حال
"شاہان کا میڈیکل ٹھیک نہیں آیا تھا۔۔ اسے بونز کی پرابلم تھی۔۔ قمر انکل کہیں نہ کہیں واقف تھے کہ یہ مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔۔ ہمارے رشتے سے۔۔ قبل ہی۔۔ اس کا آپریشن ہوا تھا۔۔ اسکے بعد رشتے کی بات ہوئی اور دوبارہ سے میڈیکل چیک اپ کروایا گیا۔۔" سنجیدگی سے غیر مرئی نکتے کو گھورتی وہ میری معلومات میں اضافہ کر رہی تھی۔۔
میں نے قلم سے چند نکات درج کئے۔۔ "ایئر فورس میں جانے کا اشتیاق۔۔ میڈیکل چیک اپ۔۔ بونز کی بیماری۔۔ آپریشن۔۔ رشتے کی بات۔۔ پھر سے میڈیکل چیک اپ۔۔" نگاہیں اٹھائیں تو دیکھا، ایمان کی نظر میرے مسودے پہ ٹکی تھی۔۔
"شاید آپکی تحریروں میں مرد اپنی محبت کا اظہار اس سے زیادہ مہذب الفاظوں میں کرتا ہوگا، مگر میرے لئے یہ الفاظ دنیا کے خوبصورت ترین الفاظ ہیں۔۔ ان میں کوئی ردوبدل نہ کیجئے گا۔۔" یہ ایک درخواست تھی جسے رد کرنا مجھے ٹھیک نہ لگا۔۔
"آپ بےفکر رہیں۔۔" میں دھیما سا مسکرائی۔۔ "مزید بتائے۔۔ پھر۔۔" اس سے قبل کے میری بات مکمل ہوتی، ایمان نے درد کی شدت سے آنکھیں میچ لیں۔۔ ایمان کے پہلو میں کھڑے ہونے کے باعث طاہرہ انٹی اسکی کلائی تھام چکی تھیں۔۔ وہ درد کی شدت سے کراہنے لگی۔۔ دفعتاً کمرے کا دروازہ کھلا۔۔
یہ وہی تھا۔۔ قریبا پچیس، چھبیس برس کا نوجوان وجیہہ سا قدم بڑھاتا سٹریچر کے قریب آیا۔۔ چہرے پہ ہلکی بڑھی شیو، آنکھوں پہ سن گلاسز لگا رکھی تھیں جنہیں اتارتے اس نے گریبان میں لٹکایا۔۔
"ایکسکیوز می۔۔" میرے قریب آتے اجازت طالب کی۔۔ نگاہیں ملیں تو واضح ہوا، اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں نمی در آئی تھی مگر ضبط کی انتہا تھی کہ چہرے کے تاثرات سنجیدہ وسپاٹ تھے۔۔ اس کے مخاطب کرنے پہ میں اک جانب کو سرک گئی۔۔
وہ نوجوان اب سٹریچر کے قریب نشست سمبھال چکا تھا جس پہ چند منٹ قبل میں براجمان تھی۔۔ ایش وائٹ سوٹ میں ملبوس وہ شخص اپنے تمام تر عمل سے میرے تجسس میں اضافہ کرنے لگا تھا۔۔ "یہ علی ہے۔۔ ہمارے فیملی فرینڈز کے بیٹے۔۔" میری کھوجتی نگاہوں کو محسوس کرتے طاہرہ آنٹی نے معمع حل کیا۔۔ اب یہ علی کون تھا؟ کیا یہ اس کہانی میں کسی کردار کی حیثیت رکھتا تھا؟
"ایمان۔۔ حوصلہ کرو۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔" علی اسے تسلی دے رہا تھا، جو درد کی شدت سے کراہتی مسلسل آنسو بہا رہی تھی۔۔ "آنٹی۔۔" رخ طاہرہ انٹی کی جانب موڑا۔۔ "کیا نرس نے دوا دے دی؟؟؟"
"مجھے دوا نہیں چاہئے۔۔ وہ دوا مجھے سلا دے گی۔۔ مجھے سونا نہیں ہے۔۔ مجھے بتانا ہے۔۔ بتانا ہے کہ میں شاہ سے کتنی محبت کرتی ہوں۔۔" اس نے گویا منت کی تھی۔۔ علی نے اک اچٹتی نگاہ مجھ پہ ڈالی۔۔ کیا میرے باعث ایمان کی طبیعت مزید بگڑ رہی تھی؟
