دن گزرتے رہے ایمان کی شادی کی تیاریاں شروع ہوگی تھی۔۔۔ایمان اور محراب کی رضا مندی سے گھر میں ہی نکاح کی تقریب رکھی گی اور ساتھ ہی رخصتی بھی ہونے والی تھی۔۔۔
عفان آپ یہ کیا کر رہے ہیں کب سے مجھے گھر جانا ہے پرسوں نکاح ہے اور کتنی تیاریاں باقی ہے۔۔۔آخر آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں۔۔مجھے بتاٸیں۔۔
کل تم نے میری الماری چھیڑی تھی نا۔۔۔تم نے ہی میری فاٸلز کو گھومایا ہے پتا ہے کتنی امورٹینٹ فاٸلز تھی۔۔ جب سے آٸی ہو زندگی جہنم بنا دی ہے وہ اندر اس پر نا جانے کس بت پر غصہ ہو رہا تھا باہر کھڑی زلیخا آدھے کھلے دروازے میں سے جھانک رہی تھی۔۔۔
آخر ہوا کیا ہے میں نے کچھ نہیں چھیڑا ہے آرام سے بولیں باہر ماسی کام کر رہی ہے۔۔۔آپ آرام سے بتاٸیں ہوا کیا ہے۔۔۔
ہوا کیا ہے۔۔۔۔میں بتاٶ تمھیں عفان عفاف کو بیڈ پر دھکا دیتا ہوا نکل گیا۔۔۔
ہاۓ باجی صاحب جی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔اتنا کوٸی چلاتا ہے اپنی لگاٸی (بیوی ) پر ۔۔۔۔۔میرا مرد کرتا تو میں تو گالیاں دیتی ایک تو اسکے لیے محنت کرو اوپر سے مجھے مار کر تو دیکھاۓ۔۔۔زلیخا بولے جارہی تھی اور عفاف اپنے آنسو روکنے کی پوری کوشش کررہی تھی۔۔۔ عفان نے اسے کٸ بار ڈانٹا تھا مگر اکیلے جو عفاف برداشت کرگی مگر گھر کی ماسی کے سامنے اپنی بے عزتی عفاف کو اندر ہی اندر جلا رہی تھی۔۔۔
وہ بیڈ سے کھڑی ہوٸی۔۔۔تم جاسکتی ہو کل سے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔عفاف نے الماری میں سے چند ہزار کے نوٹ نکالے اور ماسی کی طرف بڑھاتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
اور اپنے فضول مشورے اپنے پاس رکھو۔۔۔میرے شوہر مجھ سے بہت محبت کرتےہیں اور اس بات کی گواہی مجھے تم سے یہ کسی اور سے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔جاٶ یہاں سے عفاف اسکے منہ پر دروازہ بند کرکے کمرے میں بھاگ کر بیڈ پر گر کر رونے لگی۔۔۔
کافی دیر عفاف آنسو بہانے کے بعد کھڑی ہوکر بیگ میں اپنا سارا سامان ڈالنے لگی۔۔۔ بیگ بھر کر عفاف روم سے باہر نکلی تو اسے اس گھر میں گزارے چند لمحے یاد آنے لگے۔۔
آنکھ آنکھ ۔۔۔۔۔کیا ہوا عفاف ۔۔۔عفاف کچن میں کھڑی آٹا گوندنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ اسکے کپڑے ہاتھ منہ سب بتا رہے تھے کے وہ آٹا گوندھ رہی ہے۔۔عفان اسکی آواز سے باہر آیا۔۔پہلے تو اسے دیکھ کر عفان اپنی ہنسی نہیں روک سکا۔۔۔۔
آپ ہنس رہے ہیں یہاں مجھے تکلیف ہورہی ہے۔۔ مدد کریں میری۔۔عفاف غصے میں کہنے لگی
تم اتنی فنی لگ رہی ہو میں اپنی ہنسی کیسے کنٹرول کروں۔۔۔کیا ضرورت ہے جب نہیں آتا تو۔۔۔۔ میں لے تو آتا ہوں روٹیاں۔۔وہ اسکی آنکھ میں پانی کے چھینٹے ڈالتا ہوا کہنے لگا۔۔۔
اففف اتنی جلن ہورہی تھی۔۔۔ عفاف ٹاول سے اپنا منہ خشک کرتی ہوٸی کہنے لگی۔۔۔جاو اب اندر چینج کرو روٹی کے لیے آٹا گوندھ رہی ہو یا جھنڈیا لگانے کے لیے لٸی بنا رہی ہو۔۔۔اتنا پانی۔۔۔عفان آٹا کم لٸی کو دیکھتے ہوۓ کہنے لگا۔۔
