ادھر آ زرا چیتے کو بلا۔۔۔وہ اپنے ملازم کو اشارے سے بلاتا کہنے لگا۔۔۔
چیتا اپنا کھانا چھوڑتا کھڑا ہوا انگلیوں میں لگے چاول اور دال کو صاف کرتا۔۔۔وہ اپنے مالک کا حکم سننے کے لیے آگے بڑھا۔۔۔
جی صاحب۔۔۔۔چیتے تیرے کام سے بہت متاثر ہوا ہوں۔۔۔۔ ان چند مہینوں میں جتنا جلدی فاٸدہ ہوا ہے اتنا اپنے پورے بزنس میں نے دیکھا نہیں۔۔۔
صاحب جی سوشل نیٹورکینک کا زمانا ہے ہم دوسرے بڑے کسٹمر بناٸیں گے تو ہمیں ہی فاٸدہ ہے۔۔۔۔
صحیح کہہ رہا ہے تو چل آج تجھے اپنے اڈےپر لے جاتا ہوں وہاں بھی بتانا اگر کسی تبدیلی کی ضرورت ہوتو۔۔۔
جی صاحب جی۔۔۔۔
************
رات کے کھانے پر سب ایک ساتھ بیٹھے تھے۔۔۔۔۔ مگر بلکل خاموشی تھی۔۔۔سب اپنے کھانے میں مصروف۔۔سلطانہ بیگم کو یہ بات ہضم نہ ہوٸی۔۔۔
اتنی خاموشی کیوں ہے میرے بھاٸی۔۔۔دانیال ایکٹنگ کرتے ہوۓ بولا۔۔۔۔سلطانہ بیگم کے دل کی بات بولی تھی وہ اپنے لاڈلے پوتے کو دیکھتی مسکرانے لگی۔۔
ارے آج یہ چڑیاں خاموش کیوں ہیں۔۔۔کیا ہوا عفاف آج تم اپنے قصے نہیں سناٶ گی۔۔۔
نہیں دادو کسی کو میرا بولنا اچھا ہی نہیں لگتا اسلیے اب میں خاموش ہی رہوں گی۔۔۔وہ عفان پر نظر ڈالتی پھر اپنے کھانے میں مصروف ہوگی۔۔۔
دادو صبح اماں سے ڈانٹ کھاٸی ہے اپی نے۔۔۔تم چپ رہو موٹا سانڈ
اور ہیام تمھارا منہ کیوں اترا ہوا ہے۔۔۔سلطانہ بیگم کو آج گھر بہت خاموش لگ رہا تھا۔۔۔ان کے بولنے پر ہیام نے شہریار کو دیکھا اور ایمان بول پڑی۔۔۔
وہ نانو آج اسنے بہت پڑھا ہے نا بس تھک گی ہے۔۔۔۔
اچھا شہری بیٹا آج میری بیٹیوں کو آٸسکریم کھلا کر لے آٶ۔۔۔ہاں ارے واہ دادو یو آر بیسٹ دانیال دادی کو فلاینگ کس دیتا کہنے لگا۔۔۔
اووہ ہیلو دادو نے بیٹیاں کہا ہاتھی نہیں۔۔۔دادو دانیال عفاف کو گھورتا ہوا بولا۔۔
عفاف ایسا نہیں بولتے۔۔۔دانیال زبان نکال کر اسے چرہانے لگا۔۔دادو اسے دیکھیں نا آپ یہ چڑا رہا ہے۔۔
محمود اور حسن صاحب اپنے بچوں کی معصوم لڑاٸیوں پر مسکرا رہے تھے۔۔۔جو ان کے گھر کی رونق ہے۔۔۔
کھانے کے بعد ایمان چاۓ بنانے کے لیے کچن میں گی۔۔تو شہریار اسکے پیچھے آیا۔۔ آپی
شہری مجھے تم سے کوٸی بات نہیں کرنی بہتر ہے تم جاٶ۔۔ایمان نے منہ موڑ کر چاۓ پتیلی سے چھانے لگی۔۔ آپی سوری وہ مجھےلگا۔۔ایمان نے اسے بیچ میں ٹوکا
تم نے اس بیچاری پر اتنا بڑا الزام لگایا۔۔۔شہری تم کیا جانو جب ایک لڑکی کےکریکٹر پر انگلی اٹھاٸی جاۓ تو کیسا محسوس ہوتاہے۔۔۔