"وہ یہیں ہیں۔۔ میں خیال رکھوں گا کہ وہ کہیں نہ جانے پائیں، مگر میں آپ کی صحت رسک میں ہرگز نہیں ڈال سکتا۔۔ آپ بےفکر ہو کر دوا لیں۔۔ میں ہوں۔۔" وہ اچھا لڑکا تھا، محض چند منٹ میں اس نے اپنے الفاظوں کے سحر میں مجھے جکڑ لیا تھا۔۔ اگر شاہان اسکی زندگی میں نہ ہوتا تو یقینا وہ علی کی محبت میں گرفتار ہو جاتی۔۔
علی اٹھتا کمرے سے روانہ ہو گیا۔۔ وہ مزید بتانے لگی۔۔ وقتاً فوقتاً درد سے کراہتی۔۔ اسی اثنا میں علی وآپس آیا۔۔ نرس اسکے ہمراہ تھی۔۔ ایمان کو دوا دی گئی۔۔ محض چند منٹ مزید سرکے اور اس پہ غنودگی کا غلبہ طاری ہونے لگا۔۔
* * * * * * *
ماضی
اس شیلف پہ جہاں جہازوں کی ایک قصیر تعداد موجود تھی، اس کے پہلو میں پڑی سنگھار میز کے مقابل کھڑا وہ اپنا عکس آئینے میں دیکھ رہا تھا۔۔ وہ آج سفید گول دائرے والی شرٹ کے ہمراہ جینز میں ملبوس تیار کھڑا تھا۔۔ پاؤں میں سرخ اور ایش وائٹ شوز پہنتے وہ سیدھا ہو کھڑا آئینے میں نظر آتے اپنے مکمل سراپے پہ نگاہیں دھوڑا رہا تھا۔۔ سنگھار میز سے برش اٹھاتے وہ بالوں کو اک جانب کو بٹھانے لگا۔۔ دفعتاً اسکا موبائل بج اٹھا۔۔
منظر سے ہٹتے اس خوبصورت کھڑکیوں سے مزین، تروتازہ باغیچے والے گھر میں جھانکو تو ایمان سفید اور نیلے کرتے شلوار میں ملبوس مسٹر چپس کی محبت بھری داستان پڑھنے میں مصروف تھی۔۔ چند دن بعد ان کے امتحانات شروع ہونے تھے۔۔ "گڈ بائے مسٹر چپس" کی کتاب تھامے وہ اہم سوالات کو پڑھتے انکے جوابات زبانی دہراتی ذہن نشین کر رہی تھی۔۔
اوپری زینوں کے قریب کھڑی ایمان نے بےدھیانی میں قدم بڑھائے تھے کہ پاؤں پھسل گیا۔۔ وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی۔۔ اوپری منزل سے کلابازی کھاتی ایمان زینوں پہ پھسلتی نچلی منزل پہ آ گری۔۔ طاہرہ بیگم کو اس کی چیخ و پکار سنائی دی تو سب کام ترک کئے حواس باختہ سی دھوڑی آئیں۔۔
ایمان کو زمین پہ ادھ مواہ پڑا دیکھ ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔۔ دوسری جانب شاہ تیار سا کھڑا اب تواتر سے بجتی گھنٹی کا گلا گھونٹ چکا تھا۔۔ "اسلام علیکم۔۔ طاہرہ آنٹی۔۔" خوشگواریت سے وہ کہہ رہا تھا۔۔ دوسری جانب سے کچھ کہا گیا۔۔ مسکراہٹ سنجیدگی میں تبدیل ہوئی۔۔ پیشانی پہ شکنیں نمودار ہوئیں۔۔ "میں۔۔ میں آ رہا ہوں۔۔ آنٹی۔۔ آپ پریشان مت ہوں۔۔" وہ بدحواسی کے عالم میں باار کو لپکا۔۔ فاطمہ کو اپنے ہمراہ لئے وہ ہسپتال آیا جہاں طاہرہ بیگم کا رو رو کر برا حال ہو چکا تھا۔۔
"وہ رہیں۔۔" انہوں نے قدم بےحال سی طاہرہ کی جانب بڑھائے جو آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑی تھیں۔۔ "آنٹی۔۔"
شاہ کے پکارنے پہ انہوں نے نگاہیں موڑیں۔۔ "شاہ بیٹا۔۔ ایمان۔۔"
