کیسے ہیں آپ سب۔۔۔یہ ایک فارم ہاوس تھا۔۔۔۔جو کراچی سے آگے اور حیدرآباد کے شروع کے اریا میں بنا ہوا تھا۔۔۔شہریار دو گھنٹے کی ڈراٸیو کر کے وہاں پہنچا۔۔۔تقریباً گیارہ بجنے والے تھے۔۔۔آدھے بچے سو گٸے تھے جو کچھ جاگ رہے تھے شہریار نے ان کی طبعیت پوچھی۔۔۔مگر کسی نے کوٸی جواب نا دیا۔۔
وہ دوسرے کمرے میں ڈاکٹر ذاکر اور سعدیہ کے پاس ان کی رپوٹس کے حوالے سے بات کرنے گیا۔۔۔
خیریت ہے ڈاکٹر۔۔۔اسنے سلام دعا کے بعد مدعے کی بات کی۔۔
شہریار ان میں سے کچھ کی حالت بہت خراب ہے کچھ بچے کٸی ماہ سے اس درندگی کا شکار تھے۔۔
ڈاکٹر سعدیہ لڑکیوں کو سمجھانے کی کوشش کررہی ہے مگر سب اپنے اندر ایک جنگ لڑ رہے ہیں۔۔۔یہ بچے جنھیں ابھی کھیلنا چاہیے تھا۔۔۔ ان معصوموں سے ان کا بچپن چھین لیا گیا۔۔انھیں پھر سے ایکٹیو کرنے میں جانے کتنا وقت لگ جاۓ۔۔اور کتنے اس دوران جان کی بازی ہار جاۓ ۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا ابھی تو سب سکتے میں ہیں کچھ بول ہی نہیں رہے ہیں۔۔۔
ڈاکٹر آپ اپنی پوری کوشش کریں جتنا ٹاٸم پیسہ لگے مجھے بول دیجیے گا مگر انکی صحت میں کمپروماٸز نہیں کیجیے گا۔۔۔
وہ اپنے غصے کو ضبط کرتا ہوا کہنے لگا۔۔۔۔اسکے دل میں جہانگیر شاہ سے نفرت بڑھتی جارھی تھی۔۔۔
میں کچھ تحفے لایا ہوں۔۔۔جو جاگ رہے ہیں ان کو دے دیتے ہیں۔۔۔
ہاں چلو آو میں لے جاتا ہوں۔۔۔جی چلیں
**********
کیا کر رہے ہیں آپ۔۔عفاف فریش ہوکر بیڈ پر آٸی تو عفان کو لیپ ٹاپ پر کام کرتا دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔
تم کیوں اتنے سوال کرتی ہو۔۔۔سکون سے سو جاٶ۔۔۔شہریار اپنے کام میں مگن بول رہا تھا بیڈ پر ہی اسکا فون پڑا ہوا تھا۔۔۔
عفاف نے اسکا فون اٹھایا۔۔۔جیسے ہی فون اون کیا۔۔۔
پاسوڈ آگیا۔۔عفان اسے آنکھیں ٹیڑھی کر کے دیکھ رہا تھا۔۔
کر لی جاسوسی تو رکھ دو فون میرا۔۔۔عفاف اسکے اسطرح کہنے پر اسے گھورنے لگی جو ابھی بھی لیپ ٹاپ پر نظریں جماۓ بیٹھا تھا۔۔۔
ایسے کون سے راز ہیں مجھے بھی پتا چلے۔۔۔جو پاسوڈ لگاٸیں ہیں۔۔۔عفاف اسکا موباٸل بیڈ پر پھینک کر کہنے لگی۔۔
اب ہر چیز تو بتاٶنگا نہیں تمھیں کیا کیا ہے موباٸل میں میرے۔۔۔ اور آٸندہ ہاتھ نہیں لگانا۔۔۔۔
اچھا ابھی تو کھول دیں آج کی تصویریں واٹس اپ کر کے واپس رکھ دونگی۔۔۔عفاف اسکی طرف موباٸل بڑھاتی ہوٸی کہنے لگی۔۔۔
