تمھاری فیملی بہت اچھی ہے شہری انھیں دیکھ کر مجھے۔۔۔وہ آنکھ میں آیا آنسو صاف کرتا۔۔پھر سے مسکرا کر کہنے لگا۔۔
ہاں بھٸ پہلی بار آیا ہوں مارگلہ کی سیر نھیں کرواٶ گے۔۔اور دونوں نے مل کر قہقہ مارا۔۔۔
جی ضرور عفان صاحب اور کوٸی حکم۔۔۔وہ دونوں شہری کے روم میں بیٹھے گپے مار رہے تھے جب دہرم سے دروازہ کھلا اور عفاف کمرے میں آٸی۔۔۔۔
عفاف کو یوں بنا نوک کیا آتا دیکھ شہری نے اسے گھوری سے نوازہ جب کے عفان بول پڑا ۔۔۔۔۔۔
کسی کے کمرے میں جاٸیں تو نوک کرنا بیسیک اتھیکس میں آتا ہے۔۔
عفان کے اس ٹونٹ پر عفاف کو تو جیسے آگ لگ۔۔۔یہ میرے بھاٸی کا کمرہ ہے آپ کو اس سے مطلب وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑنے والے انداز میں بولی۔۔۔
بلکل بھاٸی کا کمرہ ہے وہ بھی جوان بھاٸی جس کے ساتھ جوان جوان دوست بھی ٹہرا ہے۔۔۔۔ادب و لحاظ بھی کوٸی چیز ہوتا۔۔
آپکو کیا لگتا ہے صرف آپ عورتوں کی عزت ہوتی ہے ہم مردوں کی نہیں۔۔۔
ویسے میں نے تو سنا تھا کہ اسلام آباد والے بہت تمیز دار ہوتے ہیں آپکو دیکھ کر تو بلکل نہیں لگتا۔۔۔
عفاف بچے آپ آٸندہ خیال رکھنا۔۔اور عفان بھاٸی کی باتوں کا برا نہیں مننا۔۔۔بھاٸی عفاف کا دل خراب ہوا بھاٸی سوچ کر بھی۔۔۔ عفاف کیا ہوا کہاں کھو گی۔۔۔ کسی کام سے آٸی تھی نہ۔۔۔۔۔
ہاں بھاٸی وہ اماں کہہ رہی تھی کل کتنے بجے نکلنا ہے۔۔۔عفاف کی بات کاٹتے ہوۓ عفان بیچ میں بولا۔مجھے جہاں تک یاد ہے شہری نے ٹاٸم سب کو ساتھ بتایا تھا۔۔۔ پھر یہاں آنے کی ضہمت آپ کو نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔۔ایمان آپی تو آپ کے ساتھ ہوتی ہے ان سے پوچھ لیتی۔۔۔
ایم سوری غلطی ہوگی یہاں آکر کب سے باتیں ہی سناۓ جارہے ہیں۔۔۔۔۔اور ہاں میں عورت نہیں لڑکی ہوں وہ پاٶں پٹکتی بربراتی ہوٸی باہر نکل گی۔۔۔اور اپنے اس کمرے میں جانے پر خود کو کوستی رہی۔۔۔
گی تو وہ بھی دیدار یار کے لیے تھی۔۔۔۔۔ مگر مانتی کیوں۔۔۔آپ بھی بھول جاۓ عفان صاحب آپ نے عفاف محمود کے دل پر وار کیا ہے۔۔جنگ تو چھڑ چکی ہے۔۔
یا تو جیتیں گے یا مریں گے کیونکہ ہار کا اوپشن عفاف نے اپنی ڈکشنری سے خود مٹایا ہے۔۔۔
عفان بھاٸی۔۔۔چچچہیییہہی ۔۔۔ایسی فضول باتیں نہیں سوچتے کیا شہری بھاٸی آپ بھی نہ اتنے ہینڈسم بندے کو کوٸی بھاٸی بناتا ہے۔۔
*********
ایمان جیسے ہی کمرے میں گی وہی ان نون نمبر سے کال آنے لگی۔۔۔۔اور وہ ڈرتے ڈرتے کال اٹھانے لگی۔۔
گھومنے پھرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔۔۔۔مقابل شخص بولا۔
