ایمان روم کی صفاٸی کر رہی تھی جب محراب کا فون بجا۔۔محراب باتھروم میں تھا۔۔۔ایمان نے فون اٹھایا تو کال کینسل ہوگی تھی۔۔ایمان فون اٹھا کر دیکھنے لگی جب اسکی نظر Draft پر گی اس میں موجود غزلیں تو وہ تھی جو روز رات کو ان نون نمبر سے آتی تھی شادی سے پہلے۔۔۔ایمان کنفیوز ہوگی اسنے میسج چیک کیا ساری چیٹ موجود تھی ایمان کو یقین نہیں آیا اسے میسج کر کے پریشان کرنے والا محراب تھا۔
یہ کیا ہے؟ ایمان محراب کی طرف اسکا موباٸل بڑھاتی ہوٸی پوچھنے لگی ۔۔محراب شرٹ کے بٹن لگا کر موباٸل ہاتھ میں لے کر دیکھنے اور پھر ایمان کو۔۔۔ایمان غصے میں کھڑی تھی محراب نے تھوک نگلی۔۔۔۔
وہ ایمان دراصل۔۔۔محراب تو ایمان کواتنے غصے دیکھ کر کچھ بول ہی نہیں پارہا تھا۔۔۔
آپ صرف یہ بتاٸیں کے یہ سچ ہے یا نہیں۔۔۔ایمان نے صاف سوال کیا۔۔۔محراب چند منٹ اسے دیکھتا رہا ایسے تو کبھی بات نہیں کی تھی محراب کو ایمان کی بات دل پر لگی اس نےہاں میں جواب دیا۔۔۔ایمان بنا کچھ بولے کمرے سے نکل گی۔۔۔
ایمان رکو۔۔۔محراب نےآواز لگاٸی مگر وہ ان سنا کر کے نکل گی۔۔۔
کیسے ہاتھ لگۓ تم اتنے ٹاٸم سے چپ تھے نا اب کیوں آۓ سامنے محراب موباٸل کو پکڑ کر کوس رہا تھا۔۔۔اللہ اب اسے کیسے مناوں مدد کرنا وہ دعا کرتا موباٸل کو بیڈ پر پھینک کر ایمان کے پیچھے گیا۔۔ایمان کچن میں کام میں مصروف ہوگی ندرت اور ملازمہ بھی وہی کام کر رہی تھی۔۔
محراب کچن میں سب کو موجود پاکر خاموشی سے ایمان کو دیکھنے لگا جو اسے مکمل طور پر اگنور کر کے پھل کاٹ رہی تھی۔۔ندرت نے محراب کو دیکھ کر کہا۔۔۔کچھ چاہیے بیٹا؟
وہ میں ممانی پانی پینے آیا تھا۔۔۔اس نے بات گھماٸی۔۔ہربرا کر جواب دیا
کافی دیر ادھر ادھر دیکھا مگر کوٸی کچن سے باہر نہیں جارہا تھا تو محراب گلا کنھنکھارتے ہوۓ کہنے لگا۔۔وہ ایمان باہر آنا میری فاٸل نہیں مل رہی ہے۔۔۔ڈھونڈ دو پلیز محراب کے کہنے پر ایمان نے اسکی طرف دیکھا اور پھر بنا بولے اپنے کام میں لگ گی ہے۔۔۔محراب اسے خاموش پاکر وہاں سے چلا گیا۔۔
بیٹا بچہ کچھ کہہ رہا تھا۔۔جاو سن لو کیا کہہ رہا ہے ایسے شوہروں کو نظرانداز نہیں کرتے۔۔جاٶ شاباش سعدیہ بیگم ابھی کچھ دیر پہلے آٸی تھی ایمان کے ہاتھ سے سیب اور چھڑی لیتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
ایمان پاٶں پٹکتی کچن سے نکال گی۔۔بربراتے ہوۓ سڑھیاں چڑھ رہی تھی۔۔۔بچہ....! چھ فٹ کا آدمی بچہ کہاں سے ہوا ممانی بھی نا وہ کمرے میں آٸی تو محراب کمرے میں چکر لگا رہا تھا۔۔۔
ایمان کو آتا دیکھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا تاکہ اپنی ناراضگی کا اظہار کر سکے۔ کیا نہیں مل رہا ہے آپ کو۔۔۔ایمان نے اسکو بیٹھا دیکھ کر کہا۔۔
میری بیوی فضول سی بات پر ناراض ہوکر بیٹھی ہے اسکو منا کر لے آٶ۔۔۔محراب چہرے پر مسکراہٹ لا کر اسے دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔
اگر آپ کو کوٸی کام ہے تو بولیں۔۔۔ ورنہ مجھے اور بہت کام ہیں۔۔ ایمان جاتے جاتے کہنے لگی۔۔محراب خاموش ہوگیا چند منٹ ایمان کو دیکھا اور موباٸل اٹھا کر چلا گیا۔۔۔
