سب اپنا اپنا گھومنے میں مگن تھے ایمان ان سب سے تھوڑا آگے اکیلے کھڑی اس خوبصورت شام کو محسوس کر رہی تھی۔۔آج اسکی زندگی کا بہت بڑا دن تھا۔۔۔وہ خوش تھی مگر کچھ تھا جو اسے بے چین کر رہا تھا۔۔۔وہ اس حسین موسم میں کھو گی تھی اوپر نیلا آسمان نیچے برف سے ڈھکی پہاڑیاں جہاں نظر جاتی چھوٹی بڑی پہاڑیاں نظر آرہی تھی کہ اچانک اسکا موباٸل بجا ان نونمبر دیکھ کر ایمان کو گھبراہٹ ہونے لگی۔۔۔
کون ؟؟اسنے فون اٹھاتے ہی پوچھا۔۔۔
اتنی جلدی بھول گی۔۔۔ابھی تو صرف بات پکی ہوٸی ہے۔۔۔اور تم اسکے سپنے دیکھ رہی ہو۔۔۔
کون ہو تم کیا چاہتے ہو۔۔۔کیوں میرا جینا مشکل کر رہے ہو چلے جاٶ ایمان غصے میں بھی تھی مگر اس سے زیادہ پریشان تھی وہ خود اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی۔۔ وہ دھیما بول رہی تھی مگر لہجہ باور کروانے والا تھا۔۔۔۔
میں تو اب آگیا ہوں تمھاری زندگی میں تم چاہو بھی تو نہیں نکال سکتی مجھے۔۔۔ ویسے آج میرا پسندیدہ کلر پہنا ہے بہت اچھی لگ رہی ہو اس آسمانی رنگ کے جوڑے میں۔۔۔اور یہ کہہ کر محراب نے فون رکھ دیا اور وہ دوسری طرف سے ایمان کے فیس ایکسپریشن دیکھ رہا تھا۔۔۔
ایمان اپنے ہاتھوں سے سر پکڑتی وہی بیٹھ گی۔۔۔مجھے شہری کو بتانا چاہیے۔۔۔وہ خود سے سوال کر رہی تھی۔۔۔
نہیں نہیں شہری پھر غصے میں آجاۓ گا۔۔۔اور پتا نہیں کیا حال کرے گا۔۔۔نہیں نہیں میں اسے کچھ نہیں بولوں گی وہ اپنی ہی سوچوں میں الجھ رہی تھی۔۔کہ محراب نے پیچھے سے بہو کیا تو ایمان ڈر کر پیچھے مری۔۔۔
یا اللہ۔۔آپ بھی نا ڈرا دیا۔۔۔ایمان محراب کو دیکھ کر پر سکون ہوٸی۔۔۔تمھیں کیا لگا کون ہے؟؟محراب نے جانجتی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔
کوٸی نہیں میں تو بس ایسے ہی۔۔۔۔ایمان اس سے فون والی بات چھپا گی۔۔۔
ایمان ہماری شادی ہونے والی ہےتم مجھ سے ہر بات شیٸر کر سکتی ہو۔۔
مجھے آپ کو اپنے ماضی کے بارے میں کچھ بتانا ہے۔۔۔ایمان کسی کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہ رہی تھی۔۔۔وہ چاہتی تھی کہ وہ اپنی زندگی میں آنے والے انسان کو اپنا ماضی بتا دے تاکہ بعد میں کوٸی مسلٸہ نہ ہو۔۔۔۔
ایمان میں نہیں جاننا چاہتا کچھ بھی نہیں۔۔۔تم میرا مستقبل ہو یہی میرے لیے بہت ہے۔۔۔میں وعدہ کرتا ہوں آنے والی زندگی میں تمھیں کبھی تمھارے ماضی کے حوالے سے نہیں پوچھوں گا۔۔۔میں بہت خوش ہو بہت بس نہیں چل رہا کل رخصت کروا کر لے جاٶ۔۔۔ اور ایمان اسکی باتوں پر مسکرا رہی تھی اسنےتو کبھی محراب کے بارے میں ایسا نہیں سوچا تھا۔۔۔۔مگر وہ نکاح سے پہلے ایسا کچھ نہیں چاہتی تھی۔۔۔اسلیےمسکرانے پر اکتفا کیا۔۔۔
***********
ہیام اور شہریار ساتھ ساتھ چل رہے تھے مگر دونوں خاموش تھے۔۔۔۔تھوڑی سی دور جا کر شہریار وہی پہاڑ کے اوپر جہاں تھوڑی تھوڑی برف پڑی ہوٸی تھی بیٹھ گیا اور کونی زمیں پر ٹکا کر ہیام کو دیکھنے لگا۔۔۔