عفاف کو یہاں گزارے پل یاد آرہے تھے گو کے وہ اس گھرمیں چند ماہ پہلے آٸی تھی مگر اپنا گھر تواپنا ہوتا ہے اسے عفان کی آخری بات یاد آٸی۔۔۔"جب سے آٸی ہو زندگی جہنم بنا دی ہے"۔۔۔ان الفاظوں نے عفاف کو اس گھر میں اور نہیں رکنے دیا۔۔ وہ اپنا سامان اٹھا کر نکل گی۔۔
***********
سر سیاست کے جو بڑے تھے جنھیں گرفتار کیا گیا تھا۔۔وہ کہتے ہیں ہم جہانگیر شاہ کو لے آٸیں گے مگر ان کا نام نیوز میں نا آۓ۔۔۔ایک ایجنٹ شہریار کے پاس خبر لایا۔۔
کھیلنے آۓ ہیں جو اپنی ڈیمانڈ رکھ رہے ہیں۔۔شہریار چٸیر پر سر ٹکاۓ بیٹھا تھا۔۔۔
سر اچھا طریقہ ہےہم ٹریپ کر سکتے ہیں ان لوگوں کو بس ایک بار جہانگیر شاہ تہہ خانے میں آجاۓ پھر ہم ان سب ملک کے گداروں کو بھی سب کے سامنے لے آٸیں گے ان کے چھوٹے موٹے اڈوں پر چھاپے مار کر پکڑ لیا ہے اور بیرونی ملک میں گۓ کچھ ایجنٹ سے بات ہوٸی تھی وہاں بھی مہم چلاٸی گی ہے کوشش یہی ہے جتنا ہو سکے اس کام کو کم کیا جاۓ اور روکا جاۓ مگر یہ کام ایجنسیوں کا نہیں ہے عام عوام کو بھی احتیاط کرنی چاہیے۔۔۔
انھیں اپنے بچوں کو صحیح تربیت سیلف ڈیفنس کرنا لازمی سیکھانا چاہیے۔۔۔ اپنے بچوں کو اتنا کونفیڈینس ضرور دینا چاہیے کے خود پر اٹھنے والی نظر کو پہچان سکے اور اگر کوٸی خطرہ ہوتو اس سے لڑ سکے۔۔۔ماں باپ کو اپنے بچوں کی باتوں پر دھیان دینا چاہیے ان کی ایکٹیوٹی پر نظر رکھنی چاہیے ان کے بدلتے رویے اور انداز کو نوٹ کرنا چاہیےکیونکہ کچھ بھی فضول میں نہیں ہوتا ہر چیز کے پیچھے کوٸی وجہ ضرور ہوتی ہے۔۔۔
ہمممم گڈ۔۔۔۔مگر یہ بات ہر کوٸی نہیں سمجھتا ایجنٹ ٦٥ جاٶ بولو کسی بھی طرح جہانگیر شاہ کو تہہ خانے میں بلا لاو۔۔۔ میں ان کو ایکسپوز نہیں کرونگا۔۔۔
جی سر۔۔۔۔وہ کہتا نکل گیا۔۔۔شہریار کا فون بجا ہیام کا نمبر دیکھ کر اسکے چہرے پر مسکراہٹ آٸی۔۔
ہاں جی بولیں میڈم۔۔شہریار نے بڑے پیار سے کال ریسیو کر کے بولا۔۔
کہاں ہو تم۔۔۔۔۔ہیام نے اس سے سوال کیا۔
کام سے باہر آیا ہوں کوٸی کام ہے۔۔۔شہریار کھڑا ہوکر فاٸلز دیکھ رہا تھا۔۔۔
ہاں مجھے سمجھ نہیں آرہا ہے میں کیا پہنوں۔۔۔ایمان کے نکاح میں تم نےنیا ڈریس بھی نہیں دلوایا مجھے۔۔۔ہیام اپنے بیڈ پر کپڑوں کا ڈھیر لگاکر بیٹھی تھی۔۔۔
ہیام اتنے ڈریسس تو ہیں کچھ بھی پہن لو گھر کا تو فیکشن ہے۔۔۔شہری فاٸلز پڑھتا ہوا کہہ رہا تھا۔۔۔
ایسے کیسے۔۔۔۔میں شہریار حسن کی منکوحہ ہوں ایسے کیسے کچھ بھی پہن لوں۔۔ہیام ایک ادا سے کہتی ہوٸی خود کو آٸینے میں دیکھ رہی تھی۔۔۔
تم شہریار حسن کی بیوی ہو شہنشاہ اکبر کی نہیں۔۔۔جواتنے نخرے دیکھا رہی ہو۔۔
تم مجھے خوش نہیں ہونے دینا۔۔۔اور مجھے کسی شہنشاہ کی بیوی بننے کا شوق نہیں ہے۔۔۔ میں اپنے ہٹلر کی بیوی ہی اچھی ہوں۔۔۔تم یہ سب چھوڑو اور یا بتاو کیا رات رات بھر گھر نہیں آتے ہو۔۔کہاں ہوتے ہو کہی دوسری شادی تو۔۔ہیام بولتی اس سے پہلے شہریار نے بولنا شروع کردیا۔۔۔۔۔
