۔۔
***********
کلثوم محراب اور ندرت رشتہ داروں کو انویٹیشن دینے گے تھے۔۔۔سعدیہ ہیام اور عفاف شوپینگ کے لیے نکلے تھے۔۔۔
وہ اسلام آباد کے سینٹروس مال میں گھوم رہے تھے ہیام سعدیہ بیگم کے ساتھ باتیں کرتی آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔۔اور عفاف اور شہریارکسی ڈریس پر تبصرے کررہے تھے۔۔۔۔۔
سعدیہ تم۔۔۔سامنے سے آتی عورت سعدیہ کو دیکھ کر کہنے لگی۔۔
فوزیہ۔۔۔کتنے سال بعد ہاں۔۔یہ تمھاری بیٹی ہے ماشاءاللہ بہت پیاری ہے۔۔۔جب تک میں پاکستان میں تھی تمھارے یہاں اولاد نہیں تھی نہ اب۔۔۔ویسے میں اپنے بیٹے کے لیے لڑکیاں
ہی دیکھ رہی ہوں۔۔۔کیا میں گھر آجاٶ تمھاری بیٹی کا رشتہ لےکر۔میرا بیٹا بھی لاکھوں میں ایک ہے۔۔وہ بولی جارہی تھی۔۔۔ہیام حیرت سے اور سعدیہ پریشانی سے دیکھ رہی تھی اسے۔۔۔اور شہری کن آنکھیوں سے ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
فوزیہ رک جاٶ یہ میری بیٹی نہیں بہو ہے۔۔۔میرے شہری کی بیوی۔۔۔۔شہریار اور عفاف بھی اب وہاں آگے تھے اور شہریار نے ہیام کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔ہیام شہری کو گھورنے لگی۔۔۔مگر وہ اسے اگنور کرتا فوزیہ کی طرف توجہ ہوٸی۔۔۔
اسلام علیکم۔۔۔ہیام نے سلام کیا۔۔۔وعلیکم سلام
ماشاءاللہ۔۔۔بہت پیاری جوڑی ہے۔۔
ویسے بڑی ہی پیاری بہو ڈھونڈی ہے۔۔۔تم نہ لیتی تو میں لے لیتی اور یہ بات تو شہری کو آگ لگانے کے لیے کافی تھی۔۔۔ چلیں ماما دیر ہورہی ہے۔۔۔
ہاں فوزیہ تم عفاف کی شادی میں ضرور آنا۔۔ ابھی دیر ہورہی ہے چلتی ہوں۔۔۔وہ لوگ اللہ حافظ کہتے نکل گے۔۔
کون تھی ماما یہ۔۔۔اتنی چپکو۔۔سب ہنسنے لگے۔۔بڑی بات شہری اب وہ ہیام کا چھوڑ کر نارمل انداز میں چلتا ہوا بولنے لگا۔۔۔شہریار کا فون بجا۔۔
ماماآپ لوگ چلیں نہ میں آتا ہوں۔۔۔وہ ادھر ادھر دیکھتا کال اٹھانے لگا۔۔۔ہیلو کیا ہوا۔۔؟؟
خبر پکی ہے ابھی اسے جہانگیر شاہ کے اڈے سے نکلتے دیکھا ہے۔۔فون کے دوسری طرف کا آدمی اسے ساری تفصیل بتا رہا تھا۔۔
نظر رکھنااس پر۔۔۔۔ٹھیک ہے کہتا اسنے فون رکھا۔۔اچھا نہیں کیاتم نے شہریار حسن کی بہن کی عزت خراب کرنے والے کی اس دنیا میں کوٸی جگہ نہیں۔۔۔
شہری۔۔۔ ہیام ہاتھ میں ڈریس پکر کر شہریار کو آواز لگا رہی تھی ہاتھ کے اشارے سے اسے بوٹیک کے اندر بلانے لگی۔۔۔
ہاں بولو۔۔بتاٶ نا کون سااچھا ہے وہ دونوں ڈریس ایک ایک کر کے خود پر لگاتی مرر کے سامنے سے شہری سے پوچھ رہی تھی۔۔۔
تمھاری شادی نہیں ہے میڈم۔۔۔وہ اسے اتنے ہیوی ڈریس کو پکرے دیکھ کر بولا۔۔