یہاں کیوں بیٹھ گے ہو۔۔۔ہیام اسے آرام سے بیٹھا دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔۔
مرضی میری تھیں کیا اس سے۔۔۔۔شہریار بھی ڈھیٹ بن کر کہنے لگا۔۔
بھاڑ میں جاٶ۔۔۔میری بلا سے ۔۔۔۔۔وہ اسے بھاڑ میں جانے کا مشورہ دے کر آگے بڑھنے لگی۔۔۔
ارے اڈریس تو دیتی جاٶ اور اچھی اچھی حوریں تو ہونگی نا تمھیں دیکھ دیکھ کر تھک گیا ہوں۔۔۔۔شہریار آج ہیام کو چرانے کے فل موڈ میں تھا اور ہیام کو تپ بھی چڑھ رہی تھی اسکی باتوں سے وہ شہریار کو گھورتی مر کر جانے لگی۔۔۔۔
ارے رکو یار کہاں جارہی ہو مزاق کر رہا ہوں۔۔۔۔وہ ہیام کو اپنے پاس بیٹھا کر کہنے لگا۔۔
مجھے تم سے کوٸی بات نہیں کرنی۔۔وہ منہ موڑ کے بیٹھ کر اسکی آواز رونے والی ہوگی تھی آنسو کبھی بھی باہر آجاتے۔۔۔
اب اس میں کون سی رونے کی بات ہے آنکھوں میں ٹینکر لگایا ہوا ہے۔۔ جو ہر بات پر تمھارے آنسو نکل جاتے ہیں۔۔۔اور اگر تم یہ سمجھ رہی ہو میں پبلیک پلیس پر تمھارے آنسو پونچوں تو غلط فہمی ہے میڈم میں ایسا کچھ نہیں کرنے والا۔۔ہیام شہریار کی باتوں پر اور تپ گی۔۔۔
تو روکا کیوں جب صرف آنسو دینے آتے ہیں صاف کرنے نہیں۔۔۔ طنز مارتے ہوۓ تو کبھی نہیں سوچا کے سامنے کتنے لوگ ہیں۔۔۔ہیام بھی پیچھے رہنے والوں میں سے نہیں تھی۔۔
تم مجھے شرمندہ کر کے سوری بلوانا چاہ رہی ہو۔۔۔
تم مجھے شرمندہ کر کے سوری بلوانا چاہ رہی ہو۔۔۔
نہیں۔۔۔بلکل بھی نہیں میں ان چیزوں پر محنت نہیں کرتی جس کا ہونا ممکن نہیں ہے۔۔۔۔ہیام اسکی آنکھوں میں دیکھتی ہوٸی کہنے لگی۔۔۔
جیسے پڑھاٸی۔۔۔شہریار زبان دانتوں میں چھپا کر کہنے لگا۔۔۔۔
ہیام اسے گھور کر جانے لگی تھی جب شہریار نے اسکا ہاتھ پکڑ کر پھر بیٹھا دیا۔۔۔
اچھا بیٹھ جاٶ کچھ نہیں کہتا۔۔۔ایک تو تم لڑکیاں برا اتنا جلدی مان لیتی ہو۔۔۔شہریار اسکی ناک دبا کر کہنے لگا۔۔
لڑکیاں اور کتنی لڑکیوں سے باتیں کرتے ہو۔۔۔ہیام غصے سے شہریار کو دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔۔
اور تم لڑکیاں شک بھی بہت کرتی ہو۔۔۔اسی لیے ڈپریشن میں چلی جاتی ہو۔۔۔ہمیں دیکھو کتنے خوش رہتے ہیں۔۔وہ آج فل شوخی کے موڈ میں تھا۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔اور اپنی بھی تعریفیں بیان کرو سب لڑکیاں کرتیں ہیں اور لڑکے تو بہت سیدھے ہوتے ہیں۔۔۔ چلیبی کی طرح بلکل ہے نا۔۔۔
کہہ سکتے ہیں۔۔۔چھوڑو یار کیا تم لڑکوں لڑکیوں کو لے کر بیٹھ گی ہو۔۔اور پھر شکایت لگاتی ہو دادو سے میری۔۔۔ہیام شہری کی بات پر اسے دیکھنے لگی کہ اسے کیسے پتا چلا۔۔۔
اب تم سوچ رہی ہوگی مجھے کیسے پتہ چلا تو وہ ایسے ماۓ ڈٸیر واٸف۔۔دادو نے کہا تھا نہ کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن میں لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔اور وہ کہتا ہوا اپنی پوکیٹ سے کچھ نکالنے لگا۔۔۔
