کہاں ہو تم۔۔۔آخر چل کیا رہا ہے تم دونوں کے بیچ کوٸی بتاۓ گا مجھے۔۔۔شہریار کے فون اٹھاتے ہی ایمان شروع ہوگی۔۔۔
آپی آپ بولنے تو دیں ہیام کی روح آگی ہے کیا آپ میں۔۔۔شہری بھی بے فکری میں بول رہا تھا۔۔۔
شہری کہاں ہو رات کے گیارہ بج رہے ہیں کل بہن کی شادی ہے اور تمھیں پرواہ ہی نہیں ہے۔۔۔ایمان نے غصے میں بولا مگر لہجہ اب بھی نرم تھا۔۔
اسی کی تو تیاری کررہا ہوں۔۔شہریار بڑبڑایا۔اور اپنے ہاتھ میں پکری ہوٸی پھولوں کی لڑی کو بیڈ کے اوپر سجھانے لگا۔۔۔
کیا۔۔۔۔؟ایمان اسکی بربراہٹ کو سمجھ نہ پاٸی تو پھر بولی۔۔۔۔
آپی میں عفان کے گھر پر ہوں۔۔۔۔کل صبح جلدی آجاٶں گا عفان کے ساتھ۔۔۔آپی لڑکے والوں کا کوٸی فون وغیرہ آیا۔شہریار عفان کو دیکھتے ہوۓ پوچھنے لگا۔۔
پتا نہیں شہری۔۔۔مجھے تو اس بارے میں کچھ نہیں پتا۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے میں گھر آکر بات کرتا ہوں۔۔وہ اللہ حافظ کہہ کر فون رکھنے والا تھا جب ایمان کی آواز ابھری
شہری ۔۔۔۔۔تم بھی نا باتوں باتوں میں بھول گی۔۔ہیام اور تمھاری لڑاٸی ہوٸی ہے کیا۔۔؟ایمان کے پوچھنے پر شہریار کے ماتھے پر شکن آگی۔۔۔۔
شکایت کی اسنے۔۔۔شہری وہ کمرے سے ہی نہیں نکلی ہے کسی سے بات نہیں کررہی ہے۔۔۔کیا ہوا ہے تمھارے ساتھ گی اور اکیلے آٸی ہے وہ۔۔۔۔
آپی کچھ نہیں اسکی عادت ہے خود ہی ٹھیک ہوجاۓ گی۔۔۔۔چلیں بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔۔اور شہریار نے فون رکھ دیا۔۔
اسلام و علیکم ایمان جیسے ہی پیچھے موڑی تو محراب کھڑا تھا۔۔۔ اور سلام کرنے لگا۔۔۔
وعلیکم سلام۔۔۔ایمان کہہ کر رکی نہیں۔۔۔
ایمان۔۔۔۔محراب نے پھر پکارا ایمان رک گی تھی مگر مڑی نہیں۔۔۔
میں اتنا بھی قابلِ اعتبار نہیں ہوں کہ دو منٹ تم بات کر لو۔۔۔ محراب کی آوز میں ناجانے کیا تھا۔۔ایمان مڑی اور دو سیکنڈ سے زیادہ اسکی آنکھوں میں دیکھ نا سکی۔۔۔اور نظریں چڑا گی۔۔۔کیا کام ہے آپ کو رات کے اس وقت کسی نے دیکھا تو خواہ مخواہ بات بڑھ جاۓ گی۔۔۔ایمان نظریں جھکا کر بولنے لگی۔۔۔
ہہہہہمممم۔۔صحیح کہہ رہی ہو جاو۔۔اور محراب کے کہتے ہی وہ نکل گی۔۔۔اور وہ اسے جاتا دیکھتا رہا۔۔”یہ معصومیت ہی تو بہہ گی ہے مجھے تمھاری“۔۔۔محراب سوچ کر مسکرانے لگا۔۔
ٹیرس پر کھڑی ہیام اس منظر کو دیکھ کر اور آگ بگولہ ہوگی۔۔۔
**********
یا کیا کہہ رہے ہو شہری ہم لوگوں کو کیا کہیں گے۔۔۔ایک گھنٹے بعد نکاح ہے یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔سب تیاریاں ہو گی ہیں۔عفاف بھی آتی ہی ہوگی۔۔۔
چاچو آپ کو یقین نہیں آتا تو میں پولیس سے بات کروا دیتا ہوں۔۔۔۔وہ لوگ ایک گینگ کا حصہ ہیں جو یہاں سے شادی کرکے لڑکی کو لے جاتے ہیں اور وہاں کسی امیر شیخ کو بیچ دیتے ہیں۔۔۔ان لوگوں کے لیے شادی صرف کمانے کا ذریعہ ہے۔۔۔۔