بہن کی تو ہے نا۔۔سب سے اچھی لگنی چاہیے نا۔۔ہاں ٹھیک ہے مگر اچھا دیکھنے کے لیے ہیوی لینا ضروری ہے کوٸی ڈیسنٹ سا لو جیسے یہ۔۔وہ اک ہلکے کام والا ڈریس اٹھا کر ہیام کو پکڑاتا ہے۔۔
اتنا ہلکا اس میں تو کچھ ہے ہی نہیں۔۔۔وہ مہرون کلر کا بلاوز اسکے ساتھ اٹیچ گولڈن کلر کا لہنگا تھا۔۔۔وہ منہ بنا کر شہریار کو دیکھنے لگی۔۔۔
کیا دیکھ رہی ہو سچی میں اچھا لگےگا۔۔۔نہیں ہیام اسے واپس رکھ کر اپنے نکالے ڈریس پھر سے خود پر رکھ کر دیکھنے لگی۔۔۔
ٹھیک ہے اپنی مرضی سے ہی لے لو۔۔۔وہ عفاف کے پاس چلا گیا۔۔اور ہیام مرر میں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔
اور پھر اسی کا پسند کیا ہوا ڈریس اٹھا کر ان لوگوں کے پاس چلی گی۔۔اور شہریار اسکی حرکت پر مسکرا کر رہ گیا۔۔۔
**********
کیسی ہو۔۔۔نمبر کیوں بند تھا تمھارا۔۔ایمان کے فون اٹھاتے ہی مقابل شخص بول پڑا۔۔۔
کیونکہ مجھے آپ سے بات نہیں کرنی ہے۔۔آپ کون ہے میں نہیں جانتی آٸندہ مجھے کال نہیں کیجیے گا۔۔۔ورنہ میں اپنے بھاٸی کو نمبر دے دونگی۔۔۔
ایمان۔۔۔فون سے آواز ابھری
میرا نام مت لیں۔۔۔کیا کہیں گی میری بہنیں کے انھیں محرم نا محرم کا سبق پڑھانے والی خود کسی نا محرم سے باتیں کر رہی ہے۔مگر میں تو جانتی نہیں ہوں آپ کون ہے۔۔۔براۓ مہربانی میری زندگی ویسے ہی مشکل میں ہے اور نا بناٸیں۔ایمان نے فون رکھ دیا۔۔
میں تمھاری زندگی سے ہر غم مٹا دوں گا ایمان۔۔۔وہ فون کو ہاتھ میں پکڑ کر کہنے لگی۔۔
**********
تو کہی نہیں جاۓ گا یہاں رہنے میں کیا حرج ہے آخر۔۔۔شہریار نے عفان کے سامنے آکر اسکے ہاتھ میں موجود کپڑے چھینے۔۔۔
شہری سمجھنا یار میں کب تک یہاں رہوں گا۔۔۔کبھی نہ کبھی تو جانا ہے نا۔۔۔وہ اسکے ہاتھ سے دوبارہ کپڑے لیتا کہنے لگا۔۔
مگر عفاف کی شادی کا چکر ہے میں کیسے اکیلا کروں گا۔۔۔شہری یہ تین گلی چھوڑ کر تو گھر لیا ہے۔۔اور تو نے کون سا اکیلے کرناہے میں ہوں بس شفٹ کرنے دے۔۔۔عفان اسے ساٸڈ کرتا سامنا پھر صحیح سے لگانے لگا۔۔
تو بھی بڑا تیز نکلا سب کچھ کر لیا اور پتا بھی نہیں چلنے دیا۔۔۔
اب تجھے کیا بتاو کسی کی نظرے مجھے یہاں رہنے نہیں دے رہی ۔۔۔عفان اپنی ہی سوچوں میں تھا۔۔۔جب شہریار نے کشن اٹھا کر مارا ۔۔کہاں میں یہاں کچھ بول رہا ہوں۔۔
ہاں کیا بول رہا تھا تو۔۔۔آج رات بیٹھک رکھی ہے آجانا۔۔ ہاں ہاں تو فکر ہی نہ کر۔۔
***********
کھانے کے بعد سب بڑے لوگ اپنے اپنے پورشن میں چلے گے اور سب نے آج رات محفل جمانے کا پروگرام رکھا۔۔۔گھر کی پہلی شادی تھی
اب بلایا ہے تو بتاٶ کیا کرٸیں۔۔۔دانیال نے ہونک لگاٸی۔
