چند دن بیت گئے۔۔ شاہ کو روانہ ہوئے ایک ہفتہ بیت چکا تھا۔۔ ٹریننگ سنٹر پہنچتے اس نے اپنی خیریت کی اطلاع بھی دے دی تھی مگر ایمان سے فلوقت تک اس کی کوئی بات چیت نہ ہوئی تھی۔۔ وہ اس کا چہرہ دیکھنے سے محروم تھی یہاں تک کہ ایک ہفتہ ایمان شاہ کی آواز تک نہ سن سکی۔۔ جب دل زیادہ بوجھل محسوس ہوتا تو فقط آنکھیں موند کر ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرنے لگتی۔۔ ان ہواؤں میں عجب سی مہک تھی، عجب سا احساس تھا، شاہ کے لمس سے میل کھاتا۔۔ جانے وہ کونسا جھونکا تھا جو شاہ کے رخساروں سے ٹکرایا تھا مگر اسے ہر جھونکے میں شاہ کا لمس محسوس ہوتا گویا وہ اسی کے آس پاس کہیں چھپا ہو۔۔
چند دن بیتے اور شاہ کی رات میں کال موصول ہوئی۔۔ اس کی آواز خاصی پرجوش تھی۔۔ "اگر تم سے کبھی کوئی پوچھے کہ جاگتی آنکھوں سے دیکھا گیا خواب جب پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔۔ تو اس سے کہنا کہ
It's the most beautiful feeling ever"
وہ خوش تھا۔۔ زیادہ بات کرنے کی اجازت تھی نہ مہلت۔۔ لہٰذا چند ہدایتیں کرتے اس نے کال منقطع کر دی۔۔ ایمان کتنی ہی دیر لب بھینچے فون کی خاموشی سنتی رہی۔۔
دل بےحد اداس محسوس کرنے لگا تو وہ چائے کا کپ لئے چھت پہ آ گئی۔۔ کمر کی چوٹ فلوقت ٹھیک نہ تھی مگر اب بہتر محسوس ہوتا تھا۔۔ چھت پہ کھلے آسمان تلے بیٹھی وہ خاموش نگاہوں سے غیر مرئی نکتے کو گھورتی چائے کا گھونٹ بھرنے لگی۔۔ ذہن کے پردے پہ شاہان کے ساتھ بیتے خوبصورت وقت کا منظر رواں دواں تھا۔۔ آنکھ کے کنارے بھیگنے لگے تو وہ ضبط کرتی گرم، کڑوے گھونٹ سینے میں انڈیلنے لگی۔۔
شاہ اس کی پہلی اور آخری محبت تھا۔۔ وہ اس کے بغیر جینا تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔۔ وہ شاہ سے محبت میں گرفتار تھی اور شاہ اس سے مگر آج اس کی خوشی سے لبریز آواز سن وہ سمجھ گئی تھی کہ ملک اور شاہ کے جنون کے درمیان اسکا وجود اہمیت نہیں رکھتا۔۔ اکثر ملک کے یہی جان باز سپاہی ملک کی خاطر جان کی پروا کئے بغیر اپنی زندگی ہتھیلی پہ رکھے دشمن کے پنجرے میں جا گھستے ہیں۔۔ ان جان باز سپاہیوں کا محض ایک ہی جنوں ہوتا ہے پرچم میں لپٹا وجود یاں غازی جنگ۔۔ ایمان اس وقت سے گزرنا بھی نہ چاہتی تھی، نہ ہی اس میں اس قدر برداشت تھی کہ شاہان کو موت سے لڑتا دیکھتی۔۔ لیکن قسمت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔۔
* * * * * * *
آج اسے گئے ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا۔۔ ایمان کی ڈرپس اور انجکشن کا کورس جاری تھا مگر وہ آئے دن کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتی۔۔ ماں ہار مان جاتی مگر آج ایسا ہر گز نہ ہونا تھا۔۔ اس کی معمول کی بچگانہ حرکتوں سے اکتا کر احمد صاحب نے فون اٹھاتے جھٹ شاہان کو ملایا۔۔
خوش قسمتی سے دوسری بیل پہ کال اٹھا لی گئی۔۔ اسے صورتحال سے واقف کرواتے احمد صاحب نے فون ایمان کو تھما دیا۔۔ "اسلام علیکم۔۔"
"وعلیکم اسلام پرنسس۔۔" دوسری جانب شاہ کی محبت سے لبریز آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔ ایمان کے حلق میں آنسوؤں کا گولا اٹکا۔۔ "کیا حال ہے؟؟ انکل بتا رہے ہیں تم دوا ٹائم پہ نہیں لیتی، نہ ہی انجکشن لگواتی ہو؟؟؟"
"تم آ جاؤ نہ۔۔" ایک آس تھی، مان تھا کہ شاید۔۔ شاید وہ مان جاتا۔۔ لوٹ آتا۔۔ مگر آس اور مان تو شاید بنے ہی ٹوٹنے کے لئے ہیں۔۔
"پرنسس میں نہیں آ سکتا نہ۔۔ اتنا سا تو ساتھ دے دو میرا۔۔ تنگ مت کرو نہ۔۔ میں تمھیں صحت یاب دیکھنا چاہتا ہوں۔۔" شاہ کی محبت سے بھرپور آواز سپیکر کے پار سنائی دی۔۔ ضبط کے باوجود آنسو اس کے گال بھگو گئے۔۔ وہ اسے اپنی عادت ڈال چکا تھا اور ایمان اب اسکے بغیر جینا تصور بھی نہ کر سکتی تھی۔۔