میں کل رات آٶنگا تو سب بتاٶنگا فلحال فون رکھو عفان کی کال آرہی ہے۔۔۔شہریار عفان کی کال آتا دیکھ کہ ہیام کو اللہ حافظ کرتا عفان سے بات کرنے لگا۔۔
کل آکر بتاٶنگا مطلب سچی میں شادی کی ہوٸی ہے۔۔ہیام کپڑوں کا دکھ چھوڑ کر ایک نٸے مسلے کو لے کر بیٹھ گی۔۔۔
ہاں کیا ہوا فالز یہی بھول گیا ہے اور یو ایس بی بھی یہی پڑی ہے۔۔۔شہریار نے عفان کے کہنے سے پہلے بتا دیا۔۔۔
شکر ہے مجھے لگا کھو گی ہے۔۔۔دماغ سن ہوگیا تھا سوچ سوچ کر ۔۔اب اپنے پاس رکھ لے۔۔۔عفان کہتا ہوا گھر کا دروازہ کھولنے لگا۔۔
باقی سب خیریت ہے۔۔۔عفان گھر میں داخل ہوکر صوفے پر بیٹھ کر شہریار سے پوچھنے لگا۔۔شہریار نے اسے ساری بات بتاٸی۔۔
ہاں صحیح ہے مگر دھیان سے شہری جہانگیر شاہ کو خبر ہوٸی کے اسکے پیچھے تو ہے تو وہ چھوڑے گا نہیں۔۔۔عفاف ایک گلاس پانی لے کر آٶ وہ بات کرتے ہوۓ عفاف کو آواز لگانے لگا۔۔۔
چل یار بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔۔اس چابی وجہ سے کب سے گھوم رہا ہوں۔۔۔وہ شہریار کی کال کاٹ کر صوفے پر لیٹ گیا اور عفاف کو پھر پانی کے لیے آواز لگاٸی۔۔
دو تین آوازوں پر بھی جب عفاف نہیں آٸی تو عفان پریشان ہوا اور پورا گھر دیکھا مگر عفاف کہی نہیں تھی اسکا سامان بھی نہیں تھا۔۔۔عفان کو غصہ بھی آرہا تھا کہ وہ بنا بتاۓ کہاں چلی گی اور وہ بھی سارا سامان لے کر چلے گی عفاف کا فون بھی بند تھا۔۔۔عفان اب سچ میں پریشان ہوا اسنے گاڑی کی چابی لی اور سلطانہ ہاوس پہنچا۔۔۔
**********
عفاف کچھ دیر پہلے ہی آٸی تھی۔۔سب باتوں میں مشغول تھے لاونج میں سب چھوٹے بڑے چاۓ سے لطف اندوز ہورہے تھے۔۔۔ جب عفان وہاں آیا عفاف کو وہاں بیٹھ کر اسکے دل کو سکون آیا مگر اسے اب بھی عفاف پر غصہ تھا مگر وہ خود کو نورمل ظاہر کرتا ہوا سب سے ملنے لگا۔۔
ارے بیٹا عفاف تو کہہ رہی تھی۔۔۔تم کسی ضروری کام سے گے ہو۔۔۔ اسی لیے وہ اکیلے آٸی۔۔سلطانہ بیگم کی بات پر عفان نے عفاف کی طرف دیکھا جو اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
جی دادی وہ میں نے عفاف کو بھیج تو دیا مگر دھیان وہی تھا کہ خیریت سے پہنچی ہوگی یا نہیں۔۔۔اور یا بھی اتنی غیر ذمہ دار ہے کہ ایک فون بھی نہیں کیا بس اسی لیے میں آگیا۔۔۔وہ کبھی سلطانہ بیگم کو دیکھتا تو کبھی عفاف کو۔۔
جھوٹے ہہہم۔۔۔عفاف دل میں سوچ رہی تھی۔۔۔
کیوں عفاف ایک دفعہ تمھیں بتانا چاہیے تھا بچہ پریشان ہوگیا تھا۔۔۔سلطانہ بیگم عفاف کو ڈانٹے ہوۓ کہہ رہی تھی۔۔۔۔عفاف دل ہی دل میں عفان کو برا بھلا کہہ رہی تھی ۔۔۔ایک تو ڈانٹا بھی مجھےاور اب میرے گھر والوں کے سامنے بھی نمبر بنا رہےہیں۔۔عفاف غصے سے عفان کو دیکھ رہی تھی جو نظریں نیچے کر کے بیٹھا تھا۔۔۔