غلط بھی خود کریں اور نخرے بھی خود دیکھا رہے ہیں۔۔۔۔میں بھی اس بار نہیں مناٶنگی۔۔ایمان بیڈ پر کمبل کو دور کر کے بیٹھ گی۔۔
***********
نور آپ تیار ہو ہمیں جانا ہے۔۔۔۔شہریار نوک کر کے کمرے میں داخل ہوا۔
ہاں شہری میں ریڈی ہوں مگر مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔۔نور جوتا پہنتے ہوۓ کہنے لگی۔۔
اگر انھوں نے مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا۔۔۔ نور کا ڈر جاٸز تھا جہانگیر شاہ سے کسی بھی بات کی تواقع کی جاسکتی تھی۔۔۔
اتنی بہادر لڑکی ایسی باتیں کرتی اچھی نہیں لگتی اپ کے بیسٹ فرینڈ اللہ پاک کو پتا چل گیا کہ اتنی نا امیدی والی باتیں کر رہی ہیں نور میڈم تو وہ آپ سے ناراض ہوجاٸیں گے۔۔۔
میرے بیسٹ فرینڈ بہت اچھے ہیں میں منالونگی تو مان جاٸیں گے اتنی پیاری بچی سے ویسے بھی کوٸی ناراض نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔آپکی طرح تھوڑی ہوتا ہے ہر کوٸی بیوی کو چھوڑ کر آگے ہیں اور چپ چپ کر دیکھتے رہتے ہیں کہتے کیوں نہیں ہیں۔۔۔میں اس بار کوٸی بہانا نہیں سنونگی۔۔اور ویسے بھی میں آپکے ساتھ چلوں گی اسلام آباد دو دن کے لیے۔۔۔
توبہ ہے نور۔۔۔۔نہیں بولتی نہیں بولتی کر کے کتنا بول گی ہو اب تک فلحال جو کام ضروری ہے ہم اسکے لیے لیٹ ہورہے ہیں۔۔۔
ہاں چلیں کتنی باتیں کرواتےہو شہری۔۔۔اففففف وہ کہتی ہوٸی کمرے سے نکل گی۔
شہریار کی گاڑی ایک بڑے سے پلازہ کے باہر آکر رکی۔۔۔نور اس جگہ کو دیکھ کر جتنی حیران ہوٸی اتنی ہی پریشان ہوٸی کیونکہ یہ وہی جگہ تھی جہاں اسکی ماں اسکے باپ کے پاوں پکر رہی تھی بھیک مانگ رہی تھی میری بیٹی کو اپنا لو مگر وہ سفاک آدمی خود کو خدا سمجھ بیٹھا تھا وہ سمجھنے لگا تھا کہ زندگی اور موت اسکے ہاتھ میں ہے۔۔
چلو شہریار اسے کہتا ہوا اگے چلنے لگا۔۔۔نور جیسے آگے بڑھ رہی تھی اس کے دماغ میں سب ایک فلم کی طرح چل آرہا تھا۔۔۔وہ ننھی سی بچی کن چیزوں سے گزری تھی یہ صرف وہ جانتی تھی وہ جو ہر وقت اپنے چہرے پر ایک یقین سکون اعتماد اور مسکراہٹ لیے گھومتی تھی۔۔۔وہ سب اسکا اللہﷻ پر کامل یقین کا نتیجہ تھا۔۔۔
وہ دونوں چلتے چلتے اسی تہہ خانے کے پاس آگے تھے۔۔۔نور کے قدم رک گے تھے۔۔۔یہ وہی جگہ تھی جہاں اسکی ماں کو اسکی آنکھوں کے سامنے جلایا گیا تھا۔۔۔وہ چیخی تھی چلاٸی تھی اسے خوف تھا اس جگہ سے۔۔وہ چند قدم پیچھے گی۔۔۔اسے تین سال پہلے کا واقعہ یاد آیا۔۔
جب وہ صرف اٹھ سال کی تھی کہتے ہیں نا کم عمری میں جو بات دماغ میں بیٹھ جاۓ تو وہ کبھی نہیں بھولتی۔۔۔جب وہ پہلی بار اس پلازہ میں آٸی تھی۔۔۔اپنی ماں کے ساتھ اسکے باپ نے اسے سب کے سامنے جوتوں سے مارا تھا اسکی ماں چیخ رہی تھی اس معصوم بچی کے آنسو نکل رہے تھے۔۔۔اپنی ہی بیوی کو بے عزت کررہا تھا ناجانے کون کون سے الزام تھے جو وہ انسان نما درندہ اپنی بیوی پر لگا رہا تھا۔۔۔
وہ نور کے سامنے اسکی ماں کو بالوں سے پکر کر گھسیٹتا ہوا لے کر جارہاتھا۔۔نور چیخ رہی تھی اپنی ماں کو پکار رہی تھی۔۔۔مگر وہ وحشی درندہ اپنی طاقت کے آگے کسی کو کچھ نہیں سمجھتا تھا۔۔۔
