کیا ہوا ہیام اتنی اپ سیٹ کیوں لگ رہی ہو۔۔۔ایمان کمرے میں آٸی تو ہیام ڈریسر کے پاس کھڑی خود کا جاٸزہ لے رہی تھی۔۔۔
محبت بھی بڑی بے رحم چیز ہے۔۔۔دوسرے کو خوش کرتےکرتے انسان خود ٹوٹ جاتا۔۔
نہیں ہوتا مجھ سے اب ۔۔۔دیکھا تم نے ایمان میں آج بلکل وہ بنی جیسا وہ مجھےدیکھنا چاہتا تھا مگر اسنے تو مجھے دیکھنا گوارہ نہیں کیا۔۔۔ہیام ایمان کے گلے لگ کر رونے لگی۔۔۔
کیوں اتنی بے بس ہوگی ہوں میں آخر کیوں۔۔۔میں اسے سوری بولنا چاہتی ہوں کوشش کی میں نے مگر وہ سنے تب نا۔۔۔
نہیں ہیام غصے میں ہے وہ ابھی یہ بات تو بھی جانتی ہے اور اس گھر میں موجود ہر شخص جانتا ہے شہریار تجھ سے محبت کرتا ہے مگر وہ ذرا الگ مزاج کا ہے اظہار نہیں کرتا بس۔۔۔
ہہہہہممم کیا باتیں چل رہی ہیں ہمیں بھی تو پتا چلے۔۔۔عفاف کمرے میں آٸی تو ہیام اور ایمان کو ایسے باتیں کرتے دیکھ مسکراتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
بس کچھ نہیں۔۔۔ہیام نے بات ٹال دی
اچھا جی ابھی مجھے اس گھر سے گے چوبیس گھنٹے نہیں ہوۓ تو آپ سب نے مجھے پرایا کردیا مجھ سے باتیں چھپانے لگے ہیں۔۔۔وہ بیڈ پر منہ بنا کر بیٹھ گی۔۔
ارے میری گڑیا ایسا کچھ نہیں ہے بس ہیام کہہ رہی تھی کہ محبت آسان نہیں ہوتی۔۔
ہاۓ سچی آپی لگ گیا پتا آپکو۔۔۔اسکا مطلب ہے ہوہی گی محبت ہمارے بھاٸی سے آپ کو۔۔۔
نہ نہ کرتے پیار تمہی سے کرگے۔۔۔
عفاف گانا گانے لگی اور تینوں مل کر ہنسنے لگی۔۔۔ہیام بھی کچھ پل کے لیے ہی سہی مگر اپنا غم بھول گی تھی۔۔۔
”بہنیں ایسی ہی ہوتی ہیں ہم ان سے لڑتے ہیں جھگڑتے ہیں مگر جب ساتھ ہوتے ہیں تو اپنا دکھ بھول جاتے ہیں۔۔۔بہت انمول رشتہ ہوتا ہے یہ بہنوں کا۔“
ویسے آپی آپس کی بات ہے ہوتی تو یہ محبت بہت ظالم ہے۔۔۔بہت ڈھیٹ لوگوں کا کام ہے یہ محبت کرنا۔۔۔اور افسوس کے ساتھ ہم ان میں شامل ہیں اور ایمان آپی بھی ہوجاٸیں گی کچھ دنوں ۔۔۔عفاف ہنستے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
سب سے پہلے تو عزت نفس کو گولی مار دو کیونکہ جب تک انا اور سیلف رسپیکٹ کو لے کر بیٹھیں تو محبت تو گی سمجھو ،عفاف بڑا سوچ سوچ کر بول رہی تھی۔۔۔
ایسا نہیں ہوتا اگر دونوں سمجھے ایک دوسرے کو تو انسان اپنی سیلف رسپیکٹ اور محبت کو ساتھ لے کر چل سکتا ہے۔۔مگر یہاں مسلہ یہ ہوتا ہے جسے ہم سیلف رسپیکٹ کہہ رہے ہوتے ہیں وہ دراصل ہماری انا ہوتی ہے اور اکثر لوگ یہ نہیں چاہتے کہ انکی انا کو کوٸی ٹھنس پہنچاۓ اور اسے سیلف رسپیکٹ کا نام دے دیتے ہیں۔۔ایمان نے بھی اپنی راۓ دی۔۔
بلکل ابھی تو نے کہا سمجھیں اور یہ مرد سمجھتے ہی کہا ہے بس سمجھانے آجاتے ہیں کہ پتہ نہیں کہا کے اینسٹاٸن ہیں۔۔۔ہیام بھی کیوں چپ رہتی اسنے بھی بول کر کسر نکال لی۔۔ہاں آپی کی شادی ہونے دو پھر پوچھوں گی آپ سے۔۔
اچھا آگے تو سنو بیچ میں روک کر سارا مزا خراب کردیا اب سنا بس۔۔عفاف نے سب کو چپ رہنے کا کہا اور پھر سے بولنے لگی۔۔۔
عزت نفس کو مارو،زخم کھاٶ، مسکراٶ اور سہہ جاٶ۔۔ عفاف نے جذبات سے بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی۔۔۔
لگتا عفان کے ساتھ بیٹھ کر کوٸی ناول پڑھا ہے۔۔ڈاٸلاگ مار رہی ہے ویسے جہاں سے بھی پڑھا ہے حقیقت ہے۔۔۔ہیام نے کہا کہی سے پڑھا نہیں ہے زندگی نے سیکھا دیا ہے۔۔عفاف بول ہی رہی تھی کہ دانیال آگیا۔۔۔
عفان بھاٸی تشریف لے آچکے ہیں دادو اور چاچی جان سب کو کھانے پر بلا رہی ہیں۔۔۔وہ موباٸل کو ماٸک کے طور پر استعمال کرتے ہوۓ اینکر کی طرح بول رہا تھا۔۔۔
