ماضی
کمرہ جماعت میں استاد کی آواز گونج رہی تھی۔۔ "جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں نے آپ کو جو پراجیکٹ دیا ہے۔۔ "واٹر ڈیمز" اس کے لئے آپ سب کو پارٹنر کی ضرورت ہے۔۔ لہذا آج کلاس کے بعد آپ جلد از جلد اپنا پارٹنر سلیکٹ کر کہ کام شروع کر دیں۔۔"
وہ اس وقت کمرہ جماعت کے باہر کھڑی تھی۔۔ کلاس کا اختتام چند منٹ قبل ہی ہوا تھا۔۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی پارٹنر ڈھونڈتی، شاہان اُس کے قریب آرکتا معلوم کرنے لگا۔۔۔ "کچھ ڈھونڈ رہی ہو؟"
"پارٹنر۔۔۔" مختصر سا جواب آیا۔۔۔"اور تم؟ تم نے ڈھونڈ لیا؟"
"ہاں۔۔۔ بس اب اس سے پوچھنا تھا۔۔۔ یو نو اجازت چاہئے ہوتی ہے۔۔۔"
کندھے پہ ڈلے بیگ کے دونوں سٹرپس تھامے وہ اسی کی جانب متوجہ تھا، جو شاہان کو نظر انداز کئے دماغ پہ زور ڈالتی اطراف میں نگاہیں دوڑا رہی تھی۔۔۔
"ہمممم۔۔" ایمان نے جوابا محض ہنکارا بھرا۔۔۔
"تم۔۔۔ بنو گی۔۔۔ میری پارٹنر؟؟" متذبذب سا لہجہ تھا۔۔۔ حلق میں گولا سا اٹکا تھا۔۔۔ دشمن کو پارٹنر بنانے کی پیشکش کی جا رہی تھی۔۔۔ ایمان نے جوابا بےیقینی سے اسے تکا تھا۔۔۔ شاید آج سورج مغرب سے طلوع ہوا تھا۔۔۔ تبھی شاہ سے یہ بات سننے کو ملی تھی۔۔۔ وہ اُس کے جواب کا منتظر تھا جو اُس کی جانب پشت کئے شاک کی کیفیت میں گھری کھڑی تھی۔۔۔
* * * * * * *
راہداری سے گزرتے اس پر تعیش لائبریری میں آئو تو کتابیں آپ کے استقبال کو تیار بیٹھی دکھیں گی۔۔۔ ریک درریک کورس اور دیگر معلوماتی کتابیں پڑھے جانے کی منتظر تھیں۔۔۔ لائبریری میں چند اسٹوڈنٹس بیٹھے پڑھائی میں غرق تھے۔۔۔
لائبریری کے داخلی حصے میں اک ادھیڑ عمر شخص آنکھوں پہ نظر کا چشمہ لگائے چند کتابوں کا مطالعہ کر رہے تھے۔۔۔ گاہے بگاہے نگاہ پھیرتا اطراف کا جائزہ لیتا، چند طالبات کو ڈپٹتے وآپس کتاب کی جانب متوجہ ہو جاتا۔۔۔
لائبریری خاصی طویل نہ تھی مگر چھوٹی بھی نہ تھی۔۔۔
اندر داخل ہوتے داہنے حصے میں جھانکو تو وہ اک دوجے کے مقابل بیٹھے کتابوں کا مطالعہ کر رہے تھے۔۔۔ ایمان چند اک منٹ بعد نگاہ پھیرتی کاغذ پہ قلم سے چند سطور کھینچتی۔۔۔ شاہان کتاب میں اہم نکات واضح کرتا، گاہے بگاہے نگاہ پھیرتا اس پہ نظر رکھے تھا۔۔۔