نور کیا ہوا۔۔۔شہریار کی پکار پر وہ اس ڈراونے خواب سے جاگی جو بد قسمتی سے اسکی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔۔۔۔
میں اندر نہیں جاوں گی آپ مجھے یہاں کیوں لاٸیں ہیں۔ آپ جانتے ہیں سب کچھ۔۔۔نور جتنی بھی مضبوط تھی مگر وہ ایک بچی تھی ڈر لازم تھا۔۔۔ کچھ چیزیں انسان کے دماغ میں ڈر بن کر بیٹھ جاتی ہیں اور وہ زندگی بھر اس ڈر سے نہیں نکلنے دیتی۔۔۔
نور آپ اتنی بہادر ہو اور یہ فیصلہ آپ کا ہی تھا۔۔۔تو پھر یہ کمزوری کیسے آگی اللہ پاک چاہتے ہیں آپ ظالموں سےلڑو اور جب بات سچاٸی کی آۓ تو رشتوں کی پرواہ نہیں کرتے۔۔۔نور نے شہریار کی باتیں سن کر گہرا سانس لیا۔۔۔
چلیں میں تیار ہوں۔۔نور آگے قدم بڑھانے لگی۔۔اور شہریار مسکراتے ہوۓ اسکے پیچھے چل دیا۔۔۔
وہ انڈر گراونڈ میں تہہ خانے میں گۓ ایک لمبا چوڑا آدمی جس کا قد چھ فٹ چار انچ کے قریب تھی جسمانت بھی پہلوانوں جیسا کپڑے پھٹ چکے تھے وہ نڈحال پڑا ہوا تھا۔۔
کہی سے بھی وہ جہانگیر شاہ نہیں لگ رہا تھا۔۔ اسے اس پانچ ماہ میں 4 ڈگری دی گی تھی اسے ہر وہ اذیت دی گی جو اسکی روح کو تڑپا دے مگر سانس اب بھی چل رہی تھی۔۔خدا نے اسکی سانسیں نہیں روکی تھی وہ اور سہہ سکتا تھا جو دوسروں پر ظلم دھا سکتا ہےوہ اتنی آسانی سے کیسے مر سکتا ہے۔۔۔
وہ اپنے باپ کو ایسے دیکھ کر کانپ گی وہ جانتی تھی ظالم کی اللہ بہت بڑی پکڑ کرتا ہے آج اللہ کے انصاف پر بھی یقین ہوگیا تھا۔۔مظلوم کی دعا کبھی راٸگاں نہیں جاتی۔۔۔
دو آدمیوں نے منہ پر پانی کا گلاس پھینکا تو وہ پورے جہاں سے بےخبر جھٹکے سے اٹھا۔۔۔چند منٹ تک وہ اپنے سامنے موجود وجود کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔پہچانتا کیوں نہیں۔۔۔
جہانگیر شاہ وہ پہلا باپ ہوگا جس نے خود اپنی آٹھ سالہ بیٹی کا سودہ کیا وہ اس لڑکی کو کیسے مار سکتا تھا وہ تو اسے بیچ کر پیسہ کمانا چاہتا تھا۔۔۔ اسنے اپنی بیوی کو جلا دیا تھا اور نور کا سودا کر کے وہ چلا گیا۔۔۔
اللہ کا کرم تھا اور معجزہ جو نور ان درندوں سے بچ کر بھاگ گی۔۔۔(سیلف ڈیفنس ہمیں ہر بچے کو سیکھانا چاہیے تربیت بچوں کی ہی کی جاتی ہے ہم یہ کہتے ہیں بڑی ہوگی تو سیکھ جاۓ گی سمجھ جاۓ گی۔۔بڑے ہوکر ہم خودمختار ہوجاتے ہیں۔۔۔ بڑے ہوکر ہم وہ کرتے ہیں جو ہمارا دل چاہتا ہے ماں باپ کی کہاں سنتے ہیں۔۔۔ اگر ہمیں بچپن سے ہی سیلف ڈیفنس اپنی مدد اپ کی تربیت دی جاۓ گی تو ہم کسی سے نہیں ڈریں گے۔اور اسکے ساتھ خدا پر پورا یقین رکھنا چاہیے۔۔ )
نور جب وہاں سے بھاگی تو اسکی ماں نے اسے ایک تو اللہ پر توکل کی تربیت دی تھی دوسرا وہ حافظ قرآن تھی اور تیسرا وہ سیلف ڈیفنس جانتی تھی وہ جانتی تھی کے جو میرے قریب آرہا ہے اسکی آنکھوں میں نحوست ہے وہشی ہے وہ جانتی تھی ماں کو جلا دیا ہے باپ نے بیچ دیا ہے۔۔وہ جانتی تھی کہ وہ لوگوں کی نظر میں اکیلی ہے مگر وہ اکیلی نہیں ہے خدا ہے اسکے ساتھ اس بات کا یقین اسے قصور لے گیا۔۔۔