تو تو چپ رہ ہم انتاکشری کہلتے ہیں۔۔۔ہیام نے پرجوش انداز میں کہا۔۔ ایمان اور عفاف کھانے کے لیے نمکو اور چپس وغیرہ بھی لے آٸیں تھی۔۔
ہیام آپی آپ تو چوبیس گھنٹے میں سے اٹھارہ گھنٹے اپنی مویز میں نکالتی ہیں۔۔۔بیچاری ایمان آپی کا سوچو وہ کیا کریں گی۔۔
موٹے تو اسکی فکر نا کر ایمان میں اور عفاف ایک ٹیم میں باقی اپ سب لڑکے ایک طرف۔۔
چلو میں شروع کرتی ہوں۔۔ہیام شروع ہوگی۔۔۔
اب نا ہوش نا خبر ہے یہ کیسا اثرہے تم سے ملنے کے بعد جیسے ہی ہیام گانے لگی شہری اسے غور سے دیکھ رہا تھا کے وہ کیا بول رہی ہے اور آہستہ آہستہ سب شہری کو دیکھنے لگے اور ایک لاٸن کمپلیٹ نہیں ہوٸی تھی کہ فضا میں سب کے قہقہ بلند ہوگے۔۔۔
آپی آپ کو پہلے بھی کوٸی ہوش نہیں تھا۔۔شہری بھاٸی پر الزام کیوں ڈال رہی ہو۔۔ دانیال بھی ہنستے بولا۔
تم تو چپ ہی رہو موٹے ۔۔۔اب آپ لوگوں کی باری۔۔ہیام بولتی شہری کو دیکھنے لگی۔۔
ترستی ہے نگاہین میری تکتی ہے
رہیں چاھیں ہے پناہ ہے تیری
اوووہہہہہووووو۔۔۔شہری نے گانا کیا شروع کیا دانیال اور محراب نے ہونک لگانا شروع کردی۔۔۔شہریار کی آواز دل کو چھو لینے والی تھی اوپر سے یہ گانا وہ اگلی لاٸن گانے لگا۔۔
یہ کیسے میں بتاوں تمھے۔
سوتی نہیں آنکھیں میری۔
تکِتِی نہیں راتیں میری۔۔
سامنے بیٹھی ہے بھاٸی آپکے بیٹھ کر دیکھتے رہیں۔۔۔دانیال نے پھر ہنستے ہوۓ چھڑا۔۔اور ہیام بلش کرنےلگی۔۔۔
ویسے ہماری دلہن کی کیوں خاموش ہے وہ کچھ نہیں سناۓ گی۔۔چلو اب عفاف کی باری۔۔شہری کے بولتے ہی عفاف نے سامنے بیٹھے عفان کو دیکھا اور غزل سنانے لگی۔۔۔
وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے۔
جو عشق کو کام سمجھتے تھے۔
یا کام سے عاشقی رکھتے تھے۔
جو عشق کو کام سمجھتے تھے
یا کام سے عاشقی رکھے تھے
ہم جیتے جی مصروف رہے۔
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
کام عشق کے اڑے آتا رہا اور
عشق سے کام الجھتا رہا
پھرآخر تنگ آکر ہم نے
دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا۔
(فیض احمد فیض)
عفاف مگن کسی کی پروا کیا بنا عفان کو دیکھتی غزل سنانے لگی۔۔۔واہ عافی مجھے تو لگا تو ویسے ہی شاعری پڑھتی ہے۔۔۔تو تو سناتی بھی بہت اچھا۔۔ہیام تالیاں بجانے لگی اور عفاف کھڑی ہوکر آنکھ میں آیا آنسو صاف کرتی۔۔۔اوپر چلی گی۔۔۔
انھیں کیا ہوا۔۔دانیال نے پوچھا۔۔وہ تھک گی ہوگی میں دیکھتی ہوں۔۔ایمان کہتی اوپر جانے لگی۔۔
ابھی تو گیم اسٹارٹ ہوٸی تھی اور اتنی جلدی ختم بھی کر رہے ہیں یہ کیا بات ہوٸی آپ لوگ چلے جاٶ گے تو مزا کیسے آۓ گا۔۔دانیال روتی شکل بنا کر بولنے لگا..