آپ کون ہیں اور آپکو کسے پتہ ہے۔۔۔۔میں تمھاری پل پل کی خبر رکھتا ہوں۔۔۔
ایمان بلکل سن ہوگی تھی۔۔۔تم کل بلیک ڈریس پہنو گی۔۔اور اگر نہیں پہنا تو میں ہاہاہاہا قہقہ مار کر فون بند ہوگیا تھااور ایمان وہی بیڈ پر سر ديے لیٹ گی۔۔۔۔
*********
صبح ہوتے ہی سب لڑکیاں تیار ہوکر باہر آٸی۔۔ایمان نے سر پر سلیقے سے اسکارف باندھا تھا اور ساتھ بڑی سی چادر سے خود کو کور کرلیا تھا۔۔۔گھر میں بھی ایمان سر پر اسکارف باندھتی تھی۔۔۔ عفاف نے پینٹ پر کرتی پہن کر اچھے سے دوپٹہ اوڑھ لیا۔۔۔
ہیام جیسے ہی باہر آٸی اسنے پینٹ پر شاٹ شرٹ پنک کلر کی اور اوپر مفلر کی طرح دوپٹہ گلے میں ڈالا تھا۔۔۔اور یہی وجہ تھی کے وہ سب کی نظروں میں آٸی۔۔
ہیام بیٹا ہم نے آپ کو کبھی نہیں روکا مگر ایسا لباس پہننا اچھی بات نہیں گھر میں تو ٹھیک ہے مگر باہر یہ سب پہننے کی اجازت ہم آپ کو نہیں دینگے۔۔سلطانہ بیگم بہت پیار سے اپنی لاڈلی کو سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔۔
دادو ہم پکنک پر جا رہے ہیں مجلس میں تو نہیں جو اس ایمان جیسا تیار ہوں۔۔۔
ہیام زبان سنبھال کر بات کرو۔۔۔بڑی ہیں تم سے۔۔شہری سے برداشت نہ ہوا تو بول پڑا۔۔۔سادیہ بیگم اور ندرت بیگم نے کھانے کا سارا سامان رکھ دیا تھا۔۔
ہیام جاو اور چادر لے کر آٶ۔۔۔گھر میں مہمان آیا ہے اور تم لوگ دیکھو لڑ رہے ہو اسکے سامنے۔۔۔ندرت بیگم بیٹی کو آنکھ دیکھاتی بولنے لگی۔۔۔
آج گھومنے صرف ینگسٹر جارہے تھے۔۔۔
********
۔یہ گھر ٢٠٠٠ اسکوٸر فٹ پر بنا تھا یہ گھر سلطانہ ہاوس کے نام سے جانا جاتا تھا۔۔۔سلطانہ بیگم جنھوں نے اپنے شوہر شاہ جہاں کے انتقال کے بعد اس گھر کو ساتھ لے کر چلی تاکہ بہن بھاٸیوں میں لڑاٸیاں نہ ہوں۔۔۔
انھوں نے اپنی زندگی میں ہی سب کو حصے دے دیے تھے جس سے اس گھر میں چار پورشن بن گیے تھے۔مگر کھانا سب ساتھ کھاتے تھے یونہی سمجھے کے بس سونے کے لیے اپنے پورشن میں جاتے تھے۔۔سلطانہ بیگم کی چار اولادیں تھیں دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔۔
بڑے بیٹے حسن صاحب جن کی بیوی سادیہ تھی جن کے دو بیٹے تھے۔۔شہریار اور دانیال ۔۔۔۔سادیہ بہت اچھی سگھڑ اور سلیقہ مند عورت تھی۔۔۔