یہ۔۔۔ہیام شہریار کے ہاتھ میں اسی لوکیٹ کو دیکھ کر حیران ہوگی۔۔۔جو اسنے مارٹ میں دیکھا تھا۔۔۔
یہ تم نے کب لیا۔۔۔ہیام لوکٹ کو ہاتھ سے چھوتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
بس لے لیا نا تمھیں پہننا ہے کہ نہیں۔۔۔وہ لوکٹ کو ہیام کی کلاٸی پر باندھنے لگا۔۔
یہ لوکٹ ہے گلے میں پہنتے ہیں۔۔۔ہیام اسے ہاتھ میں لوکیٹ پہناتا دیکھ کر کہنے لگی۔۔
پتہ ہے مجھے۔۔۔مگر مجھ یہ تمھاری کلاٸی پر اچھا لگ رہا ہے۔۔۔وہ اسکے ہاتھ میں ٹاٸٹ سے لوکٹ باندھ کر S H کو صحیح کرنے لگا۔۔اور جو چیز جہاں اچھی لگے وہاں پہننی چاہیے۔۔۔۔
تمھیں لگتا ہے میں نا آشنا ہوں تم سے۔۔۔مجھے ہر بات کی خبر ہوتی ہے ہیام میں بتاتا نہیں جتاتا نہیں اس کا مطلب نہیں کے میں لاپرواہ ہو میں تمھارے دل کا مکین ہوں قلبِ آشنا کامکین ہوں۔۔۔۔ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔
نا آشنا رہا جو ہر قدم
قلبِ آشنا کا وہ مکین تھا
مجھے تمھاری سمجھ میں نہیں آتی کبھی ایسے برتاو کرتے ہو جیسے مجھ سے زیادہ امپورٹینٹ کوٸی نہیں ہے۔۔۔اور کبھی ایسے کے ہیام نامی لڑکی تمھاری زندگی میں کوٸی اہمیت ہی نہیں رکھتی۔۔۔ہیام اسے دیکھ رہی تھی جو اسکے ہاتھ میں پہنے لوکٹ سے کھیل رہا تھا۔۔
ہیام ہر انسان ہمیشہ خوش تو نہیں رہتا دکھی بھی ہوتا ہے غصہ بھی آتا ہے یہ ڈیپینڈ کرتا ہے جگہ پر ماحول پر اور انسانوں پر بھی۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولتا ہوا ہیام کو دیکھ کر ہنسا۔۔
آج اتنا خوش کیوں ہو۔۔۔ہیام اسکی خوشی کی وجہ جاننا چاہتی تھی اسنے شہریار کو اتنا ہنستا ہوا نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔
خوش اس لیے کے میں تمھارے ساتھ ہوں اور وہ پھر قہقہہ لگانے لگا۔۔۔تم مذاق اڑا رہے ہو میرا۔۔۔ہیام گھورتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
نہیں۔۔بس کبھی کبھی دل کرتا ہے خوش ہونے کا۔۔میں ایسے اچھا نہیں لگ رہا پہلے جیسا بن جاٶ۔۔۔
نہیں نہیں ایسے ہی ٹھیک ہو ہٹلر۔۔۔۔۔ہیام نے اسکے منہ پر ہٹلر بول دیا ۔۔۔۔۔
ہٹلر اچھا جی۔۔۔۔ابھی بتاتا ہوں شہریار نے دونوں ہاتھوں میں برف اٹھاٸی اور ہیام کے اوپر ڈال دی۔۔۔۔ہیام نے بھی برف اٹھا کر شہریار پر پہنکی ۔۔۔اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔۔۔۔
اب خوش ہو سب شکوے دور ہوگے۔۔۔۔شہری اس سے کنفارم کرتے ہوۓ بولا۔۔۔۔
ہاں مگر تم نے سوری نہیں بولا۔۔۔
کون سا سوری کس لیے سوری۔۔۔۔وہ اپنے ہاتھ جھٹکتا ہوا کھڑا ہوا۔۔۔اور ہیام اسے کھڑا ہوتا دیکھ خود بھی کھڑی ہوگی۔۔۔
اور اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ کے سامنے لا کر کہنے لگی جس پر ابھی بھی اس کا اور شہریار کا نام مہندی سے لکھا ہوا تھا مگر رنگ ہلکا ہوگیا۔۔۔یہاں مارا تھا۔۔۔ سب کے سامنے وہ رونے جیسا منہ بنا کر اسے کہنے لگی۔۔۔۔