دانیال جانے دے کال فینکشن ہے آرام نہیں کرٸیں گی تو فریش نہیں ہونگی۔۔۔۔اور تمھیں انویٹیشن کارڈ دیں شہریار ہیام کو دیکھتے ہوۓ بولا جو بڑے آرام سے چپس کھا رہی تھی۔۔
جتنے اچھے سے گانے یاد کرتی ہونا پرسوں کا ٹیسٹ بھی یاد کر لینا۔۔۔۔شہری اسے یاد کرواتا کہنے لگا۔
کون سا ٹیسٹ۔اور ہیام انجان بنی دیکھنے لگی جیسے کچھ پتہ ہی نا ہو۔۔
ہیام میں نے ٹیسٹ دیا ہے تمھیں یاد بھی نہیں۔۔۔شہری غصے سے کہنے لگا۔۔۔
یاد ہوتا تو پوچھتی میں۔۔ ہیام چپس اٹھا کر جانے لگی۔۔
ہہہمممم ۔۔۔شادی کے گھر میں کون پڑھتا ہے میں تو جاٶنگی ہی نہیں۔۔۔وہ بڑبڑاتے ہوۓ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔ کسی نے اسے اپنی طرف کھنچا۔۔۔وہ چیخنے والی تھی۔۔کے منہ پر شہری نے ہاتھ رکھ دیا۔۔
کیا ہے۔۔۔جن کہی کے کہاں سے آجاتے ہو۔۔۔شہری کے ہاتھ ہٹاتے ہی وہ اس پر برس پڑی۔۔۔
جہاں تم وہاں ہم۔۔۔۔وہ شریر سی مسکراہٹ لیے بولنے لگا
کہا تم کہاں میں۔۔۔کیا بول رہے ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے ہٹو۔۔وہ شہریار کو ہٹاتے جانے لگی۔۔
میڈم آپ بھی کچن میں اور میں بھی چلیں کافی ٹاٸم۔۔۔وہ اسکے آگے آتا روک کر اسے کہنے لگا۔۔
کیوں بناٶ میں۔۔۔ابھی تو بڑے ٹیچر بن رہے تھے۔۔۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھتی شہریار کو دیکھنے لگی۔۔۔
ہاں تو ابھی اچھی بیوی بنو اور شرافت سے اچھی سی دو کپ کافی بناٶ۔۔۔
پہلی بات میں تمھاری بیوی نہیں ہوں۔۔۔ہیام کے اس نٸے انکشاف پر شہری نے اسے تعجب سے دیکھا۔
تو کیا ہیں ذرا بتانے کی زحمت کریں گی۔۔۔
منکوحہ ہوں میں تمھاری باورچن نہیں ہوں نا ہی خادمہ ہوں جو یونی میں گھر میں اپنے حکم چلاتے ہو۔۔۔۔ہیام رونے جیسا منہ بنا کر بولنے لگی۔۔۔
اہہہہہو تو یہ بات ہے۔۔عفاف کے کمرے سے آرہا ہوں جلدی سے کافی جاکر بناٶ باقی باتیں آکر بتاٶں گا کے میں کون اور کیا ہوں۔شہریار ہیام کا گال تھپتھپا کر عفاف کے کمرے کی طرف جانے لگا۔۔۔
اور ہیام منہ کھولے اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔اس پر تو میری باتوں کا اثر نہیں ہے۔۔۔ہٹلر نہ ہو تو
***********