"دکھائو ذرا۔۔۔" کاغذات کی جانب نگاہ موڑے اس نے کہتے صحفات ایمان سے تھامے۔۔۔ ایمان اس کے متوجہ کرنے پہ ہاتھ روکے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا گئی۔۔۔ "چلو باہر چلتے ہیں۔۔۔" کہتے اس نے قدم باہر کی جانب بڑھائے تھے۔۔۔ صفحات ہنوز شاہان کے ہاتھ میں تھے۔۔۔
"کیا کر رہی ہو تم؟ دھیان کہاں ہے تمھارا؟" لائبریری سے باہر آتے وہ اس پہ برس پڑا تھا۔۔ ایمان حق دق اسے دیکھے گئی۔۔۔ بے یقینی سی تھی نگاہوں میں۔۔۔ جانے اسے کیا ہوتا تھا؟ "تم نے سارا غلط کر دیا ہے۔۔ میں نے جو پائنٹس Highlight کئے تھے ان کے علاوہ کچھ نہیں لکھنا تھا۔۔۔"
"ہاں تو کب لکھا ہے۔۔ میں۔۔۔" وہ اس کی بات کاٹتا بولا تھا۔۔
"یو نو واٹ۔۔۔ مجھے تمھارے ساتھ کام ہی نہیں کرنا۔۔۔ You don't even use your sense" اسے جھڑکتا وہ بیگ کی سڑپ پہ ہاتھ ڈالے نگاہوں کا رخ موڑ گیا۔۔ چلتے چلتے وہ اب اک کمرہ جماعت میں داخل ہوئے تھے۔۔۔ وہ اسے نطرانداز کررہا تھا وگرنہ اس کا غصہ ساتویں آسمان پہ جا پہنچتا۔۔۔
کمرے کی خاموشی کو ایمان کی سسکی نے توڑا۔۔۔ شاہان کی پیشانی کے بل ڈھیلے پڑے۔۔۔ نگاہیں ایمان کی جانب موڑتے اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔۔ وہ رو رہی تھی۔۔۔ بے آواز۔۔۔ مگر ناکام ہو رہی تھی۔۔۔ سسکی ہر دو منٹ بعد نکلتی جسے منہ پہ ہاتھ رکھے وہ دبانے کی کوشش کرتی۔۔۔ نگاہیں ٹیبل پہ ٹکی، جھکی تھیں۔۔۔
"اچھا۔۔۔ اب رو مت۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔" جھجکتے وہ نگاہیں ایمان پہ مرکوز کئے کہہ رہا تھا۔۔۔ ایمان نے بس بھیگی پلکیں اُٹھائے اسے دیکھا تھا۔۔۔ گھنی، نم پلکوں کی لرزش دیکھ لمحے بھر کو شاہان مبہوت رہ گیا تھا۔۔۔ "آئندہ کبھی نہیں ڈانٹوں گا۔۔" اس نے خود کو کہتے سنا۔۔
خود کو کمپوز کئے وہ مسکرائی تھی۔۔۔ زکام زدہ سی سانس خارج کرتے ایمان نے انگلیوں کی پوروں سے آنسو صاف کئے تھے۔۔۔ "اب بس بھی کر دو۔۔۔ چڑیل لگ رہی ہو روتے ہوئے۔۔۔" ایمان نے اسے خفگی سے گھورا۔۔۔ وہ ہنسا تو ایمان بھی مسکرا دی۔۔۔
* * * * * * *
حال
"بس اس طرح ہماری دوستی کا آغاز ہوا تھا۔۔۔ وہ ہمارے خاندان کا سب سے شرارتی لڑکا تھا۔۔۔ مجھ سے بھی ہر وقت لڑتا رہتا تھا مگر اب آنکھیں موند کے سوچتی ہوں تو سب بہت یاد آتا ہے۔۔۔ کچھ لوگ ہماری زندگی میں آتے ہیں، اسے خوشگوار بناتے ہیں کہ ہم خود کو خوش نصیب ترین تصور کرنے لگتے ہیں مگر پھر ایک دن چپ چاپ وہ ہم سے دور ہو جاتے ہیں۔۔۔ شاہان۔۔۔ مجھ سے۔۔۔" وہ مزید نہ کہہ سکی۔۔۔ آواز رندھ گئی۔۔۔ میری متجسس نگاہیں اسی پہ ٹکیں تھیں۔۔۔
