عفاف روم میں داخل ہوٸی تو پورے کمرے میں بدبو پھیل گی تھی۔۔۔دھواں دھواں بھی پھیلا ہوا تھا۔۔۔ وہ کھانسنے لگی۔۔۔۔
کیوں آٸی ہو یہاں تم۔۔۔عفان نے اسے غصے میں گھورتے ہوۓ دیکھ کر کہا۔۔اور پھر سگریٹ کا دھواں اڑانے لگا۔۔۔یہ شاٸد عفان کا جم روم تھا جہاں اسکے ورزش کی مشین ایک چٸیر جس پر ابھی وہ بیٹھا تھا۔۔۔۔اور ایک ٹیبل پر ایش ٹرے پڑا ہوا تھا جو سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھر گیا تھا۔۔۔
عفان آپ اسموکنگ کیوں کر رہے یہ انسان کو کھوکلا کر دیتی ہے۔۔۔۔عفاف بولتے ہوۓ قریب آنے لگی۔۔۔اور عفان کا قہقہ ذور سے پورے کمرے میں گونجا اور عفاف ڈر کر دو قدم پیچھے کو ہوٸی۔۔۔
عفاف بی بی ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔۔وہ چلتے ہوۓ عفاف کے پاس آرہا تھا اور وہ ڈر کے مارے اپنے قدم پیچھے کرتی جارہی تھی۔۔۔اور دیور سے ٹکرا گی۔۔عفان اسکے قریب دو انچ کے فاصلے پر کھڑا تھا۔۔
تم نے غلط کیا میری چاہ رکھ کر میں اندر سے کھوکھلا ہی ہوں کچھ نہیں ہے میرےاندر اسلی مجھ سے اچھے کی امید مت رکھنا۔۔۔عفاف اسکے منہ سے نکلتی سگریٹ کی بدبو باخوبی محسوس کر سکتی تھی۔۔
عفان کا فون بجا۔وہ کہہ کر رکا نہیں۔فون اٹھا کر باہر نکل گیا۔۔۔۔
کیا۔۔۔؟کب کہاں کیسے ٹھیک تو ہے نا وہ۔۔۔جی سر وہ تو آپ کو بتانے ہی نہیں دے رہے تھے۔۔۔میں نے ابھی ان کو دواٸی دی ہے زخم بھی نہیں دیکھا رہے ہیں۔۔۔فون کی دوسری طرف آدمی بولے جا رہا تھا۔۔۔ٹھیک ہے تم خیال رکھو میں آرہا ہوں۔۔اوروہ گاڑی کی چابی اٹھا کر نکل گیا۔۔۔
***********
میں ٹھیک ہوں عفان تیری آج شادی ہوٸی ہے تو جا عفاف کا خیال رکھ۔۔شہریار کے کہنے پر اسے یاد آیا کے عفاف کو بنا بتاۓ گھر سے نکل گیا تھا۔۔۔
چپ رہ تو گولی لگی ہے نکالنے کیوں نہیں دےرہا تھاکسی کو۔۔۔خدا نا کرے انفیکشن پھیل جاتا تو۔۔۔عفان فکر مندی سے کہتا ڈراٸیو کر رہا تھا۔۔۔۔۔
عفان مجھے ان زخموں کا دکھ نہیں ہے۔۔۔میرے سامنے دو بچے جل کر مر گے اور میں کچھ نا کر سکا۔۔۔یہ چیز مجھے مارنے کے لیے کافی ہے۔۔۔
شہری ہم جب گھر سے نکلتے ہیں تو کیا ہمیں پتا ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ گھر جابھی پاٸیں گے۔۔۔زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں شہری۔۔۔وہ گھر کے پورش میں گاڑی روکتا اسے دیکھ کرکہنے لگا۔۔۔
میں آٶ چھوڑنے اندر ۔۔۔۔عفان گاڑی سے نکل کر اسے لے کر اندر جانے لگا۔۔
نہیں تو گھر جا۔۔۔یہاں کسی نے دیکھا نا تو سب سے پہلے یہی کہے گے ایک دن کی دلہن کو چھوڑ کر آگیا جا تو۔۔۔عفان اسے دروازے پر چھوڑ کر چلا گیا اور شہریار نارمل انداز میں سڑھیاں چڑھ کر ایمان کے کمرے کی طرف جانے لگا۔۔۔
