سلطانہ بیگم نے جھک کر ہیام کو اٹھایا۔۔
یہ کیا ہورہا ہے یہاں۔۔۔وہ بوڑھی ضرور ہوٸی تھیں مگر آج بھی سلطانہ ہاوس میں انکی ہی سنی اور مانی جاتی تھی۔۔۔
شہریار تمھیں ہاتھ اٹھانے کا حق کس نےدیا ہے۔۔۔سلطانہ بیگم روعب سے بولی۔۔۔
ہاں میری بیٹی گری پڑی نہیں ہے جو تم اسکےساتھ کچھ بھی کرو اور ہم چپ رہیں۔۔۔
یہ اس لڑکی نے کان بھرے ہونگے۔۔۔یہ تو ہے ہی۔۔۔کلثوم کیوں پیچھے رہتی وہ بھی آگی جلتی پر پیٹرول کا کام کرنے۔۔۔
بس!!!! شہریار دھاڑا۔۔۔بہت ہوگیا۔ یہ صرف لڑکی نہیں ہے انکا نام ہے شاٸد آپ بھول گی ہیں۔۔۔ایمان جنید شہریار جنیدکی سگی بہن۔۔ہیام حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔سب حیران تھے۔اور جب تک میں زندہ ہوں اپنی بہن پر حرف نہیں آنے دونگا۔آپ شاٸد بھول گی ہیں خالہ مگر ہم آپکی سگی بہن کے بچے ہی ہیں۔۔۔
تم ان سب میں مجھے کیوں گھسیٹ رہے ہو۔۔۔۔کلثوم بیگم شہریار کو غصے میں دیکھ کر پھر بولی۔۔۔
بنا سوچے سمجھے کچھ بھی بول دیتے ہیں یہ سوچے بنا کے سامنے والا بھی انسان ہے۔۔۔۔ اسے بھی دکھ تکلیف ہوتی ہے۔۔۔
دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے خود کو بھی دیکھ لینا چاہیے۔۔وہ کلثوم اور ہیام کو دیکھتے ہوۓ بولا۔۔۔
یہ تم مجھے کیوں لارہے ہو بار بار۔۔۔اپنی بیوی کو کچھ نہیں بول نہیں سکتے تو مجھے بول رہے ہو بڑوں کی تمیز رہی ہی نہیں ہے یہ تربیت کی سعدیہ تم نے اسے بہتر تو فاطمہ کے پاس ہی رہنے دیتی۔۔جیسی ماں۔۔ابھی کلثوم اور کچھ بولتی شہریار پھر دھاڑا بس کردیں بس۔۔۔۔
وہ مر چکی ہیں اب تو بخش دیں آپ انھیں۔۔۔ آپ دوسروں کو بولنے والی خود کیا ہیں۔۔۔ آپ کو ہمیشہ وہ پسند آیا جو امی کو پسند تھا اور وہ آپ کو سب دے دیتی تھی مگر افسوس عادت سے مجبور آپ نے تو میرے باپ کو بھی نہیں چھوڑا اور اپنی بہن سے اسکا شوہر مانگ لیا وہ بھی شادی شدہ ہونے کے باوجود۔۔آپ نے محبت کی وہ آپ کو نہ ملی مگر وہ صحیح میری امی نے محبت کرلی اور وہ انھیں مل گی تو وہ دنیا بدترین لڑکی بن گی۔۔۔
آپ اپنی سگی بہن سے ذندگی بھر حسد کرتی رہی۔۔۔۔اور اب وہ نہیں ہیں تو آپ میری بہن پر انگلی اٹھا رہی ہے۔۔۔میں ان بھاٸیوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی بہنوں سے بے خبر رہتے ہیں۔۔۔میں اپنی بہن کے ساتھ نہ ہوکر بھی اسکی حفاظت کرسکتا ہوں۔۔۔آپ کے بیٹے نےمحبت کی وہ اپکی بات نہیں سن رہا اس میں بھی میری بہن کی غلطی جب کے میری بہن ان سب سے ناوقف تھی۔۔۔سب کھڑے شہریار کو دیکھ رہے تھے۔۔کچھ حیران تو کچھ پریشان۔۔۔