عفان نے ایک نظر اس پر ڈالی اور موباٸل اسکے ہاتھ سے لے کر فینگر پرینٹ دبا دیا۔۔۔یہ لو اور واپس نہیں آنا اب۔۔۔
عفاف عفان کے اتنی آسانی سے پاسوڈ کھول دینے پر خوش ہورہی تھی۔۔۔۔جیسے کوٸی خزانہ ہاتھ آگیا ہو۔۔۔۔
عفاف فوراً سے موباٸل واٹس اپ پر گی۔۔۔پر بد قسمتی سے ایک اور پاسوڈ اسکرین پر آگیا۔۔
یہ کیا بد تمیزی ہے موباٸل ہے یا کسی بینک کا لوکر کوڈ پر کوڈ لگاۓ ہوۓ ہیں۔۔۔عفاف کو غصہ چڑھ گیا۔۔۔وہ موباٸل کو پھینکتی ہوٸی غصے سے عفان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ جو اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔۔
ہنسے نہیں میں کچھ پوچھ رہی ہوں آپ سے۔۔۔جواب دیں عفاف اسکالیپ ٹاپ بند کر کے گھور کر پوچھنے لگی۔۔۔
کیا بدتمیزی ہے۔۔۔مجھے اپنے پرسنل میٹر میں کسی کی داخل اندازی پسند نہیں ہے اور جہاں تک بات ہے جواب دینے کی تو میں کسی کو جواب دینے کا بھی پابند نہیں ہوں۔۔اور کتنی بار سمجھایا ہے میری بیوی بننے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ حد میں رہو۔۔۔وہ واپس اپنا لیپ ٹاپ اون کرکے کام کرنے لگ گیا۔۔۔
عفاف اسکی بے رخی پر کمبل اوڑھ کر دوسری طرف منہ کرکے سو گی۔۔۔عفان نے ایک نظر اسے سوتا دیکھا پھر اپنے کام میں لگ گیا۔۔۔
اور عفاف اپنے منہ پر ہاتھ رکھے اپنے آنسو چھپا کر رو رہی تھی۔۔۔۔
**********
سر ایک بہت بڑی خبر پتا چلی ہے۔۔۔رات کے پونے دو بج رہے تھے۔۔۔جب شہریار کا فون بجا۔۔
کیا ہوا ہے۔۔وہ دوسری طرف کی بات سن کر فورا اٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔
سر ایجنٹ صمد نے بتایا ہے۔۔۔جہانگیر شاہ کسی ایک اور بڑی ڈیل کی بات کر رہا تھا اور وہ اسکے اندرگرونڈ گودام میں ہوگی یا خوفیا جگہ ہے اسکے اڈے کی جہاں بڑی میٹینگز کرتاہے اور صرف خاص بندوں کو پتا ہے۔۔۔ایجنٹ صمد نے بہت چالاکی سے منی کیمرہ فٹ کیں ہیں۔۔جس سے یہ خبر پتہ چلی ہے۔۔۔سر آپ کو اب جہانگیر شاہ کے اڈے پر واپس جانا چاہیے۔۔۔۔
ہہہہمممم ٹھیک ہے شاباش ایجینٹ صمد کو میری طرف سے شاباش کہہ دینا اچھی انفرمیشن نکالی ہے۔۔۔اور تمھیں کچھ کام کہا تھا۔۔
جی سر ہوگیا ہے۔۔۔ بس صحیح موقع کا انتظار ہے۔۔۔ہماری ٹیم کی نظر جہانگیر شاہ کے ہر ایک قدم پر ہے۔۔۔۔اس بار اللہ نے چاہا تو ہم ضرور کامیاب ہونگے۔۔۔