"آنٹی سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ آپ حوصلہ رکھیں۔۔ الله پہ امید رکھیں۔۔" اس نے طاہرہ کو سمبھالنا چاہا۔۔ دفعتاً آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا۔۔ "ڈاکٹر۔۔" وہ انکی جانب لپکے۔۔ "اب ایمان کسی ہے؟؟؟"
"ان کی کمر پہ بہت گہری چوٹ آئی ہے۔۔ اعصاب کام نہیں کر رہے۔۔ لیکن آپ پریشان مت ہوں۔۔ وہ ٹھیک نہیں ہیں مگر خطرے سے باہر ہیں۔۔ دعا کیجئے کہ جلد از جلد ہوش میں آ جائیں، ورنہ شاید کسی خطرے والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے۔۔" انہوں نے مختصر سا انہیں ایمان کے بارے میں آگاہ کیا۔۔ شاہان نے فاطمہ کو اشارہ کیا کہ طاہرہ کو سنمبھالیں اور ازخود ڈاکٹر کے پیچھے ہو لیا۔۔
* * * * * * *
رات آسمان پر گہری ہوئی تو ایمان کے ہوش کچھ بحال ہوئے، وہ دوپہر سے آئی سی یو میں تھی اور یہ اذیت بھری رات اسے یہیں بسر کرنی تھی۔۔ کمر کی درد شدت اختیار کر رہی تھی۔۔ رات میں نرم خوراک کھاتے وہ دوا لئے پھر سے نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔۔
ایمان سے بات کرتے، اس کی حالت خطرے سے باہر دیکھ، طاہرہ کے دل میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی، البتہ دکھ ابھی تک برقرار تھا۔۔۔ ایمان انجیکشن سے خوف محسوس کرتی تھی تبھی ڈاکڑ اس کے نیند میں جاتے ہی کمرے میں داخل ہوئے تھے۔۔ یہ شاہ کے باعث تھا۔۔ وہ جانتا تھا اس کی حالت میں بھی وہ مزاحمت کرنے سے باز نہ آئے گی۔۔ وہ مزید ایمان کو تکلیف میں دیکھنے کا خواہشمند نہ تھا۔۔
وقت بیتتا گیا۔۔ دن سے رات کا آخری پہر آتا' کیسے بھی حال ہوتے، شاہ انہیں اپنے ہمراہ دکھائی دیتا۔۔ "بیٹا تم گھر چلے جاوَ۔۔ تمھارے امتحانات سر پہ ہیں۔۔" احمد نے اسے بارہا سمجھایا مگر وہ نہ مانا۔۔۔ "انکل۔۔۔ میری ضرورت یہاں زیادہ ہے۔۔ امتحانات تو ہوتے رہیں گے۔۔۔" اس کے پاس دلائل تھے۔۔ احمد صاحب بس اسے دیکھ کر رہ گئے تھے۔۔ "میں نہیں چاہتا کہ جب ایمان آنکھیں کھولے تو اسے میں دکھائی نہ دوں۔۔" وہ دل ہی دل میں سوچ کر رہ گیا۔۔ محض چند پلوں میں اس کی محبت شدت اختیار کر گئ تھی۔۔ ایمان کو تکلیف میں کراہتا دیکھ شاہ کا دل کٹ کر رہ جاتا۔۔۔
یہ چند دن بعد کا واقعہ تھا جب ایمان کی کمر شدید درد کر رہی تھی۔۔ دوا کا اثر ذائل ہو چکا تھا۔۔ درد سے کراہتی وہ آنکھیں موندے رو رہی تھی۔۔۔"ٹھیک ہوجائے گا۔۔" شاہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما۔۔۔ "اٹس اوکے۔۔" وہ روتی گئی۔۔
"بہت تکلی۔۔۔ تکلیف۔۔ ہو رہی ہے۔۔" بمشکل اٹکتے اس نے نم لہجے میں کہا تھا۔۔ مسلسل رونے سے اسکی ہچکی بندہ چکی تھی۔۔ شاہ نے اسے کراہتے دیکھ نچلا لب دانتوں تلے زور سے دبایا۔۔ کاش وہ اسکی تکلیف دور کر سکتا۔۔ کاش وہ اسکے درد پہ مرہم رکھ سکتا۔۔ کاش۔۔!