وہ بھاگ بھاگ کے تھک گی تھی پاوں میں پتھر آیا اور گر گی۔۔۔ناجانے کتنے گھنٹے وہ وہاں پری رہی جب کچھ لوگوں نے اسے ادارے میں چھوڑا ڈاکٹر طاٸرہ نے کافی دن تک اسکی خاموشی کو جانچا مگر اس سے کچھ سوال نا کر پاٸی آہستہ آہستہ ڈاکٹر طاٸرہ اسے زندگی کی طرف لاٸی نور گھلنے ملنے لگی اور سب بہتر ہوگیا نور نے اپنی زندگی ان بچوں کے لیے وقف کردی جب کے وہ خود ایک ننھی سی بچی تھی۔۔۔
پہچانا یا یاد دلاوں تمھیں۔۔۔شہریار آگے بڑھا اور اسکی رسی کو کھولنے لگا۔۔
نور خاموش کھڑی صرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
میں نہیں جانتا نہیں جانتا اسے کون ہے۔۔۔جہانگیر شاہ چلا کر بولا
ہہہم یادداشت بہت کمزور ہے جہانگیر شاہ اتنا بکام کر کیسے رہے تھے۔۔۔شہریار نے اسکے منہ پر پنچ مارا رسی جل گی مگر بل نہیں گیا۔۔۔
شہری چھوڑ دیں آپ۔۔میں ان سے صرف یہ کہنے آٸی تھی کے میں نے انھیں معاف کیا ہر گناہ کے لیے جو انھوں نے کیا ان کےگناہوں کا کفارہ نور دے گی ان بچوں کو پڑھا کر جنکے چہرے کی مسکراہٹ میرے باپ کی وجہ سے گی۔۔۔
میں انکو اس قابل بناٶں گی۔کہ دوسرا جہانگیر شاہ پیدا نا ہو۔میں انکے چہرے کی مسکراہٹ واپس لاوں گی میں خدا سے دعا کرونگی وہ آپ کو معاف نہ بھی کرے تو آپ کی سزا کم کردے اپ بھی توبہ کر لیں میں چاہتی ہوں آپ ایمان والی موت مریں۔۔
جہانگیر شاہ تمھیں اور اسے دیکھ کر بلکل نہیں لگتا ہے کہ یہ تمھاری بیٹی ہے۔۔شہریار کے کہنے پر اسنے نظریں جھکاٸی میں اپنی بیٹی کو گلے لگانا چاہتا ہوں۔۔جہانگیر نے عجب فرماٸش کی شہریار کو شک پہنچا مگر نور کی طرف دیکھا تو وہ مچل رہی تھی۔۔باپ کے گلے لگنے کے لیے۔۔
وہ جہانگیر شاہ کے گلے لگ گی شہریار نے کچھ نا کہا۔۔۔ جہاگیر شاہ نے برابر میں کھڑے ہوۓ سکیورٹی گارڈ کی جیب سے پستل نکال کر نور کے سر پر رکھی۔۔۔
اچانک چیخ کی آوازے آنا شروع ہوٸی نور ڈر گی تھی۔۔۔۔ چھوڑو اسے جہانگیر شاہ شرم کرو بیٹی ہے وہ تمھاری۔۔شہریار چیخا تھا چھوڑ دومعصوم کو۔۔۔شہریار کو پچتاوا ہوا کیوں نور کو بھیجا۔۔
مجھے رشتوں سے نا ڈرا شہریار حسن جانے دے مجھے خود بھی سکون سے رہ اور مجھے بھی رہنے دے۔میں نے کہا تھا کوٸی پیدا نہیں ہوا جو جہانگیر شاہ کو ہرا سکے تم نے پیچھےسے وار کیا۔۔میں مار دوں گا آگے نہیں بڑھنا۔۔شہریار کو آگے آتا دیکھ کر جہانگیر شاہ نے پستل پر دباو بڑھایا۔۔
کہتے ہیں نا کتے کی دم ٹیڑی کی ٹیڑی رہتی ہے کچھ بھی کر لو۔۔۔تو بھی ان کتوں کا باپ ہے۔۔۔تجھ جیسے حیوان پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔
اب کب تک ایسے منہ پھولا کر بیٹھو گی۔۔۔رات میں جب محراب کمرے میں آیا تو ایمان کوٸی کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی۔۔۔ ایک منٹ محراب کی طرف دیکھتی وہ پھر اپنے مطالعے میں لگ گی۔۔۔۔
کہہ تو رہاہو غلطی ہوگی ہے اب کیا کرو میں بولو تو کان پکڑو۔۔۔ یار بولو نا محراب ایمان کے پاس آکر کہنے لگا۔۔
ہاں پکڑیں۔۔۔ایمان اپنی ہنسی چھپاتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
سچ میں۔۔۔۔!!