ایسے ہی جیسے کوٸی جسم سے دل نکال لے اور کہے دھرک کیا وہ دھرکے گا۔۔۔
شہری ہر بار جو دیکھتاو ہے وہ ہوتا نہیں ہے۔۔۔
آپی سوری۔۔۔مجھے نہیں اسے بولو جس کا دل دکھایا ہے تم نے۔۔شہری آج تم مجھے انسان نہیں لگے ۔۔۔۔۔
حیوان صرف وہ نہیں ہوتا جو صرف ماس کھاٸیں جو مردانگی کے نام پر اپنی بہن بیوی ماں یا کسی بھی عورت پر ہاتھ اٹھاۓ یا اسے زندہ دفن کردے۔۔۔وہ بھی انسان تو نہ ہوا ۔۔۔ایمان کہتی وہاں سے نکل گی۔۔۔۔ اور شہریار آنکھ میں آیا آنسو صاف کرتا کچن سے باہر نکل گیا۔۔
سب چاۓ پی کر باتیں کر کے اپنے اپنے پورشن میں چلے گے آٸسکریم کھانے کے لیے ہیام اور ایمان نے منع کر دیا تو عفان دانیال اور شہریار مل کر سب کے لیے آٸسکریم لے کر آٸیں۔۔
کھانے کے بعد ہیام گارڈن میں واک کر رہی تھی۔۔۔کے شہریار کی گاڑی اندر آتی دیکھی۔۔۔عفان اور دانیال سب کی آٸسکریم لے کر اندر چلے گے اور شہریار ہیام کے پاس چلتا ہوا آیا۔۔۔
چہل قدمی کی جا رہی ہے ۔۔۔ہیام رک کر اسے کھڑے تیور سے دیکھنے لگی۔۔۔نہیں نہیں کرو بہت اچھی ہوتی ہے صحت کے لیے۔۔۔مگر تمھیں ضرورت نہیں ہے۔۔۔اتنی تو پتلی ہو اور ہوگی تو میں پھونک ماروں اور تم اڑ ہی نہ جاٶ۔۔۔
میں تمھاری بکواس سننے میں انٹسرٹیڈ نہیں ہوں۔۔۔وہ اسکے مقابل کھڑی ہوکر آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بناخوف کے کہہ رہی تھی۔۔۔
ہیام۔۔اسنے پیار سے اسکا ہاتھ پکڑنا چاہا جسے بے دردی ہیام نے جھٹکا اور مڑکر جانے لگی۔۔۔۔
I'm sorry
شہریار نے بولا۔۔۔۔ہیام کو اپنے کانوں پر یقین نا ہوا وہ پھر چلتی ہوٸی شہریار کے سامنے آٸی۔۔۔کیا بولا
I'm sorry
شہریار نے پھر سے بولا۔۔ہیام چلتی اوراسکے پاس آٸی سناٸی نہیں دیا۔۔۔۔ذرا پھر سے تو کہنا۔۔۔
I'm sorry
وہ اپنے غصے پر کنٹرول کرتا پھر سے ہر لفظ چبا چبا کر بولا۔۔۔غصہ کسے دیکھا رہے ہو۔ پیار سے بولو ہیام محمود مجھ سے غلطی ہو گی ہے میں معافی چاہتا ہوں۔۔۔
ہاں ہاں یہی سب۔۔۔کیا یہی منہ سے لفظ بولو۔۔۔
ہیام۔۔۔شہریار اسے گھورنے لگا۔۔۔آٸسکريم لایا ہوں کھانا ہے۔۔۔یا واپس لے جاٶ۔۔
اب لے ہی آۓ ہوتو دو ادھر اور وہ شاپر کھولتی پشاوری آٸسکريم دیکھ کر اسکے منہ میں پانی آگیا۔۔۔ہاں اب اتنے پیار سے کہہ رہے ہوتو میں کھاٸی لیتی ہوں۔تم بھی کیا یاد کرو گے۔۔۔