* * * * * * *
وقت ہوا کے دوش پہ اڑتا گیا اور ایک سال کہاں بیتا معلوم ہی نہ ہو سکا۔۔ جانے کیا مصروفیت تھیں جن کے باعث وہ اس سے بات کرنے سے قاصر تھا۔۔ ایمان کا دل عجب انداز سے دھڑک رہا تھا۔۔ وہ محسوس کر سکتی تھی یقینا کوئی حادثہ ہونے والا تھا۔۔ اس کی چھٹی حس اسے باز رہنے کی تلقین کر رہی تھی مگر وہ بار بار اس کی تردید کرتی۔۔
خود سے، اپنے محسوسات سے، چھٹی حس سے لڑتے وہ آخر تھک گئی۔۔ شدید بخار نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔ اسے شاہ کی کمی محسوس ہو رہی تھی مگر وہ نہیں تھا۔۔
محبت کے بھی عجب امتحان تھے کہ آسانی سے حاصل ہونا تو جیسے اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔۔ ہر انسان محبت کرتا ہے مگر اس کی محبت میں کتنا خلوص اور کتنی سچائی ہے یہ محبت کے امتحانات طے کرتے ہیں۔۔ محبت محض انتظار مانگتی ہے۔۔ طویل وقت اس محبت کے حصول کے لئے وقف کرنا پڑتا ہے۔۔ سجدے طویل کرنے پڑتے ہیں۔۔ رب کو راضی کرنا پڑتا ہے۔۔ اس کی خواہشات کو اولین ترجیح دینی پڑتی ہے۔۔ محبت زندگی میں رونما ہوئے سبھی امتحانوں سے مشکل ترین ہے کہ اکثر اس کے امتحانات سے لڑتے ہم اپنی جان ہار جاتے ہیں۔۔ تو کوئی بےبسی کی انتہاؤں کو پہنچ کر بھی ٹوٹے دل سمیت زندگی گزرتے ہیں کہ ٹوٹے دل سمیت زندگی گزرنا ناممکن سی بات لگتی ہے مگر ایسا ہوتا ہے۔۔
بستر پہ لیٹی وہ موبائل سکرین چہرے کے مقابل کئے شاہ کی تصویر کو ٹٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔۔ کھڑکیوں کے پار آسمان پہ سیاہ رات کی سیاہی مکمل پھیل چکی تھی۔۔ وہ بخار کے باعث جلد ہی سونے کی غرض سے بستر پہ لیٹ چکی تھی۔۔ کمرے میں تاریکی کا ڈیرہ قائم تھا اور ایسے میں سکرین کی جلتی روشنی واحد شے تھی جس نے کمرے میں روشنی پیدا کر رکھی تھی۔۔
پلکوں کی باڑ سے آنسو ٹوٹ کر بہتا گلابی گالوں کو بھگونے لگا۔۔ دفعتاً موبائل پہ "شاہان کالنگ" لکھا آنے لگا۔۔ گالوں پہ بہے آنسو بےدردی سے پونچھتے اس نے کال موصول کی۔۔ وہ چھوٹتے ہی پوچھنے لگا۔۔
"کیسی ہو؟؟؟"
"ٹھیک۔۔" آواز میں نمی واضح تھی۔۔
"نہیں۔۔ you are not sounding well" اسے پریشانی نے آن گھیرا۔۔
"نہیں۔۔" نگاہیں جھکائے بیڈ کور پہ چند لکیریں کھینچتی وہ ضبط کئے بولی تھی۔۔
"پلیز ایمان بتاؤ۔۔ میں سارا دن tensed رہا ہوں۔۔" اس کے لہجے سے فکر جھلکتی تھی۔۔ ایمان نے زکام زدہ سی سانس خارج کی۔۔
بستر سے اٹھتی وہ کھڑکیوں کے قریب آ کھڑی ہوئی جہاں سے یخ بستہ ہوائیں کمرے میں داخل ہو رہی تھیں۔۔ "کچھ نہیں بس ہلکا سا بخار ہے۔۔"
شاہ کی پیشانی پہ بل ڈلے۔۔ "پتا ہے کتنا ہلکا ہوتا ہے تمہارا بخار۔۔" اس نے طنز کیا۔۔ "ڈاکٹر کو دکھانے کی زہمت تو کی نہیں ہوگی۔۔ جناب کو انجکشن سے ڈر جو لگتا ہے۔۔" اس کا فکریہ لہجہ سن ایمان مسکرائی تھی۔۔ "اٹھو فورا اور میڈیسن لو۔۔"
"نہیں۔۔ گھر آ جاؤ۔۔" ضبط کئے آنسو ٹوٹ کر بہنے لگے۔۔ "میں تمھیں دیکھنا چاہتی ہوں۔۔ سننا چاہتی ہوں۔۔" زخمی لہجے میں کہتے اس نے شاہ کو مزید بےچین کر دیا۔۔ "مجھے لگ رہا ہے کچھ۔۔ کچھ برا ہونے والا ہے۔۔"
"تمھیں بخار ہے تبھی ایسا لگ رہا ہے۔۔" شاہ نے ایمان کا حوصلہ بندھانا چاہا۔۔
"نہیں شاہان۔۔"
"ٹھیک ہے۔۔ میں کوشش کروں گا لیکن پہلے تم دوائی لو۔۔" ایمان مسکرائی۔۔ سر کو جنبش دیتے وہ نم آنکھوں سمیت کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔۔ کھڑکی بند کئے وہ سائیڈ ڈراؤ سے میڈیسن نکال گلاس میں پانی انڈلننے لگی۔۔ ٹیبل لیمپ کی زرد روشنی میں رکھی کتاب خاموشی سے اسکا عمل دیکھنے لگی۔۔ وہ کہہ رہا تھا اور ایمان گولی منہ میں رکھے گھونٹ گھونٹ پانی پیتی اسے سن رہی تھی۔۔ شاید آخری بار۔۔۔!!!!
* * * * * * *