محراب تو شوخی میں لمبی لمبی چھوڑ رہا تھا اسے کیا خبر تھی کہ ایمان سچ میں کرواۓ گی۔۔۔وہ آنکھوں کے اشارے سے اس سے پوچھ رہا تھا کے سچی میں کرنا ہے۔۔
پکڑیں کان اب مسکینوں والے منہ کیوں بنا رہے ہیں فون پر تو بڑی شوخی مارتے تھے۔۔۔۔ ایمان محراب کو دیکھ رہی تھی اور اسے وہ دن یاد کرواۓ جب وہ اسے پریشان کرتا تھا
اچھا۔۔۔ محراب نے ہاتھ کانوں کو لگا کر سوری کہا۔۔۔اور ایمان کھل کر مسکراٸی۔۔۔۔۔اور محراب اسی کو دیکھتا گیا۔۔
ویسے آپ نے یہ سب کیوں کیا آپ مجھ سے فیس ٹو فیس بھی بات کر سکتے تھے۔۔پھر یہ سب کیوں ؟؟
مجھے تم سے ڈر لگتا تھا تھپر مار دیتی تو۔۔۔ایمان اسکی بات پر پھر ہنسنے لگی۔۔۔میں کیوں مارتی آپکو وہ محراب کے سر پر ہلکے سے ہاتھ مارتی کہنے لگی۔۔۔
ایم سوری بھول جاٸیں میں بھی بھول گی ہوں سب کچھ۔۔۔چلیں اب مسکراٸیں اور مجھے آٸسکریم کھلانے لے جاٸیں۔۔
اوکے باس چلو اور وہ دونوں خوشی خوشی باہر نکل گے۔۔۔
************
کوٸی ہوشیاری نہیں جانے دو ورنہ مار دونگا میں ہٹو بیچ سے ہٹو وہ بازوں میں نور کو پکڑ کے آگے بڑھنے لگا۔۔وہ سب کو ساٸڈ پر کرتا ہوا تہہ خانے سے باہر نکلا۔۔۔
وہ آگے بڑھ رہا تھا۔۔شہریار کچھ نہیں کر پارہا تھا کیونکہ نور اسکے ہاتھ میں تھی۔۔۔
جیسے ہی جہانگیر شاہ آگے بڑھا اسکی پیٹھ شہریار کی طرف تھی۔۔۔شہریار نے روڈ اٹھاٸی جو تہہ خانے کے باہر پری ہوٸی تھی۔۔۔اور نشانہ بنا کر جہانگیر کی طرف پھینکی۔۔۔وہ لڑکھڑا کر منہ کے بل گڑا۔۔۔ نور بھاگ کر شہریار کی طرف بڑھی۔۔۔
بند کرو اسکو پھر سے۔۔۔بہت ہی کوٸی بد قسمت انسان ہے تو جہانگیر شاہ۔۔تیری موت سب کے لیے عبرت کا نشان ہوگی۔وہ کہہ کر نور کے ساتھ نکل گیا۔۔۔
اس رات نور بہت روٸی اپنے رب کے سامنے اسے افسوس تھا کے اسنے کیوں شہریار سے ضد کی اگر وہ شخص پھر بھاگ جاتا تو وہ خود کو کیسے معاف کرتی۔۔۔
صبح فجر کی اذان ہو رہی تھی آج قصور کی صبح الگ تھی آج ایک ظالم بادشاہ کو سب کے سامنے موت دی جانے والی تھی۔۔سب نماز ادا کر کے میدان میں جمع تھے سب اپنے ساتھ پتھر جمع کر کے لاۓ تھے۔۔۔
ادارے سے وہ میدان چند قدم کے فاصلے پر تھا۔۔۔نور چھت پر کھڑی وہاں جمع ہوتی بھیڑ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔پولیس کی گاڑی آگی تھی۔۔۔وہ اپنی آنکھ سے آنسو صاف کرتی آسمان کو دیکھنے لگی ”یا اللہ مجھے اتنا بہادر بنا میں انصاف کے تقاضوں کو پوراکر سکوں“۔۔۔
چلو نور آپی سب میدان میں جارہے ہیں۔۔ڈاکٹر طاٸرہ بھی آٸی ہیں وہاں دوسرے بچوں کے ساتھ آپ کو بلا رہی ہیں۔۔۔اسی ادارے کی ایک لڑکی نور کو بلانے آٸی۔۔۔
ہممم چلو۔۔۔نور میدان میں پہنچی
جب لوگوں کو پتا چلا جہانگیر شاہ کو پھانسی پر کھلے میدان میں چڑھایا جاۓ گا تو بہت لوگ جمع ہوۓ اسکی عبرت ناک موت دیکھنے کے لیے۔۔۔
سب جمع ہو گے تھے جہاگیر شاہ کرین سے اوپر لٹکا ہوا تھا اور اس گاڑی کے آس پاس باونڈری بنا دی گی تھی۔۔۔سیٹی بجی اور سب نے پتھر مارنا شروع کرے جیسے شیطان کو کنکاریاں مارتےہیں ویسے اس ظالم بادشاہ کو بھی تب تک پتھر مارتے رہےجب تک اسکی روح نہیں نکل گی۔۔۔آج ان سب بچوں نے اپنے اندر کی آگ کو بھجایا جو جہانگیر شاہ نے لگاٸی تھی۔۔۔
شہریار نے اپنے سارے کام ختم کیے اور عفان کو فون کیا۔۔۔۔آج سلطانہ ہاوس کے سب ممبر عفان کے گھر آۓ تھے عفاف کی طبیعت پوچھنے اور آج یہی کھانے کا پروگرام تھا۔۔۔
ہیام عفاف کے کمرے میں اس سے ملنے گی تو وہ تیار ہورہی تھی۔۔۔آپی آپ یہ ہک کھولیں نا میں واش روم سے آتی ہوں۔۔۔