"آپ شاہان سے محبت کرتی تھیں؟" میری کھوجتی نگاہیں ایمان کے چہرے پہ مرکوز تھیں۔۔ سوال پہ وہ خاموش نگاہوں سمیت مجھے دیکھے گئی۔۔۔ شاید اس کے دل کے گوشوں میں کچھ ٹوٹا تھا جس کی تکلیف اس کے چہرے سے جھلک رہی تھی۔۔۔ شاید دل کی ٹوٹی کرچیاں سینے میں چبھتی چبھن کا احساس پیدا کررہی تھیں۔۔۔
"کرتی تھی نہیں۔۔۔ آج بھی کرتی ہوں۔۔۔ وہ میری محبت ہے۔۔۔ میری پہلی محبت۔۔۔ ہماری زندگی میں کتنے ہی محبت لٹانے والے شخص کیوں نہ آجائیں مگر ہم 'اس' پہلی محبت کے سحر سے کبھی نہیں نکل پاتے۔۔۔ میں بھی نہیں نکل سکتی۔۔۔ اگر کوشش کروں بھی تو یہ ایک ناکامیاب سی کوشش ہوگی۔۔۔"
"کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا ایمان۔۔۔ اور انسان کی پہلی محبت اللہ تعالی ہوتے ہیں پھر کوئی اور شخص۔۔۔ لیکن میں آپ کی بات سے متفق ہوں۔۔ انسان اپنی پہلی محبت واقعی نہیں بھول سکتا۔۔۔ کیونکہ وہ محبت صرف اللہ کیلئے ہوتی ہے۔۔ اس میں کمی آسکتی ہے جیسے لوگ بھٹک جاتے ہیں۔۔۔ مگر کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔۔۔ "
سرد آہ بھرتے اس نے نگاہوں کا رخ چھت کی طرف موڑا۔۔۔ "آپ ٹھیک کہتی ہیں مگر میں اللہ کی محبت کو انسانی محبت سے Relate نہیں کرتی۔۔۔ اللہ سے مجھے بہت محبت ہے۔۔۔ سبھی کو ہوتی ہے۔۔۔ لیکن شاہان۔۔۔" نگاہیں موڑتے میری جانب دیکھا۔ "شاہان وہ شخص ہے جس کے ساتھ میں ساری زندگی گزارنے کی خواہش مند تھی۔۔۔"
وہ خاموش ہو گئی۔۔۔ میرے ذہن میں کئی خیالات گردش کرنے لگے مگر انہیں جھٹکتے میں نے اس سے پوچھا تھا۔۔۔ "پھر؟ کیا وہ بھی یہ خواہش رکھتا تھا۔۔۔؟"
* * * * * * *
ماضی
شام کی نیلگوں سیاہی آسمان پہ رینگنے لگی تھی۔۔۔ اس خوبصورت پرتعیش چار مرلے کے گھر کے ڈائننگ ہال میں جھانکو تو سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔ بھاپ اڑاتے چائے کے کپ گول میز پہ دھرے تھے جس کے ہمراہ چند کھانے پینے کی اشیاء پڑی تھیں۔۔۔
قمر الحق صاحب سنگل صوفے پہ براجمان بھاپ اڑاتی گرم چائے کی پرچ تھام رہے تھے۔۔ ان کے پہلو میں احمد صاحب ڈبل صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ جمائے، صوفے کی پشت پہ ہاتھ رکھے اپنے مقابل ڈبل سیٹڈ صوفے پہ بیٹھی طاہرہ بیگم کے ہمراہ فاطمہ کو کہتا سن رہے تھے۔۔۔