دوسرے نوک پر ہی ایمان نے روم کھولا شہریار کو دیکھ کر حیران ہوگی۔۔۔
کیا ہوا شہری سب ٹھیک ہے نا تم اس وقت۔۔۔ایمان پریشانی کے عالم میں اسے پوچھنے لگی۔۔۔۔
آپی اندر آجاٶ۔۔۔شہریار کے چہرے پر تھکاوٹ صاف واضح تھی۔۔اسکی شرٹ بھی رگر کی وجہ سے پھٹ گی تھی۔۔۔ایمان اسکی حالت دیکھ کر اسے اندر آنے کا کہہ دیتی ہے اور خود بھی اس کے پاس بیڈ پر آکر بیٹھ جاتی ہے۔۔۔
کیا ہوا میرے بھاٸی کو تھکا تھکا سا لگ رہا ہے۔۔ہیام سے جھگڑا۔۔۔ایمان شہریار کے چہرے کو بغور دیکھ رہی تھی۔۔۔
نہیں آپی بس امی ابو کی بہت یاد آرہی ہے۔۔۔اسلیے آپ کے پاس آگیا۔۔وہ ایمان کا ہاتھ پکڑ کر بولنے لگا۔۔۔شہریار رو رہا تھا ایمان نے اسے بہت کم روتا دیکھا تھا۔۔۔وہ اوپر سخت دیکھنے والا مضبوط جسامت کا مالک کتنے نرم دل کا تھا بہت کم لوگ جانتے تھے۔۔۔کیونکہ وہ ایک الگ مزاج کا آدمی تھا جسے ہر کوٸی نہیں سمجھ پاتا تھا۔
وہ اپنے ایکسپریشن چھپانا باخوبی جانتا تھا۔۔
”شہری ماموں ممانی نے کبھی تمھیں ماں باپ کی کمی محسوس تو نہیں ہونے دی ہمیشہ تمھاری بات کا مان رکھا۔۔“
۔ہاں آپی مجھے کبھی نہیں محسوس ہونے دیا۔مگر آج جب وہ بچے میری آنکھوں کے سامنےجل رہے تھے تو مجھے امی ابو کی بہت یاد آٸی۔۔۔
آپی موت بر حق ہے جب کوٸی اپنا مرتا ہے تو صبر آہی جاتا ہے۔۔۔مگر جب کوٸی اپنا گھر سے نکلے اور واپس نا آۓ تو ماں باپ کو چین نہیں آتا۔۔۔جیسے آپ تین دن تک نہیں آٸی تھی مجھے امی کی تکلیف کا اب پتا چلا انسان روز مرتا اور جیتا ہے اور اگر غاٸب ہونے والی لڑکی ہوتو ماں باپ جیتے جی مر جاتے ہیں۔۔۔جب کے اس میں نا تو بچی کا قصور ہوتا ہے نا ہی ماں باپ کا۔۔۔ایمان اسکی بات پر آنسو نا روک سکی۔۔وہ بات جو اس گھر میں کسی نے نہیں کی آج اسکا سگا بھاٸی کر رہا تھا۔۔۔
یہ دنیا بہت ظالم ہے۔۔۔شیطان بستے ہیں انسانوں کے روپ میں۔۔۔ہم کچھ نہیں بھولتے اپی اور نا یہ دنیا ہمیں کچھ بھولنے دیتی ہے۔۔۔ہم بس خود کو دھوکہ دیتے ہیں سب ٹھیک ہے۔۔۔مگر اندر ایک الگ ہی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں اور یہ جنگ بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے
شہریار اس کے کندھے پر سر رکھے آنسو بہا رہا تھا۔۔۔۔۔ایمان کے آنسو بھی نکل رہے تھے یہ تھی بھی ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ۔۔۔جس سے نا چاہتے ہوۓ بھی ہم سب نظریں چرارہے تھے۔۔۔
آپی ہمارے یہاں اگر بچا مدرسہ اسکول نہ جاۓ تو زبردستی بھیجا جاتا ہے مار کے ڈانٹ کر بھجتے ہیں۔۔۔مگر کوٸی اپنے بچے سے نہیں پوچھتا آخر وجہ کیا ہے۔۔۔۔کبھی نہیں سوچتے کے شاید اسکے ساتھ کچھ غلط ہورہا ہو۔۔۔شاید کوٸی اسے۔۔۔وہ اپنے آنسو پونچتا ایمان کی گود میں سر رکھ کر بولنے لگا۔۔۔۔۔
