چند دن گزر گے۔۔۔عفاف اب ایمان کی مدد سے کھانا بنانے لگی تھی کام تو اب بھی کام والی کرتی ہے اس دن کے بعد زلیخا نے کوٸی فضول بات نہیں کی مگر اب عفان کے ساتھ رہتے ہوۓ عفاف کو بھی صفاٸی کی عادت ہوگی تھی۔۔۔وہ بھی گھر کے ایک ایک کونے کو صاف کرتی۔۔۔
ہیام کے پیپر اسٹارٹ ہوگے تھے۔۔۔شہریار اپنے کاموں میں اتنا بزی ہوا کے چند دن گھر بھی نہیں آیا مگر ہیام سے روز بات کرتا تھا۔۔۔اب تودونوں کو عادت ہوگی تھی۔۔اور عادتیں بدلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔۔شہریار گھر میں یہ کہہ کر گیا تھا کے کام کے سلسلے میں کسی دوسرے شہر گیا ہے۔۔۔مگر حقیقت سے سب ناآشنا تھے۔۔۔
چیتا پھر سے جہانگیر شاہ کو بڑے اورڈر دلوا کر اسکے خاص آدمیوں میں شامل ہوگیا تھا۔۔۔
وہ کافی حد تک اپنے مشن میں کامیاب ہو رہا تھا۔۔۔اسنے بہت سے اڈوں پر چھپے پروا کر جہانگیر شاہ کا نقصان کروایا تھا۔۔۔بہت سے بڑے لوگ گرفتار بھی ہوۓ مگر اثرورسوخ کے مالک یہ لوگ رہا ہوگے۔۔۔چیتے کی کوشیشیں جاری تھی آخری وار کرنا تھا جس سے نا تو جہانگیر شاہ بچ سکے اور نا اسکے چاہیتے۔۔۔
Human trafficking(انسانوں کی اسمگلنگ) کا یہ کام آسمانوں کی بلندیوں کو چھو رہا ہے جن میں سب سے زیادہ بچوں اور عورتوں کا ریشو ہے۔۔۔یہ اسمگلنگ الگ الگ مقاصد کے لیے کی جاتی ہے
(slavery ,labour and child abuse )
اور زمین والے اس سے بے خبر گھوم رہے ہیں۔۔۔ ہمیں پتا ہونا چاہیے ہمارے اردگرد کیا ہورہا ہے۔۔۔
ہم میں سے بہت کم لوگ اس بات سے آشنا ہے کہ پوری دنیا میں بچوں کی اسمگلنگ کا ریشو (child trafficking) 5.5 million سے بھی زیادہ بڑھ گی ہے۔۔۔جنوبی ایشیا ، مشرقی ایشیا ، افریقہ اور ناجانے کتنے ممالک جو اس کام میں ملوث ہیں۔۔۔بہت سی سیکریٹ ایجینسی اسکے لیے کام کررہی ہیں اور شہریار اور عفان بھی انھی ایجنسی کے لیے کام کر رہے ہیں۔۔۔
ہیام کا لاسٹ پیپر آج ختم ہوا۔۔۔شہریار نے وعدہ کیا تھا کہ وہ لاسٹ پیپر سے پہلے آجاۓ گا مگر وہ آج بھی نہیں آیا۔۔۔
ہیام کمرے کا دروازہ کھول کر بیڈ پر الٹی پر گی۔۔۔ایمان اسے جاتا دیکھ چکی تھی اسی لیے اسکے پیچھے کمرے میں آٸی۔۔۔
”لگتا ہے آج پیپر اچھا نہیں ہوا۔۔“ ایمان اسکے کان میں بول کر ہنسنے لگی۔۔
”ایمان جا مجھے کسی سے بات نہیں کرنی“۔۔۔ہیام نے کروٹ بدل کر کہا۔۔۔
” ارے ویسے تو روز خوشی خوشی آتی تھی اور شہری کو اپنے پورے دن کی خبریں دیتی تھی آج نہیں بتانا۔۔۔“
ایمان اس کے پاس بیٹھ کر پوچھنے لگی۔۔۔
”نہیں مجھے اب اس سے کوٸی بات نہیں کرنی جھوٹا کہی کا روز کہتا تھا یہ پیپر اچھا کرکے آٸی تو میں آجاٶنگا۔۔۔دیکھو میں نے سارے پیپر اچھے سے دے دیا مگر وہ آج بھی نہیں آیا۔۔۔“ہیام ایمان کا ہاتھ پکڑ کر شہریار کی شکایت کرنے لگی۔۔۔اور ایمان اسکی بات پر ہنسے جارہی تھی۔۔