اب چپ کیوں ہو بولو عفاف فون کیوں بند کیا تھا۔سلطانہ بیگم کے پھر پوچھنے پر عفاف کہنے لگی ۔دادو میں بھول گی تھی۔۔۔
بیٹا اب آۓ ہو تو آرام سے کھانا کھا کر جانا۔۔ ندرت بیگم اپنے داماد کی خاطرداری کے لیے اسے رکنے کا کہہ رہی تھی۔۔۔ہاں آنٹی بلکل اگر سعدیہ آنٹی کھانا کھلاٸیں گی اپنے ہاتھ کا تو میں ضرور رکونگا۔۔عفان عفاف کو دیکھتے ہوۓ کہنے لگا۔۔
ویسے بھی کافی ٹاٸم گزرا اچھا کھانا نہیں کھایا۔۔آنٹی اب آپ اسے اچھےسے کھانا بنانا سکھاٸیں۔۔۔عفان کی اس بات کو سب نے مذاق میں لیا کیونکہ عفان بھی بولتے ہوۓ ہنسنے لگا۔۔عفاف نے اس بات کو محسوس کیا اور وہاں سے اٹھا کر کمرے میں چلی گی۔۔
تم نے میری بچی کو ناراض کردیا۔۔۔دادی عفان کے کان کھنچتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔آپ فکر نا کریں میں ابھی آتا ہوں۔۔اور عفان بھی اسکے پیچھے کمرے میں چلا گیا۔۔
ماشا۶اللہ بہت پیار کرنے والا بچا ہے۔۔۔سلطانہ بیگم کے دل سے دعا نکلی جبکے ندرت بیگم عفان کے طنز کو سمجھ گی تھی۔۔۔اور منہ دوسری طرف کر کے بیٹھ گی۔۔۔
***********
عفاف غصے میں کمرے میں ادھر سے ادھر گھوم رہی تھی۔۔۔۔جب عفان آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر آیا۔۔۔۔
عفاف عفان کو غصے سے دیکھ رہی تھی۔۔۔کیوں آٸیں ہیں آپ؟ اب کیا چاہتے ہیں جو چاہتے تھے ہوگیا نا چلی آٸی ہو اپنے ماں باپ کے گھر اب آپ کی زندگی کو اور جہنم نہیں بناٶ گی۔۔ جاٸیں یہاں سے۔۔عفان آرام سے بیڈ پر بیٹھ گیا عفاف اسکے سامنے آکر کہنے لگی۔۔
بول لیا اب بیٹھ جاٶ۔۔۔چلو عفان اسے اپنے پاس بیٹھا کر کہنے لگا۔۔
مجھے کچھ نہیں بولنا ہے۔۔ اور نہ کچھ سننا ہے جاٸیں آپ یہاں سے۔۔۔عفاف پھر کھڑی ہوکر بولنے لگی۔۔۔
میں نے غلطی سے ڈانٹ دیا مجھے پہلے دیکھنا چاہیے تھا۔۔۔مگر تم نے بھی تو غلط حرکت کی بنا بتاۓ نکل گی بوریا بستر لے کر ۔۔۔عفان اسکے مقابل کھڑا ہوکر کہنے لگا۔۔۔
ہاں تو اپنا تماشا بنتے دیکھتی میں۔۔۔۔۔ آپ کا جب جو دل چاہے کسی کے سامنے کہہ دینگے اور میں پتھر کی ہوں مجھے تکلیف ہی نہیں ہوتی جیسے۔۔۔ بہت برداشت کر لیا میں نے ویسے بھی اپ کے ہی الفاظ ہیں میں نے جہنم بنا دی ہے تو بس آزاد کر دیں مجھے اور اذیت نا دیں مجھے بار بار اس بات کا احساس نا دلاٸیں کہ آپ سے محبت اور شادی میری زندگی کی سب سے بری غلطی تھی۔۔
میں کہہ تو رہا ہو غلطی سے ہوا ہے میں غصے میں تھا اب کیوں اتنی سے بات کو بڑھا رہی ہو۔۔۔
بات بڑھ چکی ہے آپ نے مجھے اپنی محبت نہیں دی میں صبر اور برداشت سے کام لیتی رہی کے خدا سب بہتر کرے گا۔۔۔مگر آج آپ نے میری عزت بھی خراب کردی مجھے ایک انجان کے سامنے ڈانٹا میرا مان توڑا ہے آپ نے۔۔۔ جاٸیں آپ یہاں سے میں آپ کو اپنا فیصلہ سنا چکی ہوں۔۔
مطلب تم میرے ساتھ گھر نہیں چل رہی ہو۔۔عفان نے پھر اس سے پوچھا۔۔۔
نہیں عفف منہ موڑ کر کھڑی ہوگی۔۔۔۔ٹھیک ہے جب دماغ ٹھیک ہو تو آجانا۔۔عفان کہہ رہا تھا جب دروازے پر نوک ہوا ایمان پوچھتے ہوۓ اندر آٸی۔۔