اپی آپ کو پتہ ہے لوگ کہتے ہیں لڑکیاں باہر محفوظ نہیں ہے ۔۔۔میں پوچھتا ہوں بچیاں اپنے گھروں کون سا محفوظ ہیں آپی جو ہر روز ایک نیا کیس درج ہوتا ہے نا ان میں سے ادھے سے ذیادہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو گھر کے ہوں ماما کاکا چاچا کا بیٹا یا چوکیدار باورچی مالی ہوتے ہیں اور آپکو پتہ ہے اس دنیا کے ہر اک کونے میں انسانی جسم میں بھیڑیے موجود ہیں جو اپنے حوس پوری کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔۔۔۔ آپ کو پتہ ہےہمارے سر کو چند سال پہلے ایک بچہ ملا مشکل سے سانس چل رہی تھی۔۔۔۔وہ اپنی آنکھ سے آنسو کو پونچ کر کہنے لگا۔
چار سال اسکا علاج کروایا پتا ہے کتنے سال کا تھا صرف سات سال کا اور اسے کسی اور نے نہیں بلکے مدرسے کے قا۔۔۔ر ی نے زیادتی کا نشانا بنا۔۔۔۔۔یا وہ سسکیوں میں اسے بتا رہا تھا۔۔۔
جو خود اپنے آنسووں کو روک نہیں پارہی تھی۔۔۔
پورے پندرہ دن تک اسے وہ منافق بھیڑیا اللہ کا درس دینے والا دنیا کی نظر میں۔۔ اس معصوم کے ساتھ کھیلتا رہا۔۔۔وہ اپنے ماں باپ کو کہتا تھا کے میں نہیں جاٶں گا وہ قاری اچھے نہیں اور اسکے ماں باپ یہی سوچتے کہ پڑھانے میں ڈانٹ دیا ہوگا اس لیے منع کرتا ہے ۔۔۔۔کبھی پوچھا ہی نہیں کے کیوں منع کرتے ہو بیٹا۔۔۔کیا وجہ ہے نہیں۔۔۔ایمان بیڈ کراون سے سر ٹکا کر رونے لگی۔۔۔
پتا ہے آپی وہ بچہ کون ہے۔۔۔؟
عفان۔۔وہ تو مرنے کے در پر تھا جب وہ سر شاریق کو ملا تھا۔۔۔تب بھی وہ کچھ نہیں بولتا تھا۔۔پھر اسے دوسرے ملک پڑھنے بھیجا اور جب واپس آیا تو ہم دونوں نے اس ایک پروجیکٹ کو چنا کیونکہ ہم دونوں تکلیف میں تھے اور اس کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے۔۔۔ایمان منہ پر ہاتھ رکھے حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
ہمارے معاشرے میں اکثر تو آواز نہیں اٹھاتے ہیں اور جو اٹھاتے ہیں انکے لیے مشکل سے ایک ماہ یا ذیادہ سے ذیادہ دو ماہ سوشل میڈیا پر justice justice کے نعرے لگتے ہیں پھر کیا آپی سب بھول جاتے ہیں۔۔۔۔وہ ایمان کے سامنے اپنے ہاتھوں میں بالوں کو جکڑے چلایا۔۔۔
انصاف کہاں ملا آپی کہاں ہے ہمارا قانون یہ ایک انسان نہیں ہے آپی ملک کے ہر کونے میں دس میں سے ایک انسان ہے۔۔۔۔میرے سامنے ہزاروں کی تعداد میں بچے تھے جنھیں گلی کوچوں سے مدرسوں سے اسکولوں سے اٹھا کر لے جایا جاتاتھا۔۔۔۔
میری آنکھوں کے سامنے انھیں جنسی ذیاتی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا کے وہ معصوم اپنے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ تو اپنی جان بھی کھو دیتے ہیں۔۔۔۔ اور یہ سب میرے سامنے ہورہا تھا میں کچھ نہیں کر سکا کچھ نہیں۔۔۔۔