موٹے لڑکیوں کے کمرے میں نوک کر کے آتے ہیں۔۔۔کتنی بار سمجھاٶ۔۔۔ہیام اسے ٹوکتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
اللہ ہیام آپی مارے تو نا میں بھاٸی کو بولوں گا۔۔۔دانیال اسے شہریار کے نام سے ڈرا رہا تھا جیسے وہ ڈر جاۓ گی۔۔۔
تم رکو ابھی بتاتی ہوں میں تمھیں بڑے آۓ بھاٸی کے سگے۔۔۔ہیام اس کے پیچھے کوریڈور میں بھاگ رہی تھی کہ اچانک شہریار سے ٹکر ہوٸی دانیال نیچھےبھاگ گیا۔۔اور ہیام پھنس گی تھی۔۔۔۔
کیا فضول حرکتیں کر رہی ہو۔۔۔شہریار اسے غصے میں دیکھ کر کہنے لگا وہ ہیام کو گھور کر دیکھتے ہوۓ پوچھنے لگا۔۔۔
عفاف سب ٹھیک ہے۔۔۔عفان۔۔! ایمان کی بات پوری ہونے سے پہلے عفاف بول پڑی۔۔۔
ہاں آپی سب ٹھیک ہےاور اگر کوٸی مسٸلہ بھی ہوا تو میں ٹھیک کردونگی آپ بھروسہ رکھیں۔۔
شاباش عفاف ایسے ہی ہمت سے کام لینا۔۔۔چلو نیچے چلتے ہیں تمھارے میاں جی بھی آگے ہیں
بولو اب۔۔۔۔ہیام خود کو جتنا چپ رکھنے کی کوشش کررہی تھی کے کہی کچھ غلط نہ بول دے ۔۔۔۔شہریار اور ناراض نہ ہوجاۓ۔۔۔مگر شہریار اسے بولنے پر مجبور کر رہا تھا۔۔۔
فضول حرکتیں نہیں انھیں ہنسنا کہتے ہیں ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مسکرانے کی وجہ ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔۔ورنہ تم نے تو کوٸی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔۔
واہ کل رات میں نے تماشا لگایا تھا کیا۔۔بنا سوچے سمجھے تم بولتی ہو ہیام اور الزام مجھے دے رہی ہو پہلے کسی کے ساتھ اچھا کرو تو اچھے کی امید بھی تب رکھنا۔۔۔۔شہریار نے بنا لحاظ کے بہت کچھ کہہ دیا تھا۔۔ہیام کو اپنے دل میں کچھ ٹوٹا محسوس ہورہا تھا۔۔
سامنے سے آتی عفاف اور ایمان ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر رک گی۔۔۔ہاۓ بھاٸی اور آپی ایک ساتھ کتنے اچھے لگ رہے ہیں نظر نا لگے۔۔۔عفاف ان دونوں کو بری نظر نا لگنے کی دعا دے رہی تھی۔۔۔
چلیں کھانا لگ گیا ہے۔۔شہریار نے کھانے کا کہہ کر وہی ٹوپک ختم کیا۔اور سب کھانے کی ٹیبل پر بیٹھے باتیں کرنےمیں مصروف تھے۔۔۔ٹیبل کو لذیز لوازمات سے سجایا گیا تھا۔۔۔۔
آنٹی اس تکلف کی کیا ضرورت تھی میں کوٸی غیر تو نہیں ہوں۔۔۔عفان کو عجیب لگ رہا ہے تھا کہ کوٸی اسے بار بار پوچھے اتنے پیار کی عادت کہا تھی اسے۔۔۔
بیٹا تم اس گھر کے فرد اور داماد ہو۔۔۔تکلف کی کیا بات ہے تم آرام سے کھاٶ۔۔۔
آنٹی یہی تو کہہ رہا ہوں داماد نہیں بیٹا بننا ہے۔۔جو بنے گا میں بھی سب کی طرح کھالونگا۔۔۔عفان بھی سلطانہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا۔۔۔
جیتے رہو خوش رہو۔۔۔اور اب یہ آنٹی کہنا بند کرو سب کی طرح دادو بولا کرو۔۔۔سلطانہ بیگم اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دینے لگی۔۔۔
ماشا۶اللہ اب مجھے لگ رہا ہے میں نے صحیح فیصلہ کیا ہے۔۔۔عفان بہت اچھا لڑکا ہے۔۔۔سلطانہ بیگم خوشی سے کہنے لگی چلیں سب کھانا شروع کریں۔۔۔
اماں کھانا شروع ہو اس سے پہلے میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔۔کلثوم بیگم نے بڑی ہمت سے کہنا شروع کیا۔۔۔
کلثوم کچھ ایسا نہ کہہ دینا کے سب کا کھانا حرام ہوجاۓ۔۔۔سلطانہ بیگم بھی بیٹی کی عادت سے واقف تھی۔۔۔
نانو ماما کی بات تو سن لیں۔۔۔ محراب اپنی ماں کی وکالت میں بولا۔۔۔