اور وہ دونوں گارڈن کے جھولے میں بیٹھ گے ہیام بڑے آرام سے آٸسکریم کہا رہی تھی۔۔۔شہری اسے ایسے بچوں کی طرح کھاتا دیکھ مسکرانے لگا۔۔۔
یہاں میں بھی ہوں میڈم اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے یہ میں لایا ہوں۔۔وہ ہیام کے ہاتھ سے آٸسکریم لیتا اس سے پہلے ہیام نے ہاتھ پیچھے کرلیا۔۔۔
لاۓ تو میرے لیے ہونا اب نظرے ہٹاٶ۔۔۔ندیدے نہ بنو میرا پیٹ خراب ہی نہ ہوجاۓ۔۔۔۔
تم ناراض تو نہیں ہو نا۔۔ہیام میں غلط تھا اندازہ ہے مجھے۔۔پتا ہے ہیام تم سے نکاح کے بعد کوٸی دن ایسا نہیں گیا۔جب تمھاری یاد نہیں آٸی ہو۔۔۔
رہنے دو تم تو یہاں تھے تو ہر وقت ڈانٹ دیتے تھے یا پھر دادو اور بابا سے باتیں سنواتے تھے۔۔۔
یاد ہے تمھیں ایک بار جب میں ایمان اور عفاف سامنے والی شکورن آنٹی کے باغ سے آم توڑنے گے تھے اور تم آگے تھے۔۔۔ جب ہمارے نکاح کو صرف پانچ دن ہوۓ تھے۔۔۔
اور عفاف اور ایمان پھٹو تو بھگ گی۔۔۔نیچے آم پکرنے کے لیے جو کھڑی تھیں۔۔۔پھنس تو میں معصوم گی تھی۔۔ایک تو درخت پر چڑھی اوپر سے تم ہٹلر بن کر نازل ہوگے تھے۔۔۔۔وہ دونوں گزرے دنوں کو یاد کر کے مسکرا رہے تھے۔۔۔
اور یاد ہے تمھیں تم ڈر کے مارے نیچے ہی نہیں اتر رہی تھی۔۔
توتم مجھے ڈانتے بھی تو کتنا تھے۔۔۔ڈانتا نہیں تھا سمجھاتا تھا۔۔شہریار آٸسکریم سے بھرا چمچ اسکی طرف بڑھتا کہنے لگا۔۔
ہاں جیسے آج سمجھایا۔۔ہیام اسے صبح کا واقعہ یاد دلا کر کہنے لگی۔۔
ہیام۔۔۔۔کیا معافی نہیں ملے گی۔۔سوری بولا تو یار میں سچ میں۔۔۔اسے بولا نہیں جارہا تھا وہ اٹھ کر جانے لگا۔۔۔۔
ہیام نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ایک شرط پر۔۔شہریار اسے دیکھنے لگا۔۔۔روز آٸسکریم کھلاٶ گے۔۔۔
پھر تو رہنے ہی دو۔۔۔شہری
ہیام چھوٹا سا منہ بنا کر کہنے لگی۔۔۔چلو ہفتے میں ایک بار۔۔
اچھا تمھیں ایک بات بتاٶں۔۔۔۔
ہہہہہمممم۔۔۔وہ دونوں گارڈن میں ساتھ ساتھ واک کر رہے تھے۔۔۔۔چودھویں کا چاند ہے۔۔۔اور ساجن ساتھ ہے۔۔کیا خوبصورت رات ہے نا شہری۔۔۔۔ہیام اسے کہتی گھاس کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
تمھیں کب سے شاعری کا شوق ہوا۔۔۔بس ابھی ابھی سوجھی تو بول دی تم کچھ کہہ رہے تھے۔۔۔
ہاں وہ میں نے تمھاری یونی میں از لیکچرار اپوینٹ ہوا ہوں۔۔۔
کیا۔۔۔۔۔!!!!!یہ بات تھی یا بوم جو ہیام کے سر پر گرا تھا۔۔۔وہ حیرانی پریشانی کے ملے جلے تاثرات اپنے چہرے پر سجاۓ شہری کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