ہیام عفاف کے لوکٹ کا ہک کھولنے کی کوشش کر رہی تھی کہ کسی کا فون بجا۔۔جو ڈریسر پر ہی پڑا تھا۔۔۔
وہ نمبر ان نون تھا۔۔۔ہیام سوچ میں پر گی اٹھاۓ یا نہیں۔۔۔
نہیں کسی اور کا موباٸل ہے وہ پھر اپنے کام میں مصروف ہوگی۔۔۔
ارے کال کیوں نہیں اٹھا رہا ہے عفان۔۔ شہریار پھر سے کال ملانے لگا۔۔۔
فون پھر بجا ہیام ادھر ادھر دیکھنے لگی جب کوٸی نظر نا آیا تو یہ سوچ کر فون اٹھالیا کے شاٸد کوٸی ضروری کام ہو۔۔۔
ہیام کے بولنے سے پہلے شہریار نے بولنا شروع کیا۔۔۔ کب سے کال کر رہا ہوں کال کیوں نہیں اٹھا رہا ہے نمبر بھول گیا میرا ویسے میں جانتا ہوں تو ناراض ہے مجھ سے لیکن تیرا کام پر گیا ہے یار ہیام کے کمرے میں لگاۓ ہوۓ کیمرے ہل گے ہیں شاٸد صفاٸی کرتے وقت تو کچھ نظر ہی نہیں آتا اور میڈم نے میرے کمرے میں جانا تو چھوڑ دیا ہے۔۔تو جاکر صحیح کردے جب تک میں نہیں آتا۔۔اچھا اور بتا سب کیسے ہیں گھر میں۔۔۔بولنا اب
ہیام تو اسکی آواز میں کھو سی گی تھی۔۔۔کتنے ماہ بعد اسکی آواز سنی تھی۔۔۔ عفان آگیا
ہیام سب ٹھیک ہے۔۔۔کس کی کال ہے ہیام۔۔۔وہ ہیام کو بلینک فیس میں دیکھ کر گھبرا گیا۔۔ہیام نے فون اسے پکرایا اور چلی گی وہاں سے۔۔۔
شہریار سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔ہیلو کون بات کر رہا ہے شہریار نے ادارے کے فون سے ملاٸی تھی کال۔۔۔
میں شہریار ۔۔۔کیسا ہے یار کہاں تھا سب نمبر بند کر کے کس بیل میں چھپ گیا ہے۔۔۔کب آرہا ہے میں نے نیوز دیکھی تھی اللہ کا شکر ہے ہم نےاپنا مشن پورا کیا مجھے خوشی ہے۔۔۔
ہہہممم یہ تیرا فون ہیام کے پاس کیا کر رہا تھا۔۔عفان کا سوال دیا بنا اسنے سوال کیا۔
یار شاٸد کال آٸی اور اس نے اٹھا لیا میں کمرے میں نہیں تھا۔۔۔
یہ بنا پوچھے فون اٹھانے والی عادت اب تک نہیں گی اسکی مجھے لگا عقل آگی ہوگی۔۔۔اب آٶں گا تو اچھے سے سدھاروں گا۔۔۔شہریار سوچتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔
کب آرہا ہے۔۔۔عفان نے سوال کیا۔۔۔بس کچھ کام باقی ہے جلد آٶ گا۔۔۔ چل اللہ حافظ خیال رکھنا۔۔۔
**********
ہیام گھر آٸی تو اسے پھر سب یاد آیا وہ کتنا بھولنے کی کوشش کررہی تھی ۔۔۔مگر وہ انسان دل و دماغ پر قبضہ کرکے بیٹھ گیا۔۔۔
سب سے باتیں کر رہا ہے اور سب مجھ سے جھوٹ بول رہے ہیں کے ہمیں پتا ہی نہیں ہے کہاں گیا ہے۔۔مجھ پر چیک ان رکھ رہا ہے کہاں چھپاٸیں ہیں کیمرے۔۔۔وہ کمرے میں ڈھونڈنے لگی۔۔
۔ اب میں بتاٶں گی اس شہریار حسن کو خود کو بہت بڑی کوٸی توب چیز سمجھتا ہے نا۔۔۔میں بھی ہیام محمود ہوں وہ کیمرے کو ہاتھ سے اوپر اچھالتی ہوٸی کہنے لگی۔۔۔
بہت شوق تھا نا تھمیں مجھے چھوڑنے کا اب تم بھی تڑپو مجھ پر نظریں رکھی ہوٸی تھی اور میں سمجھتی تھی کے تمھیں میری کوٸی خبر نہیں صحیح کہتے تھے تم
” قلبِ آشنا کے مکین ہو تم“ تمھارے بنا ہیام محمود کچھ نہیں مگر سزا تو ملے گی وہ خود سے باتیں کرتے ہوۓ کال ملانے لگی۔۔۔
ہاں ہیام۔۔کوٸی کام تھا عفان نے کال اٹھاتے ہوۓ پوچھا۔۔
ہاں مجھے یہ کہنا ہے کے اپنے دوست کو کہیں ہیام کو طلاق کے پیپرز پر ساٸن کروانے ہیں آگر آکر کرناچاہتاہے تو جلدی آۓ ورنہ میں کورٹ میں ملوں گی ویسے ہی بہت ٹاٸم ویسٹ کیا ہے اسکے پیچھے اب شادی کرنا چاہتی ہوں۔۔۔پلیز میرا یہ پیغام پہنچا دیں۔۔ویسے بھی ہر انفرمیشن دیتے ہیں آپ اسکو۔۔۔اسنے کہہ کر فون کاٹ دیا۔۔
اب دیکھتی ہوں میں شہریار حسن آتے ہیں یا نہیں۔۔۔چلو ہیام لاسٹ پیپر ہے۔۔تیاری کرو