ہہہہہمممم کہو کلثوم کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔اماں میں ماضی میں کی گی ہر غلطی کی معافی مانگتی ہوں آپ سب سے اور سب سے زیادہ اپنی بھانجی ایمان سے میں نے ہمیشہ اسے نفرت کے دعوے کیا مگر یہ تو میرا اپنا خون ہے میں اس سے کیسے نفرت کر سکتی ہوں میں یہاں آپ سب سے معافی مانگتی ہو اگر میں نے آپ لوگوں کا دل دکھایا ہو۔۔ مجھے معاف کردیں
اماں میں آپ سے اور شہریار سے ایمان کا ہاتھ مانگتی ہوں اپنے بیٹے کے لیے کیا آپ اپنی انمول بیٹی مجھے دینگی۔۔۔میں وعدہ کرتی ہوں ایمان کو ہماری طرف سے کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پرے گا۔۔۔
کیسی باتیں کر رہی ہو کلثوم تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہے وہی کافی ہے۔۔۔اور محراب تو اپنا بچا ہے۔۔۔اور میری ایمان شادی کے بعد بھی ہماری آنکھوں کے سامنے رہے اس سے اچھی بات کیا ہوگی مگر مشورہ ضروری ہے۔۔۔
تو اماں دیر کس بات کی سب ساتھ ہیں آپ مشورہ کرلیں میں آج ہی اپنی بیٹی کا منہ مٹھا کردونگی۔۔۔۔
محراب ایمان کو دیکھ رہا تھا جو خاموش نظریں جھکاۓ بیٹھی تھی۔۔۔۔اچانک یہ سب ایمان کو نروس کر رہا تھا۔۔۔
ارے واہ دادو ایک اور شادی بڑا مزا آۓ گا میری طرف سے ہاں ہے۔۔۔دانیال خوشی خوشی اپنی رضامندی بتانے لگا اور سب اسکی بات پر ہنسنے لگے۔۔۔
آپ سب مجھ پر ہنس کیوں رہے ہیں۔۔۔دانیال ابرو اچکا کر پوچھنے لگا۔۔۔
ارے دانی دادو سب بڑوں سے مشورے کی بات کر رہی ہیں تو اپنی راۓ دینے لگ گیا۔۔۔عفاف جو اسکے برابر میں ہی بیٹھی تھی اسکا گال کھنچتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
اللہ آپی گال تو نہیں کھینچے۔۔۔اور ویسے بھی ہم ایک آزاد ملک کے رہنے والے ہیں ہم سب کو راٸٹ ہے اپنی راۓ دینے کا اور میں تو گھر کا سب سے چھوٹا بچا ہوں۔۔سب اسکی بات پر مسکرانے لگے۔۔
اب باتیں ہوگی ہوں تو آپ لوگ پوچھے بھی ہم سے۔۔۔میری طرف سے ہاں ہے محراب سے انتظار نہیں ہورہا تھا۔۔۔اسنے بھی پوچھنے سے پہلے ہی ہاں کہہ دیا۔۔۔ اور سب کے قہقہہ بلند ہوگے
تجھے بہت جلدی ہے شہریار اسے کمر پر ایک مکا مار کر ہنسنے لگا۔۔۔تب محراب کو پتا لگا کے کچھ غلط بول دیا ہے اور اسنےنظریں جھکا لیں۔۔۔
تو بتاٶ عفان ،حسن, محمود, سعدیہ, ندرت اور شہریار تم لوگ کیا کہتے ہو۔۔
اماں محراب اپنا بچا ہے نیک کام میں دیری کیسی سب نے اپنی رضامندی ظاہر کردی ایمان کے دل کی دھرکن تیز ہونے لگی۔۔۔
شہری تم بتاٶ بھاٸی ہو۔۔۔ آخری فیصلہ تمھارا ہوگا۔۔۔اور محراب نے ٹیبل کے نیچے سے شہری کا ہاتھ دبایا جس سے اسے کوٸی فرق نہیں پڑا۔۔اور وہ محراب کو آنکھیں دیکھنے لگا اور محراب اسے بڑی امید سے دیکھنے لگا کہ منع نہیں کردینا۔۔۔
ہاں دادو چلے گا یہ بھی کیا کر سکتے ہیں بھاٸی تو اپنا ہی ہے۔۔۔وہ مسکراتے ہوۓ محراب کو دیکھنے لگا اور محراب نے اسے بیٹھے بیٹھے گلے لگا لیا۔۔۔شکریہ یارا محراب کی خوشی کا کوٸی ڈھکانا نہیں تھا۔۔۔
مگر پہلے آپ آپی سے پوچھ لیں انکی مرضی کے بنا میں کچھ نہیں کروں گا۔۔۔شہریار ایمان کو دیکھنے لگا جو نظریں جھکاۓ بیٹھی تھی۔۔۔
ہاں ایمان بچے کہو تمھاری کیا مرضی ہے۔۔۔سب ایمان کے جواب کے منتظر تھے سب کی نظریں اپنی طرف دیکھ کر اسنے پھر نظریں چرالی۔۔۔
”جیسا آپ سب کو ٹھیک لگے نانو “ایمان نے ایک نظر محراب کی طرف دیکھا پھر نظریں چرالیں۔۔جو اسی کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔۔۔
چلیں اماں سب کی رضامندی ہوگی تو منہ مٹھا کریں اور سب کو کلثوم نے مٹھاٸی کھلاٸی ایمان اور محراب کا صدقہ نکالا۔اور ایمان کو گلے سے لگا کر پیار کیا جس پر وہ مسکرا اٹھی۔۔اور سب نے خوشگوار ماحول میں ہنسی خوشی کھانا شروع کیا۔۔۔۔