اب تو میں تمھارا ٹیچر ہونگا تو تم مجھے آپ بولو گی میرے ساتھ آٶ گی اور جاٶ گی بھی۔۔
تم مجھ پر چیک ان رکھنے کے لیے کر رہے ہونا۔۔۔تمھیں یقین نہیں ہے مجھ پر۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہے یار صرف ایک سبجیکٹ پڑھانے آٶں گا۔۔۔بس خوش دوست نے کہا تھا وہاں ضرورت ہے۔۔۔اب کام چور کو کون بیٹی دے گا۔۔۔اسلیے پاٹ ٹاٸم جاب۔۔۔
سچی۔۔۔۔وہ ہاتھ بڑھا کر پوچھنے لگی۔۔۔۔
مچی۔۔۔شہریار بھی اسی کے انداز میں بولا۔۔
کیا پڑھاٶ گے۔۔۔شوشیولوجی
مگر تم تو ایکنومکس میں ماسٹر کرنے گے تھے نا۔۔۔۔ہیام کو یاد آیا تو کہنے لگی۔۔۔
کتنا دماغ چلتا ہے اسکا اپنی پڑھاٸی میں لگاۓ تو ٹاپ کرے۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔ہیام شہریار کے آگے ہاتھ ہلاتی کہنے لگی۔۔۔
ارے یار تین سال تھے فری ہوتا تھا اسلیے یہ بھی پڑھ لیا۔۔۔اتنا بورنگ سبجیکٹ کیسے پڑھ لیا یار۔۔۔ہیام منہ بنا کر اکہتاتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
اب پڑھاٶ گا نہ میں۔۔۔مزہ آۓ گا۔۔دیکھتے ہیں۔۔ہیام شہری کو دیکھتی بولنے لگی۔۔۔
اور وہ دونوں چلتے ہوۓ اپنے اپنے پورشن میں چلے گۓ۔۔۔
*********
یہ سب کیا ہے صاحب۔۔۔چیتا حیرانی سے سامنے ہوتے مناظر کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔کچھ بچے ایک جگہ نڈھال پڑے تھے تو کچھ سامان اٹھا کر لے جا رہے تھے۔۔۔انھیں دیکھ کر سچ میں نہیں لگ رہا تھا وہ اپنے ہوش میں ہیں تمام جہاں سے بےگانے ہوۓ وہ اپنے کام میں مصروف تھے۔۔۔
صاحب child labour گناہ ہے۔۔۔ اور ذور دار قہقہ فضا میں گونجا۔۔۔
چیتے تجھے یہ چاٸلڈ لیبر (child labour) لگ رہا ہے۔۔۔صحیح بھی ہے ابھی تجھے یہ مزدور لگیں گے۔۔۔پر درحقیقت یہ چاٸلڈ ابیوز(child abuse) کے مارے ہیں۔۔۔جنھیں لوگ جنسی تشدد اور جنسی زیادتی کہتے ہیں۔۔۔۔۔اور یہ تو ہمارا کاروبار ہے۔۔۔
اور تجھے کیوں رحم آرہا ہے۔۔۔جب بچے اغوا کرتا ہے تو رحم نہیں آتا۔۔۔مگر صاحب یہ کسی کی اکلوتی اولاد بھی ہوسکتی ہے ۔۔بس چیتے یہ ہمارا کام ہے اور جو کام کے بیچ میں آیا وہ جان سے گیا۔۔سمجھا کیا۔۔
یہاں سے ان کو ٹرین کرکے افغانستان دبٸی اور بہت سے الگ الگ ممالک میں بھیجا جاتا۔۔۔
چیتا صرف اسکی باتیں سن رہا تھا۔۔چہرے پر کوٸی تاثر نہیں تھا۔۔