پاگل ہو بلکل تم ہیام۔۔۔۔پہلے ایک آنکھ نہیں بھتا تھا وہ تمھیں۔۔۔اور اب دیکھو چند دن کی دوری برداشت نہیں ہے۔۔۔
خالہ کا آٸیڈیا اچھا تھا میری شادی کے ساتھ تمھیں بھی رخصت کر دیتےہیں۔۔ ایمان اسے چھیرتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔۔۔ہیام شرماتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
ہاۓ ہاۓ یہ تو منہ سے کہہ رہی ہے دل میں تو لڈو پھوٹ رہیں ہیں۔۔۔ایمان آج فل موڈ میں تھی۔۔۔جب ہیام کا فون بجا اور اسکرین پر ہٹلر کا نام پڑھ کر ایمان مسکرانے لگی۔۔۔
شرم کرو ہیام شوہر ہے ہٹلر کے نام سے سیو کیا ہے میرے بھاٸی کا نمبر۔۔۔ ہیام فون اٹھاو۔۔ہیام فون ہاتھ میں پکڑے ایمان سے کہنے لگی۔۔۔
اب زیادہ بھاٸی کی بہن مت بن۔۔۔۔اسکی سزا ہے اب میں اس سے بات نہیں کرونگی۔۔۔موباٸل پھر بجنے لگا۔۔۔مگر ہیام نے کال نہیں اٹھاٸی۔۔
بہت بری بات ہے ہیام وہ پریشان ہو رہا ہوگا۔۔۔۔ایمان اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
کچھ نہیں ہوتا اور اگر اتنا ہی پریشان ہے تو آجاۓ۔۔۔۔ہیام بول رہی تھی جب ایمان کا فون بجا۔۔۔۔ شہریار کا فون ہے ایمان نے کہتے ہوۓ فون ریسیو کیا۔۔ہیام منہ موڑ کر بیٹھ گی۔۔۔
آپی ہیام کال نہیں اٹھا رہی ہے اسے کہنا میں جلد آٶنگا۔۔۔۔ابھی ایک ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔اور ایمان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی شہریار نے فون کٹ کردیا۔۔۔
ایک اور بھانا بتا دیا نا اسنے۔۔۔وہ صرف بہانے کر رہا ہے پیچھلے بیس دنوں سے کوٸی محبت نہیں ہے اسے مجھ سے۔۔۔ہیام کشن بیڈ پر پھینکتی باتھ روم میں چلی گی۔۔۔
پاگل ہیں دونوں۔۔۔ایمان مسکراتے ہوۓ باہر نکل گی۔۔۔
***********
یہ سب کیا ہے عفاف۔۔۔کیا کر رہی ہو۔۔ایک تو تم کھانا بنانے بیٹھتی ہو تو پورا کچن بتا رہا ہوتا ہے کہ عفاف بی بی نے کھانا بنایا ہے۔۔۔۔
ڈبے،چولھے،سلیپ ہر جگہ تمھارے فنگر پرنٹ چھپ جاتے ہیں۔۔۔ عفان کچن کی حالت دیکھ کر پھر شروع ہوگیا۔۔۔یہ اسکا روز کا کام ہوگیا تھا۔۔۔عفاف کو بھی اسکا بولنا اور بعد میں خود کچن صاف کرنے میں مدد کرنا اچھا لگتا تھا۔۔۔
ایک تو میں آپ کے لیے محنت کرتی ہوں.....اور آپ مجھے ہی بول رہے ہیں بھلاٸی کا زمانہ ہی نہیں ہے۔۔۔ عفاف پتیلی میں چمچ گھوماتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔۔
ہاں تو کس نے کہا ہے میرے میدے کے ساتھ ایکسپریمنٹ کرو میں معصوم بنا کچھ بولے کھا لیتا ہوں اسکا مطلب یہ تھوڑی ہےتم اپنی ہر فلتو ریسپی مجھ پر ٹراۓ کرو۔۔۔جاکر کوٸی اچھی کوکنگ کلاس لے لو۔۔۔عفان اپنے دکھرے روتے ہوۓ اسے مشورہ دینے لگا۔۔۔