عفاف عفان کو کباب دو۔۔۔وہ تو کچھ لے ہی نہیں رہا ندرت نے داماد کی پلیٹ کھالی دیکھی تو بیٹی کو آنکھ دیکھا کر کہنے لگی۔۔
نہیں آنٹی میں لے لونگا۔۔۔عفان ندرت بیگم کو بریانی کی ٹرے آگے کرتے دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔
عفاف تو اپنے کھانے میں پھر مگن ہوگی تھی۔۔۔۔جب ندرت نے اسے پھر پکارا عفاف دو کچھ اسے کھالی پلیٹ میں چمچ گھوما رہا ہے سب اپنے کھانے میں مگن تھے۔۔
عفاف نے ماں کو ایک نظر دیکھا چمچ ہاتھ سے رکھا اور بریانی کی ٹرے اٹھا کر عفان کی پلیٹ میں بریانی ڈالنے لگی۔۔۔۔
لیجیے کھایا۔۔۔وہ ڈالتی جا رہی تھی۔۔
بس۔۔۔عفان نے آہستہ سے سرگوشی کی
نہیں نہیں لیجیے نا وہ اور چمچ بھر بھر کے عفان کی پلیٹ میں ڈال رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنی ہنسی چھپا رہی تھی عفان اسے گھور کر رہ گیا۔۔۔سب کے سامنےتو کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔۔۔
عفاف اسکی پلیٹ میں بریانی بھر کر اپنی چمچ اٹھانے لگی جو عفان نے جان بوجھ کر گرا دی۔۔۔ اور عفاف عفان کو گھور رہی تھی۔۔۔بدتمیز ہہہم اور چمچ اٹھا کر اوپر اٹھی تھی کہ عفان نے ٹیبل کے نیچے سے ہاتھ پکر لیا۔۔۔
عفاف کے کان میں بولنے لگا۔۔اب کھاٶ کھانا،اور عفاف اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی اور عفان مزے سے کھانا کھانے لگا۔۔۔کہ اچانک دانیال چلایا ”اٸیڈیا“ اور سب اسکی طرف متوجہ ہوگے۔۔عفان نے بھی عفاف کا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔کیونکہ عفاف دانیال کے برابر میں بیٹھی ہوٸی تھی تو وہ سب سے پہلے ڈر گی۔۔
کیا ہوا دانیال سعدیہ نے اپنے بیٹے کو غور سے دیکھتے ہوۓ پوچھا۔
ماما اتنی خوشی کا موقع ہے ہم سب مارگلہ چلتے ہیں بڑا مزہ آۓ گا۔۔وہ خوشی خوشی کہہ رہا تھا اور سلطانہ بیگم اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر مسکرانے لگی۔۔۔
تو یہ تم آرام سے نہیں بول سکتے تھے اتنی زور سے چلاۓ۔۔۔مجھے ابھی ہارٹ اٹیک آجاتا تو۔۔عفاف اسے دو تھپر لگاتی کہنے لگی۔۔۔
تمھارا بھاٸی ہے۔۔۔تم بھی تو بیٹھے بیٹھے چیختی رہتی ہو۔۔۔اور عفان کے ایسے کہنے پر عفاف نے اسے گھوری سے نوازہ۔۔
نہیں اچھا ہے تم سب گھوم آٶ۔۔۔۔سلطانہ بیگم نے جانے کی اجازت دی
لو ویو دادی۔۔۔مگر آج آپ بھی آٸیں گی فیملی پکنک۔۔۔دانیال خوشی خوش کہنے لگا۔۔۔
دادو ابھی کچھ دن پہلے ہی تو گے ہیں۔۔۔شہری نے گھومنے کا پلین سنا تو سلطانہ بیگم کو دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔کیونکہ اسے بھی ضروری کام سے جانا تھا۔۔۔
بھاٸی وہ جو اپ ہم پر کچھ دن پہلے گھومنے کا الزام لگا رہے ہیں اسے تین ماہ گزر چکے ہیں۔۔۔دانیال نے احتجاج کرتے ہوۓ بولا۔۔۔
پڑھنا تو تجھے ہے نہیں اپنی بہن کی طرح فیل ہونا ہے۔۔۔ہیام کب سے خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی مگر شہریار کا یا طنز اس پر تھا وہ جانتی تھی پھر بھی چپ چاپ کھانے میں خود کو مصروف ظاہر کیا۔۔۔
بھاٸی میرے پیپرز میں ٹاٸم ہے۔۔اور ہم کون سا ہفتے بھر کے لیے جارہے ہیں ابھی تین بجنے والے ہیں تھوڑی دیر میں نکلیں گے اور Sunset دیکھ کر واپس۔۔۔۔
چلیں نا بھاٸی ایسا کیا کرتے ہیں موسم کتنا اچھا ہورہا ہے۔۔۔بھاٸی دور دور سے لوگ یہاں آتے ہیں اس موسم کا لطف اٹھانے اور ہم گھر میں بیٹھیں ہیں۔۔