"ٹھیک ہو جائے گا۔۔" ضبط کے باوجود شاہ کی آنکھ کا کنارہ بھیگ گیا۔۔ ایمان کی تکلیف کم ہونے کا نام نہ لے رہی تھی۔۔ دفعتاً قمر صاحب ڈاکٹر کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئے۔۔ نیند کی دوا دیتے ڈاکٹر نے اسے چند نصیحتیں کیں۔۔ وہ جلد ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئی تھی۔۔ شاہان نے سکھ کا سانس لیا۔۔ اسے چند کام کرنے تھے مگر وہ ایمان کو اس حال میں تنہا چھوڑنے کا خواہشمند ہرگز نہ تھا۔۔ پاس پڑے ٹشو باکس سے دو تین ٹشو نکالتے وہ جھک کر اس کے گالوں پہ بہے آنسو کے بےرنگ قطرے صاف کرنے لگا۔۔
آنکھیں کتنی مخلص ہوتی ہیں۔۔ یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتیں۔۔ انسان کے دکھ' دل کی تکلیف کو آنسوؤں کے ذریعے کم کرنے کا سبب بنتی ہے۔۔ آنکھیں خوش ہوتی ہیں، شکوہ کرتی ہیں، روتی ہیں، مگر بولتی نہیں۔۔ یہ ہنر انسان کے مابین پوشیدہ ہوتا ہے جو وہ ان نگاہوں میں چھپے جذبات پڑھ لیتا ہے۔۔ جیسے وہ ایمان کی آنکھیں پڑھ لیتا تھا۔۔ وہ چاہتی تھی شاہان اس کے پاس رہے۔۔ اور شاہ اسکی خواہش پوری کر رہا تھا۔۔
* * * * * * *
یہ تین دن بعد کا واقعہ تھا۔۔ آج وہ پہلا دن تھا جب وہ ازخود نیند سے جاگی تھی۔۔ نگاہ پہلو میں بیٹھے شاہان پہ پڑی جو بےدلی سے کسی کتاب کے صفحے پلٹا رہا تھا۔۔ آہٹ پہ نگاہ موڑ کر ایمان کی جانب دیکھا جو اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔ شاہ نے اسے سہارا دیا۔۔
"کیسی ہو؟؟ درد تو نہیں ہو رہا؟؟؟" چھوٹتے ہی وہ پوچھنے لگا۔۔ ایمان کی نگاہ شاہ کے کپڑوں کی جانب اٹھی۔۔ وہ تین دن قبل والی سیاہ شرٹ اور جنیز میں ملبوس تھا۔۔ شاہ کا سوال نظرانداز کئے وہ حیرانگی سے پوچھنے لگی۔۔
"تم نے چینج نہیں کیا۔۔؟"
شاہ نے اسے گھوری سے نوازا۔۔ "حالت دیکھی ہے اپنی۔۔" اپنے سوال کے نظرانداز کئے جانے کا اتنا دکھ نہ تھا مگر الٹا ایمان کے سوال نے اسے تپا دیا۔۔
"ویسے کیوٹ لگ رہے ہو۔۔" شاہان کے رف حلیے پر تبصرہ کرتی وہ رخ موڑے ہونٹ بھینچے اپنی ہنسی ضبط کرنے لگی۔۔ شاہ سر جھٹک کر رہ گیا۔۔ یہ لڑکی کبھی سنجیدہ نہیں رہ سکتی۔۔ اس نے اپنی سوچ پر جھرجھری لی۔۔ چند دن قبل ایمان کی رونی صورت یاد آئی۔۔ وہ غیرسنجیدہ ہی اچھی لگتی تھی۔۔
* * * * * * *