آپ کو آپکی محبت نہیں ملی اللہ کی مرضی ہوگی اس میں بھی کوٸی آپ کو چاچو جیسے شوہر ملے جنھوں نے ہمیشہ آپ سے پیار کیا مگر آپ نے ان کی بھی قدر نہیں کی۔۔۔آپ کے ساتھ جو ہوا اپنے بیٹے کے ساتھ نہ ہونے دیں تاریخ کو پھر سے نا دھرایں خالہ۔۔کلثوم بیگم آنکھ میں آیا آنسو صاف کرکے وہاں سے چلی گی۔
”آٸینہ ہی تو دیکھایا تھا ہم سب سے جھوٹ بول سکتے ہیں مگر ہم خود تو جانتے ہیں ہم کیا ہیں اور پھر جب کوٸی آٸینہ دیکھا دے تو ہم برداشت نہیں کرسکتے“ ۔۔
اور محراب جو چپ کھڑا سب سن رہا تھا ماں کے پیچھے بھاگا۔۔۔مگر کلثوم بیگم دروازہ بند کر کے وہی بیٹھ کر روتی رہی۔۔۔سالوں کا کرب غصہ ندامت سب آج اسے رلا رہی تھی۔۔
کبھی کبھی چھوٹے بھی ہمیں وہ باتیں بتا اور سیکھا دیتے ہیں جو بہت بڑے علما نہیں سیکھا پاتے۔۔۔
آخر ایسا کیا ہوا ہے شہریار جو اتنی تلخ باتیں لے کر بیٹھ گے ہو کیوں ماضی کو کھرید رہے ہو جبکہ اسی دن طے ہوگیا تھا جب تمھیں اس دنیا میں آۓ دس گھنٹے بھی نہیں ہوۓ تھے۔۔۔میں نے خود تمھیں فاطمہ کی گود سے سعدیہ کی جھولی میں ڈالا تھا۔۔۔ وہ تو سعدیہ اور حسن نے بتانا بہتر سمجھا تو بتادیا۔۔اب کیوں لے کر بیٹھ گے ہو آخر ہوکیا رہا تھا یہاں پر تھپر کیوں مارا ہیام کو۔۔سلطانہ بیگم شہریار کا یہ روپ دیکھ کر ڈر گی تھی۔۔اسلیے پھر سے مدے پر آٸی۔۔
آپ خود ہی اپنی لاڈلی سے پوچھ لیجیۓ گا۔۔وہ ہیام کو غصے سے دیکھتا ہوا ساٸڈ سے گزرتا نکل گیا۔۔
ہیام بولو کیا ہوا ہے۔۔۔ہیام رونے لگی تھی۔۔اس سے کچھ بولا ہی نہیں جارہا تھا۔۔۔وہ سر جھکا کر کھڑی ہوگی۔۔۔
وہ نانو ان لوگوں کے بیچ جھگڑا ہوگیا ہے اپ لوگ فکر نہ کریں میں دیکھ لیتی ہوں۔۔آپ سب جاکر سو جاٸیں اور سلطانہ بیگم وہاں سے چلی گی۔۔باقی سب بھی آہستہ آہستہ چلے گٸے۔۔۔۔ پتا نہیں کیا ہوگیا ہے آجکل کے بچوں کو ماں باپ سے تو کچھ شٸیر کرنا ہی نہیں ہوتا۔۔۔ندرت بیگم جاتے جاتے ایمان اور ہیام دونوں کو دیکھ کر بولتی کمرے سے چلی گی۔۔۔اور ایمان نے دروازہ بند کیا ہیام وہی گر کر رونے لگی۔۔
**********
عفان بیڈ صحیح کرکے سونے لگا۔۔۔ آپ یہاں کیوں سو رہے ہیں۔۔عفاف لوشن لگا کر اسکے پاس آکر کہنے لگی۔۔۔
لوگ بیڈ پر ہی سوتے ہیں تم کچن میں سوتی تھی کیا۔۔ عفان اسکے الٹے سوال پر الٹا جواب دینے لگا۔۔
میرا مطلب ہے جیسے ہماری شادی ہوٸی ہے ویسا اگر ناول میں ہوتا تو شوہر جاکر صوفے پر سو جاتا۔۔مگر آپکے کمرے میں تو صوفہ ہی نہیں ہے۔۔عفاف معصومیت میں بولنے لگی۔۔