ارے کیوں پیسے ضاٸع کرنا یہ زوبی آنٹی بھی بہت اچھا سیکھاتی ہے۔۔سب انھی سے سیکھ کر انسٹیٹیوٹ میں آتی ہیں سیکھانے کے لیے۔۔۔عفاف بھی اپنی اون لاٸن ٹیچر کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی۔۔۔
تم سے بحث کرنا فضول ہے اچھا بتاٶ آج کیا نیا کارنامہ انجام دیا ہے۔۔۔۔عفان فریج سے بوتل نکال کر پانی گلاس میں ڈالتا ہوا کہنے لگا۔۔۔
میں نے بنایا ہے ریڈ چیلی چنگ چونگ منچورین
(Red chilli ching chong manchorian)
وہ بہت خوشی خوشی بتا رہی تھی۔۔۔
اللہ خیر کرے۔۔نام ایسا ہےتو کھانا کیسا ہوگا۔۔۔عفان بربرایا۔۔۔کیا بولا آپ نے عفاف اسکی بربراہٹ کو سمجھ کر پوچھنے لگی۔۔۔
کچھ نہیں کھانا لگاٶ بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔وہ عفاف کو کہتا ڈاٸنگ ٹیبل پر پلیٹ رکھنے لگا۔۔۔
جیسے ہی عفان نے منہ میں نوالا رکھا۔۔۔ عفاف اسے دیکھنے لگی عفان کو اس پر رحم آیا اور اچھا کھانا بنا ہے کہہ کر وہ دوسرا نوالہ لینے لگا۔۔۔اور یہ سننے کے بعد تو عفاف خوشی سے پھولے نہیں سما۶ رہی تھی۔۔
**********
سارا کام ہوگیا ہے باس۔۔۔۔بس آپ اپنے وعدے سے نہیں پھرنا ۔۔۔
دانیال اگر کسی کو پتہ چلا نہ تو میں تیرا حال برا کردونگا۔۔۔ باقی تیرا ٹیبلیٹ پکا اگر سب اچھے سے ہوگیا تو۔۔۔شہریار تہہ خانے سے باہر آکر آہستہ آواز میں دانیال سے فون پر بات کر رہا تھا۔۔۔
بھاٸی سب سیٹ ہے۔۔۔میں پوری نگرانی رکھوں گا آپ کتنے بجے آرہے ہیں۔۔۔۔ہاں بس رات میں آجاٶنگا۔۔۔۔بات ختم کرکے اسنے فون جیب میں رکھا۔۔۔اور اپنے سامنے موجود ساتھی سے بات میں مصروف ہوگیا۔۔۔۔
اچھے سے خاطرداری کرو انکی تمام معلومات نکالو۔۔۔اور اگر نا بتاٸیں تو رحم بلکل نہیں کرنا سمجھیں۔۔۔اور جن جگہوں کے نام پتا لگے ہیں چھاپے مارو وہاں پکڑ کر لاٶ سب کو۔۔
جی سر۔۔۔ سلیوٹ کرتا ایجنٹ وہاں سے نکل گیا۔۔۔شہریار نے کچھ یاد آنے پر ایمان کو کال ملاٸی۔۔۔
ہاں جی فرصت مل گی بہن سے بات کرنے کی۔۔۔۔ایمان اسے مذاق میں کہنے لگی۔۔۔
آپی آپ تو نا کریں ایسی باتیں۔۔۔آپ تو سب جانتی ہے۔۔شہریار بھی اسکے مذاق کو سمجھتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔
اب تم میری بہن کو ناراض کرو گے سوال تو بنتا ہے۔۔۔۔ایمان اسے ہیام کی ناراضگی یاد دلاتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
اسی کو منانے کی تیاری چل رہی ہے آپی۔۔۔دانیال کو ایک ڈریس دیا ہے آپ کو کسی بہانے سے تیار کروا کر ہیام کو چھت پر بھیجنا ہے باقی میرا کام ہے۔۔۔۔وہ ایمان کو اپنا پلین بتاتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔
وہ ابھی بہت غصے میں ہے۔۔۔۔ایمان صبح والا سین یاد کرتے ہوۓ کہنے لگی۔۔
آپی بس تیار کروا دیں اور میں جانتا ہوں آپ یہ کر سکتی ہے چلیں باۓ کچھ کام ہے میں وہ کر کے آتا ہوں۔۔۔
*********
ہیام دیکھو تو کتنا پیارا ڈریس ہے اور بلیک تو تمھار ا بھی پسندیدہ کلر ہےاور شہری کا بھی۔۔۔ایمان اسے تیار ہونے کے لیے کب سے کہہ رہی تھی۔۔۔مگر وہ کھڑی نہیں ہورہی تھی ٹی وی کے سامنے فلم دیکھنے میں مگن تھی۔۔
نام نا لو اس کا۔۔۔تمھیں پتا ہے ایک بار بھی کال نہیں کی اسنے پھر ۔۔۔ہیام کب سے خود کو مصروف رکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
اچھا چلو نا یار ہوجاٶ تیار میرے لیے۔ایمان اسے پیار سے کہنے لگی۔۔شہریار جانتا تھا کہ مغرب کے بعد کوٸی چھت پر نہیں آتا اس لیے اسنے سپراٸز گھر کی چھت پر ہی رکھا۔۔۔
کیا ہے ایسے منہ بنا کر اموشنل بلیک میل کر رہی ہو کہاں جانا ہے ہم نے تو کھانا بھی کھا لیا ہے دس بج رہے ہیں کوٸی کہی نہیں جانے دیگا۔۔۔۔ہیام اسے سوال کرنے لگی
میں نے کہہ دیا ہے عفاف کے گھر جارہےہیں کوٸی کچھ نہیں بولے گا جاکر یہ ڈریس پہن کر آٶ۔۔۔
ہیام جب چینج کرکے نکلی تو ایمان اسے دیکھتی رہ گی وہ فل بلیک ڈریس تھا لونگ فروک چوڑی دار پجامہ جو ہیام پر خوب جچ رہا تھا۔۔۔اسکے ساتھ صرف ڈوپٹے پر ہلکا کام کیا ہوا تھا ایمان اسکی نظر اتارتی اسے ڈریسر کے پاس لے جاکر جیولری اور میک اپ کرنے لگی۔۔۔
بس کر ایمان خود تو کبھی اتنا نہیں سجی مجھے اتنا تیار کر رہی ہے بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔۔۔اور تو خود کب تیار ہوگی۔۔۔ ہیام اسے تیار کرتا دیکھ کر کہنے لگی۔۔
ہاں بس میں بھی ہورہی ہوں۔۔۔ ایمان گھڑی دیکھتی ہوٸی کہنے لگی۔۔۔اتنے میں دانیال آگیا۔۔ایمان آپی ادھر آۓ نا ماما آپ کو بلا رہی ہیں۔۔۔ہاں ہیام میں آرہی ہوں۔۔۔وہ کہتی دانیال کے ساتھ نکل گی۔۔۔
ہاں کیا شہریار آگیا ہے؟۔۔۔ایمان باہر آتے ہی دانیال سے پوچھنے لگی۔۔۔ہاں آپی آگے ہیں اور آپکو پتہ ہے اتنا تیار ہوکر آۓ ہیں جیسے بارات میں نہیں جارہے ہوں۔۔۔بلیک شلوار قمیض بہت اچھا لگ رہا ہے ویسے بھاٸی پر۔۔۔
اچھا اب تم نظر نا لگاو ماشااللہ بولو۔۔۔اللہ ان دونوں کو ہمیشہ خوش رکھے
اب کیا کرنا ہے۔۔۔۔ایمان نے آگے کا پلین پوچھا۔۔۔کچھ نہیں آپ دور جاٸیں میں ہیام آپی کو کہتا ہوں ایمان آپی چھت پر گر گی ہیں۔۔۔دانیال اپنا پلین بتاتا ہوا بھاگا۔۔۔
ایمان اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی جب پیچھے سے محراب آگیا۔۔۔
کیا ہو رہا ہے۔۔۔محراب کے ایسے کہنے پر ایمان ڈر گی۔۔آپ مجھے ہمیشہ ڈرا دیتے ہیں۔۔۔۔