ایسا نہیں چلے گا دھڑنا ہوگا دھڑنا ہوگا۔۔۔آپ سب بھی بولیں میں اکیلی جان کس کس سے لڑوں۔۔وہ نکلی آنسو نکال کر کہنےلگا۔۔
اچھا بس اورایکڈینگ کی دکان۔۔۔۔چلیں کھانا تو ویسے بھی ہوگیا ہے سب ریڈی ہوجاٸیں۔۔۔آدھےگھنٹے میں نکلتے ہیں۔۔۔
*********
ماما مجھے نہیں جانا ہے میرا سیمیٹر ہے نیکسٹ ویک مجھے پڑھنا ہے۔۔۔ سب تیار ہوگے تھے مگر ہیام نے جانےسے انکار کردیا تھا وہ کتابوں سے سر مار رہی تھی۔۔
ندرت ایمان عفاف اسکے کمرے میں اسے سمجھا رہے تھے کہ شہریار آگیا۔۔۔
کیا ہورہا ہے یہاں۔۔۔وہ کہتا ہوا اندر آگیا۔۔۔شہری بیٹا تم ہی سمجھاٶ اسے آنے سے منع کر رہی ہے پیپرز ہیں کہہ رہی ہے۔۔۔
حیرت کی بات ہے۔۔۔شہری نے تعجب سے کہا تو ایمان اور عفاف اسے دیکھنے لگی اور اپنی ہنسی چھپانے لگی۔۔۔کیونکہ ہیام کبھی آوٹنگ کے لیے منع نہیں کرتی تھی۔۔
کیا حیرت ہے ہاں بولو۔۔۔ہر وقت آجاتے ہو کسی نے بلایا ہے تمھیں دادا ابو بن کر اور تم دونوں کیا کھکھی کررہی ہو جاٸیں آپ لوگ یہاں سے۔۔۔ہیام کو غصہ آنے لگا۔۔۔
اور ماماآپکو میں نے کہا تھا میرے پیپرز ہیں مجھے ٹیوٹر چاہیے ورنہ میں اپنی دوست کے گھر جاٶں گی۔۔۔
کوٸی ضرورت نہیں ہے۔۔ندرت کی جگہ شہریار نے کہا
ہاں شہریار صحیح کہہ رہا ہے۔۔۔ایک کام کرو نا شہری تم ہی اسے پڑھا دو ویسے بھی یونی میں بھی تم ہی پڑھاتے ہو۔۔۔
چاچی میرے پاس ٹاٸم نہیں ہے اور ویسے بھی اس پر پیسے خرچ کرنے کا مطلب ضاٸع کرنا ہے پاس تو اس بار بھی نہیں ہوگی۔۔۔شہریار ہیام کی آنکھوں میں دیکھ کر کہہ رہی تھی۔۔۔
شہری ایمان نے اسے آنکھیں دکھاٸی۔۔۔اچھا چاچی میں دیکھتا ہوں ٹاٸم ہوا تو ورنہ کوٸی اچھی ٹیچر رکھوا دونگا۔۔۔۔
ضرورت نہیں ہے اسکی بھی احسان کر رہے ہیں۔۔۔مجھے کسی کا احسان نہیں چاہیے۔۔ ہٹیں میرے کمرے میں آکر مجھے ہی باتیں سنا رہے ہیں۔۔۔وہ کمرے سے باہر نکل گی۔۔۔
کیا ہوا میری بچی کو ۔۔۔ سلطانہ بیگم ہیام کے پاس آٸی جو گارڈن میں گھٹنوں میں سر ٹکاۓ بیٹھی تھی۔۔۔
کوٸی پیار نہیں کرتا جس کا جو دل کرتا ہے بول دیتا ہے اور وہ آپ کا نواسا وہ تو ہاتھ منہ دھو کر میرے پیچھے پڑ گیا ہے۔۔مجھے بےعزت کرنے میں وقت نہیں لگاتا۔۔۔وہ دادی کی گود میں سر رکھ کر شہریار کی شکایت لگارہی تھی۔۔۔
نہیں میری جان ایسا نہیں ہے کون اپنی عزت کو بے نقاب کرتاہے وہ تو تجھے سب سے چھپا کر رکھنا چاہتا ہے تبھی تو اکیلے جانے نہیں دیتا۔۔۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پیار نہیں کرتا یا اسے تجھ پر اعتبار نہیں اسکا مطلب ہے وہ تمھاری حفاظت کررہا ہے۔۔کیونکہ وہ اس دنیا کو تجھ سے بہتر جانتا ہے وہ کوٸی جاہل نہیں ہے وہ تم لوگوں کو پڑھا بھی اس لیے رہا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے علم اور تعلیم ضروری ہے اگر وہ کوٸی کم نظر شخص ہوتا تو وہ کیوں پڑھاٸی میں پیسے ڈالتا۔۔میں ذیادہ پڑھی لکھی تو نہیں ہوں مگر میرا تجربہ بہت ہے لوگ بہت دوگلے ہیں اس دنیا کے تمھارے سامنے تمھارے اور پیٹ پیچھے تمھاری براٸی کرتے ہیں۔۔۔
تم ابھی چھوٹی ہو وقت لگے گا باتیں سمجھنے میں رشتوں کی نزاکت کو سمجھنے میں۔۔۔
جا شاباش تیار ہوجا آج تو دادی بھی ساتھ چل رہی ہے۔۔
دادو آپ سب مجھے سمجھاتے ہیں کوٸی اسے کیوں نہیں کہتا مجھ سے تمیز سے بات کرے۔۔ہر وقت اپنی مردنگی کا روعب جماتا ہے۔۔ہیام اپنی دادو کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