"بھائی صاحب ہماری دلی خواہش ہے کہ ایمان ہمارے گھر آئے۔۔۔ شاہان کو اس خواہش پہ کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔۔ دونوں بچے ہماری نظروں کے سامنے بڑے ہوئے ہیں۔۔۔ اگر آپ لوگوں کو کوئی اعتراض نہ ہو تو ہم شاہان کے ٹریننگ پہ جانے سے قبل چھوٹی سی منگنی کی رسم ادا کر دیں۔۔۔؟" طاہرہ بیگم اور احمد صاحب کے لبوں پہ موجود مسکراہٹ ٹریننگ کا نام سنتے یک دم سمٹ گئی۔۔۔
"ٹریننگ؟؟ کس چیز کی؟" صوفے کی پشت سے ہاتھ ہٹاتے وہ آگے کو ہو بیٹھے، متحیر سے پوچھ رہے تھے۔۔ قمر الحق صاحب چائے کی خالی پیالی ٹیبل پہ رکھتے ان کی جانب رخ کئے بیٹھے کہنے لگے۔۔۔
"دراصل ہمارے بیٹے شاہان کو بچپن سے ائیر فورس میں جانے کا بہت شوق ہے۔۔۔ اور اب وہ اپنے اس شوق کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے۔۔۔ کل اس کا میڈیکل چیک اپ ہے۔۔ اگر سب ٹھیک ہوا تو اگلے ماہ کی پانچ تاریخ سے جوائننگ ہے۔۔۔" انہوں نے احمد صاحب کے علم میں اضافہ کیا۔۔
وہ سمجھتے سر کو جنبش دینے لگے۔۔۔ "بھائی صاحب پھر کیا سوچا ہے آپ نے؟" فاطمہ مسکراتے دریافت کرنے لگیں۔۔۔ احمد صاحب نے طاہرہ سے نگاہوں کا تبادلہ کیا۔۔۔ طاہرہ بیگم نے آنکھیں موند کر کھولتے اپنی رضامندی ظاہر کی۔۔۔
"ہماری طرف سے ہاں ہے۔۔۔" فاطمہ سمیت سبھی کے چہروں پہ مسکراہٹ رینگ گئی۔۔۔ وقت ہوا کے دوش پہ اڑتا بیتتا گیا۔۔۔ وہ اپنے کمرے میں اضطراب کی کیفیت سے دوچار آگے پیچھے ٹہل رہی تھی۔۔۔ بیڈ کے داہنے حصے ایک لکڑی کی کپڑوں سے لدی الماری تھی تو دوسری جانب سٹڈی ٹیبل۔۔۔ بیڈ کے مقابل ڈبل سیٹڈ صوفے پڑے تھے۔۔۔ جن پہ پڑا اس کا موبائل اب پھڑپھڑانے لگا تھا۔۔۔
ایمان نے موبائل تھاما تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔۔ "یہ۔۔۔ شاہ۔۔ اب۔۔" نچلا لب دانتوں تلے دبائے وہ پرسوچ نگاہوں سے موبائل پہ جگمگاتے شاہان کے نمبر کو دیکھ رہی تھی۔۔ "یعنی وہ بھی اس رشتے کی بات سے واقف ہو چکا ہے۔۔" اس نے سرد آہ بھرتے خود کو کمپوز کیا۔۔ "لیٹس ڈو دس۔۔"
اک عزم سے کہتے ایمان نے کال اٹھائی۔۔ "کہاں تھی۔۔؟؟؟ غالبا موبائل کی سکرین کو ٹٹکی باندھے دیکھنے میں مصروف ہوگی۔۔" دوسری جانب شاہ اپنے کمرے میں اسٹڈی ٹیبل کے قریب کھڑا، چند کتابیں ٹٹول کر دیکھتا شوخ لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔ اک ہاتھ میں موبائل تھا جبکہ دوسرے سے کتابوں کو ٹٹول کر دیکھتے کسی کتاب کی تلاش میں تھا۔۔ شاید۔۔!