آپی میں نے آپ کے گناہگار کو سزا دی کیونکہ وہ اس لاٸق تھا۔۔۔مگر ایک کو مارنے سے کیا ہوا یہاں تو ہر جگہ یہ گندگی ہے۔۔۔۔مجھے اس زخم کی تکلیف نہیں ہے آپی جب میں نے ان معصوموں کو دیکھاتا میرا دل خون کے آنسو رویا تھا۔۔وہ ایمان کو اپنی گولی کا زخم دیکھا کر بولا۔۔۔اور وہ کسی بھی بات کی پرواہ کیا بنا بول رہا تھا اشک دونوں طرف بہہ رہے تھے ایمان خاموشی سے اسکی باتیں سن رہی تھی اسکا دل کٹ رہا تھا کے اسکا بھاٸی اتنی تکلیف سے گزر رہا تھا۔۔۔
”کبھی کبھی ہمیں ایسے انسان کی ضرورت ہوتی ہے جو بس صرف ہمیں سنتا رہے۔۔۔اور ہم اپنی ساری تھکن سارے دکھ اسکے سامنے پیش کرتے رہیں۔۔۔۔“
شہری۔۔۔۔ایمان اسکے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔۔ایمان بولنے لگی تھی کے باہر کھڑی ہیام آدھا کھلا دروازہ دھڑام سے پورا کھولتی تالی بجا کر اندر آنے لگی۔۔۔
ایمان اور شہری بھی کھڑے ہوگے تھے۔۔۔۔واہ ایمان تم نے تو منافقت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔۔۔ہم سب کے سامنے اللہ والی بن کر خود میرے شوہر کے ساتھ رنگ رلیاں منا رہی ہو۔۔۔ہیام خاموش ہوجاٶ ہیام چیخ چیخ کر بول رہی تھی۔۔۔شہری بھی اسکے سامنے آتا اسے خاموش ہونے کا کہہہ رہا تھا۔۔۔۔
ایمان اپنے کردار کی دہجیاں اڑتی دیکھ رہی تھی۔۔۔آنسوتھے کے تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔
کبھی سوچا بھی نا تھا اپنے محرم اپنے سگے بھاٸی کے ساتھ دکھ سکھ باٹنے کی اتنی بڑی سزا ملے گی۔۔۔اسکی پاک عبادت پر دکھاوے کا تھپا لگ جاۓ گا۔۔۔
کیوں خاموش رہوں میں تم یہاں آپی آپی کہہ کر عیاشیاں کر رہے ہو اور چپ میں رہوں۔۔۔شہریار کی برداشت بس یہی تک تھی۔۔۔اور اسنے زوردار تھپر ہیام کے منہ پر مارا۔۔۔جسں سے وہ دور جاکر دروازے پر گری۔۔۔ہیام کی چیخ وپکار سے سب جاگ ہی گے تھےاور آوازے سنتے ایمان کے کمرے میں آگۓ۔۔۔سلطانہ بیگم ابھی کمرے میں داخل ہوٸی تھی کے ہیام انکے قدموں میں جا گری۔۔۔۔
***********
عفاف کا بھوک سے برا حال ہورہا تھا۔۔۔اسنے کچن کو پورا چھان مار لیا تھا۔۔۔ مگر کچھ پکا ہوا نہیں تھا اور عفاف نے تو کبھی کچن میں جانے کی زحمت ہی نہیں کی تھی سب بنا بنایا مل جاتا تھا۔۔۔
فریج کھولا تو اس میں انڈے اور سلاٸس ملی۔۔۔وہ شکر کرتی کچن میں آکر فراۓ پن گیس پر رکھتی کہنے لگی۔۔
”اس انسان نے تو مجھے بھوک سے تڑپا تڑپا کر مارنا ہے۔۔۔ٹھیک ہے نہیں پسند ہوں تو کیا انسانیت بھی کوٸی چیز ہوتی ہے۔۔۔ہہہہہم“