محمود صاحب سر پکڑ کر بیٹھ گے۔۔۔سلطانہ بیگم بھی پریشان تھی۔۔
یا اللہ اب کون کرے گا شادی میری بچی سے۔۔۔لڑکے کا کیا ہے جیل سے رہا ہوکر بھی شادی کر لے گا۔۔میری بچی جسکی شادی والے دن بارات ہی نہ آٸی تو کیا کریں گے۔۔۔۔ندرت بھابھی چپ ہوجاٸیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ندرت اپنے ہی رونے رو رہی تھی۔اور سعدیہ اسے چپ کروانے میں لگی ہوٸی تھی۔۔۔
شہری اب کیا کرنا ہے۔۔۔حسن صاحب نے دماغ حاضر رکھتے ہوۓ پوچھا۔۔۔
بابا مجھے فلحال عفان سے بہتر کوٸی اپشن نہیں لگتا۔۔۔وہ اس سب حالات سے واقف ہے اسے کوٸی مسلٸہ بھی نہیں ہوگا۔۔آپ لوگ اجازت دیں تو میں اس سے بات کروں۔۔۔
مگر۔۔۔ندرت بیگم نے بولنا چاہا۔۔
جاٶ عفان سے بات کرو جلد ہی۔۔تاکہ کچھ عزت رہ جاۓ“۔۔سلطانہ بیگم نے ندرت کی بات کاٹتے ہوۓ کہا۔۔
شہری ”جی “کہتا نکل گیا۔۔۔
اماں میری بچی کوٸی گھر میں خراب پڑی چیز ہے۔۔۔وہ نہیں تو کوٸی اور صحیح میں ایسے لاوارث کے ہاتھ میں اپنی بچی نہیں دونگی۔۔۔نا گھر کا پتہ نا خاندان کا۔۔۔
ندرت اگر کوٸی اور راستہ ہے تو بولو۔۔۔اور وہ بچہ کتنے دن ہمارے گھر رہا کوٸی بری عادت نہیں دیکھی میں نے اس میں۔۔کیا کہتے ہو تم دونوں سلطانہ بیگم اپنے بیٹوں سے مخاطب تھی۔۔۔۔۔
جی اماں کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں۔۔۔اور کوٸی چارہ بھی نہیں۔۔
**********
عفاف بنتِ محمود کیا آپ کو عفان ولد داود سے پانچ ہزار حق مہر میں یہ نکاح قبول ہے۔۔
عفاف گھونگھٹ ڈالے خود کو کسی اور کے سپرد کرنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔۔مگر مولوی صاحب نے تو اسکا نام لیا جسے اسنے خدا سے مانگا تھا۔۔۔
کیا یہ سچ تھا۔۔۔یا وہ پھر کوٸی سپنا دیکھ رہی تھی۔۔
کیا آپ کو قبول ہے۔۔۔مولوی صاحب نے اسکی خاموشی پر پھر پوچھا۔۔
عفاف۔۔۔ہاں بولو مولوی صاحب انتظار کررہے ہیں ایمان نے اسکے کان میں کہا۔۔۔اور عفاف نے حیرت سے اسے دیکھا۔۔
کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔مولوی صاحب نے پھر پوچھا۔۔
قبول ہے۔۔۔قبول ہے۔۔۔قبول ہے۔۔۔۔عفاف نے لرزتے ہونٹوں کے ساتھ کہا۔۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے خوش ہو یا دکھی۔۔۔اسے خدا نے وہ دیا جسکو پانے کی خواہش کی تھی۔۔ اسے کیا پتا تھا کہ وہ ایسے ملے گا۔۔۔۔
عفاف کے سوا سب کو بتا دیا تھا کہ اسکا نکاح عفان سے ہے۔۔۔سب مرد باہر بیٹھے تھے۔۔۔ندرت اور سعدیہ بیگم اسے نصیحتیں دیتی کمرے سے چلی گٸیں۔۔۔عفاف تو سکتے میں بیٹھی تھی۔۔۔
کیا ہوا میری دلہن کو۔۔۔ایمان اپنا لہنگا سنبھالتی اسکے برابر بیٹھ کر بولنے لگی۔۔۔