مرد مردنگی میں اچھا لگتا ہے۔۔۔کہنے کی باتیں ہیں سادہ مرد چاہیے لڑکیوں کو۔۔۔۔ وہ مرد اچھے لگتے ہیں جو ان کی سنے تو مگر کرے اپنی ہی۔۔۔تم اسے سمجھو تو میری بچی وہ تم سے مشوارہ بھی لے گا اور مانے گا بھی مگر کیا تم نے کبھی اسکی بات سنی اسے جاننے کی کوشش کی وہ کیا چاہتا ہے وہ پریشان ہے تو کیوں۔ میں نے تم دونوں کو جب سے وہ آیا ہے صرف لڑتے دیکھا ہے ۔۔ مرد ہر کسی کے سامنے آنسو نہیں بھاتے وہ روتے ہیں تو بھی اپنوں کے لیے اور دکھ بانٹتے بھی ہیں تو صرف ان سے جو اسکے دل کی بات سمجھے۔۔۔
میاں بیوی قلب آشنا کے ساتھی ہوتے ہیں۔۔مطلب سمجھتی ہو قلب آشنا سے مراد جو ہمارے دل کی ہر بات سے آشنا ہو۔ہم بولے نا اور وہ جان جاۓ۔خدا کے نزدیک یہ رشتہ بہت انمول ہوتا ہے۔۔۔۔ یہاں لفظوں کی ضرورت نہیں ہوتی بس دل ایک نظر کا منتظر ہوجاتا ہے۔۔۔ شہریار جو پیچھے کھڑا سب سن رہا تھا۔۔۔اور اپنی دادو کی باتوں پر کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔۔
دادو وہ مجھے مارتا ہے۔۔۔ہیام رونے والا منہ بنا کر کہنے لگی۔۔۔تم نے کوٸی حرکت کی ہوگی اس دن تم نے بھی تو بدتمیزی کی تھی۔۔دادی ہیام کو اسی کی غلطی یاد دلانے لگ گی۔۔
ٹھیک ہے تب میری غلطی تھی مگر۔۔۔ہیام کہنے لگی تھی کہ شہریار کھانسنے لگا۔۔۔وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ یونی والی بات بتاۓ گی وہ بولتی اسے پہلے ہی شہریار نے کھانس کر دونوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔
کیا ہوا شہری۔۔۔سلطانہ بیگم نے فکرمندی سے پوچھا
کچھ نہیں دادو چلیں دیر ہورہی ہے۔۔وہ ہیام کو ایک نظر دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔
ہاں چلو ہیام تیار ہوکر آٶ اور تم باقی سب کو بھی بولو باہر آنے کے لیے۔۔۔
جی کہتی وہ شہریار کے ساٸڈ سے نکل گی۔۔۔اور اسکے جاتے ہی شہریار دادی کو دیکھ کر ہنسنے لگا۔۔۔
بہت ساری شکایتیں کی ہیں ہیام نے۔۔۔ دادی شہریار کے کان کھنچتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
اور کام کیا ہے اسکا دادو۔۔۔۔اور میں نے آپ کو بھیجا تھا اسے ساتھ چلنے کے لیے مناٸیں اور آپ مجھے ہی ڈانٹ رہی ہیں۔۔وہ بیچارا سا منہ بنا کر کہنے لگا۔۔۔
تو تم خود جاتے تو اسے اچھا لگتا۔۔۔سلطانہ بیگم بھی اسی کی دادی تھی ہر سوال کا جواب ساتھ لے کر گھومتی تھی۔۔۔
کوٸی اچھا نہیں لگتا دادو اسنے پھر لڑاٸی اسٹارٹ کر دینی تھی۔ویسے دادی فلسفی تو اپ نے بہت اچھی بولی کہا سے سیکھی دادا جان سے ۔ہٹو بد تمیز نہ ہو تو ۔چلو باہر چلیں سب انتظار کر رہے ہونگے۔۔۔آپ چلیں میں آتا ہوں۔۔۔اور وہ فون اٹھا کر نمبر ملانے لگا۔۔۔۔
وہ سوچ رہا تھا۔۔۔منا تو لوں میں دادی مگر میں اسے اپنا عادی نہیں بنانا چاہتا۔۔۔اور عفان کے ہیلو پر وہ اپنی سوچوں سے باہر آیا۔۔۔
کیا بھاٸی تو تو سسرال والا ہوگیا ہے دوست کو بھول گیا۔۔۔شہریار نے اسے جتایا
چپ کر کہا ہے ضروری بات کرنی ہے مجھے ابھی۔۔عفان سیریس انداز میں بولنے لگا۔۔۔
اچھا آجا لان کے پیچھے والے حصے میں ہوں اور وہ ٹھیک ہے بولتا اگلے دو منٹ میں شہریار کے پاس تھا۔۔۔۔
ہاں کیا ہوا۔۔۔شہریار نے عفان سے پوچھا سب خیریت تو ہے نا بچے لڑکیاں ٹھیک ہیں۔۔۔
تو نے نیوز دیکھی عفان اسکی بات کو خاطر میں نا لاتے ہوۓ اپنا سوال کرنے لگا۔۔۔
نہیں نیوز نہیں دیکھی مگر جو خبر تو سنانے والا ہے وہ مجھے پتہ ہے فون آیا تھا مجھے خیر ہے عفان یہ ہم جانتے تھے اصلی خبر کبھی سامنے نہیں آۓ گی۔۔۔جہانگیر شاہ بہت پاورفل ہے۔۔۔ اسنے راتوں رات سب نشان مٹا دیا ہونگے۔۔۔