************
ہیام پیپر دے کر گھر جارہی تھی کے راستے میں گاڑی آٸی اور کلوروفارم سنگا کر لے گی اسے۔۔۔
یہ ایک فرنش گھر تھا جہاں بیڈ پر ہیام بے پرواہ سو رہی تھی۔۔۔ ہیام کی آنکھ تھوڑی دیر میں کھل گی تو وہ آنکھیں مسلتے ہوۓ اٹھی اور سامنے شہریار کو دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نا آیا۔۔۔
اسنے خود کو کاٹ کر یقین دلایا کہ وہ دشمن جان سچ میں نظروں کے سامنے تھا ہیام دل میں خوش تھی مگر چہرے پر ناراضگی اور غصہ سجھاۓ کہنے لگی۔۔۔
تم ہے شرم نہیں آتی ایک لڑکی کو اغواہ کرتے ہوۓ۔۔۔ہیام غصے سے بیڈ سے اٹھی اور آس پاس کچھ نظر نہ آیا تو تکیہ اٹھا کر شہریارکی طرف پھینکا۔۔۔جسے اسنے بڑی مہارت کے ساتھ کیچ کیا۔۔
نوازش ان القاب کے لیے پہلے بھی کسی اچھے ناموں سے یاد نہیں کیا تم نے ہٹلر ، کھڑوس، ظالم ،دہشتگرد ،قاتل اور اب کڈنیپر۔۔۔۔کہتے ہوۓ اس کا لہجہ ذرا سخت ہوا۔۔وہ ہیام کو ہی دیکھ رہا تھا۔۔
میرا مطلب یہ نہیں تھا۔۔۔۔ہیام نظریں چرا کر بولی اسے اب احساس ہوا کچھ زیادہ بول گی پھر سے۔۔
کیوں تم نے کوٸی نٸی ڈیکشنری ایجاد کی ہے جس میں اپنی مرضی کے معنی لکھیں ہیں۔۔۔سب کچھ کہہ کر کہتی ہو میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔شہریار ڈریسر پر کھڑا ہوکر کہنے لگا۔۔
تم لڑنے کے لیے لاۓ ہو اور کس کا گھرہے یہ۔۔ہیام چلتی ہوٸی اسکے سامنے آکر کھڑی ہوگی۔۔
لڑ تم رہی ہو میں تو۔۔شہریار آگے کچھ کہتا اس سے پہلے ہی نور کھانستے ہوۓ آگی۔۔۔ اسکے ایک ہاتھ میں سلیش تھا جب سے آٸی تھی اسلام آباد چار سلیش پی گی تھی اسے کچھ زیادہ اچھا لگ گیا تھا۔۔
یہ کون ہے۔۔۔ہیام نے شہریار کو دیکھتے ہوۓ پوچھا۔۔۔
میں خود بتاتی ہوں شہری سے کیا پوچھ رہی ہیں آپ۔۔۔پیاٸیں گی نور نے سلیش افور کیا ہیام کو۔۔۔تو شہریار نے کہا۔۔۔۔
اسے پسند نہیں ہے یہ۔۔۔ہیں نا۔۔۔ نور کو بتاتے ہوۓ شہریار ہیام سے کنفورم کررہا تھا۔۔۔ ہیام مسکرانے لگی
اچھا بس دیکھنا ختم ہوا تو میں اپناتعارف کرواوں۔۔۔ میں نور ہوں قصور میں رہتی ہوں اور وہی شہری سے ملی تھی۔۔۔بس چوبس گھنٹے آپکی ہی باتیں کرتا تھا تو سوچا اس پرنسس کو دیکھنا تو چاہیے۔۔اور اپ تو کیمرے سے زیادہ اچھی ہو سوفٹ سوفٹ گال آپ کے۔۔۔صحیح پاگل ہے شہری۔۔نور بولے جارہی تھی۔۔
نور اب اتنا بول رہی ہو آپ اور کہتی ہو میں تو بولتی نہیں۔۔۔اچھا میں تو چپ ہوجاتی ہوں مگر پہلے آپ دونوں دوستی کرو جلدی سے پھر ڈاکٹر طاٸرہ آتی ہونگی۔۔۔
ویسے آپی ہیام میں آپ کو آپی کہوں گی کیونکہ میں شہری کو بھاٸی نہیں کہتی اور بھابھی ایسا لگتا ہے کسی تیس چالیس سال کی آنٹی کو مخاطب کیا ہو۔۔اچھا تو میں کیا کہہ رہی تھی بھول گی اتنی باتیں کرواتے ہونا آپ لوگ۔۔۔۔
ہاں تو یاد آیا سلیش میں ہماری پسند نہیں ملتی مگر شہری تو ہم دونوں کو پسند ہے تو اب میں آپکی جگہ ہوتی تو بول دیتی اللہ پاک بھی خوش ہوجاتے۔۔۔وہ مسکراتے ہوۓ کہنے لگی
میں کیوں کروں نور اسے بولو یا گیا تھا چھوڑ کر مجھے۔۔۔ہیام نور کو اپنےساٸد لانے کے لیے کہہ رہی تھی۔۔
اور جو تم نے دو دن پہلے طلاق کی بات کی عفان سے کسی اور سے شادی کرنی ہے تمھیں بہت شوق ہورہا ہے۔۔شہریار بھی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔۔
پہلے پیپرز تم نے بنواۓ تھے۔۔ہیام بھی شروع ہوگی نور ان دونوں کو لڑتا دیکھ کر سر پکر کر بیٹھ گی۔۔