اچھا تو سوری کہنے سے تمھارا زخم بھر جاۓ گا۔۔۔۔شہریار اسکے ہاتھ کو دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔
نہیں مگر مجھے سکون ملے گا۔۔۔وہ دونوں آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔۔۔۔
صحیح ہے اگر تمھیں سکون ملتا ہے تو سوری کہہ دیتا ہوں۔۔۔ وہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔۔۔ہیام رک کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔
کیا ہوا رک کیوں گی۔۔۔تم نے سوری کب بولا۔ہیام ہاتھ بازو پر باندھ کر کہنے لگی۔۔ابھی تو بولا۔۔۔
کب۔۔۔وہ تو کہا میں سوری بولوں گا۔۔سوری کب بولا۔۔ہیام ابرو اچکا کر پوچھنے لگی۔۔۔
تو اس میں سوری بھی تو آگیا نا۔۔۔شہری بھی ہوشیاری دیکھا رہا تھا۔۔۔
ایسا نہیں ہوتا پورا بولو۔۔۔ای ایم سوری دوبارہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔ہیام اسے معصومیت سے پورا جملہ بتا رہی تھی۔۔
ٹھیک ہے جاو معاف کیا۔۔۔شہریار پھر ہنستے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔
مجھے کہیں نہیں جانا تمھارے ساتھ۔۔۔وہ پھر برف پر بیٹھ گی۔۔
اچھا ٹھیک ہے مگر میری بھی کچھ شرط ہیں۔شہریار بھی اسکے ساتھ بیٹھ گیا۔۔
کیسی شرط۔۔۔۔؟میں کوٸی شرط نہیں مانوں گی۔۔۔ہیام ابرو اچکا کر پوچھنے لگی۔۔اور پہلے ہی منع کردیا کے کچھ نہیں
ماننا۔۔۔۔
مرضی ہے میں بھی سوری نہیں بولوں گا۔۔۔سوچ لو شہریار بھی اسے آخری چانس دے رہا تھا۔۔۔
ویسے کون سا بول رہے ہو کب سے پکا رہے ہو بولو شرط۔۔۔۔ہیام ہار منتی ہوٸی منہ دوسری طرف کرکے بیٹھ گی اور شہریار کو اس پر بہت پیار آیا۔۔۔
تم مجھے روز رات کو کافی بنا کر دو گی۔۔۔۔مجھے آپ کہو گی۔۔۔میرے کپڑے پریس کرو گی۔۔۔ناشتہ۔۔شہریار بولے جارہا تھا ہیام نے بیچ میں بولا۔۔۔
بس۔۔۔۔اپنے پاس رکھ لو سوری مجھے نہیں چاہیے۔۔۔وہ اسکی لمبی چوڑی فرماٸشی لسٹ کو اور بڑھتا ہوا دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔شہریار کا فون بجا
اور ہیام اسکے فون کو گھورتے ہوۓ کھڑی ہوگی تھی۔۔۔شام ڈھلنے کو تھی شہریار بھی اٹھ کر اسکے ساتھ چلنے لگا۔
۔اچھا بابا sorry for every thing
اب چلیں نیچے عفان کی کال آگی ہے۔۔۔ہیام اسے دیکھ کر مسکراتے ہوۓ ہہہہہہم کہتی نیچے اترنے لگے۔۔۔
ویسے تم نے جتنا مجھ سے سوری نہیں بلوایا اتنا خود سوری بولا ہے۔۔۔ شہریار پھر اپنے پچھلے آدھے گھنٹے کی بحث کو یاد کرتے ہوۓ مسکرانے لگا۔۔۔
اچھا بس اب نو مور سوری ختم۔۔۔ہیام بات ختم کرتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
شکر تمھیں عقل تو آٸی۔۔۔شہری ایک پکچر لیتے ہیں ساتھ۔۔۔اسنے پہلی بار ایسی فرماٸش کی۔۔۔