چھوٹے بیٹے محمود جن کی بیوی ندرت بیگم تھی اور ان کی دو صاحب ذادیاں تھی عفاف اور ہیام دونوں کو گھر کے کام میں پکانے میں اور کورس کی کتابیں پڑھنے کا کوٸی شوق نہیں تھا۔۔۔ہیام بڑی بیٹی تھی جس نے مشکل سے ایس ایس سی اور ایچ ایس سی کو سپلی دے دے کر پاس کیا اور شہریار کی مدد سے یونی میں اڈمیشن ہوا وہ بھی گلز اس پر بھی اسے کھاڑ چڑھی ہوٸی تھی۔۔۔چھوٹی میڈم ناولز میں گھسی رہتی اور یہی خیال کرتی کہ شہزادہ آۓ گا اور اسے لے جاۓ گا۔۔۔بلکل ندرت بیگم پر گی تھیں آج بھی ندرت بیگم کے ہاتھ میں ذاٸقہ نہیں تھا۔۔۔
بڑی بیٹی کلثوم بی بی جو اپنے شوہر کی وفات کے بعد ماں کے گھر آگی تھی اپنے بیٹے محراب کے ساتھ۔۔بیٹا تو اچھا تھا مگر کلثوم بی بی کو اپنی بھانجی ایمان سے جانے کس بات کی نفرت تھی نہ اسے دیکھتی تھی نہ ہی اسکے ہاتھ کی بنی کوٸی چیز کھاتی تھی۔۔۔۔
سب سے چھوٹی بیٹی فاطمہ جو اپنے باپ کی جان تھی جنھوں نے چھوٹی عمر میں اپنے باپ کو بہت بڑا دکھ دیا جس کی وہ تاب نہ لا سکے اور سب کو اکیلا چھوڑ کر چلیں گے۔۔۔ کراچی میں کسی کی شادی اڈینڈ کرنے آۓ تھے ایک دن سب گھومنے گیے تھے بیچ پر وہاں ایمان پانی میں گی تو ڈوبنے لگی۔۔ فاطمہ اسے بچانے کے لی آگیے بڑھی اور اسے دور کیا پانی سے خود کا پاٶں پھسل گیا۔۔جنید صاحب جو وہاں کھیل رہے تھے بیٹی اور بیوی کو ڈوبتا دیکھ انھیں بچانے بھاگے۔۔۔مگر قسمت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔۔۔۔لہر آٸی اور دونوں کو بہا لے گی۔۔۔
زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے جس کا جانا لکھا ہے وہ کچھ بھی کر لے فاٸدہ نہیں ہے۔۔۔موت بر حق ہے۔
اور اس دن سلطانہ ہاوس میں قیامت ٹوٹی تھی فاطمہ اور جنید اللہ کو پیارے ہوگے تھے اور تیرا سال کی ایمان صرف آنسو بہا رہی تھی۔۔۔
تجھے تو سب سے پہلے مر جانا چاہیے تھا۔۔۔منہوس ہے پہلے ماں باپ کو رسوا کیا اور پھر اپنے ماں باپ کو کھا گی اور یہ الفاظ بولنے والا کوٸی اور نہیں تھا اسکی سگی خالہ کلثوم تھی۔۔۔وہ بات جو اس گھر میں کبھی نہ ہوٸی تھی آج اسنے اپنی بہن کے جنازے پر کہہ دی تھی۔۔۔
بس۔۔۔۔کوٸی چیخھا تھا وہ گیارہ سال کا بچا اپنی بہن کے آگے محافظ بن کر کھڑاہو گیا تھا خبردار اگر میری بہن کو کسی نے کچھ بولاہے۔۔۔اور شہریار ایمان کا ہاتھ پکر کر لے گیا۔۔۔
آپی آپ مت رویا گا۔۔۔۔میں ہوں نہ بس بیٹی کی جداٸی برداشت نہ ہوٸی تو شاہ جہاں صاحب بھی گزر گے۔۔۔
**********
ہیام چینج کرکے آٶ پانچ منٹ ہے کسی کے لیے روکوں گا نہیں میں جسے آنا ہے پانچ منٹ میں نیچے آۓ۔شہری کہتا باہر نکل گیا۔۔
کیا مصیبت ہے یہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہے ہمیشہ اسے مجھ سے مسلہ ہوتا۔۔۔ہیام غصے میں بولنے لگی۔۔۔مجھے کہی نہیں جانا ہمیشہ یہ ہٹلر یہی کرتا ہے۔۔۔وہ روتے ہوۓ اوپر جانے لگی ایمان اسکے پیچھے بھاگی۔۔۔