بس کریں آپ دونوں یا اللہ کیا بنے گا ان دونوں کا دوستی کریں شہری ورنہ میں جھاڑو سے ماروں گی۔۔۔نور نے دھمکی دی اور ہیام ہنسنے لگی۔۔
آپ کی بھی پیٹاٸی کروں گی چلیں سوری بولیں۔۔۔نور ہیام کو گھور کر بولی۔۔
یہ چھوٹی پوریا تو بہت تیز ہے ہیام شہریار کے کان میں سرگوشی کرتے ہوۓ کہنے لگی اور دونوں مسکرا دیٸے۔۔۔
اچھے لگ رہے ہو مگر کسی الگ انداز میں مناو چلو بیت بازی کرو آپی ہیام آپ زرا کچھ اپنی ناراضگی میں ارشاد کیجے شہری اسکا جواب دیں گے
اچھا جی چلو دیکھتے اچھے سے منا پاتےہیں یا نہیں ہیام نے مصرعے پڑھنے شروع کیے
رات کی چھائی سیاہی میں
کچھ زخم ہرے کیا ہوتے ھیں
چاند کی پھیلی روشنی میں
کیا دل کے اندھرے بھرتے ھیں
ہیام شہریار کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔شہریار اسکے شکوے کےانداز پر مسکرایا
ہاں جب ایسا ساتھی ملتا ہے
جو روح کو روشن کرتا ہے
ویران دل کے گلشن کو
چاہت کا ثمر پھر ملتا ہے
دکھوں کا بادل جب جھٹتا ہے
سحرِ خوشی جب ہی ابھڑتی ہے
شہریار اسے دیکھتے ہوۓ اپنے جواب میں ہر بات واضح کر گیا تھا اب کسی اور اعتراف کی ضرورت ہی نہیں تھی ہیام مسکرا دی۔۔
************
چند ماہ بعد
سلطانہ ہاوس میں گھما گھمی تھی۔۔آج عفان کےبچوں کا عقیقہ تھا سب تیاریوں میں مصروف تھے۔۔عفان کے گھر ٹوینس ہوۓ تھے ایک بیٹی ایک بیٹا عفان اور عفاف کی فیملی مکمل ہوگی تھی۔۔۔
جب شہریار واپس آیا تو گھر میں سب ناراض تھے مگر اسنے سب کو سمجھا کر اپنی فیلڈ کا بتا کر منالیا تھا۔۔ چند دنوں بعد ہی ان دونوں کی رخصتی ہوگی تھی نور بھی سب سے ملی اور دونوں کے ولیمے کے بعد قصور واپس آگی۔۔۔
نور اب قصور کے الگ الگ گاٶں میں جاکر ڈاکٹر طاٸرہ کے ساتھ بچوں کو سیلف ڈیفنس اور اپنی مدد اپ کی تعلیم دے رہی تھی وہ اپنے اور ان بچوں کے ساتھ خوش تھی سکون تھا اسکی زندگی میں جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا چاہے وہ دنیا کا امیر انسان ہی کیوں نا ہو سکون نہیں تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔
شہریار اتنا ٹاٸم لڑکیاں بھی نہیں لگاتی جتنا تم لگاتے ہو۔۔۔ہیام نے بال اسٹریٹ کیے ہوۓ تھے۔۔گرے کلر کے فل ہیوی ڈریںس میں ہلکے سے میک اپ نے اسکے حسن کو اور ابھار دیا تھا۔۔شہریار اسکے اس ہیوی ڈریس سے جان نہیں چھڑوا سکا تھا باقی ہیام اسکی جاب کو سمجھ گی تھی تو وہ گھر لیٹ آنے پر شکوے نہیں کرتی تھی بلکے شہریار کے لیے جاگتی تھی شہریار اسکی پڑھاٸی میں بھی مدد کرکے دیتا تھا ہیام نے شادی کے بعد بھی پڑھاٸی کو جاری رکھا۔۔۔
ہاں بس ہوگیا میں تیار دونوں ایک دوسرے کو مرر میں دیکھ کر مسکراۓ۔۔۔ان دونوں کی جوڑی سچ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔
عفان ایک ہاتھ میں بیٹی کو لے کر کھڑا تھا تو عفاف دوسرے کو تیار کر رہی تھی۔۔۔عفان بہت خوش تھا اسکے گھر اللہ کی رحمت اور نعمت دونوں آٸی تھی۔۔۔۔اور عفاف عفان کو دیکھ کر خوش ہو جاتی تھی۔۔۔
چلیں دادو جلدی کریں فیملی تصویر لینی ہے دانیال سلطانہ بیگم کا ہاتھ پکر کر لان میں لے آیا۔۔سب باہر لان میں آگۓ تھے اور ہنستے کھیلتے ہوۓ سب نے تصویر بناٸی۔۔۔عفان نے عفاف کے کان میں تھینک یو کہا عفان کے ہاتھ میں بیٹی اور عفاف کے ہاتھ میں بیٹا تھا دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکراٸے اور کیمرے نے ان حسین لمحوں کو اپنے پاس محفوظ کر لیا۔۔
سب بولو چیزززززززز۔۔دانیال نے پوز بتایا اور کیمرا مین نے اک خوبصورت تصویر بناٸی۔۔۔
ختم شدہ