وہ خود سے باتیں کرتی گیس اون کر کے فرانگ پن میں اوٸل ڈالنے لگی۔۔۔۔ اور انڈا توڑ کر تیل میں ڈال دیا تیل پھٹ پھٹ کرتا اڑھنے لگا اور عفاف کے ہاتھ پر چند چھینٹے تیل کے گر گٸے جس سے وہ تڑپتی ہوٸی بیڈ روم میں کریم لینے گھس گی۔۔۔۔اور وہی پر بیٹھ کر ہاتھ جلنے کا غم منانے لگی۔۔۔
وہ بھول چکی تھی کہ گیس پر کچھ رکھا تھا۔۔عفان گھر داخل ہوا تو پورا گھر دھواں دھواں ہورہا تھا گیس پر تیز انچ جل رہی تھی۔۔انڈا جل کر راکھ ہوگیا تھا۔۔۔یا میرے اللہ یا لڑکی ایک دن میں میرے گھر کو جلاکر راکھ کر دے گی۔۔ کیا مصیبت ہے۔۔وہ غصے میں بیڈ روم آیا۔۔
یہ تم کیوں گھر کو آگ لگانے پر تُلی ہوٸی ہو۔۔۔عقل ہے چولھے پر انڈا رکھ کر یہاں کون سا تاج محل بنا رہی ہو۔۔۔وہ کمرے میں آتے ہی شروع ہوگیا۔۔۔اور عفاف اسے خود پر غصہ کرتا دیکھ کر رونے لگی۔۔۔
اب رو کیوں رہی ہو۔۔۔عجیب مصیبت ہے ایک تو غلط کام کرو پھر ڈانٹوں تو رونے لگتی ہو۔۔۔عفان اسے روتا دیکھ کر کہنے لگا۔۔۔
میرا ہاتھ جل گیا اور آپ مجھے ڈانٹ رہے ہو۔۔عفاف اپنے آنکھ سے نکلے آنسو کو ایک ہاتھ سے صاف کرتی دوسرا جلا ہوا ہاتھ عفان کو دیکھانے لگی۔۔۔
عفان کو اسکا ہاتھ دیکھ کر افسوس ہوا پورا ہاتھ تیل کے چھینٹے لگنے کی وجہ سے لال پر گیا تھا۔۔۔
وہ ساٸڈ ٹیبل سے کریم نکال کر زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکے ہاتھ پر کریم لگانے لگا۔۔۔
”جب نہیں آتا تو کیا ضرورت تھی کرنے کی“۔۔۔عفاف اسی کو دیکھ رہی تھی جو اسکے زخم پر مرہم لگا رہا تھا۔۔۔عفاف نے تو اسکا یہ روپ پہلی بار دیکھا تھا۔۔اسے ایمان کی بات یاد آٸی۔۔
”اللہﷻ پاک رشتوں میں محبت ڈال دیتا ہے۔“
کیا دیکھ رہی ہو کیوں گھسی تھی کچن میں۔۔۔عفان عفاف کو خاموش دیکھ کر پھر بولا۔۔۔
آپ تو مجھے صبح سے بھوکا چھوڑ کر چلے گے۔۔میں بچاری کیا کرتی۔۔بھوک لگی تھی مجھے۔۔۔عفاف مسکین سا منہ بنا کر کہنے لگی۔۔
عفان کو اپنی ایک اور غلطی کا احساس ہوا جو بھی تھا اب عفاف کے کھانے پینے کا خیال اسی کو رکھنا تھا۔۔۔
وہ گیا دو انڈے چند بریڈ اور دودھ کا گلاس لے کر کمرے میں واپس آیا۔۔۔کھایا تو اسنے بھی نہیں تھا۔۔
صاحب چیتے کا فون بند آرہا ہے۔۔۔۔کہاں گیا وہ۔۔۔جہانگیر شاہ ذور سے چلایا۔۔
صاحب جی میں نے پتہ کروایا ہے۔۔۔وہاں پر چیتا پہنچا ہی نہیں ہے۔۔تو کہاں گیا وہ۔۔پتہ کروا جا اب یہاں سے۔۔وہ ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہہ کر ۔۔کش لگانے لگا۔۔۔
جہانگیر شاہ نے سات بندوں کو اس ٹرک کے ساتھ بھیجا تھا۔۔۔جن میں سے چار وہی مر گٸے۔۔۔ایک بم سے اڑ گیا۔۔اور دو کو اہسپتال میں داخل کروایا۔۔جو اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔۔۔
*********