کیسے گی ہے وہ منہوس اسکے پیچھے جیسے بہت پیار ہو فساد کی جڑ ہے۔۔۔۔
بس کردو کلثوم اپنی سگی بھنجی کے لیے ایسے الفاظ نکالتی اچھی نہیں لگتی تم اب آٸندہ میری بچی پر انگلی نہیں اٹھانا ورنہ بھول جاٶں گی کے تم میری بیٹی ہو۔۔۔
چلی جا ایمان مجھے بات نہیں کرنی کسی سے۔۔۔۔اسےکہہ اپنی یہ پابندیاں کسی اور پر لگاٸیں ہیام محمود پر نہیں چلے گا اس کا روعب نہیں چلے گا۔۔۔
اچھا سن میں شہری کو بول دونگی وہ کچھ نہیں بولے گا تجھے۔۔۔۔نہیں میں اب نہیں آٶں گی کیا سمجھتا ہے وہ خود کو خود لندن میں لڑکیوں کے ساتھ گھومتا ہوگا۔۔۔۔اور یہاں ہم پر اتنی پابندیاں لگاتا ہے۔۔۔نہیں نہیں ہم پر بھی نہیں صرف مجھ پر۔۔۔۔وہ اپنی آنکھ میں آیا آنسو صاف کرتی کہنے لگی۔۔
وہ ہمیشہ یہی کرتا ہے سب کے سامنے مجھے ڈانٹ دیتا ہے۔۔اور صرف مجھے عفاف تو اسکی سب سے لاڈلی بہن ہے تم اسکی آپی بنی ہوٸی ہو تمھیں تو نہ وہ کچھ کہتا ہے نہ کسی کو کہنے دیتا ہے صرف مجھ پر ہی کیوں۔۔۔بیوی ہوں نا اسکی اس لیےجب چاہتا ہے بےعزت کردیتا ہے۔۔
نہیں ہیام شہری بلکل ایسا نہیں ہے تم کوشش کرو اسکے دل میں جگہ بنانے کی اسکا دل بہت اچھا ہے تمھیں چینج نہیں کرنا نہیں کرو مگر چادر اوڑھ لو۔۔۔
میری جان میرا رب برابری کے رشتے کو پسند کرتا ہے اسے مقابلے پسند نہیں۔۔رشتوں میں تو بلکل نہیں۔۔۔تم کچھ اسکی مانو اور تھوڑی اپنی منواٶ۔۔۔ نیچے سے ہورن بجنے لگے دس منٹ لگے ایمان کو ہیام کو سمجھانے میں۔۔۔۔اور وہ دونوں تیار ہوکر نیچے اتری اب ہیام نے ایمان کی بڑی چادر اوڑھ لی تھی دادی اور اماں سے مل کر باہر گاڑی کے پاس آٸی۔۔۔
دانیال اور عفاف پہلے ہی بیٹھ چکے تھے.....ایمان اسے آگے کا دروازہ کھول کر بیٹھنے کے لیے کہا۔۔ ہیام بیٹھو وہ اسے آنکھیں دیکھانے لگی اور ایمان پیچھے جاکر بیٹھ گی۔۔۔
اور سب مارگلہ کے لیے روانہ ہوگے۔۔۔عفان اور محراب اپنی باتوں میں لگے ہوۓ تھے پیچھے دانیال اپنی وڈیوز بنارہا تھا تو عفاف کن آنکھیوں سے عفان کو دیکھتی گانے سننے لگی۔۔۔
اور ایمان کھڑکی سے باہر دیکھتی بس یہی سوچ رہی تھی۔۔وہ کون ہے کیا چاہتا ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ایمانکو۔۔اس نے بلیک ڈریس بھی نہیں پہنا تھا۔۔۔اور آگے وہ دونوں اپنی لڑاٸی میں مصروف تھے۔۔۔