ویسے تو مجھےنہیں آنا چاہیے تھا مگر ممانی بلا رہی ہے۔۔۔کھانا لگ چکا ہے۔۔ایمان عفاف پر ایک نظر ڈال کر نکل گیا۔۔۔
کیا ہوا سب خیریت ہے۔کوٸی لڑاٸی تو نہیں ہوٸی تم دونوں کی۔۔ایمان عفاف کو اپنی طرف کر کے پوچھنے لگی۔۔۔عفاف بیڈ پر بیٹھ گی۔۔۔۔
کچھ نہیں اپی اپنی کیگی دعاوں پر افسوس ہورہا ہے۔۔۔میں لاحاصل کے پیچھے بھاگ رہی تھی بس اب اور نہیں آپ کی شادی کے بعد میں اس قصے کو ختم کردونگی۔۔۔عفاف مایوسی سے بول رہی تھی۔۔۔
آخر ہوا کیا ہےعفاف کچھ بولو تو میں عفان سے بات کرتی ہوں۔۔۔چھوٹی چھوٹی لڑایا تو ہر جگہ ہوتی ہیں۔۔۔اور ہم تو سب یہاں یہی سمجھ رہے تھے کے تم دونوں ساتھ خوش ہو۔۔۔تمھیں بھی آج تک کوٸی شکایت نہیں کی تھی۔۔۔ایمان عفاف کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگی۔۔۔
میں بھی اب تو یہی سمجنے لگی تھی سب اچھا ہورہا ہے۔۔۔مگر نہیں غلط تھی میں۔۔۔اور میں کون ہوتی ہوں اپی اپنی وجہ سے کسی کی زندگی کو جہنم بنانے والی اس لیے رشتے بوجھ لگنے لگیں تو ان سے خود دور ہوجانا چاہیے۔۔۔
کس نے فضول باتیں بتاٸی ہیں۔۔۔آٸندہ ایسی فضول بات مت کرنا۔۔۔چلو اب کھانے کے لیے باہر کھڑی ندرت بیگم نے سب سن لیا اپنی بیٹی کی بے عقلی پر وہ صرف افسوس کرسکی۔۔۔
***********
گارڈن سج چکا تھا۔۔۔آج چھوٹی سی مہندی کی رسم تھی گھر میں ہی سب خوش تھے۔۔۔عفان بھی آگیا تھا۔۔۔ مگر کل کی رات کیسی گزری صرف وہ ہی جانتا تھا۔۔۔ناچاہتے ہوۓ بھی وہ عادی ہوگیا تھا عفاف کی باتوں اور اسکی حرکتوں کا۔۔۔
عفاف کا اسکا ہر کام کرنا کھانا بنانے نہیں آتا تھا پھر بھی کتنی بار ہاتھ جلا کر اسکے لیے روز کھانا بناتی تھی۔۔
کل جب عفان گھر گیا تو وہ خالی گھر اسے کاٹنے کو تیار تھا اسی لیے وہ صبح ہوتے ہی کام پر نکل گیا اور ابھی رات کے اٹھ بجنے والے تھے۔۔۔سب رسم کے لیے تیار تھے عفاف اور ہیام نے مہندی کا ایک جیسا بنایا تھا لونگ یلو کلز دونوں پر بہت پیارا لگ رہا تھا۔۔۔
عفان چند منٹ عفاف کو دیکھےگیا جیسے کوٸی اور سامنے ہے ہی نہیں۔۔۔
ایمان نے بھی لکا سا پیلا فروک پہنا تھا تینوں کے ڈوپٹے ہیوی تھے۔۔۔عفاف اور ھیام ایمان کو لے کر آرہی تھی۔۔۔شہریار اب تک نہیں آیا پھر عفان کے کہنے پر کے شہریار زرا دیر سے آۓ گا رسم شروع کی گی۔۔۔۔
سب نے اچھے سے رسم کی خوبصورت لمحات کو کیمرے میں سیو کیا گیا۔۔۔۔سب سے آخر میں شہریار آیا آج بھی اسنے وہی بلیک شلوار کرتا پہنا تھا۔۔۔۔
سب تھک گے تھے رسموں کے بعد سب اپنے اپنے کمرے میں چلے گے ہیام کمرے گی اور اپنی جیولری اتار رہی تھی تبھی شہریار اسکے کمرے میں آیا۔۔ اور اسے ڈریسر پر کھڑا دیکھ کر چلتا ہوا اسکے پاس آیا ہیام آٸینے میں سے اسے آتا دیکھ چکی تھی۔۔
اتن بھی کیا جلدی ہے سب اتارنے کی پہلے مجھے دیکھنے تو دو۔۔۔شہیار ہیام کی ایک بالی جو اسنے ابھی اتار کر رکھیتھی پھر سےپہناتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔
کیوں تمھارےپاس تو ٹاٸم نہیں ہے میرے لیے دوسری بیوی جو آگی ہے۔۔۔ہیام کی بات پر شہریار قہقہہ لگانے لگا۔۔اور اس کا پکڑ کر بیڈ پر بیٹھادیا اور خود بھی بیٹھ گیا۔۔
کتنا فضول فضول سوچتی ہو۔۔۔پتا ہے ہیام تم پاس ہوگی ہو۔۔۔شہریار کی بات پر ہیام اسے دیکھتیرہ گی شہریار نے چٹکی بجا کر ہوش دلایا۔۔۔
سچی کہہ رہے ہو۔۔۔ہیام کی خوشی کا ڈھکانا نہیں تھا۔۔۔
مگر ریزلٹ تو دو دن بعد آنا تھا نا۔۔ہیام کو یاد آیا تو پوچھنے لگی۔۔۔
شک تمھیں یاد آیا پوری پاگل ہو یا میرے سامنے بنتی ھو۔۔۔میں تو تمھارا دھیان ہٹا رہا تھا فارغ بیٹھو گی تو فضول سوچیں آٸیں گی۔۔۔ کیا کیا سوچتی ہو مجھ سے تم اکیلی نہیں سنبھل رہی ہو۔۔۔ دوسری بیوی اففف شہریار ہیام کے سر پر ہلکی سی چپیر مارتا ہوا کہنے لگا جو شہریارکی بات پر منہ پھلا کر بیٹھ گی تھی۔۔۔
اچھا چھوڑو نا ہیام اتنی پیاری لگ رہی تھی تم اور اس پر اتنی بڑی ناک پھلا لی ہے۔۔۔بلکل چچچ۔۔شہریار بولتے بولتے رکا تو ہیام شروع ہوگی۔۔کیا چچچچ کیا کہہ رہے تھے بولو پھر سے۔۔
ارے میں تو کہہ رہا تھا شہزادی لگ رہی ہوجال ہےجو میں تمھیں چڑیل کہوں۔۔۔شہریار کہہ کر ہنسا۔۔
تم مجھے چڑیل کہہ رہے ہو ہیام بھی رونے سا منہ بنا کر کہنے لگی۔۔
ہیام بیڈ کرون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گی شہریار نے کرتے پر پہنی واسکوٹی کو ساٸڈ پر رکھ کر ہیام کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔۔۔
ہیام اگر میں کسی آرمی میں یا سیکریٹ ایجنٹ کی جاب کر رہا ہوتا تو رہ لیتی آدھی زندگی میرے بنا۔۔۔شہریار اسکے ہاتھ میں پہنی چوڑیوں سے کھیل رہا تھا۔۔۔
میں تم سے شادی نہیں کرتی فاٸدہ ایسی زندگی کا بس انتظار میں گزار دو پوری زندگی اور مجھ سے اتنا انتظار نہیں ہوتا۔۔۔شہریار کو اسکی بات بریلگی اسنے ہیام کا ہاتھ چھوڑ دیا اور وہ اسکے مقابل بیٹھ گیا۔۔۔
تمھیں ملک سے محبت نہیں۔۔۔شہریار ہیام کو دیکھتے ہوۓ کہنے لگا۔۔ ہاں ہے مگر یں جان نہیں دے سکتی ایک ہی تو زندگی ملی ہے وہ بھی۔۔
کتنی غلط سوچ ہے نا تمھاری ہیام جو وگ اس ملک کے لیے جان کی بازی لگا دیتے ہیں جبکہ وہ تو جانتے بھی نہیں ہیں بس اسی سوچ میں جان ہتیلی میں لے کرگھومتے ہیں کے عام عوام کو کوٸی نقصان نا ہو اور تم شہریار اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
اچھا نا ہم یہ باتیں کرنےبیٹھے ہیں۔۔۔ہیام شہریار کابگرتا موڈ دیکھ کر پھر بولی۔۔۔ہیام مجھے تم سے محبت ہوگی ہے نا چاہتے ہوۓبھی تمھاری ہر خوبی اور خامی کے ساتھ اسنے ہیام کی ہتلی پر اپنی محبت کی مہر لگا دی۔۔۔یہ پہلا عملی اظہار تھا جو شہریار نے ان تین سال کے طویل عرصےبات کھل کر اپنی محبت کا اعتراف کردیا تھا۔۔۔ہیام خوشی سے کھل اٹھی تھی اس اظہار پر۔۔۔
love is strange it can heel you and it can even break you in a parts....