تم مجھ سے کیوں ڈر جاتی ہو۔۔۔سب کو بہادر بننے کا مشورہ دیتی ہو خود بھی مضبوط بنو۔۔۔محراب اس سے فاصلے پر کھڑا تھا۔۔۔وہ جانتا تھا ایمان کو قریب آنا پسند نہیں۔۔۔اور وہ اسکی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔
وہ آج شہری ہیام کو سرپراٸز دے رہا ہے آج انکے نکاح کو تین سال پورے ہوۓ ہیں اس لیے۔۔۔۔ایمان اسے دیکھتی ہوٸی کہنے لگی۔۔۔
اوووہ یہ تو اچھی بات ہے پتا نہیں میری زندگی میں یہ وقت کب آۓ گا۔۔۔ایمان محراب کی بات پر مسکراتے ہوۓ چلی گی۔۔۔
*********
آپی آپی ایمان آپی چھت پر گر گی۔۔۔دانیال دھڑام سے دروازہ کھولتا ہوا اندر آکر کہنے لگا۔۔۔
کیا کہہ رہے ہو دانیال تم تو تاٸی امی کے پاس لے گے تھے تو پھر چھت پر کیسے گر گی۔۔۔وہ بنا چپل پہنے اپنے ڈریس کو سنبھالتی ہوٸی چھت پر بھاگنے لگی۔۔۔۔اور دانیال اسکے اندر جاتے ہی باہر کا دروازہ بند کر کے نیچے بھاگ گیا۔۔۔
دروازہ بند ہونے کی آواز پر ہیام نے مڑ کر دیکھا دانیال دروازہ کھولو ایمان کہاں ہے۔۔۔
Tu jee sakti nahi
Main jee sakta nahi
Koi dusri main sharta vi rakhta nahi
چھت کے سیدھی طرف سے کسی کے گنگنانے کی آواز آرہی تھی ہیام جانتی تھی یہ آواز کس کی ہے مگر اپنے وہم کو یقین میں بدلنے کے لیے وہ اس آواز کے پیچھے گی جہاں ایک ٹیبل پر کیک رکھا ہوا تھا ساتھ دو فولٹنگ (folding) چیٸر رکھی ہوٸی تھی جس پر شہریار گٹار (guiter)لیے گانا گنگنا رہا تھا۔۔۔نیچے پھولوں سے
(happy 3rd anniversary )
لکھا ہوا تھا۔۔۔جو ہوا سے اگے پیچھے ہوگے تھے مگر پڑھا جاسکتا تھا۔۔
شہریار چلتا ہوا ہیام کی طرف آرہا تھا ایک تو اسکی آواز اور دوسرا اس پر جچتا یہ بلیک شلوار قمیض ہیام کے دل کو پگلانے کے لیے کافی تھا۔۔۔
Sachiyan mohabbata ve
O maahi kithe hor naiyo milna
Jithe vi tu chalna han
Mahi main tere pichhe pichhe chalna
وہ ہیام کے آگے پیچھے گھومتا ہوا گانا سنا رہا تھا۔۔۔اور ہیام شرم سے مسکراتے ہوۓ کبھی اسے دیکھتی تو کبھی نظریں جھکا لیتی۔۔۔
Happy anniversary my dear wife
شہریار مسکراتے ہوۓ کہنے لگا۔۔
تمھیں یاد تھا۔ہیام جانچتی نظروں سے پوچھنے لگی کیونکہ اسے خود بھی یاد نہیں تھا کبھی مناٸی نہیں تھی۔۔
ارے یہ دن کیسے بھول سکتا ہوں اسی دن تو دادی نے مجھے چڑیل کے حوالے کیا تھا وہ دن ہے اور آج کا دن ہے اسیب بن کر سوار ہے مجھ پر۔۔۔شہریار ہنسی چھپاتا ہوا ہیام کو دیکھتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔۔۔جسکے چہرے کے تاثرات بدلتے جارہے تھے شہریارکی باتوں سے۔۔
میں اسیب ہو۔۔۔سوار ہوگی ہوں۔۔۔ہیام روتی شکل بنا کر کہنے لگی جیسے ابھی آنسو نکل آٸیں گے۔۔۔ہیام اسی کا گٹار اٹھا کر شہریار کو مارنے لگی۔۔جو اس سے بہت مشکل سے اٹھا تھا۔۔۔