ہیام کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔۔جب شہریار کو شرارت سوجھی اور اسنے ہیام کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیرنگ گھومایا۔۔۔ ہیام اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے نکالنے لگی مگر شہریار کی گرفت مضبوط تھی۔۔۔ہیام اسےآنکھیں دیکھانے لگی اور وہ منہ چڑھانےلگا۔۔۔
دانیال چلایا۔۔۔آگیا آگیا دیکھا عفان بھاٸی ہمارا پاکستان کتنا پیارا ہے۔۔۔
اس میں تو کوٸی شک نہیں۔۔۔ہمارا پاکستان جنت ہے۔۔۔اور اس جنت میں شیطان بھی بستے ہیں۔۔۔ایمان اور عفان نے حیرت سے شہری کو دیکھا۔۔۔باقی سب بھی متوجہ ہوۓ مگر کسی نے بات پردھیان نہیں دیا۔۔۔ اور اتر کرنظارے کرنے لگے۔۔۔
صبح کے تقریباً آٹھ بج رہے تھے اسلام آباد کا موسم انتہاٸی خوبصورت تھا۔۔ سب اپنے آپ میں مصروف تھے۔۔۔لڑکیاں دانیال کے ساتھ تصاویر بنا رہی تھیں۔۔ اور سب نے آرام آرام سے پہاڑیاں چڑھنا شروع کیں۔۔۔۔ہیام نے اب دوپٹہ اپنے ایک کندھے پر ڈال دیا تھا۔۔۔اور اوپر چڑھنے لگی۔۔کہ پاٶں پھسلتے بچا شہریار نے اسے سہارا دیا۔۔اور وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر اوپر چڑھنے لگی۔۔
سب اپنی باتوں میں مگن تھے ایمان عفاف دانیال ساتھ ہاتھ پکڑتے آگے بڑھ رہے تھے۔۔۔۔عفان اور محراب ساتھ باتیں کرتے جارہے تھے۔۔
سردیوں کے دن تھے۔۔۔برف کٹی پہاڑیوں پر پھیلی ہوٸی تھی۔۔ جس سے چلنا مشکل تھا اسلیے سب ایک دوسرے کا ہاتھ پکر کر چل رہے تھے۔۔۔
عفاف جان بوج کر پھسلی کہ برابر چلتا عفان بچالے گا مگر بد قسمتی وہ برف پر گری او ر جو دو ہاتھ پکر کر چل رہےتھے وہ بھی عفاف کے اوپر ہی گر گے۔۔۔
ہاۓ میں مر گی۔۔۔ایمان تو خود سے کھڑی ہوگی مگر دانیال صاحب جو بارہ سال کی عمر میں پچاس کلو لے کر گھوم رہے تھے معصوم سی سولہ سال کی عفاف جس کا وزن مشکل سے چالیس کلو ہوگا ۔۔۔۔تو بچاری کے جنازے کی بریانی تو پکی۔۔
اٹھ موٹے اٹھ عفاف دانیال کو دھکے دینے لگی۔۔۔عفان نے اگے بڑھ کر دانیال کو اٹھایا۔۔۔تو عفاف گہرا سانس لینے لگی۔۔۔اور عفان آگے بڑھ گیا۔۔اور عفاف کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔۔اور ایمان عفان کو جاتا دیکھ اپنی ہنسی چھپانے لگی۔۔۔
ایمان نےآگے بڑھ کر اسے ہاتھ دیا۔۔۔۔ حد ہے مطلب انسانیت نام کی کوٸی چیز نہیں ہے اور آپی آپ بھی ہنس رہی تھی۔۔
اچھا سوری سوری چلو آگۓ سب نکل گے ہیں۔۔۔
شہری ہیام کا ہاتھ پکڑے اوپر چل رہا تھا۔۔دونوں طرف خاموشی تھی گاڑی سےاترتے ہی ایمان اسے سمجھا چکی تھی ۔۔کہ ہیام کو ڈانٹ سے نہیں پیارسے سمجھاۓ۔۔