ہیام (محبت بہت عجیب ہوتی ہے محبت جتنی ہمیں خوشی دیتی ہے وہ ہمیں توڑ بھی دیتی ہے ٹکڑوں میں۔۔ )اسکے ساتھ غم بھی جڑے ہوتے ہیں جیسے گلاب کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں اکثر لوگ اس کانٹے کے چبھ جانے پر گلاب کو پھینک دیتےہیں۔۔۔۔اور کچھ لوگ احتیاط سے اس گلاب کو کانٹوں کے ساتھ سنبھال کر رکھتے ہیں اور وہ گلاب انھیں تازگی اور خوشبو دیتا رہتا ہے۔۔۔
زندگی کا بھی ایسا ہی ہے خوشی کے ساتھ غم جڑے ہوتے ہیں ہمیں ان میں صبر سے کام لینا چاہیے اور اللہ پر توکل رکھنا چاہیے۔۔۔ ہیام غور سے اسکی ہر بات سن رہی تھی
شاباش اب تم میرےلیے کافی بنا کر لاو میں فریش ہوجاو تھک گیا ہوں۔۔شہریار کہتا ہوا کھڑا ہوگیا۔۔۔
اس وقت۔۔۔ہیام ٹاٸم دیکھتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔ ہاں جی وہ کہہ کر باتھروم گھس گیا۔۔
ہیام اپنی جیولری اتار کر کمرے سے جانے لگی جب شہریار کا فون بجا اور ہیام نمبر دکھتی ہوٸی کال اٹھا لی۔۔
شہری جہانگیر شاہ کے جو آدمی جن کو تونے گولی ماری تھی ایک مر گیا دوسرا کومے سے باہر آگیا ہے اور عفان بولے جارہا تھا دوسری طرف بلکل خاموشی تھی۔۔۔شہری بولنا کیا کرو اسے سب پتا چل جاۓ گا۔۔
شہریار باتھروم سے باہر آیا تو ہیام کے ہاتھ میں اپنا موباٸل دیکھ کر اسکے پاس دورا ہیام کے ہاتھ سے موباٸل چھینا عفان کی بات سن کر آتا ہوں کہہ کر ہیام کو دونوں بازو سے پکڑ کر چلانے لگا۔۔۔
کس سے پوچھ کر میرے فون کو ہبتھ لگایا م نے۔۔۔ہام خود کو چھرانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔مگر شہریار کی گرفت بہت سخت تھی جسسے ہیام کو تکلیف بھی ہورہی تھی۔۔
کیوں تمھارے گناہ سے پردہ اٹھ گیا ہے اس لیے ابھی مجھے ملک سے محبت پر درس دے رہے تھےتم خود کیا ہو دیشت گرد قاتل ہو تم شہریار حسن قاتل میں سب کو بتاٶں گی ہیام چیخ کر کہہ ری تھی اور ہاتھ اپنا آپ شہریار سے چھروانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
ہاں قاتل ہوں میں ۔۔۔شہریار دھڑا
آپی کی شادی تک خاموش رہنا ورنہ۔۔۔شہریار ہیام کا چہرا اپنے ہاتھوں میں دباتا ہوا گرانے لگا۔۔
قاتل ہوں نا میں۔۔۔ایک اور قتل کرنے میں دیر نہیں لگے گا۔۔شہریار ہیام کو بیڈ پر دھکا دیتا ہوا کہنے لگا۔۔۔آنکھیں لال ہوگی تھی۔۔۔۔اسکی آواز اونچی تھی۔۔
اور وہ کہہ کر رکا نہیں۔۔ہیام کے کمرے سے نکلتا دروازہ ذور سے بند کرتا ہوا چلا گیا۔۔۔
صبح پورے گھر میں افراتفری تھی۔۔۔ظہر کی نماز کے بعد ایمان اور محراب کا نکاح تھا اور ساتھ رخصتی تھی۔۔۔۔
ایمان کچن سے اپنے کمرے کی طرف بڑھی تو اسے عفان نظر آیا۔۔۔۔اس نے عفان کو پکارا۔
جی آپی وہ سر جھکاتا ہوا اسکے پاس آیا۔۔۔
عفان تم ایک بہت اچھے لڑکے ہو۔۔۔جو تمھارے ساتھ ہوا وہ ایک ناگہانی تھی اس میں تمھارا تو کوٸی قصور نہیں ہے۔۔۔بلکہ ہر اس بچے لڑکی یا لڑکا خواہ عمر کچھ بھی ہو کسی کی کوٸی غلطی نہیں ہے ہم شکار بنے مگر تم
نے خود کو مظلوم نہیں بننے دیا تم نے فیس کیا سب کو اور یہ آسان بات بلکل نہیں ہے۔۔۔