عفان اسکی بات پر مسکراہٹ چھپاتا کہنے لگا۔۔اب اس کمرے میں تو نہیں مگر باہر تین صوفے ہیں جس میں کمفرٹیبل لگے سو جاٶ۔۔۔اور اگر مزا نہ آۓ تو دو چھوٹے صوفوں کو ملا کر کشتی بنا کر سو جانا بچپن کی یادیں تازا ہوجاٸیں گی۔۔۔
ایسا تھوڑی ہوتاہے یہ سب تو شوہر کرتا ہے نا۔۔عفاف منہ بنا کر کہنے لگی۔۔۔
جی نہیں عفاف بی بی یہ سب وہ کرتا ہے جسکی خواہش پوری ہوٸی ہو۔۔اور مجھ سے شادی کا شوق تمھیں تھا تو اسلیے باہرتم سو گی اور اگر باہر مزہ نہیں آتا تو زمین پر سو جاٶ۔۔۔وہ عفاف کی طرف تکیہ پھینک کر خود کمبل میں گھس کر سو گیا۔۔اور عفاف اسے دیکھ کر پاٶں پٹک کر باہر جانے لگی۔۔جب عفان کی آواز کمبل میں سے آٸی لاٸٹ بند کرکے جانا۔۔۔اور عفاف جل کر زور سے دروازہ بند کرکے نکل گی۔۔
کشتی بنا کر سو جاٶ ایسا کون کرتا ہے وہ پچھلے بیس منٹ سے کرواٹیں بدل رہی تھی مگر نیند ہی نہیں آرہی تھی۔۔۔کبھی اکیلے سوٸی بھی نہیں تھی اسے ڈر بھی لگ رہا تھا آیتہ الکرسی پڑھ پڑھ کر دم کر رہی تھی۔۔۔ ایک دم سے پلیٹ گرگی اور عفاف چیخ چیخ کر بیڈروم کا دروازہ دھڑم سے کھولتی کمبل میں جا کر چھپ گی۔۔۔
عفان بھی اسکی چیخ اور اچانک سے کمبل میں گھسنے کی وجہ سے ڈر گیا تھا۔۔۔
کیا ہوا ہے۔۔وہ کمبل ہٹانا چاہ رہا تھا مگر عفاف نے اتنا ڈاٸٹ پکرا ہوا تھا کہ چھوڑ ہی نہیں رہی تھی۔۔۔۔ اور عفان کو اپنی نیند خراب ہونےکا غصہ آرہا تھا۔۔۔۔
عفاف منہ سے کمبل ہٹاٶ۔۔۔ عفان نے غصے میں بولا تاکہ وہ کمبل ہٹا دے اور ایسا ہی ہوا وہ ڈرتے ہوۓ کمبل ہٹا کر عفان کو دیکھنے لگی۔۔۔
کیا تھا یہ سب۔۔۔عفان ابرو اچکا کر پوچھنے لگا۔۔وہ میں باہر کوٸی ہے۔۔اتنی زور سے آواز آٸی میں ڈر گی۔۔۔کون ہے باہر عفان نے پھر پوچھا۔۔ پتا نہیں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔وہ کہہ کر پھر کمبل میں منہ ڈال کر سو گی۔۔۔
عفان ایک نظر اسے دیکھ کر باہر دیکھنے گیا۔۔مگر پلیٹ گری دیکھ کر اپنی بیوی کی اور ایکٹینگ پر غصہ اور ہنسی انے لگی تھی۔۔۔پاگل ہے پوری اورایکٹینگ کی دکان۔۔۔وہ بربراتا ہوا واپس روم میں چلا گیا۔۔
چلو اٹھو کچھ نہیں ہے۔۔۔پلیٹ سرک کر گرگی تھی وہ اندر آکر بول رہا تھا اور وہ میڈم منہ پر کمبل ڈال کر سو چکی تھی۔۔۔ جب دو منٹ تک جواب نا ملا تو وہ ہلکا سا کمبل ہٹاکر دیکھنے لگا۔۔اور عفاف میڈم خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی۔۔
عفان اسے بغور دیکھ رہا تھا جو اسکے بیڈ پر تکیے پر پورے حق سے سوٸی ہوٸی تھی۔۔۔وہ بھی خاموشی سے چند منٹ اسے دیکھ باہر چلا گیا۔۔۔