ارے چھوڑو دوست سے مانگ کر لایا ہوں کیوں غریب کا نقصان کروا رہی ہو۔۔۔وہ اسکے ہاتھ سے گٹار لے کر ساٸڈ پر رکھنے لگا۔۔۔ہیام منہ موڑ کر کھڑی ہوگی۔۔
چلو نا یار کیک کاٹتے ہیں بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔۔شہریار اسے اپنی طرف موڑ کر کہنے لگا۔۔۔
بھوکر ہوتم ندیدے کھا لیتے جب اتنی بھوک لگ رہی تھی۔۔۔ہیام اسکے ہاتھ جھٹکتی ہوٸی کہنے لگی۔۔۔
اتنی محنت کی میں نے مگر تمھیں تو یاد بھی نہیں تھا پھر بھی میں نے کچھ کہا۔۔۔شہریار بھی اسے اسکی غلطی یاد کروا رہا تھا۔۔۔ہیام زبان دانتوں میں لیتی اسے دیکھنے لگی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔
غلطی غلطی فیٹوس اب کسی کی کوٸی غلطی نہیں چلو کیک کاٹتے ہیں چاکلیٹ کیک دیکھ کر ہی میرے منہ میں پانی آگیا۔۔۔اور شہریار اسکی حرکت پر مسکرانے لگا۔۔۔
چلو دونوں نے مل کر کیک کاٹا شہریار نے اسکے لیےاور اپنے لیے کافی بناٸی۔۔اور دونوں چٸیر پر بیٹھےچاند کی روشنی میں اپنی خوبصورت رات کو اور خوبصورت بنا رہے تھے۔۔۔وہ دونوں باتوں میں مشغول تھے اپنے پرانے دن یاد کرکے مسکرا رہے تھے۔۔۔
آج میں نے بنا دی ہے کل سے تم نے ہی بنانی ہے کافی۔۔۔شہریار کافی کا سپ پی کر اپنے پاکٹ سے کنگن نکالنے لگا۔۔۔
ہیام یہ ماما کے کنگن ہے دادو بتاتی تھی یہ انھوں نے ماما کو انکی شادی میں دیا تھے اور ماما کہتی تھی بھلے یہ سعدیہ کےپاس ہے مگر اسکی دلہن کو یہ کنگن میں دونگی اب ماما نہیں ہیں تمھیں یہ دینے کے لیے اسلیے میں اسے اچھے سے پولیش کروا دیا ہے۔۔۔وہ کنگن ہیام کے ہاتھ میں پہناتی ہوٸی کہنے لگا۔۔۔
تھینک یو اور سوری میں نے تمھارےلیے کچھ نہیں لیا۔۔۔ہ۶ام کنگن کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
تم میری ہو یہی بہت ہے میرے لیے۔۔۔۔ شہریار مسکراتے ہوۓ اسے دیکھتے ہوۓ کہنے لگا۔۔
اچھے لگ رہے ہو۔۔۔ہیام نے دل سے تعریف کی۔۔تم بھی میرا لایا ہوا ڈریس جو پہنا ہے۔۔۔
ہاں مطلب یہ سب پلین تھا۔۔۔تم نے یہ سب کچھ کب کیا مجھے تو تم گھر میں دیکھےہی نہیں تھے گھر میں۔۔۔
یہ چیزیں سب دانیال لایا ہے میں نے صرف یہ پھولوں سے لکھا تھا۔۔۔شہریار پھولوں کو دیکھتے ہوۓ کہہ رہا تھا جو ہوا سے ادھر ادھر پھیل گے تھے۔۔
بہت اچھا ہے سب کچھ مجھے پتہ ہی نہیں تھا تم ہٹلر بھی کسی کو سرپراٸز دوگے وہ بھی اتنا پیارا۔۔۔ہیام کی بات پر شہریار اسے گھورنے لگا۔۔۔
اچھا اچھا سوری وہ کان پکرتے ہوۓ کہنے لگی اور دونوں ایک ساتھ مسکرانے لگے۔۔۔
اور یہ خوبصورت دن بھی گزر گیا۔۔۔۔وقت تو ہوتا ہی ہے گزارنے کے لیے اچھا ہو یا برا گزر جاتا ہے۔۔۔
*********