آپی آپکو پتہ ہے جب مولوی صاحب کہہ رہے تھے قبول ہے تب بھی مجھے اسی کا نام سناٸی دیا۔۔۔آپی میرا دماغ مفلوج ہو چکا ہے۔۔۔یہ سچ کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔عفاف ایمان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی دلی کیفیت بتا رہی تھی۔۔۔
تیری چاہت سچی تھی۔۔۔ اسلیے وہ تجھے مل گیا۔۔۔تمھارا نکاح عفان کے ساتھ ہی ہوا ہے۔۔۔عفاف اللہ نے تیری دعا قبول کرکے تجھے عفان کا کردیا۔۔۔اب اس رشتے کو نبھانا اور اپنے شوہر کے دل میں گھر بنانا تیرا کام ہے۔۔۔اب سے اسکی پسند ناپسند کا خیال رکھنا تیری ذمہ داری۔۔
***********
آج ہی رخصتی کا کہہ دیا تھا۔۔۔۔شہریار عفاف کو لے جانے کے لیے اسکے کمرے میں آیا۔۔
میری بہن اب خوش ہے۔۔۔وہ اسکے سر پر ہاتھ رکھے پیار سے پوچھ رہا تھا۔۔۔اور عفاف نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔۔۔
اب سے کوٸی بات نہیں چھپانا۔۔۔عفان بہت اچھا ہے۔۔۔اسکو سمجھنے میں تھورا وقت لگے گا۔۔۔وہ دل کا برا نہیں ہے۔
ہیام ایک طرف منہ پھیر کر کھڑی تھی۔۔کہ شاٸد پچھلی بار کی طرح سوری شہریار کہے گا مگر وہ ہیام کو مکمل اگنور کرتا۔۔عفاف کا ضروری سامان اٹھا کر جانے لگا۔۔۔
اور ہیام دل ہی دل میں جل رہی تھی۔۔۔غلطی بھی خود کی اور اٹیٹیوڈ بھی دیکھا رہا ہے۔۔۔۔وہ بھی بڑبراتی ہوٸی دونوں ہاتھوں میں لہنگا پکڑ کر نیچے اتر گی۔۔۔
عفاف کو قرآن کے ساۓ میں رخصت کیا۔۔۔شہریار اور ایمان بھی دوسری گاڑی میں ساتھ گے۔۔۔
ہیام اور دانیال نے بھی جانے کا کہا تو شہریار نے یہ کہہ کر منع کردیا کے لنگر نہیں لگا جو کھانے سب جاٸیں۔۔۔۔
جس پر دانیال منہ بنا کر کھڑا رہا اور ہیام غصے میں اپنے کمرے میں چلی گی۔۔
***********
شہری یہ سب اچانک کیسے ہوا۔۔ایمان جانجتی نگاہوں سے اسے دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔۔
اللہ نے چاہا آپی تو ہوگیا۔۔۔۔وہ ڈراٸیونگ کرتے ہوۓ مسکراتے ہوۓ کہنے لگا۔۔۔۔
اچھا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا۔۔۔ایمان اسکے برابر والی سیٹ پر بیٹھی سیریس انداز میں کہنے لگی۔۔۔اس میں تم نے کیا کام سر انجام دیا ہے وہ بتاو۔۔۔عفان عفاف کو پسند نہیں کرتا تو کیسے مان گیا۔۔۔
آپی آپ نے ہی تو بتایا ہے اللہﷻ پاک رشتوں میں محبت ڈال دیتا ہے مجھے اور ہیام کو ہی دیکھ لیں۔۔۔کہاں بنتی ہے ہماری پھر بھی ساتھ ہیں۔۔
ماشا۶اللہ بولو اللہ بری نظر سے بچاۓ۔۔۔۔۔ویسے اچھا یاد دلایا ہیام کا موڈ بہت خراب لگ رہا ہے کیا بات ہوٸی ہے کچھ بتاٶ تو۔۔تم بھی اس سے بات نہیں کر رہےتھے۔۔ایمان نے ایک ساتھ اتنے سارے سوالات پوچھ لیۓ۔۔