*********
کیسی باتیں کررہی ہو ندرت بیگم۔۔۔ابھی عفاف چھوٹی ہے اسکا رشتہ ابھی سے۔۔۔اور ابھی تو ایمان بیٹی کی شادی نہیں ہوٸی۔۔۔سب سے بڑی ہے تو پہلے اسکی شادی کریں گے۔۔۔
دیکھیں محمود میں ایمان کی وجہ سے اپنی بیٹی کو تو نہیں بیٹھاٶں گی نہ۔۔۔اور اتنے اچھے لڑکے کہاں ملتے ہیں۔۔۔اور ایمان کو میں نے کٸ دفعہ کہا ہے کے ہمارے ساتھ چلا کرے شادی دعوتوں میں۔۔۔
رشتے تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔۔خاندان میں تو کوٸی اسے رشتہ دےگا نہیں۔۔۔ایسے کیوں بول رہی ہو ہماری بیٹی میں کون سی کمی ہے۔۔۔۔
رہنے دیں محمود لوگ وقتی طور پر تو بھولتے ہیں۔۔۔مگر یاد سب کو ہوتی ہے ہر چیز۔۔اسی لیے باہر کی دعاتوں میں جانے کا کہتی ہوں۔۔۔
اب وہ کہی آتی جاتی نہیں تو ہم کیا کرٸیں بن ماں باپ کی بچی ہے یہ سوچ کر میں نے اس کے لیے بہت کیا اب ذیادہ بولوں گی تو وہ شہریار آجاۓ گا۔۔۔ویسے بھی غصے کا بہت تیز ہے۔۔۔پتہ نہیں اکیلے تین سال کیسے گزارے ہیں۔۔۔
اب آپ وقت نہ لگاٸیں میں نے دو دن کا وقت مانگا ہے۔۔جاٸیں اماں جی حسن بھاٸی سے بات کریں اور بات آگے بڑھاٸیں۔۔۔
مگر بیگم۔۔۔میں کسی کی وجہ سے اپنی بیٹی کے لیے آیا اتنا اچھا رشتہ نہیں جانے دونگی۔۔۔۔بولے دیتی ہوں
باہر کھڑی ایمان اپنے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔۔۔اور ہاتھ میں پکرا دودھ واپس کچن سلپ پر رکھ کر وہی رونے لگی۔۔۔۔
آپی آپ رو کیوں رہی ہیں۔۔۔شہریار آیا تو ایمان کو روتا دیکھ اسکے پاس چلا آیا۔۔۔
شہری تم۔۔۔ہاں آپکو کیا ہوا آپی۔۔۔کچھ نہیں وہ اپنی آنکھ میں آٸیں آنسو صاف کرتی کہنے لگی۔۔۔بس امی ابو کی یاد آگی۔۔
تم آج کل بہت لیٹ نہیں آنے لگے ہو۔۔۔کھانے پر بھی نہیں تھے۔۔۔۔ہاں آپی وہ بس کام تھا زرا۔۔۔
ہیام بتا رہی تھی کے تم نے اسکی یونی میں جاب اسٹارٹ کی ہے۔۔۔ہاں وہاں ضرورت تھی۔۔۔اچھا چلو اپنا خیال رکھا کرو۔۔۔وہ اسے پیار سے کہنے لگی۔۔۔
تمھارے لیے کھانا نکالوں۔۔۔ہاں آپی بہت بھوک لگی ہے۔۔آپی اپنا موباٸل دیجیے نہ مارگلہ کی پکس پلیو توتھ کردوں ہاں وہ ٹیبل پر پڑا ہے۔۔
شہری اپنا کام کرتا رہا جب تک ایمان کھانا گرم کر کے لے آٸی دونوں تھوڑی دیر بات کر کے شب خیر کہتے سونے چلے گے۔۔۔
آپی آپ یہ دیکھیں نہ۔۔۔کیا ہے عفاف تنگ کیوں کر رہی ہو کام کرنے دو۔۔۔عفاف موباٸل لیے اسکے سر پر کھڑی کچھ دیکھا رہی تھی۔۔۔
دیکھیں تو۔۔۔یہ تو عفان ہے یہ تم نے اپنی تصویر کے ساتھ اسکی تصویر کیوں ملاٸی ہے۔۔