ہاں کیوں نہیں ایک کیوں دو لیتے ہیں شہریار ہنستے ہوۓ موباٸل نکال کر پکچر لینے لگا ہیام الگ الگ پوز بنا رہی تھی۔۔
بس کردو ایک پکچر کے نام پر میرا موباٸل فل کردیا تم نے۔۔۔وہ اسکی پکچر کی تعداد دیکھ کر کہنے لگا۔۔
گھر جا کر سب ڈیلیٹ ہوجاٸیں گی دیکھنا کوٸی اچھی نہیں لگے گی۔۔۔ہیام اپنی دکھی کہانی بتا رہی تھی۔۔۔
تم لڑکیاں بھی اک الگ پیس ہو کسی حال میں خوش نہیں ہونا۔۔۔اور وہ لوگ باتیں کرتے ہوۓ نیچے آگے جہاں سب ان کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
دادو اور باقی سب کہاں گے۔شہریار کے پوچھنے پر دانیال بول پڑا۔۔وہ لوگ چلے گۓ آپ لوگوں کا انتظار کرتے ہوۓ کون سی چھپن چھپاٸی کھیل رہے تھے جو واپس ہی نہیں آرہے تھے۔۔۔۔شہریار کو اب اپنی غلطی کا احساس ہوا کے باتوں باتوں میں لیٹ ہوگیا ہے اسے حیدرآباد کے لیے نکلنا تھا۔۔۔ہیام نظریں جھکاٸیں کھڑی تھی جہاں عفاف اور ایمان اسے چھیڑ رہی تھیں۔۔۔۔
اور سب گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوۓ۔۔۔جب دانیال نے کہا بھاٸی گھر جاتے ہی پکس بھیج دیجیے گا۔۔۔
بیس بیس روپے ایک تصویر کے۔۔۔پیسے جمع کرواٶ تصویر لو۔۔۔شہریار شوخ لہجے میں بولا۔۔۔
اللہ بھاٸی آپ نے تو بھتاخوری شروع کردی ہے شرم کریں۔۔۔۔کچھ سلطانہ ہاوس کا خیال کریں۔۔۔عفاف اپنے بھاٸی کی اس چالاکی پر اسے شرم دلانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
بھٸ اب کچھ بھی سمجھو تصویریں تو پیسے دینے کے بعد ہی واٹس اپ ہوگی۔۔۔
تو بھی شہری کن کنجوسوں سے کہہ رہا ہےیہ موٹا دانیال سو روپے ایک دن کے لے کر جاتا ہے ماموں سے پھر مجھ سے تجھ سے الگ لیتا ہے بھوکر پتہ نہیں کتنا کھاتا ہے۔۔۔محراب دانیال کے پول کھول رہا تھا۔۔
محراب بھاٸی وہ ہمارا حساب ہے آپ سب کے سامنے دانیال کی انسرلٹ نہیں کر سکتے۔۔۔دانیال پیچھے محراب کو دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔
اللہ دانیال اور وہ جو تم نے مجھ سے دو سو روپے لیےتھے اسکول جاتے ہوۓ کے میں لنچ بکس لانا بھول گیا۔۔۔وہ کون دے گا۔۔ہیام کو بھی اپنے پیسے یاد آگے
آپی اپنے بھاٸی سے کون پیسے واپس لیتا ہے اور وہ بھی وہ جو پیٹ میں گے ہو۔۔۔دانیال معصوم سی شکل بنا کر کہنے لگا۔۔۔
پیٹ نہیں بیٹا تیرا تو پورا مینہ بازار ہے۔۔۔۔جہاں بھرتے جاو بھرتے جاو جگہ پھر بھی رہتی ہے۔۔۔ایک ہم لوگ تھے دس روپے لے کر جاتے تھے اسکول اور تو پورے گھر سے پیسے جمع کر کے ایک دن میں پانچ سو روپے خرچ کر لیتا ہے۔۔محراب بھی شروع ہوگیا تھا۔۔
اب کیا کر سکتے ہیں بھاٸی آپ اینٹیک پیس ہیں تو۔۔دانیال کی بات پر سب کی ہنسی نکل گی۔۔۔۔اور ہنستے ہوۓ یہ دن بھی بیت گیا۔۔۔دانیال بول کر فورا گھر میں بھاگ گیا۔۔۔
تو رک میں بتاتا ہوں تجھے آیا بڑا اینٹیک پیس والا۔۔۔۔اور سب اندر چلے گۓ۔۔عفان اور عفاف باہر سے ہی مل کر گھر کے لیے نکل گے۔۔۔
************