شہریار ہیام کے سامنے ہوا اور اسکی چادر کو پورا اسکی کمر پر پھیلا کر شال کی طرح پنہاتا اسکی ناک دبا کر کہنے لگا۔۔
اسطرح زیادہ اچھی لگتی ہو۔۔۔وہ مسکرا کر کہنے لگا اور اس مسکراہٹ پر کون نہیں مرتا وہ تو پھر بھی اسکی بیوی تھی حق رکھتی تھی۔۔۔۔
ہیام۔۔۔شہریار نے پکارہ وہ بنا اسے دیکھے قدرت کے نظارے دیکھتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔۔
مجھے آج سے پہلے یہ جگہ اتنی خوبصورت کبھی نہیں لگی۔۔۔پتا ہے کیوں ہیام اسے ہی دکھے جاری تھی۔۔۔
شہریار خاموش ہوا۔۔۔۔ہیام بول پڑی بولو نہ کیوں اوراسکی اس حرکت پر دونوں ہنس دیا۔۔۔
کیونکہ آج میں تمھارے ساتھ آیا ہوں۔۔۔تم پہلے بھی میرے ساتھ ہی آتے تھے۔۔ہیام بھی کہا پیچھے رہنے والی تھی۔۔۔
اففففف ہیام تم بھی نہ میں کہہ رہا ہو ہم اکیلے نہیں آۓ تھے۔۔اکیلے تو ہم آج بھی نہیں آۓ ہیں۔۔۔دیکھو سب تو ہیں اور وہ بھاگنے لگی۔۔ہیام اور ہیام گٸی برف میں۔۔۔
ہاۓ اللہ جی۔۔۔۔۔ہیام شہریار کو غصے سے دیکھنے۔۔۔اب اٹھاٶ تمھاری وجہ سے گر گی ہوں میں۔۔
تم ایسے اچھی لگتی ہو۔۔۔میں تمھیں گری ہوٸی اچھی لگتی ہوں۔۔۔ارے نہیں یار جب تم غصہ کرتی ہو تو تمھاری ناک پھول جاتی ہے بہت کیوٹ لگتی ہو۔۔۔
شہری۔۔۔ہیام اسے گھورنے لگی۔۔۔اچھا یار آجاٶ وہ ہاتھ دیتا اسے لے کر آگے چلنے لگا۔۔۔۔
میں تجھ کو چاہوں انداز بدل بدل کر
میرا اکلوتا عشق ہے تو
ایمان کا فون بجا تو وہ نظریں چرا کر کہی دور نکلنے لگی اور فون اٹھایا۔۔۔۔
تم نے آج بلیک ڈریس کیوں نہیں پہنا۔۔۔آپ ہوتے کون ہیں مجھ پر یوں روعب جمانے والے۔۔۔
آپکا ہونےوالا شوہر۔۔۔بکواس بند کرے میں آپکی بات سنتی ہوں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو آپ کے دل میں آۓ گا۔ آپ بولیں گے۔۔۔ایمان کو غصہ آیا مگر وہ آرام سے بات کر رہی تھی مگر لہجہ باور کرنے والا تھا۔۔۔
ایمان آپی کس سے بات کر رہی تھی۔۔۔پیچھے سے شہریار کی آواز آٸی۔۔۔اور سامنےوالے نے فون کاٹ دیا۔۔
وہ شہری کوٸی نہیں تھا۔۔شہریار کو اسکی آنکھوں میں ڈر جھوٹ نظر آگیا تھا مگر چھپایا کیوں یہ سمجھ نہیں آیا۔۔۔۔
شہری چلو نہ وہاں دیکھو ہیام اسے اوپر جانے کاکہہ رہی تھی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اوپر لے جانے لگی۔۔۔
آپی میں ابھی آتا ہوں ۔۔۔۔۔ایمان ان دونوں کو ساتھ دیکھتی مسکراتی ہوٸی وہاں سے آگے بڑھی تو دور سے اسے محراب اور دانیال تصاویر لیتے نظر آۓ۔۔۔عفاف اور عفان کہی نظر نہیں آرہے تھے۔۔۔ یا اللہ اب یہ لڑکی پتہ نہیں کیا کرے گی۔۔۔
********