"ایسا کچھ نہیں ہے۔۔ میں کچھ کام کر رہی تھی۔۔ کمرے سے باہر۔۔ بس ابھی آئی تو دیکھا تمہاری کال آ رہی تھی۔۔" بمشکل اٹکتے اس نے بات بنائی۔۔ جھوٹ بولنا کس قدر مشکل عمل ہے آج ایمان احمد جان گئی تھی۔۔ وہ بھی اس لمحے جب مقابل شخص آپکی رگ رگ سے واقف ہو۔۔
"ہممم۔۔۔ یعنی تم باہر تھی۔۔" ہاتھ ہوا میں لہراتے وہ پرسوچ لب و لہجے میں کہہ رہا تھا۔۔ "پھر اندر آئی۔۔" ہاتھ باہر سے اندر کی جانب اشارتا ہلایا۔۔ "اور دیکھا تو تمہارے مستقبل شریک حیات کا نمبر موبائل سکرین پہ جگمگا رہا تھا۔۔"
وہ تصدیق چاہتا تھا۔۔ ایمان کے حلق میں گولا سا اٹکا۔۔ "شاہ۔۔ میں۔۔ مطلب۔۔ مجھے یہ رشتہ قبول نہیں۔۔" دوسری جانب گہری خاموشی چھا گئی یہاں تک کہ ایمان کو اپنی سانسوں کی مدھم آواز سنائی دینے لگی۔۔
اس طویل حائل خاموشی کے راج کو بلآخر شاہ کی آواز نے توڑا۔۔ "کیوں؟؟؟ کیا وجہ جان سکتا ہوں؟؟؟" اس کے لہجے سے سنجیدگی جھلک رہی تھی۔۔
"تم ہر وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ہو۔۔ ذرا ذرا سی بات پہ باتیں سنانے لگتے ہو۔۔ بس مجھے نہیں کرنی تم سے شادی۔۔" منہ بسورے کہتے وہ بستر کے کنارے ٹک گئی۔۔ لمحے بھر کو شاہان خاموش ہوا، پھر ہنسا اور ہنستا چلا گیا۔۔ سر پیچھے کو پھینکے وہ بلند بانگ قہقے لگاتا ہنس رہا تھا۔۔ ایمان نے موبائل کان سے ہٹاتے بےیقینی سے سکرین کو دیکھا۔۔
چہرے کی بےیقینی سنجیدگی میں تبدیل ہوئی پھر غصّے کا روپ دھار گئی۔۔ شاہان کی ہنسی اسے مزید طیش دلا رہی تھی۔۔ "کل تک ہنستے رہنا اب؟؟؟"
غصیلہ لہجہ سن شاہان کی ہنسی میں کمی در آئی۔۔ آنکھوں کے گوشے نم ہو چکے تھے۔۔ اس نے انگلیوں کی پوروں سے انہیں پونچھا۔۔ "سوری۔۔ دراصل تم نے بات ہی ایسی کی کہ میں خود کو روک نہیں سکا۔۔"
"ایسا بھی کیا کہ دیا تھا میں نے؟؟؟" وہ روہانسی ہوئی۔۔
"اچھا۔۔ اب نہیں ہنستا۔۔" وہ حقیقتاً سنجیدہ ہو چکا تھا۔۔ ایمان نے "جی بہتر۔۔" کہتے سر جھٹکا۔۔ "آئندہ کبھی نہیں ڈانٹوں گا۔۔" شاہان کے لبوں کے دہان دھیمے سے مسکرائے۔۔ "کبھی بھی نہیں ڈانٹوں گا۔۔" وہ خاموش رہی۔۔
"I want you as my life partner.. Will you be???"
وہ اپنی جگہ شل سی بیٹھی رہی۔۔ ایمان احمد اس کے اس روپ سے ناواقف تھی۔۔ ان کے مابین خاموشی نے ایک بار پھر اپنا ڈیرہ قائم کر لیا، یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کی سانسوں کی مدھم آواز سننے لگے۔۔
* * * * * * *