آپی ابھی تو آپ مجھے انسپیکٹر لگ رہی ہیں۔۔۔وہ قہقہہ لگا کر کہنے لگا۔۔۔اور ایمان اسے گھورنے لگی۔۔۔
آج رات کو سب بتاٶں گا فلحال مجھے ضروری کام سے جانا ہے۔۔۔اسنے عفان کے اپارٹمنٹ کے پاس گاڑی روکی۔۔۔
ایمان عفاف کو لے کر بیڈ روم میں چلی گی۔۔۔جہاں سمپل سے بیڈ کو پھولوں سے سجایا ہوا تھا۔۔۔ بیڈ کے سامنے والی دیوار پر ایک مرر لگا ہوا تھا اور اسکے ساتھ دو شیلف بنے ہوۓ تھے۔۔ جس پر ضرورت کا سامان رکھا ہوا تھا۔۔۔اٹیچ الماری اور ایک باتھ روم تھا گھر چھوٹا مگر صاف ستھرا تھا۔۔۔۔
یہ گھر دو کمروں اور ایک لاونج پر مبنی تھا۔۔۔اور ساتھ ایک چھوٹا سا اوپن کچن بنا ہوا تھا۔۔۔
ایمان عفاف کو بیڈ پر بیٹھا کر اسکا گھونگھٹ صحیح کر کے پورے کمرے کا جاٸزہ لے کر کہنے لگی۔۔۔”اس کمرے کو دیکھ کر لگتا ہےعفان صاحب تو تیار بیٹھے تھے پورا کمرا پھولوں سے سجایا ہے“۔۔۔عفاف ایمان کی بات پر شرما گی۔۔
اسے خود سمجھ نہیں آرہا تھا کہ عفان نے اسے منہ پر منع کیا پھر یہ سب۔۔۔ مگر یہ سب شہریار کی کرم نوازش کا نتیجہ ہے یا کوٸی نہیں جانتا تھا۔۔۔
************
جیسے ہی آٸیں گھیر لینا۔۔۔۔دھیان رہے کسی بچے یا لڑکی کو گولی نا لگے۔۔۔شام ڈھلنے والی تھی۔۔یہ ایک سنسان روڈ تھا جہاں دونوں اطراف میں جنگل اور درمیان سے ایک روڈ گزرتی تھی۔۔۔
چیتا اور اسکے ساتھی چاروں اطراف میں پھیل گے تھے۔۔۔۔چیتا ہیڈ فون پر سب کومحتاط رہنے کی تلقین کررہا تھا۔۔۔۔
آج یہاں سے باۓ روڈ لڑکیاں جانے والی تھی مگر افغنستان کیسے پہنچتی یہ بات نہیں پتا تھی۔۔۔جو کرنا تھا آج ہی کرنا تھا وہ بھی ایسے کے شک بھی نا جاۓ۔۔۔
چیتے کا فون بجا۔۔۔جہانگیر شاہ کا نمبردیکھ کر اسکے ماتھے پر شکن آٸی اسنے فون اٹھایا۔۔۔۔
ہاں صاحب جی۔۔چیتے نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔کہاں ہے تو جہانگیر شاہ کی آواز میں گرج تھی۔۔
بس صاحب جی آپ کے پاس ہی آرہا ہوں۔۔۔بہت اچھا مال ڈھونڈا ہے۔۔۔
سن چیتے آج ہمارا ایک بہت بڑا ٹرک افغانستان کے لیے نکلا ہے۔۔۔مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ کوٸی ہے جو اس کام کو روکنے کی کوشش کررہا ہے۔۔۔تو وہاں پہنچ جا جلدی میں جگہ بتاتا ہوں میں۔۔۔بس آج یہ مال نکال دے تیرا کمیشن ڈبل۔۔۔
واہ صاحب جی پہلےتو آپ نے بتایا نہیں اور اب چیتے کو یاد کر ہے ہو۔۔۔۔اورآپ کے لیے کیامشکل کسی سیاست دان کی نگرانی میں بھی تو کرواسکتے ہیں نا۔۔۔
چیتا جا کر وہ کرجو بولا ہے۔۔۔مجھے مت سیکھا۔۔جہانگیر شاہ غصے میں زور سے بولا۔۔۔۔
جی صاحب جی مگر جو جگہ آپ نے بتاٸی ہے وہ بہت دور ہے۔۔ٹاٸم لگے گا۔۔۔تو فون بند کر اور جا۔۔۔وہ ذور سے ایک بار پھر چیخا اور چیتے نے کان میں انگلی گھسا لی۔۔۔