بچوں کو ڈھونڈنے کی بجاۓ ..شکار تو اسے اور بھی مل جاٸیں گے۔۔۔تو ٹینشن نہیں لے۔۔یہ بتا بچوں کو کسی صحیح جگہ شفٹ کیا۔۔۔شہریار عفان کا غصہ ڈھنڈا کرتا ہوا کہنے لگا۔۔۔
ہاں میں گیا تھا ایجینٹ ٢٩ اور ٣٦ کے ساتھ بچوں اور لڑکیوں کو حیدرآباد پہنچا دیا تھا۔۔۔کچھ لڑکیاں اور بچے جو سمجھنے کی حالت میں تھے انھیں ڈاکٹر ذاکر اور ڈاکٹر سدرہ نے سمجھانے کی دوا دینے کی کوشش کی مگر کچھ کی حالت بہت خراب ہے۔۔۔ عفان آج صبح کے ویزیٹ کی ڈیٹیل دے رہا تھا۔۔۔اور شہریار بہت تہمل سے سن رہا تھا۔۔۔
حیدرآباد میں انکے فل ٹریٹمینٹ کا انتظام ہوگیا ہے سب سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ ہونگے سب کے تجھے وہاں جانا چاہیے۔۔۔عفان نے اسے مشورہ دیا۔۔
ہاں مگر جہانگیر شاہ کو بھی شکل دیکھاٶ کہی شک نہ ہوجاۓ اسے۔۔۔۔ اور ہیام کے پیپرز ہیں اسکی تیاری کروانی ہے مجھے وہ سوچتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔
اوہوووو مجھے کہہ رہا ہے خود کیا بن گیا جوڑو کا غلام۔۔۔عفان اسے چھیرتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔۔اور شہریار اسے گھورنے لگا۔۔۔
ایسا کچھ نہیں ہے اسے بہت غلط فہمیاں ہیں بس دور کرنا چاہ رہا ہوں۔۔۔وہ ہیام کو سوچتے ہوۓ کہنے لگا
صحیح ہے صحیح ہے بہانا اچھا ہے یہ بھی عفان ہنستے ہوۓ کہنے لگا۔اور شہریار نے ایک مکا اسکے پیٹ پر مارا۔۔۔ اللہ
سالے کو مارنے کے جرم کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔دونوں ہنستے ہوۓ باہر آگۓ
جہاں سب تیار کھڑے پکس لے رہے تھے۔۔۔وہ دیکھو فوٹو سیشن چل رہا ہے۔۔عفان سامنے عفاف کو کبھی دانیال کے ساتھ تو کبھی ہیام اورایمان کے ساتھ تصویر لیتا ہوا دیکھ کر کہنے لگا۔۔
چل ہم بھی ساتھ مل جاتے ہیں۔۔۔ یہی یادگار لمحے ہوتے ہیں۔۔ میں چلا گیا تو پھر تو ایسے ہی یاد کرنا مجھے۔۔۔۔کیا فضول بول رہا ہے۔۔عفان اسے دیکھتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔
ارے کچھ نہیں ہر بات کو لے کر بیٹھ جاتا ہے چل ساتھ۔۔۔شہریار عفان کو کہتا ان سب کے پاس پہنچ گیا۔۔
چلو سب آجاٶ سب فیملی پیکچر لیتے ہیں۔۔
بھاٸی بہت اچھی پکچر ہیں۔۔۔چلیں اب باقی وہاں لیں گے اور سب گاڑی میں سوار ہوگے۔۔۔ایک گاڑی میں سب بارے بیٹھے تھے اور حسن صاحب گاڑی چلا رہے تھے۔۔۔۔
باقی سب شہریار کی گاڑی میں بیٹھ گے اور گاڑی مارگلہ ہیلز کی طرف رواں تھی۔۔۔۔ سب باتیں کرتے ہنستے گاتے ہوۓ جارہے تھے۔۔شہریار بیک مرر سے ہیام کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
جیسے ہی ہیام نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو شہریار مسکرانے لگا۔۔۔اور ہیام نے منہ کھڑکی کی طرف کرلیا۔۔۔
بھاٸی پہاڑ کتنے اچھے لگ رہے ہیں نا ایسا لگ رہا ہے کسی نے سفید چادر بچھا دی ہو۔۔۔۔دانیال قدرت کے حسین مناظر دیکھ کر لطف اندوز ہورہا تھا۔۔
شہریار نے سیفٹی سے کار پارک کی اور سب گاڑی سے اتر کر اس حسین شام کا مزا لینے لگے۔۔۔۔۔۔ ہلکی ہلکی ہواٸیں چل رہی تھی۔۔۔ سعدیہ بیگم سلطانہ بیگم کا ہاتھ پکر کر کھڑی تھی۔۔
بہت سے لوگ اس خوبصورت مناظر کو دیکھنے آۓ ہوۓ تھے۔۔۔۔
بھاٸی اچھی سی تصویر تو لے دیں اور ایمان ہیام اور عفاف پوز بنا کر کھڑی ہوگی۔۔۔
آٶ عفان تمھاری اور عفاف کی لیتا ہوں ایک پکچر۔۔۔عفاف عفان کو دیکھنے لگی۔۔۔ اور شہریار نے ان دونوں کی الگ الگ پوز میں کچھ تصاویر لیں ۔۔۔۔۔
اب تو جا ہیام بھابھی کے پاس میں لیتا ہوں۔۔۔عفان شہریار کے کان میں کہتا ہوا مسکرانے لگا۔۔۔