آپی دیکھیں نہ میں نے ایڈٹ کر کے دیکھا ہے کتنے اچھے لگ رہے ہیں ہم دونوں ساتھ۔۔
عفاف تم نے یہ تصویر کہاں سے نکالی۔۔آپی انٹرنیٹ پر سب ملتا ہے میں نے ان کا نام فیس بک پر ڈالا۔۔تو انکے اکاونٹ سے یہ پک ملی مجھے تو میں نے اپنی تصویر کے ساتھ ایڈیٹ کرلی۔۔
اور ایمان اسکی بات سنتی۔۔۔غور سے دیکھتی جانے لگی۔۔آپی کیا ہوا اچھی نہیں لگی۔۔
عفاف تمھیں پتا ہے ہمارا رب فرماتا ہے۔۔۔"پاک عورتوں کے لیے پاک مرد ہیں"
اور یہ حرکتیں پاک لڑکیاں نہیں کرتی کسی نامحرم کا نام لینا تو کیا اسکے بارے میں سوچھنا بھی غلط ہے۔۔۔اور تم اسکے ساتھ اپنے اپ کو جوڑ رہی ہو۔۔۔میری جان ہمارے ماں باپ ہم پر بھروسہ کرتے ہیں کے ہم ان کی عزت پر انچ نہیں آنے دینگے۔۔۔اور سوچو عفاف اگر ماموں ممانی کو پتا چلا تو انھیں کتنا دکھ ہوگا۔۔۔
وہ تم سے پیار نہیں کرتا اور ہمیں محبت کے لیے خود کو کبھی اتنا نہیں گرانا چاہیے کے اٹھتے ہوۓ عزت بھی باقی نہ رہے۔۔۔
آپی عفاف رو رہی تھی۔۔۔ایمان کے گلے لگ کر۔نہیں میری جان تمھیں پتا ہے۔۔ماموں ممانی رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں تمھار لیے۔۔۔کیا؟؟ اتنی جلدی کیا ہے پہلے آپکی اور ہیام آپی کی تو کرلیں۔۔
یہ سب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔۔اور کبھی نہ کبھی تو شادی کرنی پرتی ہے نہ۔۔تو اب تم کوٸی فضول بات نہیں کرو گی کچھ فضول نہیں سوچوں گی۔۔۔بس اللہ سے اپنے حق میں بہتری مانگنا۔۔وہ دے جو تمھارے حق میں بہتر ہو۔۔
جی آپی۔۔۔اور یہ دیکھیں میں نے ڈیلیٹ کردی۔۔۔ عفاف تعبداری سے کہنے لگی۔۔۔
مگر ایمان جانتی تھی وہ کچھ پل کے لیے تو بھول سکتی ہے مگر پھر چنددن بعد شروع ہوگی۔۔۔ جیسے بچے ہوتے ہیں نہ ان کو مناکرو تو ضد کرتے ہیں مگر کچھ دیر میں بھول جاتے ہیں کیونکہ وہ بچے ہوتے ہیں نادان۔۔۔ویسے ہی ایک عمر آتی ہے چڑھتی جوانی اس عمر میں جس چیز کے لیے منع کیا جاۓ نہ دل اسی پر اڑ جاتا ہے۔۔۔اور عفاف اسی عمر میں تھی۔۔جو صحیح غلط کا پتا ہونے کے باوجود جو کچھ پل کے لیے تو سمجھ جاتی مگر۔۔۔۔غلط کی طرف بڑھتی ہیں اور پھر ۔جو کوٸی نہ سمجھا سکے اسے وقت،لوگ،قسمت بہت اچھی طرح سمجھاتی ہے۔۔
”وقت،لوگ،قسمت یہ تین چیزیں انسانی زندگی کے لیے بہت اہم ہیں اور اگر ان تینوں چیزوں میں سے ایک بھی گردش میں آۓ تو انسان نکھر بھی سکتا ہے بکھر بھی سکتا ہے“
***********