ایک تو سب میرے کان کے پردے پھڑنے پر تلے ہوۓ ہیں۔۔اور جہانگیر شاہ بھول جا تو آج تیرا یہ گندا کام میں ہی تمام کرونگا۔۔ اتنے دن تیرے جیسے انسان کے ساتھ گزارا میں نے صرف اپنے ملک کے لیے۔۔۔
**********
عفاف گھونگھٹ ڈالے بیٹھی ہوٸی تھی۔۔۔۔ایمان اور شہریار کو گٸے بھی کافی دیر گزر گی تھی۔۔۔۔وہ تھک کر بیڈ سے ٹیک لگا کر لیٹ گی۔۔۔اور اتنے میں کسی کھٹک کی آواز پر اسنے آنکھیں کھولی۔۔۔
عفان کمرے میں آتے ہی دھاڑنے لگا۔۔۔
تم کیا اب تک اسی جوڑے میں بیٹھی ہو۔۔۔تم ہے کیا لگ رہا ہے میں آکر تمھارا گھونگھٹ ہٹاٶں گا۔۔۔تو غلط فہمی ہے تمھاری۔۔۔جاٶ، جا کر چینج کرو عفان بس غصے میں بولے جا رہا تھا نا اسے سمجھ آرہی تھی کہ وہ کیا بول رہا ہے اور نا ہی عفاف کو سمجھ آرہا تھا۔۔۔
عفاف اسے گھونگھٹ میں سے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔اب تک بیٹھی کیاہو جاو وہ پھر چیخا تھا اور عفاف ڈر کے مارے کھڑی ہو گی گھونگھٹ ہٹاتی وہ اپنے آنسو کو باہر آنے سے روکتی باتھ روم کی طرف بڑھ رہی تھی کے عفان نے اسے اپنی طرف موڑا ۔۔۔اور سختی سے اسکے گالوں کو پکڑ کر کہنے لگا۔۔۔۔
تم زبردستی میری زندگی میں تو آگی ہو مگر میرے دل میں تمھاری کوٸی جگہ نہیں ہے سمجھی۔۔۔اسے خود سے دور کر کے چیخ کر بولا عفاف اسکے دھکے سے چند انچ دور جا کر گری عفان نے پاس شیلف پر پڑی پرفیوم اٹھا کر پھینکی جسے عفاف اور ڈر گی اور خود کو سنبھالتی باتھروم چلی گی۔۔۔
عفان بھی آنکھیں بندکر بیڈ پر گر گیا۔۔۔اور اپنے سر کو ہاتھوں سے دبانے لگا۔۔۔
عفاف باتھروم میں جا کر خود کے آنسو نا روک پاٸی۔۔۔وہ زمین پر بیٹھی رو رہی تھی۔۔۔یا اللہ میں نے یہ نہیں مانگا تھا۔۔۔اور بس روۓ گی۔۔۔اسے ایمان کی باتیں یاد آنے لگی۔۔
”وہ تیرے لیے بہتر نہیں ہوگا عفاف۔
اللہ سے ضد نہیں لگا۔
اللہ نے اسے تجھے دے دیا اب اس رشتے کو تو نے بچانا ہے۔۔عفان کے دل میں جگہ بنانی ہے۔۔۔کچھ اسکی مان کر کچھ اپنی منوا کر۔۔۔
اور اسکے آنسو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔۔۔پتا نہیں کیا وقت ہوا تھا۔۔کیا کیا سوچا تھا شادی کے لیے اور زندگی کس موڑ پر لے آٸی تھی۔۔۔ جب اسنے رو کر دل ہلکا کر لیا تو کھڑی ہوکر سب جیولری اتاری اور فریش ہوکر وضو کر کے باہر آگٸ۔۔۔
عفان کہی بھی نظر نہیں آیا۔۔۔وہ دعا کرتی اللہ سے اپنے حق میں بہتری مانگنے لگی۔۔۔۔نماز سے فری ہوکر اسے کی شدد محسوس ہونے لگی۔۔عفان بھی پتا نہیں کہا تھا۔۔وہ کمرے سے باہر نکلی تو لاونج میں ایک بڑا اور دو چھوٹے صوفے اور چھوٹی سی ٹیبل پڑی ہوی تھی۔۔ ساتھ ہی ایک ٹی وی تھا سامنے ایک اور روم اور کچن تھا وہ اس روم کی طرف بڑھی۔۔اور دروازہ کھولتے ہی کھانسنا شروع ہوگی۔۔روم میں دھواں دھواں پھیلا ہوا تھا۔۔۔