اور جو سمجھدار ہیں وہ ان چھوی چھوٹی باتوں کو ایشو بنا کر رشتے توڑتے نہیں ہیں اور نا ہی اس سے دست بردار ہوتے ہیں۔۔۔اور عفاف نادان ہے مگر شادی کے بعد تھوڑی بہت عقل مندی تو آگی ہے اس میں بھی۔اور جذباتی تو اس گھر کا ہر فرد ہے۔۔ایمان ہلکا سا مسکراتی ہوٸی کہنے لگی۔۔
عفاف تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔اور عورت کو جسم کی ہوس نہیں ہوتی ہے اسے تو بس پیار و محبت اور عزت چاہیے ہوتی۔۔میں سب کی بات نہیں کر رہی جیسے دنیا کا ہر شخص الگ ہے سب مرد ایک جیسے نہیں ہوتےاسی طرح ہر عورت بھی ایک سی نہیں ہوتی۔۔
میں نے اسے کل رات تمھاری زندگی کا ہر پہلو بتایا اور مجھے یقین ہے عفاف کے دل میں تمھاری عزت اور بڑھ گی ہوگی۔۔۔
وہ دوسری لڑکیوں سے الگ ہے وہ محبت میں پکی ہے تمھیں چھوڑے گی نہیں بس ایسے منا لینا جلد ہی کہی دیر نا ہوجاۓ۔۔۔
عفان نظریں جھکاۓ ایمان کی بات سن رہا تھا۔۔۔سمجھے کے نہیں ایمان اسکی خاموشی پر پوچھنے لگی۔۔۔
جی آپی۔۔۔میں آج اسے منا لونگا۔۔۔ عفان نے نظریں اٹھا کر کہا۔۔۔ ہہہہہہممم میرا بھاٸی کہاں ہے مجھے تو نظر نہیں آیا صبح سے۔۔
وہ آپی کسی کام سے گیا ہے آجاۓ گا نکاح تک۔۔۔عفان نے ایمان کے سوال پر کہا۔۔۔
اچھا چلو صحیح ہے میں بھی ہیام سے مل لوں دس بج گے ہیں اب تک باہر نہیں آٸی۔۔ایمان کہتی ہوٸی ہیام کے کمرے میں جانے لگی۔۔
ہیام۔۔۔۔۔ایمان دروازے کا لوپ گھوما کر اندر آٸی۔۔۔۔اور ہیام کو نیچے بدحال گرا ہوا پایا تو بھاگ کر اسکے پاس آٸی۔۔۔۔ ہیام کیا ہوا ہے اٹھو۔۔۔ایمان پریشانی کی حالت میں اسے تھپتھپا رہی تھی ہیام کو تیز بخار چڑھ گیا تھا۔۔۔۔
ایمان نے چند پانی چھینٹے اسکے منہ پر مارے جس سے وہ ہوش کی دنیا میں آٸی۔۔۔۔
ہیام یہ سب کیسے ہوا۔۔۔۔ ہیام ایمان کو دیکھ کر اسکے گلے لگ گی۔۔۔ہیام کو گزری رات یاد آنے لگی۔۔۔۔
شہریار کے کمرے سے جانے کے بعد کتنی دیر وہ روتی رہی اسے اندازہ نہیں تھا۔۔۔ناجانے وہ کس بات پر ملال محسوس کر رہی تھی کہ وہ ایک قاتل کی بیوی ہے۔۔۔ہیام اس بات سے تو انجان تھی ظالم کو مارنے والا قاتل نہیں ہوتا۔۔۔ وہ پوری رات شہریار سے نفرت کرتی رہی جس کا روز کھلتا ایک نیا چہرہ ہیام کی سمجھ سے بالاتر تھا۔۔۔وہ ایمان کے گلے لگ کر روتی رہی۔۔۔
کیا ہوا ہیام سب ٹھیک ہے نا۔۔۔تم کیوں رو رہی ہو ایمان نے اسے خود سے لگ کر کے پوچھا۔۔۔۔ہیام بتانے لگی جب اسے شہریار کی کل رات کی بات یاد آگی اور وہ بات بدل گی۔۔۔
تیری شادی ہورہی ہے نا اس لیے رونا آرہا ہے۔۔۔۔ہیام نظریں چرا کر کہنے لگی۔۔۔
ارے پاگل میں کون سا کہی جا رہی ہوں یہی ہوں تم لوگوں کے پاس۔۔۔ایمان اسکے آنسو پونچ کر کہنے لگی۔۔۔ہیام اور کوٸی بات تو نہیں ہے شہری۔۔ایمان بولتی اسے پہلے ہیام نے کہا۔۔۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے بہت دیر ہوگی ہے ابھی تیار بھی ہونا ہے۔۔۔۔چل ہیام ایمان کو اپنے ساتھ کھڑا کرتی ہوٸی کہنے لگی۔۔۔
ایمان کو ہیام کا انداز بدلا ہوا لگا۔۔۔مگر وہ چپ رہ کر اسکے ساتھ چل دی۔۔۔
***********