انشا۶اللہ۔۔۔اب تم بھی سو جاٶ۔۔۔جی سر سوری آپ کو پریشانی ہوٸی ہوتو۔۔۔مقابل شخص شہریار سے معذرت کرنے لگا۔۔
ارے نہیں میشن کے لیے اٸنی ٹاٸم۔۔۔شب خیر کہہہ کر اسنے فون رکھ دیا۔۔
تم کہاں ہو۔۔۔شہریار کا فون کب سے بج رہا تھا وہ صبح ہی بچوں سے مل کر واپس آنے کا کہہ کر نکل گیا۔۔۔ابھی نو بجنے والے تھے شہریار اپنے دو روم کے اپارٹمنٹ میں جو ایجنٹ کے لیے تھا۔۔۔جہاں اپنی میٹینگ رکھتے تھے وہاں اپنے لیپ ٹاپ پر کچھ ایمپورٹینٹ انفارمیشن پڑھ رہا تھا جو عفان نےبھیجیں تھی۔۔۔۔تیسری کال پر اسنے ہیام کا نام پڑھتے ہی کال اٹھاٸی۔۔۔سامنے سے فورا سوال آیا جس پر شہریار کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گی۔۔۔۔
کہاں ہو میں کب سے تمھارا انتظار کررہی ہوں۔۔۔ہیام بولے جارہی تھی۔۔۔اب کچھ بول بھی دو۔۔۔ہیام شہریار کو خاموش پاکر پھر بولی۔۔
تم کچھ بولنے دو تو کچھ بولوں۔۔۔ کیاہوا کوٸی خاص کام تھا۔۔۔وہ ہیام کے چپ ہونے کے بعد بولنے لگا۔۔۔
ہاں اتنی جلدی بھول گے۔۔۔کل ماما نے کہا تھا تم مجھے پڑھاو گے۔۔۔یاد ہے میں کب سے ویٹ کر رہی ہوں تم پتہ نہیں کہا ہو۔۔۔
خیریت ہے آج سورج کہاں سے نکلا ہے۔۔۔ہیام میڈم پڑھاٸی کی باتیں کر رہی ہے۔۔ہضم نہیں ہوٸی بات۔۔۔وہ لیپ ٹاپ ساٸڈ پر رکھ کر اسے چھیڑنے لگا۔۔۔
میں اب سیریس ہوگی ہوں تم کب آرہے ہو بتاٶ۔۔۔۔ہیام سنجیدگی سے کہہ رہی تھی وہ ابھی ٹیرس کے جھولے پر بیٹھی تھی آس پاس کتابیں پڑی ہوٸی تھیں۔۔۔
ویسے ہیام اگر تم شروع دن سے سیریس ہوجاتی تو بہت اچھے نمبر سے پاس ہوتی۔۔۔ مگر اچھا ہے دیر آۓ درست آۓ۔۔۔۔شہریار کہاں چپ رہنے والوں میں سے تھا۔۔۔
تم طعنے مارنا بند نہیں کرو گے یا نہیں۔۔۔۔ٹھیک ہے مت آٶمیں دوست کے گھر چلی جاٶں گی۔۔۔تم پھر مت کہنا مجھے۔۔۔"ہیام میری کوٸی بات نہیں مانتی"۔۔۔۔وہ شہریار کی نکل اتارے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔جس پر شہریار کا قہقہہ بلند ہوا اور اسکے ساتھ والے بیڈ پر لیٹا ہوا بندہ اسے دیکھنے لگا۔۔۔
کیونکہ وہ جتنا گھر میں سنجیدہ تھا۔۔۔اس سے زیادہ اتنے کام کے لیے سنجیدہ تھا۔۔اسکے ساتھی بھی اس سے بات کرنے میں کتراتے تھے وہ تو صرف عفان تھا۔۔۔ جو اسکے لیے بھاٸیوں سے برکر تھا۔۔۔وہ تو آج کل محبت کا بخار چڑھا تھا۔۔جو وہ اتنا مسکرا رہا تھاورنہ جب سے وہ اس فیلڈ میں آیا تھا۔۔۔ دنیا کی تلخ حقیقت نے اسے بھی سخت مزاج بنب دیا تھا مگر بہت کم لوگ جانتے تھے کے وہ کتنا نرم دل ہے۔۔۔