فاٸر۔۔ہیڈ فون سے آواز ابھری۔۔ٹھاہ ٹھاہ ٹھاہ فضا گولیوں کی آواز سے گونج اٹھی۔۔۔
اندر گاڑی میں بیٹھے بچے سب ڈر گے اور ادھر ادھر گرنے لگے۔۔۔ان کے ہاتھ اور آنکھیں پہلے سے بندھے ہوۓ تھے۔۔
اندر ان بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جہانگیر شاہ کا ایک ہی آدمی تھا۔۔۔
چیتے اور اسکے ساتھیوں نے جہانگیر شاہ کے اس گندے کام کے خاتمے کے لیے جو جال بچھایا تھا وہ اس میں پھنس گیا تھا۔۔۔جہانگیر شاہ کا بڑا سودہ آج چیتے نے بڑی چالاکی سے ختم کیا تھا۔۔وہ سب سے لڑتا خود کو بچاتا گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی بھگا لے گیا۔۔۔اسے اب جلد ازجلد ان بچوں کو کہی چھپانا تھا جہاں انکو کوٸی ڈھونڈ نا سکے۔۔۔
وہاں چھ لوگ زخمی پڑے تھے۔۔جسے چیتے اور اس کے سپاہیوں نے دھول چٹاٸی تھی۔۔۔کے اب نہ انھیں زندوں میں شمار کیا جاسکتا تھا اور نہ مردوں میں۔۔۔
وہ گاڑی بھاگا کر کافی آگے نکل گیا۔۔۔ایک جگہ جا کر گاڑی روکی۔۔۔
رات بڑھتی جا رہی تھی ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا۔۔۔ چیتے نے پیچھے کا دروازہ کھولا... اندر بیٹھا شخص انھی بچوں میں چھپ گیا۔۔۔
آپ لوگ ڈرنا نہیں میں آپ سب کی حفاظت کے لیے ہوں آپ سب خاموشی سے اتر کر آگے بڑھو گے۔۔چیتے کے دروازہ کھولتے ہی سب بچے ڈر گے وہ بڑی مشکل سے سب کو بہلاتا ۔وہ ایک ایک کی آنکھ سے پٹی اتار کر اسے آگے کرتا اور آگے اسکے سپاہی انہیں تھوڑا چلا کر ایک گھر میں لے جا رہے تھے۔۔۔
سب بچے اتر گے تھے آخر کے دو بچوں کو وہ اتار رہا تھا جب آگے بڑھتا ایک بچا نیچے گر گیا اور چلانے لگا اور چیتا اسکے پیچھے بھاگا۔۔ چند قدم دور گیا تو فاٸر ہوا اور چیتے کے داٸیں بازو پر گولی لگی۔۔۔۔
اور چیتا لڑکہراتے ہوۓ اور دور جا گرا کے اچانک بم پھٹا اور ٹرک دو بچے اور وہ آدمی وہی جل کر راکھ ہوگے۔۔۔چیتا انھیں جلتاہوا دیکھ رہا تھا۔۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔
سر آپ ٹھیک ہیں۔۔۔سر دو لوگ چیتے کے پاس آۓ اسے پکارتے ہوۓ اٹھانے لگے۔۔۔اللہ کا شکر ہے آپ کو کچھ نہیں ہوا۔۔
وہ بچے۔۔چیتا دور جلتی آگ کے شولوں کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔۔
سر ان دونوں میں سے کسی ایک بچے میں بم فٹ تھا۔۔ہم نے ذیادہ تر کو بچا لیا ہے۔۔۔اور ایجنٹ 44 اور 52 ان سب کو لے کر آگے بڑھ گے ہیں۔۔
سر یہاں رہنا خطرناک ہے جیسے ہی خبر ملے گی جہانگیر شاہ کو وہ ضرور یہاں آۓ گا۔۔زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔۔ہہہہم چلو وہ ایک بار پھر ان جلتے شولوں کو دیکھ کر سختی سے انکھیں بند کر گیا۔۔۔۔ہاتھ سے گرتا خون پوری آستین سرخ کر گیا تھا۔۔۔
**********