بھابھی ۔۔۔۔ واہ اچھا ہے وہ بھی شوخی میں بولتا ہوا ہیام کے پاس آیا۔۔۔مجھے نہیں لینی کوٸی پکچر ہٹلر کے ہاتھ۔۔وہ دونوں ہاتھ بازو پر باندھ کر کہنے لگی۔۔۔۔
مرضی ہے یہ موقع بار بار نہیں ملتا۔۔۔وہ بھی ہیام کی نا پر جانے لگا منت کرنے والوں میں سے تو تھا نہیں شہریار حسن۔۔۔۔
ارے بھاٸی کہاں جا رہے ہیں آپ ہیام آپی کھڑی رہیں یہاں۔۔۔وہ ہیام کو شہریار کے پاس کھڑا کر کے عفان کے پاس چلی گی۔۔۔
اپ پکچر لیں نا جلدی۔۔۔عفاف کیمرے میں ہیام اور شہری کو دیکھتے ہوۓ عفان سے کہہ رہی تھی۔۔۔
اب تم مجھ پر حکم چلاٶ گی۔۔عفان اسے بغور دیکھتے ہوۓ کہنے لگی۔۔۔
میں تو بس کہہ رہی ہوں جلدی لیں وہ لوگ پھر لڑنا شروع کردیںنگے۔۔۔وہ عفان کی آنکھوں میں دیکھتی ہوٸی معصومیت سے کہہ رہی تھی۔۔۔۔عفان اسکی آنکھوں میں دیکھ نہیں سکا اور ہیام اور شہریار کی تصویر لینے لگا۔۔۔
آپی مسکراٸیں ایسا لگ رہا ہے جیسے بھاٸی نے مار کر بیٹھایا ہے تصویر لینے کے لیے۔۔۔
تصویروں کے بعد سب آرام سے چل رہے تھے۔۔۔ عفان
عفاف نے پکارا اور اسکی آواز پر رک گیا سب آگے بڑھ گے تھے۔۔۔۔
کیا ہوا....عفان عفاف کے پاس آکر پوچھنے لگا۔۔۔کان اگے کریں عفاف اسے ہاتھ کے اشارے سے کان آگے کرنے کوکہہ رہی تھی۔۔
کیوں دماغ سیٹ ہے۔۔۔وہ عفاف کی بے تکی بات پر جھڑک کر کہنے لگا۔۔۔
افففف کاٹوں گی نہیں جو ایسے ڈر رہے ہیں۔۔۔۔ آٸیں نا پلیز
ایسے ہی بولو جو بولنا ہے۔۔۔ورنہ میں جا رہا ہوں۔۔عفان بولتا ہوا مر گیا۔۔۔۔
اچھا سنیں۔۔ وہ بلکل آرام سے بول رہی تھی۔۔۔میری فیملی کو ہمارے ریلیشن کے بارے میں نا پتا چلے مطلب آپ کو مجھے جو بولنا ہے گھر جا کر بول لیجیے گا۔۔۔مگر یہاں نہیں انھیں لگنا چاہیے کے میں آپکے ساتھ بہت خوش ہوں پلیز میں نے آپ سے اب تک کچھ نہیں مانگا میری یہ بات مان لیں۔۔۔۔وہ آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔۔۔عفان نے اسکی بات غور سے سنی۔۔
ویسے تم جتنی بےوقوف لگتی ہو اتنی ہو نہیں۔۔۔مگر اس سے میرا کیا فاٸدہ مجھے کیا ملے گا۔۔۔وہ اسکی بات سمجھ گیا تھا اور وہ بھی ایسا نہیں تھا کہ کسی کے سامنے کچھ کہتا۔۔۔۔وہ عفاف کی بات پر اسے تنگ کرنے لگا۔۔۔
کیا چاہیے آپ کو عفاف ڈر کر پوچھنے لگی کہ کہی کوٸی مشکل چیز نہ مانگ لے۔۔۔میں آپکو روز آپ نے ہاتھ کا کھانا کھلا دونگی۔۔۔عفاف نے سوال کے ساتھ جواب بھی دے دیا
اللہ معاف کرے اتنی بڑی سزا نہیں چاہیے مجھے۔۔۔عفان کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔۔رہنے دو تم تمھارے ہاتھ کا کھانے سے میرا ہضمہ خراب ہوجانا ہے چلو اب سب بہت آگے نکل گے ہیں۔۔۔
ابھی تھوڑا ہی چلے تھے کہ عفاف کا پاٶں مر گیا اور وہ نیچے گر گی۔۔۔۔ہاۓ اللہ جی عفاف پاٶں پکر کر رونے جیسی آواز میں کہنے لگی۔۔۔
ایک تو تم عفاف گرتی پرتی رہتی ہو یہ جگہ بہت پسند ہے تمھیں جب بھی آتی ہو نانی ماں کا گھر سمجھ کر سو جاتی ہو۔۔۔وہ عفاف کو گرا ہوا دیکھ کر کہنے لگا
اب آپ مجھے باتیں سناٸیں گے یا اٹھاٸیں گے بھی۔۔۔عفاف اسے گھورتی ہوٸی کہنے لگی۔۔۔
اب یہ سب بھی مجھے کرنا ہے۔۔۔عفان اسے ہاتھ دیتا ہوا کہنے لگا۔۔۔
نہیں دادا ابو آٸیں گے مجھے اٹھانے آرام سے اٹھاٸیں پھر گر جاٶں گی تو پاٶں سے چلنے کے قابل بھی نہیں رہوں گی۔۔۔ پھر آپکو۔۔۔عفاف جملہ ادھورا چھوڑ کر ہنستے ہوۓ بھاگنے لگی۔۔۔
جھوٹی۔۔۔ایک نمبر کی ڈرامہے بازہے۔۔۔اور عفان اسکی حرکت پر مسکراتے ہوۓ آگے بڑھنے لگا۔۔۔
**********