اچھا کہی جانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔میں نے ٹیوٹر کو بول دیا ہے۔۔وہ آجاۓ گی۔۔۔ہیام دل لگا کر پڑھنا اور جو رہ جاۓ تو میں بھی آکر بتادونگا۔۔۔وہ اسے نصیحت کرنے لگا
اچھا ٹھیک ہے دادا ابو نہیں بنو۔۔۔تم کب آٶ گے۔۔ہیام پیار سے کہنے لگا۔۔شہریار کو اسکے اس طرح پوچھنے پر بہت اچھا لگا۔۔ شہریار کا دل پر سکون ہوگیا
سچ کہتے ہے۔۔
”پیار, محبت ,نرمی سے ہم مسلے کو حل کرے تو ان میں پیار اور محبت کے ساتھ عزت بھی بڑھ جاتی ہے“۔۔۔شہریار کو ہیام کا یہ بدلتا انداز ہیام کو اسکے دل میں اتارنے کے لیے کافی تھا۔۔۔۔
تم کہو تو ابھی آجاٶ۔۔۔شہریار شوخی میں کہنے لگا۔۔۔
اگر میں کہوں تو تم آجاٶ گے۔۔ہیام بڑی امید سے پوچھنے لگی۔۔۔
تمھیں کیا لگتا ہے۔۔۔میں آٶنگا۔۔۔شہریار ہیام سے پوچھنے لگا۔۔
بلکل بھی نہیں اور میرے کہنے پر تو بلکل نہیں۔۔۔ہیام یقین سے کہہ رہی تھی ساتھ ہی بریڈ کا ایک پیس منہ میں ڈالا۔۔۔۔
بہت عقل مند ہوگی ہو۔۔۔شاباش اب پڑھنے پر فوکس کرو میں رات میں آکر ٹیسٹ لونگا۔۔۔اچھےسے پڑھنا ہیام۔۔۔شہریار کی آواز میں کچھ تھا۔۔۔جو ہیام کو پڑھاٸی کی طرف لا رہا تھا۔۔۔
اوراسنے ٹھیک ہے کہہ کر فون رکھ دیا۔۔۔
ہہہہممم تو ہیام اب پڑھنے پر دھیان دو اور پروف کرو کے تم بھی پاس ہوسکتی ہو۔۔۔۔وہ گہرا سانس چھوڑتی پڑھنے کے لیے کتابیں کھولنے لگیں۔۔
**********
خالہ میں چاۓ بنادوں۔۔۔ایمان کچن میں آٸی تو کلثوم کو چاۓ بناتا دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔
ماشا۶اللہ۔۔۔۔۔۔نہیں بچا تم نے اتنی فکر کی وہی کافی ہے۔۔۔بس بن گی ہے میں نکل دیتی ہوں تم باہر سب کو دے آٶ۔۔۔
جی خالہ۔۔۔ایمان مسکراتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔اور سب کے لیے باہر چاۓ لے گی۔۔۔
اماں اب ایمان اور محراب کی بھی شادی کر دیں۔۔۔کلثوم نے سب کو ساتھ بیٹھے دیکھا تو کہنے لگی۔۔۔
کلثوم ابھی کل تو منہ میٹھا کیا ہے اتنی جلدی شادی۔۔۔۔محراب ایمان کو دیکھ رہا تھا جو سلطانہ بیگم کے برابر میں ہی بیٹھ کر چاۓ پی رہی تھی۔۔اور اپنی خالہ کی بات پر اسکی نظریں محراب کی طرف اٹھی ۔۔۔۔۔۔۔جو اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔
اماں نیک کام میں دیری کیسی۔۔۔دونوں گھر کے بچے ہیں۔۔۔اور میں تو کہتی ہوں ایمان اور محراب کے ولیمے پر شہریار اور ہیام کی بھی رخصتی کر دیتے ہیں۔۔۔
ہیام جو کافی دیر سے پڑھ کر ابھی لاونج میں آرہی تھی اس بات پر اچھل پڑی۔۔نہیں پھوپو کیا کہہ رہی ہیں بہت مشکل سے دل لگایا ہےپڑھاٸی میں آپ کیا شادی کو لے کر بیٹھ گی ہیں۔۔۔
تو تم نے کون سا دور جانا ہے اسی گھر میں ہو پڑھتی رہنا۔۔کلثوم تو آج شادی کی تاریخ پکی کروانے پر تلی ہوٸی تھی۔۔۔۔
ہاں ابھی بچوں کے پیپرز ہیں۔۔۔اور عفاف کی شادی کو تین دن ہوۓ ہیں پہلے اسکی شادی کی تھکن تو اتر جاۓ۔۔۔۔پھر سوچتے ہیں ایک دو ماہ بعد۔۔سلطانہ بیگم نے بھی موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے اماں اب اتنا انتظار کیا ہے تو کچھ دن اور سہی وہ بیٹے کو دیکھتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
***********
خیال آگیا تجھے۔۔۔جہانگیر شاہ چیتے کو آتا دیکھ کر کہنے لگا۔۔
صاحب میں دو دن بیمار کیا ہوا وہ بھی آپکی وجہ سے آپ نے تو مجھ پر اپنے گھر کے دروازے بند کردیے۔۔۔ جب چیتا اندر آیا تو کسی نے اسے اندر آنے نہیں دیا۔۔پھر جہانگیر شاہ کے کہنے پر اسے اندر آنے کی اجازت دی گی۔۔۔
غداروں اور کام چوروں کے لیے کوٸی جگہ نہیں جہانگیر شاہ کے اڈے پر۔۔۔ وہ چیتے کو دیکھتے ہوۓ کراہٹ سے کہنے لگا۔۔
واہ صاحب چیتا بیمار تھا پھر بھی اپ کا نقصان نہ ہو تو وہ اچھے مال کی تلاش میں نکلا۔۔۔ اور یہ رہا آپ کا منافع چاہتا تو چیتا خود رکھ لیتا مگر غداری نہیں کرتا ساتھ نبھانے کا کہتا ہے تو پیچھے نہیں ہٹتا۔۔وہ جہانگیر شاہ کی طرف بیگ بڑھتا ہوا کہنے لگا۔۔
کیا ہے اس میں۔۔۔جہانگیر شاہ آنکھیں اچکاتے ہوۓ روعب سے
بولا۔۔۔۔۔
دو لڑکیوں کو بیچا ہے اسکے ہیں یہ پیسے اچھی پارٹی ملی تو بیچ دیا ا کڑور میں بیس پرسنٹ اپنا نکال لیا ہے یہ باقی آپکی امانت چلتا ہوں۔۔۔۔چیتا کہتا ہوا جانے لگا۔۔
رک۔۔۔جہانگیرشاہ نے اسے رکنے کا کہا۔۔۔چل پھرسے کام پر لگ جا۔۔۔اور اچھا مال لے کر میرے پاس آ کچھ دن بعد ایک اور ڈیل ہونے والی ہے اسکے لیے مال جمع کر۔۔۔۔
اور شہریار اپنی چال میں کامیاب ہوا جانتا تھا پیسے کا پجاری ہے پیسہ پھینک تماشا دیکھ والی کہانی تھی۔۔۔اب وہ واپس تو آگیا تھا اسے وہ انفارمیشن چاہیے تھی جو جہانگیر شاہ کا پاسا پلٹ دے۔۔۔۔وہ شکریہ کہتا وہاں سے نکل گیا۔۔
**********